قسط 6
وہ آکر گاڑی میں بیٹھے تب بھی روح کافی زیادہ ڈری ہوئی تھی.
اب نورمل ہوجاؤ ۔مزید ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے خضر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جبکہ اس کی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا اشارہ کر رہی تھی ۔
کیا مطلب ۔۔۔؟ روح نےمعصومیت سے پوچھا.
مطلب یہ کہ اب تمہیں ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے محترمہ اپنی اصلیت پر آ جاؤ ۔اور وہ فائل میرے حوالے کر دو ۔خضر سے اب مزید برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی؟ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا اور میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ یہ فائل میں اپنے شوہر کو دوں گی تو آپ بار بار کیوں مانگ رہے ہیں مجھ سے ۔روح نے اس کی طرف دیکھ کر پریشانی سے کہا کیونکہ اس کی باتیں روح کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔
بھائی۔۔؟ میں تمہیں بھائی لگتا ہوں۔خضر نے اسے گھور کے دیکھا اوکے کچھ نہیں کہہ رہا میں۔ تمہیں تو ڈیول ہی سنبھالے گا اس نے اکتا کر کہا اور گاڑی کی سپیڈ تیز کردی ۔
جبکہ روح اس کی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی ڈیول کیا یہ بےڈنگا نام اس کے شوہر کا تھا لیکن یہ کیسا نام ہے اس نے تو کبھی پہلے نہیں سنا ۔ہوسکتا ہے پیار سے کہتے ہوں روح نے سوچا اور دبئی کی صاف ستھری خوبصورت سڑکوں کو دوڑتے ہوئے دیکھنے لگی ۔
جبکہ خضر کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا فون پر تو اس سے کافی بے باکی سے بات کر رہی تھی اور اب وہ اسے بھائی کہہ کے پکار رہی تھی یہ فون والی لڑکی تو ہرگز نہیں لگ رہی تھی ۔
°°°°°°°°°°
سڑک پر چیکنگ پوسٹ دیکھ کر خضر کو اچھا خاصا غصہ آگیا اس کا منہ ویسے بھی بنا ہوا تھا کیونکہ معصومہ اس سے سیدھے طریقے سے بات نہیں کر رہی تھی ۔جس کی وجہ سے وہ کافی زیادہ غصے میں تھا ۔
وہ جلدی سے جلدی اسے ڈیول کے سامنے لے کے جانا چاہتا تھا کہ تاکہ وہ خود ہی اس سے بات کرکے فائل معصومہ سے لے کر اس کے حوالے کر دے تاکہ وہ شارف تک وہ فائل پہنچائے ۔
وہ ایسا ہی تھا ڈیول اسے جو بھی کام دیتا وہ جلدی سے جلدی اپنا کام ختم کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس لڑکی کی وجہ سے وہ اب تک اپنا کام ختم نہیں کر پا رہا تھا اس کا ارادہ معصومہ کو اپنے آدمی کے ساتھ گھر بھیج کر خود جیل جانے کا تھا لیکن وہ تو تب ہوتا جب معصومہ اسے وہ فائل دیتی ۔جبکہ معصومہ نے آگے انہی کے ساتھ کام کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قسم کی بدمزگی نہیں چاہتا تھا ۔
اور اب غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا
روح پہلے اسے اسی طرح سے غصہ کرتے دیکھتی رہی پھر گاڑی میں رکھی پانی کی بوتل اٹھا کر اس کی طرف برھائی.
یہ پانی پی لیں آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اس نے معصومیت سے کہا.
تم اپنا منہ بند کرو اور خاموشی سے بیٹھی رہو وہ غصے سےدھاڑتے ہوئے بولا .
کوئی اس حد تک ایکٹنگ کیسے کر سکتا ہے.
برا مت منائیے گا بھائی لیکن غصہ اس سلگتی ہوئی لکڑی کی مانند ہے جو دوسروں کو جلانے سے پہلے خود جلتی ہے ۔
پلیز آپ غصہ مت کریں اس میں آپ کا اپنا ہی نقصان ہے میں جانتی ہوں آپ بہت بزی ہیں بہت کام ہو گا آپ کو میری وجہ سے آپ کو اتنی پریشانی ہو رہی ہے وہ بولے جا رہی تھی جب کہ خضر حیرانگی اور پریشانی سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا.
لڑکی میری بات سنو تم اپنی یاداشت بھول تو نہیں آئی ۔دیکھو اگر ایسا ہے تو پلیز مجھے بتادو تمہارا سر کسی بھاری چیز سے تو نہیں ٹکرایا میں تمہیں ابھی ڈاکٹر کے پاس لے کے چلتا ہوں.
لیکن پلیز اپنی یہ بیکار بے فضول سی ایکٹنگ خبردار جو تم نے ڈیول کے سامنے کی وہ سیدھا شوٹ کر دے گا تمہیں ۔
خضر نے اسے تحمل سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا اب روح بھی اس کی بہکی بہکی باتوں سے پریشان ہوئی تو آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے.
جبکہ اس کے آنسو دیکھ کر خضر بری طرح سے کھٹکا.کچھ نہیں کہہ رہا بہن جی۔ہم گھر چلتے ہیں باقی باتیں وہی ہوں گی آپ کے شوہر کے سامنے خضر نے جیسے ہار مانتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے۔ اس نے نم آواز میں کہا ۔تو خضر کو ایک بار پھر سے اپنے معصوم چہرے کو دیکھنے پر مجبور کر گئی ۔
°°°°°°°°°°°°°°
وہ وائٹ پینٹ اور ریڈ شرٹ میں ہونٹوں کولال لپسٹک سے رنگے بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔
وہ عام سے خلیے میں بھی غضب ڈھاتی تھی اور اگر اتفاق سے کوئی ڈارک کلر پہن لے تو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے۔
اور آج اس نے جان بوجھ کر یہ رنگ پہنا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس رنگ میں وہ بے حد حسین لگتی ہے خیر آنے والی لڑکی کو بتانا بھی تو تھا کہ یہاں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی اور کوئی نہیں اور ڈیول صرف اسی کا ہے ۔
اس لیے آنے والی لڑکی ان کے ساتھ کام کرنے والے ہر لڑکے کے ساتھ فلرٹ کر سکتی ہے لیکن ڈیول کے ساتھ نہیں کیونکہ اس کا حق صرف اور صرف لیلٰی رکھتی ہے ۔
گاڑی اپنے مقام پر رکی اور خضر تیزی سے گاڑی سے باہر نکل گیا ۔جب کہ وہ حیران پریشان سی اس کے پیچھے آئی ۔
تو نظر سامنے خوبصورت نازک سی لیلیٰ پر پڑی اسے کچھ اطمینان ہوا یہاں تو لڑکیاں بھی ہیں.
وہ لیلیٰ کے سامنے آ کر ذرا سا مسکرائی مگر لیلیٰ کا ایسا کچھ بھی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔
ڈیول واپس آگیا۔۔۔۔؟ اس نے پوچھا ۔
ہاں ابھی کچھ دیر پہلے آیا ہے میں گئی تھی اس کے پاس کہنے لگا ڈسٹرب مت کرو ۔وہ ریسٹ کرنا چاہتا ہے اسی لئے میں باہر آگئی۔
ٹھیک ہے میں اس سے مل کر آتا ہوں تم میرے ساتھ آوّ اس نے روح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
اس نے کہا ہے کہ اسے کوئی بھی ڈسٹرب نہ کرے لیلیٰ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے ایک سلگتی نظر پاس کھڑی روح پر ڈالی۔
جو کہ آسمانی رنگ کے برقے اور ہمرنگ اسکاف میں مکمل قید تھی ۔سوائے چہرے کے اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ بے لباس نہ تھا ۔خیر لیلی کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی دبئی میں زیادہ تر عورتیں ایسے ہی برقے میں پائی جاتی تھی ۔
اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جیسے ہی آؤں اس سے ملوں۔ اور تمہیں مجھے میرا کام سکھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں پے صرف تم ہی اسے ڈسٹرب کرتی ہو۔باقی ہم سب تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ۔
اب خضر کو کسی نہ کسی پہ تو اپنا غصہ نکالنا ہی تھا تو لیلیٰ ہی سہی ۔جبکہ اس نئی لڑکی کے سامنے اتنی بےعزتی کے بعد لیلیٰ بالکل اپنے شرٹ کے کلر کی طرح ہوچکی تھی ۔
°°°°°°°°
آو خضر ایک کام کہا تھا تم سے وہ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوا خضر کو اپنے کمرے میں آتے دیکھ کر ڈیول نے کہا۔
کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں ”
خضر کو اس نے صرف اور صرف معصومہ کو ایئرپورٹ سے لانے کا کام دیا تھا وہ تو اس نے بالکل ٹھیک طریقے سے کیا اب کون سے کام کی بات کر رہا تھا وہ خضر کچھ سمجھ نہیں پایا ۔
میں نے اکرم کو بھیجا ہے معصومہ کو ایئرپورٹ سے لانے کے لیے تم جس لڑکی کو لے کے آئے ہو وہ کوئی اور ہے ۔
ابھی وہ خضر کی طبیعت صاف کرنے ہی والا تھا کہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی پورے حال کا جائزہ لیتی وہ کمرے میں داخل ہوئی.
کیا مطلب یہ وہ لڑکی نہیں ہے ..!!خضر نے آہستہ آواز میں کہا
اس کے پاس وہ فائل ہے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ تمہیں دے گی ۔روح خضر کے قریب آ کر کھڑی ہوئی تو وہ کہنے لگا ۔جبکہ روح کا سارا دھیان سامنے کھڑے آدمی پر تھا ۔
کہتے ہیں نکاح کے دوبول میں بہت طاقت ہوتی ہے لیکن گھر سے لے کر یہاں تک اس نے اپنے شوہر کے بارے میں کچھ محسوس نہ کیا وہ تو اسے سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔لیکن اب تو اس کے چہرے سے نظریں ہٹانا بھی ناممکن لگ رہا تھا ۔وہ شہزادہ نہیں بلکہ شہزادوں کو مات دینے والوں میں سے تھا ۔بلکل ٹھیک کہتی تھی فاطمہ بی بی اس کی زندگی میں کوئی شہزادہ ہی آئے گا ۔
آج اسے یقین آ چکا تھا کہ اس کی قسمت اتنی بھی بری نہیں ہے جتنی کے سب کہتے ہیں ۔
اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
وہ اس کے سامنے کھڑا اس سے نہ جانے کیا بات کر رہا تھا لیکن روح تو بس اس کے گال پر نمایاں ہونے والا وہ ڈمپل دیکھتی جو بولتے ہوئے اس کے گال پر روشن ستارے کی طرح چمکتا ۔اور پھر جب وہ خاموش ہوتا تب وہ ستارا بھی خاموش ہوجاتا ۔
دیکھو تمہیں یہاں نہیں آنا تھا تم غلط سے یہاں آگئی ہو ۔تمہیں اپنے گھر جانا چاہیے تھا لیکن فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے خضر تمہیں چھوڑ آئے گا
وہ اس کے قریب کھڑا آہستہ سے اسے بتانے لگا ۔
لیکن پھر اس نے نوٹ کیا کہ یہ لڑکی تو اس کی باتوں پر بالکل دھیان نہیں دے رہی ۔
تم سن رہی ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں اس باروہ ذرا اونچی آواز میں بولا تو روح جیسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی ۔
یہ کاغذات ۔۔۔روح کو کچھ سمجھ نہ آیا تو فوراً اپنے ہاتھ میں رکھے نکاح نامہ کے پیپرز اسے دکھانے لگی ۔
یہ کیا ہے۔۔ ؟ وہ ذرا سا الجھا لیکن اس کے ہاتھ سے پیپرز لے لئے ۔
یہ ایک نکاح نامہ تھا ۔یقینا سامنے کھڑی اس لڑکی کا تھا ۔
روح نور ۔اس نے اس کا نام لے کر اس کی طرف دیکھا ۔
جی ۔مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں آپ کے پاس پہنچوں گی بھی کے نہیں بہت ڈر لگ رہا تھا آپ کو پتہ ہے.جہاز کتنا بڑا تھا وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کھول کر اسے بتا رہی تھی جبکہ اس کا سارا جسم لرز رہا تھا ۔میں تو پہلے کبھی بیٹھی بھی نہیں ابھی بھی ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔وہ ذرا سا مسکرا کر بولی وہ کیا بول رہی تھی وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔
سامنے کھڑا آدمی اس کا شوہر تھا اس کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا تو کیا وہ یہ نہ جانتا ہوگا کہ وہ پہلی دفعہ سفر کرنے پر گھبرائی ہوئی ہے ۔
لیکن پھر بھی روح کا دل چاہا کہ آج اس کے سامنے کھل کر سب کچھ بتا دے اس نے کتنی تکلیفیں سہی ہیں بات بات پر گالی بات بات پر مار پیٹ پچھلے انیس سال سے وہ کتنی اذیت سہ رہی ہے ۔یہی تو تھا اس کا ہمدرد یہی تو تھا اس کا اپنا ۔اسی کے سامنے تو کھلنا تھا اسے ۔اسے ہی تو اپنے دل کا حال بتانا تھا ۔
وہی تو تھا اس کا سائبان اس کا شوہر اس کا سب کچھ ۔اب ڈر نہیں لگ رہا ۔آپ مل گئے نا اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے لیکن پھر بھی اس کو دیکھ کر وہ مسکرائی ۔
او محترمہ کیا بول رہی ہو تم خضر جو نہ جانے کب سے اس کی باتوں سے تنگ آیا ہوا تھا اب مزید اس غلط فہمی کو ہوا نہیں دے سکتا تھا ۔
خضر ویٹ تم بیٹھو ۔اس نے خضر کو روک کر روح کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔وہ آنکھوں سے آنسو صاف کرتی مسکراتی ہوئی بیٹھی ۔
تم نے کچھ کھایا ۔…!! اس نے آرام سے روح کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی اس سفر سے کافی گھبرائی ہوئی تھی ہے اور اگر اب وہ اسے یہ کہتا کہ وہ اس کا شوہر نہیں بلکہ ایک ڈان ہے اور وہ غلط پتے پر پہنچائی ہے تو وہ مزید گھبرا سکتی تھی ۔
اسی لئے وہ اسے تحمل سے اس سے بات کر رہا تھا.
اکبر سے کہوکہ کھانے کے لئے کچھ لے کے آئے تم آرام سے کھانا کھاؤ پھر بات کرتے ہیں اس نے نرمی سے روح کو کہا اور خضر کو لے کر باہر نکل آیا.
°°°°°°°°°°°°
یہ نکاح نامہ لو اور پتہ کرو اس لڑکی کا شوہر کہاں ہے ۔اس طرح سے کرتا ہے کوئی ۔ایسے کیسے اکیلے بھیج دیا لڑکی کو ۔
ہاں پچاری کتنی ڈری ہوئی ہے وہ ڈیول کی وجہ سے اس سے سختی سے بات کر رہا تھا اب نورمل ہوگیا کیوں کہ ڈیول خود اس سے اتنی نرمی سے بات کر رہا تھا تو وہ کیا پاگل تھا اتنی معصوم لڑکی سے اتنی سختی سے پیش آتا ۔
میں پتا کرواتا ہوں اس کے شوہر کا تب تک ہم اس لڑکی کو نہیں بتائیں گے کہ وہ انجان لوگوں کے پاس ہے ۔
اور لیلیٰ سے بھی کہو نورمل انسانوں کی طرح اس کے قریب رہے ۔ضروری نہیں کہ جیسا ہم سوچ رہے ہو وہ ایسی ہی ہو اس بار ڈیول کے لہجے میں کچھ اور تھا.
مطلب میں کچھ سمجھا نہیں خضرکو یہ بات کہتے ہوئے ہمیشہ ہی شرمندگی ہوتی تھی لیکن وہ بھی کیا کرتا ڈیول ہمیشہ آدھی بات چھوڑ دیتا تھا.
ضروری نہیں کہ معصوم چہروں کے پیچھے لوگ بھی معصوم ہوں۔ یہ ہمارے کسی دشمن کی چال بھی ہو سکتی ہےلیلیٰ سے کہنا اکرم آجائے تو فائل لے کر جیل چلی جائے.
اس نے خضر کا کندھا تھپتھپایا اور باہر نکل گیا ۔