راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

استری والے معاملے کو گزرے تین چار دن ہوگئے تھے اب تو اسکا ہاتھ بھی ٹھیک ہوگیا تھا۔۔۔مگر اس کے احساسات ویسے کے ویسے تھے اسے لگا کہ مانی نے اسے متاثر کرنے کےلیے یہ سب کچھ کیا ہے۔۔۔” اس واقعہ کے اسکا چاچا کہ گھر جانا ہی نہیں ہوا ویسے اس روز دیر تک چاچو کی آواز اسکے کانوں میں گونجتی رہی کیونکہ چاچو تائی سے استری کی بات پہ لڑتے رہے ۔۔۔۔” اس دن کے بعد مانی کی ماسٹر صاحب کی وجہ سے گھر بھی نہیں آیا اور نہ
نورحرم نےل مانی کو اس نے اچھلتا کودتا دیکھا تھا اور ویسے بھی وہ جب اسے دکھائی نہ دیتا تو اسکا دل بڑا پرسکون رہتا تھا کہ خو مخواہ تنگ کرنے آجاتا تھا۔۔۔
اس لیے اسکی غیر موجودگی میں وہ بڑے سکون سے تھی ۔۔۔”
مسسز او مسسز۔۔۔۔۔” وہ ابھی اللہ کا شکر ادا ہی کر رہی تھی جب دیوار سے اسکا منہ نظر آیا۔۔۔ “نورِ حرم نے اس کی خبیث شکل دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیا۔۔۔۔”
شیطان کا نام لیا شیطان حاضر ۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں بڑ بڑاتی اس کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔۔”
کئی میرے خیالوں میں تو نہیں کھوئی ۔۔۔۔اس کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کہ وہ اپنی مخصوص بے ڈھنگی مسکراہٹ سے بولا۔۔۔۔”
پتہ ہے تمھاری بہت لمبی عمر ہے قیامت تک زندگی پاؤگے اللہ کا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔ ” بس لوگوں کو گمراہ کرو جو کام تمھیں سونپا گیا۔۔ ” وہ زہر خند لہجے میں کہتی برآمدے سے چرپائیاں باہر رکھنے لگی ۔۔۔”
اس کا مطلب تم مجھے ہی سوچ رہی تھی ۔۔۔۔” وہ دانت نکال کے بڑے فخر سے بولا۔۔۔۔”
تمھیں تو شیطانوں کا سرادر ہونا چاہیے۔۔۔۔” اب کی بار چرپائیوں پہ چادریں سیدھی کرتے اس نے مصروف سے انداز میں کہا۔۔۔۔” اور پھر اندر سے لکڑی کا ٹوٹا شوپیس لے کہ وہ چرپائی بیٹھی ٹھیک کرنے لگی جس میں پھول لگے ہوئے تھے جو گلدستے کی شیپ میں بنا ہوا تھا۔۔
ویسے مسسز ۔۔۔” میں سوچتا رہتا ہوں کہ اگر تمھیں مجھ سے کبھی عشق ہوگیا تو تم تو مجھ پہ اپنا آپ قربان کر دوگی ۔۔۔۔ ” اس نے بڑے عاشقانہ سٹائل میں کہتے گلے میں لٹکی چین کو گھماتے سیدھا کرتے کہا۔۔۔۔ “
فضول نشئی انسان تمھاری طرح تمھاری باتیں بھی فضول ہیں ۔۔۔
اس نے شوپیس پہ گہری نظر ثانی کرتی جوڑنے کی کوشش کرتے لہجے میں بیزارگی سموتے کہا۔۔۔”
مسسز۔۔۔۔ابھی تم عشق کے سٹیج پہ نہیں آئی اس لیے میری اتنی ڈیسنٹ گفتگو تمھیں گھٹیا لگ رہی ہے ۔۔۔”
لیکن انشا اللہ وہ وقت جلد آئے گا ۔۔۔۔جب تم بانسری اٹھا کہ پہاڑوں سے اترتی ۔۔۔۔میں تاں ہو ہو گئی قربان وے ۔۔۔”
والا گیت گاتے ہوئے میرے ساتھ لگ جاؤگی۔۔۔” اس دن تم سے سارے حساب بے باک ہو جائیں گے جس دن تم مجھ پہ قربان ہوگی۔۔۔۔”
نشئی چرسی شرابی۔۔۔۔۔اس کی بات سنتے سارا خو “ن نورِ حرم کے چہرے پہ سمٹ کہ رہ گیا اس نے زور سے شوپیس اٹھ کہ اس کی طرف پھینکا تاکہ اس کا منہ توڑسکے۔۔۔۔”
سجناں نے پھُل ماریا اوہ وی گملے سمیٹ ۔۔۔۔۔ٹوٹا ہوا شوپیس کیچ کرتے مانی نے آنکھ مارتے کافی اناڑی سے کہا۔۔۔” شوپیس کا کونہ اس کے ہاتھ میں لگا جس سے اسکی ہتیھلی سے خو”ن نکلنے لگ پڑا۔۔۔”
مسز میرے حصے کا کپ مجھے تمھایا جائے ۔۔۔” اس نے پینٹ پہ وہ ہاتھ رگڑتے بے فکری سے کہا جب نورِ حرم نے خو” ن آشام نظروں سے اسے گھورا….” تو وہ بڑی دل پھینک مسکراہٹ لیے گہری نگاہوں سے اسکا ایکسرے کرنے لگا۔۔۔۔”
نورِ حرم اسکی نظریں اپنے اوپر ٹکی دیکھ کہ لہو کہ آنسو پیتی کچن کی جانب بڑھی تھی تاکہ اسے چائے کا کپ دے کر یہاں سے دفعان کرے۔۔۔۔”
کچھ دیر بعد تھرمس میں سے اس کے مخصوص کپ میں چائے دے کہ اسکے قریب دیوار پہ پٹختی اندر چلی گئیں تھی ۔۔۔”
تقربیاً پانچ منٹ بعد وہ باہر نکلی تو ہمیشہ کی طرح وہ کہیں نہیں تھا کپ خالی پڑا ہوا تھا ۔۔۔”
پانچ منٹ بعد گلی میں مانی کے بے ڈھنگوں کی آواز سنائی دی تو وہ ہمیشہ کی طرح افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکی تھی ۔۔
****
صبح ساڑھے تین بجے کا وقت تھا ہر طرف ہوُ کا عالم تھا پوری بستی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی ایک دو گھروں کے باہر پچھلی سائیڈ پہ بلب روشن تھے جو شاید رات میں لوگوں کی آسانی کےلیے لگائے تھے کہ ان کو گزرتے ہوئے پریشانی نہ ہو۔۔۔۔”
اس پسماندہ بستی میں کیڑے مکوڑوں اور جھینگروں کی آواز سناٹے کی وجہ سے بخوبی سنائی دے رہی تھی جو بستی دن میں بچوں اورنوجوانوں سے بھری رہتی۔۔۔۔اب وہ بالکل سنسان پڑی تھا کوئی ذی نفس بھی اس وقت موجود نہیں تھا سب اپنے پرآسائش بستروں میں سو رہے تھے کچھ اللہ والے آہستگی سے چلتے مسجد کےلیے جا رہے تھا جہاں سب مسلمانوں کی عبادت کا اصل مرکز تھا۔۔
یہ وقت تو اللہ کے ساتھ قرب پانے کا تھا مگر اللہ جسے ہدایت دے وہ ہی اللہ کے ساتھ اپنا کنکشن جوڑا سکتا ہے اور زندگی میں اللہ کی ہدایت کا ہونا بہت ضروری ہے ہدایت انسان کے جسم میں خون کی سی مثال رکھتی ہو ۔۔۔جو جس انسان کے اندر نہ ہو وہ مرگ الموت تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔”
جسے اللہ ہدایت دیتا ہےاس کے دل میں خوفِ خدا خود بخود جنم لینے لگ پڑتا ہے مگر یہاں شاید نماز کی اہمیت کا کسی کو پتہ نہیں تھی کچھ لوگ تھے جو اسلام کی چاشنی میں ڈوبے مسجد کی جانب چلے آتے ۔۔۔”
ویسے تو بستی سنسان رہتی تھی گھر کے باہر مکمل خاموشی ہوتی تھی مگر ایک شخص جو کبھی کبھار خلوت میں ناجانے کتنی دیر بیٹھا رہتا جس موجودگی سے کسی کو فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔
کبھی کبھی کسی کے گھر کے باہر دروازے کی دہلیز پہ موجود صالح نامی شخص جو گلی میں بیٹھا خلا کی وسعتوں کو گھورتا نجانے کیا تلاش کر رہا ہوتا یا شاید اللہ کی رحمت کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوتا۔۔۔۔کوئی اکا دُکا شخص جو بھولے بسرے سے اس گلی سے گزرتا تو اس کو دیکھ کہ پہلی نظر میں تو پاگل کا گمان ہوتا ۔۔۔اس لیے کوئی رک کر اس کہ اکیلے یہاں بیٹھنے کی وجہ نہیں پوچھتا شاید اسلیے کہ پاگل ہے کچھ بھی کرسکتا ہے ۔۔۔” وہ روز آدھا گھنٹہ وہاں بیٹھتا اور پھر اس دہلیز سے اٹھتا مسجد کے طرف رواں دواں ہوتا۔۔”
اور حیرت اور عجب کی بات تھی کہ وہ ہی شخص جب سب سے پہلے مسجد میں اپنی میٹھی پرسوز آواز میں اذان دیتا تو سب کی آنکھوں میں حیرت کی لہریں پنپنے لگ پڑتی ۔۔۔اس کی اذان کی آواز کی چاشنی پوری بستی کی جامد خاموشی میں سحر سا بکھیر دیتی تھی ۔۔۔
اس شخص کا حلیہ بہت عجیب سا معلوم سا دکھائی دیتے تھا اس لیے شاید لوگ اسے متکبرانہ نگاہ سے دیکھتے اس شخص کے صاف ستھرے کپڑے تو ہوتے مگر بڑھتے لمبے بال،آنکھوں میں عجیب سا خالی پن ، اس کے پائنچے گھٹنوں سے اوپر کئی لوگوں کی آنکھوں میں تمسخر زدہ ہنسی ہوتی کوئی اس نوجوان کی آنکھوں میں چھپا حزن نہ دیکھ پاتا۔۔۔”
وہ دنیا کی نظروں میں دھتکارا ہوا شخص تھا سب اس کے حلیے کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے۔۔مگر پھر بھی وہ بڑے اعتماد سے نماز پڑھتا اور جس خاموشی سے آتا اسی خاموشی سے واپس چلا جاتا ۔۔۔” سب اس کو بڑے خشمگیں نظروں سے دیکھتے اور پھر آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگتے ۔۔” لیکن صالح نامی شخص کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔اسے اگر فرق پڑتا۔۔۔تو اسکے فرق پڑھنے سے کسی کو کیا فرق پڑنا تھا وہ واحد نوجوان تھا جو ادھیڑ عمر اور بوڑھوں کے درمیان نماز پڑھتا ہے۔۔۔ “
بات سنو اگر آنا ہوتا ہے تو اپنا حلیہ درست کرکے آؤ۔۔۔۔” ورنہ دربار میں چلا جائے یہ مسجد ہے یہاں معزز لوگ نماز پڑھتے ہیں فقیر نہیں۔۔۔۔” فقیروں کا ٹھکانہ درباروں پہ ہے مسجدوں میں نہیں۔۔۔۔” پانچ مرد جو مسجد کی قالین بیٹھے سیپارہ پڑھنے میں مصروف تھے ان میں ایک ادھیڑ عمر نوجوان نے اس کے قریب سے گزرنے پہاسے روک کے اپنے طرف سے سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔۔۔”
منظور صاحب ۔۔۔۔۔” اللہ کے ہاں عزت والا وہ نہیں ہے جس کا تعلیم ، ڈگریاں عہدے اور حسب و نصب اونچا ہے بلکہ اس کے ہاں تقوی اختیار کرنے والا سب سے معتبر ہے۔۔۔۔” کیا پتہ اس رب کی نگاہ میں اس فقیر کا رتبہ آپ سے بڑا ہو۔۔۔۔”
صالح کی بجائے جواب حافظ صہیب شاہ نے دیا تو منظور صاحب نے ان کے الفاظ سنتے شرمندہ ہوتے چپ سادھ لی تھی صالح یک ٹک سے حافظ صہیب شاہ کو دیکھا جو تسبیح کرتے شاید اس کے پیچھے تشریف لا رہے تھے۔۔۔”
آؤ صالح بچے ۔۔۔۔۔وہ امامت کروا چکے تھے اس لیے اسے اپنے ساتھ رہائش گاہ میں لے آئے تھے ۔۔۔”
صالح بچے ۔۔۔۔یہ دنیا شریف لوگوں کی نہیں ہے ۔۔۔” تم ج کسی کو اگر بلاوجہ عزت دوگے تو یہ دنیا تمھیں گرا ہوا سمجھ لے گی ۔۔۔۔ ” انھوں نے اسے اپنے پلنگ پہ بیٹھا اور خود لوہے کے میز پہ رکھی چھوٹی سلنڈرز پہ ایک دیگچی پہ پانی رکھا۔۔۔۔ “
حافظ صاحب ۔۔میں میں چائے بنا دیتا ہوں ۔۔۔آپ بیٹھ جائیں وہ پہلی دفعہ پرتکلف انداز میں اٹھا۔۔۔۔”
نہیں تم بیٹھے رہو مجھ تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔” مجھے کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے ۔۔۔۔” مطلب کوئی تمھارے خلاف کچھ بھی کہہ رہا ہو ۔۔۔چاہے کسی غلط نوعیت کی ہی بات ہو تم نے کسی کو پلٹ کے جواب نہیں دیا۔۔۔صرف اس لیے کہ تم اللہ سے ڈرتے ہو۔۔۔۔ ؟ انھوں نے پیچھے مڑتے اسے سوچوں مستغرق دیکھا اور سوال کیا۔۔۔”
حقیقی دوست سے بھی کوئی ڈرا ہے بھلا ۔۔۔” اپنی منطق سے سوال دیے کر اس نے انھیں لاجواب کر دیا تھا اس کے بعد وہ کچھ نہ بولے ۔۔۔ “
ویسے اللہ سے ڈر بھی لگتا ہے اس کا خوف دل میں پہناں گزین ہوتا ہے ہر چیز سے بیزاری ہونے لگتی ہے اللہ کی نگرانی کا احساس ہونے لگتا ہے دل پل پل کانپتا ہے اور یہ خوف ہوتا ہے کہیں میں اُس سے دور نہ ہوجاؤں ۔۔۔۔” کہیں میں کوئی ایسی حرکت کرکے اس پاک رب کی نظروں میں خود کو گرا نہ دوں ۔۔دل ڈرتا ہے کہ کہیں مجھ سے ایسا عمل سرزد نہ ہو جائے جو میرے رب کو پسند نہ آئے ۔۔۔۔اور محبت عمل پہ ابھارنے کا طریقہ بتاتی ہے کہ میں کچھ ایسا کام کروں کہ اس کی نظروں کی زد اس کی رحمت کے حصار میں آجاؤں ۔۔۔۔اور وہ کروں جو اسے پسند آئے۔۔۔” میرا دل کرتا ہے کہ میں کچھ ایسا کروں کہ اس کے خاص بندوں کی سرفہرست میں آجاؤں ۔۔۔ ” اور کوئی بھی ایسا لمحہ ہے جو مجھے اس پاک پروگادر کے مزید قریب کر دے ۔۔۔”
میری ایک ہی خواہش ہے کہ مجھے اپنے رب کا پسندیدہ بننا ہے صالحین میں اپنا شمار کروانا ہے۔۔۔” اور عشق حقیقی میں خوف اور محبت لازم و ملزم ہیں اس کے بغیر انسان حقیقی عبد نہیں بن سکتا۔۔۔۔محبت اور آزادی کے باوجود بھی میں عشقِ حقیقی میں بخوشی قید رہنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔”
وہ پہلی دفعہ اتنا تفیصلی تبصرہ کرتے انھیں آج دوسری دفعہ حیران کر چکا تھا۔۔۔۔”
ویسے بول اچھا لیتے ہو صالح۔۔۔۔۔پھر خاموش رہنے کی وجہ ۔۔۔۔؟ انھوں نے چائے کا کپ اس کے ہاتھ میں تمھاتے حلاوت سے کہا۔۔۔”
صرف باتوں میں وزن نہیں عمل میں بھی ہو تو زیادہ بہتر ہے ۔۔۔۔” یہ کہتے صالح کے لہجے میں تھکن تھی
انشا اللہ نوجوان اللہ تمھاری ساری جائز پوری کرے گا ۔۔۔۔آمین ۔۔۔۔انھوں نے اس کے پاس تھپکتے اس کی حوصلی افزائی کی تھی ۔۔۔۔” اور اس کے بعد کچھ دیر بعد وہ ٹھہرا پھر مسافر کی طرح وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
****
شام کا وقت تھا نیلگوں افق پہ کھڑا آفتاب دھیرےدھیرے مغرب کی جانب سفر کی روانگی میں تھا۔۔
حسب معمول بچے اپنے کھیل میں مگن کھیل رہے تھے جن میں شامل ماسٹر صاحب کا نکما صاحبزادہ بھی تھا جو بچوں کے ساتھ بچہ بنا ہوا اپنے شیطان چہرہ لیے چھؤٹے چھوٹے لڑکوں میں اپنی بے ایمانیوں سمیت انھیں غضب دلا رہا تھا وہ ان کے ساتھ بنٹے ہی کھیلنے میں مشغول تھا جب ایک بچہ بچہ بھاگتا بھاگتا گلی میں آیا۔۔۔”
مانی بھائی مانی بھائی ۔۔۔” یہ دس روپے کا نوٹ لگ جائے گا۔۔۔ اس بچے بڑی امیدانہ نظروں سے مانی کی طرف دیکھا جیسے اسکی ساری جمع پونجی اسی دس روپے کی نوٹ میں تھی ۔۔۔
ہاں لگ جائے گا دیوار کے ساتھ ۔۔۔مانی نے ایک طائرانہ نگاہ خستہ حال دس روپے کے نوٹ پہ کھیلتے ہوئے کہا اور پھر سے کھیل میں مشغول ہوتا بولا۔۔۔”
مانی بھائی یہ نوٹ شیدو چاچا کی دکان پہ چلے گا یا نہیں ۔۔۔میں یہ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔وہ تو قیاس آرائی کرتا اپنے موقف پہ ڈٹا رہا ۔۔۔جب مانی نے اس کے ہاتھوں سے پیسے لیے بھوکوں کی طرح اپنی جیب میں رکھ لیے ۔۔۔”
مانی بھائی میرا دس کا نوٹ دو ۔۔۔۔” نہیں تو میں اماں کو شکایت لگاؤں گا۔۔۔وہ پٹاخہ سا بچہ روتا رہا چیختا رہا مگر مانی نے کوئی دھیان دیا۔۔۔تو وہ روتے گھر کی جانب بھاگا تھا ۔۔
اوہ مانی اتنا بڑا ریچھ ہوگیا ہے میرے منے کو رولا دیا ہے تو نے۔۔۔اس کا دس روپے کا واپس کر اور اپنی حرکتوں سے باز آجا ۔۔۔نہیں تو میں ماسٹر جی کو شکایت لگاؤں گی۔۔۔۔” پانچ منٹ گزرے جب سامنے والے گھر سے عافیہ خالہ نے دروازہ میں کھڑے ہوتے گلہ پھاڑتے ہوئے کہا۔۔۔”
توبہ ہے عافو خالہ ۔۔۔دس روپے کا نوٹ نہ غفور چاچا ہوگیا جو اتنی ہوائیاں اڑ رہی ہیں ۔۔۔مانی نے کافی ترنگ سے قہقے لگاتے ان کے شوہر کا نام لیا۔۔۔”
بیڑا غرق ہو تیرا۔۔۔۔ککھ نہ رہے ۔۔۔” وہ اپنی چپل اتارتی غصے کی کیفیت میں باہر نکل آئیں ۔۔۔۔تو مانی جلدی سے دس روپے کا نوٹ وہاں پھنکتا گھر کی جانب بھاگا۔۔۔کہ کئی خالہ کی چپلیں اس کے اوپر نہ برسیں ۔۔۔ “
اماں ۔۔۔اماں دس روپے کا نوٹ مل گیا۔۔۔۔” اوہ اماں تیرے جوتے نے تو کمال کر دیا ۔۔۔مانی بھائی غلطی سے دس کی بجاۓ بیس روپے پھینک کے چلے گئے ۔۔۔۔” اس پٹاخے سے بچے نے جلدی سے بیس روپے کا نوٹ اٹھا کہ چوم کے اپنی جیب میں رکھ لیے ۔۔۔” پیچھے جیسے ماں بھی اپنے لاڈلے کے چہرہ بے تحاشہ مسکراہٹ دیکھ ٹھنڈے تاثرات لیے گھر کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔”
****
وہ بے سری آواز میں راگ آلاپتا گھر آیا تو تائی کو امی کے ساتھ باتیں کرتے پایا۔۔۔۔ وہ چپلوں سمیٹ تیسری چرپائی پہ ایسے گرا جیسے سارا دن ہلیں وہی چلا کہ آیا ہو۔۔۔۔
تائی نے ایک نظر اس کی اس حرکت کو دیکھا جو ان سے دو چرپائی چھوڑ کہ لیٹا فون نکالتا الٹے کاموں میں مصروف ہوگیا تھا ۔۔۔وہ انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا
صائمہ تمھیں پتہ ہے ۔۔۔۔۔چوہدری نور محمد بخش کی اکلوتی بیٹی کی شادی ہوئی تو اس نے اپنی بیٹی کو جہیز میں اتنا سامان دیا کہ کیا بتاؤں۔۔۔”
دو بیڈ ، دو شوکیس ، دو الماریاں ، فریج ، ٹی وی ۔۔۔۔دس چارپائیاں ، چھے بڑے سامان والی بیٹیاں ، اور بھی نگتت بتا رہی تھی کہ چوہدری نے اپنی حثیت سے زیادہ سامان دیا ہے ۔۔۔” ساری زندگی باہر رہا ہے اتناجہیز تو دے گا نہ ۔۔۔” وہ اپنی سادگی کے سبب حیرت سے بتا رہی تھیں
اللہ کا نام لیں امی ۔۔۔۔۔اب یہ مت کہیں گا ۔۔۔چھ پیٹوں میں سے ایک بڑی پیٹی سونے کی تھی ۔۔۔مانی جس کا سارا دن فون پہ تھے اماں کی بات سن کہ وہ منہ کھولے حیرت سے ان کی گفتگو سن رہا تھا جب چھ پیٹیوں کے ذکر پہ اس نے بات کرتے ماں کے آگے ہاتھ تک جوڑ دیے ۔۔۔۔ جتنا منہ اتنی لوگوں کی باتیں ہیں ۔۔۔” اس نے بڑ بڑا کہ دل میں جواب دیا تھا۔
چل ہٹ بکواس بند کر ۔۔۔۔” نگہت خود سامان دیکھ کہ آئی تھی ۔۔” زارا بیگم نے اسے ڈانٹ کہ چپ کروایا۔۔۔”
چلیں اماں ٹھیک ہے شکر ہے آپ نے بتا دیا۔۔۔۔۔اب تو ڈاکہ ڈالنا ضروری ہوگیا ہے ۔۔۔وہ یہ کہتا فون اٹھاتا اندر چلا گیا۔۔۔جبکہ اماں سر پیٹ کہ رہ گئیں تھیں۔۔۔
***””
رات کے بارہ بج رہے تھا اماں دوسرے کمرے میں گہری نیند سوئی ہوئی تھی وہ جو دن کو سوجاتی پھر اسے رات کو نیند نہیں آتی لیکن ایک عادت اسکی بہت اچھی تھی وہ رات کو چائے جتنی دیر سے سوتی مگر صبح اذانوں سے پہلے اٹھ کہ فجر کی نماز ادا کرتی ۔۔۔”
ابھی بھی وہ کروٹیں بدل رہی تھی مگر نیند آنے کا نام ہی لے رہی تھی آخر اس نے اٹھ کہ فون اٹھایا اور واٹس اپ کھولی ۔۔۔کوئی میسج نہیں تھا میسج آتا بھی کیسے ؟
ایک علیزے اور چند ٹیچروں کے سوا اس کے کونیکٹ میں نمبر نہیں تھا اس کا حلقہ احباب بھی اتنا زیادہ وسیع نہ تھا کہ وہ کسی بت کرپاتی۔۔۔۔”
فون آن گیلری کی ویڈیو کھول کہ وہ دیکھنے لگی ۔۔۔کچھ پل گزرے جب ایسے لگا کہ دروازہ بج رہا ہے ۔۔۔” وہ اپنا وہم گردانتی لیٹی ہی جب اسے اپنی کھڑکی کی طرف سے آواز سنائی دی ۔۔۔۔”
نور حرم ۔۔۔۔نور حرم ۔۔۔باہر سے مانی کی آواز سنائی دی تو وہ پل کو خاموش ہوگئی تھی ۔۔۔”
نورِ حرم مجھے علم ہے تم جاگ رہی ہو ۔۔۔۔دروازہ کھول دو ۔۔۔۔ ورنہ ابا اس ٹائم حلیے میں دیکھ کہ پھینٹی لگائے گے مسسز ۔۔۔۔” سرگوشی نما اس کی آواز سنائی دی تو وہ کھڑکی کی طرف گئی تھی ۔۔۔”
میں ہرگز نہیں کھولوں گی ۔۔کیا پتہ تم نے کچھ پی رکھی ہو ” کیا پتہ تمھاری نیت میں کوئی فتور ہو ۔۔۔۔” جو شخص دن میں عزت نہیں دیتا وہ رات کو کیا دے گا۔۔۔” صاف لفظوں میں کہتے وہ دوبارہ سے بیڈ پہ آکہ بیٹھ گئی
وہ جتنی بہادر بنتی تھی تو ایک لڑکی ہی نا۔۔۔ اس لیے اس کے دل میں خوف تھا کہ اگر اس نے شراب وغیرہ پی ہوئی تو وہ اس کے ساتھ کچھ غلط نہ کرے ۔۔۔۔”
تم کھول رہی ہو یا میں کھڑکی توڑ دوں ۔۔۔۔ پھر سارے محلے کو پتہ لگا جائے گا۔۔۔”
مانی نے شر انگیز لہجہ اپناتے اسے دھمکی دی تو وہ پھر سے کھڑکی کہ پاس گئی ۔۔۔۔”
ایک نمبر کے لفنگے انسان ہو تم مانی ۔۔۔۔” تم کچھ نہیں کرسکتے آکہ تو دکھاؤ میں اتنا شور مچاؤں گی چاچو آ جائیں گے اور پھر پورا محلہ میری بجائے تمھارا تماشہ دیکھے گا۔۔۔ “
وہ بھی نورِ حرم تھی اپنے نام کی ایک کسی دھمکیوں کو سر پہ سوار کرنا تو وہ خود پہ حرام سمجھتی تھی ۔۔۔۔” باہر اس کی بات سنتے ۔مانی نے بیچارگی سے سر کجھایا تھا۔۔۔”
ٹھیک ہے میں اسی کھڑکی کو پکڑ کہ لیٹا رہوں گا ۔۔۔۔” جب صبح اٹھ کہ تمھاری اماں اور لوگ دیکھیں گے تو کہیں گے کہ رانجھا اپنی ہیر کا انتظار کرتے کرتے پوری رات باہر سوتا رہا۔۔۔پھر اس سچے عشق کی مثایں قائم ہوں گی ۔۔۔ ” کچھ دیر بعد اسکی شرارت سے بھرپور آواز آئی تو نورِ حرم کچن سے مرچیں لے آئی کہ اگر کوئی اس نے حرکت کی تو وہ یہ حربہ استعمال کرے گی ۔۔۔”
سر پہ اچھے سے ڈوپٹہ لپٹتے مرچوں کی چھوٹی سی ڈبی کو پیچھے کرتے وہ کھڑکی پاس آئی اور بہت احتیاط سے کھڑکی کھولی ۔۔۔”
جب وہ اچانک اندر داخل ہوا تو اسکا حلیہ دیکھ کہ نورِ حرم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں گریبان آدھا چاک ، حد سے زیادہ سرخ آنکھیں ، چین گلے میں لٹکی ۔۔۔
سینے پہ گہرا زخم کا نشان دیکھتی وہ خوفزدہ ہوتی اچانک سے پیچھے ہوئی ۔۔۔” تو وہ کھڑکی سے چھلانگ لگاتا اندر داخل ہوتا کھڑکی بند کرکے پلٹا جو خوف سے جامد کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔” اس نے ہاتھ بڑا کہ اسے پکڑنا چاہا تھا۔۔۔
خبر دار ہاتھ مت لگانا مجھے ۔۔۔۔دو۔۔۔۔دور کرو اپنے پلید ہاتھ مجھ سے۔۔۔۔ جیسے وہ اس کے ہاتھوں سے بھی خود کو چھونے سے بچا رہی تھی ۔۔۔۔”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial