عشق محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4 حصہ 2

اگلے دن وہ ہاسپٹل بھی نہیں گئی تھی اسکی باتیں یاد کرکے اسے اس شخص سے خوف محسوس ہورہا تھا
چھٹی کرکے اگلے دن وہ ہاسپٹل گئی جب اسے پتہ چلا کہ معتصم وہاں سے جاچکا تھا جس پر اسنے شکر کا سانس لیا لیکن وہ باتیں بار بار اسکے زہہن میں آرہی تھیں
گھر آتے ہی اسے جو سرپرائز ملا وہ خالا کی موجودگی کا تھا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی لیکن انکے آنے کا مقصد جان کر وہ پریشان ہوچکی تھی
انہوں نے اسے وصی کے نام کی انگھوٹھی پہنائی لیکن اسے اس سب سے کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی کیونکہ اسکا زہہن تو اب تک معتصم کی باتوں میں تھا
اسنے اپنے ہاتھ میں موجود اس انگھوٹھی کو دیکھا جو آج اسے پہنائی گئی تھی
“شاید میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں ہوسکتا ہے وہ مزاق کررہا ہو میں بھلا کیوں اسے سوچ کر خود کو پریشان کررہی ہوں” اپنے آپ کو تسلی دے کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی جب اسے پیچھے جہاں کھڑکی تھی وہاں کچھ ہلچل محسوس ہوئی اسنے مڑ کر دیکھا لیکن اس سے پہلے وہ چیختی وہ اپنا مظبوط ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ چکا تھا وہ وہی تھا وہی شخص جسے وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی
اسنے اس وقت بلیک جینز اور بلیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں اس کے مظبوط بازو صاف دکھ رہے تھے ایک بازو پر زخم موجود تھا جو اسے گولی لگنے کی وجہ سے ملا تھا ابھی تک اسکا بازو مکمل ٹھیک نہیں ہوا تھا
“کیا کہا تھا میں نے تم سے کہ تم اس شادی سے انکار کردو لیکن نہیں تم نے کیا کیا”اسکا ہاتھ اٹھا کر اسنے اسکی انگلی میں موجود اس انگھوٹھی کو دیکھا اور پھر اسے انگلی سے نکال کر پھینک دیا جو بیڈ پر جاگری
“چھوڑو میرا ہاتھ یہاں کیا کررہے ہو تم نکلو یہاں سے”
“لگتا ہے تم نے میری بات سنی نہیں ہے میں تمہیں کل تک کا وقت دے رہا ہوں اس رشتے سے انکار کردینا ورنہ انجام کی ذمیدار تم خود ہوگی”
“کیوں انکار کروں گی میں ، میں وصی سے ہی شادی کروں گی ہو کون تم میرے” اسنے معتصم کو زور سے دھکا دیا جس پر اسنے اپنی سرخ انگارہ ہوتی آنکھوں سے گھور کر اسے دیکھا اور جھٹکے میں اسکے قریب جاکر اسکی کمر کے گرد اپنا حصار باندھ دیا
“آئیندہ اس شخص کا نام اپنی زبان پر مت لانا میری ہو تم صرف میری صرف معتصم شاہ کی” اسکے مزاحمت کرتے انداز کو نظر انداز کرکے اسنے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے واپس چلا گیا
اسکے جانے کے بعد پریشے نے زور سے اپنا ماتھا رگڑا جیسے اس پر سے اس شخص کا دیا گیا لمس مٹا رہی ہو
دل میں خیال آیا کہ کسی کو اس سب کے بارے میں بتادے لیکن پھر سب کی پریشانی کا سوچ کر وہ خود ہی خاموش ہوگئی ایک بار اسکی وصی سے شادی ہوجاتی تو وہ خود ہی اسکا پیچھا چھوڑ دیتا لیکن یہ پریشانی اسے رہنی تھی جب تک اسکی وصی سے شادی نہیں ہوجاتی
°°°°°
اس وقت بھی وہ شوپنگ کرنے لیے صائمہ بیگم کے ساتھ گئی تھی جب ایک تیز رفتار ٹرک انہیں ٹکر مار کر چلا گیا
وہ پریشانی سے لوگوں کی مدد سے انہیں ہاسپٹل لے کر پہنچی تھی انہیں بس چند چوٹیں لگی تھیں اور یہ سب سن کر اسنے اطمینان بھرا سانس لیا اور گھر فون کرکے عینہ کو انکے ایکسیڈنٹ کا بتادیا تاکہ وہ گھر میں سب کو یہ بات بتادے
اسے فون کرکے وہ ہاسپٹل کے روم میں داخل ہوئی جہاں پر صائمہ بیگم موجود تھیں لیکن اندر کا منظر دیکھ کر اسکے قدم جم چکے تھے
جینز ٹی شرٹ اور بلیو جیکیٹ میں وہ صوفے پر بیٹھا اپنے دونوں پاؤں ٹیبل پر کینچی کی شیب میں دیے بیٹھا تھا
،”تم یہاں کیا کررہے ہو”
“آج یہ قصہ ختم کرنے آیا ہوں” اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ چلتا ہوا اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا
“کیا کہا تھا میں نے تم سے کہ منع کردو اس رشتے سے ورنہ انجام کی ذمیدار صرف تم ہوگی اب دیکھ لو اپنی غلطی کا نتیجہ” اسنے بیڈ پر موجود بےہوش صائمہ بیگم کو دیکھتے ہوے کہا
“تو یہ سب تم نے کیا ہے گھٹیا انسان” اسنے غصے سے اسکا گریبان پکڑ لیا
” ہاں یہ سب میں نے کیا ہے” اسنے اپنا گریبان اسکے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوے اطمینان سے کہا
“کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا کیوں میرے پیچھے پڑھے ہو چھوڑ دو میری جان میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے” اسنے اپنے دونوں ہاتھ اسکے سامنے جوڑتے ہوے کہا
“جان تو تم میری بن چکی ہو اس حساب سے میں اپنی جان کو بھلا کیسے چھوڑ دوں” اسکے چہرے پر جھولتی لٹ کو اسنے پیچھے کیا جب پریشے نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا
اور ہلچل ہونے پر دروازے کی طرف دیکھا جہاں کمرے میں چند مرد حضرات داخل ہوے
“نکاح کے لیے تیار ہوجاؤ میری جان”
“میں تم سے نکاح نہیں کروں گی”
“سوچ لو پہلے ہی تمہاری غلطی کی سزا یہ بھگت رہی ہیں میں اس سے آگے بھی بڑھ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا تو بہتر ہے کہ میری بات مان لو” اسنے آنسو بھری نظروں سے بیڈ پر لیٹی اپنی ماں کو دیکھا
اور ہچکیوں سے روتے ہوے نکاح نامے پر سائن کردیے اسکی ماں کے سامنے اسکا نکاح ہوا تھا لیکن انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کیونکہ وہ اب تک ہوش میں ہی نہیں آئی تھیں
نکاح ہوتے ہی وہاں موجود افراد باہر چلے گئے سواے معتصم شاہ کے
اسنے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے مقابل کھڑا کیا پریشے نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن وہ معتصم کی سخت گرفت میں تھا
“نکاح مبارک ہو جان” اسنے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے
“دور رہو مجھ سے” اسنے اپنا آپ اس سے چھڑوانا چاہا لیکن اسکی مزاحمت کو نظر انداز کرکے وہ اسکے گلابی لبوں پر جھک گیا
اسکی اس حرکت پر وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی اپنے ہاتھوں کی پوری طاقت لگا کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن وہ اپنے کام میں مصروف رہا اور کافی دیر بعد اسکے لبوں کو آزادی بخشی
“جارہا ہوں واپس آوں گا اور تمہیں اسی طرح اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا جس طرح ہر لڑکی رخصت ہوکر جاتی ہے”
“اگر تمہیں یہی سب کرنا تھا تو اسی طرح سے رشتہ لاتے جو طریقہ ہوتا ہے”
“تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہاری شادی کے دنوں میں ، میں تمہارے گھر رشتہ لاتا تو وہ تمہارے کزن کو چھوڑ کر تمہاری شادی مجھ سے کردیتے”
“تو کیا اب کردینگے”
“ہاں بلکل کیونکہ تم اب مکمل طور پر میری ہو اجازت مانگوں گا ان سب سے اگر مل گئی تو ٹھیک نہیں تو تمہیں گھر سے اٹھانے میں بھی دیر نہیں کروں گا کیونکہ اب تم صرف میری ہو”
اسکے ماتھے پر دوبارہ اپنا لمس چھوڑ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور وہ وہاں پر بیٹھ کر رونے لگی
سب گھر والے آچکے تھے صائمہ بیگم کو ہوش آچکا تھا لیکن اسکے رونے میں کمی نہیں آئی تھی
°°°°°
اسکی شادی کی بات جو دبی ہوئی وہ صائمہ بیگم کے صحت یاب ہوتے ہی پھر سے اٹھ چکی تھی اور یہی تو وہ نہیں چاہتی تھی وہ بھلا وصی سے شادی کیسے کرسکتی تھی
اسنے صائمہ بیگم کو اپنا انکار سنادیا جس کے بعد اسے اچھی خاصی ڈانٹ پڑ چکی تھی اور ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ اسے آئیندہ ایسی بات اپنے زہہن میں بھی نہیں لانی ہے
انکی طرف سے مایوس ہوکر وہ ظفر صاحب کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ اپنے باپ سے کہہ سکے کہ اسے وصی سے شادی نہیں کرنی ہے یا پھر انہیں حقیقت بتادے لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں بتا سکی تھی اسکی شادی کو لے کر انکے چہرے پر پھیلی خوشی اسے کچھ کہنے ہی نہیں دے رہی تھی
اسلیے اسنے وصی سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا
لیکن وہ اسکی سنی کب رہا تھا وہ تو اپنی ہی خوشی میں مگن تھا اسنے اپنے قریب موجود ہر شخص کو سچائی بتانی چاہی لیکن ہر کوئی بس اپنی سنا کر اسے سمجھانے بیٹھ جاتا
گھر کا ماحول اسے گھٹن زدہ لگ رہا تھا اور اس سب میں اسکی شادی کی ڈیٹ رکھی جا چکی تھی
اسے بس گھر سے دور جانا ہی اس سب کا حل لگا اور اسنے ایسا ہی کیا وہ جانتی تھی کہ اسکا اٹھایا یہ قدم اسکے ماں باپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگا لیکن وہ بھی مجبور تھی اسے سب سے زیادہ غصہ تو اس شخص پر تھا جو اسے اس رشتے میں زبردستی باندھ چکا تھا
اس وقت بھی وہ کیب میں بیٹھی جارہی تھی اس وقت اسنے یہی سوچا کہ وہ رمشہ کے پاس چلی جاے گی لیکن راستے میں ہی اسنے ڈرائیور کو رکنے کا کہا اور گاڑی سے اتر کر باہر نکلی
“کیا ہوا ہے انہیں” اسنے آئرہ کے قریب جاکر کہا جو مبشرہ بیگم کا سر اپنی گود میں رکھے مدد کے لیے چلا رہی تھی
“مجھے نہیں پتہ یہ اک دم سے گر کر بےہوش ہوگئیں” اس نے روتے ہوے دوبارہ انکا گال تھپتھپایا
“پلیز آپ میری ہیلپ کیجیئے انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے”
“آپ کا گھر کہاں ہے”
“وہ والا میرا گھر ہے” آئرہ نے کچھ فاصلے پر موجود گھر کی طرف اشارہ کیا
“ہم باہر جارہے تھے اور پھر اچانک یہ بےہوش ہوگئیں”
“میں ڈاکٹر ہوں آپ انہیں گھر میں کے کر چلیے میں انہیں چیک کرتی ہوں”ڈرائیور کی مدد سے وہ دونوں مبشرہ بیگم کو گھر میں لے کر آئیں ویسے تو سب ٹھیک ہی لگ رہا تھا بی پی کی مشین سے اسنے انکا بی پی چیک کیا وہ ہلکا سا لو تھا لیکن اتنے ہلکے بی پی لو میں انکی حالت ایسی نہیں ہونی چاہیے تھی اسنے انکی شوگر چیک کی جو کافی زیادہ لو تھی
انہیں ٹریٹمنٹ اور آئرہ کو چند ہدایتیں دے کر وہ وہاں سے باہر نکل گئی جب آئرہ بھاگتی ہوئی اسکے پیچھے آئی
“ایکسکیوز می” آئرہ بھاگتی ہوئی اسکے پاس آئی جس پر پریشے نے مڑ کر اسے دیکھا
“جی”
“مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا تھینک یو فار ایوری تھنگ”
“کوئی بات نہیں یہ تو میرا کام ہے”
“اچھا ویسے آپ کا نام کیا ہے”
“پریشے”
“بہت پیارا نام ہے”
“آپ کا نام”
“آئرہ”
“نائس نیم یہ میرا نمبر ہے کبھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور یاد کیجیے گا” الوداعی کلمات ادا کرکے وہ وہاں سے چلی گئی اور یہیں سے پریشے ظفر شاہ کو ایک نئی دوست ملی تھی
°°°°°
اپنے ایک ہاتھ میں بیگ لیے وہ جارہی تھی رمشہ کا گھر قریب ہی تھا اور ابھی کے لیے تو اسے وہیں جانا تھا
وہ چلتی ہوئی جارہی تھی جب بلیو کلر کی بی-ایم-ڈبلیو اسکے سامنے آکر رکی اسنے اپنے چلتے قدم جھٹکے سے روک لیے
گاڑی سے ڈارک بلیو پینٹ کوٹ میں ملبوس شخص باہر نکلا اپنی آنکھوں پر اسنے لائٹ بلیو کلر کے سن گلاسیس لگاے ہوے تھے
“گاری میں بیٹھو”
“نہیں بیٹھونگی”
“پری مجھے زبردستی کرنے پر مجبور مت کرو شرافت سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ” اسکے سخت لہجے میں کہنے پر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی وہ یہاں سڑک پر کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی
“کہاں جارہی تھیں” اسنے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوے کہا
“گھر سے بھاگ رہی تھی”
“کس لیے”
“کیونکہ میرے گھر میں میری شادی کی ڈیٹ رکھی جاچکی ہے اور میں یہ شادی نہیں کرسکتی کیونکہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہوں اور میں یہ بات کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی کوئی میری سن ہی نہیں رہا ہے اور جس کے ساتھ میرا نکاح ہوا ہے وہ اتنے دنوں سے غائب تھا اور مجھے اسکے نام کے علاؤہ کچھ بھی نہیں پتہ ہے”
“میں تمہیں تمہارے گھر لے کر چلتا ہوں اور پھر میں ان سب سے بات کروں گا اور میں غائب نہیں ہوا تھا بس کچھ زیادہ ہی مصروف ہوگیا تھا”
“میں اس وقت صرف اکیلی رہنا چاہتی ہوں جانتی ہوں کہ جب میرے نکاح کی خبر گھر میں ہوگی تو تماشہ لگے گا اور میں اس وقت کوئی تماشہ نہیں چاہتی میں صرف تنہائی چاہتی ہوں”اسکے کہنے پر معتصم نے بنا کچھ کہے گاڑی دوسری جانب موڑ کی
وہ اجنبی راستوں پر گاڑی لے کر جارہا تھا وہ کہاں جارہا تھا اسے نہیں پتہ تھا اور اسے جاننا بھی نہیں تھا اسنے گاڑی ایک چھوٹے لیکن خوبصورت گھر کے آگے روکی
“چلو اترو”
“یہ کس کا گھر ہے”
“یہ میرا گھر ہے”
“مجھے یہاں نہیں رہنا ہے”
“مجھے نہیں پتہ تم کہاں جارہی تھیں لیکن اگر اپنے گھر سے دور جارہی تھیں تو یقیناً کسی اور کے گھر میں ہی جارہی ہوگی لیکن میں یہ نہیں چاہتا یہ میرا گھر ہے اور تمہارا بھی اور تم جب تک اپنے گھر واپس نہیں جاؤگی تب تک تم یہیں رہو گی”
اسے زبردستی گاڑی سے نکال کر وہ اندر لے کر آیا اور گارڈ کو باہر رکنے کا اشارہ کیا جو اسکے ساتھ ہی اسکی گاڑی کے پیچھے ایک الگ گاڑی میں موجود تھے
“میں ہر ہفتے یہاں کی صفائی کرواتا ہوں”
یہ بات اسے کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ صاف ستھرا گھر اس بات کی گواہی دے رہا تھا
“تمہں پسند آیا”اسنے ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالا
“تم سے جڑی کوئی چیز مجھے نہیں پسند”
“ویسے تم بھی اب مجھ سے ہی جڑ چکی ہو”جھٹکے سے اسنے اسے اپنی جانب کھینچا اور بنا اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے اسکے لبوں پر جھک گیا
وہ مدہوش سا اسکے لبوں پر جھکا ہوا تھا جب پریشے نے اسے دھکا دیا جس سے وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہوگیا وہ لڑکھڑایا تھا لیکن گرا نہیں تھا
“یہ کیا حرکت ہے پری”
“یہ بات مجھ سے مت پوچھو کہ یہ کیا حرکت ہے تم ںے اپنی حرکتیں دیکھی ہیں”
“کیا ہیں میری حرکتیں نکاح میں ہو تم میرے”
“ہاں اسی لیے تو تم نے مجھ سے نکاح کیا ہے شاہ انڈسٹری کا مالک معتصم شاہ بھلا مجھ سے شادی کیوں کرے گا ایک پل میں محبت ہوگئی اس لیے نہیں مانتی میں اس سب کو میں جانتی ہوں تم نے مجھ سے اسلیے نکاح کیا ہے تاکہ نکاح کی آڑ میں تم اپنی حوس پوری کرسکو” اسکے لفظ سن کر اسکا ہاتھ اٹھا تھا لیکن وہ ہوا میں ہی رک چکا تھا اسنے اپنے ہاتھ کو مٹھی بنا کر زور سے بھینچا
اور تیز تیز قدم اٹھاتا گھر سے نکل گیا
“کوئی میرے پیچھے نہیں آے گا” گارڑذ جو اسکے پیچھے آنے والے تھے اسکی تیز آواز پر وہیں رک گئے
وہ اپنی گاڑی لے کر تیزی سے وہاں سے چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد گارڈز بھی اسکے پیچھے گئے کیونکہ اگر اسکے سامنے ہی اسکے پیچھے جاتے تو معتصم شاہ نے نہیں چھوڑنا تھا لیکن یہ جمال شاہ کا حکم تھا اس وجہ سے وہ اسے اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے
وہ تیزی سے اپنی گاڑی چلارہا تھا سپیڈ تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی
جب اچانک سامنے سے ایک ٹرالر آیا اسںنے تیزی سے گاڑی کا رخ موڑا اور گاڑی الٹی ہوتی ہوئی دوسری طرف جاگری
گارڑذ جو اسکے پیچھے ہی تھے تیزی سے بھاگتے ہوے اسکے پاس آے اور اسے گاڑی سے باہر نکالا وہ بہت زیادہ زخمی ہوچکا تھا ان لوگوں نے فورا ایمبولینس بلائی اور جمال شاہ کو فون کرکے اسکی حالت بتائی جسے سن کر حویلی کے سارے فرد وہاں ہر آگئے جہاں انہیں یہ خبر ملی کہ وہ کوما میں جاچکا ہے
°°°°°
معتصم جو گیا تھا تو کتنے دنوں تک واپس نہیں آیا تھا وہ اس سے نفرت کرتی تھی لیکن اس اکیلے گھر میں اسے ڈر لگ رہا تھا اسے اپنی کہی باتوں کا پچھتاوا ہورہا تھا لیکن اب تو کہہ دیا تھا
اسنے گھر کے قریب ہی موجود ہاسپٹل میں جوب شروع کردی تھی وہ جانتی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو گھر کا کوئی فرد اسے ڈھونڈ لے گا اور ایسا ہی ہوا وصی اسے دیکھ چکا تھا جہاں اب پتہ نہیں کتنے سوال کے جواب اسے دینے تھے
وہ سب کو کیا بتاتی کہ وہ کسی کے نکاح میں ہے اور جس کے نکاح میں ہے وہ چار ماہ سے اس سے ملا ہی نہیں ہے پتہ نہیں وہ کہاں تھا کہیں وہ اسے بھول نہ گیا ہو اسے یہ پرواہ ہرگز نہ تھی کہ معتصم نے اسے یاد رکھا تھا یا نہیں وہ بس یہ چاہتی تھی کہ وہ اسے اس نام نہاد رشتے سے آزاد کر دے
لیکن یہ سب سوچتے ہوے وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص جو اس کے عشق میں ڈوب چکا ہے وہ اس وقت کومے میں تھا جسے ہوش پری کے اپنے گھر جانے سے پانچ دن پہلے آیا تھا اور اپنی حالت میں بہتری دیکھتے ہی وہ اپنی امانت لینے چلا آیا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial