قسط 1
گاؤں میں ہر طرف اذانوں کی آواز گونج رہی تھی نماز مغرب کی ادائیگی کیلئے لوگ مساجد کا رخ کر رہے تھے ۔کچے پکے راستے سے گاڑی تیز رفتار میں حویلی کے اندر داخل ہوئی ۔
غالب کاظمی تیزی سے گاڑی سے نکلتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہونے لگے اور ان کے پیچھے ہی سردار کاظمی حویلی کی اندر داخل ہوئے۔غالب صاحب نماز کے لیے وضو کرنے لگے ۔سردار صاحب بھی ان کی پیروی کرتے نماز کی تیاری میں مگن ہو گئے۔
یہ ان دونوں بھائیوں کی بچپن کی عادت تھی وہ ہمیشہ ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے چاہے وہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں ۔نماز اکٹھے ہی ادا کرتے۔
زندگی میں اتنی تلخیاں آجانے کے باوجود بھی شاید یہی وہ ایک چیز تھی جس نے ان دونوں بھائیوں کو جوڑ رکھا تھا
یعقوب صاحب کو خبر مل گئی تھی کہ ان کے دونوں بیٹے گھر آ چکے ہیں
یقینا وہ دونوں نماز ادا کرنے کے بعد ان کے کمرے میں آجائیں گے یہ ان کا روز کا معمول تھا نماز کے بعد وہ ان ہی کے کمرے میں آتے تھے انہیں سارے دن کی صورتحال کا بتاتے اور پھر ڈنر ٹیبل پر صرف چند افراد ڈنر کرتے
یہ حویلی بیشک دو ایکر کی زمین پر پھیلی ہوئی تھی ۔لیکن اس میں بسنے والے لوگ بہت کم تھے۔یعقوب صاحب جدی پشتی رئیس تھے ۔ان کی شادی ان کے والدین نے اپنی مرضی سے سکینہ بیگم سے کروائی تھی جو ان کی ماموں ذاد تھیں
سکینہ ایک بہت وفادار اور سلیقہ شعار خاتون تھیں ان کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ ان کے دونوں بیٹوں نے اس بڑھاپے میں بھی اپنے باپ کو تنہا نہ چھوڑا تھا ۔وہ دونوں جہاں بھی ہوتے شام تک گھر واپس آ جاتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا باپ ان کا انتظار کر رہا ہو گا
سکینہ بیگم اپنی حیات پوری کرکے اپنے خالقِ خدا سے جا ملی تو وہ بہت تنہا ہو گئے تھے ایسے میں ان کے دونوں بیٹے ہی ان کا سہارا بنے
غالب صاحب کی پہلی شادی ان کی اپنی پسند کی تھی زئمہ بیگم صرف ان کی شریک حیات ہی نہیں محبت بھی تھیں۔لیکن ان کے ساتھ ان کی ازواجی زندگی کا وقت بہت کم تھا
شادی کے چھ سال بعد جب انہیں کوئی اولاد نہ ہوئی تو وہ طرح طرح کے علاج کروانے لگیں جو ان کی صحت کے لیے بے حد مؤثر تھے ۔غالب صاحب نے انہیں یہ سب کرنے سے بہت منع کیا لیکن انہوں نے کسی کی بات نہ مانی
جہاں انہیں اولاد کی خوشخبری ملی ۔وہیں ان کی طبیعت دن بدن بگڑتی گئی ڈاکٹر نے انہیں جواب دے دیا ۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اگر وہ یہ بچہ چاہتی ہیں تو ان کی اپنی جان بچانا تقریبا ناممکن ہو جائے گا ۔
ڈاکٹر کے مشورے انہیں ہرگز منظور نہ تھے۔انہوں نے رو رو کر اپنے لئے اولاد مانگی تھی وہ بلا اسے مارنے کا سوچ بھی کیسے سکتی تھیں
انہیں ہر حال میں یہ بچہ دنیا میں لانا تھا چاہے اس کے بعد ان کی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ان کی ضد کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صاحبِ اولاد تو ہوئیں لیکن صرف ایک گھنٹے کے لیے قلب کی پیدائش کے ایک گھنٹے بعد ہی ان کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔
اس کے بعد غالب صاحب سے جیسے ہر خوش چھن گئی ۔ان کی اولین چاہت ان سے دور ہو گئی۔غالب صاحب نے اپنے آپ کو مصروف کر لیا ۔وہ زئمہ کو بھلانے کے لیے خود کو پوری طرح بزنس میں مگن کرتے چلے گئے ۔وہ قلب سے بہت محبت کرتے تھے۔لیکن وہ قلب کو وقت نہیں دے پاتے تھے۔
زئمہ کی یادوں کو خود سے دور کرنے کے لیے انہوں نے قلب کو بھی خود سے دور کر دیا تھا۔قلب آٹھ سال کا ہو گیا ۔لیکن باپ کے لمس سے انجان ہی رہا ۔شاید ہی انہوں نے کبھی اسے باہوں میں لے کر محسوس کیا تھا۔
یعقوب صاحب کی طبیت ایک دن کافی خراب ہوگئی ۔وجہ ٹینشن بتائی گئی۔اور ان کی ٹینشن کی وجہ تھی غالب صاحب کی زندگی سے بے زاری ۔ان کی ضد کے سامنے سر جھکا کر غالب صاحب دوسری شادی کے لیے مان گئے
شادی سادگی سے ہوئی ۔سعدیہ بہت اچھی اور پڑھی لکھی عورت تھیں ۔لیکن وہ قلب کی ماں نہ بن سکیں۔انہوں نے قلب کے ساتھ کبھی کوئی رشتہ نہ رکٙھا ۔نہ اچھا اورنہ ہی بُرا ۔وہ قلب کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا ہی نہیں چاہتی تھیں ۔اور نہ ہی اس کی سوتیلی ماں بننا چاہتی تھیں۔
انہیں مکافات عمل سے خوف آتا تھا وہ قلب سے دور ہی رہتیں وہ نہ تو اسے مخاطب کرتی تھی اور نہ ہی اس کے پاس جاتی تھیں قلب بھی ان کی اس چیز کو بہت شدت سے نوٹ کرتا تھا
شروع میں جب اسے بتایا گیا کہ وہ اس کی ماں ہیں تو وہ ان کے پاس بھی آتا ہے اور ان سے بات بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سعدیہ بیگم کا یہ نارمل انداز دیکھ کر وہ خود ہی ان سے دور ہو گیا
وہ آٹھ سال کی عمر میں ہی سمجھ چکا تھا کہ سعدیہ اس کی ماں نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ جھوٹ بولا جا رہا ہے ۔کیونکہ جہاں تک وہ جانتا تھا ماں تو بہت پیار کرتی ہے اگر وہ اس کی ماں ہوتی تو وہ بھی اس سے ضرور پیار کرتی لیکن وہ اس کی ماں نہیں تھی ۔
اس کی خاموش طبیعت اور سب سے کٹ کر رہنا یعقوب صاحب نوٹ کر چکے تھے انہوں نے دو تین بار سعدیہ بیگم کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ قلب کو ان کی ضرورت ہے لیکن سعدیہ بیگم نے انہیں صاف جواب دے دیا تھا
ان کا کہنا تھا کہ وہ قلب کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی وہ کسی کی سوتیلی ماں نہیں بننا چاہتیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی کرنا چاہتیں ہیں
انہیں تو لگ رہا تھا کہ وہ قلب کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کر رہیں لیکن وہ اُس چھوٹے سے بچے کی ساری امیدیں توڑ چکی تھیں
قلب کا سب سے کھیچا کھیچا رہنا یعقوب صاحب کو قلب کو ہوسٹل بھیجنے پر مجبور کر گیا وہ اسے بہت چھوٹی عمرمیں ہی ہوسٹل راونہ کر چکے تھے ۔قلب دس سال کا تھا جب وہ سب سے دور دوسرے شہر ہوسٹل میں آگیا ۔
اسے یہاں آئے دو ماہ ہی ہوئے تھے جب اسے پتہ چلا تھا کہ اس کا باپ ایک بار پھر سے باپ بن گیا ہے اسے ان سے کوئی شکایت نہ تھی وہ اپنے بابا سے بے حد محبت کرتا تھا ۔
بس دعا کرتا تھا کہ اس کی چھوٹی بہن (جس کے ساتھ شاید اس کاکوئی رشتہ نہیں تھا )کو اس کے باپ کا پیار ملے جو اسے نہیں مل پایا ۔
غالب شاہ کے چھوٹے بھائی سردار شاہ کی شادی ان کے خاندان میں ہی کنیز بیگم سے ہوئی تھی شادی کی ڈیڑھ سال بعد ان کے ہاں چاند سی بیٹی کرن پیدا ہوئی جس کا اس خاندان سے اب کوئی واسطہ نہیں تھا
اور نہ ہی یہ خاندان اس سے کسی طرح کا کوئی تعلق رکھنا چاہتا تھا
°°°°°°
قادر صاحب نے اپنے خاندان سے لڑ جھگڑ کر رخشندہ سے شادی تو کر لی تھی ۔لیکن ان کی شادی کے بعد ان کے خاندان والوں نے ان سے سارے تعلق ختم کر دیے ۔
وہ اپنی بیگم کے ساتھ کراچی سے کشمیر آبسے اور یہی رہ کر اپنا کاروبار شروع کردیا بہت جلد ان کا چھوٹا سا کاروبار ترقی کے مراحل طے کرنے لگا ۔
ان کا بیٹا شہریار جیسے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا ۔اس کی پیدائش کے بعد ان کے بزنس کو چار چاند لگ گئے ۔
انہوں نے شہر یار کو بے حد محبتیں اور بھرپور توجہ دی جیسے ان کے لیے ایک ہی اولاد کافی تھی ۔انہیں اپنی ساری محبتیں چاہتیں اپنے بیٹے کو دینی تھی ۔
جیسے جیسے شہریار بڑا ہوتا گیا اسے ہر طرح کی آزادی ملتی گئی ۔لیکن اس کے باوجود بھی وہ کوئی بگڑا ہوا بچہ ہرگز نہیں تھا ۔نہ تو ضدی تھا اور نہ ہی بے تکی چیزوں کی فرمائشیں کرتا تھا
وہ کسی چیز کی ضد نہیں کرتا تھا ۔ وہ اپنے والدین کی ہر بات خاموشی سے مان لیتا ۔وہ بے حد فرمابدار بچہ تھا شاید یہ بھی وجہ تھی کہ اس کے لاڈ بھی وہ دونوں شوق سے اٹھاتے تھے۔
وہ سکول جانے لگا ۔تو اکثر اپنے دوستوں کو چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھتے دیکھتا ۔ایک دن گھر آ کر اس نے اپنے ماں باپ سے یہ فرمائش کر ڈالی کہ اسے چھوٹا بھائی یا بہن چاہے ۔جس کا وہ بہت خیال رکھے ۔اس کے والدین نے اس کی اس فرمائش کو بھی پورا
کیا۔
شیزرہ اس سے آٹھ سال چھوٹی تھی ۔جو قادر اور رخشندہ کی کم اس کی بیٹی زیادہ تھی اس کے لاڈ اٹھانا اس سے پیار اس کی پر خواہش پوری کرنا جیسےشہریارنے خود پر فرض کر لیا تھا
اس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو وہ پتھر پر لکھی ہوئی لکیر مانتا تھا ۔جیسےاب اس سے دوسرا کوئی اہم کام ہے ہی نہیں ۔
اس کے ایگزامز کے دوران وہ ساری ساری رات جاگتا رہتا کبھی کبھار تو اس کے ہوم ورک بھی وہ خود ہی کر دیا کرتا ۔اس کی کوئی بھی ضد وہ اگنور نہیں کر سکتا تھا ۔
اس کی زندگی میں شیزرہ سے اہم کچھ بھی نہ تھا۔ خاص کر بابا کی جانے کے بعد تو وہ اس کے لئے اور بھی زیادہ عزیز ہو گئی تھی ۔
وہ اکیس برس کا تھا جب اچانک بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ رات ان کی زندگی کی آخری رات ثابت ہوئی ۔وہ چھوٹا نہ سمجھ بچہ ہرگز نہیں تھا ۔وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی ماں اور بہن کو اس کی ضرورت ہے
وقت رہتے شہریار نے اپنے بابا کا سارا بزنس سنبھال لیا ۔باباکے جانے کے بعد بہت لوگوں نے ان کے بزنس کو ہتھیانے کی کوشش کی ۔ان کے سامنے طرح طرح کے دلائل پیش کئے کہ ان کے کتنے ہمدرد ہیں ۔
لیکن شہریار نے کسی کی کوئی بات نہ سنی بلکہ دماغ سے کام لیتے ہوئے بابا کی ساری جائیداد اپنے نام کروا لی۔
اور خود ہی سارے نظام سنبھالنے لگا ۔یہ سب اس کے لیے بے حد مشکل تھا ۔لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اس نے اپنی ماں اور بہن کا سہارا بننا تھا ۔اور وہ بنا بھی۔ آج وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا ۔
قادر صاحب نے جس بزنس کو 21 سال میں کھڑا کیا تھا شہریار نے محض پانچ سال میں ہی اسے ڈبل کر کے دکھایا تھا ۔وہ بہت محنتی تھا ۔اور اس کا بزنس اس کی محنت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔
وہ ایک بہت ایماندار قسم کا بندہ تھا وہ اپنے کام میں کسی طرح کی بے ایمانی برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔
وہ اپنے بزنس کی دنیا میں بے حد بزی ہونے کے باوجود بھی اپنی فیملی کے لیے وقت نکال لیتا تھا یہی وجہ تھی کہ آج کل رخشیدہ بیگم اس کے لیے اچھے رشتے دیکھ رہی تھیں ۔
جب رخشیدہ بیگم کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی تو اس نے دو سال کا وقت لیا تھا جو کہ اب مکمل ہو چکا تھا ۔
اسی لیے اب رخشیدہ بیگم کا سارا دھیان اس کی شادی کی جانب تھا اور وہ یہ بات اس کے کان سے بھی نکال چکی تھیں کہ وہ جلد ہی اسے دولہا بنانے والی ہیں ۔
پہلے تو اس نے بہت کوشش کی ٹال مٹول کرنے کی لیکن بعد میں کہہ دیا کہ جو لڑکی اس کی لاڈلی کو پسند آئے گی ۔وہی اس کی پسند ہو گی
جس کے بعد شیزرہ بھی اس کام میں مصروف ہو چکی تھی ۔وہ بھی ماں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ جاتی جہاں اچھے رشتے کی امید ہوتی ۔اب تک اسے اپنے بھائی کے معیار کے مطابق کوئی لڑکی پسند نہ آئی تھی ۔
رخشیدہ بیگم نے تو تنگ آکر کہہ دیا تھا کہ اب تم اپنے بھائی کی پسند کی لڑکی آرڈر پر تیار کروانا جیسی لڑکی تم ڈھونڈ رہی ہو ویسی اس دنیا میں نہیں پائی جاتی ۔اور ان دونوں کی روز روز کی بحث کو شہر یار بہت انجوائے کر رہا تھا ۔اور کافی ریلکس بھی تھا
کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شیزرہ کو کوئی بھی آسانی سے پسند نہیں آتا ۔اور شیزرہ کی پسند کے حساب سے اس کی شادی جلدی ہونے کے کوئی چانسز نہیں تھے
°°°°
تم سمجھ نہیں رہی ہو میرے گھر والے مجھے کبھی بھی کسی ٹرپ پر جانے کی اجازت نہیں دیں گے مجھے پتا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے ٹرپ کے لیے اجازت نہیں ملے گی تو کیا ضرورت ہے ماما سے ڈانٹ کھانے کی اس لئے میں نہیں پوچھ رہی کسی سے بھی اس بارے میں وہ انکار کرتے ہوئے بولی تو شیزرہ کامنہ بن گیا
ارے یار ایک بار پوچھنے میں کیا حرج ہے یار دونوں چلیں گے بہت مزہ آئے گا شیزرہ منتیں کرنے لگی
پہلے تم اپنی فیملی سے تو پوچھ لو اپنے بھائی اور ماما سے اجازت لے لو پھر میرے بارے میں بات کرنا اور ویسے بھی مجھے پتا ہے کہ مجھے اجازت نہیں ملنے والی تو میں کوشش بھی نہیں کروں گی تمہیں نہیں پتا ماما بہت ڈانٹیں گی مجھے
اسمارہ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا
یار کیسی دوست ہو تم میرے لیے ایک بار اپنی ماما سے اجازت نہیں مانگ سکتی کیا جائے گا یار صرف اور صرف ایک بار پوچھ لو اور اگر ماما ڈانٹیں گی تو بابا سے پوچھ لو یار بابا تو بہت پیار کرتے ہیں تہمارے بابا اجازت دے دیں گے میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں تم ایک بار پوچھو تو سہی تم کبھی کہیں ٹرپ پر نہیں گئی ہو
اور کبھی اپنے والدین سے اجازت بھی نہیں مانگی ایک بار کوشش تو کرو یار ہوسکتا ہے وہ لوگ تمہیں اجازت دے دیں بس یار ہم دونوں چلیں گے بہت مزا آئے گا پلیز سمجھنے کی کوشش کرو میں وہاں اکیلے جا کر کیا کروں گی شیزرہ اس کی منتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی جب کہ اسمارہ اس کے یقین پر حیران تھی
ابھی پچھلے سال کی ہی تو بات کی جب اسے ٹرپ پر جانے کی اجازت نہیں ملی تھی اسے بخار ہونے کی وجہ سے اس کے بھائی نے دی ہوئی اجازت بھی واپس لے لی تھی اور اب اسے یقین تھا کہ اس بار اسے ٹرپ پر جانے سے کوئی منع نہیں کرے گا اور اب وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی تھی
شیزرہ کے گھر کا ماحول بہت ہی الگ تھا اس کا بھائی اس کے ہر خواہش پوری کرتا تھا لیکن اسمارہ کے گھر ایسا ہرگز نہیں تھا
کرن آپی کی وجہ سے ہوئی بے اعتباری آج بھی قائم تھی
اسمارہ پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں تھی وہ آزادی سے اپنی زندگی جی سکتی تھی لیکن کرن کے وجہ سے گھر کا ماحول آج بھی خراب تھا
چار سال پہلے اسے ان سب باتوں کی اتنی سمجھ نہیں تھی گھر میں ہنگامہ ہوا تھا کرن ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی اور چاچو نے اس کی وجہ ہمیشہ اپنی تربیت اور دی گئی آزادی بتائی
وہی آزادی وہ لوگ کبھی بھی اسمارا کو نہیں دینا چاہتے تھے کہنے کو اسمارہ کا تعلق ایک امیر خاندان سے تھا ہر چیز اس کے قدموں میں تھی وہ جس چیز کی خواہش کرتی اسے ملتی تھی
لیکن کہیں نہ کہیں ان سب کے دل میں یہ بھی تھا کہ کہیں کرن کی طرح اسمارہ بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھا دے جس کے بعد وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں سردار شاہ آج بھی قلب سے نگاہیں ملا کر بات نہیں کرتے تھے اور اس سب کی وجہ صرف اور صرف ان کی بیٹی کرن تھی
کرن کو دی گئی چھوٹ اور آزادیوں کی بدولت وہ ان سب سے بغاوت پر اتر آئی تھی اور پھر اپنا فیصلہ ان سب کو سنا کر ہمیشہ کے لیے امریکہ روانہ ہوگی وہ وہاں کیا کرتی تھی کیا نہیں ان لوگوں کو کوئی مطلب نہ تھا کیونکہ وہ لوگ اس سے ہر طرح کا تعلق توڑ چکے تھے
کرن تو جیسے ان کی بیٹی ہی نہیں تھی اب تو حویلی میں کرن کا نام تک لینا بھی گناہ تھا اس کے بار بار سوال کرنے پر اسے بس اتنا ہی بتایا گیا تھا کہ جو غلطی کرن نے کی ہے وہ تم کبھی مت کرنا
کرن کو آزادی چاہیے تھی ماں کی پابندیاں باپ کا ڈر خاندان کاروعب وہ ان سب چیزوں سے آزادی چاہتی تھی اور اسے آزادی دے دی گئی تھی
اس کی ماں بس یہی کہتی تھی کہ تم ناجائز فرمائش مت کرنا آزادی کا خیال اپنے دماغ میں مت لانا
یہ مرد کا معاشرہ ہے یہاں ایک عورت کو سر اٹھا کر چلنے کے لئے بھی ایک مرد کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تک کہ دوسرے مردوں کی غلیظ نظروں سے بچنے کے لیے بھی ایک مرد کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ مرد کسی بھی روپ میں کیوں نہ ہو باپ بھائی شوہر عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے
کرن کو کوئی تحفظ نہیں چاہیے تھا وہ ایکٹنگ کرنا چاہتی تھی ماڈل بننا چاہتی تھی ان سب لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ یہ دنیا جتنی رنگین ہے اندر سے اتنی ہی سیاہ ہے لیکن اس نے کسی کی کوئی بات نہیں مانی وہ ان لوگوں سے ہر طرح کا تعلق ختم کرکے ہمیشہ کے لیے امریکا چلی گئی
وہاں جانے کے بعد اس کی زندگی کیا تھی کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ اس کے بارے میں بات کرنا اس گھر میں کسی کو پسند نہیں تھا اس کا ذکر قلب کو تکلیف دیتا تھا اس خاندان کا کوئی بھی شخص قلب کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا
اسمارہ اپنی زندگی بہت سکون سے گزار رہی تھیں وہ اپنے ماں باپ کو کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی
ناجائز فرمائش تو ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی اس کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا بھی بابا اور چاچا کی مرضی کے خلاف تھا وہ تو قلب نے کہہ دیا کے چار جماعتیں پڑھ لے گی تبھی تو سر اٹھا کر جینے کے قابل بنے گی آپ نے تو اس پر زندگی تنگ کر دی ہے
قلب کی سفارش پر اسے یونیورسٹی آنے کی اجازت تو مل گئی تھی لیکن یونیورسٹی کا آزاد ماحول اس کی ماں کو بہت زیادہ پریشان رکھتا تھا
اس نے یونیورسٹی میں ہونے والے ایک فنکیشن میں حصہ لینے کے لیے ماں سے بات کی تو انہوں نے صاف انکار کردیا ان کا کہنا تھا کہ کرن کی فرمائش بھی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر شروع ہوئی تھی
اور آج وہ پورے خاندان سے بغاوت کرکے سب سے دور الگ ہو کر بیٹھی ہے خدا کے لئے اپنے دماغ سے یہ ساری باتیں نکال دو تمہیں یہاں پہ ہر چیز تو میسر ہے ماں باپ تمہاری کسی چیز میں کوئی کمی نہیں ہونے دیتے تو ان کا دل دکھانے کے لئے ایسے راستے کیوں اختیار کرر ہی ہو
ڈرامے میں پرفارم کرنا اس کا خواب ضرور تھا لیکن اس کی ماں کے الفاظ نے اس کے خواب کو توڑ دیا اس کے بعد اس نے کبھی ان کے سامنے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا شیزرہ کو لگتا تھا کہ اس نے اپنے گھر میں ٹرپ کے بارے میں بات ہی نہیں کی لیکن وہ باتوں ہی باتوں میں اپنی ماں سے ٹرپ کی اجازت مانگ چکی تھی
لیکن اس کی ماں نے صاف انکار کر دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ خبردار تم نے اپنے باپ دادا کے سامنے یہ بات کی ورنہ سوال وہ میری تربیت پر اٹھائیں گے میں وہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتی جو کنیز بیگم نے کیا ہے
جوان لڑکی کی ذات پر جب سوال ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ماں کا سر جھکتا ہے وہ تو کہیں دفعہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ چکی تھی کہ اسمارہ میرا سر جھکنے مت دینا
وہ شیزرہ کو یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کی ماں نے اسے صاف انکار کرتے ہوئے ایسے الفاظ کہے ہیں اسی لیے اس نےشیزرہ سے کہا تھا کہ اس نے گھر میں بات ہی نہیں کی جس کے بعد وہ اس کی منتیں کرنے لگی تھی
بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اسے سمجھا نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کچھ اس کے لیے بے حد مشکل ہے
اچھا ٹھیک ہے آج میں تمہاری امی سےاجازت مانگوں ہو سکتا ہے کہ تمہاری امی تمہیں میرے ساتھ آنے کی اجازت دے دیں وہ ہر حال میں اسے اپنے ساتھ لے کر جانے کی کوشش میں تھی اسمارہ نے فورا نا میں سر ہلایا
بالکل بھی نہیں ایسا سوچنا بھی مت خبردار جو تم نے میرے گھر میں اس مقصد سے فون کیا میں بتا تو رہی ہوں کہ اجازت نہیں ملے گی تو مطلب نہیں ملے گی اب ان سب باتوں کو چھوڑو کلاس لینے چلو
اگر بات ایک دن کی ہوتی تو میں کچھ نہ کچھ کر لیتی لیکن یہ لوگ تین دن کے لئے ٹرپ لے کر جا رہے ہیں تین دن کی اجازت ہرگز نہیں ملنے والی
میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتی اور نہ ہی ماما مجھے گھر سے باہر نکلنے دیتی ہیں
میں ان تین دنوں میں اپنے اور تمہارے نوٹس تیار کردوں گی تم خوب انجوائے کرنا وہ اچھی دوست کا فرض نبھاتے ہوئے
بولی وہ اب اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ شیزرہ کا موڈ بے حد خراب ہو چکا تھا
°°°°°°°°
شیزرہ یار بات تو کرو کیا ہوگیا ہے اتنی سی بات پر مجھ سے ناراض ہو گئی ہو وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی تو شیزرہ منہ پھیلا کر دوسری طرف دیکھنے لگی
یار ایسے تو نہیں کرو کیا ہو گیا ہے اب اتنی سی بات پر مجھ سے ناراض ہو کر بیٹھ جاؤ گی وہ اسے منانے کی کوشش کرنے لگی
نہیں محترمہ آپ کو مجھے منانے کی ضرورت نہیں ہے کیسی دوست ہو تم میرے لیے اپنے والدین سے اجازت نہیں لے سکتی میں وہاں ان فیشن ماڈلز کے ساتھ جا کر کیا کروں گی ان لوگوں کو تو اپنی ہی سیلفیوں سے فرصت نہیں ہوگی
میرے ساتھ کون رہے گا میرے ساتھ وقت کون وقت گزارے گا خاک انجوائے کروں گی میں وہاں تمہارے بغیر وہ اداسی سے بول رہی تھی
اسمارہ کو اس کی حالت پر ترس تو آ رہا تھا لیکن اس بار وہ اپنی اس پیاری سی دوست کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔
سچ تو یہی تھا کہ اس کے دل میں بھی ٹرپ پر جانے کی خواہش تو تھی وہ بھی دیکھنا چاہتی تھی ناران کاغان کے خوبصورت علاقے ابھی تک تو وہ زندگی میں اس طرف کبھی گی بھی نہیں تھی جبکہ شیزرہ تین دفعہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں جا چکی تھی اور اسے بہت ساری تصویریں دکھاتی اور وہاں کے خوبصورت علاقوں کے بارے میں بتاتی رہی تھی
اس کے دل میں بھی وہاں جانے کی خواہش تھی لیکن وہ اس خواہش کا اظہار اپنے گھر والوں کے سامنے نہیں کر سکتی تھی
چار سال پہلے اس کو ہر جگہ جانے کی اجازت تھی وہ جس جگہ کا نام لیتی وہاں پر جاتی اپنی مرضی سے آزادی سے زندگی گزار رہی تھی چار سال پہلے تو وہ بھی کتنے ہی ٹرپ گئی تھی سکول کے سارے ٹرپ میں نے اس نے کبھی کوئی ٹرپ مس نہیں کیا تھا
لیکن اب وقت بدل چکا تھا اب زندگی تنگ ہو چکی تھی ہر چیز میسر ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی مرضی سے کھل کر سانس نہیں لے سکتی تھی
اسے اکیلے شاپنگ پر جانے کی اجازت نہیں تھی ڈرائیور پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاتا تھا اسے صبح یونیورسٹی چھوڑنے کے لیے بابا آتے تھے واپسی پر کبھی چاچو کبھی بابا تو کبھی کبھی ڈرائیور کے ساتھ ماما آتی تھی
ہر روز یونیورسٹی جانے سے پہلے ماما اسے ہدایت کرنا نہیں بھولتی کہ کسی لڑکے سے بات مت کرنا اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو گھر میں آکر بتانا
اس کے پاس اپنا موبائل فون تک نہیں تھا اس کی کلاس کی لڑکیاں تو کہیں بار اس کا مذاق بھی اڑاچکی تھی کہ تم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہواور تمہارے پاس ایک موبائل فون تک نہیں ہے
اس کے مقابلے میں شیزرہ ہر نیو ماڈل کا فون لیتی تھی اور اس کی بھی بےشمار تصویریں بناتی ۔
ایسا لگتا تھا کہ اس کی فیملی کو اس پر اعتبار نہیں ہے دو تین بار تنگ آ کر اس نے جب اپنی ماں سے پوچھا تو وجہ کرن نکلی
کرن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جا چکی تھی لیکن اس کی زندگی مشکل بنا گئی تھی وہ اپنے بابا کو کھل کر دیکھ نہیں پاتی تھی اسے لگتا تھا اس کے بابا کو اس پر بھروسہ نہیں ہے
اسے لگتا تھا وہ اس پر یقین نہیں کرتے وہ اسے کرن کی طرح سمجھتے ہیں اسے کبھی کبھی کرن پر ترس بھی آتا تھا کتنی خوبصورت تھی اس کی زندگی یہاں پر اتنے محبت کرنے والے رشتے ہر کوئی اسے اہمیت دیتا تھا
لیکن وہ ان سب چیزوں کو چھوڑ کر چلی گئی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ گھر کی چار دیواری کے اندر اس کا کوئی فیوچر نہیں ہے وہ اپنا فیوچر بنانا چاہتی تھی وہ ایکٹنگ کرنا چاہتی تھی وہی سب کچھ اس کی دنیا تھی سارا دن رات ماڈلنگ کے میگزین دیکھنا ایسی زندگی کی خواہشات اپنے دل میں پالنا
لوگ کہتے ہیں کہ شوبیز میں اپنا نام بنانے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے کرن نے بھی بہت کچھ قربان کیا تھا اپنا خاندان اپنا گھر بار اور اپنی محبت بھی ۔
اس سب کے لئے اس نے اپنی محبت کو چھوڑ دیا تھا ایک وقت تھا جب وہ کرن کو بھابھی کہا کرتی تھی اور کرن کیسے شرما جایا کرتی تھی قلب کے نام پر
بچپن کا نکاح کتنا خوبصورت رشتہ تھا قلب کے تمام تر جذبات صرف اسی کے لیے تھے اور وہ بھی تو اسے بے پناہ چاہتی تھی لیکن خواہشوں کی ڈور نے محبت کے دیے کو اس طرح بجھایا کہ اسے واپس جلانے کی امید بھی باقی نہ رہی
اس کے گھر میں کرن کا نام نفرت سے لیا جاتا تھا اور وہ کرن کے جیسا کوئی بھی قدم اٹھا کر اپنے گھر والوں کی نفرت کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی
اسے اپنے رشتے بے حد عزیز تھے وہ اپنے رشتوں کو کھونا نہیں چاہتی تھی کرن میں بہت ہمت تھی ہر چیز سے لڑ جھگڑ کر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ اکیلی پرسکون زندگی گزار رہی تھی لیکن اسمارہ نہیں گزار سکتی تھی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی وہ کرن کی طرح نہیں تھی
اس نے شیزرہ کو منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نہ تھی آخر کار ڈرائیور آیا تو وہ اس سے ناراض ہی اپنے گھر چلی گئی
اسے اپنی یہ دوست بے حد عزیز تھی وہ اسے زیادہ دیر روٹھا ہوا نہیں رکھ سکتی تھی کل سب لوگ ٹرپ پر جارہے تھے اور جو لوگ ٹرپ پر نہیں جا رہے تھے انہیں تین دن کی چھٹیاں تھی مطلب اس کی یہ ناراضگی تین دن تک چلنے والی تھی
اور اسمارہ اس کی اتنی لمبی ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتی تھی لیکن اب اس کے بس میں بھی کچھ بھی نہیں تھا اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد بابا اسے لینے آگئے وہ خاموشی سے ان کے پاس گاڑی میں بیٹھ گئی تو وہ اس کا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوئے
کیا بات ہے بیٹا جی آپ پریشان کیوں ہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ہم نے سنا ہے کہ آپ کے کالج میں کل ٹرپ جا رہا ہے تو آپ گھر پر ہی رہیں گی وہ اسے دیکھتے ہوئے سوال کرنے لگے تو اس نے صرف ہاں میں سر ہلایا
بہت اچھی بات ہے ایسے فضول ٹرپ میں جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے آپ اپنی پڑھائی پر توجہ دیں ایسے فضول کاموں میں اپنا ٹائم ویسٹ نہ کریں انشاءاللہ آپ ٹاپ کریں گی آپ کے ٹیچر آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں
ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے آپ پڑھائی کو اتنا سیریس لے رہی ہیں آگے بھی ایسے ہی محنت کریں ہمیں فخر ہے آپ پر بابا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا اس کے چہرے پر بھی پیاری سی مسکراہٹ آ گئی
کتنے پیارے تھے بابا کے الفاظ اس کے باپ کو فخر تھا اس پر ان کی نظروں میں بھی یہ ٹرپ اور یہ سب چیزیں فضول تھی
اس نے سوچا تھا کہ آج گھر جاتے ہوئے وہ بابا سے ایک بار بات کرنے کی کوشش کرے گی لیکن بابا کے الفاظ نے اسے کچھ بولنے ہی نہ دیا
رستہ خاموشی سے کٹ گیا تھا اب کسی سے کوئی بات نہیں کرنی تھی بابا کی نظروں میں یہ سب کچھ فضول تھا شاید فضول ہی تھا لیکن پڑھائی کی اتنی ساری ٹینشن میں اگر امتحان سے پہلے وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ تھوڑا سا انجوائے کر لیتی تو اس میں کچھ غلط تو نہیں تھا
لیکن یہ ساری باتیں وہ صرف خود سے کہہ سکتی تھی بابا کے سامنے کچھ بھی کہنے کی ہمت تو اس میں کبھی آئی ہی نہیں تھی ماما اسے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی منا کر دیتی تھی
اور قلب اس سے تو ہفتہ ہفتہ بات ہی نہیں ہوتی تھی اگر بات ہوتی بھی تو صرف سلام دعا تک وہ گھر آتا اگر وہ باہر ہوتی تو اسے پانی دے دیتی جسے لے کر وہ شکریہ ادا کرتا
اور بھائی کے ان چند الفاظ پر ہی خوش ہو جاتی
شیزرہ اسے اپنے بھائی کے بارے میں بتاتی رہتی تھی جو اس سے بے پناہ پیار کرتا تھا ہمیشہ اس کا خیال رکھتا تھا ہر روز اسے آئس کریم پالر لے کر جاتا تھا اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا بے حد مصروف ہونے کے باوجود بھی اس کے لئے ٹائم نکالتا تھا ۔شیزرہ کہتی تھی کہ میرا بیسٹ فرینڈ میرا بھائی ہے
کاش وہ بھی یہ الفاظ کہہ پاتی لیکن وہ کبھی بھی نہیں کہہ پائی تھی کیونکہ اس کے بھائی اور شیزرہ کے بھائی میں فرق تھا اس کا بھائی سوتیلا تھا اور سگے اور سوتیلے میں کیا فرق ہے یہ تو وہ نہیں جانتی تھی لیکن اس کی ماں کہتی تھی کہ قلب تمہارا سوتیلا بھائی ہے سگا نہیں اور وہ خاموش ہو جاتی
°°°°°°
وہ جب سے گھر آئی تھی اس کا موڈ بنا ہوا تھا۔آتے ہی اس نے بے وجہ ہی سب ملازموں کو ڈانٹا ۔اور پھر بنا لنچ کئے اپنے کمرے میں بند ہو گی
ماما کو تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک ہوا کیا ہے اسے ۔آج کس بات پر ان کے بیٹے کی لاڈلی کا موڈ آف ہو گیا تھا ۔۔
ایک تو اس لڑکی کی سمجھ نہیں آتی نہ جانے آج کس لیے منہ بنا کر بیٹھ گئی ہے ملازمہ دوبار اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے کھانے کے لئے بلا چکی تھی
لیکن آگے سے کوئی رسپانس نہ ملنے پر وہ واپس لوٹ آتی وہ دوپہر سے لے کر رات اندھیرا ڈھلنے تک اپنے کمرے میں بند تھی اب انہیں پریشانی ہونے لگی تھی کل وہ ٹرپ پر جانے والی تھی
آج صبح ہی کالج جاتے ہوئے وہ کہہ کر گئی تھی کہ واپس آؤں گی تو آپ کو میرے ساتھ شاپنگ پر چلنا ہو گا مجھے ٹرپ پر جانے سے پہلے اچھی خاصی شاپنگ کرنی ہے
ماما تو صبح مان بھی نہیں رہی تھی لیکن پھر اس کی بار بار ضد پر انہوں نے حامی بھر لی ۔وہ تو تیار بیٹھی تھی کہ جب وہ آئے گی اس کے ساتھ شاپنگ پر جائیں گی لیکن گھر میں آتے ہی اس نے اپنے آپ کو کمرے میں قید کر لیا تھا
انہوں نے سوچا کہ شہریار کو فون کرکے بتائیں اس سب کے بارے میں لیکن پھر یہ سوچ کر فون نہیں کیا کہ شہریار اس وقت میٹنگ میں مصروف ہو گا
جس میٹنگ کے بارے میں وہ آج دوپہر میں فون پر انہیں بتا رہا تھا کہ کوئی بہت اہم میٹنگ ہے کلائنٹ باہر سے آئے ہیں اپنی لاڈلی کا موڈ آف سن کر وہ شاید میٹنگ کینسل کر کے گھر آ جائے گا
اور وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتی تھی انہیں یقین تھا کہ کوئی چھوٹی موٹی بات ہی ہوگی ۔کیونکہ وہ ایسی ہی تھی چھوٹی سے چھوٹی بات کو دل پر لے لیتی تھی ۔اور پھر جب تک سب کچھ ٹھیک نہ ہو جائے اس کا موڈ بھی ٹھیک نہیں ہوتا تھا
وہ خود اس کے کمرے میں نہ جانے کتنے چکر لگا چکی تھی ۔پھر احساس ہوا کہ شاید غصہ کنٹرول کرتے کرتے ہو سو گئی ہے۔اس لئے خاموشی سے اپنے کمرے میں واپس آ کر شہریار کا انتظار کرنے لگی
آج اگر شیزرہ اتنی بگڑی تھی تو اس میں کہیں نہ کہیں شہریار کا ہاتھ تھا جو نہ تو کسی کو اس پر غصہ کرنے دیتا تھا اور نہ ہی خود اس کی کوئی بھی بات ٹلاتا تھا
شہریار کی دی ہوئی چھوٹ کا ہی اثر تھا کہ وہ سوائے شہریار کے اور کسی کی کوئی بھی بات نہیں مانتی تھی اسے صرف اور صرف شہریار ہی سمجھا سکتا تھا اور کسی کو تو وہ اتنی اہمیت ہی نہیں دیتی تھی کہ کوئی اسے کسی بات سے منع کر سکے
ماما نے تو اب اس کی بے فضول کی ضد اور بچپنے پر کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا کیونکہ شہریار کا کہنا تھا ماما آپ بے فکر ہو جائیں میں سنبھال لوں گا
ہر ماں کی طرح انہیں بھی یہی پریشانی تھی کہ ان کی بگڑی ہوئی بیٹی کو کون اپنے گھر کی بہو بنائے گا کون کرے گا اس سے شادی جو 19 سال کی عمر میں بھی بالکل ننھی بچی کی طرح اپنے بھائی سے لاڈ اٹھواتی تھی۔
لیکن شہریار کاکہنا تھا کہ میری بہن کے لیے دولہا شاید آرڈر پر تیار کروانا ہو گا جو صرف اس کی نہیں بلکہ میری بھی ہر بات مانے
اور مجھے میری بہن کے لئے بالکل شہزادے جیسا انسان چاہیے جو مجھ سے بڑھ کر میری بہن کا نہ صرف خیال رکھے بلکہ اسے پلکوں پر بٹھا کر رکھے
اس کی انہی سب باتوں پر شیزرہ تو بے حد خوش ہو جایا کرتی جبکہ ماما سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ان دو بہن بھائیوں کو سمجھانا ان کے بس میں ہرگز نہ تھا
°°°°°
شازی میری گڑیا کیا ہوا میری جان مجھے تو بتاؤ اپنے بھائیو سے مت چھپاؤ شاباش ادھر آؤ میرے پاس وہ گھر آیا تو ماں نے اسے بتایا کہ شیزرہ صبح سے اپنے کمرے میں بند ہے نہ تو کچھ کھا رہی ہے اور نہ ہی کسی سے بات کر رہی ہے
آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا ماما شیزرہ کی طبیعت تو خراب نہیں ہے نہ جانے کس حال میں ہو گی میری گڑیا وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا فکرمندانہ انداز میں بولا
کچھ نہیں ہوا ہے بس موڈ آف ہے کسی بات پر میں تمہیں فون کرنا چاہتی تھی پھر سوچا کہ تمہاری بہت اہم میٹنگ تھی آج اسی لیے ڈسٹرب نہیں کیا تمہاری لاڈلی کا تو آئے دن موڈ آف رہتا ہے
جب سے اس کا ایڈمیشن تم نے یونیورسٹی میں کروایا ہے اس کی شکایتوں کا رولا ختم ہی نہیں ہوتا کبھی کسی کلاس فیلو کی شکایتیں تو کبھی کسی ٹیچر کی شکایتیں آج پتا نہیں کس کا مسئلہ اٹھا لائی ہو گئی ماما اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بڑبرائی
او ہو مما کب اور کس سے لگاتی ہے شکایت
ساری باتیں مجھے ہی تو بتاتی ہے پتہ نہیں کیا بات ہوئی ہوگی وہ دروازہ کھٹکھٹاتا شیزرہ کو آواز دینے لگا
اپنے بھائی کی آواز سنتے ہی جیسے اسے ہر مسئلے کا حل مل گیا وہ فوراً دروازہ کھولتے ہوئے شہریار کے سینے سے آ لگی
کیا ہوا میرا بچہ میری جان اتنی اداس کیوں ہے میری گڑیا وہ اسے اپنے سینے سے لگاتا اسے کمرے کے اندر لے آیا
میری دوست میرے ساتھ ٹرپ پر نہیں جا رہی بھائیو میں وہاں جا کر کیا کروں گی میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ میری بات نہیں مانتی اس نے اپنے گھر میں بات ہی نہیں کی ٹرپ پر جانے کی اجازت ہی نہیں مانگی
میں اس سے ناراض ہو کر آگئی ہوں اس سے کم از کم ایک بار اپنی فیملی سے پرمیشن تو مانگتی اس کے گھر والے اس سے بہت پیار کرتے ہیں وہ اسے یقینا اجازت دے دیتے
لیکن اس نے کچھ پوچھا ہی نہیں میرے بار بار کہنے کے باوجود بھی اس نے اجازت نہیں مانگی اور آج آکر اس نے مجھے بتایا کہ اس کے جانے کے کوئی چانس نہیں ہیں اور اب میرا دل نہیں کر رہا جانے کا
میں اسمارہ کے بغیر کہیں نہیں جانا چاہتی پلیز آپ کچھ کریں نہ وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی تو ماما اسے گھور کر رہ گئی
شیزرہ کیا بچپنا ہے بیٹا وہ کسی اور کی بیٹی ہے کسی اور گھر میں رہتی ہے ہم بھلا وہاں اس کے گھر میں کیا کر سکتے ہیں اس کی مرضی ہے اگر وہ نہیں جانا چاہتی تو اس کے ساتھ کوئی زبردستی تو نہیں کر سکتا
ہو سکتا ہے کہ وہ جانتی ہو کہ اس کے والدین اسے وہاں جانے کی اجازت نہیں دیں گے اسی لئے اس نے اجازت نہیں مانگی ہو گی اور تم سے معذرت کر لی ہوگی اس میں ناراض ہونے والی یا پھر یوں منہ بنا کر خاموشی سے کمرے میں بیٹھ جانےکا کیا مطلب ہے تم نے صبح سے مجھے پریشان کر رکھا ہے
میں یہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے کیا بات ہو گئی ہے جس سے لے کر تم اتنی زیادہ ٹینس ہو لیکن مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں کو اس حد تک سر پر سوار کرنے لگی ہو شہری یہ تمہاری چھوٹ دینے کا نتیجہ ہے دیکھ لو اب سمجھاؤ اپنی لاڈلی کو
میں تم دونوں کا کھانا اوپر بھیجتی ہوں اس کی بے وجہ کی ضد پر اسے اچھا خاصا ڈانٹتی وہ کمرے سے نکل گئی وہ یقیناً یہی سمجھ رہی تھی کہ کوئی بہت بڑی وجہ ہوئی ہے جس کی وجہ سے شیزرہ نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا ہے
انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اتنی چھوٹی سی بات کو وہ سر پر سوار کر لے گی