قسط 4
اب مجھے صرف روح چاہیے روحِ نور۔۔۔مجھے روحِ نور ہر قیمت پہ چاہیے سن لو اقصی تم نے اس کی تصویر مجھے بھیجی تھی تمہیں بھیجنے سے پہلے یاد رکھنا چاہیے تھا کہ اگر اس لڑکی پر شیخ کا دل آگیا تو کسی بھی طرح اسے حاصل کر لے گا ۔اس لڑکی کے گھر والے مانے یا نہ مانے لیکن اب وہ لڑکی مجھے چاہیے تمہارے پاس 24 گھنٹے کا وقت ہے.ان 24 گھنٹے میں اگر تم نے ان لوگوں کو نکاح کے لئے تیار نہ کیا تو میں تمہارا وہ حال کروں گا جو تم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا۔
شیخ صاحب میں ہر کوشش کر چکی ہوں لیکن اس کی سوتیلی ماں اسے بیچنے پر تیار ہی نہیں ہے ۔یہاں تک کہ میں نے یہ بھی بتا دیا کہ آپ اسے تیس لاکھ دینے کو تیار ہیں لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ۔مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں لیکن اگر آپ کہتے ہیں تو میں ایک اور کوشش کر لوں گی ۔وہ گھبرا کر بولی۔
اگر 30 لاکھ پر نہیں مانتے تو پھر انہیں چالیس پے مناؤ اور اگر پھر بھی نہیں مانتی تو میرے لوگ اسے اٹھا لائیں گے ۔اور یاد رکھنا کہ اس وقت صرف وہ لڑکی نہیں بلکہ تمہاری بیٹیاں بھی ساتھ ہوں گی۔
شیخ کی بات نے اقصی کے رونگٹے کھڑے کر دیے ایسا بھی کیا ہے اس لڑکی میں کہ شیخ اس پر اتنے پیسے لٹانے کو تیار ہے ہمیں تو کبھی اتنی اچھی نہیں لگی مانا بہت خوبصورت ہے لیکن شیخ نے اس سے پہلے بھی تو بہت خوبصورتی دیکھی ہوں گی۔
مجھے وہ لڑکی چاہیے کسی بھی قیمت پر جب سے میں نے اسے دیکھا ہے میرا دل کسی کام پے نہیں لگ رہا اب جب تک میں اس لڑکی کو حاصل نہ کر لوں تب تک سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔شیخ دھاڑتے ہوئے بول رہا تھا۔
جبکہ اس سے کوسوں دور کھڑی اقصیٰ تھر تھر کانپ رہی تھی۔
شیخ صاحب میں آخری کوشش کرتی ہوں ہو سکتا ہے اس بار وہ مان جائے آپ مہربانی کرکے میری بیٹیوں کو کچھ مت کیجئے گا میں اسے منا لوں گی ۔
کیا ضرورت پڑی تھی مجھے بھی روح کی فوٹو اتنی جلدی بھیجنے کی یہ شیخ تو بالکل پاگل ہوگیا ہے ۔ٹھیک ہی کہتی ہے تعظیم ایک نمبر کی فسادان ہے یہ اپنے ساتھ ساتھ میری بیٹیوں کو بھی پھنسائے گی منہوس صبح ہوتے ہی پہلے تعظیم کے گھر جاؤں گی شیخ کا فون بند کرکے وہ تعظیم کے گھر جانے کا پلان بنانے لگی
°°°°°°°°
میرا ایسی پارٹیز میں جانا ضروری نہیں تم لوگ جاؤ وہ سامنے کھڑے خضر سے کہہ رہا تھا جو اسے کتنی دیر سے پارٹی پر جانے کے لیے منا رہا تھا ۔
جانا ضروری ہےڈیول ان لوگوں نے اتنا اصرار کرکے بلایا ہے اور ساتھ میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ ان لوگوں کو تم سے بہت ضروری کام ہے جو تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا ۔خضر کا ارادہ آج پکا اسے اپنے ساتھ لے جانے کا تھا.
کام ان کو ہے۔ مجھے نہیں پیاسا خود کنوے کے پاس آتا ہے کنوا چل کر نہیں جاتا پیاسے کے پاس ۔انہیں اگر مجھ سے اتنا ہی ضروری کام ہے تو آ کر مجھ سے مل سکتے ہیں لیکن اپاریمنٹ لیکر
اگر میرا ارادہ ہوا تو میں ملوں گا اب تم لوگ یہاں سے جا سکتے ہو ۔یارم نے کہا
ڈیول ڈارلنگ چلتے ہیں نہ ہم تھوڑی دیر انجوائے کریں گے ۔لیلیٰ اپنے تنگ چست لباس میں چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کی گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے بولی ۔
میں تمہیں کتنی بار کہہ چکا ہوں لیلیٰ اپنی لمٹس میں رہا کرو یہ نہ ہو کے تمہیں اٹھا کر ایک بار پھر سے وہی پھینک آوں جہاں سے اٹھا کر لایا تھا ویسے بھی تمہارے ہونے یا نہ ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بہت کچھ جتلا رہا تھا ۔
جانتی ہوں تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مجھے تو پڑتا ہے ۔اور یقین کرو بس ایک بار مجھے اپنی خدمت کا موقع دو تمہیں بھی فرق پڑنے لگے گا ۔
لیلیٰ اس طرح کی گفتگو صرف ڈیول کے سامنے ہی کرتی تھی اور کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی کہ لیلیٰ کے سامنے زبان بھی کھول پائے.
بند کرو اپنی بکواس اور نکلو یہاں سے خبردار جو آئندہ اس لہجے میں مجھ سے بات کی ایک بات کان کھول کر سن لو تمہارے ہونے یا نہ ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی آگے زندگی میں کبھی پڑے گا۔
تمہیں اپنے ساتھ رکھ کر میں کچھ زیادہ خوش بھی نہیں ہوں اس لیے بہتر ہوگا کہ جتنا جلدی ہوسکے اپنا بوریا بستر سمیٹو اور میری نظروں سے دور ہو جاؤ کیونکہ اگر میں نے دور کیا تو شاید تم دنیا سے ہی دور ہو جاؤ۔وہ ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا
میں تم سے پیار کرتی ہوں ڈیول بہت پیار تمہیں ایک دن نہ دیکھوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میری سانسیں گھوٹ رہی ہوں اور تم کہتے ہو کہ تمہیں چھوڑ کر چلی جاؤں نہیں جاسکتی ڈیول میں تم سے دور نہیں جاسکتی بہت بہت پیار کرتی ہوں تم سے اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن تم بھی مجھ سے پیار کرو گے ۔اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ۔
خضر کو برا لگا لیکن جس کے لیے وہ یہ سب کچھ بول رہی تھی اس کے توکان میں جوں بھی نہ رینگی ۔
میری زندگی میں لڑکی کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیلیٰ ۔مجھے کبھی کسی عورت سے محبت نہیں ہو سکتی ۔میں ہر عورت کی عزت کرتا ہوں تمہاری بھی ۔مجھے عورت اچھی لگتی ہے ماں کے روپ میں بہن کے روپ میں یہ خدا کا تحفہ ہے.
لیکن افسوس کے خدا نے یہ تحفے مجھے نہیں دیے ۔ پیار محبت سے میں بہت دور ہوں اور بہت دور رہنا بھی چاہتا ہوں میرے لیے یہ پیار محبت صرف ویسٹ آف ٹائم ہے ۔میں نہیں مانتا کہ ایک انسان کو ایک دوسرے انسان سے اتنی ٹوٹ کر محبت ہوسکتی ہے کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے ۔ اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یارم کاظمی کو نہیں ہوگا مجھے کبھی کسی لڑکی سے محبت نہیں ہو سکتی۔
آج اس نے بہت دنوں بعد اس سے نرم لہجے میں بات کی تھی ۔
اب تم لوگ پارٹی میں جاؤ بس اتنا کہہ کر وہ جانے لگا ۔
اور اگر تمہیں کسی سے ایسی محبت ہوگئی تو پھر کیا کرو گے ۔۔۔۔۔۔؟ آواز اب بھی رندھی ہوئی تھی شاید وہ اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روک رہی تھی
نہیں ہوگئی وہ ایڑیوں کے بل گھوم کر بولا
اور اگر ہوگئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نے پھر وہی سوال کیا ۔۔۔
کہا نا نہیں ہوگی ۔وہ پھر سے جانے لگا
اگر ہوگئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ ٹوٹی بکھری حالت میں بولی۔
تو میں خود اسے اپنے ہاتھوں سے مار دوں گا اس بار وہ اتنے زور سے چلایا تھا کہ پورے ہال میں اس کی آواز کے بعد سناٹا پھیل گیا ۔
اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ ہال سے نکل گیا۔
°°°°°°°°°
تعظیم پانچویں بار اٹھ کر الماری کے پاس آئی تھیں اور الماری کھول کر دیکھا تو وہ پیسوں سے بھرا لفافہ ابھی بھی وہیں پر موجود تھا۔نہ جانے اسے کیا ڈر تھا کہ بار بار اٹھ کر ان پیسوں کو دیکھتی اور پھر ایک نظر زمین پر سوئی روح کو دیکھتیں وہ اسے ہر روز مارتی پیٹتی گالیاں دیتی لیکن اس کے بارے میں کبھی اتنا غلط نہ سوچا تھا جتنا غلط اقصیٰ نے سوچ لیا وہ کبھی سے بیچنے کا نہیں سوچ سکتی تھی ۔ان کے گھر کے حالات اتنے تنگ تھے کہ دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے نصیب ہوتا ۔ نور کا باپ پولیس میں چھوٹے عہدے کا آفیسر تھا ۔اس کی پنشن آج بھی آتی تھی لیکن اس سے گھر کا گزارہ کرنا مشکل تھا اورتین بیٹیوں کی شادی تو ناممکن تھا
ایسے میں اسے گولڈن چانس مل رہا تھا اپنی بیٹیوں کی زندگی سنوارنے کا بلکہ اچھے سے اچھے طریقے سے شادی کرنے کا۔لیکن اس سب کے لئے اسے روح کی قربانی دینی تھی اپنی تین بیٹیوں کی محبت میں یہ مشکل تو نہ تھا وہ تو ویسے بھی اس کے سر پر تھوپی گئی تھی ۔
وہ کوئی اس سے محبت تو نہیں کرتی تھی اور نہ ہی وہ اس کی اولاد تھی وہ تو ایک دھوکے کا نتیجہ تھا جو اس کے شوہر نے دیا تھا ۔
وہ کیوں اتنی فکر کرتی اس کی ۔ روح تو منہوس تھی جس نے اس کی بیٹی مریم کی دوبارشادی توڑوا دی
اسے نفرت تھی اس سے پھر کیوں سوچتی اس کے بارے میں ۔نہیں تھی وہ اس کی بیٹی اور اگر بیٹی تھی بھی تو سوتیلی اسے اپنی سگی بیٹیوں کے بارے میں سوچنا تھا
°°°°°°°
شیخ صاحب میں ان کے گھر جا رہی ہوں آخری بار بات کرنے کے لئے آپ کی بے چینیاں تو حد سے سوار ہیں مجھے سمجھ میں نہیں آتا اگر میں نے ان لوگوں کو منا بھی لیا تو روح سے نکاح کے لیے تو کیسے آپ ایک ہی دن میں اسے اپنے پاس لے کے جائیں گے ؟
کیوں کہ اس لڑکی کے پاس نہ تو پاسپورٹ ہے اور نہ ہی ابھی تک اس کا شناختی کارڈ بنا ہے ۔
شناختی کارڈ نہیں بنا یہ کیسے ممکن ہے تم نے تو کہا تھا وہ 19 سال کی ہے ۔ شیخ نے پوچھا
ہاں شیخ صاحب اس کا کچھ نہیں بنا اس کی سوتیلی ماں نے ضروری نہیں سمجھا اس کا شناختی کارڈ بنوانا ۔اور کوئی پاسپورٹ بھی نہیں ہے اس کے پاس کیسے لے کے جائیں گے آپ اسے ایک ہی دن میں بتائیں مجھے ۔آپ صبر کریں مجھے تھوڑا وقت دیں میں اس کی ماں کو بھی منا لوں گی اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا انتظام بھی کروا لوں گی اقصیٰ نے اسے پھسلانا چاہا.
نہیں میں مزید انتظار نہیں کر سکتا مجھے وہ لڑکی چاہیے اور یہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی فکر مت کرو سب کچھ میں ہینڈل کرلونگا ایسے بہت سارے لوگوں کو بلایا ہے میں نے ۔ شیخ نے اقصیٰ کے ارادوں پر پانی پھیرتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے شیخ صاحب میں اس کی ماں سے بات کرتی ہوں اس نے کال بند کرتے ہوئے دروازہ کھٹکھٹایا
اندر آئی تو تعظیم چارپائی پہ بیٹھی تھی ۔
ہاں تعظیم لاؤ دو میرے پیسے مجھے واپس کرو جو شیخ صاحب کو واپس کرنے ہیں ۔وہ ساتھ ہی رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
میں نے کل رات تمہاری اس بات کے بارے میں سوچا اور یہی فیصلہ کیا کہ مجھے میری بیٹیوں کی زندگی سنوارنے کے بارے میں سوچنا چاہیے تعظیم نے تحمل سے کہا
مطلب۔۔۔” مطلب تم روح کا نکاح کروانے کو تیار ہو۔اقصی خوشی سے چہکتے ہوئے بولی
ہاں میں روح کا نکاح کروانے کے لیے تیار ہوں جب تم چاہو مولوی اور شیخ کو لے کر یہاں آجاؤ ہم نکاح پروا دیں گے ۔
تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے مولوی صاحب کو میں لے آوں گی اور شیخ صاحب فون پر ہی نکاح کریں گے اس کے بعد اسے ہم دبئی بھیج دیں گے ۔اقصیٰ نے اسے جلدی جلدی بتانا شروع کیا ۔
لیکن روح اتنی جلدی نہیں جاسکتی کارڈ اور پاسپورٹ بننے میں وقت تو لگے گا نا ۔تعظیم نے کہا۔
ارے نہیں نہیں اس کے پاس بالکل وقت نہیں ہے وہ اسے ایسے ہی لے جائے گا ۔اقصیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی
ایسے مطلب غیرقانونی طریقے سے تعظیم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا.
ارے ہاں اور فکر مت کرو شیخ ایسا پہلے بھی کر چکا ہے وہ کئی لوگوں کو ایسے لے کے جا چکا ہے اس کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
اگر کچھ الٹا سیدھا ہو بھی گیا تو ہمارا نام کہیں نہیں آئے گا اب تم مریم کی شادی کے بارے میں سوچو میں ذرا شیخ کو خوشخبری سنا کے آتی ہوں ۔
روح چائے بنا کر لائی تواقصیٰ اٹھ چکی تھی ۔
روح توکل تیاررہنا کل میں مولوی صاحب کو لے کے آؤں گی کل تیرا نکاح ہے دوبئی جائے گی تو دوبئی ۔۔۔”
اقصیٰ روح کے سر پر دھماکہ کرتی جلدی سے گیٹ سے باہر نکل گئی جبکہ وہ بے یقینی سے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جو نظریں زمین پر گاڑے ہوئے تھی