روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 14

روح کو اپنی باہوں میں لیے یارم کی گستاخیاں بھرتی جارہی تھی ۔اس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوتے یارم نے اس کے بال کھول دیے ۔
میں آپ کے لئے چائے بنا کے لاتی ہوں ‘روح نے اپنا ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ کر ایسے خود سے دور کیا ۔
اور اگر میں تمہیں آج خود سے دور جانے کی اجازت نہ دوں تو ۔!! اس کی تھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اونچا کر کے پوچھا ۔
یہ کیا ہوگیا ہے آج آپ کو ۔کہیں پیار تو نہیں ہو گیا مجھ سے لگتا ہے میری دعا قبول ہوگئی روح نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
پیار ہاہاہا پیار تو تمہیں دیکھتے ہی ہو گیا تھا ۔
اس دن جب تم بنا بتائے کہیں چلی گئی اس دن مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی ۔اور آج عشق ہو گیا ہے ۔اور اگر عشق ہو جائے تو دوری ناممکن ہوجاتی ہے۔میرے پیار اور محبت نے بہت صبر کیا ۔لیکن کیا کروں یہ عشق بےصبرا ہے ۔ یہ تمہاری ہاں کا انتظار نہیں کرے گا ۔ایک ہی جھٹکے سے اسے خود سے قریب کرتے ہوئے یارم نے اسےاپنی باہوں میں اٹھا لیا ۔
یارم میری بات سنیں ۔۔۔۔وہ اسے اپنے والے کمرے میں لے کے آیا تھا اسے بیڈ پر لٹا کر خود بھی اس کے بلکل قریب لیٹ گیا ۔
یارم ۔۔۔۔روح نے پکارا
نہیں ۔” آج کچھ مت بولو ۔آج سے تم میری ہو صرف میری “یارم کاظمی کی” آج میں تمہیں اپنا بناوں گا ۔ اب تم مجھ سے کبھی دور نہیں جاسکتی یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔ میں اپنے پیار پر کنٹرول کر سکتا تھا ۔ لیکن تم نے دعائیں مانگ مانگ کر مجھے خود سے عشق کرنے پر مجبور کیا ۔اب تمہیں میرا ہونا ہوگا ہمیشہ کے لئے ۔ یرم نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب تر کر لیا ۔روح کے بال اس کے چہرے پر بکھرنے لگے ۔اس نے پھونک ماراس کے چہرے سے بال ہٹائے ۔تو وہ کھلکھلائی تھی۔
ایسے ہی طلسم پڑھ پڑھ کر تم نے مجھے خود سے پیار کرنے پر مجبور کیا ہے مجھے بھی تو بتاؤ یہ کونسا تعویذ عشق ہے ۔
میں تو نہیں بتاؤں گی ۔۔۔”روح نے شرارت سے کہا جبکہ ہاتھ دونوں یارم کے ہاتھوں میں قید تھے ۔
مت بتاؤ روحِ جان آج یارم کاظمی اپنے سارے سوالوں کے جواب خود لے لے گا ۔اسے خود پے جھکتے دیکھ کر روح نے اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ۔جب روح کے ہاتھ سے کانچ کی چوڑیاں ٹوٹی ۔اور اگلے ہی لمحے یارم نے اس سے خود سے دور پھینکا ۔اچانک اس جھٹکے کے لیے روح تیار نہ تھی بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکلی ۔پھر شرمندہ سی ہو کر یارم کو دیکھنے لگی جو بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔
یارم میرا وہ مطلب نہیں تھا” اس سے پہلے کے روح اس سے کچھ کہتی کیا وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا
°°°°°°°°
یا خدایا یہ کیا کرنے جا رہا تھا میں ۔ جس کام سے مجھے نفرت ہے جس چیز سے مجھے گھن آتی ہے وہی کام میں روح کے ساتھ کرنے جارہا تھا۔
میں روح کے ساتھ زنا کرنے جارہا تھا۔میں اس لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے جارہا تھا جسے دیکھتے ہی میرے دل کی دنیا بدل گئی ۔جسے دیکھتے ہی میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اسے کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گا ۔
وہ فلیٹ سے باہر نکل آیا اور اپنے فون سے خضر کو کال ملانے لگا ۔
کہاں ہو تم اس وقت ۔۔؟
میں اور شارف ابھی لیلٰی کے کلب سے واپس آئے ہیں کیوں خیریت ۔خضرنے پوچھا۔
ایسا کرو ایک مولوی پکڑو اور اسے لے کر میرے فلیٹ پر آ جاؤ۔وہ جلدبازی میں بولا
مولوی کیوں خیریت ہے نا۔۔۔۔۔” اور اس وقت میں مولوی کا انتظام کہاں سے کروں اس وقت تو کوئی مولوی نہیں آئے گا ۔خضرنے کہا
میں نے نہیں کہا مولوی آئے گا یا نہیں اس کے سر پر بندوق رکھو اپنے ساتھ لے کر یہاں آؤ تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں اور اپنے ساتھ کچھ گواہ بھی لے آنا ۔وہ فون بند کر چکا تھا جبکہ مولوی کا انتظام کرنا اب ان دونوں کا کام تھا۔
°°°°°°°°
کیا میری مزاحمت کی وجہ سے چلے گئے کیا وہ مجھ سے مایوس ہوگئے ہیں ۔اللہ جی نہ جانے کتنا ناراض ہوئے ہوں گے مجھ سے میں کیسے مناوں گی۔ابھی تو سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا تھا میں نے خراب کر دیا ۔۔کیا ضرورت پڑی تھی مجھے ہاتھ چھڑوانے کی ۔میں کیا کروں کیا باہر جاکے دیکھوں ۔۔۔” نہیں نہیں اگر زیادہ غصے میں ہوئے تو پھر سے تھپڑ لگا دیں گے ۔
ہاں تو کام بھی تو تھپڑ کھانے والا کیا ہے میں نے ۔ابھی وہ یہی سب کچھ سوچ رہی تھی کہ باہر کچھ لوگوں کی آوازیں آنے لگیں ۔
یہ اتنی رات کو کون آیا ہے ۔اس سے پہلے کے وہ خود اٹھ کر دیکھتی ۔یارم واپس کمرے میں آیا ۔
اسے واپس کمرے میں آتا دیکھ کر وہ فوراً اس کے قریب آئی۔
یارم سچی میرا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے میں آپ کو خود سے دور نہیں کر رہی تھی ۔ میں تو بس اپنا ہاتھ سوری پلیز مجھے معاف کر دیں پلیز مجھ سے ناراض مت ہوں ۔اس کے سینے سے لگی وہ بری طرح رو رہی تھی ۔
سنو ۔۔۔۔” میری بات سنو اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ کہنے لگا ۔
میں سمجھ سکتا ہوں اس طرح سے فون پہ ہوئے نکاح کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جانتا ہوں تم اس نکاح کو قبول نہیں کر پا رہی اسی لئے تم نے خود کو مجھ سے دور کیا ۔لیکن اب میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا ہمارا دوبارہ نکاح ہو گا اور وہ بھی آج ہی ۔چلو باہر آؤ ۔میں نے گواہ اور نکاح خواں کو بلایا ہے ۔
دوبارہ نکاح ۔۔۔؟وہ الجھ سی گئی۔
ہاں دوبارہ نکاح اب دوپٹہ سر پر لواور باہر چلو ۔
اس کا دوپٹہ خود اس کے سر پر ڈالتا اس کا ہاتھ تھام کر باہر لے آیا ۔
وہ بہت سارے لوگ تھے اور تقریبا سب ہی یارم کے کام کرنے والے تھے اور تقریبا سب ہی حیران اور پریشان کھڑے تھے ۔لیکن سب سے زیادہ حیران تو لیلیٰ تھی۔
مولوی صاحب نکاح کی رسم شروع کریں۔ یارم نے آرڈر دیا ۔
ایک منٹ میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں میرے ساتھ آنا خضر نے اس سے کہا اور یارم کے کمرے میں آگیا۔
°°°°°°
جلدی بولو یارم نے اس کے پیچھے آکر کہا ۔
ڈیول یہ لڑکی پہلے سے کسی کے نکاح میں ہےاور نکاح کے اوپر نکاح نہیں ہو سکتا ۔ تم تھوڑا سا صبر کر لو پہلے اس کی طلاق کرواؤ پھر تمہارا نکاح جائز ہوگا اس طرح سے نکاح نہیں ہو سکتا ۔خضر نے روح سے نکاح کی وجہ نہ پوچھی تھی وہ خود ہی اس کی آنکھوں میں اس کے لیے چاہت دیکھ چکا تھا اور آج سے نہیں نہ جانے کتنے دن سے وہ روح کے لئے اس کی فکرمندی دیکھ رہا تھا۔وہ اس کیلئے جذبات رکھتا ہے یہ بات خضر پہلے ہی سمجھ چکا تھا ۔
وہ آدمی مر گیا خضر میں نے مار دیا اسے یارم نے ایک اور دھماکا کیا ۔
کیا۔۔۔۔! لیکن کیوں ہم سیدھے طریقے سے اس سے بات کر سکتے تھے تمہیں اسے مارنے کی کیا ضرورت تھی ۔
اس نے مجھ سے میری روح کو چھیننے کی کوشش کی اسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا ۔
روح اس کے نکاح میں تھی تم سے ملنے سے پہلے ہی خضر نے چھپا چھپا کر کہا ۔
اب تو ہو گیا نہ جو ہونا تھا اب میری ہونے والی بیوی باہر میرا انتظار کر رہی ہے۔
اتنا کہہ کے یارم رکا نہیں بلکہ کمرے سے باہر نکل گیا ۔خضر بے بسی سے قدم اٹھاتا اس کے پیچھے آیا ۔
°°°°°°°°
تھوڑی دیر بعد نکاح کی رسم ادا ہوئی لیلیٰ آنکھوں میں آنسو لیے اس کے نکاح میں شامل تھی
روحِ نور ولد قیوم خلیل آپ کا نکاح سید یارم کاظمی والد سید ابراہیم کاظمی کے ساتھ پچاس لاکھ سکہ راج الوقت قرار پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے ۔مولوی کے الفاظ روح کے کان میں گونج رہے تھے ۔
اس نے بے یقینی سے سامنے دیکھا ۔جہاں یارم اسے نظروں کے حصار میں لیے بیٹھا تھا ۔
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔؟ مولوی صاحب نے پھر سے پوچھا ۔یارم ذرا سا مسکرایا تھا ۔اور اسے نظروں سے بولنے کا اشارہ کیا ۔
قبول ہے ۔۔۔” اس کے چہرے کو دیکھتے وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولی تھی ۔وہ کھل کر مسکرایا تھا
سوال پھر سے دہرایا گیا ۔ روح نے وہی جواب دیا
نکاح کی رسم ادا ہوئی سب نے مبارکباد دی ۔
لیکن ایک سوال تھا جو روح کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔
جب روح کا پہلے نکاح ہوا تھا تب امی نے کسی شیخ کا نام لیا تھا۔لیکن اس نکاح خواہ نے کسی شیخ کا نام نہیں لیا ۔
لیکن اس وقت تو اسے ہوش ہی کہاں تھا کچھ جاننے کا کچھ سمجھنے کا ۔یہ موقع تو اسے یارم نے دیا تھا ۔

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial