قسط: 1
وسیع و شان بنی ہوئی یہ حویلی چودھریوں کی ملکیت تھی۔۔جو اندرونِ سندھ کے ایک گاؤں میں واقع تھی۔۔۔پورے گائوں میں چودہری حسنین کا ایک دبدبہ تھا۔۔۔۔۔گاؤں کا ہر فیصلہ وہی کرتے تھے۔۔۔۔
اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔۔۔بڑے بیٹے شجاعت چودہری کی شادی اُنکی پسند سے نعیمہ سے ہوئی تھی جو انتہائی سادہ طبیعت کی مالک تھی۔۔۔چھوٹے بیٹے اسامہ کی شادی انہوں نے اپنے خاندان میں کی تھی فوزیہ سے جو انتہائی نکچری طبیعت کی مالک تھی۔۔۔۔بیٹی فاطمہ کو اُنہوں نے خالہ زاد کزن کے ساتھ بیاہا تھا۔جو پیشے سے فوجی تھے ۔۔۔۔۔
انکا چھوٹا سا گھرانہ بہت خوشحال تھا۔۔۔لیکن نعیمہ اور شجاعت کی زندگی میں اولاد کی کمی تھی۔۔۔وہ جب بھی فوزیہ کو اپنے بیٹے طلحہ کے ساتھ دیکھتے تو اپنی اولاد کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔۔فوزیہ جو پہلے ہی مغرور طبیعت کی مالک تھی طلحہ کے انے کے بعد اُن کے غرور میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
آخر کار پانچ سال بعد اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا تھا خضر جو خوبصورتی میں سب سے الگ تھا۔۔۔۔لیکن پیدائشی طور پر اُسکے ایک ہاتھ کا پنچا نہیں تھا۔۔۔یہ ایک کمی اُس وجود میں تھی ۔۔۔لیکن حسنین صاحب نے اپنے پوتے کو اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیا شجاعت صاحب نعیمہ سب خوش تھے۔۔۔اگر کوئی خوش نہیں تھا تو وہ تھی فوزیہ۔۔۔کیونکہ حسنین صاحب نے خضر کے پیدا ہوتے ہی اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ آگے وہ اُنکی گدی سنبھالے گا۔۔۔۔۔۔
سب کچھ صحیح چل رہا تھا خضر کا دماغ نارمل بچوں سے تیز تھا اُسے بےحد لاڈ پیار سے پالا گیا تھا قیامت تو تب ٹوٹی جب کسی دعوت میں جاتے ہوئے شجاعت صاحب اور نعیمہ بیگم کا ایکسڈنٹ ہوگیا اور دونوں جائے وقو پر فوت ہوگئے خضر تب دس سال کا تھا۔۔۔۔۔
ماں باپ کے جانے کے بعد جو وہ پہلے ہنستا کھیلتا تھا سنجیدہ سا ہوگیا تھا آئے دن اپنی چاچی سے اپنی معذوری کے بارے میں طعنے سنتا وہ اُن سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔۔۔۔
حسنین صاحب سارا دن جرگے اور گاؤں کے فیصلوں میں مصروف ہوتے تھے لیکن رات کے ٹائم جب تک وہ خضر کو اپنے حصار میں لے کر نہ سوئے اُنہیں نیند نہیں اتی تھی اور خضر کے لیے بھی رات کا وقت سکون دہ ہوتا جہاں وہ اپنی چاچی اور کزن کی مذاق اراتی نظروں سے بچ کر اپنے دادا کے بازوں میں سو جاتا تھا۔۔۔۔۔
ابھی وہ ایک قیامت گزرنے سے سمنبھلے ہی تھے جب فاطمہ بیگم بیوگی کی چادر اوڑھے اپنی تین سالہ فلک کے ساتھ اپنے باپ کی دہلیز پر ائی ۔۔۔۔۔۔۔شوہر کی شہادت پر وہ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے اپنے دکھ سے نکل کر خضر کی پرورش کی اس طرح خضر کو بھی فلک کے روپ میں ایک دوست مل گئی اور فاطمہ بیگم کے روپ میں ایک ماں۔۔۔۔۔جن سے وہ اپنی ہر بات آسانی سے شیئر کرسکتا تھا۔۔۔۔
وقت کا کام ہے گزرنا وہ گزرتا گیا۔۔۔








بارہ سال بعد۔۔۔۔



تھوڑی دیر میں نکاح ہے تم دونوں کا ۔۔۔۔ایک سخت آواز پر فلک نے اپنے گھٹنوں سے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔
میں یہ نکاح نہیں کرونگا۔۔۔۔کونے میں کھڑے اُس نوجوان نے سخت نظروں سے فلک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
نکاح تو تم دونوں کو کرنا پڑے گا نکاح کرو گے تو ہی یہاں سے سردار تم دونوں کو جانے دے گے ورنہ نہیں۔۔۔۔۔وہی سخت آواز گونجی۔۔۔۔
میری بات سنے ہمارے درمیان کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ۔۔۔فلک نے کھڑے ہوتے سامنے موجود لمبے سے آدمی کو دیکھتے ہوئے روتے ہوئے کہا۔۔۔
لڑکی ہم کچھ نہیں جانتے جو ہم نے اپنی نظروں سے دیکھا وہ کافی تھا ۔۔۔اب نکاح کے لئے خود کو تیار کرو۔۔۔وہ آدمی سختی سے بولتا ہوا چلا گیا۔۔۔۔
یہی چاہتی تھی نہ تم ۔۔۔۔تم جیسی امیر زادیوں کو نہ اپنی عزت کی فکر ہوتی ہے نہ دوسروں کی۔۔۔۔۔۔کامل نے فلک کے نزدیک آکر اُسکا بازو اپنی سخت گرفت میں لیں کر کہا۔۔۔۔۔۔۔
پر میں نے سب جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔۔۔فلک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے یقین ہے خضر آکر مجھے بچا لے گا۔۔۔فلک نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے ایک مان سے کہا۔۔۔
اوہ بی بی ہوش میں اؤ۔۔۔۔کوئی نہیں انے والا تمہیں بچانے کے لئے آخری راستہ یہی بچا ہے کہ نکاح کر کے یہاں سے نکلے پھر باہر کی دنیا میں نہ میں تمہیں جانتا ہُوں اور نہ تم مجھے۔۔۔کامل کے لہجے میں بیزاری تھی۔۔۔۔۔
اسکی بات پر فلک زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔
میری نیکی میرے غلے پڑ گئی۔۔۔کامل نے ایک نظر فلک کے روتے وجود کو دیکھ کر کہا۔۔۔
کچھ دیر پہلے کا منظر اُسکی نظروں میں گھوما۔۔۔۔
وہ اور کامل کلاس میٹ تھے لیکن وہ زیادہ کامل سے بات نہیں کرتی تھی یہ یہ کہنا صحیح ہوگا وہ کامل کو جانتی بھی نہ تھی کہ وہ اُسکی کلاس میں پڑھتا ہے۔۔۔۔۔
اُنکی یونی سے ٹرپ سوات میں گھومنے کے لئے ایا تھا۔۔۔وہ بھی خوشی خوشی نہتی گہری نہر کے اوپر بنے پُل پر کھڑی اپنی تصویریں بنا رہی تھی جب اُسکے ہاتھ سے موبائل نہر میں گرا۔۔۔
اوہ یہ کیا ہوا میرا اتنا مہنگا موبائل۔۔۔۔فلک نے پُل کی ریلنگ پر چڑھتے نیچے دیکھتے ہوئے کہا وہ تقریباً جھکی ہوئی تھی۔۔۔۔
کامل جو ایک کونے میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔۔۔وہ سمجھا شاید فلک خود خوشی کر رہی ہے اسی لئے فوراً اُسکی طرف بھاگا۔۔۔۔اُس نے اطراف میں دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا کیونکہ سب کھانا کھانے کے لئے چلے گئے تھے۔۔۔۔اُسکے قدموں کی رفتار میں تیزی ائی۔۔۔۔
رُک جاؤ میڈم کیا کر رہی ہو۔۔۔کامل کی آواز پر وہ جو دریا میں اپنا موبائل دوبٹا دیکھ رہی تھی اچانک سے ڈری اور نیچے گرتی چلی گئی۔۔۔اُسے پکڑنے کے لئے کامل آگے بڑھا لیکن پاؤں ڈس بیلنس ہونے سے وہ بھی فلک کے ساتھ نہر میں گرا تھا۔۔۔نہر کا ٹھنڈا ٹھاٹھے مارتا پانی پل میں اُنہیں اپنے اندر ڈوبا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کامل تیرنا جانتا تھا اسی لیے کچھ ہی دوری پر ڈوبتا فلک کا وجود اپنی طرف کھینچتے وہ نہر سے اوپر ہوکر تیرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔
لیکن پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔۔۔۔
کامل کو ہوش آیا تو وہ کسی گھنے جنگل میں موجود نہر کے کنارے پر پڑے ہوئے تھے۔۔۔کامل نے آٹھ کر دیکھا تو فلک بھی اُسکے ساتھ ہی موجود تھی۔۔۔۔۔
کامل نے فوراً سے اُسکی سانسیں چیک کی جو بہت مدھم چل رہی تھی۔۔۔۔اُس نے فلک کے بھیگے وجود سے نظریں چرائی جو لال رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ میں ملبوس تھی شرٹ گیلی ہونے کی وجہ سے اُسکے بدن کے خدوخال صاف ظاہر ہورہے تھے ۔۔۔۔
کامل نے اُسکے پیٹ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ دیا تاکہ پانی باہر اسکے ۔۔۔لیکن سب بےسدھ۔۔۔۔۔
ایک ہی راستہ بچتا تھا۔۔۔کامل نے گہرا سانس بھرتے اُسکے چہرے پر دیکھا۔۔۔لمبی پلکیں سفید و سرخ گالوں پر بیچھی ہوئی تھی چھوٹی سی ناک۔۔۔جس میں سلور کی چھوٹی سی نتھنی تھی جس میں ایک چھوٹا سا نگ لگا ہوا تھا گلابی لب۔۔۔۔
وہ کتنی حسین تھی۔۔۔۔اُسکا حسن کسی کو بھی پاگل کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔
اپنے خیالات کو جھٹک کر کامل نے اپنے لب فلک کے لبوں پر رکھتے اُسے اپنی سانس دی۔۔۔۔۔
کچھ پل بعد کامل اُس سے دور ہوا تو فلک کی سانسوں میں تھوڑی تیزی ائی۔۔۔
کامل ایک اور بار اُن گلابی لبوں پر جھکا تھا۔۔۔جب فلک گہرے گہرے سانس لیتی کھانستی۔ ہوئی ہوش میں ائی تھی۔۔۔۔
اُس نے سامنے کامل کو دیکھا پھر ایک نظر چاروں طرف دوڑائیں ۔۔۔کامل کے نظریں چرانے پر وہ جان گئی تھی کہ وہ ہوش میں کیسے ائی ہے ۔۔۔۔
شکریہ ۔۔۔۔فلک نے اُسکی طرف دیکھنے سے اجتناب برتتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اٹھو دونوں۔۔۔کامل کچھ بولتا جب ایک سخت آواز اور اپنے گردن پر کوئی ٹھندی چیز محسوس کر کے وہ فوراً سے پلٹا۔۔۔۔
جہاں پانچ ہٹے کٹے آدمی بندوقیں تھامے۔۔۔اُنکی طرف سخت نظروں سے گھور رہے تھے۔۔۔۔
بیساختہ اُس نے فلک کو اپنے وجود کے پیچھے چھپایا تھا۔۔۔۔۔
لے چلو انہیں۔۔۔۔بیچ میں کھڑے لمبے ترنگے آدمی جس کی مونچھیں اُسکے ہونٹوں سے بھی لمبی تھی۔۔۔۔سخت اور بلند آواز میں بولا۔۔۔۔۔
لیکن ہم کیوں جائے ۔۔۔ہم یہاں غلطی سے اگئے ہے پلیز آپ لوگ ہماری مدد کر کے ہمیں ہوٹل تک لے جائے۔۔۔فلک نے تیزی سے کہا۔۔۔۔
چپ کرو لڑکی اور چپ چاپ جاکر گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔۔۔خوب سمجھتا ہُوں تم شہری لڑکوں اور لڑکیوں کو عیاشی کرتے ہو لیکن شادی نہیں۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔وہی آدمی غصے سے پلٹ کر بولا اسکی بات پر فلک کی آنکھیں پھیلی۔۔۔کامل کے بھی ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔۔۔
آپ جیسا سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہوا ہے یہ پانی میں ڈوب گئی تھی اسی لئے میں نے وہ سب کیا تاکہ اُنکی سانس واپس اسکے ۔۔کامل کا دل تو نہیں تھا وضاحت دینے کا لیکن یہاں معاملہ ایک لڑکی کی عزت کا تھا اسی لئے بولا ۔۔۔۔
وہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہے بہتری اسی میں ہے لڑکے چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔سخت آواز میں بولتا ہوا آگے بڑھ گیا جب کامل اور فلک بھی اپنے لب بھینچے سامنے کھڑی جیپ میں بیٹھ گئے تھے۔۔۔جبکہ دو بندوقیں اُن کے سر پر تنی ہوئی تھی ۔۔۔۔
فلک نے ڈر کر کامل کا بازو پکڑا ہوا تھا اور وہ ضبط سے یہ سب دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گیا تھا وہ ان لوگوں کے علاقے میں آگئے تھے اور جانتا تھا وہ اتنی آسانی سے ان لوگوں کو یہاں سے جانے نہیں دے گے۔۔۔۔۔








دروازے کھولنے کی آواز میں ہوش میں ائی۔۔۔۔دروازے سے دو عورتیں اندر ائی تھی جنہوں نے اپنے منہ ڈھاپے ہوئے تھے۔۔۔۔
آپ چلو ہمارے ساتھ سردار کا حکم ہے آپکو نکاح کے لئے تیار کرنا ہے ۔۔۔۔ایک عورت نے فلک کے پاس اتے ہوئے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر کامل نے ایک نظر اُسکے سراپے کو دیکھا تھا جو اب ہلکا ہلکا سوکھ گیا تھا۔۔۔اُس نے غصے سے اپنے لب بھنچے۔۔۔۔
فلک کسی روبوٹ کی مانند انکے ساتھ چلی گئی تھی۔۔۔









ضبط کے ساتھ اس نے قبول ہے بولا تھا۔۔۔آنکھوں کے پردوں پر فلک کا خوبصورت چہرہ اور سراپا لہرایا۔۔۔۔۔دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔۔۔پھر سر جھٹک کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سردار نے اُسے ایک کمرے میں جانے کا بولا۔۔۔وہ جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن جانتا تھا باہر رہا تو یہ سردار اُسے گولی مارنے سے بھی پرہیز نہیں کرے گا۔۔۔۔
وہ جو پورے دن میں ہوئے تمام واقعات کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی تھک گئی تھی اوپر سے اتنا بھاری جوڑا اُسکی قمر آکر سی گئی تھی۔۔۔اپنے آنکھیں بند کے تکیہ پر سر ٹکا کر وہ سو گئی تھی۔۔۔۔۔
کچھ دیر پر بعد کامل کمرے میں داخل ہوا۔۔۔داخل ہوتے ہی جو منظر اُس نے دیکھا تھا اُسکے حواس جھنجھنا اٹھے تھے۔۔۔۔
سامنے لال رنگ کی کھلی فروک جو گھٹنوں تک اتی تھی لال رنگ کا کھلا پاجامہ پہنے ماتھے پر ماتھا پٹی باندھے ہونٹوں کو سرخ رنگ سے رنگے۔۔۔وہ حسین مورت کی طرح بیڈ پر لیتی ہوئی تھی۔۔۔ایک ہاتھ پیٹ پر جبکہ دوسرا بیڈ پر تھا۔۔۔۔۔
فلک کو دیکھتے ہی ایک جذبات کا طوفان تھا جو کامل کے وجود میں اُترا تھا ۔۔۔دروازہ بند کر کے ایک ضبط کے ساتھ اُس نے اپنے قدم بیڈ کے دوسرے کونے کی طرف بڑھائے تھے کمرے میں کوئی صوفہ نہیں تھا جہاں وہ سو سکتا۔۔۔
اپنے برابر میں ایک نرم نازک وجود کی بھینی بھینی خوشبو اُسکے حواس محتمل کر رہی تھی۔۔۔۔۔
ضبط تو تب ٹوٹا جب فلک نے کروٹ بدل کر کامل کی پشت پر اپنا سر رکھا۔۔۔۔
کتنا ضبط کرتا خود پر پہلو میں نسوانی حسین وجود جس کو چھونے کا اسکو پورا حق تھا ۔۔۔۔جوان جسم کے تقاضے اُسے سونے نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔
کروٹ بدل کر فلک کے اوپر سایہ کیا۔۔۔فلک ذرا سا کسمسائی۔۔۔پھر سو گئی۔۔۔کامل نے اُسکی گردن میں منہ دیے گہرا سانس بھرا ۔۔اور خود پر سے ضبط کھوتا اُسکی گردن پر اپنے عنابی لبوں سے لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔
اپنی گردن پر کسی کا دہکتا ہوا لمس محسوس کر کےفلک نے اپنی آنکھیں ذرا سی واہ کی خود پر جھکے کامل کو دیکھتے حواس باختہ ہوکر اُسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کرنا چاہا۔۔۔۔
جب کامل اُسکے آٹھ جانے پر پیچھے ہوا اور اپنی خمار سے لال ہوتی آنکھوں سے اُسکا فق چہرہ دیکھا۔۔۔۔
نظر ان سرخ لبوں پر گئی تو جیسے گلے میں کانٹے چبھ گئے ہو۔۔۔۔فلک کے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں لیتے وہ اُسکے لبوں پر جھک ایا۔۔۔۔۔
کتنی دیر وہ اُسکی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کرتا رہا جب اسکو لگا فلک سانس نہیں لے پا رہی تب دور ہوا۔۔۔اسکی حرکت پر فلک کا رنگ لال ہوا تھا۔۔۔
کامل۔۔۔فلک نے اُسکے دور ہونے پر اور واپس اپنی گردن میں منہ دینے پر پُکارا۔۔۔
چھوڑے مجھے۔۔۔۔کیوں کر رہے ہیں یہ سب۔۔۔فلک نے اُسکے بھاری مضبوط جسم کو خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
بیوی ہو میری اپنا حق لے رہا ہو۔۔۔۔اسکی بات پر کامل نے اُسکی گردن پر اپنے دانت گاڑھتے بھاری آواز میں کہا۔۔۔
وہی بیوی جسے صبح آپ چھوڑ دے گے ۔۔۔۔فلک کی آواز نم ہوئی۔۔۔۔۔
میرے نکاح میں ہو۔۔۔نہیں چھوڑ سکتا اتنا بیغیرت نہیں ہوں میں اُس وقت غصے میں تھا اسی لئے بولا۔۔ورنہ پٹھان ہوں اپنی عورت کو نہ کبھی چھوڑ سکتا ہوں اور نہ۔ اُس پر کسی کی نظر برداشت کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔کامل نے اپنی سرخ نظریں فلک کی شہد رنگ آنکھوں میں ڈال کر کہا۔۔اسکی بات پر فلک کے دل کو تھوڑی راحت ملی ۔۔۔وہ اچھی طرح جانتی تھی نکاح کی اہمیت کو اور طلاق کو بھی ۔۔۔۔۔۔
فلک کو خاموش نظروں سے اپنی طرف دیکھتے وہ دوبارہ اُسکے گلابی لبوں پر جھک گیا تھا۔۔۔فلک نے اپنے ہاتھ اُسکے کندھے کے گرد باندھے تھے ۔۔۔۔۔
جذبات کی رو میں دونوں بہکتے ایک دوسرے کو میاں بیوی تسلیم کر چکے تھے۔۔۔۔
فلک کے ہاتھ اپنے کندھے پر بندھے دیکھ وہ اُس پر اپنی تمام شدتیں لوٹانے لگا تھا یہ جانے بغیر کہ قدرت نے اُن دونوں کے لئے کچھ اور ہی سوچا ہوا ہے۔۔۔۔گزرتی رات دو وجود کے ملن کی رات تھی۔۔۔۔۔








کیا ہمیں خضر صاحب کو فون کر کے بتا دینا چاہئے۔۔۔۔
یونی کے ایک پرفیسر نے کہا۔۔۔۔وہ ہر جگہ فلک اور کامل کو ڈھونڈ چکے تھے لیکن وہ کہیں نہیں ملے تھے۔۔۔
نہیں صبح تک کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔اگر خضر صاحب کو پتہ چل گیا تو پوری یونی بند کروانے میں ایک منٹ بھی نہیں لے گے ۔۔۔دوسرے پروفیسر نے ڈرتے ہوئے کہا سب جانتے تھے خضر فلک کو لے کر بہت حساس ہے اُس دنیا میں صرف تین وجود ہی ایسے تھے جن پر وہ خروچ بھی نہیں برداشت کر سکتا تھا۔۔۔فلک فاطمہ مان اور داجی۔۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے صبح تک کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔پروفیسر نے کہا ۔۔۔۔








کراچی ڈیفنس کے علاقے میں بڑی شان سے کھڑے اس بنگلہ میں نوکروں کی چہل پہل لگی ہوئی تھی سب کو پتہ تھا ان کا مالک وقت کا بہت پابند ہے۔۔۔۔
پورے کمرے میں اندھیرا کرے وہ بغیر شرٹ کے اوندھے منہ سو رہا تھا۔۔۔۔کسرتی سفید بازو كمفرٹر سے جھلک رہے تھے۔۔۔۔
اس کمرے کی ہر چیز سفید تھی ہر چیز۔ بیڈ کے اوپر اُسکی اندراج سائز تصویر لگی ہوئی تھی جس میں وہ اپنے پسندیدہ گھوڑے کے سر پر اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
یکدم فون بجا۔۔۔بیڈ پر لیتے وجود نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھا کر اپنی بھوری آنکھوں کے سامنے کیا جہان پر فاطمہ ماں کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔۔۔
عنابی لبوں پر مسکراہٹ ائی۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔بھاری مضبوط مردانا آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔
وعلیکم السلام کیسا ہے میرا بیٹا۔۔۔۔نرم ممتا میں ڈوبی آواز سن کر وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہو آپ کیسی ہے داجی کیسے ہے۔۔۔۔اُس نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیسے ہو سکتے ہیں تم سے دور ہوکر بیٹا ۔۔۔۔فاطمہ بیگم کے لہجے میں اُداسی آگئی تھی۔۔۔۔
آتا تو ہوں ملنے۔۔۔۔۔آئینے کے سامنے اتے ہی اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ملنے اور ساتھ رہنے میں فرق ہوتا ہے۔۔۔فاطمہ بیگم نے جتلایا ۔۔۔۔
آپ اچھی طرح جانتی ہے جب تک وہ اُس حویلی میں ہے میں نہیں اؤنگا وہاں۔۔۔یہ بات کہتے ہوئے اُسکے لہجے میں سختی ائی تھی۔۔۔۔
اُسکی شادی ہونے والی ہے اور اب ہم بھی چاہتے ہے کہ آپ بھی شادی کر لے ۔۔۔۔فاطمہ بیگم کے لہجے میں ایک حکم سا تھا۔۔۔۔
کیوں میرے ساتھ کسی کو باندھ کر اُسکی زندگی برباد کرنا چاہتی ہے ۔۔۔۔ایک نظر اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے تلخئ سے کہا۔۔۔۔
آپکی زندگی میں جو آئے گی وہ خوش قسمت ہوگئی۔۔۔۔۔آپ جیسا ہمسفر کسی کسی کو ملتا ہے۔۔۔فاطمہ بیگم نے اُس کی بات پر ایک مان سے کہا۔۔۔۔
لیکن امان ۔۔۔لیکن ویکن کچھ نہیں لڑکی ہم دیکھ چکے ہیں کل آپ آرہے ہے حویلی بس۔۔۔فاطمہ بیگم غصے سے بولتی فون بند کر گئی تھی پیچھے وہ لب بھینچ گیا تھا ایک اُنکے سامنے وہ اپنی نہیں چلا سکتا تھا۔۔۔۔
الماری سے اپنے پریس ہوئے کپڑے نکالے اپنے جوتے نکال کر رکھے ۔۔۔۔اور واشروم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔نوکروں کی فوج ہونے کے باوجود وہ اپنے کام خود کرتا ہے اُسے نہیں پسند تھا وہ کسی پر انحصار کرے۔۔۔۔
کچھ ہی منٹ بعد وہ کالے رنگ کی شرٹ کے اوپر جینز کی جیکٹ پہنے بلیک پینٹ میں ملبوس وہ سیڑھی سے اترتا نیچے آیا تھا۔۔۔سب نوکر الرٹ ہوگئے تھے۔۔۔۔
وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا کچھ ہی دیر میں ناشتہ اُسکے سامنے تھا ۔۔۔۔
یہ تھا خضر شجاعت چودھری جس نے کبھی اپنی محرومی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔۔۔شجاعت انٹرپرائز کا مالک جس نے خود اپنی محنت اور لگن سے اپنے باپ کے نام پر اپنا بزنس شروع کیا تھا اور آج وہ بزنس پورے ملک اور بیرون ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔دنیا میں تین وجود تھے جن کی ہر بات وہ اپنے لئے ضروری سمجھتا تھا۔۔۔۔فلک فاطمہ امان اور داجي۔۔۔۔باقی نہ وہ کسی کی سنتا تھا اور نہ مانتا تھا سنجیدہ طبیعت کا مالک۔۔۔جس کے صرف دو ہی شوق تھے ایک جانور پالنا اور دوسرا اپنے مخالفین کو ہرانا ۔۔۔۔۔۔
خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔۔۔۔چال میں ایک غرور تھا۔۔۔وہ اپنے بر کام خود کرتا تھا گاڑی چلانےسے لے کر دشمن کی ہڈیاں توڑنے تک کا۔۔۔۔۔۔








بابا اج نہ جائے نہ۔۔۔۔کندھے سے لگی شجیہ کی آواز پر آصف صاحب نے اپنی لاڈلی کو دیکھا۔۔۔۔
بیٹا جانا ضروری ہے خضر صاحب اپنے جانوروں کو لے کر بہت حساس ہے ایک دن بھی اُنکے جانوروں سے بے خیالی برتی تو بہت غصّہ ہونگے۔۔۔آصف صاحب نے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا اُنکی بات پر شجیہ نے منہ بسورا۔۔۔۔۔
یار بابا ایک تو یہ آپکے مالک بھی نہ مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔شجیہ نے اُنکے کندھے سے سر ہٹا کر کہا۔۔۔۔
نہیں وہ بہت اچھے ہے بس کام میں کوئی خرابی نہیں پسند انہیں ۔۔۔آصف صاحب نے روٹی کا نوالہ اُسکی طرف بڑھا کر کہا۔۔۔
بس رہنے دے آپ۔۔۔۔شجیہ نے نوالہ چباتے ہوئے کہا دونوں باپ بیٹی کو باتیں کرتا دیکھ نسرین بیگم مسکرا گئی۔۔۔۔
سچ کہہ رہا ہوں بیٹا کبھی بھی کسی بھی مدد کی ضرورت ہو اور میں نہ ہو تمہارے پاس تو اُن سے جاکر مانگ لینا مدد وہ ضرور مدد کرے گے۔۔۔آصف صاحب کی بات شجیہ نے سنجیدگی سے اُنکی طرف دیکھا۔۔۔
آپ کہیں نہیں جائے گے میرے پاس ہی رہے گے تو مجھے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔۔۔۔شجیہ نے اُنکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔۔اُسکی بات پر وہ مسکرا گئے
آصف صاحب خضر کے اسطبل کا دیہان رکھتے تھے جہاں پر خضر نے ہر نسل کے گھوڑے اور دیگر جانور پال رکھے تھے اُنکی ایک ہی بیٹی تھی شجیہ ۔۔۔نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والی آصف اور نسرین بیگم کی۔۔۔۔۔نیلی آنکھیں اُس نے اپنے باپ سے چڑائی تھی باقی چھوٹی سی ناک گلابی لب اور پھولے گال اُس نے اپنی ماں سے چرائے تھے ۔۔۔۔
اپنے نام کی طرح دلیر ہر مصیبت سے لڑ سکتی تھی ۔۔۔۔۔لیکن جب بات اُسکے بابا پر آجاتی تھی وہ بھی عام سی لڑکیوں کی طرح ڈر جاتی تھی ۔۔۔۔۔
اے کے ناولز: فیس بک پیج