قسط: 24
زعفران آگیا ہے ___” یہ اماں کا اشارہ تھا پچھلے تین دن سے ان کا ایک ہی کلام تھا ان کی زبان بس زعفران عالم کے نام کی مالا جپتی تھی نورِ حرم کو خدشات تو بہت سے لاحق تھے کیونکہ زبانِ کلامی سنا تھا کہ دو ماہ پہلے اس نے اپنی بیوی سنبل سے علحیدگی اختیار کرلی ہے دل میں عجیب سے سوالات کے بھرمار تھی جنہیں وہ کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھیں آج کل ویسے بھی دل کی سر زمیں پہ اس شخص یاد کی کونپلیں سر سبز و آباد ہوگئیں اوپر سے عذاب یہ ہے کہ حالات و زمانے کے رنگوں میں خود کو رنگنا ، زمانے کے خیال و سوچ سے ہم آگہی کی جنگیں لڑنا بہت مشکل امر تھا صالح ارمغاں عالم نہ بھولتا تھا نہ خود کو بھولنے دیتا ہے اور نہ وہ بھلاسکتی تھی اسے بھلا دینا اسکے بس میں کہاں تھا __؟؟ ویسے بھی اس شخص کو بھلا دینا حرام موت کے مترداف تھا __
زعفران کا بہانے بہانے سے چھت کی طرف آنا گھنٹوں فون کے بہانے سیڑھیوں پہ چہل قدمی اسے ہرگز گواراہ نہیں تھی صالح چاہے اپنے مقصد کےحصول کےلیے اسکی نگاہ میں برا رہا مگر بناوٹی طور پہ بھی اسکی بے مقصد حرکتوں میں نگاہِ فاسد نہ ہوتی وہ لا دھڑک گھر میں بھی گھس آتا بے وجہ دیوار پہ بیٹھ کہ تکتے رہنے اسکے پسندیدہ مشغلوں میں سے ایک تھا اس کے باوجود بھی اُس دل کے کھرے جذبوں کے مالک شخص کی نیت میں کھوٹ ہرگز نہ تھی اور زعفران اسکا ہی بھائی تھا بظاہر سلجھا اسے مخاطب بھی نہ کرتا لیکن وہ عورت تھی اسکی چھٹی حس اس معاملے میں بالکل زعفران عالم کو اچھا نہ گردان سکی تھی اسے صاف اسکی آنکھوں میں چور نظر آتا وہ تو صالح کے نکاح میں رہ کہ بھی نکتہ چین ہی رہی پھر زعفران سے دور دور تک واسطہ بھی نہ تھا ___”
اس معاملے میں وہ اور باریک بینی سے سوچنے لگی کیونکہ اسکی نکھیں اسکے چہرے کا ساتھ نہیں دیتی تھیں یہ واضح نشانی تھی جس کا انداز ایک دفعہ غیر ارادای طور پہ اسے دیکھنے پہ ہوا تھا اور نورِ حرم کی تصوراتی آنکھ بھی زعفران کے کھرے کردار کی گواہی کے حق میں نہ تھیں ان معاملوں میں وہ اچھی خاصی بازیرک لڑکی تھی سمجھتی تھی کہ وہ جس طبعیت کی مالک ہے وہ شخصیت کے ان رنگوں میں ڈھل کے اس لڑکی کو زیر کرنے کی خاطر خواہ کوششوں کے راستوں پہ مائل تھا پر اس کو اندازہ تک نہ تھا کہ اس کے مقابل جو شخصیت ہے اس نے اپنی احتیاطی طبعیت کے باعث ہیرے جیسے شخص کو گنوا دیا تھا __”
وہ سکول سے واپس آئی تو اماں کے منہ سے زعفران نامہ چھڑگیا فریش ہوتے بڑی مشکل سے اس کے ذہن نے زعفران نامی بلا سے چھٹکارا حاصل کیا __” علیزے واحد بندی تھی جس سے براہ راست دوٹوک بات کرسکتی تھی اس لیے فون کال ملاتے وہ برآمدے میں ٹہلنے لگی ___”
السّلام علیکم __” دوسری طرف کال موصول ہوتے ہوتے اس نے جھٹ سے سلام کیا تو ابتدائی سلام و دعا کے بعد مدعے کی بات پہ آئی تھی اماں گہری نیند سو رہی تھیں اور یہ ہی مناسب وقت تھا جب وہ علیزے کو اپنی باتوں پہ پابند کرسکتی تھی اسے قائل کرسکتی تھی ___
مجھے تم سے بات کرنی ہے ضروری” کیا تم گھر آسکتی ہو __؟” نورِ حرم نے اب کی کچھ جھجھکتے ہوئے کہا _
خیریت امی ابوتائی سب ٹھیک ہیں اور تم ___”خدشے بھری آواز سنتے نورِ حرم نے اپنی پیشانی مسلی اور نگاہ گرل سے ہوتی چاچو کی فصیل پہ پڑی تو اسکے چہرے کے تاثرات پل میں بدلے کٹھور دلی کی انتہا پہ پہنچنے میں اسے ایک پل بھی نہ لگا علیزے کی ہیلو ہیلو سنتے تیزی سے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوتے دروازہ زور دار آواز سے بند کرگئی دوسری طرف وہ مسلسل ہیلو ہیلو کی رٹ لگائے شاید اسکا دھیان اپنی جانب مبذول کروانے کی کوششوں میں تھی__”
پریشانی کی بات نہیں ہے سب خیریت ہے تم گھر آؤ مجھے تم سے کچھ کام ہے __” غصے کی حدت سے دمکتے چہرے کو صاف کرتے بمشکل خود کو کنٹرول کیا باوجود کوشش کے بھی کچھ اثرات چہرے پہ ماندہ بچ گئے ابھی تک زعفران کی گھورتی خود پہ محسوس ہو رہیں تھیں اسی پل کوئی بڑی شدت سے ہر غم کو تازہ کرتا دل کو بکھیر گیا وہ سانس لینا بھول گئی آکسجین کی کمی سی محسوس ہونے لگی بمشکل اُس نے اپنی سانسوں کو اعتدالِ روانگی پہ لانے کی کوشش اور اپنی اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی___
آج صائم شام کو چلے جائے گے ان شاء اللہ میں کل تک چکر لگاؤں گی اور اس حالت میں بار بار امی مجھے کئی آنے جانے بھی نہیں دیتیں کل تک امی کی منت سماجت بھی کر لوں گی جانتی ہو نہ وہ اس معاملے میں کافی سخت ہیں ___ ” علیزے اپنی ساس کا تذکرہ کرتے مصروفیت کا بتا رہی تھی _
ٹھیک ہے میں کل تک انتظار کر لوں گی مگر اس سے زیادہ میرے بس میں نہیں ہے میں نے تمیں کچھ باتیں کلئیر کرنی ہیں اور اس معاملے میں میری مدد تم ہی کرسکتی ہو ___” وہ سہولت سے کہتی بات کا اختتام کرگئی تھی ___”




وہ اس وقت پہاڑی علاقے کے سب سے بڑے ہسپتال میں زیرِ نگہداشت تھا اس کی ٹیم کے کافی سنئیر اور جونئیر لڑکے ترتیب وار اپنی فرض نبھا رہے تھے مشن کامیاب ہونے کے دو دن بعد ہی اس کی حالت مزید بگڑ گئی کیونکہ بہت زیادہ ہیوی ڈر”گز کسی پوائزن کی طرح آہستہ آہستہ اثر کرتے اس سے پہلے اسکی اندرونی اعضا کو متاثر کردیتیں کیونکہ جو ڈر”گز اسے زیر کرنے کےلیے استعمال کی جاتے اس میں بہت بہت زہریلے زہریلے محلول شامل تھے اس بناء پہ ڈاکٹر اعلیٰ اعلیٰ ادویات سے اس جلد صحت یاب کرنے کی فکر میں ہر ممکن کوشش کر رہی تھے وہ کچھ دیر ہوش میں آتا تو سر بھاری بھاری رہتا تھا پورا عملہ اس کی حفاظت پہ معمور تھا جو سب وقت پہ فرائض سر انجام دے رہا تھا عیسیٰ ان دنوں میں نہ جانے کتنی دفعہ آچکا تھا___
پہاڑی پہ مقیم یہ ہسپتال جو آر” می ہوسپٹل تھا جہاں پہ صرف آفیسر کے ماں باپ بیوی بچوں کا علاج ممکن تھا صاف ستھرا عامیانے درجے کا یہ ہسپتال چاروں جانب سے درختوں سے ڈھکا ایک خیمے کا سا منظر پیش کر رہا تھا یہ چونکہ مکمل آبادی سے ہٹ کہ تھا تو یہاں رش اور ہسپتالوں کی نسبت قدرے کم تھا مگر پھر بھی عیسیٰ کا دماغ کچھ پل کےلیے سن ہوا تھا ہسپتال میں ڈیوٹی کا آج اسکا پہلا دن تھا عموماً تو وہ صالح ارمغان عالم کی عیادت کےلیے آتا تھا آج باقدہ ڈیوٹی اسکےلیے منتخب کی گئی تھی جو ایک صالح نہیں بلکہ ریٹارئرڈ آرمی آفیسر کےلیے تھی لیکن اسکے دل میں تو صالح کے خیال کی بھی خوش کا احساس جگمگا رہا تھا__
اس لیے صبح سات بجے ہسپتال میں داخل ہوا تو پوری وارڈ میں افرا تفری کا سماں تھی کوئی درد سے کراہ رہا تھا تو کسی چیخ و پکار بلند تھی کسی کے چہرے پہ تکلیف کے آثار تھے گویا اس نفسا نفسی کے وقت میں ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی سبھی چہرے غم سے نڈھال تھے عیسیٰ تیزی سے چلتا کونے میں گیا جہاں کسی کے چہرے پہ دنیا جہاں کا سکوں رقم تھا وہ حقیقی زندگی سے منہ موڑے گہری نیند میں غافل تھا زہر”یلے محلول کے اثر کو ختم کرنے کےلیے ادویات کو پراثر بنانے کےلیے اسے ہیوی ڈوز دی جاتی جن کے زیرِ اثر وہ تھا __
جس وقت وہ بیڈ کے نزدیک پہنچا اسی وقت سوئپر جھاڑوں لگائے جاچکا تھا اس نے طائرانہ نگاہ اردگرد ڈالی تھی صاف ستھرا ہسپتال بہت پرسکون نظر آ رہا تھا دیوار کے ساتھ لگے نصب ایل_ای_ڈی پہ سورت کے پرُسحر الفاظ ارگرد گونج رہے تھے سامنے لیٹا خاموش وجود حرکت نہیں کرسکتا تھا مگر عیسیٰ جانتا تھا کہ سورہ رحمن کے الفاظ اس شخص کی آنکھوں سے راستے سے ہوتے روح تک پہنچ رہے تھے داہنی آنکھ سے نکلتا پانی اسکی ایمان کی گواہی کا ثبوت تھا جس کے ارادوں میں چھپی کبھی استقامت و بلندی نظر آتی تھی وہ اسکی زندگی میں آنے والا چوتھا بہترین شخص تھا اس نے صالح کو کئی دفعہ تفسیر کے ساتھ تلاوت کرتے دیکھا قرآن تو اسکے دل و دماغ کو حفظ تھا پھر کیسے الفاظ اس کے اندر بیسرا نہ کرتے ___
وہ بظاہر آساں دکھنے والا شخص حقیقت میں بہت کھٹن تھا __” عیسی اسے دیکھنے میں مشغول ہوا صالح ارمغان عالم آنکھیں موندے دوسرے جہاں کی سیر و تفریح میں مگن تھا جہاں صرف خواب و خیالوں کا بیسرا تھا سر پہ ہاتھوں پہ زخموں کے نشاں کافی گہرے تھے غلافی آنکھوں کے اوپر گھنی پلکوں کا راج تھا چوڑا ماتھا ہر قسم کی شکنوں سے آزاد تھا گھنے متناسب بال سلجھے ہوئے تھے البتہ ان ساتھ مہینوں میں چہرے کی رنگت ماند پڑگئی عیسیٰ نے غور سے اسے دیکھا وہ کافی کمزور ہوگیا تھا کیونکہ اس نے دفاع کی جنگیں اکیلی لڑی تھی تو پھر کھرونچیں کیسے نہ آتیں ___؟؟ نرس اسکو انجکیشن لگا رہی تھی اور وہ ساکت سا سوچوں میں گم ہوگیا ___”
زندگی کیا ہے ؟
حاصل لاحاصل ؟ میٹھی یا کڑوی ؟ محبت نفرت ؟ مضبوطی کمزوری ؟ مسکراہٹ یا آنسو، خوشی یا غمی
بین یا قہقے ، درد یا راحت ، بہادری یا بزدلی ، محفل یا
تنہائی ، اپنائیت یا بیگانگی ،کانٹا یا پھول ، زہر یا تریاق ؟؟
اصل میں تو زندگی ان سب کا مجموعہ تھی جو حالات و واقعات پہ انحصار کرنے کا دوسرا نام تھی کون کتنا پانی میں تھا کس کو کس ترازو میں تولنا تھا ؟؟ یہ سب حالات و وقت کی رو میں بہنے کے ساتھ معلوم کرنا تھا __
دو دن پہلے پوری فور”س کے مشترکہ فیصلے کی تائید چاہی تھی جس میں اسکے گھر والوں کو اسکی غازی ہونے کی حاضری کی اطلاع دینا ضروری تھا انھیں اچانک سے اسکے گھر میں اطلاع دینے میں کئی مسائل درپیش تھے لہذا اپنے فیصلے پہ غور و فکر کرتے ہوئے انھیں ہر معاملات کو بحال کرنا ضروری تھا__




نورِِ حرم باہر آؤ چائے بنا دو ___” اماں اسے کب سے صدائیں لگانے میں مصروف تھیں جو زندگی میں پہلی دفعہ ان آوازوں کو جھٹلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی وہ اپنی ماں کی خوشی سے واقف تھی اس لیے کچن کے مخالف کمرے میں بیٹھے زعفران کی شد و مد سے مہمان نوازی اور اماں کے چہرے پہ پھیلا سکون دیکھ رہی تھی آج آنکھوں میں آنسو نہیں تھے بلکہ وہ پتھرائی ہوئی ساکت و جامد سی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی __”
زندگی کی بھاگ ڈور سے اور وقت کی تیزی سے پہلی دفعہ خوف محسوس ہوا تھا اسکی سگی ماں اسکے آنکھوں میں چمکتے جگنو اس کے احساسات سے نظریں چرائیں پھر رہی تھی کیا وہ اتنی ارازں تھیں یا پھر ماں پہ بوجھ تھی ___؟؟ عالم چاچو رات کو پھر اپنے دوسرے سپوت سے اسکا ساتھ جوڑنے آئے تھء اور دکھ کی بات یہ تھی کہ اسکی ماں باخوشی و رضا اسے تھالی میں سجائے پیش کرنے کو تیار تھی اسے اس شخص کی ذات سے سروکار نہ تھا محبت و نفرت تو دور کی بات تھی وہ دیکھ رہی تھی سن رہی تھی جانچ رہی تھی __”
زعفران عالم دوہری چالیں چل رہا تھا کاش کوئی لفظ ہوتے کوئی تراجماں ہوتا تو وہ اپنی ماں کو قائل کرتی ___” اس نے کتنی دفعہ صائمہ بیگم کو دبے دبے لفظوں میں زعفران کو یہاں آنے سے منع کیا اور آج اس شخص کی تیسری دفعہ اس گھر میں آمد گراں گزر رہی تھی وہ خود پہضبط کے کتنے پہرے لگائے بیٹھی تھے یہ وہ جانتی تھی یا اسکا خدا ___”
کوئی چاہ نہ رہی کسی سنگی بے جان مجسمے کی طرح خلاؤں کو گھورتی رہی آج پہلی دفعہ کوئی فرق بھی نہیں پڑ رہا تھا چاہے ماں کی نظروں میں نافرمان ہی کیوں نہ ٹھہرتی ___”
نورِ حرم ___” صائمہ بیگم نے کافی بلند و تلخ آواز سے پکارا تو وہ ہوش میں آئی تھی مگر پھر بھی گئی نہیں تھی کچھ دیر بعد باہرسے قدموں کی چاپ سنائی دی تو اس نے باہر دیکھا اور پھر وہ چند لمحے دیکھتی رہی کیونکہ زعفران عالم کے قدم کچن کی طرف اٹھ رہے تھے اس سے پہلے وہ کچن میں داخل ہوتا تیزی سے اٹھتے وہ کچن کا دروازہ بند کرگئی __
مجھے تم سے بات کرنی تھی ___” زعفران نے اسے مخاطب کیا یہاں آنے کے بعد پہلی دفعہ وہ یوں اس سے براہ راست گفتگو کر رہا تھا __
پر مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی آپ جاسکتے ہیں __” اسکی حثیت باور کروانا وہ نہ بھولی تھی
دو منٹ میری بات سن لو گی اس میں کوئی حرج نہیں ہے __”وہ اب منت سماجت پہ اتر آیا اور اسکا یہ انداز نور حرم کو سخت زہر لگا __
ٹھیک ہے بولیں میں دو منٹ سے زیادہ بات نہیں سن سکتی آپکی ___” لہجہ ایسا تھا گویا احسان کیا گیا ہو زعفران نے اسکی آواز سنتے بمشکل اپنے غصے میں قابو پایا اس کا دل چاہ رہا تھا وہ پل میں اسکا زعم توڑ دے ___”
نورِ حرم ابا امی بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ میری اور تمھاری شادی ہو جائے اور ویسے اب تمیں مسئلہ نہیں ہونا چاہیے میری اور سنبل کی سپریشن ہوگئی ہے بچوں کی تم فکر مت کرو وہ اپنی ماں کے پاس رہیں گے __” وہ بند دروازے کے پیچھے بھی اپنی خودغرضی دکھانا نہ بُھولا نورِ حرم نے اسے دیکھ کہ دروازہ کا دروازہ بندکرتے اس کے منہ پہ مارا __”
مجھے سب کچھ اچھے سے علم ہے تمھیں تو شروع سے مانی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اب تو ویسے بھی وہ اس دنیا میں رہا ہی نہیں ہے اُس کے نام پہ بیٹھ کہ اتنی لمبی زندگی گزارنے کا کیا فائدہ ؟میں نے شروع سے تمھاری آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس وقت میرا نکاح ہوچکا تھا اب سوچتا ہوں کہ تم میرے لیے بہتر آپشن ہوسکتی ہو __” مجھے بعد پچھتاوا ہوا کہ میں تمھیں اس زاویے سے کیوں نہیں دیکھا پر بگڑا ابھی بھی کچھ نہیں ہے سب صیح ہوسکتا ہے __”
دروازے کے باہر وہ بولتا جا رہا تھااسکے الفاظ سنتی نورِ حرم کے کانوں سے دھواں نکلا اگر ماں کا خیال نہ ہوتا وہ اس خودغرضیوں میں نہائے انسان کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتی جو خوامخوہ اسکی ذات پرخچے اڑا رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی اس شخص کی ایک نگاہ بھی اسکے وجود پہ پڑے لیکن مزید اپنی ذات کی توہین اسے گوارا نہیں تھی اسے بہتر موقع نہیں تھا کہ وہ اس شخص کی نیت صاف کرسکتی اس لیے بغیر غورو فکر کیے دروازے کھول گئی وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے باہر ہی کھڑا تھا نگاہیں اسی پہ ٹھہر گئی جبکہ نورِ حرم نے ڈوپٹہ مزید سہی کیا حالانکہ اس میں کوئی خرابی تھی مگر اس شخص کی نظریں وہ اپنے اوپر برداشت نہیں کرسکتی تھی __”
شاید میری زندگی کی بد نصیبی رہی اپنی چوبیس سالہ عمر میں انسانوں کے چہرے پہچاننا سیکھ نہ پائی صیح کہتے ہیں انسان جیسا ہوتا ویسا نظر نہیں آتا چہروں سے نیتوں کا پتہ نہیں ڈھونڈا جاتا آپ کو دیکھتی ہوں تو شیخ عبدالقادر جیلانی کا جملہ میرے ذہن کے درو دیوار کی سوچوں واہ کر دیتا ہے صیح کہا تھا انھوں نے کہ جس برتن میں جو چیز ہوتی ہے وہ ہی اسے چھلکتی ہے لہذا جو کچھ تیرے قلب میں ہے وہ ہی تیرے اعضاء سے چھلکے گا __” جانتے ہیں آپ کے چہرے سے کیا چھلکتا ہے ___؟؟؟ اس نے نفی میں سر ہلایا وہ استزائیہ ہنسی جیسے جانتی ہو کہ وہ اپنی ذات برائی سننے کا ظرف نہیں رکھتا__” اسکا چہرہ دیکھنے لائق تھا نورِ حرم نے طنزیہ نگاہوں سے دیکھا تھا جو دروازے کےعین باہر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اور یہ بات گوارہ نہیں تھی
خودغرضی ___” خودغرضی چھلکتی ہے اور کسی شے کا دور دور تک نشان نہیں جو شخص اپنے ماں باپ بہن بھائی ، بیٹی بیٹے کا نہیں ہوسکتا اپنے ماں باپ کی نافرمانی کا ڈر ، بچوں کے مسقبل تک کا احساس نہیں ہے تو وہ تیسرے رشتے میں کہاں انصاف رکھ سکے گا ___” آپ کو اس وقت باپ یاد نہیں آیا جب اس شخص کی آنکھوں میں بہت بڑا خسارے کا رنج نظر آتا تھا ___” آپ نے اس وقت اس شخص کی آنکھوں میں بے بسی نہیں دیکھی جو سرمایہ انھوں نے کھویا تھا کیا وہ چھوٹا تھا یا آپ کو اس شخص کا غم کم لگا تھا___”
آپ نے اماں کے کندھے پہ بندوق رکھ کہ چلائی کہ میں آپکے ساتھ گاڑی پہ کیوں نہیں آئی اور کیا نورِ حرم کو مجھ پہ اعتبار نہیں ہے یہ قول تھے آپکے ___” اسکے چہرے پہ چٹانوں کی سی سختی تھی کوئی رعایت نہ تھی زعفران منہ نہ کھول سکا __”
میں آپکے ذہن سے یہ بات نکال دوں ___” میں مہنگی گاڑیوں کی آسائشات کی عادی نہیں ہوں یہ میرا روز کا معمول ہے آنا جانا تاخیر ہونا یہ بہت معمولی چیزیں ہیں آپکو میرے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے آئندہ مجھے لینے مت آئیے گا اور اعتبار آپ پہ تو کیا صالح کے علاوہ کسی پہ کر ہی نہیں پاؤں گی __ ” اس کی عام سی موٹر سائیکل کا سفر مجھے قبول تھا کیونکہ وہ میرا محرم تھا پہلے بھی چاچو کا مان رکھا تھا اس لیے کہ آپکابھائی میرا نصیب تھا لیکن آپ نہیں ___”میں صالح اور آپ فرق نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن یہ اب ضروری ہوگیا وہ دیکھتا تھا تو برا نہیں لگتا تھا لیکن آپ __” آپ کا دیکھنا نہیں گواراہ __” آپ بہت شریف النفس دکھتے ہیں لیکن آپکی آنکھیں آپکے چہرے کا ساتھ نہیں دیتیں ___” یہ میرا نظریہ تھا آپ کے متعلق__”
باقی صالح نہیں تو کوئی بھی نہیں بعض رشتوں کا نعم البدل نہیں ملتا اور صالح کا نعم البدل مجھے اپنی رہتی زندگی تک نہیں مل سکتا ___” وہ اپنی مثال آپ تھا بظاہر بہت برا نظر آتا اخلاقی رویہ بھی سننے کے قابل ہرگز نہیں ہوتا لیکن پھر اس کی یہاں آنا مجھے گوارہ تھا مگر آپ کا اس گھر میں مجھے منظور نہیں ___” میں نے ہر ممکن کوشش کی تھی علیزے اور چاچی کے ذریعے اپنے خیالات بتانا چاہے مگر آپکے شاید گوش نہیں گزرا __” یہ میری پہلی اور آخری گفتگو تھی اس سے پہلے پانی سر سے اوپر گزر جاتا مجھے آپکو یہ سب باور کروانا ضروری تھی جو میں نے باحالت مجبوری کی ہے ورنہ اس میں میری کوئی دلی شوق یا وابستگی نہیں تھی ____وی چپ ہوئی تو اس نے بھی بولنا شروع ہوا __”
تم جو کچھ بھی کہو نورِ حرم___” خود غرض سمجھنا ہے تو ہزار دفعہ سمجھو لیکن تھمیں لگتا ہے کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں گا تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا مجھے خوش رہنا پسند ہے اور اپنی خوشیوں سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہے__” اندر کھڑی نورِ حرم کے چہرے پہ وقت نے گویا زناٹے دار تھپڑ مارا تھا وہ چند لمحے حرکت نہ کرسکی چولہے پہ رکھی چائے جل کہ سیاہ ہوچکی تھی ہوبہو اسکے بخت کی مانند ___” اسکے اگلے الفاظ اس کے کچھ وقت پہلے کی کمزوری تھے کچھ وقت پہلے اس و ویل سٹلیڈ زندگی کی خواہشات تھی مگر اب تو وہ خود کو نفی ہوگئی تھی__
بڑی مشکل سے فلیم کو کرتی اسکی باتوں پہ ضبط کے پہرے بیٹھا رہی تھی _
مجھ سے شادی تمھارے لیے ایک بہت بڑا فائدہ ہوسکتا ہے تم ان گلی کوچوں سے آسانی سے پیچھے چھڑا سکتی ہو اور یہ تمھارے لیے بڑا بہترین موقع ہے تم عقل مند لڑکی ہو میں جانتا ہوں یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں گنوا سکتی میں تمھیں ڈریم لائف دے سکتا ہوں ور وہ آسائشات بھی جن کو ساری زندگی تم دیکھنا تو دور سوچ بھی نہ سکی__”
صالح صرف تمھیں سبز باغ دکھا سکتا تھا تم سے محبت کے اظہار جتاسکتا تھا باقی اسکے پاس اعلیٰ کارکردگی سند نہیں تھی نہ اسکے پاس تمھارے لیے من چاہے خوابوں کی تکمیل تھی__صالح پہ بات آئی اسکے ضبط کی انتہا ہوگئی
مسٹر زعفران ایک پل کی تاخیر کیے بغیر میرے گھر سے چلیں نہیں تو لحاظ میں کسی چیز کا نہیں کروں گی آپ خود کو پرسکون کرنے کےلیے میری تذلیل کریں یہ مجھے ہرگز پسند نہیں ہے میں جتنا آپ کا لحاظ کر رہی ہوں اتنا آپ مجھے ڈس ریسپکیٹ کر رہے ہیں ___” اسے کچن کی طرف بڑھتے دیکھتے وہ باہر نکل آئی ___”
مکمل خاموشی دیکھتے وہ سن ہوئی اردگرد نگاہ ڈروائی مگر اماں اب کمرے میں نہیں تھی اسے ماں کی سائیکی سمجھ نہ آئہ وہ آخر چاہتی کیا تھیں __”
تائی نماز پڑھ رہی ہیں__ وہ بولا تو نورِ حرم اسے نظر انداز کرتی اماں ے کمرے میں چلی گئی جب تک وہ چلا نہیں گیا تب تک اس نے باہر جھانک کے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا __



بدلتے وقت کی تیزی جارہی تھی زعفران انکار سن کہ بھی نہیں گیا بلکہ پورے تواتر سے کوششیں جاری تھی
اب کون آگیا ___” دوپہر کے بارہ بجے دروازے پہ بجتی بیل کو سنتے زعفران عالم کا چہرہ شکنوں سے بھرگیا تھا وہ ٹی وی لگائے انہماک سے کوئی انگلش مووی دیکھنے میں مزصروف تھا بیزارگی سے اٹھتے اس نے شیشے کی کھڑی سے پردہ ہٹا کہ دیکھا باہر کھڑی شخصیات کو دیکھتے سوچوں میں گم ہوا اور پھر لمحے میں اس کے تاثرات مزید بگڑگئے مین گیٹ کے باہر کے دو مرد کھڑے تھے جو دکھنے میں کافی بارعب لگ رہے تھے وہ وقت کی دیر کیے بنا اٹھ کھڑا ہوا اماں کچن سے نکلتی شاید دروازہ کھولنے کے اردادے سے باہر جا رہیں تھیں ___
امی آپ رکیں میں دیکھتا ہوں کون ہے ؟ قمیض کی سلوٹوں کو ہاتھوں سے سیدھا کرتے وہ باہر نکل آیا زارا بیگم جو اسے پکارتی رہی پھر خود اٹھ کھڑی ہوئیں حیرانگی کے ساتھ خوشگوار تاثرات چہرے پہ چھاگئے تھے ایک نظر زارا بیگم کو دیکھا جو اب صحن میں نہیں تھیں اطمینان حاصل ہوتے ہی اس نے دروازہ کھولا__
السّلام علیکم ___” انھوں نے سلام میں پہل کی تو وہ سر اثبات میں ہلاگیا لیکن منہ سے جواب دینا مناسب نہ سمجھا تھوڑی سی جان پہچان تہمید باندھنے کے بعد وہ مُدعے کی بات پہ آئے __” نہ چاہنے کے باوجود زبردستی کوشش کرتا کچھ مروت لیے انھیں بیٹھک میں لے آیا حالانکہ دل انھیں دروازے سے ہی الوداع کرنے آمادہ تھا
عالم صاحب سے ملاقات ہوسکتی ہے ان سے کچھ معاملات طے کرنے ہیں __” آسمانی سوٹ میں ملبوس چالیس سالہ مرد آہستگی کہہ رہا تھا جن کی نظریں دیوار پہ آویزاں صالح کی تصویروں پہ جمی ہوئیں تھیں ___”
معذرت جناب ابو تو گھر پہ نہیں ہیں آپ نے جو کہنا ہے میں یہاں حاضر ہوں کہہ سکتے ہیں ___” روکھائی سے کہتے وہ پہلو بدلتے معذرت کرتا اٹھا اور کچھ دیر میں مروت کے مارے ہی مہمانداری نبھاتے کولڈ رنک لے آیا ___” اس سے زیادہ آؤ بھگت کرنا اسکی فطرت نہ تھی وہ چہرے پہ بیزارگی پھر سے اپنی نشست سنھبال گیا__
چلیں اگر عالم صاحب موجود نہیں ہیں تو پھر مسسز صالح ارمغان عالم سے بات ہوسکتی ہیں ؟؟ اب کی بار عیسیٰ لقمہ دیتے بولا اسے یہ شخص کسی الٹی کھوپڑی کا معلوم ہو رہا تھا اخلاقی رویے سے گویا اسکا دور دورتک واسطہ نہ تھا _
جی جی ہماری ان سے ہی ملاقات کروا دیں تاکہ ان کی فیملی کے تمام خدشات دور کرسکیں اور کچھ باتیں کلیر کریں آپ ان کو بلوا دیں ___” آفیسر مصطفیٰ نے پیشہ وارانہ اپنے فرائض کی تکمیل کرتے زعفران عالم سے شائستگی سے پیش آیا ___”
معذرت وہ میرے شہید بھائی کی منکوحہ پہلے تھیں لیکن اس وقت وہ میری مسسز ہیں اس لیے مجھے نہیں پسند کہ بار بار ایک مرے ہوئے انسان کو لے کہ ہم سب کی ذاتیات کو کریدہ جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے ہماری زندگی گزر رہی ہے اور گزر جائے گی ” زعفران عالم اب کی بار کافی سخت گیر لہجے میں گویا ہوا اسے شاید صالح کی زوجہ پسند نہیں آیا تھا __
عیسیٰ کافی دیر جامد کیفیت میں بیٹھا سامنے بیٹھے بے حس انسان کو دیکھتا رہا اس نے اپنی چھبیس سالہ زندگی میں پہلی بار سگے بھائی کےلیے کھلا تضاد دیکھا تھا اور بھائی بھی وہ جو ان سب کی نظر میں شہادت کے رُتبے پہ فائز ہوگیا تھا___”
زعفران عالم نے خودی سے محبت کی تھی شاید اس کے حصے میں بچپن سے پیار آیا تھا اس لیے___” جو اولاد اکلوتی محبتوں کی عادی ہو وہ خود غرض بن جاتی ہے انھیں اپنی ذات سے سروکار ہونے لگتا تھا اسی طرح وہ بھی باپ کی محبت کا اکلوتا وارث رہا اپنی ذات اسکی پہلی ترجیح رہی تھی بانٹنا اسکی فطرت میں نہ تھا اپنی خودغرضی میں وہ یہ بھول گیا تھا وقت کا پھیر الٹا بھی ہوسکتا ہے ___
باقی آپ نے مزید کوئی انفارمیشن دینی ہو تو بعد میں میرے والد محترم سے مل سکتے ہیں ___” وہ یہ کہتے صوفے سے اٹھا تو عیسی اور کپٹن مصطفیٰ اسکی تائید چاہتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے مگر آخر میں اسے جتانا نہ بھولے تھے ___
کچھ دیر زعفران عالم انھیں الوداع کرتا اپنی غلط بیانی کو سوچتا رہا پھر کندھے اچکاتا واپس کمرے میں چلا گیا اماں نے پوچھا تو اس نے یہ بہانہ گھڑ دیا کہ اسکے دوست اُس سے ملنے آئے تھے __”




میں نے گورنمنٹ جاب کےلیے اپلائی کیا ہے دو تین جگہ ویکنسیسز خالی ہیں ایک ہوسٹل ہے اور دو تین کالجز لیکن ہوسٹلز میں ایک فی میلز ٹیچر درکار ہیں ___”
وہ لمحہ بھر کےلیے سانس خارج کرنے کےلیے رکی چاچو اسے لینے سکول گئے سخت گرمی میں اسکا چہرہ دھوپ کی تمازت سے لال ہوگیا وہ بار بار چہرے سے پیسنہ صاف کرتی محو گفتگو تھی سڑکوں پہ ویرانے کا راج تھا سخت گرمی میں بہت کم لوگ تھے جو پٹرول پم اور دکانوں پہ موجود تھے آہستگی سے اپنی بات کا آغاز کیا__
ہوسکتا ہے جاب ملتے ہی میں شفٹ ہو جاؤں گی وقت کا تو نہیں دو مہینے لگیں یا چھ مہینے سال بھی لگ سکتا ہے __” لیکن میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں یہاں نہیں رہوں گی میں نے آپ کی ہر خواہش کو ، آپکے سارے فیصلوں کو سر آنکھوں پہ رکھا سگا باپ نہ سہی تو باپ سے کم بھی نہیں سمجھا ___” ابتدائی دنوں میں جب آپ نے میرا اور صالح کا رشتہ جوڑا تو بدگمانی سی دل میں رہی کہ میری جگہ علیزے ہوتی تو کیا آپ پھر بھی اپنی بیٹی کےلیے مانی جیسے بگڑے شخص کا انتخاب کرتے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی خوبیاں عیاں ہوتی گئیں کبھی وہ اپنے لیے بہترین ہمسفر محسوس ہوا تو کبھی کچھ بھی نہ ___” اسکی آنکھیں بھیگ گئی بیٹے کا ذکر سنتے موٹر سائیکل چلاتے گرفٹ ڈھیلی ہوئی تو بائیک بھی ڈلونواں ہوا بروقت انھوں نے سنھبالا___” اس نے عالم صاحب کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا
نور بچے میں تو تمھاری بہترین زندگی کا خواہش مند تھا
میں جانتا ہوں تم رشتوں کو نبھا لو گی چاہے وہ میرا بیٹا صالح تھا یا پھر زعفران ؟؟ صالح کا غم مجھے اندر سے ختم کرگیا میری آنکھوں کی بصارت ختم ہورہی ہے اس نے مجھے اندر تک توڑ دیا ہے ___” جانے انجانے میں پہلے بھی تمھارا نقصان کرچکا ہوں اب تمھارا فیصلہ ہے تم دلی طور پہ رضا مند نہیں ہو تو مجھے اعتراض نہیں ہے ___”
تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو بچے __” اسے نہ جانے کیوں چاچو کا لہجہ شکستہ سا لگا وہ زعفران کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھتے رہنے کے خواہش مند تھے کیونکہ یہ خواب بھی انھیں زعفران عالم نے دکھائے تھے وہ چاچو کے منہ پہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ ان کے بیٹے کا رشتہ محض ان کے ساتھ خودغرضی پہ ختم تھا اسکا مطلب پورا ہوتے ہی اس نے اوجھل ہوجانا تھا ___”
چاچو خاموش ہوگئے اس نے بھی بولنا مناسب نہیں سمجھا باقی کا رستہ خاموشی سے طے ہوا__”
چاچو نے گھر کے سامنے موٹر سائیکل روکی وہ اتری اور پھر سے پلٹی گلی مکمل سنسان تھی شاید یہ ہی دیکھتے وہ رک گئی ___”اس نے بے اختیار چاچو کو دیکھا جن کے کنپٹی کے ساتھ بالوں سے جھلکتی سفید پہ اسے رحم سا آیا تھا چاچو نے اپنے سارے اثاثے اولاد لٹادیے اب فکر اور غم نے اس شخص بوڑھا کررہے تھے اسے احساس تھا اس لیے وہ رک گئی ان کی شخصیت میں پہلے والا رعب و دبدبہ زائل ہوگیا تھا__
مجھے معاف کر دیجئیے گا چاچو میں اس دفعہ آپ کا مان نہ رکھ سکی مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر پہلے جتنا ظرف نہیں رہا پہلے صالح کے ساتھ رشتے جڑنے پہ وقتی بدگمانی تھی دل راضی نہ سہی لیکن روح مطمن تھی کہ جو بھی ہوجاۓ آپ غلط نہیں کریں گے لیکن اس دفعہ میری روح مطمن نہ تھی اس لیے انکار کرنا واحد حل لگا __”
اس نے چاچو کے تاثرات جانچے جو اب نارمل تھے عالم صاحب نے ساری فکریں بھلاتے بھتیجی کے سر پہ ہاتھ پھیرا __”
میں تمھارے ساتھ ہوں نور بچے زندگی کے موڑ جہاں گبھی اپنے چاچو کی ضرورت پڑی تو بلاجھجھک پکارا لینا تمھارا چاچو حاضر ہوجائے گا کبھی خود کو اکیلا مت سمجھنا __” تمھارا چاچا ساتھ تھا ہے اور رہے گا بشرط یہ کہ زندگی دغا نہ دے ___” وہ آہستگی سے بولے تو نورِ حرم کے دل سے بے اختیار ان کی لمبی عمر کی دعا نکلی ___” چاچو نے اسے گھر آنے کا کہا تو وہ صاف الفاظ میں انکار گئی کیونکہ زعفران کے ہوتے ہوئے وہ اس گھر میں داخل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی __
شکریہ چاچو پر پلیز آپ امی کو سمجھائیں وہ میرے ساتھ زبردستی مت کریں آج دسواں دن ہے وہ مجھ سے ناراض ہیں بلانا تو دور دیکھنا تک گوارہ نہیں کر رہی امی اپنی ضد کی بڑی پکی ہیں وہ نہیں جانتی میں ہر روز خود سے کتنے عہد باندھتی ہوں کتنی جنگیں لڑتی ہوں میں جانتی ہوں انھیں میری فکر ہے لیکن میں اپنے فیصلے سے مطمن ہوں __” اسکا لہجہ بھرا سا گیا تھا وہ بول رہی تھی اور چاچو اسے آرزدہ نظروں سے دیکھتے رہے مگر بولے تو لہجہ تسلی آمیز تھا ___”
تم جاؤ بچے اور سب مجھ پہ چھوڑ دو ___” اب پریشان مت ہونا اب تمھاری ڈھال تمھارا چاچو ہے __” ان کا اتنا کہنا وہ مطمن ہوتی اثبات میں سر ہلاتی اندر چلی گئی تھیں





وہ ابھی تک ہسپتال میں ہی ایڈمٹ تھا مگر مسلسل ٹریمنٹ سے بہتر ہوگیا__”
عیسیٰ کی اطلاع کے مطابق آج اس کے پاس کچھ بھی نہ رہا وہ تہی داماں رہ گیا قدموں کے نیچے سے زمین کھینچنا کس کو کہتے تھے یہ اسے آج پتا چلا اس کے سر سے آسماں چھن گیا اردگرد گویا دھما ” کے سے ہو رہے تھے ہزاروں خواہشوں کو ہتیھلی پہ چنتے کئی منزلوں کو حاصل کرکے بھی خالی ہاتھ رہ گیا تھا ہسپتال کے گروانڈ میں اردگرد سے بے نیاز سوچوں مستغرق تھا پرندوں کے غول کا شوہر بھی اسے اپنی طرف متوجہ نہ کرسکا پاؤں میں سیاہ چپل ، ڈھیلا ڈھالے سے لباس پہنے رف سے حلیے میں تھا اور اس حلیے میں نجانے کتنے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا تھا __
زعفران کے الفاظ نے اسے حقیقی دکھ سے دو چار کیا وہ اسکا بھائی تھی باپ کی اولاد اسے زعفران سے کوئی خار نہیں رہی بچپن سے پیار کی محرومی سہہ اس نے زعفران سے کبھی گلہ نہیں رہا وہ شروع ان سب کی زندگیوں میں مس فٹ تھا یہ اسکی سوچ نہیں احساس تھا وہ ٹاٹ کا پیوند تھا یہ اسے آج بڑی شدت سے معلوم ہو رہا تھا__
یہ خبر سنتے وہ مزید بے حس بن گیا یہ سنتے ہوئے کہ اسکی منکوحہ اسکی غیر موجودگی میں بیوگی کا سفر طے کرتی اسکے بھائی کی بیوی بن گئی
نجانے کیوں اسے نورِ حرم غلط نہ لگی شروع سے دن نورِ حرم کی نفرت سے واقف تھا اسکی حقیقت جاننے کے بعد نور کو اسکے عہدے سے پیار ہوسکتا تھا وہ اسکے ساتھ زندگی بھی گزار لیتی لیکن اسکی آنکھوں میں اپنے لیے نظر آنا پیار ناممکن تھا یکطرفہ محبت میں وہ بہت خسارے سہہ چکا تھا وہ جل رہا یکطرفہ محبت کے عذابوں میں ___” نورِ حرم آنکھوں کی چمک آنکھوں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی وہ پلکیں حیا سے جھکاتی تو وہ ان نینوں کے گہرائی میں ڈوب جاتا اختیار کھو دیتا ___” دل کرتا کہ اسکے تمام غم سمیٹ لے اسکے گرد مضبوط حصار باندھے اسے زمانے کی نگاہوں سے چھپائے لے ، اسکی تمام ذمہ داری اپنے کندھوں پہ اٹھالے__” اسے اتنی آسائشات دے کی وہ تمام محرومیاں بھول جائے ___” اور ادھر وہ تو ایک روپیہ لینے کی روداد نہیں تھی وہ انا پرست تھی یا اسکی شخصیت خود داری کے دائروں میں لپٹی تھی اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا مگر وہ اسکی رگ رگ سے واقف تھا نور حرم بھلے اسے نفرت کرتی لیکن تھی تو اسکی تھی اب جان لیوا مرحلہ یہ کہ وہ اسکی نہ رہی یہ زعم بھی جیسے ختم ہوگیا___” یہ دکھ اسکی روح کو گھائل کر رہا تھا وہ ٹوٹ چکا تھا ریزہ ریزہ ہوگیا تھا اسے ماں باپ اور بہن بھائی یاد آ رہے تھے دکھ تو یہ تھا وہ بھی اسکے حصے میں نہ آئے واقعی زعفران عالم اس معاملے میں خوش نصیب تھا کہ اسکے پاس رشتوں کا حاصل تھا جبکہ وہ اپنےطسارے رشتہ ہارگیا تھا __
؎ یہ کون و مکاں کی وسعتیں
تجھے دیکھنے کو ترس گئی
وہ میرے نصیب کی بارشیں
کسی اور چھت پہ برس گئیں
فور”س اسے مشن کی کامیابی ، اسکی بہادری کو دیکھتے خوبصورت سا بنگلہ انعام کی صورت میں پیش کر چکی تھی جسے وہ اپنی فیملی کو بہترین زندگی دے سکتا تھا اسے مکمل اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ پیچھے اپنے غازی ہونے کی اطلاع دے سکتا ہے پر اب اسے کوئی چاہ نہیں رہے تھی وہ منزل عام سے غائب رہنا چاہتا تھا _
وہ راتوں کو آسمان پہ چمکنے والا گمنام ستارہ تھا __
ایک نظر اس نے پورے میدان پہ نگاہ ڈالی آسماں سے بارش کی پھواریں برسنے لگیں تو وہآہستگی سے اٹھتا وارڈ میں آگیا پہلی دفعہ اسے لگا کہ کوئی اسکے غم میں برابر کا شریک تھا عیسیٰ نے اسے ایک تصویر دکھائی جو شہرِ خموشاں میں کئی مٹی کے دیروں میں سجی ایک قبر کی تھی جس پہ پوری آب و تاب سے چمکتا نام صالح ارمغان کا تھا اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب صالح ارمغان عالم قبر پہ اپنے ہی نام کی تختی دیکھتا خود پہ فاتحہ پڑھ گیا باہر ہلکی ہلکی بارش موُسلا دھار بارش کی شکل اختیار کرگئی اور اندر کئی تخت فتح کرنے والا فاتح بخت ہار گیا تھا__
؎ پوشاک زندگی تجھے سیتے سنوارتے
سو چھید ہوگئے رفو گر کے ہاتھ میں