روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 10

اس کے الفاظ ابھی تک اس کے دماغ میں گھوم رہے تھے کتنے مان سے اس نے پوچھا تھا کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا.
نہیں .اس کے فقط ایک لفظ نے اسے کتنا دکھ دیا تھا ۔وہ ساری رات سو نہیں سکی وہ دائیں سے بائیں چکر لگاتی رہی ۔کل رات کتنے دعوے سے اس نے کہا تھا کہ وہ دعاؤں میں اسے حاصل کرلے گی ۔اور اسے یقین تھا کہ دعا سب کچھ بدل دیتی ہے ۔وہ اس شخص کو اس سے نہیں مانگے گی وہ اس شخص کو اللہ سے مانگے گی اور اللہ اسے ضرور دے گا ۔
وہ جب سے یہاں آئی تھی ۔اس نے ایک چیز بہت نوٹ کی تھی وہ اس سےکھنچاکھنچا رہتا تھا وہ ایسے ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا ۔بات بھی خاصا دور بیٹھ کے کرتا تھا الگ کمرے میں رہتا تھا لیکن کل رات وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر اندر لے کے آیا تھا سوچتے سوچتے شرمیلی سے مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا ۔
جو بھی تھا جیسا بھی تھا وہ اس کی فکر کرتا تھا اس کے نیند میں ہونے کے خیال سے وہ اسے اٹھا کر لے کے آیا تھا لیکن وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا ۔ایک بار پھر سے اس کے چہرے پر اداسی چھاگئی ہاں تو اتنی جلدی محبت تھوڑی نہ ہو جائیگی ۔محبت ہونے میں تو بہت وقت لگتا ہے ۔لیکن مجھے تو وقت نہیں لگا ۔اپنے خیالوں میں سوچتے ہوئے اچانک ایک سوچ پر وہ رکی
اسے وقت نہیں لگا تھا مطلب اسے محبت ہو چکی ہے کیا وہ اس شخص سے محبت کرنے لگی ہے ۔ٹہلتے ٹہلتے وہ خاموشی سے اپنے نرم گرم بستر پے بیٹھی ۔
ہاں وہ شخص اسے بات بات پر تھپڑ نہیں مارتا تھا ۔اس سے گدھوں کی طرح کام نہیں لیتا تھا ۔بات بات پر اسے تانے نہیں مارتا تھا اسے منہوس نہیں کہتا تھا ۔اسےسونے کے لئے کتنا نرم ملائم بیڈ دیا تھا ۔اس کی بہنوں نے کبھی خواب میں ایسا بستر نہ دیکھا ہوگا ۔جہاں وہ پچھلے دو راتوں سے آرام کرتی تھی۔ اور سب سے خاص بات فاطمہ بی بی نے کہا تھا شوہر سے محبت ہونے کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا وہ تمہارا محرم ہے خود ہی تمہارے دل میں اپنی جگہ بنا لے گا ۔
اور اس نے بنا لی۔ وہ کملی سی لڑکی اس شخص سے محبت کر بیٹھی تھی ۔
یہ جانے بغیر کہ جسے وہ اپنا شوہر اپنا محرم سمجھتی ہے وہ ایک درندہ ہے
°°°°°°°°
صبح فجر کے وقت وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا اس کا ارادہ روح کے اٹھنے سے پہلے ہی چلے جانے کا تھا ۔وہ اب مزید اس کے قریب نہیں رہنا چاہتا تھا ۔وہ اس فاصلے کو قائم رکھنا چاہتا تھا ۔
وہ نہیں چاہتا تھاکہ وہ اس کے پاس آئے کہ جیسے دعوےسے کل روح نے کہا کہ وہ اسے دعاؤں میں حاصل کرے گی اورسچ تویہ تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ روح کو اس سے محبت ہو جائے ۔
کیونکہ عورت اپنے دل میں کسی آدمی کو ایک ہی بار جگہ دیتی ہے ۔وہ اپنے دل کے دروازے ایک ہی بار کھولتی ہے صرف ایک شخص کے لیے اور مرتے دم تک اسی سے محبت کرتی ہے
اس کو اپنے شوہر کے پاس چلے جانا تھا ۔وہ کسی اور کی جگہ نہیں لے سکتا تھا۔
وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا جب نظر سامنے زمین پر صوفے کے ساتھ بیٹھی روح پر پڑی ۔
وہ جائے نماز بچھائے بیٹھی دعا مانگ رہی تھی ۔
مطلب وہ نماز ادا کر چکی تھی ۔
وہ اس کی آہٹ محسوس کر چکی تھی تو اس طرح سے جانا بیکار تھا ۔
وہیں اس کے قریب صوفے پر آبیٹھا ۔لیکن اس نے سوچا تھا کہ جتنی جلدی یہ دعا ختم ہوگی ۔اتنی جلدی ہوئی نہیں تھی وہ دعا سے فارغ ہوکر اٹھی۔
پانچ منٹ کی نماز پڑھتے ہو تم لوگ اور پندرہ منٹ کی دعائیں مانگتے ہو ۔وہ ہنستے ہوئے بولا
اس کی بات سن کر وہ بھی مسکرا ئی ۔
میں اس سے پہلے زیادہ دعائیں نہیں مانگی تھی لیکن اب میں بہت لمبی لمبی دعائیں مانگتی ہوں مجھے اللہ سے بہت قیمتی چیز چاہیے اور کہتے ہیں نہ کہ چیز جتنی قیمتی ہو اتنی ہی لگن سے مانگنی چاہیے ۔
وہ جائے نماز سمیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے بولی ۔
ایسی کونسی قیمتی چیز ہے جو تم خدا سے مانگ رہی ہو۔انداز اتنا خوبصورت تھا کہ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا
آپ ۔۔۔ اک لظفی جواب آیا۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں وہ واقعی نہیں سمجھا تھا ۔
مطلب میں آپ کو مانگ رہی تھی ۔میں نے کہا تھا کل رات آپ سے میں اللہ سے دعا کروں گی کہ آپ کو مجھ سے محبت ہو جائے ۔
اتنی قیمتی چیز مانگ رہی ہوں خدا سے تو وقت لگے گا ہی نہ۔ وہ معصومیت سے کہتی اس کے دل کی دنیا ہلا گئی تھی ۔
لیکن اس کے بارے میں بھی مشہور تھا کہ ڈیول اپنے سینے میں دل نہیں رکھتا ۔اگر دل ہی نہ تھا ۔تو پھر دل کے دنیا کے ہلنے کا کیا ڈر ۔لیکن اگلے ہی پل سوچوں میں ڈوبے ہوئے یارم کو اپنے چہرے پر نرم وگرم ہوا محسوس ہوئی ۔
یہ کونسا طلسم پھونک رہی ہو تم مجھ پر ۔اسے خود پر پھونک مارتے دیکھ کر اس نے پوچھا
ارے طلسم نہیں پھونک رہی ۔دعا مانگ رہی ہوں تاکہ آپ کو کسی کی نظر نہ لگے ۔لڑکیاں آپ سے دور رہیں خیر سے جائیں اور خیر سے آئیں ۔
باقی کچھ نہیں لیکن یہ لڑکیاں دور رہنے والی بات پر یارم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔
اور اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر روح پر بھی یہ راز کھلا تھا کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو دو ڈمپلز کا مالک ہے ۔
وہ بنا اس سے کچھ بولے باہر کے دروازے کی طرف جانے لگا ۔
جب آواز آئی فی امان اللہ ۔ایک بار پھر سے مسکراہٹ کھلی تھی۔
اللہ حافظ ۔ یہ دو لفظ اس نے بہت عرصے بعد استعمال کیے تھے ۔دوبئی جیسے اسلامک ملک میں رہنے کے بعد بھی لوگ یہاں انگریزوں کا طرز زندگی اپنائے ہوئے تھے۔
لیکن آج اتنے دنوں کے بعد کسی کو اپنے سامنے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ اس کےصرف اللہ حافظ کہنے پر وہ ایسے شرمائی تھی ۔ جیسے خدانخواستہ اس نے کوئی رومینٹک بات کی ہو ۔
°°°°°°°
ڈیول میں نے اس لڑکی کے بارے میں سب کچھ پتہ کروا لیا ہے وہ جس جہاز سے آئی تھی اس کی سیٹ ۔پاسپورٹ آئی ڈی کارڈ ۔ اصل میں وہ کوئی اور لڑکی ہے جس کا کارڈ اس نے یوز کیا ہے اس کا نکاح ہوا تھا موبائل فون پر شیخ رمیز اس کا شوہر ہے ۔
اور میں نے اس لڑکی کا سارا بائیو ڈیٹا بھی نکلوا لیا ہے اس کا گھر کہاں ہے کہاں رہتی ہے .
اس کے گھر میں کون کون ہے میں نے سب کچھ پیپر میں لکھ دیا ہے ۔
لیلیٰ تیز تیز اس کے ساتھ چلتی ہوئی پیپر اس کے سامنے کرتی ہوئی بتا رہی تھی یارم نے وہ کاغذاس کے ہاتھ سے لیا اور کہیں ٹکڑے کر ڈالے ۔
تم لوگوں کو ایک بار میری بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے لیلیٰ میں نے کہا ضروری کام پر دھیان دو اور یہ لڑکی ہمارا کام نہیں ہے ۔
کاغذ کو ٹکڑوں کی شکل میں دیتے ہوئے اسے لیلیٰ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا ۔جبکہ لیلی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنا ہاتھ دیکھ رہی تھی ۔
ڈیول میں نے اتنی محنت سے ۔۔۔۔۔”
بہتر ہوگا کہ اپنی محنت ضروری کام پے صرف کرو اور آئندہ میں یہ بے فضول کے کام کرتے نہ دیکھوں تمہیں ۔اس پر سخت نگاہ ڈالتا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
°°°°°°°°
روح کھانا بنا کے فارغ ہوئی تو آکر ضوفے پر بیٹھی۔ یارم نے سے آگے پیچھے کہیں بھی جانے سے منع کر دیا تھا ۔جبکہ یہ فلیٹ ہر طرف سے بند تھا۔
اسے پہلی نظر میں یہ فلیٹ جتنا خوبصورت لگا تھا اب اسے اتنا ہی برا لگ رہا تھا ۔وہ کھلے ماحول میں رہنے کی عادی تھی اور یہاں سب کچھ بند ۔
اسے فی الحال نا اے سی اچھا لگ رہا تھا ۔اور نہ ہی یہ فلیٹ اسے عجیب سے گھٹن ہو رہی تھی یہاں ۔بہت دیر سوچنے کے بعد وہ فلیٹ سے نکلی ۔
بلڈنگ کے سامنے پارک تھا اس کا ارادہ کچھ دیر وہیں جا کر بیٹھنے کا تھا اکیلے میں اسے ڈر تو بہت لگ رہا تھا لیکن اس جگہ اس نے ساری زندگی گزارنی تھی اس طرح سے ڈرتے ڈرتے تو وہ گزار نہیں سکتی تھی اور یہاں پارک میں بہت ساری عورتیں موجود تھیں ۔
وہ فلیٹ لاک کر کے اس پارک کے ایک بینچ پر جا بیٹھی۔ تھوڑی دیر تازہ ہوالینے کے بعد اب اس کا واپس جانے کا ارادہ تھا ۔جب اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔ایک آدمی بھاگتے ہوئے تیزی سے اس کے پاس سے بھاگتاآگے بڑھ گیا ۔جبکہ مکمل کالے یونیفارم میں پولیس اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔
گھبراہٹ کے مارے اس کے ہاتھ پیر کانپنے لگے یقیناًوہ کوئی چور تھا جو پولیس سے بھاگ رہا تھا ۔لیکن پولیس ایسے پبلک پلیز پر گولیاں تو نہیں چلاسکتیں تو کیا وہ کوئی قاتل تھا کوئی خطرناک ترین مجرم جس کا گرفتار ہونا بہت ضروری تھا ۔
وہ ابھی تھوڑا ہی آگے بھاگا تھا جب پولیس نے اس کی ٹانگ پر گولی ماری اور وہ وہیں لیٹ گیا ۔سارے لوگ جلدی سے وہاں جمع ہونے لگے ۔روح وہاں جانا نہیں چاہتی تھی لیکن پارک میں اب کوئی بھی موجود نہ تھا ۔بلڈنگ کے آس پاس کا سارا ایریا ویران ہو چکا تھا ۔
وہ گھبراتے ہوئے اس جگہ پر چلی گئی جہاں اس چور کو گولی لگی تھی اور پولیس اسے گرفتار کر چکی تھی۔وہ آہستہ آہستہ چلتی بالکل ان لوگوں کے پاس جا کرکھڑی ہوئی۔
پولیس والے اس آدمی کو دبوچے زمین سے لگائے ہوئے تھے جبکہ وہ مسلسل ہل رہا تھا ۔
انسپیکٹر صارم تیزی سے اس کے قریب آیا ۔
ڈیول کے آدمی ہونا تم جلدی بولو اسی نے بھیجا تھا تمہیں اس آدمی کو مارنے کے لئے وہ اردو میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔
شاید آگے پیچھے کے لوگ نہ سمجھے اس لیے ۔
میں کسی ڈیول کو نہیں جانتا چھوڑو مجھے ۔وہ غصے سے غرایا۔
ہاں بالکل تم کیسے کسی ڈیول کو جانتے ہوگے تم تو اس کے وفادار آدمی ہو ڈیول کے تو سبھی آدمی اس پر جان دیتے ہیں لیکن افسوس تم پولیس کی گولی سے مروگے ۔اگلے ہی لمحے صارم نے ریوالور کی نوک اس کے سر پر رکھی
۔لیکن اس سے پہلے کی ریوالور گولی چلتی اس آدمی نے اپنی گردن میں لٹکا ہوا ہڈی نما پینڈ اپنے منہ میں ڈالا ۔روح کو کچھ سمجھ نہ آیاپتا چلا تو اتنا کہ اس ہڈی میں زہر تھا ۔
اور اب وہ آدمی مرچکاہے۔زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے نگاہوں کے سامنے کسی کو یوں مرتے دیکھا تھا ..اس کے کانپتے ہاتھ پیر اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔
اگلے ہی لمحے وہ زمین بوس ہو گئی

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial