راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 23

زعفران اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ان کی زندگی کے صحفوں کو غلط گردانتا بلکہ پوری کتاب ہی پھاڑتا برآمدے سے باہر نکل گیا جبکہ علیزے عالم صاحب کے چہرے پہ پتھریلے تاثرات دیکھتی بے انتہا اذیت میں گری جسے اپنے مکمل بھائی کی ذات کا اس حصے بہت بڑی تکلیف سے دو چار کیا ___”
ابو صبر کریں ___” ابا کے چہرے کو دیکھیتے جیسے اس کے الفاظ منہ میں رہ گئے جن کی ڈاڑھی پوری آنسؤ سے بھری ہوئی تھی اس نے تسلی و صبر کا سبق پڑھانا ضروری سمجھا اسکے علاوہ تھا ہی کیا ؟؟عالم صاحب نے اسکے چہرے کو دیکھا جیسے یاداشت واپس آئی شناسائی کی رمق سی چہرے پہ چھائی ___”
میں نے اس کےلیے کیا کیا نہیں کیا آج یہ کہہ رہا ہے کہ آپ نے میرے لیے کیا ہی کیا ہے ؟؟ میری زندگی کی بدنصیبی تھی جس کی سزا مجھے مل رہی ہے علیزے بچے سب سے بڑی غلطی تھی کہ میں ساری زندگی اس کو اپنے ہیرے جیسے بیٹے پہ ترجیح دیتا رہا وہ بیٹے کے روپ میں فرشتہ بن کہ رہتا رہامیرے گھر میں __” اور میں اس کے روح اور جسم پہ کوڑے برساتا __” کبھی مار ڈھار سے تو کبھی اپنے الفاظ سے __”
میں سمجھتا وہ شراب کی لت میں دنیا بھلا بیٹھا ہے لیکن اپنے مقصد کی فتح کےلیے شیدے کے ہوٹلوں کے ٹھنڈے فرش پہ یتیموں کی طرح راتیں گزرتا لاوراثوں کی طرح خود کو بھلائے بیٹھا رہتا میرے جیسے باپ سے تو بہتر تھا وہ یتیم ہی رہتا __”جس نے خود کو گروی رکھواکہ وفا نبھائی ___ وہ رو رہے تھے پچھتا رہے تھے کوئی تسلی کوئی حربہ کام نہیں آرہا تھا کچن میں بیٹھی زارا عالم سارے منظر کو درزیدہ نگاہوں سے دیکھا جہاں دونوں باپ بیٹی لاحاصل پہ رو رہے تھے __
اصول زندگی کا کھیل بن گئے روح کی بربادی کا حصہ نظر آنے لگے تھے زندگی صرف اصولوں پہ منحصر نہیں ہوتی ___ اس میں حسن ہوتا ہے نرمی محبت ڈانٹ ڈپٹ کے جلوے نمایاں ہوتے ہیں اصولوں کی بناء پہ بچپنے نہیں چھینے جاتے ___” سمجھوتوں کی بناء پہ بزدل نہیں بنایا جاتا ___”
عالم صاحب جیسے اصول پرست شخص اپنی زندگی میں ان رنگوں کی آشنائی سے نافہم رہے اور پھر یہ ترتیب اصول ، قبر کا ڈھیر بن گئے
ابو وہ آپ سے ناراض نہیں تھا پلیز آپ دل پہ لینا چھوڑ دیں صبر رکھیں وہ سب سے زیادہ محبت ہی آپ سے کرتا تھا اس کی بات میں سنجیدگی ، مذاق میں قہقوں میں اداسی میں تنہائی میں آپ کا ذکر ہوتا جس دن وہ اگر گھر آتا تو پہلے یہ ہی پوچھتا تھا کہ ابا کہاں ہیں ___”
علیزے کی ہر ممکن کوشش تھی کہ وہ ابا کو اس دکھ سے نکالیں صبر کی تلقین کرسکے مگر ان کا دھیان کچن کی انگھیٹی سے اڑتے آسماں میں گم ہوتے مرغولوں کے دھواں میں ٹھہرا تھا وہ خود کو اس میں گم ہوتا محسوس کرنے لگے تھے __
ابو آپ کا سر فخر سے بلند ہونا چاہیے کہ صالح ارمغان عالم کے باپ ہیں __” جہاں تک بات ہے ہم سب کی تو کسی نے بھی اسے محبت نہیں کی سب نے اسے دھتکارا ہے صرف اسی وجہ سے کہ وہ لاپرواہ رہتا تھا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں وہ بیٹا اچھا بن گیا ، بھائی اچھا بن گیا نورِ حرم کےلیے وہ آئیڈیل نہیں تھا مگر اب بن گیا ___”
اس کی زندگی کا سرمایہ ، اس کے انعام میں ملنے والے پیسے آپ کےلیے فخر کا بحث ہے میں یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ آپ سے خفا نہیں گیا___”
ہر کوشش ناکام ہوئی یقین دلاسے پچھتاؤں پہ غالب آجاتے ضمیر گھیسٹ گھسیٹ کہ زیادیتوں کی یاد دہانی کرواتا اور اس پہ عذاب یادیں جلتی پہ دل کا کام کرنے کےلیے کافی تھی __
❤❤❤❤
وقت گزرا تبدیلی آئی تو علیزے کی رخصتی سادگی سے کر دی گئی زارا بیگم اور عالم صاحب گھر میں تنہا رہ گئے وہ جس میں ان کے قہقے گونجتے تھے بلاوجہ کے بے ڈھنگے قہقے میں بستا وہ چھوٹا سا پر رونق سا آشیانہ بے انتہا ویرانیوں کی نظر ہوگیا زعفران نے بیٹا ہونے کا اتنا حق ادا کر دیا کہ علیزے کی شادی پہ اپنے بیوی بچوں سمیت آیا ایک بھاری رقم ان کے ہاتھ میں رکھی اور علیزے کے رخصتی ہوتے ہی واپس چلاگیا پھر سے چکر لگانا مناسب نہ سمجھا __” وہ فون نہ کرتا تو عالم صاحب نے بھی اسے تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا __زعفران سے گلے شکوے کرنا بھی چھوڑ دیے جو ابتدائی دنوں میں محبت اور تنہائیوں میں مجبور ہوکہ کرتے تھے کہ کبھی تو وہ محبت کی ڈھال بن کہ سامنے آ کھڑا ہوگا نہ ___
وہ دکان سے واپس آئے تو زارا بیگم کے پاس آ بیٹھے __” جو پلنگ پہ کوئی کڑھائی کرنے میں لگی ہوئیں تھیں وہ پانی پیتے ان کے پاس پلنگ پہ آبیٹھے جو اپنی سوچوں اور کام میں انہماک تھی کہ شوہر کے آنے کا معلوم ہی نہ ہوسکا __” کتنی دیر وہ گھر کی ہر چیز کو دیکھتے رہے یادوں سے روح کو تازہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ناکام ٹھہرے تو شریکِ حیات کو مخاطب کیا __”
زارا اب ہمارے پاس پچھتاؤں کے علاوہ کچھ نہیں بچا __” اللہ سے بس صبر ہی مانگ سکتے ہیں جو ایک دفعہ چلا جائے وہ واپس پلٹ کہ نہیں آتا __”وہ اللہ کی امانت تھا ہمارے ___” اللہ نے لے لیا اس میں اللہ کی ہی حکمت عملی ہوگی ___” آغاز بیٹے کی باتوں سے ہوا زارا بیگم چونک کہ انھیں دیکھنے لگی جن کا ذکر بیٹے سے شروع ہوتا اور بیٹے پہ ختم __” انھوں نے ان کی بات بیچ میں کاٹ دی تھی __
آپ کو پچھتاوا ہوگا عالم مجھے کوئی پچھتاوا نہیں اس کا خود سے بچھڑنے کا دکھ ہے ،
آج کتنے عرصے بعد عالم نام سے پکارا گیا جو ان پچھتاؤں بھری زندگی میں حیرت کا باعث تھا __”
انھوں نے چونک آبدیدہ نظروں سے بہوی کو دیکھا جو سوئی میں دھاگا ڈالتی جیسے اپنے بیٹے کی خیالوں کے جہاں میں گم تھے وہ بہت کم ، شاذرو ناذر ان کو نام سے مخاطب کرتی تھیں عام حالات میں مانی کے ابا یا احتراماً ماسٹر صاحب ہی پکارتی تھیں
صالح کے جانے کے بعد وہ خاموش رہتی تھی ، عالم صاحب کو مخاطب کرنا جیسے ترک کردیا تھا وہ جانتے تھے کہ وہ صالح کے دکھ میں رنجیدہ رہتی مگر وہ صابر و شاکر خاتون زبان سے اعتراض کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں تھیں پر کہیں نہ کہیں ان کو لگتا تھا کہ مانی کی اماں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے خفا ہوگئی ہو آج چار مہینوں بعد ان سے ہمکلام ہوئی تھیں تو کچھ حد تک دل سکون میں آیا___”
وہ میری آنکھوں کی بنیائی تھا میں نے اسے جتنی لاڈ محبت سے پالا تھا اُسکے بعد مجھے کوئی دکھ نہیں رہا کہ صالح میرے پیار کی حسرت اس دنیا سے لے کہ گیا ہو بس ایک دکھ ایسا ہے کہ شاید میں یہ بات دل سے ہی لگائے ہی اسکے غم میں جان کھو دوں ___ وہ خاموشی سے بیوی کو سنتے رہے جن کو ساری زندگی انھوں نے سنایا تھا آج پہلی دفعہ خاموشی سے سن رہے تھی __
جانتے ہیں صالح ستائیس رمضان کو دنیا میں آیا اور چھبیس رمضان کی ساری رات میں سجدے میں رہی اللہ نے اس رات مجھے ساعتِ سعید نصیب عطا کی پل بھر کےلیے زمین رک گئی آسماں جیسے ساکت ہوگیا ایسے لگا نظام دنیا بھی پل بھر کےلیے رک گیا ہو ایک طرف بارش کی پھوار ہو رہی تھی دوسری طرف آفتاب کی شعاعیں کی سنہری کرنیں پوری طرح پھیلی ہوئی تھی اور تیسری جانب جیسے رات کے وقت آسماں پہ چمکتے ماہ کامل کی مکمل روشنی جس کے نور سے وہ حصہ مکمل روشن تھا ____یہ دلکش منظر دیکھ کہ کہ جیسے رقت سی طاری ہوگئی رونگٹے کھڑے ہوگئے ایک پل میں سناٹے میں چلی گئی اور پھر چند گھڑیاں گزری اور ایک پل میں ابر الود صاف ہوگیا نظامِ آسمان و زمین چل پڑے بارش اور دھوپ کا نام و نشاں تک نہ رہا __” دل سے دعا نکلی کہ اے اللہ مجھے صالح اولاد نصیب فرمانا __ جو سیدھے فرش زمیں سے عرش بریں پہ گئی اُس دعا میں کوئی پردہ کوئی خلل باقی نہ رہا __” وہ ساعت اشارہ تھا ایک آہٹ تھی کہ جو بھی اچھا ہوگا بہترین ملے گا __
دوسرے دن رات کو اُس نے مبارک ساعت بن کہ اس دنیا میں قدم رکھے وہ بیٹا نہیں معجزہ بن کہ میری زندگی میں آیا ___” سوچتی تھی کہ معجزے تو نبیوں پیغمروں کےلیے ہوتے ہیں لیکن صالح کا آنا بھی میرے لیے معجزے سے کم نہیں تھا اور میری زندگی میں معجزے کا ہونا شاید ایک عام سی ماں کےلیے ناممکن تھا صالح نام کا صالح نہیں تھی میرا بیٹا عملاً صالح تھا میں جب جب اسے دیکھتی تو وہ مبارک گھڑی نظروں میں خوبصورت سماں بن کہ مجھے پاک کرتی رہی ، صبر کی تلقین کرتی رہی__” کوئی پچھتاوا نہیں ہے بس ایک کسک ہے کہ میں خود ہار جاتی اپنی ممتا نہ ہارنے دیتی ___” چند پل کےلیے ہاتھ رک سے گئے عالم صاحب کو زارا بیگم مغمومیت کی مکمل عملی تفسیر نظر آئیں __” عالم صاحب کے حلق میں کانٹے سے اُگ آئے ___” آنکھوں کو سارے مناظر دُھندلے نظر آنے لگے صالح جیسے آنکھوں کے نور کو ختم کر رہا تھا___
وہ جب تمھاری خواب میں آیا تو اُسے کہنا اب تمھارا باپ راتیں جاگ کہ گزراتا ہے زارا اسے کہنا تھوڑی دیر کےلیے ہی سہی ناراضگی ختم کرکے ایک دفعہ میری خواب میں مجھے آکہ مل جائے اسے کہنا اب تمھارا باپ جیتا نہیں ہے دو سوزیوں کے سفر کاٹتا ہے __”
اپنی تمام فرمانبرداریوں سمیت پچھتاؤں کی بھاری سل میرے سینے پہ رکھ کہ مجھ سے ناراض ہوگیا زارا میرے بیٹے کے بعد میرے سارے اصول و ضوابط اسکے ساتھ ہی لحد دفن ہوگئے __”
گرمیوں کی دوپہروں میں جب سب سکون سے پنکھوں کے نیچے ہرچیز بھلائے غافل ہوکہ سو جاتے اور تب وہ قہر برساتی گرمی میں چوکوں میں کھڑا رہتا نہ سردی کی پروا نہ گرمی کی تپیش کا خوف تھا میں سمجھتا تھا کہ وہ اپنے شوق کی وجہ سے رُل جائے گا وہ حقیقتاً رل گیا لیکن اُس کا شوق کیا تھا وہ میری سوچوں اور میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا صالح نے دربدر ٹھوکریں کھائیں ، وہ بچپن سے میری بے جا سختیوں کی وجہ سے دور ہوگیا اور مجھے لگتا تھا وہ بگڑگیا ہے وہ میرا بیٹا تو بن گیا لیکن میں اسکا باپ نہ بن سکا ___” جس جس چیز نے اسکا اندر ہلایا میں نے ان چیزوں سے اسے تکلیف دی تھیں
وہ میری رہتی زندگی کے ہر صحفے میں اپنی حسرتوں کی رقم داستاں کرگیا ہے جس کا خسارہ رہتی دنیا تک مجھے بھگتنا ہے اس نے مجھے کبھی غلط نہیں کہا لیکن وقت دیکھتا رہا اور وہ بدلے لے رہا ہے__”
لہجے سے بیاں ہوتی لفظ تھے حسرتِ آیات کی رقم بیاں تھیں ___”
❤❤❤❤
نورِ حرم ابھی تک جاگ رہی ہو __؟؟؟ تائی اماں جن کی آنکھیں پیاس کی شدت پہ کھلیں وہ پانی پینے باہر نکلیں تو اسے دوزنواں پلنگ پہ بیٹھے پایا شاید دل سوختہ سوچوں کے گھیرے میں الجھتا دیکھ کہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی___”
سوئی کب تھی ___” آنکھوں کے کنارے سے نمی صاف کرتے نورِ حرم نے بوجھل مگر کافی اختصار پن سے جواب دیا تو اماں بے اختیار اس کے مرجھائے چہرے کو دیکھتی کبیدگی کی کیفیت میں چلیں گئی وہ ان کی دور اندیش بیٹی تھی جس نے باپ کے بعد گھر کو احسن طریقے سے چلایا اور اب بھی خود سے منسلک رشتوں رشتوں کے احساس میں جیتی تھی مگر اپنے لیے اُس نے کب کا جینا چھوڑ دیا تھا __
وہ ماں تھیں جانتی تھی اس کی بےچین پرنم آنکھوں میں صالح ارمغان عالم اشک بن کہ ، یاد کسک بن کہ رہتا تھا سارا دن خاموشی سے کام کرلیا کرتی مگر ظلمت کی رات آنکھوں میں کٹتی تھی پچھلے دنوں صائمہ بیگم کی باتوں کو سنتی علیزے رتجگے پے اسے غصے سے سمجھایا تو اس نء ہنس کہ ایسی جواب دیا خود سمیت ان کو بھی خون کے رلایا ___”
جانتی ہوں صالح شہید ہوگیا ہے مگر اسکے باوجود صالح ارمغان عالم میری زیست میں شب کی تاریکی کے بعد مکمل آب و تاب سے چمکتا سورج بن کہ رہ گیا جس کی یادوں سے میں روشن رہتی ہوں جانتی ہو تمھارا بھائی میری زندگی کی سیاہ راتوں میں شب ماہتاب کا چراغ بن کہ چمکتا ہے __” اب لاحاصل کا رونا کیوں __ ؟؟ جب چاند دسترس میں تھا تو چاند لگتا کب تھا؟؟ اس وقت اس چاند میں داغ تلاشتی رہی وہ گرہن نما نظر آتا تھا اب جب پہنچ سے دور ہوگیا تو محض حسرت بن گیا __”
انھوں نے اسے کتنی بار سمجھایا مگر وہ الجھی بکھری و کیفیت کی سوچوں میں غلطاں اسے دیکھتی سمجھانے کا قصد ارادہ کرتی رہیں لیکن اس کی حالت دیکھ کہ اس کے ماتھے پہ پیار کیا اس کے اچھے نصیب دعا کرتیں کچن کی طرف بڑھ گئی اور وہ دیوانی خیالِ ہمسفر میں گم ہوگئی جو انتظار کی مہندی اس کے نام سونپتا کئی فرار ہوگیا تھا وہ آنکھیں جو جلدی سونے کی عادی تھی وہ اب صالح ارمغان کے وصل کی جستجو کرتی رہتی اسکے نگاہ کرم کی محو انتظار میں کوشاں رہتی __” وہ شخص ستاتا تھا اسکی باتیں بھولا نہیں پاتی تھی
صالح اسکی یادوں کا اسکی زندگی کا واحد مرکز بن گیا جس سے وہ کبھی سمجھ ہی نہ پائی اور یہ اس شخص کا کلام تھا کہ سمجھ کا گھر دور ہے تب اسے بالکل سمجھ نہیں آتی کہ اسکا مطلب کیا ہے حقیقی معنوں میں تو اب سمجھ آیا اس کے الفاظ سے مراد تھا کہ سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور اس نے صیح ہی تو کہا تھا سچ ہی تو تھا کہ وہ صالح ارمغان عالم کو سمجھنے کے باوجود بھی سمجھ نہیں پائی__” آج بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا پر اپنا آپ اس میں چھوڑتا دور کہیں اس میں گم ہوگیا
؎ پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
اک شخص اندھیرے میں اجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ شخص علم ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
الجھا ہوا ایسا کہ کبھی کھل نہ پایا____”
اور سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
وہ مل تو گیا لیکن اپنا بھی مقدر ___”
شطرنج کی الجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا
وہ روح میں تحلیل ہوگیا خوشبو کی طرح
جو دور بہت چاند کے حالوں کی طرح تھا __”
اب رونا تھا ، یادیں رہ گئی وہ اسے کن کن لقابات سے نہیں نوازتی آج وہ ہر جگہ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہیں تھا وہ اسکی زندگی کے سیاہی میں قندیل کی مانند چمکنے والی چمک تھا جسکی چمک شیشے سے باہر نکل کہ جگی کو روشن کرتی تھی __”
اسکے آخری الفاظ یاد آتے جو صرف لفظ بلکہ اس شخص کی پوری زندگی کا اثاثہ معلوم ہوئے نورِ حرم کو ان میں محض الفاظ نظر آئے بلکہ اس شخص کی زندگی سے موت تک کا سفر تھے وہ صرف لفظ نہیں بلکہ ان میں جذبات و احساسات کی طغیانی برپا تھی وہ اسکی آنکھوں میں دکھتے پاکیزہ نگاہوں کو غلاظت کا نام دیتی تھی جو اسے اپنی آنکھوں کا نور کہتا تھا وہ اپنے اس کو ہمراز کو گھٹیا کہتی رہی جسے اس کی خامیوں سے اسکی نفرت تک سے محبت تھی جو اتنا اعلیٰ ظرف تھا کہ وہ کہتی تھی کہ مانی تم غلط ہو اور مسکرا کہ گردن خم کے کہتا نورِ حرم صیح کہہ رہی ہو تم __” ان گزرے ماہ و بیاباں میں اسے احساس ہوا کہ دھتکارہ ہوا صالح نہیں تھا بلکہ وہ تھی جو برتری کے زعم میں دھتکاری گئی تھی اسے چاچو کے بیٹے کی چاہ ہرگز نہیں تھی بلکہ اسے تو سرے سے زعفران عالم کی ذات سے سروکار نہ تھا اسے دکھ ہوا کہ وہ اپنی محرومیوں کے بدلے سے صالح سے ناروا سلوک رکھ کے لیا کرتی کھلے عام اسے دھتکار کہ اسکی ناقدری کرتی رہی ___اور بدلے میں زندگی کا ایسا موڑ بھی آیا کہ زعفران عالم بڑے طمطراق سے اسکی ذات کی نفی کرتا اسے دھتکار کہ گیا وہ جسے کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل کہہ سکتی تھی وہ ایک خودغرض شخص کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ایک بھائی کو اس نے دھتکارا تھا تو دوسرے نے اکڑ کے زعم میں اسے دھتکار دیا ___
اسے صالح کی قدر نہیں رلا رہی تھی بلکہ اس شخص قدر کے بدلے میں دی گئی ناقدری رلا رہی تھی خسارے رولا رہے تھے __
بعض اوقات انسان بڑی ناشکری کرتا ہے اپنی اسی بے قدری کے سبب نایاب تر چیزیں گنوا دیتا ہے __”
❤❤❤❤❤
بتا سارا ڈیٹا کہاں ہیں ___” سامنے کھڑے شخص جو توند بڑھائے طویل قدو قامت صحت میں ہاتھیوں کو بھی مات دیتے ہر وقت اس کی رکھوالی کےلیے تیار رہتے ٓآج چار مہینے ہوگئے تھے اسے دنیا کی چکا چوند ، دیکھے ہوئے وہ ان گزرے دنوں میں ہر مظالم برداشت کر چکا تھا ہر وہ ظلم جو تاریخ میں لکھے جاتے تو صالح عالم کے وفا کی داستانیں قائم ہوتی وہ وار گویا ہنس کے سہنے کو تیار تھا___”
اپنے مضبوط ٹھکانے پہ ___” غلافی آنکھیں اس پہ ٹکائے ازلی سکون سے جواب دیا گیا ___
چوڑا سینہ گھنے بڑھے بال ، چہرے پہ جابجا تھپڑوں کے نشان ، زخموں سے چور بدن، فرش پہ باندھا ہوا وہ زندگی سے ہارا خود سے جیتا ہوآ شخص ، ، جسے ذہنی و جسمانی تکلیف سے نوازا گیا اسے ٹارچر کیا جاتا اور ابھی تک کوشش عروج پہ تھیں اسے زنجیروں سے باندھا گیا تھا کال کوٹھڑی نما بند اس کمرے میں بھاری کم سانڈوں نے نکلوانے کے چکر میں اپنی حراست میں لیے چونچ مارتے کوؤں کی طرح اسے بے بس ناتواں پنچھی کی طرح شکنجے میں گھیر رکھا تھا اسے زنجیروں سے بہت کم رہا کیا جاتا اور اس وقت بھی رکھوالی کےلیے ہروقت اعوان کے دو چیلے تھے کچھ وقت رہا کرکے پھر سے کھانے میں ادویات ملا کہ بے نیم بے ہوشی کی دوائی دی جاتی تھی ___”
چہرے کے خدو خال کی تروتازگی کئی زائل ہوگئی اس سارے معاملے واحد تھیں تو آنکھیں جو دشمنوں کا کام تمام کرتی تھیں ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اسکی غلافی آنکھیں کی چمک چھین لیں جو چار مہینوں سے ویسی کی ویسی تھیں جنہیں ویسے ہی رہنا تھا چہرے پہ مسکراہٹ ، آنکھوں کی چمک جو غلافی آنکھوں والے شہزادے کو ممتاز بناتی تھیں وہ جتنا مسکراتا اتنا ہی دشمنوں کا دل جلتا ___”
توُ نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے دوٹکے کے گلی کے غنڈے __” وہ اسکے اوپر جھکتے غرایا جسے اعوان اعوان کے نام سے پکارتے تھے اس کی ایک پکار پہ اس کے چیلے اس کی پکار پہ حاضر ہوتے ، اسکے دہشت پہ ہبیت ناک رہتے جو اس پلان کا مائنڈ ماسٹر تھا تجھے لگا ہے__
تو خاموشی سے صفایا کرلے گا میرے گروہ کو ملا کہ مجھ سے غداری کرے گا تو یہ تیری بھول تھی تجھے لگا تھا کہ اعوان بے وقوف ہے جو تیرے کھیل کی چالوں کو نہیں سمجھ سکے گا ہے نہ یہ ہی سمجھا تھا کہ مجھ میں عقل نہیں ہے __” ذرا سا جھکتے چہرہ سفاکیت سے اٹھاتے اسے تائید چاہا رہا تھا ایک قات”ل سی مسکراہٹ جو ہنوز قائم رہتی __” آج بھی نہ جدا ہوئی تھے چہرے سے ___” کال کوٹھڑی نما کمرے کے بند ، گھپ اندھیروں میں اُس زمانے کے دھتکارے ہوئے شخص اور خود سے ہارے شخص کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ ایک چھوٹی سے جلتی لو کی ٹمٹاتی روشنی کا آسرا باقی تھا __
الحمداللہ____” ماشا اللہ ___” سمجھنے کی کیا ضرورت ہے عقل اتنی کہ ٹخنوں سے بہتی نظر آ رہی ہے اور خود ہی سوال خود ہی جواب ___” چہرے پہ مسکراہٹ سجاتے وہ سمندر جیسی گہرائی رکھنے کا مالک انسان جس کی شخصیت کا ظرف اتنا بڑا کہ تمام طنز تمسخر ہنس کہ سہہ جاتا ، اپنی ذات کی برائی دیکھ کہ خاموشی اختیار کرلیتا تھا آج پہلی دفعہ ان سب کے سامنے لہجہ بڑا طنز بکھیرتا سا تھا___
ماننا پڑے گا اکڑ تجھ میں بہت ہے لیکن کیا فائدہ اس اکڑ کا ___” جب یہاں پڑا پڑا سڑ گل جائے گا اور جس مقصد کےلیے تو لڑ رہا ہے وہ بھی دھرے کا دھرے رہ جائے گا کسی کو تیری خبر بھی نہیں ہوگی تیرا گوشت کتے بھی کھانا پسند نہیں کریں گے تیری ہڈیاں اسی اندھیر کوٹھڑی میں زنجیروں میں جکڑی پڑی رہ جائیں گی ___” اسکا لہجہ سن کہ مسکراہٹ صالح کے چہرے کا حصہ بنی اس کا لہجہ بڑا اطمینان سے بھرپور لگ رہا تھا
مسکراہٹ میں کئی راز دفن تھے __”
یہ میری غلامی کی زنجیریں ہوتی تو شاید توڑ نہ پاتا اعوان لیکن یہ تیری ہار کی زنجیریں ہیں جنھیں توڑنا میرا مقصدِ اول بن چکا ہے ___” انداز بڑا جتاتا سا تھا لہجے کا ٹھہراؤ واضح کر رہا تھا کہ صبر کمال کا ہے ___”
تیرے لہجے سے بغاوت کی بوُ آتی ہوگی ضرور ___” ممکن تو تب ہوگا جب توُ اس زنجیر سے خود کو آزاد کروائے گا یہ عام زنجیریں نہیں ہے لوہے کی ہیں لوہے ___” تیرا چمڑی ادھر سکتی ہے وجود کے چٹھیرے تو ہوسکتے ہیں لیکن یہ زنجیریں نہیں ٹوٹ سکتی ___”
اعوان نام ہے میرا کچی گولیاں نہیں کھیلی کبھی ___” شطرنج کی اس کھیل کا پرانا کھلاڑی ہوں بڑے بڑے سورماؤں کو پچھاڑا ہے اپنی اس طاقت کے بل بوتے پہ اور تو کل کا بچہ کیا چیز ہے دو دن گلی محلوں میں کیا بیٹھا خود کو بدمعاش ہی سمجھ لیا ___” للکارتے ہوئے اس کے بالوں کو کھینچتے پھر سے اسکی تھوڑی کو دبوچتے اس کے منہ پہ یکے بعد دیگرے کئی طمانچے رسید کیے تھے ___” صالح بندھا ہوا تھا مزاحمت تک نہ کرسکا دماغ کئی رازوں کے تالوں میں بند تھا پر سوچوں کی چابیاں ان تالوں کے وار کو کھولنے بے چین تھی ___
تین دن کا وقت ہے تیرے پاس ___” جو کچھ کرنا جلدی کرنا میرے بندے تیرے پاس ہیں ___” ابھی جا رہا ہوں خیال رکھنا اپنا ___” پچکارتا لہجہ جو مار ڈھار دھمکی کے بعد استعمال کیا جاتا تھا آج بھی تقریباً وہ شخص اسے موت تک کا درد دے کے گیا تھا کہ وہ اگل دے لیکن یہ ان کا وہم ٹھہرا تھا __
اس کے پاس سے انھوں نے ہر چیز چھین لی تھی ایک واحد ہتھیار تھا جسے وہ بہت کچھ کرسکتا تھا اعوان اگر کھیل کے مہروں کا پکا کھلاڑی تھا تو اس کے مخالف بھی صالح ارمغان عالم تھا جو نہایت راز داری اور خاموشی سے چال چلتا تھا چال کی سمت کا تعین بھی خود منتخب کرتا __دشمن اس کے کھیل سے صیح طرف واقف بھی نہ ہوتا اور جیت جاتا تھا شطرنج میں بھی احتیاط سے اپنی چال کا انتخاب کرتا ___ وہ صالح ارمغان عالم تھا جو جنگیں ہتھیار سے زیادہ دماغ سے لڑنے کا عادی تھا کیونکہ اس کے نزدیک دماغ سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں تھا__
وہ اکثر کہتا کہ زندگی بذات خود کھیل ہے دنیا کھلاڑیوں سے بھری پڑی تھی وہ کھلاڑی نہیں تھا نہ وہ کھلاڑی بننے کا خواں تھا وہ گیم چینجر تھا پل میں کھیل کے پاسے کو پلٹنے والا ___” جس کھیل میں اسے مخالف کے جیت کے امکانات نظر آجاتےپھر وہ اپنے حصے کی جیت کی بھی بازی پلٹ دیتا مگر مخالف کو بھی جیتنے کا موقع بھی نہیں دیتا یا تو جیت جاتا تھا بہت کچھ سیکھ جاتا تھا___”
اعوان تو اتنا بیوقوف تھا کہ اسے ابھی تک اسکے پیشے کی حقیقت کا علم نہ ہوا وہ اسے بھی کوئی منشی”ات فروش ہی گردان رہا تھا وہ بڑی خاموشی سے اس کھیل میں شامل ہوا __
کچھ جنگیں تنہا لڑنی پڑتی ہے اور پچھلے چار مہنیوں سے وہ تنہا ہی تو لڑ رہا تھا دشمنوں کی کمزوریوں کا ہنر اچھے سے تھا وہ فطرتاً بولتا کم تھا تولتا زیادہ تھا یہ اسکی شروع سے عادت رہی تھی ___”
اس اندھیر کوٹھڑی میں زخموں سے چور جسم تھا لیکن دماغی حالت مستحکم رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا رھا اور وہ کامیاب بھی رہا تھا ایک چال اعوان چل کے گیا تھا ایک اس نے چلنی تھی اس چال میں مصائب تھے سفر مشکل تھا لیکن اس نے چال حق کےلیے لڑنی تھی یقینا وہ کامیاب ٹھہرتا ___” کھیل وہی تھا بس کھیل کھیلنے کا انداز مختلف ہونے والا تھا ایک مسکراہٹ جو سب بھسم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی
؎ تسکین نہ ہو وہ جس میں وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پائے ہمراز بدل ڈالو ____”
تم نے سنی ہوگی بڑی عام کہاوت ہے ___”
انجام کا ہو خطرہ تو آغاز بدل ڈالو ____”
پرسوز دلوں کو جو مسکان نہ دے پائے ____”
سُر ہی نہ ملے جس میں وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ہے اگر ظاہر کرنا ___”
تم کھیل وہی کھیلو انداز بدل ڈالو ____”
اے دوست کرو کچھ ہمت کچھ دور سویرا ہے
گر چاہتے ہو منزل تو پرواز بدل ڈالو___”
(علامہ اقبال )
❤❤❤❤❤
زندگی بڑی عجیب سی ہوگئی علیزے کی شادی چار ماہ ماہ بعد سادگی سے کر دی گئی اب وہ سکول آنے جانے لگیں معمولاتِ زندگی چل پڑی وہ زارا چاچی کو باقدہ گھر کا کام کروا دیا کرتی تھی زندگی پھر سے عام حالات پہ آگئی تھی وہ سکول سے واپس آتی تو کوئی اس کے انتظار میں ڈھیٹ مسکراہٹ لیے سینے پہ ہاتھ باندھے بکھرے سے حلیے میں کھڑا نظر نہ آتا تو دل کٹ جاتا وہ انا پرست لڑکی صالح ارمغان عالم کے قدموں کے نشان ڈھونڈتی رہ گئی یہ جانتے ہوئے بھی خاک سے بنے نقش و نگار ٹوٹ جاتے ہیں مٹ جاتے ہیں ___”
اسکے بعد اسے اس شخص سے منسلک اسکے تمام رشتوں سے محبت رکھنی تھی انھیں نبھانا تھا اور وہ نبھا رہی تھی آج بھی زارا چاچی کا کمرہ صاف کرتے باہر نکلی تو نظر بند دروازے پہ پڑی ___” پچھلے چارہ ماہ سے وہ کمرہ بند رہتا ماں باپ نے شاید بیٹے کی یادوں کو دیکھ کہ پچھلے زخم ادھیڑنا مناسب نہ سمجھا ___”
نورِ حرم نے فراقِ یار کے ہجر میں خود کو کھالیا اس کے بعد کیا اس سے پہلے بھی وہ اسکے کمرے میں کبھی نہیں آئی آج بے اختیار قدم اس کے قدم بڑھے تھے جو اس نے روکنا مناسب نہیں سمجھا __سمجھتی بھی تو کونسا انھوں نے رک جانا تھا ___
دروازہ کھولا تو اس خالی سے کمرے کو خالی نظروں سے دیکھنے لگی جس کی خوشبو کا احساس ہر لمحہ آس پاس تھا اس نے کمرے میں چکر لگا کہ دیکھا ہلکی ہلکی گرد ، بیڈ سلوٹوں سے بھرا تھا اس کی کچھ تصویر اسکا سامان جن پہ وقت کے ساتھ ہی دھول پڑگئی تھی___”
وہ ہر چیز کو بے اختیار چھوتی گئی جہاں اسکا آخری لمس تھا اس کمرے میں اسکی خوشبویں ، اسکی یادیں بکھری ہوئی تھی اور علیزے بتا رہی تھی کہ اسی رات کو تو وہ پہلی اور آخری دفعہ اس کمرے میں ٹھہرا تھا وگرنہ بٹیھک ، بالکونی کے کمرے میں ،گلیوں یا ہوٹلوں میں اسکا بیسرا ہوتا وہ گلی کوچوں کا ہمراہی ایک راستے کا مسافر کہاں رہا تھا؟؟ وہ راستوں کی تلاش میں نہیں میں منزلوں کی کھوج میں رہتا تھا ___”
اس کی ایک ایک چیز کو چھوتے دل اختیار میں کہاں رہا دیکھتے دیکھتے آنسؤ سیلاب کی صورت اختیار کرگئے الماری کی طرف بڑھتے کتنی بار اسکے قدم ڈگمگائے آنکھیں صاف کرتے الماری کھولی تو ایک اذیت کن سی مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کیا ایک سے بڑھ ایک قمیتی لباس وارڈ روب میں ٹنگا ہوا تھا یہ کپڑے اس کے شگن کے تھے جو پہننے نصیب نہ ہوئے صالح کے سوٹ زیادہ تر سفید رنگ کے لباس تھے اسے سفید رنگ سے عشق تھا اور ہمیشہ کےلیے وہ رنگ اوڑھ گیا تھا __”
اسکی نگاہوں میں بے اختیار وہ رات گھوم گئی بکھرے سلوٹوں نما سفید لباس میں ملبوس کبھی سرگوشیاں ، کبھی گزارش کرتا ، توکبھی تحکم جماتا ، کبھی خفا سا تو کبھی ہنستے ہوئے یاد آیا ___”
دراز کھولتے وہ ہر چیز کو بڑی فرصت سے دیکھ رہی تھی اسکی بیش بہا قمیتی گھڑیاں پرفیوم سلیقے سے رکھے گئے تھے وہ بڑے استحقاق سے دیکھتی گئی جب نگاہ مخملی لال رنگ کی ڈبیا پہ پڑی بری طرح چونکتے اس نے اٹھا لی ہاتھ بڑھاتے اس نے کھول کہ دیکھا ڈبیا کے اندر ٹشو میں لپٹے میں کوئی چیز تھی جسے کھول کہ دیکھا وہ دنگ ہی تو رہ گئی آنکھیں پھیل گئی یہ توچ وہ ہی جُھمکے تھے جو اماں کی بیماری پہ باحالتِ مجبوری میں اس نے اسے بیچینے کا تہیہ کرکے اسے دیے تھے کہ اسے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے نہ پڑے اس دن جب صالح سے رسیدوں کا پوچھا تو وہ سر پہ ہاتھ مارتے ناعقلی کا رونا روتے یہ کہہ گیا کہ وہ کہیں گر گئی ہیں دراز میں نکاح کی تصویر جس میں وہ نظریں نیچے کیے اس سے دور بیٹھی جبکہ اس شخص کی پرخلوص نگاہیں اس پہ ٹکی تھی اور ان نگاہوں میں شوق کا اک جہاں آباد تھا تصویر کے پچھلے حصے پہ دو لفظ کنندہ تھے جس پہ واضح حروف میں صالح کی نور لکھا ہوا تھا__ ان لفظوں میں محبتوں کے خزانے آباد تھے اسکی آنکھوں میں آنسؤ آگئے کیا وہ انمول تھی___؟؟
اپنی نظروں میں تو ہمیشہ عام سی ہستی رہی اس شخص کی نگاہوں میں کتنی خاص تھی یہ اسے اس لمحے معلوم ہوا کہ آج وہ انمول ہوگئی ہے __ انمول تھی یا انمول کر دی گئی تھی انمول تو اسی دن ہوگئی جب وہ اس شخص کے عقد میں آئی تھی __” پر ہائے رے یہ افسوس ___” کاش __” رہ گیا اس کی زندگی کا دائرہ اسی شخص کے گرد گھوم رہا تھا جو محض کاش بن کہ رہ گیا تھا__
نورِ حرم بچے ___” زارا چاچی اسے پکارتی ہوئی اندر چلی آئی جو ہر چیز پھیلائے روئے جا رہی تھی __”
میں نے سوچا گھر توُ چلی ہوگی ___” بنا اسکے تاثرات
دیکھتے وہ اپنی دھن میں مخاطب ہوئیں مگر آنسوؤں سے تر آنکھیں دیکھ کہ تڑپیں __” یہ پوچھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ کیا ہوا ہے ___؟؟ درد سہنے والے کہاں پوچھتے ہیں کہ درد تو نہیں ہو رہا وہ بس غم بانٹے ہیں ___
چاچی ___” کاش ___کاش __ہچکیاں بند ہوگئی
کاش میں اس زندگی میں روبرو ہوکہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ سکتی محشر کے دن کا کیسے انتظار کروں گی اس نے کہا تھا میرے بغیر نظامِ کائنات چلتا رہے گا قافلے نہیں رکے گے دنیا ویران نہیں ہوں گی اُس نے غلط کہا تھا چاچی وہ میرے دل کی دنیا صرف ویران نہیں کرکے گیا تباہ و برباد کر دی ہے اجاڑ کے رکھ گیا ہے میرے لیے ہر چیز رک گئی ہے وقت رک گیا ہے اتنی بڑی زندگی اسکے بغیر کیسے کٹے گی __؟؟زارا بیگم اسکی بہکی بہکی سنتی رہ گئیں جو ضبط کھو رہی تھی ___” اور وہ بکھری ماں اسے سمیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی__
❤❤❤❤❤
مزید وقت گزر گیا وہ ابھی تک زنجیروں میں قید تھا اسے اپنی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا اس کے پاس بیٹھے دو بندے جو اس کی رکھوالی پہ معمور کئے گئے وہ اُن سے کچھ حد تک تعلقات بناتا ان کے اندر گھستے انھیں تلاشنے کی کوشش کرتا مکمل بھانپ چکا تھا وہ جسمانی طور زنجیروں سے بند ہوا تھا قید میں جھکڑا ضرور تھا لیکن دماغ کسی قسم بھی قید و بند سے آزاد تھا اعوان کو پانچ دن پہلے لفظوں لفظوں میں اشارہ دے چکا تھا لیکن اعوان سمیت اسکے بندوں کو اس پہ بھروسہ نہیں تھا وہ کر بھی کیسے سکتے تھے وہ بازی گر ہی ایسا تھا ___”
وہ بھی جلد باز ہرگز نہ تھا اسے اس کے ساتھی اکثر اوقات مذاقِ سخن میں اسکے نام سے کم جبکہ مخزنُ الاسرار کے نام سے زیادہ مخاطب کرتے __” اور وہ اسی نام کی تو لاج رکھ لیتا ان چھ مہینوں میں باہر کی دنیا نہ ہونے کے باوجود بھی رازوں کا پوشیدہ خزانہ سمیٹے ہوا تھا __”
اپنوں کی محفل سے چھڑوا کہ لایا گیا مجھے اس شہرِ محبت میں کچھ تو خیال کرلو یاروں میرا__ ” پانی نہیں پلا سکتے تو ایک سوٹہ ہی لگوا دو ___” چکراتے سر پہ قابو پاتے اس نے بمشکل آنکھیں کھولتے قہقے لگاتے کہا اس کی رگِ ظرافت آج کل بہت پھڑکنے لگی تھی وہ جب بھی ہوش میں آتا تو بہکی بہکی باتیں شروع کر دیتا پہلے پہل تو اس پہ توجہ دینا کسی نے مناسب نہ سمجھا مگر جب سے اُن کے مطلب شباب ، شراب پہ باتیں ہونے لگی وہ بھی دلچسپی رکھنے لگے یہ بات اس نے نوٹ کی اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی ___”
ٹھرک پن میں تو اس نے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ؟؟ اب اسکا مقصد کیا تھا یہ وہ بہتر جانتا تھا __”
اعوان دو دن کےلیے نئے شکار کی تلاش میں گیا ہوں اور اس کے آنے سے پہلے اس نے ایسی چال چلنے کا تہیہ کیا تھا اور اعوان کی مخبری اسکے چیلوں سے معلوم ہوئی تھی __”
❤❤❤❤❤
کیا ہوا آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا ___؟ عالم صاحب کو کروٹیں بدلتے بے چین دیکھتی اٹھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا جو صالح کی تصویر کو دیکھ رہے تھے چہرہ آنسؤ سے تر تھے __”
نہیں ہوں میں ٹھیک مجھے اس سے کی ہوئی زیادتی سونے نہیں دیتیں ___” ہر روز کی باتیں اسی نقطے پہ ٹھہر گئیں بیٹے کی جانے کا رنج سوتے ہوئے اٹھا دیتا ___” وہ راتوں کو اٹھ کہ صالح صالح گردان کرتے رہتے ___” جواں بیٹے کا دکھ دنیا بھلا گیا
اسے کہو آجائے ایک دفعہ اپنے باپ سے مل جائے ___مجھے میری زیادیتوں کی سزا نہ دے میں ساری عمر زندگی کے نشیب و فراز کی کھٹانئیاں جھیل گیا ہوں لیکن اسکا غم نہیں جھیل پا رہا ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ زخم بھرنے کی بجائے تازہ ہوتا جارہا ہے ایسے لگتا ہے صالح نہیں گیا میری آنکھوں کا نور چلا گیا ہے ___”
معمول کی طرح آج پھر ان کی رات پچھتاؤں اور نارسائیوں میں گزرنے والی تھی سارت رات دل کسی جلتی لکڑی کی مانند سلگنا تھا وہ تہجد کے وقت کا انتظار کرتے کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور ان کی آنکھوں کا نور واپس آجائے ___”
زندگی کوئی شرط نہیں رکھتی ، کوئی قمیتی وقت نہیں مانگتی گزر جاتی ہے یہ نہیں کہتی کہ میں فلاں کے بغیر ہرگز نہیں گزروں گی ادھوری رہ جاؤں گی___” کسی کے ساتھ بھی کسی کے بغیر بھی ، کسی سے پہلے بھی اور کسی کے بعد بھی ، گزر جاتی ہے بس ہوتا یہ ہے کہ جینے کے انداز بدل جاتے ہیں اور صالح کے بعد ان کی پوری عمر کا تختہ الٹ کہ رہ گیا اور تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا _”
❤❤❤❤❤❤
اُستاد __اُستاد ___” رات سے یہ لڑکا حرکت نہیں رہا ہے کہیں یہ مر ور گیا ہے ___” اعوان کے آتے ہی وہ اسے اطلاع دے رہے تھے جو تیزی سے بھاگتے بے حس پڑے مانی کے پاس دو نوزواں ہوکہ بیٹھا اس نے اسکے منہ ہلایا اسکے بال کھینچے لیکن حرکت نہیں ہوئی __”
جگ بھر کے پانی کا لا ____” اس دُوران ڈھارتے ہوئے وہ چلایا منہ سے مغفظات کا دریا جاری ہوا مٹی کے کچے گھڑے سے پانی لاتے اس پہ پورا جگ انڈیلا __”لیکن بے سود کوئی حربہ کام نہ آیا _ اس نے آنکھیں کھول کہ دیکھیں __پتلیاں ساکت تھیں _وہ غضب سے اٹھا اور پیچھے کھڑے دیوہیکل آدمی کا گریباں پکڑلیا __”
استاد استاد___” مم____میں نے کچھ نہیں کہا ___” وہ حقیقی وضاحت دیتے گڑبڑایا __”
مارنا ہوتا نہ میں اسے زندہ دفنا دیتا ذلیل انسان بڑی مشکل سے اتنا بڑا شکار ہاتھ آیا تھا لعنت ہو تجھ پہ اسے بڑے بڑے اڈوں کا علم تھا تو کیسے اتنا بیوقوف ہوسکتا ہے __” میں نے ساتھ مہینے اس کتے کو یہاں باندھ کہ روٹیاں ڈال رہا ہوں کہ کبھی تو بھونکے گا لیکن جب اس کے بھونکنے کا وقت آیا تو تیرے ہاتھوں پہ چھالے پڑگئے تھے _ __”
تجھے اگر میری ماں نے جنا نہ ہوتا تو میں میں تیری چمڑی ادھیڑ دیتا بغیرت ___” اگر اسے کچھ ہوا تیری قبر اسی کال کوٹھڑی میں ہی بناؤں گا __” وہ اسے ڈنڈے سے مار مار کہ تھکتا اس بے حس پڑے آدمی کو پاؤں سے ہلاتے گھونسے مارے ___” پھر ہر کوشش سے ناکام نیچے جابیٹھا __جب ہر طریقے سے وہ نبرد آزمائی کرتا رہا پھر ہلکان ہوتے دونوں ہاتھ سر پہ گراتے زمین پہ بیٹھ گیا __” آدھا گھنٹہ اسی حالت میں بیٹھا رہا ___”
بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آگیا ہے ___” اعوان جیسا دسیسہ کار شخص اب منہ چھپاتا پھر رہا تھا جس کا تعلق ہی د” غا دینے کے پیشے سے تھا ___”
زندگی سے بھرپور آواز کانوں میں پڑی تو حیرت کے جھٹکوں سے نکلتے وہ اٹھا ___”
استاد آج تیرے بھائی اور اسکے بندے نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ___” چڑھ گئی آج تو دماغ تک__شکر ہے بچ گیا ___” اسکے ارداے اور خو”ن خوار تاثرات دیکھتے ایسے صفائی دی گئی جیسے ایک ماں اپنے پانچ چھ سال کے بچے کو اپنے بڑے بہن بھائی کے پاس چھوڑ کہ بار گئی ہو اور وہ پیچھے سے کارستانیاں سناتا لاڈ اٹھانے کی خاطر خواہ تواضع کی کوشش کر رہا ہو___”
ڈیٹا بتا بغیرت انسان __بہت کھالی توُ نے ہماری مفت کی روٹیاں اب اور نہیں نمک حرام شخص ___” وہ تقربیاً غرایا تھا غصے میں تو وہ اپنا نفع نقصان بھول جاتا آج بھی یہ ہی ہونا تھا شاید ؟؟
مزے استاد یعنی پھر اب سے برگر کھلانے کا ارادہ ہے
دو بدو جواب دیتے آنکھ مارتے بولا جو اسکی ایک عادت تھی چہرے پہ بڑی زچ کرنے والی مسکراہٹ تھی وہ یہ تو جانچ ہی گیا کہ اعوان اپنے مقصد کےحصول کےلیے اسے ہرگز فنا نہیں کرسکتا اس نے تڑپ کا پتہ پھینکا وہ دشمن کی طرف تڑپ کا پتا پھینکتا آج اس نے اسکی تڑپ دیکھی تھی تڑپ میں انسان اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ ہر چیز دھندلی دکھائی دیتی ہے ___” وہ اندھا ہی تو کرنا تو چاہتا تھا اور ان سات مہینوں میں کوششیں بر لائی وہ جان گیا کہ اب دشمن اندھا ہے __”
اب وقت آگیا تھا اس جیسے شعبدہ بازی میں ماہر کے پاس شطرنج کے سارے مہرے تھے وقت اسکا تھا وہ اپنے مقصد کی فتح کے آخری دہانے پہ تھا___
ٹھیک ہے میں تمھیں سارے پتے بتاؤں گا اس کے عوض میری ایک شرط ہے قبول ہے ٹھیک نہیں تو __” زبان ہلکی سی باہر نکالتے دانتوں میں دباتے ایک آنکھ بند کرتے یکدم سے بات ادھوری چھوڑ دی __” اسے تڑپانے کا مزہ ہی الگ تھا ___
نہیں تو کیا سالے ____” پیچھے کھڑا دوسرے نے پیچھے رہنا مناسب نہ سمجھا وہ گالی دیتے آگے بڑھا جب اعوان ہاتھ کے اشارے سے روکا ___”
نہیں تو آرام فرمائیں گے اور کام کیا ہے ہمارا __” ابرو اچکا کہ آنکھیں کھولتے شہنشائی انداز اپناتے اپنی حکومت کا لوہا منوانا چاہا___”
بکواس کر _____” آنکھیں بند کرکے اشتعال پہ قابو پاتے مٹر گشت کرتے پرسکون کرنے کی ناکام کوشش کرتے وہ کہا گیا___”
اندازہ لگاؤ کتنی رقم تمھارے پاس آئے گی اسکا آدھ کرو اور پہلے میرے ہاتھ میں تھماؤ ___” آدھی آدھی تم چاروں رکھ لینا لیکن پچاس فیصد میرے پاس آئے گا ___” اسکے مطلب کی کمزوری سامنے رکھ کہ اپنی منزل تک پہنچنا چاہا وہ اسکے چہرے کے ایک ایک بگڑتے زوایے کو جانچتا رہا جو اسکی شرط سننے کے بعد مزید ناگوار ہوئے ___” پھر اس نے اس شاطر شخص کے چہرے پہ پراُسرار مسکراہٹ دیکھی وہ ایک لمحے میں اسکے دماغ میں چلتی سوچ کو پڑھ گیا مگر ظاہر نہ ہونے دیا ___”
کچھ حکم کریں ہم انتظار میں ہیں ___” اس نے پیچھے سے ہانک لگائی وہ مڑا اور ہاں کا سائن دیا اسکے شاگرد بھی ڈھیلے پڑھ گئے ___
استاد ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے لیپ ٹاپ یا کمپوٹر ہوا تو جگہ ٹریس کی جاسکے گی ___” اگر شرط قبول تو ٹھیک نہیں تو پھر ___”پھر سے بات ادھوری چھوڑتے کندھے اچکا دیے ___
تیرا ہر کام ہوجائے گا لیکن اگر اعوان کے ساتھ غد ” اری کی تو دوسرا سانس بھی لے پائے گا ___” سرخ آنکھیں اس پہ گاڑتے باور کروانا نہ بھولا تھا
اور پھر وقت گزرا اس ویران کوٹھڑی میں ایک ماحول سا سج گیا وعدے کے مطابق رقم اسکے پاس رکھی گئی کرسیاں اسکے پاس رکھتے وہ کسی فاتح کی طرح اسکے پاس ٹانگ پہ ٹانگ چڑائے بیٹھے __” اس خوشی میں ضیافت کا اعلان کیا گیا وہ سب اسکے گرد گھات لگا کہ بیٹھ گیا اسے لوہے کی بھاری زنجیروں سے آزاد نہ کیا گیا تھا بس سسٹم لگادیا گیا ایک چیپ لگائی گئی اور پھر وہ مصروف ہوا ہاتھ درد کر رہے تھے مگر مقصد سے اوپر کوئی چیز نہیں تھی ماتھا شکنوں سے بھرا تھا خاموشی سے انگلیاں کام کر رہی تھیں ___” پانچ منٹ تک ٹائپنگ کی گئی ایک می”ل بھیجی گئی تھی جس میں ساری وضاحت تھی ___”
وہ اسے اپنے گرد کوئی شیطان معلوم ہو رہے تھے جن کے چہروں پہ مکروہانہ مسکراہٹ تھی جن کا کام مطلب حاصل کرکے دودھ سے مکھی کی طرح نکال دینا تھا ___”
کب ہوگا تیرا یہ کام ____” ایک بے تابی سے بولا تو صالح نے درزیدہ نگاہوں سے دیکھا تھا ___”
مزید دس منٹ گزرے لوڈنگ جا ری رہی تھی وہ جب مطمن ہوا تو ایک منٹ میں سارا اگلا اور پچھلا ریکارڈ اڑتا سسٹم سمیت اگلے پیچھے راز کی بینادیں ہلا کہ رکھ گیا ___”
کچھ دیر بعد پھر سے سکرین آن کی گئے ___” بس آدھا گھنٹے میں ہو جائے گا ایک تسلی آمیز مسکراہٹ دیتی اس نے سانس جاری کی اور فاتح مسکراہٹ سے انھیں دیکھے گیا __
آدھا گھنٹا وہ اسے عجیب نظروں سے تکتے رہے کچھ دیر گزری تو ہر چیز واضح ہوگئی کھلبلی سی مچ گئی تھی وہ ہنوز مسکرا رہا تھا کیونکہ آج ایک اور تخت الٹ ہوا ساتھ ماہ دس دن بعد کی کوشش کامیاب جو ٹھہری راستے بہت خار دار رہے وجود پہ لاکھ زخم آئے اب فرق نہیں پڑرہا تھا تکلیفوں سے وہ چھوٹی اڑان بھرنے والا پرندہ نہیں تھا وہ ایگل تھا جو آسمانوں کو چھو کہ بھی خاموش رہتا دشمن ارادوں کو پہچاننے کی تلاش میں ہوتے اور بازی الٹ دیتے ___” اب منزل جو پالی تھی وفا کی راہوں پہ پھول کھلنے والے تھے ___
سب کو بھاری نف”ری نے گھیرے میں لے لیا تخت الٹ گئے پل میں بخت نے تخت سے اتار دیا وہ کل کے تخت نشیں آج مجرم نظر آنے لگے اور اس میں کسی کی ہمتوں کا خو”ن شامل تھا ڈھار نما آوازوں کی سختی کام نہ آئی جیت خاموشی کی ہوئی تھی جو مانتا تھا کہ خاموشی سے بڑی کوئی جیت نہیں اس پل وہ دفاع بھی نہیں کر پا رہے تھے جو زبانیں استعمال کیا کرتے تھے زنجیروں میں بندھے گئے شخص کے چھوٹے سے دماغ نے سب فتح کرلیا تھا سب کو حراست میں لیتے کونے کونے کی تلاشی لے چکے تھے__”
تو زندہ ہے دوست ___” جونئیر آفیسر عیسیٰ نے اسے زنجیروں کی قید و بند سے آزاد کرتے اشتیاق سے سوال نامہ جاری کیا __
نہیں غازی _____” وہ بمشکل بول پایا تھا عیسیٰ نے بے اختیار اسے سہارا دیا آہنی ہاتھ جو زنجیروں کی گرفت میں رہے سیاہ گہرے نشان بن گئے تھے وہ اسے پہچان نہیں پا رہے تھے مگر اسکی ازلی مسکراہٹ تھی
توُ نے غداری کی ہمارے ساتھ میں تمھیں بے مو”ت ____” وہ صالح ارمغان عالم کی طرف دیکھ کہ غرایا جو اب زنجیروں کی قید سے رہا ہوئے ایک آفسر کی شکنجے سے خود کو چھڑانے کی مکمل کوششش کی گئی تھی اس وقت اس اندھیر کوٹھڑی میں ایک صالح نہیں تھا صالح کے روپ میں کہیں محافظ تھے پوری ٹیم اپنے ساتھی کو دیکھ کہ غازی دیکھ کہ متجعب تھی ان کےلیے صالح ارمغان کو ساتھ ماہ دس دنوں بعد آنکھوں کے سامنے دیکھنا معجزہ تھا ___
صالح ارمغان عالم عیسیٰ کے سہارے قدم اسکی طرف بڑھائے چال میں لڑکھراہٹ مگر مضبوط چہرے پہ چھایا متسبم بڑا بھلا سا لگ رہا تھا سات مہینوں بعد جوابی کاروائی دی گئی غلافی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی
میں خاموش تھا کہ گلشن کا
سکوت برباد نہ ہوجائے __”
ناداں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ
مجھ میں قوتِ للکار نہیں
غداری موت کا دوسرا نام ہے محافظ کو شہادت نصیب ہوتی ہے موت نہیں____دماغ رکھنے والے یہ پرواہ نہیں کرتے کہ زنجیریں لوہے کی یا کانچ کی ان کا مقصد ہوتا ہے آزاد کروانا ___”
اسے تڑپتے دیکھ کے وہ نہایت مطمن انداز میں بولا جس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہر چیز اجاڑ ڈالے __”
؎ بناکہ ہم فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائی اہلِ کرم دیکھتے ہیں ___”
(مرزاغالب )
عیسیٰ نے بیچ میں لقمہ دیتے سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتے اسے اپنے زورِ بازوں پہ کھڑا کیا وہ لڑکھڑایا لیکن پھر سنھال لیا __”
میرے پاس یہ تھا ___” انگلیاں بجاتے اشارہ دماغ کی طرف کیاگیا اور ان کے پاس یہ ہیں ___” آنکھیں پٹپاتے دھیان آفسر کے ہاتھ کی جانب دلایا گیا مہمانوں کی خاطر تواضع میں کمی کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں میری مہمان نوازی کے عوض اب میزبانی کے فرائض نبھائیں گے ویسے تو میرے ساتھی شکایات کا موقع نہیں اگر کوئی گلہ رہا تو ہاتھ ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے __” یہ کہتے اشارتاً ٹیم کی طرف اشارہ کیا جو گھیسٹتی ہوئی سب مجر”موں کو ایسے لے کہ گئی کہ کوئی اثر و سوراخ بھی نہ چھوڑا تھا ___”
صالح ارمغان عالم کی طرف بڑھے جو گھنٹوں کے بل زمین پہ سجدے کی حالت پہ تھا بڑی تشکر خیز نگاہوں سے دیکھتے اٹھاتے ہوئے اسے گلے لگایا گیا __”
زندگی جاری تھی _____ ابھی بھی کچھ کھٹن راستے منتظر تھے اللہ صبر والوں کو آزماتا ہے اور بے شک صابر والوں کے ساتھ رہتا ہے آپ خاموش رہ کہ بھی ہر جنگ جیت سکتے ہیں چاہے زندگی کی ہو یا برے وقت کی __ک خاموشی سے بڑا کوئی ہتھیار ہی نہیں ہے جو ڈٹ کہ مقابلہ کرسکے اور اس وقت جب سب لوگ آپ کی روح پہ زخم لگا کہ آپکی چیخوں کی گونج کا انتظار کریں اور آپ خاموشی کا ظرف رکھ کہ ہر جنگ جیت سکتے ہیں ۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial