قسط 11
بارات میں زیادہ دھوم دھام ہرگز نہیں تھی لیکن قریب کے کچھ رشتہ داروں کو بلایا گیا تھا یہ قلب کی دوسری شادی تھی اگر پہلی ہوتی تو یقیناً پہلی شادی کی طرح بہت دھوم دھام سے کی جاتی ہے لیکن اس شادی اس کے کوئی جذبات نہ جوڑے تھے اور نہ ہی وہ اس شادی میں خوش تھا
قلب کی بیزاری کو دیکھ کر سب نے یہی کہا تھا کہ قلب کی دوسری شادی زبردستی کروائی جا رہی ہے ۔اور گھر کے کسی فرد نے بھی مہمان کی غلط فہمی دور کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔
قلب کے چہرے سے وہ کسی کو بھی خوش نہیں لگا تھا اور نہ ہی اس نے اپنے چہرے پر کسی قسم کی کوئی جھوٹی خوشی سجانے کی کوشش کی تھی
وہاں پہنچے تقریبا دس پندرہ دن منٹ ہی ہوئے تھے کہ اس نے رخصتی کی رسم ادا کرنے کے لیے کہہ دیا ۔رخشندہ بیگم نے کسی بھی قسم کی بدمزگی کیے بنا ہی رخصتی کرنے کا فیصلہ کر دیا۔شہریار بھی کچھ نہیں بولا تھا
°°°°°
دیکھو بیٹا اپنا خیال رکھنا تم ایک بہت بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے چکی ہو ۔اب سے تمہاری زندگی پر صرف تمہارا نہیں بلکہ قلب کا بھی حق ہے تم اکیلے اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی تہمیں قلب کا تابعدار ہونا پڑے گا تمہیں اس کا فرمانبردار ہونا پڑے گا
بیوی کی ذمہ داریاں نبھانا آسان نہیں ہوتا میں امید کرتی ہوں کہ قلب کے ساتھ تمہاری آنے والی زندگی خوشگوار ہوگئی ماما آنکھوں میں آنسو لیے اسے رخصت کررہیں تھیں جبکہ شہریار ان کے پاس کھڑا بس سن رہا تھا ۔
اس نے شیزرہ کو اپنے سینے سے لگایا تو اس کی آنکھیں نم ہونے لگی یہ لمحہ اس کے لیے بے حد رنجیدہ تھا وہ اپنی گڑیا کو خود سے دور بھیجتے ہوئے بہت اداس ہو گیا تھا ۔لیکن یہ دن بھی تو اس کی زندگی میں آنا ہی تھا اس نے شیرزہ کو بہت ساری دعائیں دی تھی
قلب میں اپنی بہن سے بہت پیار کرتا ہوں اس کی ہر خواہش پوری کرنا اپنی ذمہ دار سمجھتا ہوں ۔میں نے اسے بہت محبت سے پالا ہے پلیز اسے کوئی دکھ مت دینا ۔ اور اسے تم کوئی دھمکی مت سمجھنا بس اسے ایک بھائی کی درخواست سمجھ لینا
قلب کے سامنے کھڑا شہریار بہت عاجزی سے بولا تھا ۔قلب کے دل میں اس کے لئے جو سختی آئی تھی اسے اس طرح سے سر جھکائے دیکھ کر تھوڑی کم ہوگئی تھی ۔
پریشان مت ہو شہریار میں پوری کوشش کروں گا کہ میری وجہ سے تمہاری بہن کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔اور تم سے بھی یہی امید کرتا ہوں ۔وہ اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولا تو شہریار نے ہاں میں سر ہلایا ۔
شیرزہ قلب کے ساتھ بہت ساری دعائیں لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے گھر سے رخصت ہو گئی
°°°°°
حویلی میں بہت شاندار ویلکم کیا گیا تھا ۔یہ سب کچھ اس کی امید سے بے حد سے زیادہ تھا۔اسے بالکل بھی نہیں لگا تھا کہ یہاں اسے اتنی زیادہ اہمیت دی جائے گی وہ تو یہی سوچ رہی تھی کہ یہ سب لوگ اس سے بہت زیادہ خفا ہوں گے سعدیہ بیگم نے کچھ رسمیں کی اور پھر اسے جانے کی اجازت دے دی
جب قلب کی پہلی شادی ہوئی تھی تب سعدیہ بیگم نے کسی بھی طرح کی رسم میں حصہ نہیں لیا تھا اس بار وہ ہر چیز میں آگے آگے رہی تھیں شادی کی ساری رسمیں انہوں نے قلب کی ماں بن کر ہی ادا کی تھی قلب نے ویسے بھی ان کی بیٹی کیلئے کتنا بڑا قدم اٹھایا تھا
اگر وہ ان کی بیٹی کے لیے اتنا کچھ کرسکتا تھا تو کیا وہ قلب کے لئے اتنا نہیں کرسکتی تھی کہنے کے لیے یہ سب کچھ قلب کے لئے نہیں بلکہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کر رہی تھی قلب کو تو ان سب چیزوں سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا لیکن وہ مجبور تھی شاید وہ قلب کے ساتھ ساتھ اسمارا کو بھی سوچ رہی تھی ۔
وہ ماں تھی اپنے بچوں کی بھلائی کے لئے جتنا ممکن ہوسکے اتنی کوشش کر رہی تھی ۔
انہیں ڈر تھا کہ شیزرہ کو کوئی بات بری نہ لگ جائے جس کے بعد شہریار ان کی بیٹی کی زندگی عذاب کر دے وٹہ سٹہ کے رشتے نبھانا آسان نہیں ہوتا اور یہ بات وہ بہت اچھے طریقے سے جانتی تھیں
شیزرہ کو کمرے میں چھوڑ کر واپس نیچے آئی تو انہیں پتہ چلا کہ قلب تو کسی ضروری کام کے سلسلے میں گھر سے نکل چکا ہے
قلب کے جانے کا سن کر ان کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا شادی کے روز بھلا کوئی اپنی نئی نویلی بیوی کو یوں چھوڑ کر جاتا ہے
غالب صاحب کو تو اچھا خاصا غصہ آ گیا تھا جو بھی تھا جیسا بھی تھا اور وہ شیزرہ کو لے کر قلب کی طرف سے اتنی لا پرواہی کی امید نہیں رکھتے تھے
شیزرہ س کے انتظار میں بیٹھی ہے اس سے کیا کہوں میں وہ غالب صاحب کے پاس آتے ہوئے پوچھنے لگیں
بتا دواسے کہ وہ نہیں ہے یہاں قلب سے اس بارے میں بات کرنی پڑے گی وہ اتنی لاپرواہی کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے آنے دو اسے واپس میں خود اسے اس کے وہ شیرزہ اور اسکے رشتے کی نزاکت کو سمجھاؤں گا اس کی ایک غلطی اسمارہ کی شادی شدہ زندگی تباہ کر سکتی ہے
کتنی خوش ہے ہماری بچی شہریار کے ساتھ اور یہاں ایک قلب ہے میں مانتا ہوں کہ اس نے یہ قدم صرف اسمارہ کی خوشی کے لیے اٹھایا ہے
لیکن اب اسمارا کی خوشی کے لئے اس رشتے کو نبھانا بھی ہوگا غالب صاحب غصے سے سے کہتے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے جبکہ سعدیہ بیگم شیزرہ کے پاس قلب کے کمرے میں جانے لگی
°°°°°°
وہ دلہن بنی قلب کی سیج سجائے ہوئے بیٹھی تھی کمرہ بالکل سجانے کی زحمت نہیں کی تھی ۔یقینا قلب کو یہ سب کچھ پسند نہیں تھا اور وہ بھی ایک ان چاہی بیوی کے لئے تو بالکل بھی نہیں
کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو شیزرہ کو لگا کہ قلب آگیا ہے لیکن انھیں سامنے دیکھ کر وہ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی وہ بھی قلب کی ہی منتظر تھی اور اس کی جگہ انہیں دیکھ کر وہ پریشان ہوئی تھی
بیٹا قلب بے حد ضروری کام کے لیے چلا گیا ہے ویسے اس کا جانا بنتا تو نہیں تھا لیکن تم جانتی ہو اس کا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ میں اسے روک نہیں پائی ۔
دیکھو بیٹا یہ رشتہ جن حالات میں جڑا ہے ایسے میں سب کچھ اتنی جلدی قبول کرنا اس کے بس میں بھی نہیں ہے یہ سب کچھ بہت مشکل ہے آہستہ آہستہ ہی سب کچھ ٹھیک ہو گا لیکن تم فکر مت کرو ان شاءاللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تم یہ ڈریس چینج کرکے آرام کرو ۔
سارے دن کی بیٹھی ہوئی ہو کمر بھی اکڑ گئی ہو گی وہ اسے قلب کی کمرے میں چھوڑ کر قلب کو بھیجنے کا کہہ کر باہر چلی گئی اور تھوڑی دیر میں واپس آ کر کہنے لگی کہ قلب تو اپنے کسی ضروری کام کے لیے جا چکا ہے ۔
اسے یہ سب اچھا تو نہیں لگ رہا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنے چہرے پر بہت مشکل سے مسکراہٹ سجا کر کہا تھا کہ کوئی بات نہیں میں قلب کا انتظار کر لوں گی آنٹی
نہیں بیٹا انتظار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے نہ جانے اس کا کام کب تک ختم ہو گا اور پتا نہیں اس کی واپسی کب تک ہوگی ہو سکتا ہے کہ اس کی واپسی صبح تک ہو بے کار میں اس کا انتظار کرتی رہوگی تم آرام کرو صبح تم لوگوں کا ولیمہ بھی تو ہے
اسمارہ بھی رسم ادا کرنے کے لیے آئی ہوئی ہے لیکن اس وقت وہ اپنے کمرے میں شہریار کے ساتھ تھی تو کسی نے بھی انہیں ڈسٹرب نہیں کیا قلب گھر پر نہیں ہے یہ بات بھی ابھی تک شہریار کے کان تک نہیں پہنچی تھی اور کوئی بھی اسےیہ بات بتانا بھی نہیں چاہتا تھا۔
اسی لئے تو سعدیہ بیگم خود ہی آکر شیزرہ کو یہ بات بتا کر چلی گئی تھی اور جاتے ہوئے کمرہ بھی بند کر گئی ۔
قلب کی غیرموجودگی اسمارہ کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہ بنے اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لیے تھوڑی سی خود غرض ہو گئی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ غلط کر رہی ہیں لیکن وہ کیا کرتی
قلب پر ان کا کسی قسم کا کوئی زور نہیں تھا اور اپنی بیٹی کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھیں
°°°°°
نہ جانے کب رات اس کی آنکھ کھل گئی اسے بالکل ہوش نہیں تھا ۔ سارا دن ایک ہی پوز میں بٹھے رہنے کی وجہ سے اس کی کمر اکڑ گئی تھی
رات بستر پر لیٹتے ہی وہ گہری نیند میں آتر گئی ۔اب اس کی آنکھ کھولی تو اس نے دونوں بازروں کو کھول کر انگڑائی لی تو اس کا ہاتھ کسی چیز سے ٹچ ہوا اس کی نیند لمحے میں اڑ گئی ۔وہ پوری آنکھیں کھول کر اپنے بیڈ سائیڈ پر دیکھنے لگی۔
اس کے بالکل ساتھ قلب دوسری طرف کروٹ لئے سو رہا تھا اسے یقین نہ آیا تو وہ خود اٹھ کر بیٹھی اور پھر سے اسے دیکھنے لگی وہ سچ میں یہیں پر تھا اس کے ساتھ اس کے اتنے قریب
رات اس کی واپسی کب ہوئی تھی وہ تو پورے بیڈ پر پھیل کر لیٹ گئی تھی جبکہ قلب ایک سائیڈ پر ایک کونے میں بالکل کروٹ لے کر سو رہا تھا جیسے اسے دیکھنا تک گناہ ہو۔
قلب کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر جہاں اس کی دھڑکنوں میں ہلچل مچ گئی تھی وہیں اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی
رات قلب کا کمرے میں نہ آنا اسے بہت برے طریقے سے ہرٹ کر گیا تھا وہ بہت زیادہ رونا چاہتی تھی لیکن اس کی امی نے کہا تھا دلہن کا رونا اس کی ساری زندگی اس کی خوشیوں پر گرہن لگا سکتا ہے اور وہ ان سب باتوں پر بہت زیادہ یقین کرتی تھی
رات اپنے آنسوؤں کو اس نے بہت مشکل سے روکا تھا اس نے قلب کا انتظار نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے انتظار کرنے کے باوجود بھی وہ نہیں آئے گا کیونکہ وہ اس کی من چاہی نہیں بلکہ زبردستی کی گلے پڑی تھی
لیکن وہ آیا تھا اور اس کے لیے یہ بات بے حد خوشی کی تھی
وہ بس خاموشی سے قلب کو دیکھے جا رہی تھی وہ اس کے اتنے قریب تھا کہ اگر وہ ذرا سا بھی ہلتی تو یقینا اس سے ٹچ ہوتی۔
کیا ان کو جگاؤں اس نے سوچا
نہیں ایسے ہی منہ بنا لیں گے سوتے ہوئے کتنے پیارے لگ رہے ہیں اس نے نظر بھر کر اسے دیکھا تھا ۔وہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا کسی بھی لڑکی کا خواب قلب شاہ جیسا مرد ہی تھا
لیکن اس کو تو اس کی آنکھوں سے محبت تھی جو اس وقت بند تھی اس کی پلکیں اتنی بڑی بڑی تھی کہ شیزرہ کو لگا کہ شاید اس نے آئی لیشز لگائی ہوئی ہیں
ایسا کیسے ہو سکتا ہے اتنی لمبی پلکیں تو لڑکیوں کی بھی نہیں ہوتی اس نے اگلی دانتوں میں دبا کر سوچا
ٹچ کر لیتی ہو کونسا پتہ چلے گا دیکھو تو صحیح ہو سکتا ہے دولہا بنتے ہوئے میکپ میں لگا دی گئی ہوں اسی لیشز اصلی تو ہو ہی نہیں سکتی اسے یقین تھا ۔
اس نے ہاتھ اس کے چہرے کی جانب بڑھایا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کی آنکھوں کو چھوٹی اچانک قلب نے اس کا ہاتھ کی کلائی سے تھام لیا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ چیخ اٹھی تھی ۔
کیونکہ یہ وہی ہاتھ تھا جس کی کلائی کٹی ہوئی تھی اس کی تکلیف کو سوچتے ہوئے قلب نے فورا اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا
تکلیف سے اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی ۔اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ قلب نے چہرہ پھیر لیا تھا ۔
اور بنا اس کی طرف دیکھے بیڈ سے اٹھتا واش روم میں بند ہو گیا اس نے دروازہ اتنے زور سے بند کیا تھا کہ شیزرہ نے بے ساختہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لئے
تقریبا دس منٹ کے بعد وہ نہا کر باہر آیا تو شیزرہ وہی بیڈ پر بیٹھی آنسو بہانے میں مصروف تھی
رو کر مجھے ظالم کی قسم کا شوہر ثابت کرنا بند کرو لڑکی یہ تکلیف تمہارے ہی کرتوتوں کی ہے اٹھو جاکر فریش ہو اور باہر چل کر سب کے سامنے نارمل رہنا۔
تمہارا بھائی بھی ہے نیچے تو اس کے سامنے آنسو بہا کر اپنی مظلومیت کو ثابت کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ پچھتاوگی
وہ اس کا بازو سختی سے تھام کر اسے بیڈ سے کھڑا کر چکا تھا اور پھر دھکا دینے ہوئے انداز میں اسے واش روم کے دروازے تک لے گیا ۔
شیزرہ کو لگا تھا کہ شاید وہ اپنی بے ساختہ حرکت پر اسے سوری بولے گا وہ اس کی تکلیف کی وجہ بنا ہے یہ سوچ کر وہ اس سے معافی مانگے گا اور کچھ نہ سہی اس کی خیریت ہی دریافت کرلے گا
لیکن اس کا لہجہ اتنا تلخ تھا کہ وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو آنسوؤں کی شکل لینے سے روک نہ پائیں
پانچ منٹ ہے تمہارے پاس لڑکی اگر تم نے یہی رونا دھونا اگلے آنے والے پانچ منٹ میں جاری رکھا تو میں تمہیں اسی حالت میں نیچے لے جاؤں گا
پھر اپنے بھائی پر اپنی مظلومیت کھل کر ظاہر کرنا اور میری جان چھوڑ کا یہاں سے دفع ہو جانا ۔وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے اپنے سابقہ لہجے میں بولا
آپ کی جان تو اب میں قیامت تک نہیں چھوڑوں گی قلب صاحب لیکن مجھے نہیں پتا تھا اپنی ہار کو آپ قبول نہیں کر پائیں گے ۔اپنی آنکھوں سے آنسو سختی سے صاف کرتی وہ چیلنج کرتے انداز میں بولی قلب نے گھور کر اسے دیکھا تھا
کون سی ہار کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا وہ گھورتے ہوئے پوچھنے لگا
میری اس بات کا یہی مطلب ہے مسٹر قلب شاہ کہ میں ہوں آپ کی مسز قلب شاہ جو اس وقت آپ کے کمرے میں ساری رات آپ کے بیڈ پر اب آنے والی ساری زندگی آپ کی زندگی میں رہے گی
ویسے آپ کو ہار کر کیسا لگا ایک بے وقوف نادان وقتی جذبات میں پاگل ہونے والی لڑکی سے ہار کر مزہ تو آیا ہوگا اب یہ مزا اب ساری زندگی چکھیں گے
کیوں کے اب آپ کی زندگی میں آ گئی ہوں اور بہت جلد آپ کے دل میں بھی آؤں گی اگر روک سکتے ہیں تو روک لیں وہ اپنی تکلیف بلائے اس کے روبرو ایسے انداز میں بول رہی تھی قلب کے لیے اپنے غصے پر قابو کرنا مشکل ہوگیا
وہ ا سے گھورے جا رہا تھا جبکہ شیزرہ اپنے بال ایک کندھے پرکرتے بڑے ناز سے واش روم میں بند ہوگی ۔
°°°°
وہ باہر آئی تو سب سے بے حد خوشی سے ملی تھی اس نے کسی پر بھی اپنی فیلنگ ظاہر نہیں ہونے دی اس کے ہاتھ میں بہت تکلیف تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ قلب نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا وہ ایسے مردوں میں سے تھا ہی نہیں جو کسی کو تکلیف دے پاتا
صبح وہ اس کے ساتھ ہیں ناشتے کی میز پر آیا تھا گھر کے تقریبا سب ہی لوگی جانتے تھے کہ وہ رات گھر پر نہیں تھا لیکن شہریار کو یہ بات پتا نہیں تھی اور نہ ہی اسمارہ کو
اسمارہ نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا کہ
اچھا یہ تو بتاؤ بڑی مہک رہی ہو میرے بھیا کیسے ہیں ۔۔۔؟
بہت بورنگ ۔وہ ایک نظر سامنے بیٹھے قلب کو دیکھتے ہوئے جل کر بولی جس پر اسمارا قہقہ لاکر ہنس دی
لگتا ہے میرے بھیا نے تمہاری اچھے سے مرمت کی ہے وہ اسے دیکھتے مسکر کر بولی
مرمت تو میں کروں گی تمہارے بھیا کہ سارے ہی پرزے ڈھیلے ہیں لیکن اب میں ہونا اچھی مکینک ہونے کا ثبوت دوں گی اسمارہ کیا بول رہی تھی شیزرہ کے پلے کچھ نہیں پڑھ رہا تھا لیکن اس کی باتیں اسمارا کو بار بار قہقہ لگانے پر مجبور کر رہی تھی
°°°°°
آج ولیمہ تھا صبح قلب اپنے دل کی بھڑاس نکل کر چلا گیا ۔اس نے بہت ہمت سے کام لیا تھا۔وہ قلب کے سامنے کچھ نہیں بولی تھی لیکن اب وہ بہت پریشان تھی ۔اس نے اتنا بڑا قدم تو اٹھا لیا تھا لیکن اس کی آنے والی زندگی میں کیا ہونے والا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔۔
قلب کے سامنے الٹی سیدھی بکواس کرکے وہ اپنے آپ کو ہرگز بہادر ثابت نہیں کر سکی تھی
فریش ہو کر باہر نکلی تو قلب نے اسے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ باہر جا کر کسی بھی قسم کا ڈرامہ کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔اگر تم نے باہر جا کر کسی پر بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میں نے تم پر کوئی ظلم کیا ہے تو اپنے انجام کے ذمہ دار تم خود ہو گی
تمہارا یہاں ہونا نہ ہونا میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن اپنے بھائی کی شادی شدہ زندگی تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتی ہووہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں اور اگر کل کو ان کی زندگی میں ان دونوں کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی پریشانی آتی ہے تو اس کی ذمہ دار اکیلی شیزرہ ہوگی.
اگر وہ اپنے بھائی کی زندگی میں خوشیاں دیکھنا چاہتی ہے تو اپنا منہ بند کر لے اور سب کے سامنے یہی ظاہر کرے کہ اس کے ساتھ وہ بہت نارمل زندگی گزار رہی ہے ۔
اسے قلب کی بات غلط نہیں لگی تھی وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا اسمارہ اور شہریار ایک دوسرے کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے اور وہ اپنے لئے ان کی خوشیاں کبھی برباد نہیں کر سکتی تھی
اس نے بہت خاموشی سے قلب کے فیصلے کو قبول کرلیا تھا تھا وہ اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ جلد ہی وہ اسے اپنی محبت کو قبول کرنے پر مجبور کر دے گی
کیونکہ چاہے حالات کچھ بھی کیوں نہ ہو قلب کی محبت اس کے ساتھ تھی اسے یقین تھا کہ وہ قلب کو خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی۔وہ اپنی محبت کو ہارنے نہیں دے سکتی تھی۔
ایک نا ایک دن وہ بھی اس کی محبت کو قبول کر لے گا ۔سفر مشکل تھا لیکن اسے یقین تھا وہ ہمت نہیں ہارے گی ۔اگر وہ اپنی محبت کی طاقت سے یہاں تک آ سکتی تھی تو آگے بھی جاسکتی تھی اسے قلب کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانی تھی
وہ قلب کے چہرے پر وہ مسکراہٹ لانا چاہتی تھی جس کے لئے وہ اس کی زندگی میں آئی تھی ۔وہ اس کے آنکھوں کی اداسی کو ختم کردینا چاہتی تھی۔وہ اس کی اداس آنکھوں کو مسکراتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی
اور اب اس کی ایک خواہش تھی جو اس کے دل میں جگہ بنا چکی تھی وہ ان آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھنا چاہتی تھی ۔
وہ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے وہ چاہت دیکھنا چاہتی تھی جو وہ اپنے دل میں اس کے لئے محسوس کرتی ہے
لیکن وہ جانتی تھی کہ ایسا ہونے میں ابھی بہت سارا وقت جائے گا اتنی آسانی سے قلب اسے قبول نہیں کرے گا ۔
لیکن امید پر دنیا قائم تھی اسے بھی امید تھی کے اس کا اللہ اس کے شوہر کے دل میں اس کے لیے محبت ڈال دے گا
°°°°°
گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا ۔ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے زیادہ تر لوگوں کو تو وہ جانتی بھی نہیں تھی
بیوٹیشن گھر پر ہی آئی تھی اسے تیار کرنے کے لئے وہ ویسے بھی بے انتہا خوبصورت تھی لیکن دلہن کے روپ میں غضب ڈھا رہی تھی
جو بھی اس سے مل رہا تھا اس کی بہت تعریف کر رہا تھا اسمارہ اور شہریار بھی ۔، آئے ہوئے تھے۔
وہ ولیمے کی دلہن بنی اکیلی سٹیج پر بیٹھی تھی پہلے تو سب کچھ بہت زیادہ نارمل تھا وہ بالکل خاموشی سے سب چیزوں کو انجوائے کر رہی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوتا گیا
کیونکہ قلب اب تک یہاں نہیں آیا تھا لوگ کھانا بھی کھا چکے تھے اور کچھ لوگ تو واپس بھی جا چکے تھے ۔شام کے چھ بج رہے تھے اور قلب کا اب تک کوئی اتا پتا نہ تھا اب لوگ عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے
۔کوئی کچھ کہہ رہا تھا تو کوئی کچھ بہت سے لوگ تو منہ پر یہ بھی کہہ گئے تھے کہ لگتا ہے قلب کو اپنی نئی نویلی بیوی سے کوئی مطلب ہی نہیں ہے ۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ قلب کے لئے اپنی بیوی سے زیادہ اس کی نوکری اہمیت رکھتی ہے
کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ قلب کی دوسری بیوی پہلی بیوی سے زیادہ حسین ہے تو کچھ کا یہ کہنا کہ اب دوسری بیوی کا راج ہوگا لیکن یہ دوسری دوسری لفظ سن کر شیزرہ بیزار ہو چکی تھی اس کا دل دکھنے لگا تھا ۔
ہر کوئی اسے قلب کی دوسری بیوی کہہ رہا تھا یعنی کے قلب پر کسی اور کا بھی حق تھا اتنا ہی جتنا کہ وہ حق رکھتی تھی ۔
کرن کرن کرن ۔۔۔۔یہ وہ نام تھا جو اس نے بار بار سنا تھا ۔شہریار اسے لے کر اپنے ساتھ جانا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں نے کہا کہ وہ لوگ شادی کے ایک ہفتے کے بعد پتفیرے کے لئے دلہن کو بھیجتے ہیں ۔
یہ ان کے خاندان کے رسم تھی جو کہ بہت سالوں سے چل رہی تھی شہر یار نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ اسمارہ اسے اس بارے میں پہلے ہی بتا چکی تھی
صبح قلب اس کے سامنے بہت زیادہ نارمل تھا اس لئے شہریار کو نہیں لگتا تھا کہ وہ ولیمے میں آنے میں گڑبڑ کرے گا
اسے یہی لگا کے یقیناً قلب کو کوئی ضروری کام ہوگا ورنہ وہ اس طرح ولیمے کے دن اپنی بیوی کو چھوڑ نہیں سکتا تھا اور ویسے بھی اس کی ڈیوٹی بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔
یہ اس کی ذمہ داری تھی جس میں وہ بالکل بھی گڑبڑ برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔قلب ایک بہت ذمہ دار آفیسر تھا شہریار اس کے بارے میں بہت اچھے طریقے سے جان چکا تھا وہ اپنی ڈیوٹی میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی نہیں کرتا تھا ۔
وہ لوگ شیزرہ سے مل کر واپس چلے گئے ان لوگوں کے جانے پر شیزرہ کی آنکھوں میں نمی آگئی ۔لیکن کوئی بھی یہ نہ سمجھ سکا کہ اس کے آنسو شہریار کے جانے پر نہیں بلکہ قلب کے نہ آنے پر تھے
°°°°°°
شہریار کے جانے کے بعد سعدیہ بیگم اسے قلب کے کمرے میں چھوڑ گئی تھی ۔کمرے میں آنے کے بعد وہ پھر سے رونے لگی نہ جانے کیوں اسے بار بار رونا آ رہا تھا ۔
وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ قلب کی دوسری بیوی کہلاتے ہوئے اسے اتنی تکلیف کیوں ہو رہی تھی جب کہ وہ خود سے جانتی تھی کہ وہ اس کی دوسری بیوی ہے
بار بار ان سب لوگوں کاکرن کا نام لے کر اسے بتانا کہ وہ قلب کی دوسری بیوی ہے اسے تکلیف دے رہا تھا ۔اسے کرن کی سوتن کہلانا بُرا نہیں لگ رہا تھا لیکن وہ سب باربار کرن کو قلب کی محبت کہہ رہے تھے۔
سب کا بار بار کرن کا نام لینا اسے غصہ دلانے لگا تھا وہ سب کے سامنے اپنا غصہ ظاہر کر دینا چاہتی تھی
لیکن وہ ایسا نہیں کر پائی کیونکہ اس وقت صرف اس کی نہیں بلکہ اس کے ساتھ قلب اور اس کی فیملی کی عزت کا سوال تھا
وہ اپنی بھڑاس کیسی پر نکال نہیں پائی تھی اسی لئے تو اس وقت رو رہی تھی جب اچانک کمرے کا دروازہ کھلا
کہاں تھے آپ صبح سے میں آپ کا انتظار کر رہی ہوں اور ایک آپ حد ہوتی ہے لاپرواہی کی کتنا عجیب لگ رہا تھا اسٹیج پر اکیلی دلہن بن کر بیٹھنا میرا نہ سہی وہاں لوگوں کو تو خیال رکھتے اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا وہ غصے سے پھٹ پڑی۔
اس کی بدزبانی پر اس نے سختی سے گھورا تھا
حد میں رہو لڑکی میرے سامنے آواز مت اٹھنا ورنہ بہت پچھتاؤ گی اور میں نے نہیں کہا تھا دلہن بن کر اکیلا سٹیج پر بیٹھنے کا اگر اتنا ہی تھا تو دلہن بننے کی ضرورت ہی کیا تھی بلکہ یہ تماشہ کرنے کی ضرورت کیا تھی وہ بے حدغصے سے بولا ۔
آج اتنی تکلیف ہو رہی ہے تمہیں تو یہ تماشہ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی کیا ضرورت ہے یہ سارا ڈرامہ کرنے کی کیا تم میری من چاہی بیوی ہو جس کے ساتھ ہونا اپنا فرض سمجھوں گا یہ شادی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے تو اسے تم اپنے طریقے سے ہینڈل کرو
میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ میں تمہارے ساتھ لے کر دنیا کے سامنے یہ تماشا کروں گا یہ سب کچھ تہمیں اکیلے ہی کرنا ہے ۔
اور مجھ سے تو کسی بھی قسم کی کوئی امید مت رکھو نہ تو میں تمہیں اپنی بیوی مانتا ہوں اور نہ ہی کبھی قبول کروں گا
تم صرف ایک زبردستی کا طوق ہو جیسے میں نے اپنے گلے میں صرف اور صرف اپنی بہن کے لیے سجایا ہے
جب تک میری بہن خوش رہے گی تم میرے نکاح میں رہو گی ۔جس دن شہریار نے مہری بہن کو کوئی تکلیف دی اس دن تم بھی اس گھر میں نظر نہیں آو گی ۔اور بند کرو یہ رونا دھونا ۔جا کر چینج کرو ۔
مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہارا یہ روپ دیکھنے گا اور نہ ہی تمہیں دلہن بنے دیکھنے کی کوئی آرزو ہے جا کر حلیہ درست کرو اپنا .وہ بے حد غصہ بولا تھا
اور بنا اس کی طرف دیکھے کمرے سے واپس باہر نکل گیا
کیا ہوا قلب تمہارے کمرے سے اتنی آواز آ رہی تھی سب کچھ ٹھیک تو ہے نا سعدیہ بیگم جو نہ جانے کیوں اس کے کمرے کی طرف آرہی تھی اس سے پوچھنے لگی
جی آنٹی سب کچھ ٹھیک ہے آپ اس وقت خیریت تو تھی نہ ان کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ پوچھنے لگا ۔
ہاں سب خیریت ہے میں تو تمہارے کھانے کا پوچھنے آئی تھی تم گھر آتے ہی سیدھے کمرے کی طرف چلے گئے تو میں پوچھنے کے لئے آگئی
پارٹی میں کھانا کھا کے آیا ہوں آپ پریشان مت ہوں بابا نے کمرے میں بلایا ہے میں ان سے مل کے آتا ہوں وہ بس اتنا کہہ کر آگے نکل گیا جبکہ سعدیہ بیگم کی پریشانی بڑنے لگی تھی
°°°°°
کیا ہوا تمہارا موڈ آف کیوں ہے ۔۔۔۔۔وہ گاڑی چلاتے ہوئے اسمارہ سے پوچھنے لگا جو بالکل خاموش بیٹھی ہوئی تھی قلب کا آج ولیمے کی تقریب میں نہ آنا ہے اسے بہت زیادہ پریشان کر گیا تھا اسے لگا تھا کہ شہریار غصے میں ہو گا اور اس بارے میں اس سے ضرور بات کرے گا
شہریار وہ قلب بھیا کو لے کر بہت پریشان ہوں آج وہ ولیمے کی تقریب پر نہیں آئے لوگ عجیب عجیب قسم کی باتیں کر رہے تھے شیزرہ بھی بہت اداس تھی مجھے یہ سب کچھ بالکل بھی اچھا نہیں لگا ۔
عجیب لوگ ہیں اگر انسان اپنی پرانی زندگی بھول کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لوگ ایسا کرنے نہیں دیتے آج کتنے سارے لوگ تھے شیزرہ سے مل کر اس سے باتیں کرنے لگے آپ جانتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے بھائی کی پہلی بیوی کا نام لیا اور بار بار لیا
جبکہ ان سب لوگوں کو پتہ ہے کہ کرن کا نام اس گھر میں کوئی نہیں لیتا یہاں تک کہ چاچو اسے عاق کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی لوگ کسی کو تکلیف پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے
شیزرہ کی چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ بار بار کرن کا نام لینا اسے اچھا نہیں لگ رہا لیکن اس کے باوجود بھی لوگ بار بار ہر چیز میں قلب بھائی کی پہلی بیوی کو گھسیٹ رہے تھے وہ اسے دیکھتے ہوئے دکھ سے بتانے لگی تو شہریار نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا
ہم کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے اور نہ ہی زبردستی کسی کا منہ بند کر سکتے ہیں اسمارہ اور یہ حقیقت ہے کہ وہ قلب کی دوسری شادی ہے شیزرہ کو اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا یہ راستہ اس نے خود اپنی مرضی سے چنا ہے
قلب کی پہلی شادی ٹوٹنے کی وجہ کسی کو نہیں پتا جب کہ تمہارا دعوی ہے کہ قلب تمہاری کزن سے محبت کرتا تھا بچپن کا نکاح تھا مضبوط رشتہ تھا
وہ اس کے لئے اہم تھی اور یہ بات تمہارا پورا خاندان جانتا تھا سب لوگ اس کہانی کو پھر سے کھول کر جانا چاہتے ہیں کہ آخر ہوا کیا تھا
کرن نے قلب سے طلاق کیوں لی ان کا رشتہ کیسے ٹوٹا سب لوگ جاننا چاہتے ہیں شہریار اسے سمجھاتے ہوئے بولا وہ نہیں جانتا تھا کہ قلب اور کرن کی طلاق نہیں ہوئی
بات طلاق تک گی ضرور تھی لیکن طلاق ہونے سے پہلے ہی تو دادا جان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی یہ رشتہ اب بھی قائم تھا شاید اس کی ماں نے یہ بات شہریار کو نہیں بتائی تھی ۔
وہ اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہتی تھی لیکن شہریار کا موڈ خراب ہونے کے ڈر سے اس نے ایسا نہیں کیا ویسے بھی شہریار اور قلب میں عجیب سی سردمہری شروع ہو چکی تھی جسے وہ ختم کردینا چاہتی تھی اور جہاں تک کرن اور قلب کی طلاق کی بات بھی تو کونسا ان دونوں میں کوئی تعلق تھا طلاق تو ہونی ہی تھی آج نہیں تو کل سہی
°°°°°
صبح اس کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اپنے کام پر جا چکا تھا اسے اکیلے باہر جاتے بہت عجیب لگ رہا تھا کل ولیمے کی وجہ سے صبح صبح ہی اس کے کمرے میں اچھی خاصی رونق لگ گئی تھی
صبح پہلے قلب خود اسے اپنے ساتھ باہر لے کر گیا تھا اور پھر بیوٹیشن کے آنے اور اس کے تیار کرنے کے بعد سعدیہ بیگم خود ہی اسے کمرے سے باہر لے گئی تھیں
۔لیکن آج کسی نے بھی اسے ڈسٹرب نہیں کیا تھا صبح کے دس بج رہے تھے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کمرے سے نکلے یا ابھی بیٹھی رہے ہو سکتا ہے کوئی خود ہی اسے لے جائے ۔
وہ تقریبا ایک گھنٹے تک انتظار کرتی رہی لیکن کوئی بھی نہیں آیا وہ مجبور ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ اب اسے بہت سخت بھوک لگ رہی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے کمرے سے باہر آگئی
یہ گھر بہت بڑا تھا یقینا اگر وہ کھو جاتی تو اس کا ملنا بے حد مشکل تھا مگراس میں بہت سارے ملازم کام کرتے تھے ۔اگر وہ کھو جاتی تو یہ لوگ اسے ڈھونڈ کر لے آتے اس نے ایک امید سے ان لوگوں کو دیکھا تھا
وہ بھی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی لیکن اسمارہ کا تعلق شاید کسی بادشاہ شہنشاہ کی فیملی سے تھا
اس کا گھر اتنا بڑا تھا یہ اس کی سوچ سے بھی زیادہ بڑا تھا باہر سے تو وہ اتنا بڑا نہیں لگتا تھا لیکن اندر سے تو وہ کسی بھول بھلیجیسا تھا ۔اسمارا اور قلب کے کمرے کے علاوہ وہ جانتی بھی نہیں تھی کہ اسے کس طرف جانا ہے
وہ تو صرف دو یا تین بار ہی اس گھر میں آئی تھی اور آتے ہیں ملازمہ نے اسے سیڑھیاں چڑھتے ہی رائٹ اور لیفٹ کا کمرہ بتایا تھا لیفٹ قلب کا کمرہ تھا اور رائٹ والا اسمارا کا اور اس کے بعد اسے آج موقع مل رہا تھا وہ سیڑھیاں اترتی نیچے کی جانب جانے لگی کیونکہ اوپر رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا گھر کا سارا نظام تو نیچے تھا
اسے کچن سامنے ہی مل گیا لیکن اسے یوں اچانک کچن میں جاتے ہوئے بھی عجیب لگ رہا تھا نہ جانے گھر کے سارے مہمان کہاں چلے گئے تھے کل رات تک تو بہت سارے لوگ تھے یہاں ۔
اسلام علیکم بی بی آئیے میں آپ کو ناشتہ دیتی ہوں ملازمہ نے اسے سلام کرتے ہوئے کہا اس کے چہرے پر رونق آگئی تھی کوئی تو آیا تھا اس سے بات کرنے کو ورنہ اوپر جو ملازم تھے انہوں نے تو صرف مسکرا کر ہی اسے ویلکم کیا تھا وہ بھی بدلے میں مسکراتی سیڑھیوں سے نیچے اتر آئی تھی
وعلیکم السلام گھر کے سب لوگ کہاں ہیں اس نے اس سے پوچھا ۔
جی وہ بڑے صاحب کی کراچی سے فیلمی آئی ہوئی تھی نہ سارے ایئرپورٹ گئے ہوئے ہیں ۔
آج وہ واپس جانے والی تھی اچھی رونق لگا کے رکھی تھی سب نے آج دیکھیں کیسے حاموشی چھا گئی ہے وہ اس کے ساتھ کچن کی جانب آتے ہوئے کہنے لگی ۔
ہاں کل تو کافی اچھا ماحول تھا آج کو واقع ہی حویلی بے رونق سی ہو گئی ہے وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے بولی
تمہارے صاحب کب تک واپس آئیں گے ابھی وہ پتا نہیں کیا کیا بولنے والی تھی کہ شیزرہ خود ہی پوچھنے لگی
ای بی بی جی کیوں آپ کو ان کی یاد آرہی ہے وہ دانت نکالتے ہوئے بولی
نہیں یاد کیوں آئے گی وہ کون سا کسی دوسرے ملک چلے گئے ہیں روز ہی تو گھر واپس آتے ہیں میں تو بس پوچھ رہی تھی کہ کب تک واپسی ہوگی ان کی وہ اس کے دانت نکالنے کا مطلب سمجھے بغیر بولی
ویسے تو چھ سات بجے تک گھر واپس آ ہی جاتے تھے لیکن شادی کے بعد تو کب آتے ہیں کب جاتے ہیں کچھ پتہ نہیں آج کل بہت مصروف رہتے ہیں ضرور کوئی بڑے مشن پر نکل گئے ہوں گے ۔
ضرور کوئی بہت بڑا کیس ہوگا صاحب جی بڑے بہادر ہیں بڑے بڑے کیس حل کرتے ہیں ماشاء اللہ سے اللہ نے صورت بھی اتنی پیاری بھی ہے میں تو اسمارا بی بی جی کو کہتی تھی کہ اپنے بھائی کی نظر اتارا کرو اتنے پیارے بندے کو تو نظر بھی جلدی لگتی ہوگی وہ اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی لیکن اس کے انداز نے شیزرہ کو آگ لگادی تھی
تم فکر مت کرو آج کے بعد میں اپنے شوہر کو نظر کا ٹکا لگا کر رکھو گی گھر میں بھی بہت سارے لوگ ہیں جن کی نظروں سے بچانا بہت ضروری ہے وہ ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئی
ارے بی بی جی آپ مجھ پر غصہ کیوں ہو رہی ہیں میں تو بس ایک عام سی بات بتا رہی تھی وہ اسے دیکھتے ہوئےبولی یہ نہ ہو کہ بی بی غصہ ہو کر اسے فورا کام سے ہی نکال دیں ۔
دیکھو لڑکی ایک بات کان کھول کر سن لو میرے سامنے میرے شوہر کی تعریف اس انداز میں کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے جانتی ہوں وہ کتنے پیارے ہیں اور مجھے کیا کرنا چاہیے انہیں نظر سے بچانے کے لئے اور خبردار جو آج کے بعد تم نے انہیں ایک نظر بھی دیکھا
بہتر ہو گا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو ورنہ اس تہمیں اس نوکری سے نکالتے ہوئے ایک منٹ لگے گا مجھے وہ بنا ناشتہ کیے ہی کچن سے باہر نکل گئی
ارے بی بی جی آپ تو مجھ پر غصہ ہورہی ہیں قسم لے لیجیے میں نے کبھی بھی صاحب کو اس نظر سے نہیں دیکھا وہ تو میرے بڑے بھائی جیسے ہی وہ اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بولی ۔
اچھا تمہارے بڑے بھائی جسے ہیں تو کیا بھائیوں کو اس طرح سے دیکھا جاتا ہے آج کے بعد نہ تم کام پر ان کے جانے کے بعد آیا کرو گی آئی بڑی بھائی جیسا ہے ۔
وہ ا سے گھورتے ہوئے بولی کے اچانک ہی کیچن میں کنیز بیگم داخل ہوئی ۔انہیں دیکھتے ہی ملازمہ فورا اپنے کام میں مگن ہوگی
اس نے مسکرا کر کنیز بیگم کو سلام کیا تھا جس کا جواب انہوں نے سر ہلا کر دیا تھا ۔
لڑکی تم یہاں کیا کر رہی ہو کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کچھ دن تک نئی نویلی دلہن کا روپ کسی کو نہیں دکھایا جاتا اور نہ ہی وہ کمرے سے باہر نکلتی ہے ۔
کل جب سارا دن گھونگھٹ میں رکھا گیا تو یہ بات بتائی گئی تھی نہ وہ کافی سخت لہجے میں گویا ہوئی
جی انٹی مجھے سعدیہ آنٹی نے بتایا تھا لیکن میں کوئی گھر سے باہر تو نہیں جا رہی تھی میں تو گھر کے اندر ہی ہوں وہ سمجھاتے ہوئے کہنے لگی
اور کیا گھر کے اندر تمہیں لوگ نظر نہیں آرہے ہیں کتنے ملازم ہے جو کام کر رہے ہیں یہاں زیادہ تر مرد ہیں اس طرح سے منہ اٹھا کر ان کے بیج سے گزر رہی ہو یہ ہمارے خاندان کی روایت نہیں ہم نے تمہاری رسم ابھی تک نہیں کی
کیونکہ ہمارے خاندان میں شوہر کی محبت کا روپ رکھا جاتا ہے جاؤ اپنے کمرے میں تمہیں تمہاری ضرورت کی ہر چیز کمرے میں مل جائے گی وہ کافی سختی سے بولی شیزرہ بنا کچھ بھی کہے اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب پیچھے سے ان کی آواز آئی تھی
نئ بہو کا ناشتہ ان کے کمرے میں پہنچا دو ہر چیز کمرے میں ہی موجود ہو باہر نہیں آنی چاہیے
کنیز بیگم کا رویہ اس کے ساتھ بے حد سرد تھا شاید وہ اسے پسند نہیں کرتی شادی سے پہلے وہ شہریار اور اسمارہ کی شادی کی شاپنگ کے دوران وہ دو تین بار اس گھر میں آتی رہی کنیز نے کبھی بھی کھل کر اس سے بات نہیں کی تھی وہ خود چپ چاپ رہنے والی عورت تھیں
اسے نہیں لگتا تھا کہ وہ گھر میں بھی زیادہ کسی سے کھل کر بات کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ اس کا انداز بہت زیادہ سرد اور کچھ حد تک تلخ بھی تھا ۔
پہلے تو اسے ان کا رویہ ہرگز سمجھ نہیں آیا تھا لیکن کمرے میں جا کر بھی وہ انہی کے بارے میں سوچتی رہی
اس نے نوٹ کیا تھا کل ولیمہ کے دوران بہت ساری عورتیں ان کے آس پاس جمع اظہار افسوس کر رہی تھی وہ کس چیز کا افسوس کر رہی تھی پہلے تو اسے سمجھ نہیں آیا بعد میں اس نے اسمارہ سے جانے سے پہلے پوچھ ہی لیا
تب اسے پتا چلا کہ قلب کی پہلی بیوی کرن ان کی بیٹی ہے ۔لوگوں نے شاید ان کو بھی بہت تنگ کیا ہو گا۔ کل تو اس کا موڈ بھی خراب ہی تھا لوگوں نے باربار کرن کا نام لیا تھا ۔
یقینا لوگوں نے ان کے سامنے بھی بار بار کرن کا نام لے کر ان کی پرورش پر انگلیاں اٹھائی ہوں گی ان کا موڈ بھی اسی وجہ سے آف ہو یا ہو سکتا ہے یہی وجہ ہو اسے پسند نہ کرنے کی
آخر اس نے ان کی بیٹی کی جگہ لی تھی وہ ان سے محبت کی امید تو ہرگز نہیں کر سکتی تھی چاہے یہ شادی اسی دن کی وجہ سے ہی ٹوٹ گئی تھی لیکن اپنی بیٹی کی جگہ کسی اور لڑکی کو دیکھنا مشکل تو ہوتا ہی ہے
°°°°°
یہ کیا شہریار آپ کہیں جا رہے ہیں اس کی آنکھ کھلی تو شہریار آئینے کے سامنے کھڑااپنے بال بنا رہا تھا وہ اس وقت سوٹ میں تیار کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا
ہاں ڈارلنگ آفس جا رہا ہوں شادی کے چکر میں بہت لاپرواہی کر لی ہے کافی سارا کام پینڈنگ پڑا ہوا ہے سوچ رہا ہوں آج سارا کام نپٹا لوں اور اگلے کچھ دنوں کا سارا کام بھی ختم کرکے اپنی ساری پریشانی دور کر لوں اس نے مسکرا کر جواب دیا تو اسمارا کے چہرے کی رونق کہیں مدھم پڑ گی ۔
ارے ارے یہ کیا میری اتنی خوبصورت بیوی کے گالوں کی سرخی کم کیوں ہوگئی ہے اس کے خاموش ہونے پر وہ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے پوچھنے لگا
کل تو آپ کہہ رہے تھے ہم دونوں صبح کہیں گھومنے جائیں گے ۔اب آپ کہیں اور جا رہے ہیں وہ نظریں جھکائے اس کی شرٹ کے بٹن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کہنے لگی
او ہو میری خوبصورت سے بیوی کو مجھے اپنے ساتھ کہیں گھمانے پھرانے لے کر جانا تھا ۔اس ڈیٹ کو ہم شام تک پوس بون کر لیتے جلدی آنے کی کوشش کروں گا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر وہ اسے اپنے بےحد قریب کرکے پوچھنے لگا ۔
اس سے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا شہریار کی پیار بھری نظروں پر ہی سر سے پیر تک کسی سرخ کر رہ جاتی تھی
ٹھیک ہے لیکن پکا وعدہ کریں کہ آپ ٹائم پر آجائیں گے ۔۔وہ اجازت دیتے ہوئے وعدہ لینے لگی
اوکے میری جان آپ کا خادم شام ہونے سے پہلے حاضری دے گا ۔لیکن پھر آپ کے خادم کو انعام کی ضرورت ہوگی اور انعام دیتے ہوئے آپ کو شرمانا بالکل نہیں ہے ۔وہ اس کی ہونٹوں پر انگلی پھیرتے ہوئے بے باک انداز میں بولا
شہریار آپ کتنے بے شرم ہے ہر چیز کو اپنے مطلب کی طرف لے جاتے ہیں وہ اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے کہنے لگی
تم مجھے مطلبی کہہ رہی ہوں وہ پوری آنکھیں کھولتے ہوئے حیرت کا مظاہرہ کرنے لگا
ہاں تو جو ہے وہی تو کہہ رہی ہوں وہ بنا ڈرے بولی
تو ٹھیک ہے بیگم مطلب تو پھر میں آج رات کو نکالوں گا اور پھر ایسے طریقے سے نکالوں گا کہ تمہیں ٹھیک سے پتہ چل جائے گا کہ مطلبی کیا ہوتا ہے وہ شدت سے اس کا گال چومتا
اپنا بریف کیس اٹھا کر دروازے کی جانب جانے لگا اس کا جانے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا لیکن وہ پہلے ہی اپنے کام میں کافی زیادہ لاپرواہی کر چکا تھا جس کا نقصان بھی ہو سکتا تھا
°°°°
وہ سارا دن اس کا انتظار کرتی رہی شاید گھر میں کسی کو دوپہر میں فون نہیں کرتا تھا ۔لیکن اب تو گھر میں اس کی بیوی تھی دکھاوے کےلیے ہی فون کر دیتا تو اس کا دل خوش ہو جاتا
کل رخشندہ بیگم نے باتوں ہی باتوں میں رسم کا کہا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان میں یہ رسم ایک ہفتے کے بعد کی جاتی ہے
جب تک لڑکی دلہےاور دولہے کی فیملی کو اچھی طریقے سے سمجھ نہیں جاتی وہ اپنے گھر کی بہو کو کہیں بھی جانے نہیں دیتے ۔
اور دوسری بات یہ تھی کہ جب تک دلہن کی مہندی کا رنگ نہ اتر جائے تب تک دلہن کاروپ رکھاجاتا تھا یعنی کہ اسے کمرے سے بھی باہر نہیں جانے دیا جاتا تھا یہ ساری باتیں اسے کل سعدیہ بیگم نے بتائی تھی
یہ ان کے خاندان کی کوئی بہت پرانی رسم تھی جو اسے کافی عجیب لیکن بہت انٹرسٹنگ لگی
لیکن سعدیہ آنٹی نے اسے یہ کہا تھا کہ یہ سب کچھ وہ اپنے شوہر کے لیے کرتی ہیں یعنی کہ اپنا روپ اپنے شوہر تک محدود رکھتی ہیں ۔یہ حقیقت تھی کہ قلب کے ساتھ اس کا کوئی ایسا رشتہ تو نہیں تھا لیکن اس پر صرف اور صرف قلب کا حق تھا
اسی لئے اس نے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا تھا
°°°°°°
شام میں شہریار گھر واپس آیا تو جیسے اس کے چہرے کی رونق بھی واپس آگئی رخشندہ بیگم اس کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں لیکن ان کے لب و لہجے میں کہیں پر بھی سعدیہ بیگم جیسا لالچ نہیں تھا کہ اگر وہ بہو کو خوش رکھیں گی تو ان کی بیٹی خوش رہے گی
وہ دل سے اس کا خیال رکھ رہی تھیں انہیں اس بات سے بالکل غرض نہیں تھی کہ اگر اسمارا یہاں خوش رہے گی تو قلب کے ساتھ شیزرہ بھی ایک پرسکون زندگی گزارے گی
بلکہ وہ تو سچ میں اسے اپنی بیٹی مان رہی تھی ایک بیٹی کی طرح ایسے محبت دے رہی تھی ان کے لیے اسمارا بالکل ان کی بیٹی شیزرہ کے جیسی تھی ۔
اور جہاں تک ان کی بیٹی کی خوشیوں کا سوال تھا تو یہ راستہ اس نے خود چنا تھا اگر وہ اپنے لئے اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لیے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی تھی
تو پھر اس محبت کو خود سے محبت کرنے پر مجبور بھی کر سکتی تھی بیٹیوں کو خوشیاں ملنا تو نصیب کی بات ہوتی ہے یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو خوش رکھیں گئی تو ان کی بیٹی خوش رہے گی
شیزرہ کی خوشیوں کو نصیب کہہ کر وہ صرف اور صرف اسمارہ پر دھیان دے رہی تھی جو اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر ان کے بیٹے کی زندگی خوشحال بنانے ان کے گھر آئی تھی
حد کرتے ہو شہر یار تم نے اسمارا سے وعدہ کیا تھا جلدی واپس آنے کا اس کے باوجود بھی لیٹ آئے ہو اب جلدی سے چینج کرو اور میری بہو کو کہیں گھمانے پھرانے لے کر جاؤ ۔
پہلے ہی اچھا خاصا لیٹ ہو چکے ہو تم اس کے گھر آتے ہیں ماما نے اسے ڈانٹ دیا
ماما آپ کی بہورانی کو اب میں یہاں نہیں بلکہ باہر گھمانے لے کر جا رہا ہوں ۔میرا مطلب ہے کہ آپ کی بہو آپ کے بیٹے کے ساتھ ہنی مون پر جارہی ہے اس نے انہیں گڈ نیوز دیتے ہوئے کہا ۔
کیا تم سچ کہہ رہے ہو شہر یار یہ تو بہت اچھی بات ہے تمہارے کام کی مصروفیات دیکھتے ہوئے مجھے تو یہی لگ رہا تھا کہ تم صرف اور صرف اپنے کام پر ہی دھیان دیتے رہو گے ۔
شکر ہے تمہیں عقل تو آئی بتاؤ کب تک جانا ہوگا تمہارا ماما اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی کاغان کا سن کر اسمارہ کے چہرے پر بھی رونق آگئی تھی
کام پر لگا رہوں گا بھائی شادی کی ہے میں نے کوئی بورنگ قسم کا انسان تھوڑی نہ ہوں جو صرف کام کرتا رہوں گا
آج اسی سلسلے میں آفس گیا تھا اگلے چند دن تک چھوٹے موٹے سارے کام ختم کر لوں گا ان شاءاللہ جمعرات کو ہم دونوں جائیں گے۔اور اس کے بعد آنے والے دس دن میری بیوی کے نام ۔اس نے مسکراتے ہوئے اسمارا کے چہرے کو دیکھا جہاں خوشی صاف دیکھ رہی تھی ۔
°°°°°
دن خاموشی سے گزر رہے تھے ایک ہفتہ کیسے گزرا اسے پتہ بھی نہیں چلاقلب رات گھر واپس کب آتا تھا کب جاتا تھا اسے بالکل ہوش نہیں تھا بس وہ کام سے لوٹ کر آتا تو آکر سو جاتا اسے جگاتانہیں تھا
ایک دو بار تو اس نے اسے کہ انتظار میں جاگتے رہنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کی ہمت جواب دے گئی وہ رات تین بجے تک واپس نہیں آیا تھا اور صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ اس کے ساتھ بیڈپر ہی تھا
وہ ایک شادی شدہ مرد تھا لیکن اسے کوئی غرض ہی نہیں تھا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے وہ ایسی زندگی گزار رہا تھا جیسے شیزرہ اس گھر میں اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی بیوی ہو۔
گھر میں سب کے سامنے وہ یہی ظاہر کر رہا تھا کہ شیزرہ کے ساتھ اس کی زندگی پرسکون گزر رہی اس نے کسی پر یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی تھی کہ قلب اور اس کی شادی شدہ زندگی عام کپلز جیسی نہیں ہے
قلب نے اس سے کہا تھا یہ رشتہ تمہاری وجہ سے جڑا ہے اسے سب کے سامنے تم کس طرح سے ہینڈل کرتی ہو یہ ذمہ داری تمہاری ہے میری نہیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی تم سے سچ جانے کے بعد ہمدردی کرتا ہے یا نہیں بس یاد رکھنا کہ جس دن تم نے اپنی ناخوشی اس گھر میں ظاہر کی اسی دن میں تمہیں اپنی زندگی سے بھی نکال دوں گا اور تم سے اپنا نام بھی الگ کر لوں گا
قلب کی طرف سے یہ دھمکی کارآمد ثابت ہوئی تھی وہ ہر حد پار کر سکتی تھی لیکن قلب کا نام خود سے الگ ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔
اس نے قلب سے سچی محبت کی تھی اور اسے یقین تھا کہ وہ اپنی محبت سے اسے اپنی طرف متوجہ بھی کر لے گی لیکن ابھی اسے وقت کی ضرورت تھی قلب اس وقت غصے میں تھا اس نے جو قدم اٹھایا تھا اس کے بعد قلب کا اتنی آسانی سے سب کچھ قبول کرنا ہر گز آسان نہیں تھا قلب کو وقت چاہیے تھا اور وہ اسے وقت دے رہی تھی
قلب اسے بالکل اہمیت نہیں دیتا تھا ۔اب وہ صبح اس کے اٹھنے سے پہلے کام پر چلا جاتا تھا اور رات کو کب واپس آتا اس کی خبر تو اسے پہلے دن سے ہی نہیں ہوئی تھی
لیکن جس طرح وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا اسے بہت برا لگ رہا تھا بے شک دکھاوے کے لئے ہی سہی لیکن وہ اس کی بیوی تو تھی ۔
وہ اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیسے کر سکتا تھا