قسط 3
کیا سوچ رہی ہے آپ …..
وہ باہر جا رہا تھا لان میں رائمہ کو اکیلے خاموش بیٹھے دیکھا تو کچھ سوچ کر وہاں آیا
.
کچھ نہیں آہل….
ہم بہت خوش ہے کہ آپ نے شادی کے لئے ہاں کردی… آپ خوش تو ہے نا
رائمہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا
اپ خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں
چائے لینگے آپ
رائمہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں …. .میں نے ابھی پی ہے
آپ ڈیڈ سے ناراض ہے
اس نے کچھ پل رک کر پوچھا
بس اتنی شکایت ہےکہ انھوں نے ہر چیز کو اہمیت دی سواے اپنی اولاد کے…….
اس نے ایک گہری سانس لے کر بولا
.
ایسا نہیں ہے اہل ……….ڈیڈ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں……. بس زرا سخت ہے……. ان کا طریقہ الگ ہے ……..اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں ہماری فکر نہیں
اپ سمجھنے کی کوشش کریں انھیں
رائمہ اسے سمجھاتے ہوۓ بولی
اس نے اثبات میں سر ہلایا
اچھا میں چلتا ہوں…… کچھ ضروری کام ہے…….. اپ اپنا خیال رکھیے گا
وہ اٹھتے ہوۓ بولا رائمہ نےمسکراتے ہوۓ اثبات میں سر ہلا دیا
…………………………….
یہ کیسا ہے……
اس نے لائٹ گرین خوبصورت ڑریس کو خود سے لگاتے ہوۓ پوچھا
بہت اچھا لگ رہا ہے
عائشہ نے جواب دیا وہ پھر سے خود کو آئینے میں جانچنے لگی پھر منہ بناتے ہوئے اسے بھی بیڈ پر پھیک دیا
اتنا بھی اچھا نہیں ہے
وہ کہہ کر دوبارہ الماری سے کپڑے ڈھونڈنے لگی
اففو ماہی…. پچھلے آدھے گھنٹے میں تم دس جوڈے ریجیکٹ کر چکی ہو…… بس بھی کرو اب ورنہ دیر ہو جائگی……. ویسے بھی تم پرسب اچھا لگتا ہے کچھ بھی پہن لو
عاشی تم ہمیں چڑھاؤ مت…… ایسے کیسے کچھ بھی پہن لیں…….. ہم آہل جی سے پہلی بار ملنے جا رہے ہیں کیا سوچیں گے وہ ہمارے بارے میں
عائشہ نے پریشانی سی سر تھام لیا
پاگل لڑکی وقت دیکھو…… دیر سے جاؤگی تو کیا سوچینگے وہ
عائشہ نے اس کی پیٹھ پر چپت لگائی
اوہ نو…… اتنا وقت ہوگیا ……..
.عاشی پلیز ہماری ہیلپ کرو نا ………جلدی سے بتاؤ ہم کیا پہنے
اس نے رونی شکل بنائے کہا
عائشہ نے بیڈ پر پڑے کپڑوں سے ایک وھائٹ ڈریس نکالا
دیکھو مجھے تو یہ بہت اچھا لگ رہا ہے……. سمپل اینڈ بیوِٹیفل
ماہی وہ ڈریس لے کر اسے جانچنے لگی
اچھا ٹھیک ہے ہم یہی پہن لیتے ہے……….. ویسے بھی ان سب میں ہمیں بھی یہی زرا ٹھیک لگ رہا ہے
عاشی ہمیں تو اب بھی یقین نہیں ہو رہا ……… سب کچھ خواب سا لگ رہا ہے…….. وہی خواب جو ہم روز دیکھا کرتے تھے ……ہمارا شہزادہ اور اب اہل جی……. افف……. عاشی ہمیں تو یقین نہیں ہورہا اپنی قسمت پر……. کسی کا خواب ایسے بھی پوراہوتا ہے
اللہ بہت بڑا ہے ماہی……. کب کیسے کیا کر تا ہے کوئ نہیں جانتا سوایے اس کے
.
بلکل سہی کہہ رہی ہو عاشی……… اللہ اپنے بندوں پر ہمیشہ مہربان ہوتا ہے….. اج ہم پہلی بار ان سے ملنے جارہے ہیں….. بس اللہ سب ٹھیک کریں….. لیکن عاشی تمہیں کیا لگتا ہے انھوں نے ہمیں ملنے کیوں بلایا ہوگا
.
کوئی بات کرنی ہوگی انہیں ……..تمہاری پسند نا پسند جاننا چاہ رہے ہونگے شادی کی شاپنگ کو لے کر
عاشی نے انداذاً کہا
ہمیں تو بہت ڈر لگ رہا ہے…… اگر ہم ڈھنگ سے پیش نا آئے ان کے ساتھ…… کوئی الٹی سیدھی بات کردی تو
وہ پریشانی سے بولی
کچھ نہیں ہوگا تم پریشان مت ہو وہ کوئی جن تھوڑے ہی ہے جو اتنا ڈر رہی ہو
اب باتیں بند کرو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ
عاشی نےسمجھاتے ہوۓ کہا
ماہی نے ہاں میں سر ہلا دیا
…………………………………
ماہی شیخ…….. بہت چھوٹی تھی سات سال کی جب ایک حادثے میں اس نےاپنے ماں باپ کو کھو دیا اس کے بعد اس کے تایا شیخ اقبال نے اسے اپنی بیٹی بنا لیاوہ عام سے لوگ تھے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے شیخ صاحب ایک بڑی انٹرنیشنل کمپنی میں ملازم تھے انھوں نےماہی کو ہمیشہ اپنی سگی اولاد سے بڑھ کر چاہا رضیہ بیگم نے بھی کبھی اس کے ساتھ کوئی فرق نہیں کیا وہ انہیں بھی بے حد عزیز تھی وہ تھی ہی ایسی باتونی گڑیا جیسی معصوم اسے بھی ان سب سے بے حد محبت تھی اس نے کبھی اپنے ماں باپ کی کمی محسوس نہیں کی تھی کیونکہاس کے پاس بڑی امی اور بڑے پاپا موجود تھے شیخ صاحب کا ایک بیٹا دانش جو اپنی پڑھائی مکمل کرکے جاب کر رہا تھا اس سے چھوٹی لڑکی عائشہ جو ماہی سے تین سال بڑی تھی اور اس کا نکاح اپنے کزن سے ایک سال پہلے ہی ہو چکا تھا جو فیلحال پڑھائی کرنے کے لیۓ باہری ملک میں تھا اور ماہی فیلحال سیکنڈ اییر کی سٹوڈنٹ تھی عمر میں فاصلہ ہونے کے باوجود وہ تینوں اپس میں بہت اچھے دوست تھے
…………………………….
امی جان اہل نے شادی کے لیے ہاں تو کردی ہے لیکن مجھےعجیب سا ڈر لگ رہا ہے
ثریا بیگم اور دادی باہر لان میں بیٹھے تھے
کیسا ڈر ثریا کیا ہوا
دادی نے پوچھا
اپ جانتی ہے نا اہل کو……. کتنا ضدی ہے وہ…….. شادی تو کر لے گا لیکن کیا وہ کبھی ماہی کو اپنایے گا………. اگر اگے جاکر ان کے درمیان سب ٹھیک نہیں رہا تو اس کے زمہ دار ہم بھی ہونگے ……. اور ماہی…….. اس کا کیا قصور ہے اسے بنا غلطی کے سزا ملے گی
انھوں نے پریشانی سے کہا
ایسا کچھ نہیں ہوگا ثریا ……….تم بلا وجہ پریشان مت ہو…………. ہاں شروعات میں شاید سب ٹھیک نہ ہو لیکن وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجاے گا …………جب وہ اسے سمجھے گا جانے گا اس کی غلط فہمیاں خود بخود ختم ہو جاے گی……… تب وہ ماہی کو دل سے اپنا لے گا ہم جانتے ہے یہ زبردستی سہی نہیں لیکن ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے اگے اللہ مالک ہے
انھوں نے اسماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
جی بس اللہ اہل کو بھی ہدایت دےتاکہ وہ فضول باتیں اپنے دماغ سے نکال لیں اور سب ٹھیک ہو جاۓ
انھوں نے دل سے دعا کی
امین