قسط 2
وہ بڑی مصیبت میں پھنس گئی تھی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کے وہ ہار اُس کے بیگ میں کہاں سے آیا کہیں کسی نے بس میں تو یہ حرکت نہیں کی لیکن جب کیسے کیوں بہت سوال تھے اُس نے غصے سے زار کی جانب دیکھا جو اپنی دھن میں گاڑی چلا رہا تھا سب سے زیادہ غصّہ تو اُسے زار پر تھا جو اُس کی بات کا یقین نہیں کر رہا تھا
زار نے اُس کی نظروں کو محسوس کرکے سخت نظروں سے اُسے دیکھا اور دوبارہ سامنے دیکھنے لگا
اب کیا کروں میں۔۔۔۔کیسے نکلوں اس مصیبت سے۔۔۔۔۔کہاں پھنسا دیا اس نے مجھے۔۔۔۔۔اگر پاپا کو پتہ چل گیا تو آئندہ میرے گھر سے باہر نکلنے پر بھی پہرہ لگا دینا ہے اُنہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔اگر ایک بار پولس اسٹیشن میں پہنچ گئی تو بہت مشکل ہو جائیگی ابھی اگر بھاگ جاؤں تو ۔۔۔۔۔
وہ سیٹ سے سر ٹکائے سوچتے ہوئے ایک دم سے زار کی جانب دیکھنے لگی
بھاگ کر اس آدمی سے جان چھڑا لیتی ہوں بعد کی بعد میں دیکھے گے۔۔۔۔۔۔۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گی فیلحال یہی صحیح لگ رہا تھا پولیس اسٹیشن کے سامنے گاڑی رکی تھی اور وہ اپنی طرف سے اُتر کر اُس کے پاس آیا تھا اور اُس کا دروازہ کھولا تھا وہ نیچے اتر گئی زار نے اُس کا بیگ اٹھایا اندر چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھا وہ اُس کے پیچھے چلنے کی بجائے پلٹ کر سڑک کی جانب دوڑی زار نے اُس کی حرکت پر پلٹ کر دیکھا اور اُس کی بیوقوفی پر تاسف سے سر ہلا دیا اُس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے آکر جیپ میں بیٹھا اور اُس کی جانب چلا دی وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی جیپ اُس کے ساتھ ہی چل رہی تھی اور وہ خاموشی سے اُسے دیکھتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا رہا تھا اُس کی سانس پھول گئی تھی وہ رک گئی اتنا تو سمجھ میں آگیا تھا کے بھاگنا کوئی فائدے کا نہیں
فرار کا شوق پورا ہو گیا ہو تو بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زار نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے گاڑی کا رخ موڑا وہ منہ بناتی ہوئی آکر بیٹھ گئی سانسیں اب بھی تیزی سے چل رہی تھی سامنے پانی کی بوتل لے کر ہونٹوں سے لگا لی
بیٹھو اِدھر۔۔۔۔۔۔
اندر آکر اُس نے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ٹیبل کے کنارے پر ٹکتے ہوئے اپنے فون میں کچھ ٹائپ کرنے لگا باہر سے ایک باوردی انسپکٹر اندر آیا تھا
کون ہو بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زار کو اتنی بے تکلفی سے بیٹھے دیکھ کر اُس نے ایک نظر روحی پر ڈالی زار نے نا اُسے دیکھا نا جواب دیا فون میں مصروف رہا جب کے روحی اُس کی بات پر حیران ہو کر کھڑی ہوئی
کیا مطلب کیا یہ انسپکٹر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
سامنے والے کی بات سے تو اُسے یہی لگا اُس نے زار کے حلیے پر نظر ڈالی۔۔۔۔اُس نے بلیک جینس پر سفید شرٹ پہنا ہوا تھا جس کی آستین کہنی تک فولڈ کی ہوئی تھی اب تک اُس نے غور ہی نہیں کیا تھا کے اُس نے وردی نہیں پھنی ۔۔۔۔
میڈم اس تھانے کا انسپکٹر میں ہوں
انسپکٹر نے اُس کی معلومات نے مزید اضافہ کیا اور روحی کو جیسے خزانہ مل گیا
مجھے پہلے ہی لگا یہ ضرور کوئی گنڈا بدمعاش ہے۔۔۔۔۔دیکھیے نا انسپکٹر صاحب مجھ پر جھُوٹا الزام لگا کر مجھے یہاں لے کر آیا ہے یہ۔۔۔۔۔۔
اوئے کون ہے تو۔۔۔۔۔۔۔
انسپکٹر روحی کی بات پر سختی سے بولا تھا زار نے فون کو پاکٹ میں رکھا ہر سیدھا ہو کر اپنی پچھلی جیب سے آئے کارڈ نکالا
ACP zaar Muhammad ۔۔۔Mumbai police
انسپکٹر نے اُس پر لکھا پڑھتے ہوئے اُسے دیکھا
سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدھا ہو کر اُسے سلام کیا زار نے اُس کے ہاتھ سے کارڈ لیا اور روحی کی خوشی چھو ہو گئی
اس لڑکی کو میں نے چوری کے جرم میں گرفتار کیا ہے اسے لے جا کر سیل میں بند کرو
زار اُسے کہتا ہوا آکر کرسی اور بیٹھ گیا اور فائل اٹھا کر اُس پر نظریں دوڑائیں
نہیں انسپکٹر صاحب میں نے کچھ نہیں کیا یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
چپ کر کے چلو لڑکی۔۔۔۔۔۔۔
انسپکٹر نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کھینچتا ہوا سیل تک لے جانے لگا روحی نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو اُس کی پکڑ اور سخت ہو گئی
انسپکٹر۔۔۔۔۔۔
زار کی آواز اتنی زوردار تھی کے سیل میں بند لڑکوں کے ساتھ وہاں موجود تینوں سپاہیوں نے بھی اُسے دیکھا تھا
تمیز سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زار کی نظریں اُس کے ہاتھ پر تھی جس میں روحی کی کلائی تھی انسپکٹر اس کیا مفہوم سمجھ کے فوراً اُس کا ہاتھ چھوڑ گیا تھا اور روحی نے زار کو حیرت سے دیکھا تھا ایک پل کے لیے نظریں ٹکرائی تھی اور پھر زار فائل پر جھکا
سیل کی دیواروں کو دیکھتے ہوئے وہ اور پریشان ہو رہا تھا
دیکھو تم یہ اچھا نہیں کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔
زار کو اُس نے سلاخوں کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے مخاطب کیا وہ بہرہ بن کے بیٹھا رہا
میں یہاں سے نکل گئی نا تو خیر نہیں تمہاری
وہاں موجود سب اُسے دیکھ رہے تھے سوائے زار کے
ایک بار مجھے یھاں سے نکلنے دو اگر تمہاری وردی نا اتروا دی تو کہنا ۔۔۔
زار نے فائل بند کی اور اُس کے پاس آیا
کیا تم مجھے اکسا رہی ہی کے میں تمہیں آزاد کرنے کے بارے میں سوچوں بھی نا ۔۔۔۔
زار نے دانت پیستے ہوئے کہا وہ گنگ ہو گئی۔
کچھ قانون تو میں بھی جانتی ہوں ایک فون تو کر ہی سکتی ہوں میں
وہ پلٹا تو دوبارہ بولی اُس کے ذہن میں اب دوستوں سے مدد لینے کی بات آئی تھی
اسے باہر لے کر آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے سپاہی کو اشارہ کیا
صرف ایک فون ۔۔۔۔چاہے وہ تم کسی منسٹر کو کرو لوئر کو کرو یا دھوبی کو کرو ۔۔۔۔صرف ایک۔۔۔۔اُس کے بعد تم منہ سے آواز بھی نہیں نکالو گی سمجھی
اُس نے روحی ک فون اُسے دیتے ہوئے کہا روحی فون تھامے کرسی پر بیٹھنے لگی لیکن زار کی نظروں نے اُسے بیٹھنے سے روکا جیسے کہہ رہا ہوں کے تمہارا گھر نہیں ہے یہ
مشی میں پروبلم میں پھنس گئی ہوں پلیز ہیلپ می
اُس نے فون پر اب تک کی ساری داستان سنا دی
پلیز جلدی آؤ میرا دم گھٹ رہا ہے یہاں۔۔۔۔۔۔۔
زار نے اُس کی بات پر پہلی دفعہ اُسے دیکھا اُس نے فوراً فون بند کر دیا






میں باہر جا رہا ہوں پیچھے سے دھیان رکھنا اور خاص کر اس لڑکی پر نظر رکھنا اگر یہ یہاں سے گئی تو سمجھو تمہاری نوکری بھی گئی۔۔۔۔۔۔
رات ہونے کو آئی تھی اور مشی اب تک نہیں آئی تھی روحی پریشان کھڑی تھی بیٹھنے کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا اوپر سے زار کی بات اُس کا دل جلا گئی جو اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا باہر نکلا
یہ تو ایسے بات کر رہا ہے جیسے کوئی سیریل کلر ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔اور جیل توڑنے کے ریکاڈ مجھ پر ہی ختم ہے
وہ جل کر بولی
پلیز سر مجھے یھاں سے نکالیے ۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے جانے کے بعد اُس نے انسپکٹر سے بات کرنے کی کوشش کی وہ اُسے نظر انداز کر گیا
دیکھو اگر تم نے مجھے یہاں سے جانے دیا تو اپنے پاپا سے کہہ کر پرموشن دلواوں گی تمہیں
اس کی بات پر انسپکٹر نے اُس کی جانب غور سے دیکھا اور اُس کے دل میں امید جگی
سر نے سہی کہا تھا یہ لڑکی واقعی ذہنی مریض ہے
انسپکٹر نے پاس کھڑے سپاہی سے کہا جس اور وہ منہ کھولے اُسے دیکھنے لگی
کیا اُس بندر نے مجھے پاگل کہا۔۔۔۔۔اُس کی اتنی ہمت۔
سرے سے زار پر غصّہ آیا