روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 23

آئس لینڈ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
یارم ہمیں پہنچتے ہوئے تو رات ہو گئی روح نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔تو یارم ذرا سا مسکرا دیا ۔
نہیں بےبی یہاں رات نہیں ہوئی یہاں دوپہر کا ڈیڑھ بج رہا ہے۔یارم نے بتایا تو وہ حیران اور پریشان اسے دیکھنے لگی۔
کیا مطلب ہے آپ کا اگر یہاں دوپہر ہے تو اتنا اندھیرا کیوں ہورہا ہے جیسے شام ہو ۔روح نے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
یہی تو وہ معلومات ہے جو تمہیں میں دینا چاہتا تھا۔آئس لینڈ میں میں سردیوں میں سورج طلوع نہیں ہوتا۔اور اگر ہفتہ 15 دنوں کے بعد ایک بار ہو بھی جائے تو صرف اور صرف تین سے ساڑھے تین گھنٹے کے لیے ہی ۔ورنہ یہاں پر ایسے ہی شام کا منظر چھایا رہتا ہے وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ لگائے آگے لے کے جا رہا تھا یقینا اسے بہت سردی لگ رہی تھی وہ تو ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی ۔
یارم آپ نے مجھےپہلےکیوں نہیں بتایایہاں اتنی سردی ہو گی۔وہ اپنے آپ کو شال سے کور کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ناکام سردی سے بچنا اتنا آسان نہ تھا ۔
میں نے بتایا تھا بےبی لیکن تم نے کہا کہ وہاں پر بھی ایسی ہی سردی ہوگی جیسے دوبئی میں ہوتی ہے یارم شرارت سے بولا ۔توروح اسے گھور کر رہ گئی۔
اب اس بیچاری کوکیاپتاتھاوہ اسےایسےملک میں لے کے جانے والا ہے جہاں سورج طلوع نہیں ہوتا۔
یارم یہاں میری کلفی جم جائے گی پلیز جلدی چلیں۔ایئرپورٹ سے انہیں اس ہوٹل کی گاڑی لینے آئی تھی جہاں انہوں نے ہنیمون سویٹ بک کروایا تھا۔اب صرف پارکنگ سے وہ ہوٹل کے اندر جا رہے تھےجس پر روح سردی سے کانپ کانپ کر بے حال ہو رہی تھی۔
ایم سوری میری جان میں تو بس تمہیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ دوبئی میں سردی ہوناہو باقی ملکوں میں ہے اب تمہیں اکتوبر میں بھی سردی نہیں لگ رہی تھی تو مجھے کچھ تو کرنا ہی تھا نا وہ اب بھی شرارتی انداز اپنائے ہوئے تھا ۔
جبکہ ساتھ ساتھ روح کو اپنے ساتھ لگائے اس کے بازو سہلا رہا تھا ۔
آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں یارم وہ منہ بنا کر بولی جبکہ بولتے ہوئے دانت بھی بج رہے تھے۔
یارم ہمارے کمرے میں کھڑکی تو ہوگی نا ۔۔۔؟
اب تمہیں کھڑکی کیوں چاہیے ۔۔۔؟
دیکھیں نہ یارم یہ ہوٹل کتنا خوبصورت ہے میں کھڑکی سے دیکھوں گی کیونکہ باہر آنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں اتنی سردی ہے یہاں وہ اب بھی کانپ رہی تھی ۔
کیا مطلب تم باہر ہی نہیں نکلو گی تم تو مجھے دھمکیاں دے رہی تھی کہ مجھے بستر میں نہیں گھسنے دوگی ۔اب اپنے ہی ارادے بدل لئے محترمہ نے ۔یارم حیران تھا۔
ہاں تو آپ نے مجھے دھوکے میں رکھا آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں اتنی سردی ہوگی ۔۔اگر آپ مجھے بتا دیتے تو میں ایسے الفاظ نہیں کہتی نا وہ منہ بناکے سارا الزام اسے ہی دینے لگی ۔جسے یارم نے مسکراتے ہوئے قبول کرلیا ۔
بتائیں نہ کمرے میں کھڑکی ہے یا ایسے ہی ڈمپلز دکھاتے رہیں گے ۔وہ اس کے ڈمپلز کو دیکھتے ہوئے بولی۔
اگر نہیں ہوئی تو۔۔۔۔۔؟ یارم کچھ سوچتے ہوئے بولا تو تو تو میں آپ کے ڈمپلز کھا جاؤں گی وہ تھوڑی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سوچ کر بولی ۔
بھوکی کہیں کی۔یارم اس کے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے مینیجر سے اپنے روم کی چابی لینے لگا۔
°°°°°°°°°°
یارم یہ کتنا پیارا کمرہ ہے اس نے کمرے میں آتے ہی کہا کمرے کو مکمل پھولوں سے سجایا گیا تھا ہر جگہ لال پھولوں کی پتیاں ہی پتیاں تھی ۔یہاں تک کہ ٹیبل اور بیڈ کے سائیڈ ٹیبلز پر پھولوں کے بڑے بڑے بوکے تھے ۔
روح ایک ایک پھول کو چھوتی اصلی ہونے کا اندازہ لگا رہی تھی۔
یارم مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ہم یہاں اس کمرے میں رہیں گے۔کتنے پیارے پھول ہیں ۔ آپ وہاں آرام سے کیوں بیٹھے ہیں دیکھیں تو سہی ۔وہ ایک پل کے لئے ساری سردی بھول چکی تھی ۔پھر پھولوں کے بوکے کےقریب جاکر اس کےپھولوں کو اپنی انگلیوں سے چھونے لگی ۔
وہ اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے محبت سے دیکھ رہا تھا پھر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا اس کے قریب آ کر کھڑا ہوا ۔
دیکھیں کتنا پیارا ہے وہ اسے پھول دکھاتے ہوئے بولی گلاب کی ایک ننھی سی کلی جو ابھی کھلی تھی ۔
یارم میں نے کبھی اتنے پھول ایک ساتھ نہیں دیکھے ۔ہمارے گھر میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ ہم پھول وغیرہ لگائیں یہ کتنے پیارے لگتے ہیں نا۔۔۔۔؟
ایک ساتھ اور یہ والا دیکھیں کتنا پیارا ہے وہ ابھی بھی اسی پھول کو چھو رہی تھی ۔
ہاں پیارا ہے لیکن میری جان سے زیادہ نہیں وہ اس کا گال چومتے ہوئے بولا۔
اور اگلے ہی لمحے اسے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا ۔
وہ میں یہ بتا رہا تھا کہ اس کمرے میں کھڑکی نہیں ہے۔ یارم نے اپنا گال اس کے ہونٹوں کے قریب کرتے ہوئے کہا ۔
وہ نہ سمجھی،اور اس سے انچ بھر کے فاصلے پر کھڑی اسے دیکھنے لگی۔
کھڑکی نہ ہونے کی صورت میں تم نے میرا ڈمپل کھانا تھا نا۔وہ اس کے لبوں کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے بولا ۔
یارم میں بہت تھک گئی ہوں مجھے بہت نیند آ رہی ہے اور بہت سردی بھی لگ رہی ہے ۔اس کے ارادے جان کر وہ فورا بولی۔
ہاں لیکن میری تھکن اتارے بغیر تم سو نہیں سکتی ۔اگلے ہی لمحے وہ اسے بات کرنے کا موقع دیے بغیر اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھ چکا تھا ۔
°°°°°°°
اٹھ جاؤ روح یار کتنا سونا ہے ۔فلائٹ میں بھی بس سوتی رہی ہو اب بھی سوئے جا رہی ہو تمہاری یہ نیند پوری ہونی ہے کہ نہیں!
مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ہنیمون ٹور سارا ہی تمہاری نیندیں پوری کرنے میں گزر جائے گا۔اٹھ جاؤ یار ۔وہ محبت سے اس کے بال چہرے سے ہٹاتے ہوئے بولا ۔
جبکہ روح ایک نظراسے دیکھ کے دوسری طرف کروٹ لے کر سو گئی ۔
یارم دوبار ہوٹل کا وزٹ کر چکا تھا ۔ وہ دوبار سارے ہوٹل کا راونڈلگا چکا تھا ۔اور ایک روح تھی جس کی نیند ابھی تک پوری نہیں ہوئی تھی ۔کل جب وہ لوگ یہاں پہنچے تب یہاں برف باری نہیں ہو رہی تھی ۔ہاں لیکن ساری روڈز برف سے بھری ہوئی تھی روح نے کہا کہ اسے روی جیسی برف خود پہ گرتے ہوئے دیکھنے کا شوق ہے ۔
اور صبح سے ہی یہاں پے برف باری ہو رہی تھی ۔اور روح اپنے بستر میں گھسی ہوئی تھی ۔یارم اپنا فون تک وہیں چھوڑ آیا تھا ۔اس نے کہا تھا کہ انہیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے ۔ہاں لیکن اسے اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ روح نے یہاں آ کر صرف اپنی نیند ہی پوری کرنی ہیں ۔
اگر تم ایک منٹ میں نہ اٹھی نا توانجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی ۔اس کی دھمکی سے بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی،
یارم اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا جو کہ کل پھولوں سے ڈکی ہونے کی وجہ سے روح کو نظر نہیں آئی تھی اور اسی کا فائدہ اٹھا کر یارم نے کہا تھا کہ اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں ۔
جبکہ ہوٹل کا یہ کمرہ الریڈی یارم کے نام پر بک تھا۔
یارم جب بھی یہاں آتا تب اسی کمرے میں رکتا تھا وہ اس کمرے کے چپے چپے سے واقف تھا ۔یہ کمرہ اس کی اپنی ملکیت تھا ۔ جو اس نے خریدا نہیں تھا بلکہ ہتھیایا تھا ۔
ہوٹل کا مالک ایک بار دوبئی آیا تھا ۔اپنا کوئی کام کروانے جس کے بدلے میں یارم نے اس سے اس کے ہوٹل کاسب سے پرسکون اور خوبصورت کمرہ اپنے نام لکھوالیا تھا ۔یارم نے اپنا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکالا ۔اور اگلے ہی لمحے اس کا ہاتھ تیز برفباری کی وجہ سے برف سے ڈکنے لگا۔
برف کے نیچے ہاتھ بھی ٹھنڈہ یخ ہو رہا تھا۔اس نے مڑ کر بیڈ کی طرف دیکھا ۔ذرا سا ڈمپل نمایاں ہوا ۔
میرا معصوم سا بچہ۔وہ اس کا ری ایکشن سوچتے ہوئے آئستہ سے قدم اٹھاتا بیڈ کی طرف بھرا۔ اور برف سے بھرا ہاتھ اس کے چہرے پر اڈیلنے لگا ۔لیکن اگلے ہی لمحے اسے ترس آنے لگا ۔وہ اپنی بےبی گرل کے ساتھ ایسا تو نہیں کرسکتا تھا ۔
اس نے اپنے دوسرے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے زرا سی برف اٹھائی۔اور آہستہ سے روح کی چھوٹی سی ناک پر رکھی وہ بلبلا کر اٹھ کر بیٹھی۔ اور اس کے ہاتھ میں برف دیکھ کر اسے گھورنے لگی ۔
یارم یہ آپ کیا کرنے والے تھے میرے ساتھ اس نے برف سے بھرے ہوئے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا وہ صدمے سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
بےبی سوچا تو بہت کچھ تھا لیکن کر نہیں پایا تمہارے معصوم چہرے کے آگے میں ہمیشہ بے بس ہو جاتا ہوں۔تمہارے معاملے میں یہ دل بہت ڈھیٹ ہوتا جا رہا ہے میری تو کوئی بات سنتا ہی نہیں وہ ہاتھ سے برف ڈس بن میں پھینکتا ہوا بولا ۔
آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں یارم ۔وہ صدمے سےبولتی ہوئی ایک بار پھر سے بستر میں گھس گئی ۔
یہ کیا حرکت ہے روح تم ایک بار پھر سے سونے لگی ہو۔۔۔!! اس نے روح کے چہرے سے کمبل ہٹایا ۔لیکن افسوس روح سونے نہیں لگی تھی بلکہ وہ سوچکی تھی۔
یااللہ کونسی نیندیں ہیں اس کی جو پوری ہی نہیں ہورہی ۔یارم سوچتا ہوا جیکٹ اور شوز اتار کر اسے کسی تکیہ کی طرح اپنی باہوں میں بھر کر اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا ۔نیند تو وہ ویسے بھی پوری کر چکا تھا ۔لیکن پھر بھی یہاں روح کے قریب اس کا سکون تھا۔
°°°°°°°°°°
روح آخرکار اپنی نیندیں پوری کرکے اٹھی۔تواسےبھوک ستانے لگی جب کہ یارم اس کےساتھ ہی آنکھیں موندھے لیٹا ہوا تھا ۔
یارم آپ سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں ۔روح معصومیت سے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتی پوچھنے لگی ۔
جبکہ نیند میں ہونے کی وجہ سے 3 گھنٹے پہلے یارم نے جو ظلم اس پر کیا تھا اسے وہ بھول چکی تھی ۔
جاگ رہا ہوں بےبی وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چومتے ہوئے بولا ۔
تو پھر کچھ کریں میری پیٹ میں چوہے خودکشی کرکے حرام موت مریں ۔انہیں کچھ کھلا کر ان کی جان بچا لیں۔ روح معصومیت سے اپنے بھوکے چوہوں کی داستان سنا رہی تھی۔
نہیں میری جان میں تمہارے معصوم چوہوں کو اس طرح سے حرام موت نہیں مرنے دوں گا تم جاؤ فریش ہو جاؤ میں آرڈر کرتا ہوں ۔وہ زور سے اس کا گال چومتے ہوئے اٹھا ۔
پھر ہم باہر چلیں گے گھومنے کے لیے ۔آج کی رات میں نے تمہارے لئے بہت اسپیشل سرپرائز پلان کیا ہے ۔وہ مسکرا کر اسے بتاتا ہوا لینڈ لائن فون اٹھانے لگا ۔
یارم باہر تو بہت سردی ہوگی نہ۔ وہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگی۔
بےبی سردی جتنی محسوس کرو گی اتنی لگے گی نہ ۔تم اسے محسوس ہی مت کرو ۔ بس تم آج رات کے سرپرائز کے بارے میں سوچو۔میں یہ ہنیمون ہمارا بیسٹ ٹور بنانا چاہتا ہوں ۔اس کا ایک ایک پل ہم ساری زندگی یاد رکھیں گے۔میں اسےاسپیشل بنانا چاہتا ہوں ۔اور میں جانتا ہوں اسے اسپیشل بنانے میں تم میری مدد ضرور کرو گی، ہیں نہ ۔۔۔۔؟
وہ اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے پوچھنے لگا تو روح جوش میں زور زور سے گردن ہلانے لگی ۔یہ بات الگ تھی کے اگر اسے پتہ ہوتا کہ یہاں اتنی سردی ہے تو وہ یہاں کبھی نہیں آتی

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial