راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 19

بیٹھک کا دروازہ کھولتے ہی اندر گھس آئی کوئی سمجھ نہیں آئی کیا کرے ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہ رہی تھی
مانی گھر ہی نہیں تھا وہ بھاگتی چاچو کے کمرے کے دروازے بجاتے چاچو چاچو کی رٹ لگائے پوری قوت سے دونوں ہاتھوں سے دروازہ بجانے لگی کچھ دیر بعد دروازہ کُھلا تو چاچو اندر سے برآمد ہوئے ___”
نور بچے تم ___” کیا ہوا خیریت ہے اس وقت ___؟
تفکر کی کچھ لہریں ان کی پیشانی پہ ابھری وہ جانتے تھے کہ جو کچھ بھی ہو جائے اس وقت وہ ہرگز نہ یہاں آتی کوئی نہ کوئی تو گھمبیر مسئلہ تھا جو آدھی رات کو یوں دروازے پہ دستک دئیے جا رہی تھی ان کے پیچھے ہی زارا بیگم تھی ___”
چاچو ___و___وہ امی کی طبعیت ___بب__بہت خراب ہے پپ__پلیز آجائیں __” وہ پھولی سانسوں کے ساتھ کہتے بدحواسی سے بھاگی __علیزے بھی کسی انہونی کے خیال سے دوسرے کمرے سے نکل آئی ___”
پریشان سے اس کے پیچھے آئے نورِ حرم صائمہ بیگم کو چمچ سے پانی پلا رہی تھی ان کی طبعیت کو دیکھتے ماسٹر صاحب نے ایمبولینس کی طرف فون کرتے اندر داخل ہوئے ___”
زارا بیگم نورِ حرم کو دلاسہ دے رہی تھیں ماسٹر صاحب نے نے اختیار نورِ حرم کو دیکھا وہ بہادر لڑکی اس وقت ٹوٹ سی گئی آنکھوں سے اشک بہہ جا رہے تھے وہ بار بار بے ہوش ماں کو پکارے جا رہی تھی انھیں بے ساختہ اس نورِ حرم پہ رحم آیا انھوں نے خود کو سو دفعہ ملامت کی کہ ایک بھائی کی بیٹی تھی___”
زارا بیگم صائمہ کے ہاتھ پاؤں کو مل رہی تھی علیزے نے آگے بڑھتے روتی ہوئی نورِ حرم کو تسلی دی کچھ دیر بعد ایمبولینس آئی تو انھیں ہاسپٹل پہنچایا گیا ماسٹر صاحب اس کے ساتھ ہسپتال اکیلے گئے علیزے کے تنہا ہونے کے خیال سے زارا بیگم گھر ہی ٹھہر گئی تھیں __”
❤❤❤❤❤❤❤
ساری رات وہ ایک پاؤں پہ پریشان سی باہر کھڑی رہی صائمہ بیگم کو پینک اٹیک آیا دن کو جا کہ کہیں ان کی کنڈیشن میں کسی تک بہتری آگئی سارا دن چاچو بھی اس کے ساتھ ہی خجل و خوار ہوئے جیسا بھی تھا اس کے پاس مرد کا سہارا تو تھا چاچو تھوڑی تھوڑی دیر بعد چکر لگاتے رہے ناشتہ بھی وہ گھر سے لے آئے جو وہ بمشکل دو لقمے ہی لے سکی تھی __”
ہسپتال میں بنتے بجٹ کا سن کہ اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی اِسی ہزار کے قریب اماں کے صرف ایک دن کے چیک اپ اور دوائیوں کا بنا تھا اس کے پاس اتنی بڑی رقم تو تھی نہیں جو وہ اچانک سے اسکا بندوبست کرتی اور نہ اس کے پاس اتنی ہمت تھی کہ وہ کسی سے مانگے ___” چاچو سے مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا چاچو کی تھوڑی سی مدد کو بھی وہ لینا احسان سمجھتی تھی چاچو سے پیسے لینا اپنی خودداری کو مارنا تھا خود داری کو مارنا تو اس کےلیے اپنی موت کے مترداف تھا ایک دفعہ بھی وہ اگر انھیں اشاروں کنایوں میں ذرا سا پوائنٹ بھی دے دیتی تو چاچو ماتھے پہ شکن لائے بغیر اسے پیسے تھما دیتے لیکن اسکا ماننا یہ تھا کہ اگر کوئی احساس سمجھنے والا ہو تو آنکھوں سے ہی سمجھ لیتا ہے
جہاں تک بات تھی مانی کی وہ شروع سے ایک عارضی ساتھ تھا اس کےلیے ___” اور اسے بھی معلوم تھا اسکے شب و روز لفنگے دوستوں کے ساتھ آورگیاں کرتے گزر جاتے تھے جو دو چار پیسے اس کے پاس موجود ہوتے وہ بھی تو چاچو کے ہی چوری کے ہوتے اور اس شخص سے امید بھی کیا کرتی __؟؟؟
اُس کے آگے کیا ہاتھ پھیلاتی جو خود باپ کے پیسوں پہ پل رہا تھا چھوٹی موٹی چوریاں کرکے وہ اپنی سوٹے لگا کہ اپنی تسکین کو پورا کیا کرتا جس نے زندگی کو مذاق سمجھ رکھا تھا ___”
اپنے حالات دیکھ کہ اسے محسوس ہوا کہ جذبات میں آکہ اس نے مانی کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا اس نے غلطی کر دی تھی اسے ہاں کا سائن دینا ہی نہیں چاہیے تھا جو شخص آج اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا وہ پوری زندگی کیا دے گا شادی کے بعد جب بچوں کی ذمہ داریاں بھی اس پہ پڑیں گی تو کیا ساری زندگی وہ خود ہی ٹھوکریں کھائے گی یہ سب سوچتے ہی کئی اندیشے اور فکریں اس کی جان کو لاحق ہوگئیں اپنی زندگی میں صرف اسکے جذبات کا اچار ڈالتی جب ضرورت کے وقت وہ اسکا ساتھ ہی نہ دیتا خواب دیکھنے سے اسکا دور درور تک واسطہ نہیں تھا وہ کیسے خواب دیکھتی ذمہ داریوں نے جو گھیر رکھا تھا ہر وقت کوئی نہ کوئی پریشانی اسے نشانہ بنائے رکھتی ___”
اور اس شخص کے ساتھ زندگی گزارنا اس کو موقع دینا کنویں میں چھلانگ لگانے کے برابر تھا__
سکول کالج میں بھی تو وہ خود ہی جاتی سودا سلف تک کا اس نے چاچو اور مانی کو کبھی کہا ہی نہیں تھا ابھی بھی تو وہ عورت ہوکہ ہسپتالوں میں دھکے کھا رہی تھی چوبیس گھنٹے ہونے کو تھے اور اس شخص نے ایک چکر نہیں لگایا چاچو بھی کچھ دیر پہلے گھر کو نکلے تھے ___”
وہ جو کاؤنٹر کے پاس دس منٹ سے کھڑی تھی گہری سوچوں میں گم کسی چیز کا ہوش نہ رہا ریسپشن بوائز کے کھنکھارنے پہ شرمندہ سی ہوتی ہوش میں آئی نظر ایک دفعہ پھر بل پہ پڑی تو اور پریشان ہوگئی آنکھیں پرچی کو دیکھ کہ ابل پڑی ماں کی طبعیت سے کوئی چیز اہم نہیں تھی ساری ذمہ داریوں کا اکیلا بوجھ اس نے اپنے اوپر لاد رکھا تھا ابھی تک کے سارے خرچے وہ جیسے تیسے پورے کر رہی تھی بجلی کا بل ، اماں کی دوائیاں ، گروسری کا سامان گھر کے چھوٹے موٹے خرچے تک وہ ابا کی پنشن اور اپنی تنخواہ سے پورے کرلیتی مگر اب جو بل بنا تھا یہ ادا کرنا مشکل لگ رہا تھا اب آخری حل سونے کے جھمکے ہی لگے جو اماں نے اس کی شادی کےلیے بنوائے تھے یہ سوچتے ہی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ابھی پیسے جمع کروانے کل دن کا وقت تھا اور صائمہ بیگم نے کل دن تک ڈسچارج ہونا تھا جھمکوں کا خیال آتے ہی چہرے پہ چھایا کچھ تناؤ کم ہوا سونا ماں کی زندگی سے اہم تھوڑی تھا وہ پھر بن جاتا ماں تو پھر نہیں ملنی تھی یہ سوچتے ہی وہ کچھ حد تک نارمل ہوگئی ___”
نورِ حرم ___” وہ پرچی کو تیزی سے مُٹھی میں بند کرتی آگے بڑھی جب زارا بیگم کی پرشفیق سی آواز سنائی دی ___”
جی چاچی امی ___” اس نے پلٹتے حیرت سے جواب دیا پیچھے آتے مانی کو دیکھ ہی نہ سکی ___”
صائمہ کی طبعیت کی کیسی ہے اب ___؟ ماسٹر صاحب نے بتا تو دیا تھا کہ پہلے سے بہتر ہے مگر میں مطمن نہیں تھی میں تو دوپہر کو آنا چاہ رہی تھی مگر پیچھے علیزے اکیلی تھی اور مجھے بھی یخنی بناتے کافی دیر ہوگئی پھر مانی بھی ابھی ابھی آیا تھا اسے ساتھ لے کہ آئی ہوں ___” تفیصل بتاتے انھوں نے اس کے ہاتھ میں شاپر میں لپٹا ڈبہ پکڑایا جو اس نے پکڑ لیا اور پھر زارا چاچی کو کچھ کہتی وارڈ میں لے آئی____” صائمہ بیگم نڈھال مگر ہوش میں تھی نرس بی پی چیک کر رہی تھی جو ہر دو گھنٹے بعد ہائی اور لو ہو رہا تھا ___”
صائمہ ٹھیک ہو ___؟؟؟ زارا بیگم نے انھیں پکارا اور خود ان کے پاس کھڑی ہوگئیں انھوں نے سنا نہیں وہ شاید کچھ غنودگی میں تھیں___”
امی چاچی آئی ہیں ____” اس نے ہلکا سے ان کے کندھے سے ہلایا تو وہ آنکھیں کھولے دیکھنے لگیں جنھوں نے ہوں کیے آنکھیں موڑ کہ انھیں دیکھا __”
کیسی ہو___؟ انھوں نے ایک نظر انھیں دیکھ کہ پوچھا تو صائمہ بیگم کا اثبات میں سر ہلا ___”
ایک دم سے تمھاری طبعیت خراب ہوگئی تھی بچی بیچاری تو بری طرح گبھرا گئی تھی اکیلی تھی بیماری کو بھانپ بھی نہ سکی ___”
خیال رکھا کرو دوائیاں وقت پہ لیا کرو اپنا تو اس بچی کا خیال کرو جس کا آخر سہارا ہی تم ہو ___”انھوں نے ایک نظر نورِ حرم کو دیکھ جوڈبہ کھول رہی تھی ___”
بس بھابھی میرے بعد میری بچی کا سہارا اللہ ہے اور پھر آپ ہیں اللہ مسبب الاسباب ہے کوئی نہ کوئی سبب بنا دے گا اور ویسے بھی میری بیٹی بہت سمجھدار ہے بیٹوں کی کمی اس نے مجھے کبھی نہیں ہونے دی سارے گھر کی ذمہ داری اِس نے سنھبال رکھی ہے بس میری دعا ہے کہ میرا رب اس کے نصیب اچھے کرے ____”
امی پلیز اللہ آپ کو میری عمر بھی لگا دے ___” وہ ان کے لفظوں کو کاٹ گئی ان کے الفاظ سہنے کی ہمت نہ ہوئی جھک کہ ان کی پیشانی پہ لب رکھے ان کے قریب بیٹھتی رومال نما درمیانے سائز کپڑا ان کی کندھوں کے دونوں اطراف اور سینے تک پھیلا اور پھر آہستہ سے ان کو تکیے کے سہارے بیٹجاتی یخنی پلانے لگی ___”
جب ختم کرا کہ اٹھی تو زارا بیگم اماں کے پاس بیٹھ گئیں ان کو باتیں کرتا دیکھ کہ اس نے قدم باہر کی طرف بڑھائے باہر کھڑا وہ کسی سے باتیں کر رہا تھا اس کو دیکھتے ہی فون کاٹ گیا شکنوں کا لباس لیے مرجھائے سے حلیے میں اسے دیکھا تو لب کھولے بغیر نہ رہ سکا جو ڈوپٹہ سیٹ کیے خود کو تروتازہ رکھنے کی کوششوں میں تھی ___”
تم ٹھیک ہو ___؟؟؟ اسکے قریب آتے پوچھا لہجے میں فکرمندی پہناں تھیں___”
اطلاعاً عرض ہے بیمار میں نہیں میری ماں ہے ” وہ عام سے انداز میں کہتی بینچ پہ بیٹھ گئی __”
مگر لگ تو تم ہی رہی ہو ___” الٹا جواب دیتے وہ بینچ سے کچھ فاصلے پہ جاکہ بیٹھ گیا اُس نے آگے سے جواب دینا مناسب نہ سمجھا کچھ پل یوں ہی خاموشی کی نذر ہوئے نہ وہ بولی اور مانی نے اسے مخاطب کرنا مناسب سمجھا نورِ حرم کو اپنے چہرے پہ تپش کا احساس ہوا تو چہرہ پھیر کہ خفگی سے اسے دیکھا جس کی نظریں اس پہ ہی جمی تھی مانی کی لوُ دیتی نظروں میں اسے کہیے جذبے دکھائی وہ بغیر پلک جھپکے اسے ہی دیکھتا ہمیشہ کی طرح خود سے بیگانہ لگ رہا تھا نورِ حرم نے لاتعلق ہوتے آنکھیں پھیرلیں __”
ناراض ہو ؟؟؟ اسکا چہرہ پھیرنا اسکا لاتعلق ہونا اس نے بخوبی محسوس کیا شاید جب سے آیا تھا اس کے چہرے پہ پتھریلے تاثرات دیکھے ___”
ناراض اور تم سے __؟؟ اسکا انداز ایسا تھا کہ وہ چند پل کےلیے اس کے چہرے کو دیکھتا رہ گیا __”
آج نہ شیرنیوں والا انداز ہے اور نہ غصہ ہیں ان آنکھوں میں نہ نفرت نظر آ رہی ہے ____بس اس لیے پوچھ لیا ___”
غصہ وہاں کیا جاتا ہے جہاں مان ہو جبکہ تمھیں دیکھ کہ ایسا احساس ہی نہیں ہوتا پتہ ہے جو مرد بار بار عورت کو دھوپ میں لا کھڑا کر دے وہ کبھی اس کی چھاؤں نہیں بن سکتا جب سے میرا باپ مجھے چھوڑ کہ گیا ہے مجھے لگتا ہے میں اس دن سے تپتے صحرا میں سفر کر رہی ہوں سارا دن جب میں رکشے یا ویگنوں میں دھکے کھاتی ہوں کتنے لوگوں کی نگاہوں کی زد میں آتی ہوں یہ سوچا ہے تم نے __؟؟؟ پتہ نہیں کتنے کی نگاہوں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں آوارہ ہوں تم کہتے ہو تم مجھ سے محبت کرتے ہو کیا یہ ہے تمھاری محبت ___؟؟؟کیا کروں میں اس محبت کا ___؟؟؟ بتاؤ جہاں تحفظ ہی نہ ہو___”
جب شادی کے بعد مجھے ہی دھکے کھانے ہیں در در رُلنا ہے تو کیا فائدہ اس رشتے کا صرف محبتوں سے پیٹ نہیں بھرا کرتا مانی ___” تم نے آکہےایک دفعہ بھی مجھ سے پوچھا کہ نورِ حرم تمھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ___؟؟؟اس نے بمشکل خود کو رونے سے بچایا آواز رندھ گئی ___”
تم تو بہت بہادر ہو نور پھر یہ آنسو کیوں ____؟؟؟ شاید اس کے آنکھوں کے کناروں کے نیچے آنسوؤں برداشت نہیں کرپایا اس کے ٹوٹے پھوٹے لہجہ اچھا نہیں لگا ____”
نہیں ہوں میں بہادر صرف خول چڑھایا ہوا ہے تاکہ تم جیسے ہر روز میرا راستہ نہ روکیں اکیلا دیکھ کہ مجھے تنگ نہ کریں میں روز اپنی ہمتوں کو اکھٹا کرتی ہوں روز کوشش کرتی ہوں کہ میں ٹوٹ نہ جاؤں مگر انسان ہوں نہ زندگی کوئی نہ کوئی ایسا روپ دکھاتی ہے تو کمزور پڑ جاتی ہوں ____” اب کی بار باقدہ کچھ آنسو گال کو بھگو گئے ___”
تائی امی کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا _؟؟” اس کے آنسو دیکھتے وہ یہ ہی اخذ کر پایا ___”
ٹھیک ہیں وہ _ یہ کہتے بے دردی سے اس نے اپنے رخسار سے آنسوؤں کو صاف کیا ___”
اچھا میں مل لوں آؤں ان سے ____” اس کو کمزور پڑتا شاید دیکھ نہ سکا اس لیے اٹھ کھڑا ہوا___”
ایک احسان کروگے میرے اوپر ___” اس کی طرف دیکھتے اس نے کہا گرد آلود سے ہاتھ پہ نگاہ پڑی جو میلے سے تھے ایسا لگتا تھا جیسے ابھی وہ ہل چلا کہ آیا ہو_”
حکم کرو ___” ہاتھ کرتے سے صاف کرتے وہ جیسے ٹھہر گیا ایک دم جیسے مسکراہٹ پھیل گئی ____”
میرے ساتھ گھر چلو ابھی امی کے پاس چاچی کو چھوڑ کے چلی جاتی ہوں تمھارے ساتھ گھر میں کوئی کام ہے ___” میں امی اور چاچی کو بتا آؤں وہ یہ کہتے اندر چلی گئی ___”
❤❤❤❤❤❤❤❤
تم یہاں ہی رکو میں آ رہی ہوں ___”
تقربیاً آدھا گھنٹے بعد جب وہ گھر پہنچے تو نورحرم یہ کہتی اندر چلی گئیں کچھ دیر بعد واپس آئی تو ہاتھ میں کوئی چیز تھی وہ آہستہ آہستہ اس کے نزدیک آئی __”
یہ لو یہ بیچ کہ پیسے مجھے دے دینا ___” ایک نظر ڈبیا کھول کہ جھمکے اسے دکھاتی وہ اسے مخاطب ہوئی ساتھ میں رسیدیں بھی اسے تھمائیں___”
مگر یہ کیوں ____” حیرت سے اسے پوچھا گیا یقین نہ آیا تھا جیسے __”
تم سے جو کہہ رہی ہوں وہ کرو ___” وہ رکھائی سے کہتے مڑتے تالا بند کرتی بیگ سنھبال کہ اس کے پیچھے بیٹھی وہ گہری سوچوں میں گم تھا جس کے ہاتھ میں جمکھوں کی ڈبی اور رسید تھی ___”
چلو___” اس کے کندھے پہ دباؤ ڈالتے اسے ہوش میں لایا وہ بغیر کچھ بولے ڈبی جیب میں رکھتے بائیک سٹارٹ کرگیا ___”
دوپہر کو وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں لفافہ تھا جو وہ اسے تھمایا گیا نورِ حرم نے پیسے دیکھے تو ایک لاکھ بیس ہزار تھے اس سے رسیدوں کا پوچھا گیا جو وہ سر پہ ہاتھ مار کہ اپنی نالائق کا رونا روتے یہ کہہ گیا کہ وہ کہیں گر گئیں ہیں ___”
نورِ حرم تفیششی نظروں سے اسے دیکھتی اندر بڑھ گئیں ہوسپٹل میں پے کرتے ہی شام تک اماں کو ڈسچارج ہوگئیں تو وہ انھیں گھر لے آئیں __”
❤❤❤❤❤❤❤❤
وہ سکول سے واپس آئی اماں کو میڈیسن دیتے ان کے کپڑے دھو کہ چھت پہ سکھانے چلے آئی آج چوتھا دن تھا اماں کی طبعیت بالکل ٹھیک تھی اس نے خیال بھی تودل و جان سے رکھا اب وہ چھوٹے موٹے کام بھی کر دیتں اب نورِ حرم سکول بھی جانے لگی __”
گلی میں اس کے بے ڈھنگے قہقوں کی آواز سنی جو اس شخص کا ازل سے کام تھا جب اس کے دل میں اس ڈھیٹ شخص کےلیے گوشہ پیدا ہوتا تو کوئی ایسی حرکت کر جاتا کہ کہ اسے اپنا آپ سو فیصد غلط لگتا وہ نخوت سے منہ بناتی جلدی جلدی نیچے اتر گئی ___”
نیچے اتری تو حہرت بڑھ گئی کیونکہ وہ چرپائی پہ بیٹھا ہوا نظر آیا جو ابھی کچھ دیر پہلے گلی میں قہقے لگا رہا تھا نظر انداز کرتے وہ اندر جانے لگی جب وہ اسے پکار بیٹھا ___”
سنو چائے تو بنادو ___” وہ پیچھے سے پکار بیٹھا وہ ہرگز نہ رکتی مگر اسکی آواز میں کافی بھاری پن اور تناؤ سا تھا جسے سنتے ناچاہتے ہوئے بھی رک کہ پلٹ کہ اسے دیکھا لال آنکھیں ، لال گال دیکھتی وہ رک گئی__”
لگتا ہے آج سوٹہ نہیں لگایا ___” وہ یہ ہی اخذ کر پائی ___”
نہیں طبعیت خراب ہے شاید بخار ہو رہا ہے ____”
جھوٹ ___” اس کی بات کو کاٹتے وہ بولی حالانکہ اس کے چہرے پہ بخار کی علامات ظاہر ہو رہی تھی
دیکھ لو ___” وہ ایکدم سے اٹھتے اس کے پاس آتا اس کا ہاتھ پکڑ کہ اپنی پیشانی پہ رکھ گیا اس نے اس کی حرکت پہ سٹپٹا کہ ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ___”
ہاں یہ سچ تھا اس کی پیشانی بہت زیادہ گرم تھی ٹھنڈے موسم کی وجہ سے شاید وہ بخار میں مبتلا ہوا اب بھی ایک قمیض پہنے ہوئے تھا نہ کوئی سر پہ گرم ٹوپی نہ چادر زیبِ تن کیے ہوا تھا اس نے بغور دیکھا چپلیں بھی اپنے پاؤں سے لمبی پہنے ہمیشہ کی طرح لاپرواہ سا نظر آیا__”
بخار ہے تو گھر میں رہو نہ__ آرام کرو ___باہر لگُڑیاں مارو گے تو یہ ہی حال ہوگانہ ____” اسے اچھا خاصا ڈانٹتے وہ اسے دیکھتی رہی __”
جاؤ اماں کچن میں ہی ان سے کہو تمھیں چائے دے دیں گے ___” وہ یہ کہتی واشنگ مشین کو دھونے کے ارادے سے ان کی طرف بڑھ گئی نورِ حرم کی بات سنتی تھوڑی دیر بعد صائمہ بیگم خود ہی چائے لے آئیں دو کپ چائے تھی وہ جانتی مانی کی چائے کی عادت سے واقف تھی ___”
اماں میری چائے کہاں ہیں ___؟؟؟ اس نے جلدی سے کہا کہیں وہ مکھن لگا کے اماں سے دونوں کپ نہ لے لے اس لیے تیزی سے آتے چائے کا کپ ٹرے سے اٹھا لیا __”
اماں اس کی پھرتی پہ مسکرا کہ رہ گئیں جبکہ مانی بخار کی وجہ سے چرپائی پہ بیٹھا رہا وہ اماں سے باتوں میں مگن چائے پی رہا تھا نورِ حرم میشن لے آئی چٹائی پہ بیٹھی ساتھ والی آنٹی کے کپڑے سلائی کرنے میں مصروف ہوگئیں ___”
کچھ دیر بعد اماں عصر کی نماز پڑھنے کےلیے اٹھ کھڑی ہوئیں اور وہ جاکہ اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھ گیا ___”
سنو تمھارے پاس سوروپے ہوں گے __؟؟ سگریٹ لینے ہیں وہ اسے مصروف دیکھ کہ مخاطب ہوا تھا _”
سوٹے کے علاوہ کوئی چیز نظر بھی آتی ہے تمھیں___؟
اس نے خشمگیں نظروں سے زمین کو گھورتے اسے صبح چاچو اور اس ڈھیٹ کی جھڑپ کو سوچ کہ خفگی سے کہا جو صبح صبح زور دار ہوئی تھی چاچو نے صبح پھر سے اسی ٹھکائی بیلٹوں سے کی ___” وہ جانتی تھی اسکی ناقص کارکردگیوں کے بارے میں اس لیے طنزیہ سوال کیا__”
ہاں پہلی دفعہ ہی دیکھ رہا ہوں ____” اس نے بڑے غور سے دیکھتے عجیب کشمکش سے انداز میں جواب دیا
کیا ____؟ اس کے اتنے عجیب سے انداز میں وہ بنا اس کی طرف متوجہ ہوئے بولی ایک دفعہ دیکھ لیتی تو مر کہ بھی نہ پوچھتی ___”
تمھاری گردن پہ چھوٹا سا تل آج ہی تو نظر آیا ہے پہلے تو کبھی نظر نہیں آیا یا شاید میں نے ہی کبھی غور نہیں کیا _” ایک گہری نگاہ اس کی گردن پہ جمائے مدھم مگر معنی خیزلہجے میں جواب دیا اسکی آنکھوں کی چمک واضح تھی پرشوخ نگاہوں کی پہلے تو تاب نہ لاسکی مگر پھر ہمیشہ کی طرح اسے ق”تل کرنے کو جی چاہا جس نے سوال کیا کیا تھا___؟اور جواب کیا ملا تھا___”
ایک نمبر کے کمینے ،ڈھیٹ، انسان ہوتم اوجھل ہو جاؤ میری نظروں سے ___ میں تمھارا سر پھوڑ دوں گی سوٹے مار سستے واحیات انسان ___”آج تک صرف اور صرف امی کی وجہ سے برداشت کیا ہے نہیں تو اب سارے کے سارے دانت توڑ چکی ہوتی میں تمھارے __”
اسکی بے باکی سنتے چہرہ یکدم لال ہوا سٹپٹاتے ہوئے اس نے ڈوپٹے سے گردن بھی ڈھک دی جو ذرا گردن سے ہی ڈھلکا ہوا تھا اس نے ادھر اُدھر دیکھا کوئی چیزاردگرد نہ دکھی تو چپل اتارتے اس کی طرف پھینکی جو اس کے سینے سے ٹکراتی نیچے گر پڑی___”
اچھا اچھا جا رہا ہوں میں ___” وہ اسے شیرنی کی مانند دیکھتا آنکھ مارتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا تھا___”
❤❤❤❤❤❤❤❤
سحر کے وقت اذانیں ہوئی تو اس کی آنکھ کھل گئی وہ ہمیشہ اسی وقت اٹھ جایا کرتی چاہے جتنی بھی سردی ہوتی وہ سیڑھیوں پہ بیٹھ کہ اذان سنا کرتی وہ وضو کرتی شال لپیٹے لائٹ آن کیے صحن میں چہل قدمی کرنے لگی __”
کچھ دیر بعد قریبی مساجد میں اذانیں مکمل ہوگئی مولانا صاحب کے بیان شروع ہو گئے تو وہ سننے کےلیے سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی طبعیت میں کچھ پل کےلیے سکون سا اترا ___” ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے منہ پہ پڑے تو اٹھی جب ہلکی ہلکی آواز آئی ایسا لگا جیسے کوئی گنگنا رہا ہو سحر کے اس وقت خاموشی میں تھوڑی واضح محسوس ہوئی تو اسے حیرانگی ہوئی ___”
غیر ارادی طور پہ اس کے قدم سیڑھیوں کی طرف بڑھے چھت پہ پہنچتے آواز تھوڑی سی اونچی سنائی دی یہ آواز تو چھت پہ بنے کمرے سے آرہی تھی چاچو کے گھر سے نیچے جانے والی گرل بند تھی ___”
اسے تجسس ہوا وہ قدم کمرے کی طرف بڑھا گئی نزدیک پہنچی تو آواز صاف تھی اس کی حیرت بڑھ گئی __”
؎میں بندہ عاصی ہوں خطا کار ہوں مولا
لیکن تیری رحمت کا طالبگار ہوں مولا
وابستہ ہے امید میری تیرے کرم سے__”
تیرا ہوں فقط تیرا پرستار ہوں مولا__”
اس آواز کو وہ کیسے بھول سکتی تھی یہ آواز تو اس کی روح کو سکون پہنچاتی اس آواز کو سننے کا باقدہ انتظار کرتی تھی یہ آواز کئی میلوں دور اسے سوتے ہوئے جگا دیتی ___” اسے بے پناہ حیرت ہوئی اس کےلیے یہ آواز اس وقت دھچکے سے کام نہیں تھی دروازہ بند تھا کھڑکی ہلکی سی کھلی ہوئی تھی وہ جھٹ سے آگے ہوئی سامنے کا منزل دیکھ کہ حیرت سے آنکھیں پھٹنے کو ہوئی__” ___”
باہر کے اجالے مجھے کیا راہ سجھائے
اندر کے اندھیروں میں گرفتار ہوں مولا
تاریخ بھی میری نہیں پہچانتی مجھ کو
کیسا یہ جغرافیہ بردار ہوں مولا ___”
جس سے گزر جاؤں وہ در کھول دے مجھ پہ
خود اپنے ہی رستے کی میں دیوار ہوں مولا
صاف ستھرے سفید لباس میں ملبوس ، ماتھے پہ رومال باندھے، ہلکی بڑھی داڑھی پلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے گود پہ قرآن پاک سینے سے لگائے آنکھیں موندے حمد کے اشعار پڑھتا بلاشبہ صالح ہی تھا کیا واقعی وہ اتنا پیارا تھا اسے لگا وہ خواب کی کیفت میں ہے مگر یہاں تو پورے کا پورا وہ مجسم حقیقت تھا___؟؟؟
مانی _____” وہ بڑ بڑائی __” چہرے پہ پھیلا ہوا نور واضح نظر آ رہا تھا آج کشادہ چہرہ لمبے بالوں کی زد میں نہیں تھا وہ مکمل طور پہ اس کے لفظوں میں کھوگئی اس کی پرُسحر آواز میں نورِ حر کے رونگٹے کھڑے ہوگئے روح میں سکون اور جادو بکھیر دینے والا سحر اور طلسم تھا کانوں سے گزرتی آواز نے دل میں مدغم ہوتی محسوس ہوئی اس کےلیے گویا وقت رک گیا آواز اتنی زیادہ اونچی نہیں تھی مگر رب نے اس گھٹیا شخص کا بعید کھولنے کےلیے اسے اس وقت یہاں لے آیا آج وہ اندھیری رات میں کھڑی اسکے اندر بعید پاگئی __
دل میں آئی کہ دروازہ کھول کہ چلی جائے اس کے پاس بیٹھ کے اس کو سنے ___”
پستی سے اُبھرنے کی اگر شرط ہے سولی
سولی پہ بھی چڑھنے کو تیار ہوں مولا
یہ آواز پچھلے دو سالوں سے اس کے ذہن پہ پہ تسلط ہوگئی تھی اور آج پورے کا پورے صالح اس کی روح پہ مسلط ہوا اس کو سنتے کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ ہونے لگی وہ یخ بستہ وجود لیے وہیں کی وہیں کھڑی ہوگئی___
وہ حمد مکمل کر چکا تھا مگر نورِ حرم جیسے ابھی تک اس کیفیت میں تھی وہ اب مدھم مدھم سی تلاوت کرنے میں مگن تھا___”
کیا یہ مانی تھا ___ صالح ___؟؟؟ یا پھر کوئی بہروپیہ ___”
وہ ہر چیز سے بے خبر اس پہ واضح ہوگیا تو یعنی وہ گھٹیا شخص پچھلے دو تین سالوں سے رب کا اتنا پیارا تھا یا ہمیشہ سے ہی اللہ نے اسے اپنی قربت کا شرف بخشا تھا__”بات پہ بات قہقے لگانے والا نشئی انسان کا اللہ سے اتنی قریبی تعلق تھا کہ اس دن بھر سوٹے مارنے والے سستے انسان کو اللہ اپنے گھر میں پناہ دی___”
کوئی بات تو تھی اس انسان میں __”
میری رات ، دن میں چھپی چھپی
میرا دن چھپا کسی رات میں__”
میری زندگی اک راز ہے_ ____”
کوئی راز ہے میری بات میں___”
میں جہاں کہیں بھی الجھ گیا___”
وہیں گرتے گرتے سنھبل گیا ____”
مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا
میرا ہاتھ ہے کسی کے ہاتھ میں ___”
یا اللہ اس نے قدم پیچھے بڑھا لیے کیا یہ حقیقت میں صالح ہی تھا نجانے کتنی دیر بعد اس نے قدم نیچے کی طرف بڑھائے آج اسے اپنا آپ چھوٹا محسوس نظر آ رہا تھا
وہ آج یا پھر کبھی بھی اس کا بعید نہیں پا سکتی تھی __اگر اسکو بخار نہ ہوتا تو کیا اسے مانی میں چھپا صالح نظر آتا ___”
آپ کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو لوگ آپ کو آپ کے دکھاوے سے جانتے ہیں اور آپ کا دکھاوا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اللہ آپ کو آپکی نیت سے جانتا ہے ___” یہ الفاظ اسی ہی شخص کے تھے جس کی نیت کو آج دیکھا واقعی اس شخص کو دکھاوا نہیں آتا تھا__”
کتنی سوچوں کی گردان میں وہ کھوئی نیچے آئی وہ سوچوں میں گم ہوئی کہ کیا اب زندگی بھر وہ اس شخص سے سر اٹھا کہ بات کر پائے گی جس کو سرعام اس کے گناہوں کا طعنہ دیتی تھی فلحال تو وہ خود سے ہی نظریں نہیں ملا پا رہی تھی ___”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial