قسط: 26
وہ سب کے رکنے کے باوجود بھی چلی گئی جانے والے پختہ ارادہ کرلیں تو پلٹ کہ دیکھتے نہیں ہیں بس چلے جاتے ہیں چاچو اسے اسٹیشن تک چھوڑ کہ گھر آئی چھوٹے سے برآمدے میں اُداسیوں کا راج تھا
بڑھتے قدم رکھے وہ حیران ہوئے کیونکہ سامنے سیاہ چادر میں لپٹی کوئی لڑکی تھی جو کرسی پہ بیٹھی زارا بیگم کے ہاتھ پکڑے ہوئی تھی انداز ملتجیانہ تھا وہ حیرت زدہ ہوتے ٹھٹک گئے جب اس لڑکی کی نگاہ عالم صاحب پہ گئی تو اٹھتی ہوئے ان کی طرف آتی کچھ فاصلے پہ ٹھہر گئی وہ نافہم نظروں سے اسے دیکھتے گئے مگر پھر بھی شناساہی کی ہلکی سی جھلک بھی نہ مل سکی__”
مجھے آپ سے بات کرنی تھی انکل ___” وہ براہ راست عالم صاحب سے مخاطب ہوئی لہجے مییں ججھک کا واضح عنصر تھا __
جو کرنا تھا تم کر چکی ہو اب گھڑے مردے اکھاڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اس نے جانا تھا وہ چلا گیا تمھاری ان معافیوں سے واپس نہیں آجائے گا ___” زارا بیگم پیچھے سے بولے بغیر نہ رہ سکی عالم صاحب نے ایک نظر بیوی کو دیکھا جو شاید معاملے کی نزاکت جانتی تھیں اور پھر اس لڑکی کو جو سیاہ چادر کیے بے انتہا پریشان سے کھڑی تھی __
آپ ہیں کون بیٹا ___” کچھ دیر بیوی کے تلخ تاثرات دیکھتے رہنے کے بعد معاملے کو سجھنے کی کوشش کرتے انھوں نے اسے پوچھا کہ وہ لڑکی کون تھی اور اسکے یہاں آنے کی وجہ کیا ہوسکتی تھی ؟؟ اس لیے وہ اسے پلنگ کی طرف اشارے کرتے خود برآمدے میں داخل ہوئے تو وہ ان کی تقلید کرتی کونے پہ کرسی پہ بیٹھ گئی ___” وہ بولنا شروع ہوئیں تو چپ نہ پکڑی __”
میں وہ بدنصیب ہوں جو رات کے اندھیرے میں محبت کے نام پہ ماں باپ کے ماتھے پہ بدنامی کی سیاہی تھوپ کہ گئی وہ محبت نہیں شر انگیز فتنہ تھی جو مجھے محفوظ دہلیز سے بدنامی کے اڈوں تک لے گئی اور ان سیاہی کے چھینٹوں نے آپ کے پاک بیٹے کے کردار کو بھی داغ دار کیا مجھے دوسرے دن ہی پتہ چل گیا کہ سارا الزام آپ کے بیٹے کے سر آگیا لیکن اس وقت خودغرضی کی آگ میں اندھی ہوگئی تھی جو بری طرح لیٹ میں لے گئی نامحرم سے محبت فتنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں یہ شر ہے اس شر کےلیے میں سچے رشتوں کو محبت کو چھوڑتی عزت کی دہلیز پار گئی __”
آپ کے بیٹے نے لاکھ سمجھایا ڈانٹا غصہ ہوا ” حالانکہ میں اسکی کچھ نہیں لگتی تھی __” مگر پھر بھی اس نے کہا تھا کہ جو لڑکیاں اپنی قمیتیں خود طے کرتی ہیں وہ اپنی حقیقی قدر و قمیت کھو دیتی ہیں یہ بھی کہا تھا تم نایاب ہیرا ہو بیٹیوں کی زندگی کا باپ سے بڑا جوہری کوئی نہیں ہے جو یہ گر دان سکے یہ ہیرا کتنا انمول ہے ___” میں نے اپنی قمیت خود طے کی تھی وقت گزرا تو احساس ہوا کہ واقعی میں نے اپنی قدروقمیت کھو دی __”
اس محبت نے مجھے دکھانے کے لائق نہ چھوڑا مجھے یہ تک کہا گیا کہ جو لڑکی پیدا کرنے والے باپ کی نہ ہوسکی وہ بدکرار مجھ سے کیا وفا کریں گی ___” رات کی سیاہی میں نکلنے والی لڑکیوں کے مقدر سیاہ ہوجاتے ہیں انکل ___” وہ سر جھکائے ندامت سے بولتی کہے جارہے تھی آنکھوں سے پانی بہے چادر کو گیلا کر رہا تھا ___”
ایک قدم نے مجھے بہت رسوا کیا کاش وہ قدم پیچھے ہٹ جاتا تو آج میں بھی لڑکیوں میں شامل ہوتی جن کے کردار بلند ہوتے ہیں جو سر اٹھا کہ چلتی ہیں جب میں باپ کی چوکھٹ پہ تھی توشاید ہی کسی نے دیکھا ہو کیونکہ وہ مجھے چھپاکہ رکھتا تھا ___”
گمنامی ذلیل نہیں کرواتی یہ واحد چیز ہے جس س عزت محفوظ رہتی ہے شہرت کردار پہ سوال اٹھاتی ہے ذلیل کراوتی ہے گمنامی تو فتنہ انگیز شر سے دور رکھتی ہے جب آپ چھپے ہوتے ہیں تب آپ انمول ہوتے ہیں.
اس سے زیادہ سچ کہنے کی ہمت نہیں ہے اور نہ یہ باتیں مجھے زیب دیتی ہیں ___” لیکن یہ بات سچ ہے گھر سے بھاگی لڑکیوں کو نہ معاشرہ قبول کرتا یے نہ ماں باپ ___”
صالح کی شہادت کا کچھ دن پہلے معلوم ہوا اور بہت دکھ ہوا وہ بدکرادری کا الزام لیے ہی دنیا سے چلاگیا کاش میں اسے معافی مانگ سکتی __” اسے کہہ سکتی
کہ نامحرم کی محبت تپتی بھٹی ہے جسے سب کچھ جل جاتا ہے سوا کے علاوہ کچھ نہیں بچتا __” وہ کہہ رہی تھی عالم صاحب خاموش تھے کچھ آوازیں سماعت سے ٹکراتی کئی راز افشاں کرگئیں __زارا بیگم سے برداشت نہ ہوا تو اٹھ کھڑی ہوئیں کیونکہ جب سے وہ لڑکی آئی تھی غلافی آنکھوں والے اپنے شہزادے کی یاد شدت پکڑ گئی __
صرف یہ ثابت کرنے کےلیے میں کردار کا کتنا کھرا ہوں اتنی پاکیزہ کتاب کو گواہ نہیں بناسکتا __” خفاسا لڑتا جھگڑتا چہرہ آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہر گیا آواز شدید سے شدید تر ہوتی چلتی ہوگئیں وقت گھسیٹ کے بہت پیچھے لے گیا بالوں میں اترتی چاندی نے جیسے وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا
میں اگر سچا ہوا تو میرے کردار کی گواہی وقت دے گا
وقت گواہی ہی تو دے گیا ___” ایک بار منظر نگاہوؔ یں گھوم گئے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے __” سارے شواہد اس کے حق میں ہوگئے یہ بات کتنی عجیب تھی جب اسکی گواہی کا حق ہی مجرم نے دیا تھا _”
وہ معتبر ہوا تو عالم صاحب کی نگاہیں اٹھانے لائق نہ رہیں تھیں __”
الزاموں کا دور تھا تو ہر ستم ہنس کہ جھیلا
گواہی کی سچائی کے منبر پہ میں باقی نہ رہا
؎ازقلم خود
آپ باقی رہیں نہ رہیں کردار باقی رہ جاتا ہے __”اور وہ اپنا کردار چھوڑ کہ چلا گیا __”




رات کا اندھیرہ ، گہری ویرانیاں ، اندر تک چبھتی خاموشیاں ، تنہا لوگ یہ پہلی رات گویا بہت ویرانیاں سمیٹے ہوئی تھی کیونکہ رونقیں بکھیرنے والے ، خاموشی میں رہ کہ شور مچائے اپنی حثیت منوانے والے الوادع کر گئے ان دو دونوں گھروں میں تین شخصیات تھی جن کے دلوں میں اولادوں کے غم بس رہے تھے زعفران عالم گھر کا بڑا سپوت آج دوسرا دن گھر نہیں تھا جیسا بھی تھا گھر میں اسکی ایک موجودگی کا احساس ان کے اندر رچتا تھا اولاد تو تھی چاہے جیسی بھی تھی اور صالح ارمغان عالم تو پچھلے ڈھائی سال سے ان کی روحوں کو خالی نہ ختم ہونے والا دکھ دے گیا ___”
ماں کےلیے تو بیٹے کا غم اندر تک چیر گیا مگر عالم صاحب کو صالح نے توڑ دیا اسکے غم نے ان کی کمر جھکا دی علیزے اور صالح دونوں لڑتے جھگڑتے پھر کچھ دیر بعد ساتھ بیٹھے ہنستے گھر میں خوشیاں بکھیر رہے ہوتے
اسکے بال کھینچنا تو علیزے کی ابو ابو کی پکار __” صالح کا ماں کو باپ کے خلاف چڑانا ، وہ سب دیکھتے رہتےبظاہر غصے بھرے تیور میں ہوتے مگر پھر اسکی شرارتیں ، لبوں پہ ٹھہری مسکراہٹ دیکھتے تو دل کے کسی کونے میں ٹھنڈک کا احساس اترتا ، وہ اندر تک سرشار رہتے مگر ذمہ داریوں و اصول میں ڈوبے انکو دوستانہ ماحول ہی نہ دے پائے ___” ان کی اولاد کے اندر باپ کے نام کا خوف پنجے گاڑ گیا __اس بات کا علم تھا مگر سختی کا خول نہ ٹوٹا وہ مزید سخت بن گئے یہ جانے بغیر کے اولاد کے اندر جب بدگمانی جنم لے آئے تو پھر گھر کے شیرازے بکھر جاتے ہیں نیند تو ویسے کوسوں دور رہتی تھی آج اسکی بے گناہی نہ سونے دیا __”
ساتھ گھر میں میں آج ایک کمرہ کا دروازہ بند تھا گھر میں سناٹوں کا راج تھا صائمہ بیگم کو گھر کاٹ کھانے کو دور رہا تھا برتنوں کی گونج کبھی سنائی دیتی ، تو کبھی بار امی امی کے پکار سنائی دے رہی تھی __ اسکے بند دروازے کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسؤوں جمع ہوگئے___آج جیسے ان کےجسم کا کوئی حصہ نکال کہ لے گیا __





سوات آئے اسکو پورا مہینہ ہوگیا تھا یہاں ایڈجسٹ ہونے میں اسے کافی مسائل در پیش آئے وہ یہاں کے ماحول کی عادی نہیں ہو پا رہی تھی مگر پھر بھی ہر ممکن کوشش رہی کہ خود کو ایڈجسٹ کرلے وہ کسی حد تک اپنے آپ کو کھینچ تھان کہ اس ماحول میں لے آئی تھی کیونکہ شروع سے تنہا رہتے رہتے تنہائی کی عادی ہوگئی تھی شور چبھنے لگا تھا
کچھ لڑکیاں خود اعتمادی کے نام پہ بہت زیادہ بولڈ تھیں اسے یہ بات اسے ذرا پسند آئی نہیں تھی وہ اس معاملے میں کافی سختی سے پیش آتی ذرا کوتاہی برداشت کرنا اُسکی فطرت میں ہی نہ تھا کیونکہ وہ شروع سے سکول لیول پہ کافی سٹریکٹ رہی تھی مگر یہاں لڑکیاں دن میں ہزاروں روپ بدل لیتیں اسے پہچاننے میں مشکلات آ رہی تھیں __”
ہوسٹل کے انتظامیہ تک کو غورو فکر نہیں تھی وہ اتنا ماڈرن ماحول دیکھ کہ صبر کے گھونٹ پی رہی تھی اور یہ بات ناقابل برداشت ہوتے ہوئے بھی وہ برداشت کر رہی تھی کیونکہ اسے آئے عرصہ کم تھا وہ خاموشی سے ہر بات کا معائنہ کرتی رہتی یہاں تعلیم کے نام پہ گویا بیوٹی پارلر کھولا گیا ہو وہ اپنا گھر بار چھوڑ آئی تاکہ وہ پیشے سے منسلک فرائض نبھا سکے مگر یہاں فرائض کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا ___”
ونڈو کے باہر سبز پہاڑوں سے ڈھکی وادیاں ، اطراف سے بہتی آبشاریں ، دھویں کے مرغولے ، چھوٹی چھوٹی کاٹیج یہ منظر دنیا میں جنت کا عکس معلوم ہو رہا تھا دریامیں گویا چھوٹے چھو ٹے جزیرے آباد تھے وہ کچھ دور نظر آتے منظر میں کھوگئی مگر جیسے تشنگیوں کا جہاں وہاں بھی آباد تھا__
میم نور آپ کا فلور نمبر 1 پہ روم نمبر 3میں بی بی اے ڈیپارٹمنٹ کے سیکنڈ سمسٹر میں اکیڈمک اینڈ تکینکل رائیٹنگ کا لیکچر ہے ___” اثبات میں سر ہلاتی میم نازیہ کے کہنے پہ وہ اپنے روم سے باہر نکلتی فلور نمبر 1 پہ مقیم لیکچر روم میں پہنچی تو ایک بھگڈر سی تھی ___”
لیکچر روم کے منظر پہ اس نے تفیصلی نگاہ ڈالی ساری طلبہ ایک دوسری کے ساتھ کھینچ جھپٹ میں مصروف تھی تو کچھ موبائل میں سر دئیے بیٹھی تھیں اسے دیکھتے موبائجلدی سے سوئچ آف کرتے کچھ طلبا جن کے پاس موبائل تھا پوڈیم پہ رکھتے وہ نشست سنبھال گئے کیونکہ لیکچر کے دوان فون کی پرمیشن ہوسٹل کے رول اینڈ ریگولیشن میں نہ تھی ___”
صف میں سلیقے سے لگائی گئی کرسیوں کے ساتھ منسلک ڈیسک ، کمرے کے چاروں اطراف کی دیواروں پہ کتابیں اور دیگر مواد کےلیے کیبنٹس جن کہ اوپر بک شلیف بھی مہیا تھا
فرنٹ سائیڈ پہ لیپ ٹاپ اور آڈیوپلے بیک کےلیے سپیکر سیٹ تھے تاکہ لیکچرار بنا کسی رکاوٹ کے لیکچر دے سکے داہنی اطراف کےلیے اساتذہ کی سہولیات کےلیے لیکچرن ، پوڈیم رکھوایا گیا ___” ساکھ کے لحاظ سے ہوسٹل بہت نمایاں تھا یہاں آرمی آفیسر اور امیر باپوں کے بچے ہی پڑھ سکتے تھے باقیوں کے تو بس یہ آنکھوں کا خواب تھا __
السّلام علیکم کلاس ___” وہ داخل ہوتے ہی لیکچرن کے سامنے کھڑی ہوئی لہجے میں ایک متانت چھلکتی محسوس ہوئی اسکی ذات میں ایسا رعب تھا اس پہ نظر پڑتے ہی پوری کلاس میں خاموشی چھاگئی ان کے اثبات میں سر ہلتے ہی اس نے ہاتھ میں پکڑی تکنیکل اینڈ رائٹنگ کی کتاب کھولی اس سے پہلے وہ اصل موضوع پہ آتی نگاہ خالی سیٹ پہ گئی تیسرا دن ایک سیٹ خالی دیکھی تو اسکی ماتھے پہ شکنوں کا اضافہ ہوگیا __”
وئیر از مرینہ سرفراز__؟؟؟ اس کے لہجے میں سختی سمٹ آئی تھی خاموشی بیٹھی لڑکیوں کو حیرت ہوئیں کہ ابھی ان کی میڈم صاحبہ آئے مہینہ بھر نہ ہوا اور وہ اتنی جلدی اسے کلاس کے متعلق معلوم ہوگیا __”
میم اسکی طبعیت بہت زیادہ خراب تھی تو وہ کہہ رہی تھی لیکچر نہیں لے پائے گی __” پہلی صف میں بیٹھی ایک لڑکی نے پنسل بلند کیے جواب دیا تو وہ اثبات میں سر ہلاگئی مگر تسلی ذرا مشکل تھی __”
اس کے بعد اس نےبمشکل لیکچر دیا ساری کلاس کو مین پوائنٹ سمجھاتے اسائمنٹ دیے وہ لیکچر اینڈ ہوتے ہی خدا حافظ کہے نکل گئی اسکا رخ فون کان سے لگائے آدیٹوریم حال کے پاس سے گزرتی ایک لڑکی کی طرف تھا وہ کسی سے باتوں میں مگن تھی چلنے کا بائیں دائیں دیکھنے کا انداز خاصہ مشکوک تھا نورِ حرم اسکی پیروی کرتی جارہی تھی بلاشبہ وہ مرینہ سرفراز تھی وہ روم میں داخل ہوئی تو قہقے کی آواز اس کی سماعت کا حصہ بنی ہاتھ میں کچھ چیز دبی ہوئی تھی __”
اس سے پہلے وہ کمرے کا دروازہ بند کرتی نورِ حرم کو دیکھتے ہی اسکے حواس معتل ہوئے اس نے فون غیر محسوس انداز میں کان سے ہٹایا اور دوسرا ہاتھ پیچھے کرلیا ___”
فون دیں مجھے ___” اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے پیشہ وارانہ کیفیت میں کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی پل میں ہی اس کے چہرے سے خوف کے تاثرات چھٹتے محسوس ہوئے جیسے اس کھیل کی پکی کھلاڑی ہو___” مگر واقف تو سامنے کھڑی شخصیت سے بھی نہیں تھی وہ سیر تھی تو وہ سواہ سیر تھی __”
اس سے پہلے کہ وہ موبائل کو فرش پہ پٹکتی اس کے ہاتھ سے موبائل کھینچ لیا گیا تھا مرینہ سرفراز کی حالت دیکھنے لائق لگ رہی تھی ___”
کیا چھپا رہی ہیں آپ ___؟؟؟ وہ دو قدم اسکی طرف بڑھی مرینہ نے جلدی سے ہاتھ الٹتے وہ چیز ہوسٹل روم کے بیڈ کے کونے میں چھپائی جو نور حرم سے مخفی نہ رہ سکی__”
میرے ساتھ آئیں پرنسپل آفس میں __” اس کی آنکھوں یں انتہا کی سختی تھی ___
پہلے میرا سیل واپس کریں میم ___” ٹائٹ بلیک پینٹ اور شرٹ میں ملبوس وہ لڑکی ہٹ ڈرمی سے گویا ہوئی __”
شیور بٹ آفٹر انویسٹگیشن ___” اس بار نورِ حرم نے پہلے کی نسبت نرمی سے جواب دیا ___”
آپ ہوتی کون ہیں میری انویسٹیگشن کرنے والی __” مرینہ سرفراز بلند آواز میں چلائی __”
فرسٹ لوئر یو ٹیون دین یو ول کم تو ناؤ ہوں ایم آئی __؟؟؟ وہ اسی کے انداز میں میں بولی تو مرینہ سرفراز کا چہرہ دیکھنے لائق تھا نور حرم نے ایک نظر اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں واضح نفرت تھی
میرے ساتھ آفس ڈیپارنمنٹ میں چلیں وہاں ساری جان پہچان ہوگی کیا پتہ آپ میری پرانی رشتہ دار نکل آئیں __” وہ بیڈ کے کارنر سے سیگریٹ کی ڈبی اٹھاتے نہایت اطمنیان مگر طنز سے گویا ہوئی ___”
آج تک کسی میم کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ میری یعنی مرینہ سرفراز کی تحقیق کرے ___” اس نے سگریٹ چھننا چاہا مگرنورِ حرم ہاتھ پیچھے کرگئی __
میں نے کی ہے سو آپ کا اعتراضات ختم ہوجانا چاہیے اب___”
آپ مجھے جانتی نہیں ہیں میرے فاڈرز ڈی _ایس_ پی ہیں میری بیک گروانڈ پاور اتنی ہے کہ آپ بچ نہیں پائیں گی __” اسکے ہاتھ میں چیزیں دیکھتے مزید ہائپر ہوتے سے مینٹلی تھریڈ کرنا چاہا __”
ہاں ہم تو جیسے جنگل سے اٹھ کہ آئیں ہیں نہ___”ابھی آپ خود کو بچائیں پھر میری فکر کجئیے گا
اب چلیں __” دروازے کی طرف اشارہ کرتے اسکے لہجے میں انتہا کی سختی چھپی تھی کہ مرینہ سرفراز ناچاہتے ہوئے بھی مرے مرے قدم اٹھائے اسکے پیچھے چلی آئی تھی




السّلام آباد کے شیرٹن حال کے اندر کا منظر جیسے روشنیاں بکھیر رہا تھا اعزازِ فوج کےلیے منعقد ہونے والی یہ تقریب بہت اہم تھی جو ہیروز” نائٹ کے نام سے معلوم ہورہی تھی عریض دیواریں جو سونے کے کینچلے نازک ڈیزائن سے آراستہ تھی لگژری کرسیاں اور میز تقریب کےلیے ترتیب دی گئی تھیں چمکتے مرمر کے فرش پہ پھول بکھرے کسی کی شہرت کے راستے کی فتح منا رہے تھے قومی ہیرو کے پورٹریٹ دیوار پہ آراستہ تھے عہدار اور رینک آفسران کسی کو داد دینے میں مصروف تھے پس منظر میں ہلکی قومی موسیقی چل رہی تھی صالح امغان عالم کی ہستی اس محفل میں خصوصی تھی جو نیوی بلیو اور ڈارک گرین جیکٹ کوٹ جس کے اوپر نمایاں سلیو پہ بلیک ٹروازر کیپ کے اوپر بیرٹ پہنے وہ آج اس محفل کا خصوصی بادشاہ معلوم ہو رہا تھا سینے پہ صالح ارمغان عالم کا نام بڑے حروف میں کڑھا ہوا تھا جو اسکی شناخت اسکے مقصد کا پتہ دے رہا تھا__'”
کندھے پہ ہیرے کی چمکتے چار سال جو اسکی محنت کے حاصل کردہ عہدے کے نشان تھے یہ عام انسان کےلیے ہرگز نہیں ہوسکتے تھے ___” عیسی ، فہد اور رضا کے پاس کھڑا صالح ارمغان عالم باتوں نجانے کتنے نگاہوں کا مرکز بنا غلافی آنکھوں پہ گھنی پلکوں کا راج ، سنجیدہ لب ، بکھرے بال کیپ کے حدود کچھ واضح تھے کشادہ پیشانی پہ ماں کے اعزاز بھی چھپے نہ تھے چند لمحوں بعد ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلتے لب ، سیاہ براننڈ واچ بازؤں پہ نظر آتی اسکی شخصیت مزید چارچاند لگا رہی تھی وہ گویا فاتح جرنیل کی مانند معلوم ہو رہا تھا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی بیرڈ کجھائی اسکی یہ کمالِ بے نیازانہ ادا کسی کے دل میں کھب کے رہ گئی __
ایمن فاروقی وہ جو اسے دیکھنے سے گریز کرنا چاہتی تھی مگر اسکی شخصیت بار بار کونے کی طرف اسکی سحر انگیز شخیصیت کی جانب کھینچ کہ لے جاتی تھں وہ شخص شاید اسکےلیے نہ تھا صالح کی غیر ارادی نگاہ پڑی تو وہ نگاہیں پھیرتا لب بھینچ گیا
سارے آفسران کی فیملی شامل تھی مگر وہ ہجوم سے بکھرا معلوم ہو رہا تھا کچھ کھودینا ہی پالینے کا نام تھا وہ تو بہت کھوچکا تھا کچھ دیر بعد معاملات طے پاگئے سب سیٹ سنھبالے گئے پھر ہڑبڑی کم ہوتی گئی عورتوں مردوں کے نگاہیں اس نام کی گونج میں اٹک گئی __
لیفٹنٹ کرنل ” صالح ارمغان ___” تالیوں کی آواز گونج اٹھی___”
ایک بلند آواز کی پکار پہ وہ بھیڑ میں سے گزرتا پوڈیم کی جانب بـڑھا مستحکم متوازن اٹھتے قدم گویا اسکے اعتماد محنت اور کرشمائی کا پتہ دے رہی تھی کندھے سیدھے سر اوپر اٹھا کہ چلتا اقتدار اور قیادت کا سماں لگتا معلوم ہوا وہ اپنے کمزور آغاز سے نکلتا مضبوط اختتام میں داخل ہوگیا جب وہ پوڈیم پہ پہنچا حال میں یکدم سناٹا چھاگیا آنکھوں میں رشک بڑھتے چلے گئے اسکی موجودگی ، اسکا احساس گویا شعلہ تھے اس کی آمد خاموش ماحول دھوم مچاگئی مائیک پکڑتے اپنی بات کا آغاز کیا وہ بولا تو آواز حلف میں گونجی گویا اس نے اپنی شخصیت کو ایک نئی دھار دے دی ہو لفظ لفظ پہ کان لگائے سامعین محو تھے الفاظ تلوار کی طرح تھے __اس کے الفاظ دل پہ نقش ہورہے تھے وہ دلوں پہ راج کرنے کا ہنر جانتا تھا ہزاروں بھیدوں سے بھری سیاہ غلافی آنکھیں ایک نئے راز کی کشش کو برقرار رکھتیں معلوم ہوئیں ___”
Asslam e Alikum۔۔۔
“Ladies and gentlemen, my name is saleh armgan alam…My father name is Alaam hussain.I am where I am today because of my parents’ blessings.my parents are the treasure of my life.He is not here,he is everything to me.
Today I stand before you as a symbol of hard work and determination.my journey from humble beginnings to this moment of success has been long and challenging. But I never gave up. Instead, I used obstacles as motivation to push myself harder. Today, I want to encourage you to believe in yourself, chase your dreams, and never lose passion for what you do. Be the change you want to see in the world, become leaders, and make a positive impact on those around you.Difficulties don’t lost ,but they lead to victories.And Allah was with me thorought on this journey …..Thanks
اس نے اپنی تقریر کا اختتام کیا تو حال تالیوں کی جگمگاہٹ سے گونج اٹھا تھا اس مختلف انعامات اور سند سے نوازا گیا شان و تمکنت سے تھی اس فتح سے سر اٹھا چال میں راز تھا وہ راز جن سے شاید کوئی آج تک پردہ نہ اٹھایا پایا تھا __
جس مقام پہ اس کے باپ نے اسے دیکھنے کی خواہش کی تھی وہ اسے شاید بہترین مقام فائز ہوا __ ” اسے اللہ نے بہت عزت سے نوازہ تھا پھر کون تھا عروجِ مقام کے درجے سے نیچے لے کہ آتا ___” وہ آج پتھر سے نگینہ بن ہوکہ مقامِ خاص پہ پہنچا تھا وہ آج کے دن لیفٹنٹ جرنل کے عہدے پہ فائز ہوگیا جو کبھی زمانے کی نگاہ میں آوارہ تھا شخصیت وہی تھی کرادر بھی وہی تھا حالات بدل گئے اس نے حالات کا انتظار نہیں کیا بلکہ خود کو بدل ڈالا__” چار سال اس نے خود کو چھوڑ کہ خود سے منسلک لوگوں کا دفاع کیا ان گزرتے چار سالوؔں میں اس نے بہت ذلت برداشت کی وہ چھوٹے سے سپاہی کپٹن پھر در پہ در عہدے ملنے کے بعد اتنے معتبر عہدے پہ فائز ہوا لوپچیس تیس سال کے تجربوں کے بعد اس رینک پہ پہنچتے لیکن وہ بہت جلد اپنی محنت استقامت میں صرف پانچ سالوں میں ہی ڈائریکٹ اس فیلڈ میں قدم رکھ گیا صرف اپنی ایکسٹرا خوبیوں کو مد نظر رکھ کہ ، کچھ ہائی لیول کورس دیگر پیشہ وارنہ خصوصیات شام تھیں مرتبہ ملنے میں تھوڑی دیر ضرور ہوئی لیکن مقام ایسا ملا کہ دھوم مچ گئی آج اس محفل سے اندازہ ہوگیا تھا
شخصیت حالات نہیں انسان خود بناتے ہیں __”
اسے تم ” غہ سے نوازا گیا چہرے پہ مسکراہٹ آنکھوں میں ہلکی سی نمی لیے وہ اس فارمل تقریب کا خاص مہمان تھا اسکی ذات گمنام سہی مگر درجہ اسکا مشہور ہوگیا __”
در پہ در ترقی کی منزل پہ قدم رکھتے تین چہرے نگاہوں میں گھوم گئے جو بھولنے والے ہرگز نہ تھے
آج مجھے بہت عطا کیا گیا مگر جو عطا کی گئی وہ عطا کرکے چھین لی گئی___یہ بات دل میں کسک کی طرح چبھی تھی __





یہ آج تین دن سے لیکچر اٹینڈ نہیں کر رہیں تھیں بہانہ بس اتنا طبعیت خراب ہے یہ چیزیں دیکھ لیں یہ سٹوڈنٹ نہیں ہوسکتیں آپ ان کے پیرینٹس کو بلوایں _” وہ سر فیصل کے سامنے چیزیں رکھتیں صاف گوئی سے بولی __” اس وقت سر فیصل کے ڈیپارنمنٹ میں ایک میل اور دو فی میل سٹاف تھی جو مقام حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو اپنے آنے کے ایک مہینے بعد ہی اتنی پر اعمتادی سے بات کو واضح کر رہی تھی ___
بیٹا آپ میم سے معذرت کریں اور جائیں یہاں سے ___” انھوں نے نور حرم کے ساتھ کھڑی مرینہ کو اشارہ کرتے شاید اپنی طرف سے معاملات کو ختم کرنا چاہا مگر نورِ حرم ک سر و فیصل کے چہرے پہ پھیلا اطمینان دیکھ کہ معاملے بھانپنے میں دیر نہ لگی __”
معذرت نہیں مذمت چاہیے ___” کیونکہ کچھ غلطیاں جو دائرہ اسلام میں نہ ہوں وہ جرم بن جاتی ہیں اور یہ سلسلہ نجانے کب سے ہو؟؟ وہ اپنے فیصلے پہ ڈٹ گئی
بیٹا آپ فلحال جائیں یہاں سے __؟؟سر فیصل نے اسے مخاطب کیا کوشش منظر عام سے ہٹانے کےلیے تھی وہ چلی گئی جاتے وقت چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی جو نورِ حرم واضح تمسخر محسوس ہوا __
میم نور ہم سکون سے بیٹھ کہ معاملے کو سلجھا لیتے ہیں __” سر فیصل نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا
معذرت لیکن میری نظر میں یہ معاملہ سکون والا ہرگز نہیں ہے یہ آپکےلیے بات ہوسکتی ہے حیرت ہو رہی ہے مجھے __” میم فرح کے صوفے پہ بیٹھتےہلکے سا بیٹھتے اس نے بات جاری رکھی ___”
سرفیصل جو لگھ بھگ پچپن ساٹھ سال کے تھے اتنی صاف گوئی کا اندازہ ہرگز اس لڑکی کے منہ سے نہ کرپائے اور لڑکی بھی وہ جسے یہاں آئے بمشکل ہفتہ ہوا تھا ___”
دیکھیں مس نور یہ خطرناک ہوسکتا ہے ابھی آپ کو آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں آپ معاملے کی نزاکت کو سمجھ نہہں رہیں __”
میرے لیے یا آپ کےلیے ___ ؟؟ اپنی چادر مزید سر پہ ٹھیک کرتے اس نے کافی دیدہ دلیری سے پوچھا میم فرح کاحیرت کے مارے منہ کھل گیا اس نے کہنی نورِ حرم کے کہنی کے ساتھ ٹکرائی تاکہ وہ خاموش ہوجائے مگر اس پہ خاطر خواہ اثر نہ ہوا __” فرح کےلیے نورِ حرم کا روپ بلکل الگ تھا__
دیکھیں مس نورِ حرم ___” ڈی _ایس پی سرفراز احمد یعنی اس لڑکی کے والد عام انسان نہیں ہیں ہمیں محتاط رہ کہ چلنا پڑتا ہے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں آپ تعاون کرنے کی بجائے مباحثہ کریں تو یہ بات بہت غلط ہے یہاں یہ ہوٹلنگ یہ عام سی بات ہے ___” ان کے ماتھے پہ شکنوں کا جہاں آباد تھا وہ حکاتوں کے سلسلے بیان کرنے میں مصروف تھے شاید وہ موقف سے ہٹ جائے __”
آپ اس بات کو یہ ہی پہ ختم کریں اور آئندہ جو لیکچر اٹینڈ کریں ان کی کلاس لیں باقی جو نہیں لینا چاہتے ان کو آپ بلکل فورس نہیں کریں گی آپ کو اپنی سیلری سے غرض ہونا چاہیے باقی تمام باتوں سے نہیں__” سر فیصل نے دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سنایا وہ جو اثبات میں سر ہلا رہی تھی اس کے لب بھینچ گئےشاید مقام صبر کی کنجیاں تھامنا چاہ رہی ہو __”
سوری سر لیکن مجھے حق حلال کی کمائی چاہیے نہ کہ غیر ضروری کمپرو مائز اور کو آپریشن کی _” وہ طلبہ کی سرگرمیوں پہ اعتراضات اٹھانا چاہتی تھی مگر یہاں سب بے معنی تھا اس لیے وہ تمام اعتراضات ک پس پرد ڈالے حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتی نکل آئی تھی




اوہ ڈی جے خیر شیر ___؟؟؟ آج دس دن بعد وہ ہیڈ” کوارٹر سے لیے نکلا کچھ ضروری اطلاعات اسے تفیصلات بتائی گئی اور جو اس نے کچھ کمانڈ اور سٹریجیز پہ نظر ثانی کی تھی تاکہ آنے والے حالات میں معاملات خراب ہوں وہ آسانی سے موڈیفکیشین کر سکے جی _ایج _ک یو والوں کی طرف سے اسے کمانڈ اور سٹریجیز فولو کرنے میں کوئی مسئلہ نہ تھا ___”
رضا اسکے بغل گیر ہوتے انتہائی گرم جوشی سے ملا __”
بس تو اور تیرے یہ نام ___” صالح تپا تھا مسکراہٹ لبوں کا حصہ بنی تھی وہ جان گیا اس کے نام کے طرز تخاطب کو کیونکہ اسکے عہدے نے اسے سب کی نظروں میں ڈی جے بنا دیا تھا
سمجھ نہ تُو بڑے عہدے پہ چلاگیا ہم جیسے چھوٹے لوگ کہاں تیری زندگی میں ہوگئے اب تو اٹھنا بیٹھنا بھی بڑے لوگوں میں ہوگیا ہے __” رضا نے مصنوعی غم سے کہتے اسکے کندھے سے ہاتھ گزارتے اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگا __
تجھے رسک لینے سے ڈر نہیں لگتا صالح __” تو بلاوجہ آگ میں کود جاتا ہے ___” وہ اب اسے چھوڑتے پتھر پہ بٹھتا سوالوں میں گم تھا صالح بھی کچھ دور اسے بیٹھ گیا اسکی قابلیت جانچتے کبھی کبھی اسے حیرت ہوتی _”
زندگی میں رسک نہ لینا ہی سب سے بڑا رسک ہے خطروں کو فنا کرنے کےلیے خطروں سے لڑنا پڑتا ہے ___” وہ یونیفارم شرٹ جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا___” رضا بھی تقلید کرتا اسکے پیچھے ہوا وہ اسے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا __”






اسے یہاں آئے چھ مہینے ہوگئے مہینے میں ایک دفعہ گھر چکر لگالیتی ہوسٹل کے ماحول میں بالکل فرق نہ آیا یہاں کئی لڑکیاں مرینہ سرفراز کے روپ میں گھوم پھر تھیں اس دن کے معاملات کے بعد اس نے مداخلت دینا چھوڑ دی مگر حیرت کی بات تھی اس دن مء اسکا کوئی لیکچر مس نہ کیا بلکہ پوری دن دہی سے لیکچر پہ غورو فکر کرتی کبھی نہ سمجھتی تو اسکے پاس آجاتی ___” اسکا کوئی بیر نہیں تھا اس لڑکی سے _” فرینہ نے اسے سابقہ رویے کی معذرت کی تو اس نے بھی دل میں کوئی بغض نہ رکھتے ہوئے اسے احساس دلایا اسکا پیشہ ایسا تھا ہر قسم کے طلبِ علم کو ہینڈل کرنا اسے آتا تھا __”
فیکلٹی روم اس وقت لیکچرار چئیر پہ بیٹھی کچھ پروگرمز سیٹ کر رہی تھی جن میں شامل نورِ حرم بھی تھی کچھ دیر بعد تمام سپرڈینٹ، کولیگ اور لیکچرار میٹنگ تھی اب تک تو ٹیچر نہیں آئیں تھیں __
میم مے آئے کم ان ___” کسی نے اسے اجازت چاہی تھی آنے والی ہستی فرینہ سرفراز تھی وہ پہلے بھی ایک دفعہ آچکی تھی مگر وہ مصروف ہونے کی وجوہات پہ اس کا مسئلہ نہ جان سکی نور حرم نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اسکے پاس آگئی ___”
میم مجھے ٹاپک سمجھ نہیں آ رہا پلیز آپ ہیلپ کر دیں __” مرینہ نے اپنا مسئلہ بتایا تھا __
بچے ابھی میٹنگ ہے میری سٹاف کے ساتھ ___” میں شام تک آپ کے سارے ڈواٹ کلیئر کر دوں گی ___” وہ لیپ ٹاپ کھولتے تیزی سے چئیر سے اٹھتی بک ریک سے کچھ کتابیں اٹھا کہ ٹیبل پہ رکھی پھر صحفات نکالنے لگی وہ اٹھا کہ تیزی سے پلٹی تو مرینہ مسکرا رہی تھی اسے حیرت ہوئی __
آپ کو کوئی کام ہے ___” اس نے عجلت میں پوچھا اور پھر اپنے کام میں مگن ہوگئی __”
میرا کام تو ہوگیا ___” وہ یہ کہتی چلی گئی چال میں فتح تھی چہرے پہ مسکراہٹ ، آنکھوں میں زہر جو نورِ حرم کی نگاہوں سے مخفی رہا ___”




آدھے گھنٹے میں پروفیسر ، لیکچرار ، اسٹنٹ پروفیسر ، فیکلٹی روم میں نشست سنھبالے ہوئے تھے آہستہ سارے لیکچرار سارے مسائل ڈسکس کر رہےتھے لیکچرار مشترکہ فیصلوں کی رائے لی جا رہی تھی فیکلٹی روم میں سب کی نگاہیں اس پہ ٹک گئی وہ بہت کانفیڈینس نظر آرہی تھی __”
میم نور آپ ___” اسکی باری آئی تھی نقاب میں دو پراعمتاد آنکھیں سنجیدہ سی اس منظر کو جانچنے میں محو تھج جامت سے ماحول میں اسکا نام گونجا وہ فائل اٹھائے کھڑی ہوئی تاکہ اپنی سابقہ کارکردگی دکھاسکے __” مگر ساتھ ہی چھن سے کوئی چیز نیچے گرتی اردگرد اطراف میں پھیل گئی سب اپنی جگہ اٹھ گئے وہ رکی تھی کچھ پڑیاں تھی کچھ اور مادے اور سیال نما کی شکل میں نظر آرہی تھی نورِ حرم کی آواز پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ بے یقینی سے زمین کو گھور رہی تھی اس منظر نے جیسے ساری سماعت محروم کر دیا ہو __”
خاموشی بڑھ گئی ___
گویا لمحے میں منظر بدل گیا ترتیب سے بیٹھا سٹاف ہجوم کی شکل اختیار کرگیا کوئی برس رہا تھا کسی کی آنکھوں میں رحم تھا کچھ ہی پل میں انگلیاں اٹھ گئی
پردوں میں چھپے چہرے کرتوت بھی چھپا کہ رکھتے ہیں لیکن سچائی زیادہ چھپتی نہیں ہے آپ ایسی نظر تو نہ آتی تھی ___” کسی کے زہر نما لفظوں کا تھپڑ پڑا اور گویا وہ اپنے عمر بھر کی ریاضت لٹا بیٹھی صالح کی جدائی نے اتنا نہ مارا جتنا ذلالت کےغم نے مارا تھا پرسوں کی کمائی کسی کے کھیل کھیل میں تباہ ہوگئی
زہر نما سرگوشیاں اردگرد گونج رہی تھی وہ بولنے سے مفلوج ہوگئی مگر محسوس کرسکتی تھی پورے کمرہ گویا گھومتا محسوس ہوا اس کے اردگرد کے چہرے ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے ان کے نقوش نفرت میں مسخ ہوگئے وہ بولنا چاہتی تھی صفائی پیش کرنا چاہتی تھی آواز گلے میں اٹکی محسوس ہوئی نہ دفاع ، نہ مدد بس کردار پہ حملے جاری تھے
آج معلوم ہوا ذلالت بھی مفت میں نہیں ملتی اس کےلیے بھی مہنگا ہونا ضروری ہے قمیتی اثاثے چھوڑنے پڑتے ہیں وہ بڑی عزت سے یہاں ذلیل ہونے آئی تھی دفاع کیسے کرتی جس کے لفظ غم کے لپکے میں پھنس گئے تھے ___”لب کسی کو ، کسی کو بھی اپنی طرف نہ دیکھنے کی دعا مانگنے میں محو ہوتھے
نگاہوں میں عرض تھی یہ اشارہ تھا سچائی کو دیکھنے کےلیے جھوٹے الزامات کے پیچھے __” نگاہیں پھر جھک کے ماربل کے فرش پہ ٹھہر گئیں
الزامات کا بوجھ بہت زیادہ تھا ایک آنسو__نکلا کرب کا ___ پھر دوسرا____اذیت کا_ پھر تیسرا ___ناکردہ جرم کا پھر بہتے گئے یہاں تک آنکھوں سے درد کا سمندر بہہ نکلا __” جن میں تکلیف کا ہر جہاں آباد تھا جسم میں کپکاہٹ جاری تھا
مم__میں نے کچھ نہیں کیا ___” وہ بولی آواز بہت کم تھی الفاظ خلا میں کھوگئے ___”
مس نورِ حرم ___” ہجوم چھٹا اب وہاں کچھ لیکچرار ہی رہ گئے ___
یہ تھی آپکی اصلیت اس دن تو بڑے دعوے کیے جا رہے تھے جب بات مرینہ سرفراز کی تھی شاید وہ گھناونا کام بھی آپ نے کیا الزام اس پہ لگایا تاکہ آپ اپنے عزائم میں کامیاب رہ سکیں ان گزرتے چھ مہنیوں میں آپ ہر کیس میں ملوث ہوگی پھر تو __” سر فیصل شاہ کی آواز گونجی تھی وہ وہیں کھڑے اسے دیکھ رہے ہے آنکھوں مضحکے تھے ___”
اب بتائیں کیا سزا دوں ؟؟؟ وہ بول رہے تھے جبکہ نورِ حرم کی آنکھوں میں منظر لہرایا___”
کچھ خیالات تلپٹ ہوئے تو وہ بغیر کچھ جواب دیے باہر کی جانب بھاگی تھی دل مرمت سے باہر ٹکڑے ٹکڑا ہوا تھا __” شاید ہمتیں جمع کرنے کی حقیر سی کوشش ؟






رات کے دوبجے اسکی آنکھ کھل گئی خواب بہت عجیب سا تھا آج وہ خواب میں آئی تھی آتی تو پہلے بھی تھی مگر آج معاملہ الگ معلوم ہوا اسکا دل آتشزدہ تھا آنکھیں خالی تھیں جیسے کہہ رہی ہو مسئلے بڑھ رہے ہیں روح کو تکلیف ہے ___”
یہ کیسے ہوسکتا تھا صالح کی نور پریشاں تھی رو رہی تھی اس کا دل کسی نے مٹھی میں جھکڑ لیا __یا اللہ میں تیرے فیصلوں پہ راضی تھا پر وہ تو مجھے عطا کی گئی تھی پھ اسکے حصے میں کیسے آگئی ___” وہ زندگی میں کبھی بےبس نہ ہوا ، خوفزدہ نہ ہوا مگر آج ہوگیا تھا وہ ہمیشہ بےبس کر دیتی تھی آج بھی کر دیا __
نور حرم کی آنکھوں میں آنسو اسے بے بسی کی انتہا پہ لے گئے ___” کچھ دیر بعد جب وہ بارگاہ عدالت میں کھڑا ہوا تو دعاؤں میں اٹھتے ہاتھ اسکے نام کے تھے اسکی خیریت کے تھے آج دعاؤں میں شدت اسکی تھی جسے پیچھے کہیں چھوڑ آیا___”
جاری ہے ___