قسط 16
وہ ناشتہ بنا کر لائی تو یارم شاور لے چکا تھا۔اس نے ناشتہ ٹیبل پر لگایا جبکہ یارم شیشے کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا روح کا سارا دھیان ناشتے لگانے پر ہی تھا۔کل سے آج وہ اسے اپنے دل کے زیادہ قریب لگ رہی تھی ۔
اتنی صبح ناشتہ کون کرتا ہے ۔۔۔؟۔وہ اس سے پوچھنے لگا ۔جبکہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ وہ اس سے چھپنے کی کوشش کررہی ہے ۔
میں نے سوچا آپ کو بھوک لگی ہوگی ۔ اس کے منہ میں جو کچھ آیا کہنے لگی۔
نہیں یار بھوک تو نہیں لگی لیکن پیار کرنے کا دلکر رہا ہے۔۔۔۔” کھنیچ کر اسے اپنے قریب کرتے اس کے بالوں میں منہ چھپاتے ہوئے بولا۔
روح کی توجیسے جان پر بن آئی تھی اسے رات کے روپ میں واپس آتے دیکھ کر۔
لیکن مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔،اس نے اپنا آپ چھڑاتے ہوئے بولا ۔
تو مجھے کھا جاؤ۔ تم مجھے کھا لو میں تمہیں کھا لیتا ہوں ۔دونوں کی بھوک ختم ہو جائے گی۔ اس نے ایک بار پھر سے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے اس کو گرفت میں لیا اور بازوں کا گھیرا تنگ کیا ۔
مجھے یہ ڈش پسند نہیں میں نہیں کھاتی ۔ اس نے پھر اپنا آپ چھڑانا چاہا۔
ٹرائی تو کرو بہت ٹیسٹی ہے ۔ وہ اس کے لبوں پر جھکا ۔اور پورے اسقحاق سے اپنے آپ کو سیراب کرنے لگا ۔پھر جب اس کے لبوں کو آزاد کیا تو اس کے چہرے پہ اپنی سنگت کی رنگ دیکھنے لگا ۔جہاں بکھری حیا اور سرخی اسے سکون دے رہی تھی۔
کیسی لگی۔ اگر چاہو تو یہ ڈش تمہیں روز مل سکتی ہے ۔ اور اگر نہ بھی چاہو توبھی یہ ڈش تمہیں روز ضرور ملے گی ۔
کیونکہ یہ ڈش میری فیورٹ ہے ۔ اور اس کے نرم و نازک گلابی لبوں کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے بولا ۔
لگتا ہے آپ نے ناشتہ نہیں کرنا ۔ وہ اپنی شرم و حیا چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی ۔
میں نے تو کر لیا ناشتہ ۔ اور یقین کرو اس سے زیادہ مزے دار آج تک نہیں کیا ۔وہ ذو معنی انداز میں بولا
اور جو میں نے اتنی محنت سے بنایا ہے ۔ وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بولی ۔ جبکہ ہاتھ کبھی دوپٹہ گھوما رہا تھا تو کبھی ناخون منہ جا رہے تھے ۔وہ اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا ۔
اچھا یار کرتے ہیں ناشتہ آؤ بیٹھو ۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھایا اور خود سامنے بیٹھ گیا ۔
ویسے تم نے میرے ایک سوال کا جواب نہیں دیا ناشتہ کرتے ہوئے اسنے پھرسے اسے مخاطب کیا ۔
کون سی بات کا جواب ۔۔؟ وہ نہ سمجھی سے پوچھنے لگی۔
ارے وہی کہ کل تک تو تمہاری زبان کینچی کی طرح چل رہی تھی ۔ایک رات میں ایسا کیا ہوگیا کہ یہ بند ہوگئی ۔ وہ شرارت سے پوچھ رہا تھا ۔
جبکہ ناشتہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپے۔
اچھا اچھا سوری سکون سے ناشتہ کرو میں کچھ نہیں کہتا ۔وہ ہنستے ہوئے بولا
آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں مجھے نہیں کرنا آپ کے ساتھ ناشتہ۔ وہ اٹھ کر باہر جانے لگی
جب یارم نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔کل رات تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گی تو اب کیوں جا رہی ہو وہ بالکل سیریس لگ رہا تھا ۔
باہر جارہی ہوں کوئی پاکستان واپس نہیں جا رہی روح نے بتانا ضروری سمجھا ۔
پاکستان واپس تو اب تم کبھی جا بھی نہیں سکتی ۔ لیکن مجھے چھوڑ کر یہاں سے باہر بھی نہیں جاسکتی۔
تمہیں مجھ سے دور جانے کی یہاں باہر بھی اجازت نہیں ہے ۔آرام سے بیٹھو اور ناشتہ کرو۔وہ بلکل سیریس ہو کر بول رہا تھا روح کو اس کے انداز سے ایک مہینے پہلے والے وہ تھپڑ یاد آئے ۔
تو پھر سے ایک بار اس کے قریب ہی بیٹھ گئی
اچھا نہ میری جان اب میں مذاق نہیں کرتا لو کرو ناشتہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے کھلانے لگا ۔
°°°°°°°°
ناشتہ کرنے کے بعد وہ برتن اٹھا کر کچن میں گئی تو واپس ہی نہ آئی۔تو وہ خود ہی اسے ڈھونڈتا ہوا کچن میں آ پہنچا ۔
یہ جو مجھ سے چھپنے کی کوشش کر رہی ہو نا یہ بالکل بیکار ہے تم چاہ کر بھی مجھ سے نہیں چھپ سکتی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤ۔تمہارا یارم تمہیں ہر جگہ سے ڈھونڈ نکالے گا ۔
میں کیوں چھپنے لگی آپ سے بلا میں تو کام ختم کر رہی ہوں ۔ وہ مسکرائی تھی لیکن سچ تو یہ تھا کہ کل رات کے بعد وہ اس کی بے باک نظریں سے چھپ جانا چاہتی تھی۔اس کی نظریں اسے نظریں جھکانے پر مجبور کر دیتی ۔
اچھا آج سے پہلے تو اتنا کام نہیں تھا یہاں پر تم دو گھنٹے سے یہاں گھسی آخر کر کیا رہی ہو ۔وہ جانچتی نظریں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
میں صفائی کر رہی ہوں۔ اس نے پورے کچن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں جائے جاکر تیار ہوں آپ نے اپنے کام پر نہیں جانا ۔اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا ۔
نہیں شادی کی پہلی صبح کون پاگل کام پے جاتا ہے ۔میں تو اپنی بیوی کے ساتھ ٹائم سپنڈ کروں گا ۔اس نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا
نہیں نہیں آپ کو جانا چاہیے بہت سارے کام ہیں آپ کو نقصان ہو جائے گا میں تو یہی ہوں ۔وہ جلدی جلدی بولی تھی ۔ کیونکہ اس سے پہلے یارم ایک دن بھی اس کے پاس گھر پہ نہ رکا تھا اور اس نے جب پوچھا کیا وہ بہت بزی ہے اپنے کام میں تو کہنے لگا کے اس کے پاس بہت کام ہے سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ۔
ارے بھاڑ میں جائے کام میں تو اپنی بیوی کے پاس رہوں گا میں اپنی بیوی کے ساتھ چند دن بھی نہ گزار پاؤں تو اتنا کام کرنے کا کیا فائدہ ۔۔۔؟وہ محبت سے اس کے گال چومتے ہوئے بولا ۔
جب کہ وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی ۔
وہ تمہارے گال پہ سرخی تھوڑی کم ہو گئی تھی میں نے سوچا لگا دوں وہ مکمل شرارتی انداز میں بولا
چند دن ۔۔؟ وہ اس کی حرکت کو اگنور کرتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
ہاں یار ہنی مون پہ جانا ہے ۔تمہیں گھمانے پھرانے میں تمہیں اپنی فیورٹ جگہ لے کے جاؤں گاجہاں میں اکثر جاتا ہوں ۔ بہت پرسکون جگہ ہے تمہیں بہت اچھا لگے گا ۔
وہاں آپ سارا وقت میرے ساتھ ہوں گے وہ کچھ سوچتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
ہاں بے بی ہنی مون پہ میاں بیوی دونوں ہر وقت ساتھ رہتے ہیں ۔ اور تمہیں تو ویسے بھی اب میں خود سے الگ نہیں ہونے دوں گا۔روح اپنے دھیان میں یہ نوٹ ہی نہیں کر پائی کہ وہ کب اس کے بالکل قریب آ کر کھڑا ہوا ۔ اور اس کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے اسے اپنے مزید قریب کیا
جانتی ہو روح میں نے کبھی اپنے لئے تمہاری جیسی لڑکی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ میں نے تو کبھی بھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اگر کرتا بھی تو اپنی جیسی کسی لڑکی سے لیکن دیکھو نہ مجھے ملا بھی تو کون ۔۔۔” تم
معصوم سی پیاری سی گڑیا جیسی ۔ میں نے تو اپنی زندگی میں کوئی نیکی نہیں کی پھر اللہ نے تم جیسی پری میرے نصیب میں کیسے لکھ دی،
میں دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں ۔
تم مجھے کبھی چھوڑ کر تو نہیں جاؤگی نہ۔ وہ اس کی کندھے پر جھکا سر رکھے آنکھیں بند کیے بول رہا تھا ۔
اگر میں جانا چاہوں تو بھی کیا آپ مجھے جانے دیں گے روح شرارت سے بولی ۔ جب کہ کل سے اب تک وہ ہزار بار اسے کہہ چکا تھا کہ وہ کبھی اسے خود سے الگ نہیں ہونے دے گا۔
نہیں بالکل نہیں کبھی نہیں تم میری ہو ۔ اور میں اپنی کوئی بھی چیز خود سے دور نہیں جانے دیتا ۔جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے ۔ تم خود بھی چاہو تو بھی مجھ سے دور نہیں جاپاوگی ۔
یارم آج آپ بہت خوش ہیں نا۔روح نے ٹاپک بدلا تھا
ہاں بہت ۔جواب مختصر تھا مگر جسارتیں بڑھتی جا رہی تھی ۔
آپ کی اس خوشی میں میں آپ سے کچھ مانگوں تو آپ دیں گے نہ ۔وہ فرمائشی انداز میں بولی
تم جان مانگ لو وہ اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولا ۔
وہ تو ہے ہی میری اسے مانگنے کی کیا ضرورت ہے وہ اترائی تھی ۔
تو پھر کیا چاہے ۔۔۔؟ یارم نے اس کا دوپٹہ کھینچتے ہوئے کہا ۔
پلیز مجھے گھر فون کرنے دیں ۔ وہ منت بھرے لہجے میں بولی ۔
مگر وہ اس کی سن کہاں رہا تھا ۔ وہ تو اس کی گردن میں منہ چھپائے اسے محسوس کرنے میں مصروف تھا ۔یا شاید سن کر اگنور کر گیا تھا ۔
آئی لو یو سومچ ۔اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ ایک بار پھر سے اس کے لبوں پر جھکا ۔
یارم میری بات سنں۔ وہ اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارتا۔مدہوش ہونے لگا ۔
فی الحال تم سنو۔ یہ دھڑکن کیا کہہ رہی ہے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتاہوا وہ بولا
یہ دل تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔کچھ سنا چاہتا ہے یہ صرف تمہارے لیے دھڑکتا ہے ،اسے جواب دو ۔ اس کی بات سنو اسے اپنے بے حد قریب کیے وہ اس کی سانسس اتھل پتھل کر چکا تھا ۔اسے باہوں میں اٹھائے اپنے کمرے میں لے آیا ۔
وہ اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکاتھا
میں چاہتا ہوں تم صرف میرے بارے میں سوچو میرے بارے میں بات کرو ۔ مجھے پیار کرو ۔ مجھے آج تک ایسا شخص نہیں ملا جو مجھ سے محبت کرتا ہوتم مجھ سے محبت کرتی ہو نہ۔۔۔۔؟ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھنے لگا ۔
خاموش کیوں ہو بولو نہ کرتی ہو نہ مجھ سے پیار ۔ وہ اس سے ہلکا سا جھنجھوڑ کر بولا
ہاں ۔کرتی ہوں بہت پیار کرتی ہوں ۔وہ نظریں جھکاتے ہوئے بولی ۔
جبکہ اس کا اظہار سن کر وہ سرشار ساہو کر اس پر جھکا ۔
آئی لو یو ۔اس کے چہرے پر جابجا اپنی محبت کی مہر ثبت کر وہ اسے دنیا کی سوچوں سے دور لے گیا