قسط: 20
آج وہ ہار گئی اس کی اونچی ناک ، اس کی “میں” ریزہ ریزہ ہوگئی اس کے غرور کا بت جو پاش پاش ہوا __
بے شک دلوں کے بعید اللہ جانتا ہے کہنے کو تو کچھ بھی نہیں تھا مگر اس کے دل میں جو توڑ پھوڑ تھی وہ صرف وہ ہی جانتی تھی اسے بری طرح شکست ہوئی آج بلند و باکردار پڑھی لکھی ، شکل و صورت کی شہزادی ، نیک سیرت شائستہ و متانت لہجے کی حامل نورِ حرم ہار گئی اور وہ گلی کا نشئی موالی ، ڈھیٹ بات پہ بات بے ڈھنگے قہقے لگانے والے بد کرادر شخص کو وقت نے فاتح ٹھہرایا ہاں وہ بری صبحت کا سوٹے پینے والا مانی جیت گیا وہ اللہ کی نظر میں بلند ہوا کیونکہ اس نے اپنے کردار کا پرچار کبھی نہیں کیا تھا وہ کون تھا __؟؟کیا تھا__؟؟ دنیا نہیں جانتی تھی وہ جو تھا اسے اس کا اللہ جانتا تھا ___” اللہ نے اسے راستے کےلیے چُنا تھا اور کئی کفر کے راستے سے پلٹ کہ ہد ایت کے راستے پہ آئے جن میں واضح مثال حضرت عمرؓ اور حافی تھے عمر کی جرات و بہادری کی بے مثال نمونہ تھے جن کی بہادری اور عدل سے قیصر و کسرا جیسے مشہور بادشاہ کانپتے تھے لرز جاتے تھے وہ عمرؓ جو غیض و غضب سے بہن کو قتل کرنے کے ارادے سے تلوار لیتے انکے کمرے کی طرف گئے مگر پھر رب کا کلام ، تلاوت کے جادوئی الفاظ سن کہ لرز اٹھے دل سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا بلند ہوئی ___” ان کے اسلام کی طرف قدم کی وجہ سے کفر پہ زوال آگیا باطل مٹ گیا ___”
بشر حافی شراب کے نشے میں مبتلا انسان تھے لیکن اللہ نے خود پیغام بجھوا کہ وقت کا ولی بنایا وجہ صرف ایک عمل تھا جو انھیں برائیوں کی دلدل سے نکال کہ ہدایت کی روشنیوں کی طرف لایا نیکی چھوٹی ہو یا بڑی نیکی ،نیکی ہوتی ہے ___”
بشر مہ خانے کے مالک تھے رات کا وقت تھا بغداد کے مشہور مہ خانے کے دروازے پہ دستک ہوئی تو اس مہ خانے کے مالک نے نشے میں دھت گرتے لڑکھڑ اتے ہوئے دروازہ کھولا سامنے سے سادہ سے لباس میں پروقار شخص کھڑا تھا معاف کیجے گا مجھے__” اب یہ بند کرنے کا وقت ہے کل آئیے گا__” بیزارگی سے کہتے وہ دروازہ بند کرنے لگے جب اس شخص نے کندھے پہ ہاتھ رکھتے روکتے ہوئے کہا___”
مجھے بشر بن حارث سے ملنا ہے اس کے نام بہت اہم پیغام ہے ___” اس کا سوال سن کہ مالک اپنا نام سن کہ اس بار چونک کہ رک گیا
جی بولیے ___” میرا نام ہی بشر بن حافی ہے ___”
کیا واقعی آپ بشر بن حارث ہیں ___؟؟ اس شخص کو یقین نہیں آیا حیرت سے بشر بن حافی کو اوپر سے نیچے دیکھا جو شراب کے نشے میں جھول رہا تھا ___”
کوئی شک ہے آپ کو _؟؟” بشر بن حافی اکتاہٹ سے کہا تو اجنبی شخص نے آگے بڑھتے ان کے ہاتھ کو پکڑ کے بوسہ دیتے کہا __”
بشر بن حارث ___” ارض و سماء کے مالک نے مجھ سے فرمایا کہ میرے دوست بشر بن حارث کو میرا سلام عرض کرنا اور اسے کہنا ” کہ جو عزت تم نے میرے نام کو دی ہے وہ ہی عزت رہتی دنیا تک تیرے نام کو ملیں گی __”
اس اجنبی شخص کا یہ کہنا کہ بشر بن حارث کی نگاہوں میں وہ ومنظر گھوم گیا جب وہ ایک دن معمول کی طرح نشے میں دھت چلے آ رہے تھے کہ گندگی کے ڈھیر پہ پڑے ایک کاغذ پہ پڑی جس پہ ” اللہ ” لکھا ہوا تھا انھوں نے کاغذ کو بـڑے احترام سے چوما صاف کرکے خوشبو لگائی اور پاک و بلند پہ یہ کہہ کہ رکھا___”
اے عرش کے عظیم الشان مالک ! یہ جگہ تو بشر کا مقام ہے تیرا نہیں ___” بس اس گناہ گار شخص کی یہ ہی ادا بشر بن حارث کو بشر بن حارث رحمت اللہ علیہ بنا گئی جس وقت بشرِ حافی کو رب کا یہ پیغام ملا اس وقت بشرِ حافی ننگے پاؤں تھے اور پھر آپ نے ساری زندگی ننگے پاؤں گزار دی اور چوپائے بھی ان گلیوں سے کبھی نہیں گزرے کہ جن گلیوں سے بشرِ حافی گزرتے تھے صرف اس وجہ سے کہ آپ رحمت اللہ علیہ گزرتے تھے
جن کو اللہ نے ہدایت دی تو وقت کے ولی بنے ان کے دل میں رب کا اتنا تقوی پیدا ہوا کہ ننگے پاؤں عبادتیں کیں وہیں بشرِ حافی رحمت اللہ علیہ جن کے متعلق اپنے وقت کے امام احمد بن حنبل رحمت اللہ فرمایا کرتے تھے
کہ اے لوگوں ____” جس اللہ کو احمد بن حنبل مانتا ہے اسے بشرِ حافی پہچانتا ہے ___”
عمرؓ ہو یا حافی اللہ سب کا ایک ہی ہے بھلے ہم گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوں ہمارا چھوٹا سا عمل ہدایت کی طرف پہلا قدم ہے گناہ چاہے جتنے بھی ہوں مگر رب پہ یقین ہدایت کی طرف پلٹنے کی امید ہے ___” امید کے دروازے پہ دستک دیتے رہیں اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے پاک رکھیں اور اس امید میں رہیں کہ آپ کا سب سے مخلص دوست آپ سے خفا ہے کبھی تو دروازہ کھولے گا اور بے شک وہ دروازہ کھول سکتا ہے ___”
وہ صبح سے پریشان و پیشماں تھی اس کو فجر پڑھنے کی نیند نہیں آئی صالح کے اندر کا بعید جاننے کے بعد جیسے اس کے اندر تک گہرا سکوت چھایا ہوا تھا اسے وہ نشئی شخص مغرب کے بعد کسی اسرا رموز کی ڈھلتی رات کی مانند معلوم ہوا وہ واقعی عام انسان نہیں تھا اسے آج معلوم ہوا کہ وہ بظاہر فقیر نظر آنے والا انسان اپنے اندر کی تہوں میں کتنے راز دفن کر بیٹھا ہوا تھا بظاہر کھلے لباس میں ملبوس قہقے لگائے چھوٹی نظر کرکے مشکوک انداز میں دیکھنا اسے گہری سوچوں میں ڈال گیا کہ اس کے دیکھنے کا عام سا انداز جانچ پڑتال اور پرکھنے کا زوایہ لگا اس کی نظریہ بظاہر کسی نکتے پہ رکی معلوم ہوتیں ایسا لگتا جیسے وہ گھور رہا ہو ، وہ جب گھور کہ سب کو دیکھتا تو کسی پاگل خالی الزاہن شخص کی طرح لگتا مگر کسی کو بھلا یہ کیسے معلوم تھا کہ کھوجی نے بھی کبھی کھوج کا اصل مقصد بتایا___؟؟ وہ اس شخص کی ذات کو ہر زوایے سے سوچتی رہی کتنے گتھ جوڑ ملاتی رہی مگر کوئی فائدہ نہ ملا آخر کار سر میں درد ہونے لگا__”
اماں نے دو تین دفعہ اسکی غائب دماغی کو دیکھ کہ پوچھا مگر وہ سر درد کا بہانہ بناتے ٹال گئی ناشتہ بھی بمشکل دو تین نوالے لیا اور پھر چادر کا نقاب سیٹ کرتی کمرے سے باہر نکل آئی ___”
اے نورِ حرم کہاں جا رہی ہے ___؟؟؟ اماں نے اسے عجلت میں بھاگتے دیکھا تو پکار بیٹھیں ___”
کالج جا رہی ہو اور کہاں جا رہی ہوں اللہ حافظ ___” اس نے بمشکل رک کے تیزی سے جواب دیا اور پھر سے سپیڈ پکڑی __”
پر علیزے اور تیرے چاچو تو چلے گئے ہیں علیزے آئی تھی تیرا پوچھنے ___” میں نے کہہ دیا کہ تیری طبعیت خراب ہے اس لیے توُ آج نہیں جائے گی ___”
اماں نے بڑی معصومیت سے بتایا تو نورِ حرم نے سر پکڑلیا ___”
یہ کیا کر دیا اماں آپ کو تو پتہ بھی ہے کہ اس مہینے آپ کی بیماری کی وجہ سے کتنی چھٹیاں کی ہیں آپ کو سر کا بھا بتایا تھا کہ وہ اس معاملے میں بہت سخت ہیں ____” بجھے بجھے سے لہجے میں کہا مگر پھر اماں کو پریشان دیکھا وہ جانتی تھی کہ وہ خود کو قصور وار ٹھہرا تھیں
اچھا آپ پریشان نہ ہوں چاچو آئیں تو دوبارہ مجھے چھوڑ کہ آئیں گے نہیں تو مانی کو کہتی ہوں ___” وہ جلدی سے کہتی مین گیٹ سے باہر نکل آئی تھی





چاچی ___چاچی __” مانی گھر ہے ___؟؟ کچن میں داخل ہوتے ہی اس نے زارا بیگم سے پوچھا جو پراٹھا بنانے میں مصروف تھیں انھوں نے وجہ پوچھا تو اس نے پوری روداد سنا دی ___
بیٹھک میں دیکھو کیا پتہ وہ ادھر ہی لیٹا ہو طبعیت خراب تھی مجھے کچھ دیر پہلے چائے کا کہہ کہ گیا تھا
ایک نظر اس کے پریشان چہرے کو دیکھتیں انھوں نے اسے مانی کا بتایا تو وہ تیزی سے کچن سے نکلی دل کو کچھ ڈھارس ملی کہ چلو آج کا دن ضائع ہونے سے تو بچ جائے گا __”
مگر یوں اکیلے اس کے پاس جانے سے ہچکچائٹ سی آڑے آئی جب سے اس کا بعید معلوم ہوا وہ اندر سے بری طرح شرمندہ تھی ابھی تک صالح کا چمکتا اور روشن چہرہ اس حفظ تھا کچھ دیر وہ سوچتی ہوئی دبے دبے قدموں سے بیٹھک کی جانب بڑھی ___”
جو بیٹھک کے کونے میں پڑی چرپائی پہ کمبل لپیٹے سر کے نیچے ہاتھ رکھے سویا ہوا تھا یا شاید غنودگی میں تھا
وہ دھیمے دھیمے قدم اٹھاتی چرپائی کے پاس چلی آئی لال ٹماٹر کی طرح دہکتا چہرہ ، سانس کی تیز آوازیں واقعی حقیقت میں اسے بخار تھا وہ بدستور بغیر پلکیں جھپکے دیوانہ وار اسے دیکھتی رہی حیرت و پریشانی دل کی توڑ پھوڑ لیے وہ اسے کھوجتی رہی آج اسے نجانے کیوں اس میں گلی کا نشئی مانی نظر نہیں آیا اس نے ہر طرف سے اس کی ذات کا صحفہ پلٹا مگر کیوں وہ اسے صالح لگا اور وہ بھی اپنا اپنا سا جو صرف نیک راہوں کا ہمراہی تھا اس نے نگاہ کا رخ بدلا تو اس شخص میں ہر طرف تبدیلیاں نظر آنے لگی وہ اسے جاسوسوں کی طرح کھوجنے لگی ___”
حقیقت میں تبدیلی کا عمل بہت پراُسرار نظر آتا ہے ہم جب کسی الجھے ہوئے شخص میں کوئی تبدیلی پائیں تو ہم خود کو بھول کہ اس کے بدلنے کے پیچھے کی وجوہات کو کھوجتے ہیں انسان فطرتاً پراُسرار شخصیت کا مالک ہوتا ہے اسے دوسروں کی ذات کو پرکھنے کا تجسس ہمیشہ سے رہا ہے اور آج وہ انا پرست لڑکی خود کو پسِ پرد رکھ کہ اسے کھوجنے میں مصروف تھی __”
وہ اسے دیکھتے باریکی سے سوچ رہی تھی لیکن پھر اسکو ہلتا دیکھ کہ جلدی سے حواس آئی اور خود پہ قابو پایا ___”
مانی مانی ___” اس نے دو دفعہ پکارا مگر اس کی پکار شاید اس تک پہنچ نہ سکی ___”
مانی ____مانی ___” اپنی سی کوشش کرتے ہوئے پھر سے پکارا گیا مگر دوسری طرف کوئی اثر نہیں پڑا___”
وہ جھجھکتے ہوئے اس کی چارپائی کے قریب آئی پھر سے پکارا مگر شاید اس نے کوئی میڈیسن لی ہوئی تھی پہلے تو خیال آیا کہ زارا چاچی کو بلا کہ کہے کہ اسے اٹھا دیں مگر پھر سوچا ایسی بھی کیا شرم وہ محرم تو ہے __؟
مگر تم نے اسے محرم مانا ہے کبھی ___؟
یہ اندر سے آتے ضمیر کی آواز تھی جو اسے بری طرح جنجھوڑ کہ رکھ گئی تھی
ہر وقت بے رخی ، انا کا پرچم بلند کیے اتنے مقدس رشتے نیچے دکھاتے اس رشتے کی تذلیل کی فرمانِ باری تعالی ہے تم نکاح کرو دلوں میں محبت میں ڈالوں گا __”
اس نے تو نکاح کیا تھا اور بے شک رب نے محبت بھی ڈالی مگر برتری کا غرور کھاگیا تھا اسکو___!!! یہ جانتے ہوئے بھی میاں بیوی میں برتری کمتری کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا وہ کہتی تھی وہ اسکا محافظ نہیں بن سکتا مگر اس نے محافظ سمجھا کب تھا اس کو گلی کے کتے تک سے تشبیہ دے ڈالی مگر یہ اس شخص کی ہی مرادنگی تھی کہ اس نے کچھ کہا بھی نہیں ___” اپنی مرادنگی کے زعم میں اس کی روح کو کرچی کرچی نہیں کیا اسے توڑ کہ اسکی انا کے بت کو مسمار نہیں کیا ___” وہ ہی تو تھا جو سچا مرد کہلانے کے قابل تھا نکاح کے مضبوط رشتے میں ہونے کے باوجود بھی اسکے قریب نہیں آیا حالانکہ اسکی روشن آنکھوں میں واضح اپنا عکس دیکھا اور نکاح کے بعد نہیں بلکہ جب سے اس نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا اس وقت تو وہ اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی تھی نکاح کے رشتے میں بندھنے کے بعد بھی اسے دُھتکارنا فرض سمجھتی تھی ___”
ہر زوایے سے سوچتے ہوئے چارپائی کے نزدیک آئی آج اسے اس شخص کو دیکھ س کے دل کو کچھ کچھ ہوا حیا کی لالی چہرے پہ بکھر گئی اونچا لمبا چھ فٹ سے نکلتے قد کا مالک شخص تھا جس کے پاؤں چارپائی کی حدود سے باہر تھے کل تک شرابی آوارہ اور ڈھیٹ نجانے کیا کیا کہتی رہی در اصل اسطرح اسے بھلا دیکھا کب تھا آج یوں اتفاقاً دیکھ رہی تھی اور یہ احساس ہی بہت خوشگوار تھا کہ یہ شخص پورے کا پورا اسکا ہے___”
کچھ سوچتے ہوئے اسے کندھے سے جنجھوڑا جس سے تپش نکل رہی تھی اسے دیکھ کہ لگ رہا تھا جیسے وہ لا وارث ہے ____” وہ ہلکا سا ہاتھ رکھتے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا جس سے گرم تپش نکل رہی تھی __” وہ حیران سا اسے اپنے اوپر جھکا دیکھ رہا تھا پھر اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا جو اس کے کندھے پہ رہا تھا نورِ حرم نے اس کی آنکھوں میں در آنے والی بے یقینی کو دیکھا اور ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور پھر چارپائی سے دور فاصلے پہ کھڑی ہوگئی __”
تم خیریت ___ ” وہ اٹھ بیٹھا جیسے یہ امید نہیں تھا وہ یوں اسے وقت آئے گی ___”
میں کہنے یہ آئی تھی کہ مجھے سکول تو چھوڑ آؤ دراصل چاچو اور علیزے چلے گئے ہیں مگر شاید تمھیں بخار ہے میں آج چھٹی ہی کرلوں گی ___” اس نے جلدی سے آنے کا مقصد بتایا تو وہ لمبی سانس کھینچتے اٹھ بیٹھا اور اس کی طرف دیکھ کہ بلند آواز میں شعر پڑھا___”
؎ وہ آئے ہیں گھر ہمارے ہے خدا کی قدرت
کبھی ہم ان کو اور کبھی در و دیوار دیکھتے ہیں
بخار کی حدت ست تپتا سرخ چہرہ ، دھیمی دھیمی سے مسکراہٹ ، چمکتی روشن آنکھیں نور حرم اپنے اوپر ٹکے دیکھ کہ گبھرا کہ پہلی دفعہ نگاہ یوں نیچے کرگئی __”
وہ اس کے آنکھوں میں نظر آتے جذبات کو دیکھ کہ بدحواسی میں باہر جانے کو پلٹی ___”
رکو میں چھوڑ آتا ہوں __” سنجیدہ سی آواز پہ پھر رک گئی حیرت سے پلٹ کہ اسے دیکھا جو سرہانے کے نیچے سے چابی اٹھائے اٹھ کھڑا ہوا ___”
ایسے ہی جاؤ گے ___” وہ اسے ایک بغیر کسی جرسی یا گرم چادر میں دیکھتی بے یقین سے ہوئی کہ پہلے ہی بخار ہے اور دوسرا وہ یوں اسے اس حالت میں سر جھاڑ منہ پھاڑ حلیے میں چھوڑنے جائے گا ___”
کیا مطلب ایسے ہی ___” مانی اسکی باتوں پہ رکا __”
مطلب یہ کوٹ پہنو ، بوٹ پہنو ، گرم چادر سے خود کو ڈھانپو سر پہ ٹوپی پہن لو ___” میں چھٹی کرلوں گی مگر ایسے تمھیں ساتھ نہیں لے کہ جاؤں گی ___”
نورِ حرم تم پہلے ہی بہت لیٹ ہو وقت دیکھ لو ___”
اس نے دیوار کے ساتھ لگی گھڑی کی طرف اشارہ کرکے ٹالنا چاہا ___”
لیٹ ہوتی ہوں تو ہوتی رہوں ___” وہ بے نیازی سے کندھے اچکاتی ضدی ہوئی مانی نے نفی میں سر ہلاتے اسکا کوٹ دیکھا جو دیوار پہ نصب سوٹ ریک سے کوٹ اتارتے اسے تھمایا وہ اسے حیرت سے تکنے لگا جو اپنی بے خبری میں یوں اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑی تھی مقامِ حیرت تھا کہ نورِ حرم اسکے پاس کھڑی تھی ___
میں زارا چاچی کے پاس جا رہی ہوں ___” جلدی کرنا پانچ منٹ ہیں تمھارے پاس مجھے مزید لیٹ مت کرنا__” وہ اسکی نگاہوں کے تقاضوں سے خائف ہوتی تیز تیز لہجے میں کہتی باہر جانے لگی جب اس نے اسکی کلائی کو آگے بڑھتے گرفت میں لے لیا ___”
اعتبار نہیں ہے تو آنے کا تکلف بھی مت برتا کرو مگر یوں ڈر ڈر کہ مجھے میری ہی نظروں میں گرانا چھوڑ دو ___”
پہلی دفعہ وہ اس طرح غصہ ہوا نور سہم گئی آنکھیں اٹھائے حیرت سے اس کی نگاہوں میں دیکھا اس کی آنکھوں کی ڈرووں میں سرخی تیر رہی تھی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی اسے لگا کہ کوئی اذیت کی تحریر تھی جسے اس نے ایک دم سے پڑھ لیا وہ جلدی سے اسکی کلائی کو چھوڑ تا جیسے خود پہ قابو پاگیا __”
مجھے تم پہ یوں چخینا نہیں چاہیے __سوری ___” وہ خود ہی معذرت کرنے لگا وہ اس کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھتا جلدی سے پیچھے ہوتا مدھم سے لہجے میں بولا کہ کہیں وہ اس کے ساتھ سکول جانے سے انکار نہ کر دے ____” اور نورِ حرم حیرت زدہ اس کے پل پل بدلنے رویے کو سمجھنے سے قاصر ہوئی وہ اس کی دلی کیفیت کو سمجھنے میں صفر تھی وہ یہ سوچتی رہی کہ وہ اس پہ چیخا تو ہرگز نہیں تھا پھر اس کو ایسا کیوں لگا___”
جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی دنیا داری کےلیے سہی مگر ابا نے ہمارے گھروں کے درمیان پردہ بنوایا کیونکہ انھیں اپنے بیٹے پہ اعتبار نہیں تھا انھوں نے مضبوط دیوار بنائی انھیں یہ نہیں معلوم کہ میرے کرادر میں کوئی جھول ہوتا تو دیوار پھلانگ کہ بھی پردہ ختم کرلیتا ___ ” چلو خیر کیا پتہ ابا بھی اپنی جگہ ٹھیک ہی ہوں ___” بوٹ پہنتے بھاری گمبھیر آواز میں وہ خود میں کھوئے ابا کی اندیشوں کی روداد سنا رہا تھا نورِ حرم اسکا لفظ لفظ بغور سن رہی تھی ___”
چلو آجاؤ __” بوٹ پہن کے وہ اٹھ کھڑا اور نورِ حرم بھی چادر سیٹ کرتی اس کی ذات کا نیا سرا کھوجتی اس کے پیچھے باہر نکل گئی وہ شخص حقیقت میں اسکی سمجھ سے باہر تھا __”




دن یوں گزرتے چلے گئے علیزے کے سسرال والوں نے شادی کی تاریخ پکی کرگئے زارا چاچی کل اماں کے پاس آئی تو نورِ حرم کی رخصتی کا ذکر کرگئی لیکن اماں نے کوئی مخصوص ردعمل ظاہر نہیں کیا اس سے بات کی تو اس نے فیصلہ ان ہی پہ چھوڑ دیا کہ جو انھیں مناسب لگے __”
ماسٹر صاحب خود نہیں آئے کیونکہ نورِ حرم کو معلوم تھا کہ چاچو اور مانی کے درمیان پھیلے تناؤ ___” علیزے نے بھی ایک دو دفعہ باتوں میں اسے ذکر کیا کہ ابو اب تک مانی سے ناراض ہیں وہ اسے بدکرادر ہی سمجھتے تھے اور شرمندہ سے صائمہ بیگم کے پاس شادی کا تریخ فکس کرنے نہیں آئے ___” نور کو اماں کچھ حد تک رخصتی کےلیے رضامند نظر آ رہی تھی کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے اس لیے میری آنکھوں کے بند ہونے سے پہلے تم اپنے گھر کی ہوجاؤ___” تمھارے ہاتھ پیلے ہو جائیں مجھے اور کیا چاہیے وہ آٹا گھوندھتے ابھی انہی سوچوں کے تانے بُن رہی تھی
جب اسے قہقے اور کچھ شور کی دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دی تھوڑی دیر میں ہی آوازیں نزدیک آنا شروع ہوئی سامنے مانی اور علیزے تھے علیزے نےے پیچھے سے مانی کے کوٹ کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور مانی قہقے پہ قہقے لگائے جا رہا تھا وہ خود کو چھڑوا کہ بھاگنے کے چکروں میں تھا اور علیزے اسے پورا زور لگائے پیچھے کھیچنے میں مصروف تھی ____” نگاہیں اٹھائے ان دونوں بہن بھائی کو دیکھنے لگی علیزے اسے بلیوں کی طرح نوچنے میں مصروف تھی حالانکہ اس کی اگلے مہینے شادی تھی مگر وہ آج بھی بچوں کی طرح پورے جاہ و جلال سے لڑ رہی تھی __”
نورِ حرم کو نجانے کیوں یہ منظر بہت پیارا لگا بہن کے شکنجے میں پھنسا صالح خود کو بچاؤ کی رٹ رٹ لگائے اسے بہت اچھا لگا ___”
نور بچاؤ___” یہ دہائی مانی کی تھی جس نے نورحرم کی طرف دیکھتے ہی بلند آواز میں نورِ حرم کو پکارا ___”
وہ کیوں بچائے تمھیں پاؤڈری انسان ___” پہلے میرا حساب بے باک کرو___” ایک بہن کا حق مار کہ تم نہ دنیا پاسکوگے اور نا آخرت ___” میں جانتی ہوں تمھاری عادتوں کو دو نمبرے انسان تم مجھے باتوں میں لگا کہ بھاگ جاؤ گے ___”
نورِ حرم اس کی باتوں میں کبھی نہ آنا ___” میں نے اسے سو روپیہ دیا کہ تیس روپے کی میری بلیچ کریم لے آنا اور بیس روپے کی سپاری اور پچاس روپے خود رکھ لینا __” دو گھنٹوں بعد تیس روپے میری گود میں پھینک کہ مجھے کہہ رہا ہے تمھاری بلیچ کریم نہیں ملی اور اپنی جیب پوری چیز سے بھری ہے ___” یہ بڑا کرپٹ شخص ہے اسے کہو میرے پیسے واپس کرے __”
وہ دونوں لڑتے جھگڑے اسے وکالت کےلیے بیچ گھسیٹ رہے تھے ___”
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ___” اس شکل کےلیے بلیچ ایک ہو یا میں پوری فیکڑی مل کھول لوں اس بل بتھوڑی کی شکل نے ایسے ہی رہنا ہے ___” وہ نور کو دیکھتا آنکھ ونک کرتا بولا تو وہ گبھرا سی گئی __”
کمینے انسان___” علیزے نے شاکی انداز میں ہاتھ اٹھ کہ مارنا چاہا جب وہ خود کو اس کی ایک گرفت سے آزاد پاتا بھاگ نکلا ____”
علیزے پیچھے چیختی چلاتی اسے بدعائیں دینے لگی___”
میرے پاس پڑی ہوئی ہے آجاؤ میں دے دیتی ہوں ___”
مسکراتی نور حرم نے جب اسے بد عائیں دیتے دیکھا تو اسے اپنی طرف بلا لیا خوشی کے احساس سے مغلوب علیزے کا چہرہ دمک اٹھا اسے تو جیسے کوئی قارون کا خزانہ مل گیا تیزی سے وہ اسے دروازے کی طرف آنے کا کہتی نیچے اتر گئی __





وہ اب اکیلی سکول آیا جایا کرتی کیونکہ علیزے کی شادی قریب تھی اور اسے مہینہ بھر کی چھٹیاں مل گئی چاچو بھی کچھ مصروف رہتے اس نے بھی چاچو کو تسلی دی کہ وہ بس یا وین سے آجایا کرے گی مگر زیادہ تر صالح کبھی گھر ہوتا تو اسے چھوڑ آتا یا لے آتا آج وہ اسکا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہیں آیا وہ بمشکل لوکل پہ آگئی اپنے سٹاپ پہ اتری آگے پیدل پندرہ منٹ تک فاصلہ طے کرلیتی تھی ابھی بھی وہ سٹاپ پہ اتری اور چلنے لگی وہ جیسے ہی گلی سے گزرتی آگے بڑھی عجیب سا سناٹا سا تھا آج اکا دکا بچے بھی نہیں کھیل رہے تھے ___”
وہ چلنے لگی جب سامنے نگاہ پڑی کوئی وحشت سے بھرپور نگاہوں سے دیکھ رہا تھا دیکھنے میں ہی بدمعاش نظر آ رہا تھا وہ بائیک پہ تھا نورِ حرم کی سانس سینے میں اٹکی اس شخص کو ایک دو دفعہ مانی کے ساتھ دیکھا اس سے زیادہ اسے نہیں دیکھا دل میں خوف لاحق ہوا ___” وہ کچھ دیر سوچتی اپنے اعصاب مضبوط بناتی اسے نظر انداز کرتی تیز تیز چل پڑی جب اسے لگا وہ بائیک سے اتر کے اس کی طرف آ رہا ہو ___” وہ تیز تیز قدموں سے تقربیاً بھاگنے لگی مگر پھر بھی قدموں کی آہٹ واضح سنائی دے رہی تھی ___”
ایک بھیڑے نما انسان کو دیکھتی اپنی عزت کو بچانے کی خاطر وہ تنگ سی گلی میں گھس گئی ایک گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کہ جلدی سے گیٹ کے اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرلیا قدموں کی آواز قریب آتی ختم ہوگئی تو دروازہ کھول کہ باہر نکلی اور پھر تقربیا بھاگ کہ اپنے گھر میں پہنچی ___” اماں پلنگ سے اٹھتی اسے یوں دیکھتی اٹھ کہ اسکے پاس آئیں ___”
اے نورِ حرم کیا ہوا میری بچی ___” اس کی پھولی ، اسکے بکھرے حلیے ، آنسؤ تر بتر چہرہ دیکھ کہ اماں کو ہول اٹھے دل پہ ہاتھ رکھ کہ اسے پوچھا اس کی حالت کو دیکھتے اسے پکڑ کہ پلنگ پہ بیٹھایا ___”
ام__اماں آپ کی بیٹی کسی دن اندر سے ختم ہوجائے گی ___” وہ روتے ہوئے کہنے لگی دل کیا ڈھاڑیں مار مار کہ روئے ___”
اماں مجھے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دیں اپنی ذات کا ماتم کرنے دیں __” وہ اماں کو پاس بیٹھے دیکھ کہ خفگی سے بولی __”
ہوا کیا ہے بتا تو سہی میری بچی ___” اماں نے اس کے پرس کو سائیڈ پہ رکھتے فکر سے پوچھا ___”
کیا مانی نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی ہے تیرے ساتھ ___؟ اس کے حلیے سے یہ اخذ کیا ___”
جب سر پہ باپ جیسی مضبوط چھت نہ اور بغیر توں کے سامنے سینہ تان کہ دفاع کرنے والا بھائی نہ ہو تو پھر
یہ ہی سب کچھ ہوتا ہے __” وہ رندھی آواز میں کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئی اور دروازہ اندر سے بند کرلیا تھا
جب کہ اماں تولتی نظرقں سے دیکھتی رہی اور پھر بغیر اصل حقائق جانے اٹھ کہ زارا بیگم اور ماسٹر صاحب کے پاس چلی آئیں __”






دیکھیں بھائی صاحب ___” میں نے کبھی مانی کو غیر نہیں سمجھا ایک دماغ ہونے کی حثیت سے ہمیشہ اس کی عزت کی اس کی حرکتوں اور بری خصلتوں کے باوجود بھی اپنی پھول جیسی بچی کو آپ کے سپرد کیا حالانکہ اپنی بیٹی کی آنکھوں میں میں نے واضح شکوے دیکھت تھے اور اب بھی زارا نے جب مجھ سے رخصتی کی بات کی تو میں نے اس بارے میں غورو فکر کی اور میرا بھی دل تھا کہ علیزے کے ساتھ ہی نور حرم کی رخصتی کردوں وہ پانچ سال سے میری خدمتیں ہی کرتی آئی ہے ماں ہوں اسکی میرا بھی دل ہے کہ میری بیٹی کا بھی خوشیوں پہ حق ہو لیکن آج پھر سے مانی نے اسکے ساتھ بدتمیزی کی ہے اس کا باپ نہیں ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لا وارث ہے خود کو کمرے میں بند کرلیا ہے آپ اس کو سمجھائیں نہیں تو پھر مجھے سمجھانا آتا ہے ___”
کہاں ہے وہ اُلو کا پٹھا بغیرت شخص ___؟؟ وہ غیض و غضب سے اٹھ کھڑے ہوئے ان کی ڈھارتی آواز پورے گھر میں گونجی وہ غصے سے کمرے سے نکلے زارا بیگم بھی پیچھے ہی نکلیں ___” مگر انھیں ٹہلتا دیکھ کہ صائمہ بیگم کو لیے اندر چلی گئیں __”
کچھ دیر وہ صحن میں ٹہلتے رہے جب وہ اپنے دھیان میں گھر میں داخل ہوا اور پھر ماسٹر صاحب کا غصہ عود آیا وہ خود چلتے دروازے تک اس کے پاس آئے ہمیشہ کی طرح اُن کا پہلا وار اس کا گریباں تھا ___”
تیری ہمت کیسے ہوئے میری بھیتجی کو ہراس کرنے کی __؟؟ تو خود کو اتنا نامی سمجھتا ہے __ ” مسئلہ سارا میرے ساتھ ہے توُ نے بچی کو کیوں تنگ کیا __” اس کے منہ پہ تھپڑ مارتے وہ چیخ اٹھے تماشہ شروع ہوگیا زارا بیگم کی ممتا بعض اوقات ہار جایا کرتی آج بھی ہارنی تھی وہ اندر تھیں مگرشو رو غل سن کہ دل بیٹھا اور اندر صائمہ بیگم کے پاس بیٹھی رہیں کیونکہ یہ چخ چخ تو روز کا معمول تھی بیٹا باپ سے بدگماں تھا اور باپ بیٹے سے بدگماں تھا ماسٹر صاحب نے ابھی تک اس سے بلانا گوارا نہیں کیا جس دن سے بخش محمد کی بیٹی کا سنا تھا انھیں تو ہمیشہ اس میں سے ہی خامیاں نظر آتی تھیں ___
اب کیا گناہ ہوگیا مجھ سے ___؟؟؟ کیا قصور ہے میرا ؟
وہ در پے در تھپڑ کھا کہ بھی پرسکون نظر آ رہا تھا کیونکہ نو سال کی عمر سے مار ہی کھاتا آیا اب تو ٹرین ہی ہوگیا گویا اب یہ مار ___مار لگتی ہی نہیں تھی ابا مارتے پہلے تھے وجہ بعد میں پوچھتے تھے اور آخر میں یہ کہہ دیتے باپ ہوں تمھارا حق رکھتا ہوں تم پہ ___”
گناہ ہوتا کبھی نہیں ہے گناہ کیا جاتا ہے اور توُ نے یہ کیا ہے ___” مرد کا بچہ ہے تو مجھ سے بات کر یوں اسے گلیوں میں ڈرانے دھمکانے کی ضرورت نہیں ہے __” اب کی بار اسے چھوڑ کہ گھورتے کہا ___”
مرد کا تو نہیں معلوم مگر آپ کا تو بچہ ضرور ہوں اب آپ بتادیں کہ آپ مرد ہیں ___؟؟کیونکہ باپ ہونے کے اصل حق تو آپ نے مجھ پہ ہی لٹائے ہیں اس کی آنکھوں میں انھیں بغاوت نظر آئی اس لیے خاموش ہوگئے وہ کندھے اچکاتا اندر کی جانب بڑھ گیا پیچھے ماسٹر صاحب اپنے دل کی بھڑاس نکالتے برا بھلا کہتے رہے ہمیشہ کی طرح اس پہ اثر نہ ہوا ___”برآمدے میں جیسے ہی قدم رکھا تو علیزے نے اسکا راستہ روکا ___”
چاچی آئی ہوں ہیں اندر تم نے نور حرم کو کیا ہے __؟؟؟ سچ بتانا مجھے ___” کیا تمھیں اس پہ ترس نہیں آتا کیوں اسے خود سے خوفزدہ کرتے ہو اس کا باپ مرگیا ہے یا بھائی نہیں ہے اس لیے ___” شوہر ہو اس کے سر کے سائباں مگر وہ تم سے محفوظ بھی نہیں ہے کیوں __؟؟تائی امی بتا رہی تھیں کہ وہ رو رہی تھی اس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا ہے
اگر ایسا ہی صائم میرے ساتھ کرے مجھے پریشان کرے تو تم اسے معاف کرو گے__؟؟؟ وہ کرے بھی تو تمھیں کیا فرق پڑے گا تمھیں کونسا رشتوں کا احساس ہے نشے کی پُڑی نے تمھیں دنیا بھلا رکھی ہے ماں باپ ، بہن بھائی پھر کیا چیز ہے ___”
بکواس بند کرو اور یہ لیکچر سسرال والوں کو سنانا مجھ پہ مت اپلائی کرو ___” وہ تنک گیا اس لیے اسے جھڑکتا پھر سے باہر نکلا اور نورِ حرم کے رونے کا سن کہ ابا کو دیکھا جو عصر کی نماز گھر ہی پڑھ رہے تھا ابا کو نماز پڑھتا دیکھ کہ سیڑھیوں کی طرف بڑھتا تایا کے گھر کی طرف بڑھ
گیا __”