قسط 21
یارم یہ میرا آئی ڈی کارڈ ہے ۔وہ آئی ڈی کارڈ پاسپورٹ اور ہنی مون کی ٹکٹ ہاتھوں میں لیے بے یقینی سے پوچھ رہی تھی ۔
ہاں میری جان یہ تمہارا ہے ۔ تمہیں یاد نہیں تم نے فوٹو بنوایا تھا اور ان پیپر پے اپنے سائن بھی کیے تھے ۔
میں کتنی اچھی لگ رہی ہوں نا اس میں ۔وہ کارڈ پر اپنا فوٹو دیکھتے ہوئے بولی ۔تو یارم بے اختیار مسکرایا۔
میری جان ہے ہی بہت خوبصورت ۔اس کا ماتھا چومتے ہوئےاس نے پیار سے اس کے ہاتھ سے پیپرز لے لیے۔کیونکہ اسے ہنی مون اور پاسپورٹ سے زیادہ اپنا کارڈ بننے کی خوشی ہورہی تھی ۔دو دن کے بعد ہم یہاں سے اپنے ہنیمون ٹور کے لئے نکل رہے ہیں لیکن اس سے پہلے یہاں پر تمہاری ساری رجسٹریشن ضروری ہے تمہیں فیک پاسپورٹ سے دوبئی بلایا گیا تھا وہ سب کچھ بھی ٹھیک کروانا ہوگا ۔یارم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
اف یارم اگر آپ مجھے ٹھیک طریقے سے یہاں بلاتے تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا نا ایک اور مصیبت پتا نہیں آپ کو اتنی جلدی کیوں تھی۔روح ٹیڑے مڑے منہ بناتی لیٹ گئی۔
ہاں تو تمہارے بغیر نہیں رہا جا رہا تھا وہ اس پہ جھکتا زور سے اس کا گال چومتے ہوئے بولا
یارم ہم کہاں جائیں گے ۔وہ ایکسائٹڈ ہو کر اس کی طرف کروٹ لے کر پوچھنے لگی۔
آئس لینڈ۔۔۔” اس نے اس کے گرد اپنے بازو حائل کرتے ہوئے کہا
یہاں سے کتنی دور ہے ۔روح نے پھر پوچھا
زیادہ نہیں فلائٹ میں گیارہ ساڑھے گیارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
یااللہ گیارہ ساڑھے گیارہ گھنٹے اتنی دیر ہم کیسے بیٹھیں گے جہاز میں ۔وہ اس کے مزید قریب ہو کر پوچھنے لگی۔
ویسے ہی جیسے تم پاکستان سے دعبئی تک بیٹھی تھی ۔
پاکستان سے دوبئی بہت دور ہے نہ ۔۔
آئس لینڈ بھی دوبئی سے بہت دور ہے ۔یارم نے بتایا
وہاں پرپہاڑہیں۔۔۔؟
یارم نےاس کی باتیں سنتے ہوئے سونے کے لیے آنکھیں بند کی تو وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کے پوچھنے لگی ۔وہ اکثر ایسے ہی باتیں کرتے ہوئے سوتے تھے لیکن آج شاید روح کے سونے کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔
ہاں وہاں پرپہاڑ ہیں برف ہے سمندر ہیں ۔اور بہت سردی ہے۔اکتوبر کے اینڈ میں دوبئی میں خاصی گرمی تھی صرف رات کے وقت تھوڑی بہت سردی لگتی لیکن یہاں کے لوگ تو اتنے نازک تھے۔کہ ابھی سے کمبل لینے لگے ۔جبکہ روح کو تو اپنے پر کمبل بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔
اگر رات میں یارم غلطی سے اس پر کمبل ڈال دیتا تو وہ جلدی سے ہٹا دیتی اور کہتی اتنی گرمی میں آپ کیسے کمبل لےکے سوتے ہیں ۔جبکہ اس علاقے میں سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں کافی ٹھنڈ پڑ رہی تھی ۔
رات ایسے ہی گزری ساری رات یارم اس کی باتیں سنتا رہا وہ اس سے آئس لینڈ میں گھومنے پھرنے کی بات کر رہی تھی۔جنہیں یارم سن کر ہنسنے لگتا ۔
وہاں بہت سردی ہے میری جان ۔یارم نے بتایا تھا
ہاں جیسے یہاں آپ کو بہت سردی لگتی ہے بالکل ویسے ہی نہ ۔میں پہلے بتا دیتی ہوں ہم ساری جگہوں پر گھومنے جائیں گے ۔خبردار جو آپ وہاں جاکے بستر میں گھسے ۔
وہ ابھی طرف سے اسے دھمکیاں دے رہی تھی ۔
وہ جب بھی سونے لگتا پھر اسے کوئی بات یاد آجاتی ۔
ساری رات سوتی جاگتی کیفیت میں گزر گئی ۔جبکہ روح تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہ سوئی تھی ۔
°°°°°°°°°
صبح اٹھتے ہی ناشتہ کرکے یارم اپنے کام پر جانے لگا وہ ہنی مون پر جانے سے پہلے سارا کام نپٹا دینا چاہتا تھا۔وہ دروازے پر رک کے روح کا انتظار کرنے لگا ۔جو کہ کچن میں کھڑی برتن دھو رہی تھی۔
روح یار جلدی آؤ مجھے کام پے جانا ہے۔اس نے پکارا تو جلدی جلدی ہاتھ صاف کرتی کچن سے باہر نکلی۔
روح یارم سے ہائیٹ میں کافی کم تھی یارم کواس کے سامنے مکمل جھکنا پڑتا ۔
یارم اس کے سامنے جھکا اور ہمیشہ کی طرح اس نے شرماتے ہوئے اس کے سر پر بوسہ دیا ۔یہ عادت ان کے نکاح کے روز سے برقرار تھی جبکہ یارم کو اس کی یہ عادت سب سے پیاری لگتی تھی۔اس کے سر پر پیار کر کے وہ ہمیشہ شرماتی اور اس پیاری سی ادا سے یارم کے ڈمپل نمایاں ہوتے۔
پھر یارم نے دروازہ بند کرنے کا آرڈر دیا جس کی روح نے تکمیل کرتے ہوئے فوراً دروازہ بند کر دیا ۔اور ایک بار پھر سے ائس لینڈ کے بارے میں سوچنے لگی ۔کل تقریبا ایک گھنٹہ فاطمہ بی بی سے باتیں کرتی رہی اس نے ان سے گھر کا نمبر بھی مانگا تھا۔
لیکن فاطمہ بی بی نے کہا کہ انہیں تو کبھی نمبر کی ضرورت نہیں پڑی لیکن کل یا پرسوں وہ اس کے گھر جا کر اس کی امی کا نمبر لے لیں گیں ۔وہ چاہتی تھی کہ وہ آج ہی امی سے بات کر لے کیونکہ یارم نے کہا تھا کہ ہنیمون پر کوئی انہیں ڈسٹرب نہیں کرے گا ۔
°°°°°°°°°
شارف آفس پہنچاتو سب سے پہلے ٹکراؤ اس کا لیلیٰ سے ہوا۔
تم مجھے اگنور کیوں کر رہے ہو میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں اور تم مجھے دیکھتے تک نہیں کیا مسئلہ ہے تمہیں۔۔۔؟
مجھے کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا تم نے جو اس دن میرے ساتھ کیا ہے نہ وہی بہت ہے تم نے ڈیول کی نظروں میں مجھے گرانے کی کوشش کی۔
لیلیٰ مجھے لگا تھا تم چاہے کتنی بھی مطلبی کیوں نہ ہو جاؤ لیکن اپنے مطلب کے لئے کسی دوسرے کا استعمال نہیں کرو گی بہت غلط سوچ تھی میری میں یہ سوچتا تھا کہ تم ڈیول کو سمجھتی ہو تم اس کے لئے ایک پرفیکٹ لائف پارٹنر ہو لیکن سچ تو یہ ہے کہ تم اس کے قابل ہی نہیں ہو۔شارف ایک ایک لفظ چھپا چھپا کر بولا ۔
تم اس دو ٹکے کی لڑکی کیلئے ۔۔۔۔۔۔”
زبان سنبھال کر بات کرو لیلیٰ تم میری بہن کے بارے میں بات کر رہی ہو۔اگر ایک بھی لفظ اور کہا تو زبان کاٹ دوں گا تمہاری وہ غصے سے دھاڑا تھا ۔
جبکہ لیلیٰ تو اس کا اندازہولہجہ دیکھ کر رہ گئی۔
میں تمہیں آخری بار بتا رہا ہوں لیلیٰ اگر تم نے میری بہن کی خوشیوں میں آگ لگانے کی کوشش کی تو میں بھول جاؤں گا کہ تم میری دوست تھی اس نے “تھی”پر زور دیا.اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا ۔جبکہ لیلیٰ سرخ چہرہ لئے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
°°°°°°°°°°
فرقان بھائی میری مدد کرے ڈیول نے میرے بھائی کو مار دیا میری آنکھوں کے سامنے آپ یقین نہیں کریں گے اس نے میرے بھائی کو کیسے تڑپا تڑپا کر مارا اس نے میرے سامنے اس کے منہ میں تیزاب سے بھری ہوئی بوتل ڈال دی اس کی ساری نسیں گھل چکی تھی بھائی وہ میرے سامنے مر گیا۔میں کچھ نہیں کر سکا یہاں تک کہ وہ میرے پاس موجود ساری ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کروا چکا ہے۔مجھے اور کچھ نہیں چاہیے بس مجھے میرے بھائی کی موت کا بدلہ لینا ہے۔فرقان بھائی آپ کے علاوہ اور کوئی میری مدد نہیں کر سکتا۔
وکرم دادا بھی ہمارے خلاف ہیں ۔انہیں بھی یہ کام پسند نہیں تھا ورنہ وہ اس معاملے میں میری مدد ضرور کرتے لیکن انہیں ڈیول کے کام کرنے کا انداز پسند ہے۔
فرقان بھائی میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے اور کچھ نہیں چاہیے بس اپنی آنکھوں سے ڈیول کی لاش دیکھنا چاہتا ہوں ۔راشد اس وقت اپنے سامنے صوفے پر بیٹھے فرقان کی منتیں کر رہا تھا ۔فرقان کا بہت بڑا گینگ تھا ۔ وہ اپنے آپ میں بہت پاور رکھتا تھا ۔
وہ اس علاقے پر حکومت کرتا تھا ۔پرڈیول کو اپنا سب سے بڑا دشمن مانتا تھا۔
تم فکر مت کرو راشد میں تمہارے ساتھ ہوں ۔اور جہاں تک بات وکرم دادا کی ہے۔تو ہم ان کوصرف یہی بتائیں گے ڈیول کے ہاتھوں تمہارا بھائی مارا گیا یہ نہیں کہ وہ کیوں مارا گیا وکرم دادا ہمارا ساتھ ضرور دیں گے۔اور پھر لگے ہاتھ میں بھی ڈیول سے اپنے پرانے حساب برابرکرلونگا۔
لیکن ڈیول کو ختم کرنا اتنا بھی آسان نہیں وہ بازکی نظر رکھتا ہے ۔ شیر کی طرح دھاڑنا جانتا ہے تو چیتے کی طرح چیڑنا جانتا ہے۔وہ اتنی آسانی سے ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا اوپر سے اس کی کوئی کمزوری بھی نہیں نہ دوست نہ ساتھی نا عورت نا دولت اخر کس طرح سے ہم اس کو مات دیں ۔
ڈیول کو راستے سے ہٹانا اتنا آسان نہیں ۔ لیکن اگر وکرم دادا اور ہم ایک ساتھ ہو جائیں تو یہ زیادہ مشکل بھی نہیں رہے گا ۔
°°°°°°°°°°
تم سب کچھ سنبھالو گے نہ خضر۔ مجھے شکایت کا موقع نہ ملے ۔ اور شارف کی طرف سے تو ہرگز نہیں۔وہ اس وقت خضر کو سارا کام سمجھا رہا تھا وہ اپنے پیچھے خضر کو چھوڑ کر جارہا تھا۔
تم بالکل فکر مت کرو میں ہوں نہ تم ٹھیک سے اپنا ہنیمون انجوائے کرنا۔یہاں میں سب کچھ سنبھال لوں گا اور شارف کی طرف سے بھی تمہیں کوئی شکایت نہیں ملے گی ہاں لیکن میں لیلی کی کوئی گارنٹی نہیں دے رہا۔
وہ سر پھری لڑکی تین دن سے یہاں نہیں آرہی تھی اور آج آئی ہے تو باہر بیٹھی اپنی فیشن کی دکان کھول رکھی ہے۔میں نے اسے کہا تھوڑا کام پہ دھیان دو تو کہتی ہے جس پر دھیان دیتی تھی اسے تو میرا دھیان ہی نہیں ۔مجھے تو لگتا ہے اس کا سر گھوم گیا ہے خضرلیلی سے کافی اکتایا ہوا تھا۔جو کسی کو کھاتے میں ہی نہیں لا رہی تھی۔ جبکہ ہیکنگ کا سارا کام صرف لیلیٰ کر رہی تھی جو بہت دنوں سے رکا ہوا تھا ۔
بلاؤاسے میں خود بات کرتا ہوں۔یارم کے آرڈر پر خضر نے فورا اسے بلایا اور اگلے پانچ منٹ میں وہ اس کے کیبن میں تھی۔
°°°°°°
دیکھو لیلیٰ اگر تمہیں کام کرنے میں انٹرسٹ نہیں ہے تو تم یہاں سے ہمیشہ کے لئے جا سکتی ہو مجھے تمہارے جیسے ورکرنہیں چاہیے۔ڈیول نے دو ٹک لہجے میں بات کی ۔
میں نے کب کہا مجھے انٹرسٹ۔نہیں ہے ۔میں آج ہی سارا کام نپٹا دوں گی لیلیٰ جانتی تھی کہ ڈیول اسے واپس وہیں پر بھیج دے گا جہاں سے وہ اسے لایا تھا اور وہاں واپس تو مرتے دم تک نہیں جانا چاہتی تھی لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ شکایت اتنی جلدی یہاں پہنچ جائے گی ۔
ہمہمہم تم جا سکتی ہو جاؤ اپنا کام کرو ۔اگلے آرڈر پر لیلیٰ فورا کمرے سے باہر نکل گئی ۔
وہ دوسری لڑکی کہاں ہے۔۔۔؟ ڈیول نے معصومہ کا پوچھا
وہ شارف کے ساتھ سائٹ پر کام دیکھنے گئی ہے۔شارف نے کہا تھا کہ وہ دونوں سائٹ پر کام کریں گے اور وہ شارف کی مدد کرے گی۔شارف کو سائیڈ پے کام کرنے کے لیے کب سے مدد کی ضرورت پڑنے لگی ۔ڈیول نے پوچھا۔
جب سے معصومہ محترمہ آئی ہے خضر نے جل کر جواب دیا۔
°°°°°°°°°°°
وہ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ آئس لینڈ میں جانے کے لیے وہ کون سی قسم کے کپڑے پیک کرے کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ارے یہ کون آگیا یارم کا تو ابھی واپسی کا ٹائم نہیں ہوا ضرور شارف بھائی ہوں گے ۔وہ سوچتے ہوئے دروازے کی طرف آئی۔
دروازہ کھولا تو سامنے وہ انسان کھڑا تھا اسے پہچانا اس کے لیےمشکل نہ تھا یہ تو وہی انسپیکٹر تھا جو اسے اس دن یارم کے آفس چھوڑ کے آیا تھا۔
السلام علیکم کیسی ہیں آپ کیا میں اندر آ سکتا ہوں اس نے مسکرا کر پوچھا ۔
وعلیکم سلام سوری میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں آپ اندر نہیں آسکتے ۔روح کو یارم کی باتیں یاد آئی یارم نے اسے بتایا تھا کہ یہ آدمی اسے پھنسانا چاہتا ہے۔
اٹس اوکے ٹھیک ہے میں اندر نہیں آرہا ۔وہ ڈھیٹوں کی طرح مسکرایا تھا ۔
میں تو بس آپ سے یہ پوچھنے آیا تھا کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کاشوہر کیا کام کرتا ہے صارم فوراً اپنے مطلب کی بات پے آیا تھا۔
جی ہاں وہ ایک کمپنی چلاتے ہیں روح نے فورا جواب دیا
کس قسم کی کمپنی ۔۔۔۔۔؟صارم نے پھر پوچھا
وہ کوئی دوائیوں کی کمپنی چلاتے ہیں ۔
کس قسم کی دوائیاں ۔۔۔۔۔۔؟
جان بچانے والی دوائیاں ۔۔۔۔۔روح نے جواب دیا۔
بہت غلط معلومات دی گئی ہے آپ کو آپ کے شوہر جان بچانے والی دوائیاں نہیں بلکہ جان لینے والےاسلحے کی خرید و فروخت کرتے ہیں یہاں تک کہ کئی لوگوں کی جان بھی لے چکے ہیں۔آئی ایم سوری روح لیکن تمہارا شوہر ایک قاتل ہے۔وہ دوبئی کا ایک بہت بڑا ڈان ہے ۔ڈان کا مطلب سمجھتی ہو تم گناہوں کی دنیا کا بادشاہ۔ایک قاتل جس کی نظروں میں کسی کی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔”خبردار جو آپ نے میرے شوہر کے خلاف ایک لفظ بھی کہا مہربانی فرما کے یہاں سے چلے جائیں ۔یا پھر میں گارڈز کو بلا کر آپ کو دھکے مروا کر یہاں سے باہر نکلواوں۔روح خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اس میں اتنی ہمت کہاں سے آئی ۔کہ وہ اس پولیس والے کوتھپڑ مار گئی۔لیکن اس وقت وہ بہت غصے میں تھی۔
روح تم بہت بڑی غلطی کر رہی ہو تمہارا شوہر اتنا اچھا نہیں ہے جتنا وہ بن رہا ہے وہ تمہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے۔بہت پچھتاؤ گی روح میری مدد کرو۔ایسے انسان کی عام دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے اس کی جگہ جیل کے اندر ہے۔
وہ انسان نہیں درندہ ہےڈیول کامطلب سمجھتی ہو شیطان وہ ایک شیطان ہےروح اور انسانوں کی دنیا میں شیطانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
“بس کرے خدا کے لیے چلے جائیں یہاں سے روح تقریبا چلاتے ہوئے بولی اور اس کے منہ پر سے دروازہ بند کر دیا۔
صارم کافی دیر تک دروازہ کھٹکھٹاتا رہا لیکن روح نے دروازہ نہیں کھولا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ چلا گیا تو روح نے یارم کو فون کرکے سب کچھ بتایا ۔وہ فون پر بھی مسلسل رو رہی تھی
وہ تو شکر ہے یارم آپ نے یہ ساری باتیں پہلے ہی مجھے بتا دی ورنہ نہ جانے یہ گرا ہوا آدمی مجھے آپ کے خلاف کیا کیا بتاتا ۔آپ کو پتہ ہے وہ کیا کہہ رہا تھا وہ کہتا ہے آپ قاتل ہیں آپ نے خون کیے ہیں لوگوں کے۔لیکن میں نے بھی اسے بتا دیا کہ آپ ایسے نہیں ہیں اور نہ ہی آپ ایسا کبھی کر سکتے ہیں ۔وہ روتے ہوئے بول رہی تھی ۔
اور اس کا ہر آنسو یارم کے دل پر گر رہا تھا میں نے تمہیں منع کیا تھا صارم میرے کام میں دخل اندازی کر سکتے ہو لیکن میری پرسنل لائف میں نہیں ۔تم نے میری روح کو مجھ سے دور کرنا چاہا۔اس کی قیمت تمہیں چکانی پڑے گی