روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 17

اس کا فون دو بار بج کر بند ہوچکا تھا ۔جبکہ وہ گہری پرسکون نیند سو رہا تھا روح باہر صوفے پے بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی ۔جبکہ اسے پتہ تھا کہ یارم کا فون بج رہا ہے ۔لیکن اس وقت وہ یارم کا بالکل سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی اس سے اتنی محبت کرے گا ۔
یارم صرف کہتا نہیں تھا بلکہ سچ میں اس سے بہت محبت کرتا تھا اس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھ کر وہ ایک ہی رات میں مغرور ہوگئی تھی ۔فون دوبارہ بج بج کر بند ہوگیا ۔
فون بھی یارم کی گہری نیند تھوڑنے میں ناکامیاب رہا تھا ۔
“اب بندہ فون نہیں اٹھا رہا تو اگلا بندہ خودہی سمجھ جائے کہ وہ فون نہیں اٹھا رہا ضرور وہ بیزی ہوگا یا شاید اس سے بات نہیں کرنا چاہتا لیکن ڈھیٹ بن کے فون کرتا ہی رہے گا نہ جانے کون ہے یہ ۔۔۔۔!وہ باہر ٹی وی دیکھتے مصروف انداز میں بولی
وہ بہت دیر تک انتظار کرتی رہی کہ شاید یارم فون اٹھالے لیکن اس نے تو آج قسم کھا رکھی پھر مجبور ہو کر کمرے میں آ گئی ۔
یارم اٹھیں کب سے آپ کا فون بج رہا ہے ۔ وہ جو دروازے سے بولتی ہوئی آئی تھی اندر یارم کو دیکھا تو اس کے ہاتھ میں فون تھا جو وہ اپنے ہاتھ میں الٹا سیدھا گھما رہا تھا ۔
ارے آپ جاگ رہے ہیں تو فون کیوں نہیں اٹھا رہے بیچارا نہ جانے کب سے فون کرکرکے ہلکان ہوئے جا رہا ہے ۔وہ پریشانی سے بولی
میں نے کل ان کمینوں کو سمجھایا بھی تھا کہ آج کے دن مجھے بالکل ڈسٹرب نہ کیا جائے لیکن انہیں دیکھو مجال ہے جو ایک بھی کام خود سے کرلیں ۔وہ فون کو غصے سے گھورتے ہوئے بولا
ہوسکتا ہے کوئی بہت ضروری کام ہو آپ کو بات کر لینی چاہیے ۔وہ کہتے ہوئے اس کے بالکل قریب آگئی تھی ۔
بالکل بھی نہیں آج کا سارا دن میں اپنی بیوی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ۔ اب بندہ سکون سے اپنی میرج لائف بھی انجوائے نہ کرسکے تو فائدہ کیا ہے ان سب کا۔جو بھی ہے خود سنبھال لیں گے اتنے ننھے کاکے نہیں وہ میری ٹیم کے سبھی لوگ بہت ایکٹیو ہیں ۔
یارم نے کہتے ہوئے روح کو اپنی طرف کھینچا اور اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر سے اس کا فون بجنے لگا ۔روح کھلکھلا کر ہنسی۔
لیکن یارم جلدی سے فون کاٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوا
بہت ہنسی نہیں آرہی تمہیں ۔۔۔؟۔
اسے ایک بار پھر سے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ۔
یارم اٹھا لیجئے نافون کوئی ضروری کام ہوگا روح نے اتنے پیار سے کہا ۔کہ یارم کا دل چاہا کہ فون کرنے والے کی جان نکال دے۔
جان اس وقت تم سے ضروری کچھ نہیں ہے ۔ اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں کے قریب لے جاتے ہوئے فون پھر سے بجا ۔اور اس بار غصے سے یارم کا چہرہ سرخ ہونے لگا ۔جس کا اندازہ روح نے باآسانی لگایا تھا ۔
کون مر گیا ہے جو تم لوگ تھوڑا صبر نہیں کر سکتے یارم بولا نہیں بلکہ پھنکارا تھا ۔
ابھی تک تو کوئی نہیں مرا ہے اگر تم کچھ دیر میں ہسپتال نہ پہنچے تو لیلیٰ ضرور مر جائے گی فون سے شارف کی آواز ابھری ۔
کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں وہ ابھی بھی غصے میں تھا ۔
رات لیلیٰ بہت ڈسٹرب تھی تمہاری نکاح کی وجہ سے اس نے اپنے کلب میں ڈرگز اوور ڈوز لے لیا ہے جس کی وجہ سے اس کی جان خطرے میں ہے ۔تم نے اس کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا یارم تم نے اس کی محبت کا یہ صلہ دیا ۔شارف نے دکھ سے کہا ۔
میں آ رہا ہوں۔اس نے بس اتنا کہہ کے فون بند کر دیا ۔
میں نے کہا تھا نہ کوئی ضروری کام ہوگا ۔ورنہ کوئی اس طرح سے آپ کو بار بار ڈسٹرب کیوں کرتا آپ جائیں فریش ہوں تب تک میں آپ کے کپڑے نکالتی ہوں۔یارم نے ہاں میں سر ہلایا اور اٹھ کر واش روم چلا گیا ۔
°°°°°°°°
وہ چینج کرکے جانے لگا۔آجاو دروازہ بند کر لو اندر سے ۔اس نے روح کو پکاراتو روح اس کے ساتھ ہی باہر تک آئی۔جب یارم جاتے جاتے پلٹا ۔
ایک کس مل سکتی ہے ۔وہ جو کب سے سیریس شکل بنائے ہوئے تھا اب پلٹ کر بولا تو روح اچانک ہی نروس ہونے لگی
نی۔۔ نہیں۔۔، آپ جائیں نہ اپنے کام پر ۔وہ کنفیوز ہو کر بولی۔
تم نے مجھے انکار کیا اور تم چاہتی ہو میں ایسے ہی چلا جاؤں ۔ وہ بالکل سیریس لگ رہا تھا ۔
شرافت سے تم خود مجھے کس کردو کیونکہ اگر میں نے کیا تو تمہیں شریف نہیں لگے گا ۔ اور ہوسکتا ہے میرا انداز بھی تمہیں پسند نہ آئے۔وہ اب بالکل اسکے قریب کھڑا تھا۔
جبکہ روح سمجھ نہیں پائی کہ وہ دھمکی دے رہا ہے یا فرمائش کر رہا ہے ۔
آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں ۔وہ منہ بنا کر بولی
ہاں بے بی میں بالکل بھی اچھا نہیں ہوں اور اگر تم نہیں چاہتی کہ میں مزید بُرا ہوکر یہیں رک جاؤں تو تم مجھے ۔۔۔۔۔اس نے اپنے ہونٹوں کی طرف ارشارہ کیا ۔
جب کہ وہ بت بنی نظریں زمین پر گاڑے ہوئے تھی۔
فائن۔وہ ایک قدم اٹھاتا اندر کی طرف بڑھا ۔
نہیں نہیں آپ جائیں اپنے کام پر روح اس کی نیت دیکھ کر فوراً بولی ۔
ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔ وہ اس کے قریب جھکا ۔
آنکھیں تو بند کریں ۔خود کو گھورتے پاکروہ بولی ۔
یارم کے ڈمپلز نمایاں ہوئے۔جوحُکم میری جان ۔وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا ۔
اور ایک بار پھر سے اس کے قریب جھکا”مرتی کیا نہ کرتی اس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما”
اور پھر آہستہ سے اپنے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کو اس کے ماتھے پر رکھا ۔ ڈمپل مزید گہرے ہوئے ۔
اس سے زیادہ تم سے امید بھی نہیں تھی خیر تھینک یو سو مچ ۔وہ روح کی تھوڑی چومتا مسکراتا ہوا نکل گیا روح نے سکون کا سانس لیا ۔
°°°°°°°°°
وہ سیدھا ہوسپیٹل آیا اور دھڑلے سے دروازہ کھولتا ہوا ہسپتال کے اس کمرے میں آیا جہاں لیلیٰ تھی ۔شارف اور خضر پہلے سے ہی یہاں موجود تھےوہ تیزی سے لیلیٰ کی طرف آیا جو بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔
اس نے لیلیٰ کو گردن سے پکڑا اور وہی بیڈ پر لٹا دیا جبکہ شارف اور خضر تیزی سے اس کی طرف بڑھے تھے جنہیں اشارے سے روکتا ہوا بولا ۔
اگر ایک بھی قدم آگے کی طرف لیا ۔تو تم دونوں کے پیر کاٹ کے دوبئی کی سڑکوں پر بھیک منگواؤں گا ۔اور تمہیں بہت شوق ہے مرنے کا خضر میرا ریوالور دو میں ایک ہی بار اس کی جان نکالتا ہوں ۔
کہا تھا تمہیں کہ یہ سارے ڈرامے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ سختی سے اس کی گردن پر ہاتھ جمائے ہوئے پھنکار رہا تھا
ڈیول وہ مر جائے گی ۔شارف چلایا تھا
می۔ میرا سس۔ سانس بند ہو رہا ۔۔۔پپ۔ ۔پلیز ۔لیلیٰ نے کچھ بولنے کی کوشش کی ۔
ہاں تم تو مرنا چاہتی ہونا میں تمہاری موت آسان کر رہا ہوں ۔
پلیز چھوڑو مجھے میرا سس۔ ۔۔لیلیٰ نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن گردن پر دباؤ ہونے کی وجہ سے نہیں بول پائی۔
بیکار میں ڈرگز لینے کی کیا ضرورت تھی لیلیٰ میرے پاس آ جاتی میں خود گولی مار دیتا ۔اس نے ایک جھٹکے سے لیلیٰ کو چھوڑا تو وہ دور جا کربیڈ سے زمین پر گری ۔
لیلیٰ میرے ساتھ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہارا آخری موقع ہے ۔اگر اس کے بعد تم نے اس طرح کی کوئی بھی حرکت کی تو میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا اور پلیز اگر تمہیں خودکشی کرنے کا بہت شوق ہے تو میرے پاس آؤ ۔
تمہیں پتا ہے ۔ مجھے اس طرح سے موت دینے میں بہت مزہ آتا ہے ۔
تم نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا ڈیول میں تمہاری بیوی کو سب بتا دوں گی جب اسے پتہ چلے گا نہ کہ تم ایک ڈان ہو ایک قاتل ہو وہ تمہیں چھوڑ کر چلی جائے گی نہ جانے لیلیٰ میں اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ بول اٹھی۔
جب وہ اس کے پاس زمین پر آبیٹھا ۔اور ایک جھٹکے سے اسے بالوں سے پکڑ کر سیدھا کیا ۔
میں تمہاری زبان کاٹ دوں گا تمہیں وہ موت دونگا جو آج تک کسی کو نہیں ملی ہوگی ۔ تڑپ تڑپ کر مرو گی ۔
کیا کرو گے زیادہ سے زیادہ گولی مار دو گے لیکن میں پھر بھی تمہاری بیوی کو ضرور بتاؤں گی اگر مجھے سکون نہیں مجھے قرار نہیں تو تمہیں کیوں لینے دوں وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی
۔جانتی ہو لیلیٰ زندہ انسان کو زمین کے اندر کیسا محسوس ہوتا ہے ۔نہیں نہ۔۔۔؟ میں بتاتا ہوں ۔فرض کرو میں تمہیں ایک تابوت میں بند کرکے جنگل میں زمین کے اندر دفنا رہا ہوں وہاں تمہیں سانس نہیں آئے گی آہستہ آہستہ تمہاری سانس رکنے لگے گی ۔ تم تابوت کے اندر ہو میں تم پر مٹی پھینک رہا ہوں۔تم اندر سے چلا رہی ہوپلیز مجھے بچاؤ کھولو مجھے نکالو مجھے یہاں سے میری سانس رک رہی ہے۔ تمہیں زمین کے اندر دفن کر کے میں جا چکا ہوں۔ وہ بالکل اس کے قریب بیٹھا بتا رہا تھا ۔وہ بہت غور سے سن رہی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا ۔
وہاں جنگلی کتے کسی کے جسم کی خوشبو سونگھ کر تمہاری قبر کے اوپر گھومنے لگیں گے ۔
اتنے میں وہاں کے شیر بھی انسانی جسم کی خوشبو پہچان کر پہنچیں گے وہ کتوں کو مارنے لگیں گے ۔اگر تمہیں کتے کھائیں گے تو شیر اپنی بھوک کیسے مٹائیں گے۔
ڈیول یہ تم کیا کہہ رہے ہو پلیز چپ ہو جاؤ۔۔” وہ چلائی تھی
قبر کے اندر آتی خوفناک آواز تمہیں مزید خوفزدہ کردیں گی۔لیلیٰ نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھنے چاہے لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے اس کے ہاتھ تھام لئے”
وہ انسانی جسم کی خوشبو پہچان کے غرانے لگےگے پورا جنگل جنگلی خوفناک جانوروں کی آوازوں سے گونجنے لگے گا ۔ قبر کے اندر تمہاری سانسیں روک رہی ہوگی ۔تم خود بھی اپنی سانسوں کی آواز نہیں سننا چاہوں گی کہیں وہ جنگلی جانور تمہاری آواز سن کر تمہیں زمین سے نکال کر چیڑ پھاڑ نہ دیںپھر زمین کے اندر کی مخلوق ۔کیڑے مکوڑے سانپ بچھو تمہارے جسم پر رینگے
پلیز بس کردو ڈیول ۔ لیلیٰ نے روتے ہوئے کہا ۔
تمہیں خود بھی سمجھ نہیں آئے گا کہ تابوت کے اندر وہ کہاں سے تمہارے جسم پر پہنچے،
بس بس پلیز مجھے کچھ مت بتاؤ میں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی ۔بس تمہاری بیوی کو کچھ نہیں بتاؤں گی اپنے اوپر رینگتے جانوروں کو محسوس کرکے وہ چلائی تھی ۔اگلے ہی لمحے یارم نے اس کا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچا ۔
اگر تم نے روح کو مجھ سے دور کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہ تو میں تمہاری موت کو اس طرح سے سوچوں گا کہ تمہارے ان سپوٹرز کی آنے والی ہزار نسلیں کانپ اٹھیں گی اس نے سامنے کھڑے خضر اور شارف کی طرف اشارہ کیا
مجھے بلیک میل کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہے لیلیٰ اس نے ایک جھٹکے سے لیلی کو پیچھے کی طرف چھوڑا ۔
اس سینے میں دل صرف روح کے لئے دھڑکتا ہے باقی دنیا کے لیے میں وہی ڈیول ہوں جس کے ہاتھ آج تک نہیں کانپے ۔وہ اسے بتا رہا تھا جبکہ باہر بینچ پہ بیٹھی معصومہ بُری طرح سے کانپ رہی تھی ۔
°°°°°°°
ڈیول میں اس سب میں شامل نہیں ہوں مجھے نہیں پتہ لیلیٰ نے یہ سارا ڈرامہ کیوں کیا مجھے تو بس اس کے ہسپتال آنے کے بارے میں پتا چلا تو میں یہاں آیا ۔میں ان سب کا ساتھ نہیں دے رہا تھا مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا ۔
وہ ہسپتال کے کمرے سے باہر نکلا تو خضر بھی اس کے پیچھے آیا ۔ کیونکہ وہ اپنی موت ویسی نہیں چاہتا تھا جیسے اس نے لیلیٰ کو اس کی موت بتائی تھی ۔
کیا آپ لیلیٰ کو واقعی ویسے مارنے والے ہو معصومہ نے پوچھا ۔
وہ اس سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی اس سے دور دور ہی رہتی تھی لیکن آج جو کچھ بھی ہوا ۔اس کے بعد تو اسے مزید ڈر لگنے لگا تھا لیکن خضر نے اسپتال کے کمرے سے باہر نکل کر اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا تو وہ ساتھ چلتی پوچھنے لگی
تمہارے بابا کو ایسے ہی مارا گیا تھا ۔ انہیں بھی زندہ زمین میں دفن کردیاگیا تھا ۔میں نہیں جانتا زندہ انسان زمین کے اندر کیسا محسوس کرتا ہے لمحہ لمحہ سانس رکتے ہوئے کیسا محسوس ہوتا ہے ۔
اس دن مجھے گولی لگی تھی اور ہم جنگل کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں تھے ۔
جب باہر سے جانوروں کی ایسی ہی خطرناک آواز آرہی تھی ۔
ان لوگوں نے پہلے تمہارے بابا کو زمین کے اندر دفن کرکے انہیں مارا اور پھر بعد میں جنگلی جانوروں نے انکی لاش کو زمین کے اندر سے نکال کر ۔صدیق اس کے لئے عزیز تھا وہ آگے کچھ نہیں بول پایا
مجھے یقین ہے کہ تم بہت مضبوط ہو لڑکی ۔ وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھتا باہر نکل گیا ۔
جبکہ اپنی باپ کی بے بس موت پر وہ آنسو بہاتی وہی بینچ پر بیٹھ گئی
ڈیول میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا آج لیکن پھر اگر تم یہاں آ ہی گئے ہو تو پلیز وسیم اور راشد کا بھی حل نکال دو ۔
وہ لوگ اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنے پر راضی نہیں ہیں انہوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ وہ کسی ڈیول سے نہیں ڈرتے ۔۔
تو چلو پھر انھیں ڈراتے ہیں ۔میں روح کے ساتھ ایک پرسکون وقت گزارنا چاہتا ہوں ۔اس لیے جلدی سے جلدی سارے کام ختم کر دینا چاہتا ہوں تمہیں میرا ایک کام کرنا ہے ۔
میں روح کو اپنے ساتھ کہیں باہر لے کے جانا چاہتا ہوں دو ٹکٹس کا انتظام کر دو لیکن روح کے اصل نام پے ۔میں تب تک اپنے سارے کام نپٹا ڈالوں گا تمہارے پاس بس اتنا ہی وقت ہے پاسپورٹ بنوانے کے لیے ۔
ٹھیک ہے میں کردوں گا ۔ ڈیول میں تمہارے لئے بہت خوش ہوں لیکن تمہاری زندگی بہت الگ ہے کیا روح اس زندگی سے کمپرومائز کر پائے گی ۔میرا مطلب ہے تم اس لڑکی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہی پروسیوز ہوتے جا رہے ہو ۔مجھے لگا تھا یہ وقتی احساس ہے لیکن تم نے اس سے شادی کرلی ۔لیکن جب اسے یہ سب کچھ پتہ چلے گا میرا مطلب ہے ۔وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پایا تھا۔
کون بتائے گا اسے یارم نےاس کی بات کاٹی ۔
ڈیول یہ چھپی ہوئی بات تو نہیں ہے ۔بہت لوگ جانتے ہیں اگر لیلیٰ نہیں تو کوئی اور سہی ۔
میں نے کہا نہ جو بھی مجھ سے میری روح کو الگ کرنے کی کوشش کرے گا میں اس کی روح نکال دوں گا ۔تم بے فکر ہو جاؤ اتنی ہمت کسی میں بھی نہیں ہے ۔مجھے وسیم اور راشد سے ملنا ہے
وہ خضر سے مزید اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا
°°°°°°°°
وہ خضر کے ساتھ وسیم اور راشد کے ٹھکانے پر آیا تھا۔
شارف آنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجبور تھا ۔ شارف کا کہنا تھا کہ لیلیٰ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ بالکل غلط ہے کیونکہ وہ لیلیٰ کو اپنی بھابھی مان چکا تھا ۔
لیکن اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ڈیول کے سامنے بھی ایسا کہتا اس لئے شرافت سے ان کے ساتھ آگیا ۔
دیکھو میں تم دونوں کو پہلے سے بتا رہا ہوں اگر قتل کرنے کا ارادہ ہے تو میں اندر نہیں آوں گا میں ان گناہگار آنکھوں سے قتل نہیں دیکھ سکتا ۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اسے ڈیول کے مارنے کے انداز سے ڈر لگتا ہے ۔
لیکن ڈیول کی گھوری نے اسے اندر آنے پر مجبور کر دیا ۔
باہر ان کے آدمی اپنے اپنے کام میں مصروف تھے وہ سیدھے ان کے آفس میں آئے اور سامنے کی کرسیوں پر بیٹھے ۔
اگر تم لوگ پھر سے اس ویڈیو کے لئے آئے ہو تو ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ نہیں ہوگا جس طرح سے تم نے واثق ملک کو مارا ہے اتنا کمزور ہمیں مت سمجھنا ۔وسیم بیٹھتے ہوئے بولا ۔
ارے ہم نے تو ویڈیو کا ذکر بھی نہیں کیا ۔بیٹھو ہم آرام سے بات کرتے ہیں خضر نے کہا ۔
ویسے اگر تم ہمیں نائٹ سٹی والا ایریا دے دو تو ہو سکتا ہے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے بارے میں ہم سوچیں ۔اس نے نائٹ سٹی ایریا کانام لیا جوکہ ڈیول کے قبضے میں تھا ۔
مجھے منظور ہے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرو ۔ڈیول نے کہاوسیم نے فاتحانہ نظروں سے راشد کی طرف دیکھا ۔
پہلے ان پیپرز پر سائن کرو وہ ساری تیاری کیے بیٹھے تھے ۔ڈیول پیپر اٹھا کر دیکھنے لگا ۔
شارف وسیم اور راشد کا آفس دیکھو کتنا اچھا ہے ۔ خضر نے شارف کو مخاطب کیا جبکہ وہ سوچ رہا تھا یہ فضول میں کیوں بول رہا ہے ۔
اس سے کئی گناہ زیادہ ہمارا آفس اچھا ہے کیونکہ وہ ساؤنڈ پروف ہے ۔شارف نے جتلانا ضروری سمجھا ۔
انکا افس شارف نے خود ڈیزائن کروایا تھا ۔اور اس معاملے میں وہ بالکل عورتوں جیسا تھا وہ اپنی چیز کو نمبرون سمجھتا تھا ۔
ہمارا افس بھی ساونڈ پروف ہے راشد نے ایک سٹائل میں کہا۔
تھینک یو بس اتنا ہی جننا تھا اس کے ساتھ ہی پھرتی سے ٹانگ گھماتے شارف نے ایک کک سے راشد کو زمین پر گرایا جبکہ دوسرے کو خضر سنبھال چکا تھا ۔
ڈیول یہ دھوکا ہے تم ہمارے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ۔راشد چلایا تھا
چھوڑو ان سب باتوں کو میں تم سے صرف ایک بار پوچھوں گا کیا تم لوگ ویڈیو ڈیلیٹ کرنا چاہو گے اور اگر تمہارا جواب اب بھی نہیں ہے تو اس کے بعد میں کچھ نہیں پوچھوں گا صرف اپنا کام کروں گا ڈیول ان کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا
نہیں وہ ویڈیو ہرگز ڈیلیٹ نہیں ہوگا وسیم چلایا ۔
فائن اب میں نہیں پوچھوں گا تم وہ ڈیلیٹ کر بھی دو تو بھی نہیں ۔ڈیول نے اپنی جیب سے ایک بلیڈ کا پیکٹ نکالا ۔جیسے دیکھتے ہی شارف کا منہ بن گیا ۔
یار نہیں ہم وہ ایسیٹ (تیزاب) کیوں لائے تھے ۔
شارف نے کہا ۔
کس طرح سے مرنا پسند کروگے وسیم ۔ تمہارے پاس دو آپشنزہیں۔ ڈیول نے اس کے سامنے دونوں چیزوں کی طرف اشارہ کیا ۔
ہاہاہا تمہیں کیا لگتا ہے میں ان سے ڈر جاؤں گا مجھے پتہ ہے تم مجھے نہیں مارو گے اگر تم نے مجھے مار دیا تو وہ ویڈیو تو ڈیلیٹ کیسے کرواؤ گے وسیم ہنسا تھا ۔
اس کی ہنسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ڈیول نے اس کا جبڑا پکڑا اور تیزاب کی شیشی اس کے منہ میں انڈیل دی۔ مجھے سیریز موضوع پے ہنسنے والے لوگ زہر لگتے ہیں۔وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ ساتھ کھڑا راشد کپکپانے لگا ۔
جبکہ وسیم کے چہرے پر چھالے پھوٹنے لگے ۔ اس کی ساری نسیں گل چکی تھی ۔
شارف سے مزید برداشت نہ ہوا ۔اسے ابکائیاں آنا شروع ہوئی ۔وہ راشد کو وہی پھینکتا وہاں سے باہر کی طرف بھاگا ۔
ہاں راشد تمہارے پاس بھی دو آپشنز ہیں تم کس طرح سے مرنا چاہو گے اس نے وہیں دو چیزیں اب اس کے سامنے رکھی ۔
راشد نے بے بسی سے خضر کی طرف دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ تیزاب سے مرو کیونکہ بلیڈ سے بہت زیادہ درد ہوگا۔
اس نے راشد کا جبڑا پڑا جب اس کا فون بجنے لگا ۔
فون پر جگمگاتا نام دیکھ کر اس کے گال پہ ڈمپل نمایاں ہوئے سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا تھا ۔اس نے اشارے سے خضر کو راشد کا منہ بند کرنے کو کہا اور خود گہرا سانس لے کر فون اٹینڈ کیا ۔
ہاں جان بہت مس کر رہی ہو مجھے لہجے میں دنیا جہان کی محبت سمو کر بولا ۔
مس نہیں کر رہی بس پوچھ رہی ہوں کہ کیا بناؤں روح شرماتے ہوئے بولی۔
کچھ مت بناؤ میں بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں ہم ساتھ باہر لنچ کریں گے ۔تب تک تم تیار ہو جاؤ ۔اگلے پندرہ منٹ میں میں تمہارے پاس ہوں گا ۔
ٹھیک ہے جلدی آئیے گا ۔”
اوکے جان میں بس ابھی پہنچا ۔ فون بند کرکے جیب میں رکھتے ہی گال پہ ڈمپلز غائب ہوچکے تھے
احسان مانو میری بیوی کا جس نے تمہیں جینے کیلئے دو پل اور دے دیے اب بتاؤ کس طرح سے مرنا پسند کروگے ۔
ڈیول میں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں گا پلیز مجھے مت مارو مجھے بخش دو وہ روتے ہوئے اس کے پیروں میں گرا۔
خضر میں اس طرح کے کیسز میں بلیڈ استعمال کرتا ہوں وہ بخشنے کے موڈ میں نہ تھا ۔
نہیں ڈیول مجھے معاف کر دو میں سب کچھ ڈیلیٹ کروا دوں گا ۔وہ روتے ہوئے بول رہا تھا ۔
تمہیں اس شخص کا واسطہ جیسے تم سب سے زیادہ چاہتے ہو ۔تمہیں تمہارے آپنوں کا واسطہ خدا کے لئے میرے بچے ہیں وہ۔یتیم ہو جائیں گے ۔
مجھے معاف کر دو میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا ۔
خضر اس سے ڈیٹیل لے کر سب کچھ ڈیلیٹ کروا دو ۔ بس اتنا کہہ کے وہ باہر نکل گیا جبکہ خضر پریشان ہو چکا تھا کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی موت کے منہ سے بچ گیا ہوں ۔
ڈیول کی عدالت میں یہ لوگ اکثر موت کے گھاٹ اترتے تھے

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial