قسط 6
صحیح راستے کا تو پتہ نہیں تھا اُس لیے وہ اندازے سے آگے بڑھ رہا تھا تاکہ مزید بھٹک نا جائے دونوں کے کپڑے بدن پر ہی سوکھ چکے تھے روحی تھکے تھکے انداز میں اُس کے پیچھے چلتی جا رہی تھی زار نے اپنی جیب سے موبائل نکالا جو پانی میں اپنی جان گنوا چکا تھا
موبائل تو کسی کام کا نہیں بچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پانی سے برباد ہو گیا ہے
اُس نے فون کو واپس جیب میں رکھا اور دوسری جیبوں کی تلاشی لی پیسے اور کارڈز بھی ضایع ہو چکے تھے ایک چھوٹا سا خنجر تھا جسے واپس فولڈ کرکے اُس نے جیب میں رکھا
میرا فون چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی نے اپنا فون اُس کے آگے کرتے ہوئے کہا
کیا فائدہ نیٹورک تو یہاں ملنا ہے نہیں۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی کام آسکتا ہے اسے لو پاور پر رکھو ورنہ بند ہو جائیگا
وہ سرسری سے نظر ڈالتے ہوئے بولا
تو کیا ہوا چارج کر لیں گے۔۔۔۔۔۔۔
روحی نے بے دھیانی میں کہا اور زار کی جانب دیکھا جو چلتے چلتے رک کے اُسے کھا جانے والے انداز میں دیکھ رہا تھا
میں تو بھول ہی گئی یہاں کیسے چارج کرے گے۔۔۔۔ میں ابھی کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
وہ جلدی سے بولی زار نے پیشانی سہلاتے ہوئے اُسے دیکھا
ارے تمہارے ہاتھ پر تو چوٹ لگی ہے ۔۔۔۔۔۔اُس کی کلائی پر نظر پڑتے ہی روحی نے کہا تو زار نے غور سے دیکھا کافی گہرا زخم تھا جو اطراف سے پانی کی وجہ سے شاید سفید پڑ گیا تھا
یہ سکارف باندھ لو ۔۔۔۔۔۔
روحی نے اپنے سکارف کو جینز میں بیلٹ کی جگہ پھنسایا ہوا تھا نکالتے ہوئے بولی زار نے سکارف لیا لیکن اُسے باندھنا مشکل تھا اُس نے یونہی لپیٹ کر چھوڑ دیا
لاؤ میں کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔
روحی نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اسکارف کو کھول کر الگ کیا زار نے اُس کے چہرے کو دیکھا اور ہاتھ کھینچ لیا
رہنے دو ۔۔۔ویسے ہی ٹھیک ہو جائیگا
بنا اُس کی جانب دیکھے بولا
تم اتنے ضدی کیوں ہو۔۔۔۔۔۔یا اس میں بھی کوئی برائی نظر آتی ہے تمہیں ہاتھ دو۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی نے اُس کا ہاتھ کھینچ کر آگے کرتے ہوئے اسکارف کو ایک گانٹھ باندھ کر نیچے کھلا چھوڑ دیا جیسے ہی اُس کا سر اٹھا اُس کے پہلے زار کی نظریں ہٹ گئی
زخموں کو کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔۔۔۔
وہ اُسے دیکھتے ہوئے بولی








تم سب جانتے تھے ۔۔۔۔۔جانتے تھے نا میں کون ہوں۔۔۔۔۔چوری کا الزام بھی جان بوجھ کر لگایا مجھ اور وہ نیکلس بھی تم نے ہے ڈالا تھا میرے بیگ میں ۔۔۔ مجھے جیل میں بند کرکے رکھا تم نے یہ جانتے ہوئے کے میں نے کچھ نہیں کیا
وہ کافی دیر سے چلتے جا رہے تھے لیکن جنگل اور گھنا ہوتا جا رہا تھا زار نے اُس کی بات پر بنا اُسے دیکھے مسکرایا
میں نے یہ سب تمہارے پاپا کے کہنے پر کیا تھا
اچھا اور وہ دال چاول کھلانے بھی میرے پاپا نے ہے بولا تھا تم سے ۔۔۔۔ہے نا
روحی جلدی چل کر چار قدم کا فاصلہ طے کرتی اُس کے برابر میں آئی
نہیں وہ میں نے اپنی مرضی سے کھلایا تاکہ سبق ملے تمہیں اور دوبارہ بھاگنے کی کوشش نہ کرو
وہ بنا اُسے دیکھے بولا روحی نے اُسے گھورا اور چلتی رہی
میں اور نہیں چل سکتی۔۔۔۔۔۔۔بہت تھک گئی ہوں
جب اُس کی ہمت جواب دے گئی تو وہ رک گئی
میرے پاس تمہارے نخرے اٹھانے کا ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔اندھیرا پھیل رہا ہے چلو یہاں سے
زار نے پلٹ کر کہا شام گہری ہو رہی تھی اور اُسے وہاں سے نکلنے کی بہت جلدی تھی
میں نے کہا نا میں نہیں چل سکتی ۔۔۔۔۔بھوک کے مارے حالت خراب ہو رہی ہے ایک تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوپر سے اتنی دیر سے بس چلے جا رہے ہو چلے جا رہے ہو رکنے کا نام نہیں لے رہے۔۔۔۔۔۔
وہ عاجزی سے بولی زار کو واقعی احساس ہوا کے وہ تھک گئی ہو گی کیوں کے وہ خود بھی تھک چکا تھا
سمجھنے کی کوشش کرو ہمارا یہاں سے نکلنا بہت ضروری ہے رات ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر پائے گے
وہ دھیرے سے اُسے سمجھاتے ہوئے بولا
ٹھیک ہے پھر تم مجھے پیٹھ پر اٹھا کر لے چلو۔۔۔۔
روحی نے بنا اُسے دیکھے کہا زار نے اُس کی بات پر ماتھے پر شکنیں لا کر اُسے دیکھا
میں تمہارے باپ کا نوکر نہیں ہوں جو تمہاری غلامی کرونگا۔۔۔۔۔
وہ اُس کی بات کر جواب دے کے بنا رکے اپنے راستے پر چل دیا تھا روحی فوراً اٹھ کر اُس کے پیچھے بھاگی تھی کے کہیں سچ میں چلا ہی نا جائے
کتنے بدتمیز ہو تم۔۔۔۔۔ایک بار نکلنے دو یہاں سے تمہاری یہ اکڑ اور سنکی باتیں تو پاپا ہی نکالے گے۔۔۔۔
روحی اُس کے ساتھ چلتی اُسے دھمکاتے ہوئے بولی
میں ایسی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔کیوں کے میں جو ہوں اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے ہوں۔۔۔ نا میں کسی کے احسان لیتا ہوں نہ میرا خرچہ اوپر کی کمائی سے چلتا ہے اس لیے مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔۔۔۔۔تمہارے باپ کا بھی نہیں
وہ اپنی دھن میں چلتا اُس کی بات کا جواب دیتا ہوا بولا
اگر اتنا ہی گھمنڈ ہے خود پر تو کیوں میرے پاپا کے آرڈرز مان رہے ہو۔۔۔۔۔چلے جاتے نا مجھے اُن غنڈوں کے حوالے کرکے۔۔۔۔۔کیا ضرورت تھی میری غلامی کرنے کی۔۔۔
اُس نے آخری جملے پر زور دیا زار نے غصے سے اُس کی جانب دیکھا
وہ میرا فرض تھا۔۔۔۔تمہیں پروٹیکٹ کرنا میری ڈیوٹی ہے ۔۔۔۔۔۔اور میں صرف اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا۔۔۔۔۔جس میں تمہارے ذاتی کام یا تمہارے نخرے اٹھانا شامل نہیں ہے اوکے۔۔۔۔
اُسے روحی کی بات بری لگی تھی وہ جان بوجھ کر تیز چلتا اُس سے آگے ہو گیا
روحی کافی دیر تک خاموشی سے چلتی رہی زار نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا چہرے سے ہی نڈھال محسوس ہو رہی تھی اُس نے اطراف میں نظر ڈالی وہ لوگ ندی کے قریب تھے
شام ہو گئی ہے آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔یہیں رک جاتے ہے
وہ روحی کی جانب دیکھتے ہوئے بولا
تھینک گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھی اب اور تھوڑی دیر چلتی تو بے ہوش ہو جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی اُسی جگہ زمین پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔ وہ آکر اس کے پاس ہی ایک پیڑ سے ٹیک لگائے کھڑا ہو گیا
بہت بھوک لگی ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔
روحی نے اس کی جانب دیکھ کر چھوٹا سا منہ بناتے ہوئے کہا زار نے نے ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے ایک گہری سانس خارج کی
ٹھیک ہے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے آگ جلانی پڑے گی ورنہ کہیں کوئی جانور نا آجائے یھاں
وہ سیدھا ہو کر اپنی تھکان کو بھولے زمین پر پڑی سوکھی پتیوں اور لکڑیوں کو پیر سے ایک جگہ کرنے لگا کچھ باریک باریک سوکھی لکڑیاں پیڑ سے توڑ کر اس پر ڈالتا گیا جب کافی سارا ڈھیر بن گیا تو ندی کنارے کے دو پتھر اٹھا کر زمین پر بیٹھتے ہوئے اُنہیں رگڑکر آگ جلانے کی کوشش کی روحی اُسے بہت اشتیاق سے یہ سب کرتے دیکھ رہی تھی
پتھر سے سچ مچ آگ جلتی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا
وہ جیسے ہی آگ جلانے میں کامیاب ہوا روحی کسی بچے کی طرح خوش ہوتے ہوئے بولی زار نے کوئی دھیان نہیں دیا
تم یہیں رکو میں آس پاس دیکھتا ہوں کچھ کھانے کے لیے مل جائے تو۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا روحی نے سر اثبات میں ہلا دیا وہ دس قدم ہی آگے بڑھا تھا کے روحی نے اُسے آواز دی
زار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ ایک پل کے لیے اپنی جگہ پر رکا تھا پھر اس کی جانب دیکھا
میں بھی چلوں تمہارے ساتھ ۔۔۔۔مجھے اکیلے ڈر لگے گا
نہیں تم یہیں رکو ۔۔ پہلے ہی بہت تھک گئی ہو کچھ ہو گیا تو میں بے وجہ پھنس جاؤنگا
میں زیادہ دور نہیں جاؤنگا یہیں آس پاس ہوں ڈونٹ وری۔۔۔۔۔۔۔
وہ سنجیدگی سے بولا اور چلا گیا روحی کو اس جنگل میں اکیلے رہنے سے نہیں بلکہ اس کے دور جانے سے در لگا تھا تھوڑی دیر تک وہ پیڑ سے ٹیک لگائے اُسے کے بارے میں سوچتی رہی آج کے دیں اس کا ہر روپ دیکھنے کے بعد روحی اُسے اپنے دل میں تو جگہ دے ہی چکی تھی وہ اُسے اچھا لگنے لگا تھا اس کا انداز اس کی بہادری اس کیا غصّہ سب کچھ روحی کو بہت دلکش لگ رہا تھا اس نے آنکھیں بند کی اور اس کے چہرے کو تصوّر کرنے لگی وہ ہر طرح سے دل۔میں سما جانے کے قابل تھا خوبصورت چہرہ جو ہر وقت سنجیدہ رہتا تھا گہری کالی آنکھیں کالے سلکی بال اور چھ فٹ کو پہنچتا قد ہر اُس لمحے جب وہ اُس کے قریب ہوتا تھا روحی مسحور ہو جاتی تھی