قسط 5
کچھ ہی دیر میں اس کا نکاح تھا کسی نے اس سے کچھ نہ پوچھا.اس پر تو یہ بھی احسان تھا کہ نکاح سے پہلے بتا دیا گیا کہ کل تمہارا نکاح ہے ۔
فاطمہ بی بی اس کے پاس آ بیٹھیں لیکن اس سے پہلے کے فاطمہ بی بی اس سے کچھ پوچھتیں ماریہ اسکے قریب آ بیٹھی گئی.جیسے اس کی امی نے سخت نظروں سے گھور کر بھیجا تھا کہ کہیں وہ فاطمہ کو کچھ بتا ہی نہ دے اور پھر پورے محلے میں ان کی بدنامی ہو۔وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی نہ تو کسی کو دیکھا اور نہ ہی کسی سے کوئی بات کی ۔
اسے تو یہ بھی نہ پتا تھا کہ اس کے ہونے والے شوہر کا نام کیا ہے ۔اور نہ ہی اسے جاننے میں دلچسپی تھی وہ تو آج اپنی یتیمی کا رونا رو رہی تھی.آج صحیح معنوں میں ثابت ہوچکا تھا کہ وہ ایک یتیم تھی اس کے ماں باپ اسے دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے ۔
اور اب کسی بھیڑ بکری کی طرح اس کی رسی کو کسی اور کے حوالے کیا جا رہا ہے ۔اسے مار کھانے اور گالیوں سہنے کی عادت تھی لیکن نہ جانے وہ شخص اس کے ساتھ کیا کرے گا جس کے حوالے وہ کر دی جارہی تھی ۔
°°°°°
سنو وہ لڑکی معصومہ آج چھے بجے کی فلائٹ سے پاکستان سے یہاں آنے والی ہے جیسے ہی وہ پیپرز تمہیں ملیں تم انہیں شارف کے حوالے کر دینا وہ کل جیل سے چھوٹ جائے گا.
لیکن شمس کا کیا کریں گے ۔۔۔۔۔؟خضر نے پوچھا
اس کا تم کچھ نہیں کرو گے اسے میں خود ہینڈل کر رہا ہوں ۔ابھی کچھ ہی دیر میں’ میں اس سے ملنے جاؤں گا اگرسیدھے طریقے سے مان گیا تو ٹھیک ہے۔ورنہ ویسے بھی بہت دنوں سے میں نے اپنے فیورٹ ہتھیار کا استعمال نہیں کیا اس نے اپنے ہاتھ میں رکھیں بلیڈ کی طرف اشارہ کیا ۔
خضر کا جو اس کے ساتھ جانے کا ارادہ تھا وہ ایک ہی پل میں کینسل ہو گیا ۔وہ بلیڈ سے ان لوگوں کو مارتا تھا جن پر اسے حد سے زیادہ غصہ ہو ۔بلیڈ سے وہ اتنی خطرناک موت دیتا تھا کہ کسی کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔۔
خضر کو اس کے اس ہتھیار سے نفرت تھی ۔
اس کابلیڈ کسی سانپ کی طرح اگلے بندے کے جسم پر رینگتا اور سرخ لکیریں چھوڑتا جاتا ۔
وہ بلیڈ کا استعمال تب کرتا تھا جب اگلے بندے کو تڑپا تڑپا کر مارنا ہو ۔خضر کو اس کے بلیڈ سے جتنی نفرت تھی اتنا ہی ڈر لگتا تھا اکثر اپنی پریشانیوں کی وجہ وہ اسی سے مٹاتا تھا۔
°°°°°
کچھ ہی دیر میں مولوی صاحب کی آواز آئی نکاح نامے پر شیخ کے دستخط پہلے ہی ہو چکے تھے ۔اس نے ایک نظر بھی اٹھا کر پورا نکاح نامہ نہ دیکھا اسے جہاں کہا گیا اس نے سائن کر دیے ۔
مولوی صاحب نے رسم ادا کی تین بار اس سے اس کی مرضی پوچھی گئی جس کا ہونا یا نہ ہونا کسی کیلئے اہمیت نہ رکھتا تھا وہ خاموشی سے ساری کاروائی دیکھتی رہیاس سے کیے گئے سوالوں پر اس نے حامی بھر دی.
ہاں اسے وہ شخص قبول تھا جسے اس نے کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔
امی تو محلے والی عورتوں کے سامنے شیخ کی تعریفیں کئے جا رہی تھی.خود اس کی شکل تو نہ دیکھی تھی لیکن پھر بھی اسے خوش شکل کہہ رہی تھیں۔
ارے میں اپنی بیٹیوں کے بارے میں پہلے سوچتی تو لوگ کہتے کہ سوتیلی ماں ہے سوتیلی ماں بہت بری ہوتی ہے اس لئے میں نے پہلے اس کے بارے میں سوچا۔آخر کل اگلے جہان میں جا کر اس کے باپ کو منہ بھی تو دکھانا ہے ۔امی تعریفیں سمیٹتی اسے بار بار اپنے سینے سے لگاتی پیار کر رہی تھیں۔یہ بھی اس کی زندگی میں پہلی بار ہی ہو رہا تھا ۔
پھر ماریہ اور مریم اس کے قریب آگئی تھی ۔
تمہیں پتا ہے تمہارا شوہر کتنا امیر آدمی ہے اس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ کوئی گن بھی نہ سکے ۔
راج کرو گی راج اور وہاں جاکے ہمیں بھول مت جانا ۔میرا مطلب ہے ہمیں فون وغیرہ کرتی رہنا ۔
آپی آپ تو ایسی کہہ رہی ہیں جیسے میں آج ہی جا رہی ہوں روح نے بے دلی سے کہا۔
ہاں تو۔۔۔!! آج ہی تو جا رہی ہو ماریہ نے اس کے سر پر دھماکہ کیا ۔
کیا مطلب ۔۔۔۔؟اس نے حیرت سے پوچھا
ارے مطلب ہم نے تمہارا سامان وغیرہ پیک کر دیا ہے خیر تمہارا سامان ہے ہی کتنا تمہارے کپڑوں میں تو وہی ہمارے پرانے دیئے ہوئے کپڑے تھے .
لیکن میں نے اور ماریہ نے ہمارے عید والے سوٹ تھے نہ وہ تمہارے کپڑوں میں رکھے ہیں اس کے علاوہ بھی میں نے اپنے کچھ سوٹ تمہارے کپڑوں میں رکھ دیے ہیں.
تانیہ اور مریم کے کپڑے تمہیں ٹھیک سے پورے نہیں آتے لیکن میرے کپڑوں میں تم اچھے سے ایڈجسٹ کر سکتی ہو ۔ابھی تو تم دبئی جا رہی ہووہاں تمہیں تمہارا شوہر لے ہی دے گا اور کپڑے ۔لیکن گزارے کے لئے ہم نے رکھ دیے ہیں اب وہ یہ نہ کہے کہ ہم نے تمہیں کچھ دیا ہی نہیں ۔
وہ اپنے پرانے کپڑوں کا احسان بھی اس طرح سے جتا رہی تھی جیسے نئے خرید کر لائیں ہوں ۔
وہ کچھ نہ بولی خاموشی سے انہیں سنتی رہی ۔
°°°°°
تھوڑی دیر کے بعد فاطمہ بی بی ایک بار پھر سے اس کے قریب آگئیں۔
مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ تم آج ہی جا رہی ہو یہ تو ابھی تعظیم نے بتایا تم نے مجھے اپنی شادی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا انہوں نے پریشانی سے پوچھا .
سچ تو یہ تھا کہ انہیں تعظیم پر بھروسہ نہیں تھا نجانے وہ عورت اس کے ساتھ کیا سے کیا کردے ۔
میں تمہیں بہت کچھ دینا چاہتی تھی لیکن تم نے پہلے مجھے بتایا ہی نہیں یہ کچھ چیزیں میں تمہارے لئے لائی ہوں ۔
انہوں نے اس چھوٹے سائز کا قرآن دیا جس کا سائز ایک پاکٹ جتنا تھا ۔اس کے ساتھ ایک جائے نماز اور ایک عبایا دیا جس کے ساتھ ہم رنگ اسکاف تھا اس کا رنگ ہلکا آسمانی تھا ۔
یقینا انہوں نے اپنے ہاتھ سے اسے سلائی کیا تھا ۔
وہ ایک غیر عورت ہو کر اسے نئی چیزیں لا کر دے رہی تھیں اور اس کے اپنے جو آج اسے یہاں سے بھیجتے ہوئے بھی اپنی اترن دے رہے تھے ۔
اس نے خاموشی سے وہ تینوں چیزیں پکڑلی ۔
مجھے نہیں پتا تمہارا شوہر کیسا ہوگا میں نے تو سنا ہے کہ دبئی کے مردوں نے چار چار نکاح کیے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی میں تمہارے لئے دعا کرتی ہوں کہ تمہارے ساتھ ایسا کچھ نہ ہو ۔
میں چاہوں گی کہ تم حقیقت پسند بنو ہر طرح کی سچویشن کے لئے تیار رہو وہ غور سے فاطمہ بی بی کو سن رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ عورت اسے کبھی غلط مشورہ نہیں دے گی.
میں نےتمہارے شوہر کو نہیں دیکھا میں نہیں بتا سکتی کہ وہ کیسا ہوگا ۔مگر اتنا کہہ سکتی ہوں ۔کہ مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے مجھے یقین ہے کہ تمہاری معصومیت اور خوبصورتی اسے تمہاری طرف راغب کر لے گی بلکہ تم اسے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دو گی ۔
تم خود صبر سے کام لینا میری بچی تیری زندگی میں کبھی کچھ اچھا نہیں ہوا اب اللہ تیرے ساتھ اتنا برا نہیں کرے گا ۔
بس تو ہر قسم کی سچویشن کے لیے تیار رہنا وہ تیرا شوہر ہے تیرا سائبان اس کی مرضی کے خلاف کبھی کوئی کام مت کرنا ۔یہ میرا نمبر ہے تیرا شوہر مجھ سے بات کرنے کی اجازت دے تو مجھے فون ضرور کرنا ۔انہوں نے ایک چھوٹا ساکاغذ اس کی طرف دیتے ہوئے کہا ۔
اپنا بہت سارا خیال رکھنا زندگی رہی تو دوبارہ ضرور ملیں گے وہ اس کا ماتھا چومتے اس کے قریب سے اٹھیں ۔
جب روح نے ان کا ہاتھ تھاما اور اٹھ کر کھڑی ہوئی اور ان کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔تھوڑی دیر کے بعد اسے بتایا گیا کہ چھ بجے کی فلائٹ سے سے دبئی جانا ہے وہ پریشان سی کھڑی سب کو دیکھ رہی تھی.
وہ کیسے کسی دوسرے ملک جا سکتی تھی اس کے پاس کسی دوسرے ملک جانے کے کاغذات ہی کہاں تھے اس کے پاس تو کچھ بھی نہ تھا ۔
°°°°°°
امی اور ان کی تین بیٹیاں اسے چھوڑنے ایئرپورٹ تک آئی تھیں۔ پھر اسے کچھ کاغذات اور ایک فائل دی جس میں نکاح نامہ تھا یہ تو وہ جانتی تھی لیکن دوسرے کاغذات میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تھا ۔جو کم ازکم اس کے نام پر نہ تھا لیکن شناختی کارڈ پر اسی کی تصویر لگی تھی۔ یہ سب کچھ جھوٹا تھا وہ پکڑی جاسکتی تھی لیکن یہاں کیسے پروا تھی اسے غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملک بھیجا جارہا تھا ۔
ان لوگوں کو اتنی بھی کیا جلدی تھی صبر کر لیتے اس کا شوہر آگر اتنا خرچہ کرنے کو تیار تھا تو اصلی کارڈ اور پاسپورٹ بھی تو بنوا سکتا تھا ۔
پھر کچھ ہی دیر میں کچھ آفیسر اس کے پاس آئے
آپ پریشان نہ ہونا میڈم کو ہم صحیح سلامت دبئی پہنچا دیں گے وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا یقینا اس کا شوہر تھا ۔
ماریہ مریم اور تانیہ نے سرسری سے اسے گلے سے لگایا وہ رونا چاہتی تھی اپنوں سے جدا ہونے کے غم میں وہ بہت رونا چاہتی تھی ۔لیکن ان تینوں کا رونے کا کوئی پلان نہ تھا لیکن جب امی نے اسے گلے لگایا تو ان کی آواز میں نمی تھی
“سن روح میں نے تیرے ساتھ جو کچھ بھی کیا مجھے معاف کر دینا مجھے کبھی بد دعامت دینا “اس کا ماتھا چومتے ہوئے انہوں نے روتے ہوئے کہا اس نے کہاں کبھی امی کا یہ لہجہ سنا تھا ۔
اور پھر سب سے مل کر وہ چلی گئی افیسرز نے اسے لا کر جہاز میں بٹھایا ۔
اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے وہ بالکل اکیلی تھی کوئی نہیں تھا اس کے ساتھ کسی کو نہیں جانتی تھی وہ بس اسے اپنے شوہر کے پاس پہنچنا تھا
وہی اس کا آسرا تھا وہی سہارا تھا ۔
°°°°°°°°
اس نے شمس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے ڈیول کی بات نہ مانی شاید وہ اسے ٹھیک سے جانتا نہیں تھا اس کا یہی کہنا تھا کہ ایک تیس سال کا مرد 45 سال کے آدمی کا کیا بگاڑ سکتا ہے.!!اور پھر اس نے وہ کیا جو اس 45سالہ آدمی نے کبھی نہیں سوچا تھا ۔
خضر کی سوچ کے مطابق بلیڈشمس کے جسم پر رینگ رہا تھا کسی سانپ کی طرح اپنی سرخ لکیریں چھوڑتا ہوا ۔لیلیٰ نے اسے ایک ہی باراس انداز میں دیکھا تھا اس کے بعد وہ ایک مہینہ اس سے دور رہیں ۔اس نے آج بھی لیلیٰ کو اپنے ساتھ آنے کی آفر کی تھی لیکن اس کے ہاتھ میں بلیڈ دیکھ کر وہ اس کے ساتھ نہ آئی ۔
اس نے شمس کے نہ صرف ہاتھوں کی بلکہ پوری جسم کی رگیں کاٹ ڈالیں ۔وہ اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر رہا تھا لیکن وہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ سلگا رہا تھا ۔
اس کی چیخیں سن کر اسے عجیب سا سکون مل رہا تھا ۔اس نے اس کی ساری رگیں کاٹ دی لیکن گردن کی رگ نہیں کاٹ پایا کیونکہ وہ اپنے ساتھ صرف تیس بلیڈ لایا تھا اگر ایک بھی فالتو لایا ہوتا تو اسے اتنی دیر اس کی چیخیں برداشت نہ کرنی پڑتی ۔
°°°°°°°
خضر معصومہ کو لانے ایئرپورٹ کے لئے نکل چکا تھا ۔معصومہ نے اس سے کہا تھا کہ وہ اس سے کورڈورڈ میں بات کرے گی تاکہ اسے کوئی بھی پہچان نہ پائے لیکن خضر کو اپنی بیوقوفی پر بہت افسوس ہو رہا تھا کیونکہ اس نے معصومہ سے اس کی تصویر تک نہ مانگی ۔
اب وہ اسے کیسے پہچانے گا ۔
چلو یہ بھی شکر تھا کہ اس نے معصومہ سے اس کے کپڑوں کا رنگ پوچھ لیا ۔ورنہ آج تو یقیناً ڈیول نے اس کا کچھ نہ چھوڑنا تھا ویسے بھی وہ آج بلیڈ یوز کر رہا تھا ۔
وہ ابھی کھڑا ہر طرف نظریں دوڑا رہا تھا جب نظر سامنے سے آتی ایک معصوم سی لڑکی پر پڑی جو کافی ڈری سہمی تھی ۔اس نے آسمانی رنگ کا عبایا پہنا تھا جس کے ساتھ اس نے ہم رنگ آسمانی رنگ کا ہی اسکاف لیا تھا ۔
مل گئی معصومہ ۔وہ تیزی سے چلتا ہے اس کے قریب آیا
تم پہنچ گئی میں تو پریشان ہو گیا تھا کہ تمہیں پہچانوں گا کیسے ۔خیر وہ پیپرز تو لائی ہونا تم ۔۔۔؟ اس نے فکر مندی سے پوچھا کیوں کہ اگر اس بار پیپرز میں کچھ گڑبڑ ہوجاتی تو ڈیول اسے نہیں چھوڑنے والا تھا ۔
جی ہاں میں پیپر لے آئی ہوں تو آپ ہیں میرے شوہر اس نے حیرانگی سے پوچھا ۔
شوہر ۔۔۔؟ خضر کو جھٹکا لگا.
“سر آپ مجھے ایئرپورٹ پر لینے آئے گے تو میں آپ کو وہاں کورڈواڈ میں مخاطب کروں گی.کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پیچھے کچھ لوگ لگے ہیں ” اسے معصومہ کی فون پر کی گئی گفتگو یاد آئی ۔
شوہر۔۔۔۔۔ہاں شوہر تمہارا گھر پے ہے چلو میں تمہیں اسی کے پاس لے جانے آیا ہوں پیپرز مجھے دو ۔خضر نے بات سنبھالتے ہوئے پیپرز مانگے.
نہیں پیپرز تو میں انہی کو دونگی اس نے معصومیت سے کہا.
تم مجھ پر یقین کر سکتی ہومیں اس کا وفادار آدمی ہوں ۔خضر نے کہا.
نہیں پیپرز میں انہی کو دوں گی ۔خضر کو لگا کے اس نے ایک بار پھر سے اس سے پیپرز مانگے تو معصومہ رونے لگے گی وہ صرف نام کی معصومہ نہیں پھر وہ سچ میں بہت معصوم تھی
فون پر بات کرنے والی لڑکی تو نہیں لگ رہی تھی وہ تو بہت بولڈ اور ٹیلنٹڈ لگ رہی تھی