مثالِ عشق سیزن ٹو

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں سنہری صبح نے اپنے پر پھیلائے تھے۔۔۔۔
ایڈیلیڈ جو آسٹریلیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے وہاں ہر روز کے معمول پر زندگی شروع ہوگئی تھی۔۔۔
ڈارک براؤن رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹے کو گلے سے لگائے بالوں کو ڈھیلی ڈھالی چوٹیاں میں باندھے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں پر ٹکائے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے وہ اپنی کالی آنکھوں سے اپنی بھابھی کو دیکھ رہی تھی جو غصے سے لال چہرہ لیے کچن میں کام کر رہی تھی ۔۔۔۔بالوں کی کچھ لٹیں اُسکے سفید میکپ سے پاک چہرے پر پڑتی اُسے حسین بنا رہی تھی ۔۔۔۔
برابر میں ہی ڈارک براؤن رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹے کو بلکل اُس کی طرح ہی گلے میں ڈالے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں پر ٹکائے بالوں کی چٹیاں بنائے وہ پانچ سالہ عروہ بھی اپنی سبز انکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
“آج تو بھائی کی خیر نہیں ہے”
۔۔۔انابیہ نے دھیمی آواز عروہ سے کہا۔۔۔
“سچی پھو اج بابا کی خیر نہیں ہے”۔
۔۔عروہ نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔۔۔
قدموں کی آواز پر۔اُن دونوں نے ویسے ہی بیک وقت سر گھما کر انے والے کو دیکھا اور کامل کو بلیک رنگ کی شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں بلکل تیار دیکھ اُن دونوں نہ واپس بیک وقت سر گھما کر فلک کی طرف دیکھا جو غصے میں اپنے دیہان سے کام کر رہی تھی۔۔۔۔
کچن سے اتی آوازوں پر کامل نے ایک نظر کچن میں دیکھا اور اپنی حیاتی کے سرخ چہرے کو دیکھتے وہ سمجھ گیا اج اُسکی خیر نہیں ہے۔۔۔۔
“آج موسم کافی آبر آلود لگتا ہے”۔۔۔ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے کامل نے ایک لمبا سانس بھرتے ہوئے اُن دونوں کی طرف دیکھا جو خود بھی اُسکی طرح پریشان تھی ۔۔۔
“آبر آلود نہیں ۔۔۔۔اج موسم طوفانی ہے اور اس طوفان کی زد میں آپ انے والے ہے “۔۔۔انابیہ نہ دھیمی آواز میں کامل کی طرف دیکھتے اُسے فلک کے ارادوں سے باخبر کیا۔۔۔۔
“اب اتنی غلطی بھی نہیں تھی میری”۔۔کامل منمنایا۔۔۔،
“بابا پوری رات آپ باہر رہے ہے افس میں صبح آپ گھر آئے ہیں آپکو پتہ ہے ماما آپکے بنا نہیں سوتی ہے ساری رات وہ جاگتی رہی ہے”۔۔۔عروہ نے اپنے بابا کو دیکھتے افسوس سے کہا۔۔۔
کامل کو بھی اس بات کا اندازہ تھا اُسکی حیاتی اُسکے بنا نہیں سوتی لیکن آفس کے کام کا کیا کرتا ۔۔۔
“بہت ہوگئی باتیں جلدی سے دونوں ناشتہ کرو اور یونی اور اسکول کے لیے نکلو”۔۔۔فلک نے ٹیبل پر اتے جوس کا جگ رکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
عروہ انابیہ نے فوراً سے اثبات میں سر ہلایا اور جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی۔۔۔
“حیاتی”۔۔کامل نے کہنا چاہا جب فلک نے اُسکی بات کاٹی۔۔۔۔
“مجھے اس وقت کچھ نہیں سننا ۔۔۔ چپ چاپ سب ناشتہ کرے” ۔۔فلک کی آواز سنجیدگی میں ڈوبی ہوئی تھی کامل نے اُسکی بات پر اپنے لب بھینچے۔۔۔۔
“چلو پھو کی جان چلے”۔۔۔انابیہ نے ایک نظر فلک اور کامل کی طرف دیکھا اور عروہ سے کہا۔۔۔
“آل دی بیسٹ بھائی” ۔۔کامل کے پاس سے گزرتے انابیہ نے دھیمے لہجے میں کہا
“ال دی بیسٹ بابا”۔۔۔عروہ نے بھی باپ کے پاس اتے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔کامل نے جھکتے اپنی بیٹی کے ماتھے پر بوسا دیا ۔۔۔۔۔
عروہ نے ماں کے پاس اتے اُسکے گال پر بھی بوسا دیا اور انابیہ کے ساتھ باہر نکلتی چلی گئی جہاں اُنکی گاڑی تیار تھی۔۔۔۔
💗💗💗
انابیہ کے جاتے ہی کامل نے ایک نظر اپنی روٹھی بیوی کی طرف دیکھا جو کالے رنگ کی ویلویٹ کی فروک میں کالے رنگ کے دوپٹے کو سینے پر پھیلائے سرخ و گلابی رنگ میں لال ناک اور گلابی لب لیے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے کرسی سے اٹھ کر ٹیبل پر سے سامان اٹھا رہی تھی۔۔۔
ایک ہی جست سے اپنی جگہ سے اٹھتے اُس نے فلک کی پشت سے ہاتھ گزار کر اُسکے پیٹ پر باندھا اور اُسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا۔۔۔
فلک چپ چاپ کامل کا لمس اپنے پیٹ اور اسکی دہکتی سانسیں اپنے کان پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
“حیاتی ناراض ہے مجھ سے”!۔۔۔کامل نے اُسکی کان کی لو کو اپنے لبوں میں دباتے گھمبیر آواز میں پوچھا۔۔۔
“میں کیوں ناراض ہوگی آپ سے ۔۔آپکی زندگی ہے جو چاہے کرے جب چائے گھر آئے جب چاہے نہ آئے” ۔۔۔فلک نے ہاتھ میں تھامی پلیٹ واپس ٹیبل پر رکھتے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
فلک کی نم آواز محسوس کرتے کامل نے اُسکا رخ پلٹا تھا۔۔۔
“میری جان آفس کا کام بہت تھا جانتی ہے نہ ابھی ٹائم نہیں ہوا بزنس کو یہاں شفٹ کیے ہوئے۔۔بس اسی لیے مجھے کل افس میں ہی رکنا پڑا”۔۔۔۔کامل نے اُسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے پیار سے کہا۔۔
“پر آپ کو پتہ ہے مجھے آپکے بنا نیند نہیں آتی جب تک میں اپنا سر آپکے ان مضبوط بازوں پر نہ رکھ لو میں سو نہیں پاتی۔۔”۔فلک کی بھوری آنکھوں میں نمی چمکی تھی وہ کامل سے ایک پل کی دوری بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
“پتہ ہے میری جان آئندہ ایسا نہیں ہوگا “۔کامل نے اُسے اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔۔
فلک اُسکے سینے سے لگی مسکرا دی ۔۔۔
“اب تو ناراض نہیں آپ مجھ سے حیاتی”۔۔۔کامل نے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھتے محبت سے پوچھا۔۔۔
“آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتی بس تھوڑی دکھی تھی رات بھر آپکا انتظار کرتی رہی اسی لیے تھوڑا غصّہ آگیا تھا جو آپکی توجہ اور نزدیکی پر ختم ہوگیا “۔۔۔۔۔فلک نے اُسکے سینے سے لگے کہا۔۔۔
“چلے پھر رات بھر تو میں بھی نہیں سویا دونوں میاں بیوی اب اپنی نیند پوری کرے گے ۔”۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے بازوں میں اٹھایا تھا۔۔۔
کامل کی سبز انکھوں میں شوخی دیکھتے فلک کا رنگ سرخ ہوا۔۔۔
“شوخے مت ہو نیند آرہی ہے مجھے۔”۔۔فلک نے اُسکے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے نروٹھے لہجے میں کہا۔۔۔
“آپکی نیند کی تو ایسی کی تیسی حیاتی”۔۔۔کامل نے دانت پیستے کہا اور قدم کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔
فلک کامل کی بات پر مسکراتی ہوئی اُسکی گردن میں منہ دیے اُسکے سینے میں سمائی اور کامل مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھا گیا۔۔۔
💗💗💗
یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ میں اس وقت ہر جانب طلباء کی چہل پہل تھی۔۔۔۔کچھ طلباء اپنی اپنی کلاسز لے رہے تھے تو کچھ یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے آپس میں باتوں میں مشغول تھے ۔۔۔
“یار بیہ دیکھو تو کتنا ہینڈسم لڑکا ہے”۔۔۔یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھی بیہ کی دوست سے سامنے موجود لڑکے کو دیکھتے بیہ سے کہا۔۔۔
بیہ نے کتاب سے سرسری نظر اٹھا کر سامنے دیکھا اور پھر اپنی نظریں واپس جھکا گئی۔۔۔۔
“وہ تمہیں ہی دیکھ رہا ہے مجھے لگتا ہے تمہیں اُس سے بات کرنی چاہیے”۔۔۔لیزا نے چپس کھاتے ہوئے بیہ سے کہا۔۔۔
جس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔۔
یونی ورسٹی اور ایڈیلیڈ میں بہت سے بچے ایسے تھے جو مسلم تھے کامل نے یہاں اُسکا ایڈمیشن کروایا تھا تاکہ انابیہ کا دماغ بٹ سکے ۔۔وہ یہاں سے بی ایس انگلش کر رہی تھی لیزا انہی کی سوسائٹی میں رہتی تھی اور اردو بھی ہول سکتی تھی اُسی لیے انابیہ سے اسکی دوستی ہوئی۔۔۔
“مجھے کسی سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔”انابیہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
“کیا یار ایک تو تم اتنی پیاری ہو یہاں سب لڑکیوں کا کوئی نہ کوئی بوئفریند ہے صرف تمہارے علاوہ “۔۔۔لیزا نے منہ بناتے کہا۔۔۔۔
“یہاں سب نے ایک ٹرینڈ کے لیے آپس میں ریلیشن بنایا ہوا ہے کیونکہ اس جدید دور میں اگر کسی کا کوئی ریلیشن نہ ہو تو لوگ اُسے کول نہیں سمجھتے تمہیں کیا لگتا ہے یہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں نہیں ۔۔۔یہ ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔۔۔محبت نہیں “۔۔۔انابیہ نے اس پاس بیٹھے کپل کو دیکھتے کہا جو ایک دوسرے میں کھوئے ساری حدیں بھی بھول گئے تھے ۔۔۔
“اوہ تو تمہارے حساب سے محبت کیا ہوتی ہے ؟۔۔۔لیزا نے دلچسپی سے پوچھا۔۔۔
“محبت ،،محبت پاک ہوتی ہے روح سے ہوتی ہے محبت میں الہام ہوتے ہے کسی ایک کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا اُس تکلیف کو خود پر گزرتا محسوس کرتا ہے۔۔۔اُسے پتہ چل جاتا ہے کہ اُسکا محبوب تکلیف میں ہے محبت میں فقط جسم کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔وہ انسان آپکے سامنے رہے اور آپ اُسے پہروں بیٹھ کر دیکھتے رہے یہ محبت ہوتی ہے۔۔اور محبت تو بنا دیکھے بنا چھوئے بنا بات کیے بھی ہو جاتی ہے”۔۔۔۔انابیہ نے آسمان کو دیکھتے ایک جذب سے کہا۔۔۔
“اور تمہیں کیوں نہیں ہوئی یہ محبت” ،،،لیزا نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے پوچھا۔۔
“پتہ نہیں پر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کسی کی امانت ہو کوئی ہے جو میرے دل میری روح میرے جسم کا مالک ہے شاید اسی لیے مجھے یہاں موجود کسی لڑکے میں دلچسپی نہیں ہے۔”۔۔انابیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے کہا۔۔۔
“اوہو مطلب تمہارا کوئی شہزادہ ائے گا”۔۔لیزا نے اُسکے کندھے سے اپنا کندھا مس کرتے شوخی سے کہا۔۔۔
“نہیں مجھے شہزادے کا انتظار نہیں ۔۔۔کیا پتہ میں جسے شہزادہ سمجھو وہ ولن نکل آئے” ۔۔۔انابیہ نے کالی آنکھوں میں شرارت لیے کہا اور اپنا بیگ کندھے پر ڈالے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
“چلے اب کلاس میں بہت ہوگئی محبت کی باتیں”۔۔۔انابیہ نے لیزا کے آگے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جس پر لیزا اُسکا ہاتھ تھامے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
جب تیز رفتاری سے ایک بلیک بی ایم ڈبلیو یونی میں داخل ہوئی۔۔۔انابیہ نے اس گاڑی کو دیکھتے کوفت سے اپنی نظروں کا ارتکاز بدلہ جبکہ لیزا نہایت خوشی سے اس گاڑی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
وائٹ دیمیج پینٹ،بلو شرٹ جس کےتمام بٹن کھلے تھے سینے کو چھوتی چین ایک کان میں بالی اور بکھرے بال ہاتھ میں ڈھیر سارے بینڈز پہنے وہ کہیں سے بھی یونی میں پڑھنے والا لڑکا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔
زرفان خان جسے سب زر کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔۔۔۔اُسکے یونی میں اتے ہی ہر طرف سے شور گونجا ۔۔۔
اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔جس کے باعث اُسکے گالوں پر پڑتے اُن دمپلوں نے اپنی جھلک دکھائی ۔۔۔اور لڑکیاں اپنا دل تھامتی رہ گئی۔۔۔۔
یونی کا بیڈ بوائے جس کی چار چار گرل فرینڈ تھی ۔۔۔۔پوری یونی کا کرش ۔۔۔ہر لڑکی اُس پر اپنا دل ہار بیٹھتی تھی وہ تھا ہی اتنا حسین،سفید رنگت بھوری داڑھی ،اور شہد رنگ آنکھیں اور آنکھوں میں وہ شوخی۔۔۔وہ شوخ مجاز انسان تھا۔۔۔۔ہر کسی کو تنگ کرنا اُسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔۔۔۔
“کتنا پیارا ہے یہ۔”۔لیزا نے فدا ہوتے لہجے سے کہا۔۔
“چپ کرو تُم ۔۔۔کہاں پیارا ہے لگتا ہے اسکو دیکھ کر کہ یہ مسلمان ہے”۔۔۔۔انابیہ نے چبھتے لہجے میں کہا۔۔اور اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
لیزا نے ایک نظر ذرفان کو دیکھا جو اپنے دوستوں کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔
انابیہ کو جاتے دیکھ وہ اُسکے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔۔
💗💗💗
اسلاماباد کے ایک چھوٹے سے طرویل اجینسی کے ایک کمرے میں جائے نماز پر بیٹھا وہ خوبرو نوجوان جانے کن سوچوں میں گم تھا۔۔۔
سفید چہرے پر سنجیدگی تھی کالی آنکھیں خاموش تھی۔۔۔وہ جائے نماز پر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ساکت بیٹھا تھا۔۔۔
لب آپس میں پیوست تھے اُسکے چہرے سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا رہا ۔۔۔
“حسام”۔۔کمرے میں داخل ہوتے اُسکے کولیگ نے اُسے آواز دی۔۔۔۔
حسام کا فسوں ٹوٹا اُس نے آواز کی سمت دیکھا۔۔۔
جائے نماز سے اٹھتے اُسے لپیٹ کر سائڈ پر رکھی۔۔
“بولو” ۔۔سنجیدگی بھاری آواز کمرے میں گونجی۔۔۔
“دس لوگوں کی ٹریپ ہے جو آسٹریلیا جانی ہے اور سر نے کہا ہے اُس بار تم جا رہے ہو” ۔۔۔کولیگ کی بات پر اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔
کولیگ نے ایک نظر اس سنجیدہ مزاج شخص پر ڈالی جو ضرورت سے زیادہ بات کرتا ہی نہیں تھا۔۔۔
کرسی پر بیٹھتے ہی اُس نے اپنی کالی بے تاثر بند کرتے ہی دو حسین کالی آنکھیں اُسکے پردوں پر لہرائیں۔۔۔۔ہلکے ہلکے اُسکا چہرہ اُسکے ذہن کے پردوں پر نمودار ہوا۔۔۔۔
مسکراتا چہرہ وہ حسین آنکھیں جن میں محبت کا جہاں آباد تھا۔۔۔اُسکی طرف وارفتگی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
حسام کے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔۔
یکدم منظر بدلہ ۔۔۔ہر طرف خون لال رنگ اور وہ کالے لباس میں خون میں لت پت نم زدہ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے اُن آنکھوں میں شکوہ تھا۔۔۔اُن آنکھوں میں اذیت تھی۔۔۔اُسکے اپنے ہاتھ جو خون سے رنگے ہوئے تھے۔۔۔اپنی ہی محبت کے خون سے ۔۔۔۔
یہ سب دیکھنا نہ قابل برداشت تھا۔۔ایک جھٹکے سے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔
اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بنائے اپنے ہونٹوں پر رکھے وہ کالی آنکھوں میں آنسو لیے بیٹھا تھا۔۔۔۔
آنسو روکنے کی کوشش کرتے اُسکی آنکھیں لال تھی۔۔۔ایسا ہی تو ہوتا تھا اُن پانچ سالوں میں آنکھیں بند کرتے ہی وہ منظر پوری آب و تاب سے اُسکی آنکھوں کے پردوں پر لہراتے تھے صرف ایک وقت ہی سکون اتا تھا ۔۔۔اور وہ تھا نماز کا جب جب وہ اپنے رب کے حضور جھکتا اُسے سکون محسوس ہوتا تھا۔۔۔
ان پانچ سالوں میں ہر روز رات دیر تک وہ اللہ کی عبادت کرتا نیند تو اسکو اتی نہیں تھی۔۔۔اور پھر نہ جانے رات کا کون سا پہر ہوتا جب وہ جائے نماز پر ہی سو جاتا ۔۔۔۔
ان پانچ سالوں میں ہر روز ہر لمحہ وہ تڑپا ہے اُسکے دل میں بےچینی بھری ہوئی ہے ان پانچ سالوں میں ہر رات کو وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتے عبادت کرتے رویا ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگی ہے ۔۔۔۔
لیکن بہت جلد اُسکی رگ رگ میں سمائی اذیت دور ہونے والی تھی اُسے جینے کی ایک نئی اُمنگ ملنے والی تھی لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا اس میں مشکلیں تھی ۔۔۔آسٹریلیا کا یہ سفر اُس کے لئے یادگار ہونے والا تھا۔۔۔۔۔جو اُسے شاید اُسکی بیہ سے ملوانے والا تھا۔۔۔
💗💗💗
کراچی ،،،
اپنی گردن پر پڑتی گرم سانسیں محسوس کرتے شجیہ کی آنکھ کھلی ۔۔
گردن موڑ کر خضر کو دیکھا جو اُسکے پیٹ کے گرد ہاتھ باندھے اُسکی گردن میں منہ دیے گہری نیند میں تھا۔۔ایک نظر دیوار گیر گھڑی پر دیکھا جہاں رات کے تین بج رہے تھے اُسے شدید بھوک کا احساس ہوا۔۔۔۔
اچانک سے باہر سے کوئی چیز گرنے کی آواز ائی۔۔۔شجیہ چونکی ۔۔۔اس وقت باہر کون ہوگا۔۔۔یکدم اُسے عزیر کا خیال آیا ۔۔۔۔
“خضر اٹھے” ۔۔۔خضر کے کندھے کو جھنجھوڑتے شجیہ نے دھیمی آواز میں کہا اُسے ایسا لگا تھا جیسے چور گھس آئے ہو اُنکے گھر میں ۔۔۔۔
“کیا ہوا”…شجیہ کی آواز پر خضر نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
“خضر باہر سے آوازیں آرہی ہے کوئی ہے۔”۔۔شجیہ نے اُسکی طرف دیکھتے محتاط انداز میں کہا۔۔۔
“اس وقت باہر سخت سیکورٹی ہے کوئی نہیں ہوگا شجیہ “۔۔۔خضر نے دیوار گیر گھڑی پر دیکھتے کہا اور ایک جھٹکے سے شجیہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے اوپر گرایا ۔۔۔۔
ان پانچ سالوں میں وہ مزید حسین ہوگئی تھی ۔۔۔پہلے سے تھوڑی سی موٹی اور چہرے پر خضر کی محبت ہے کے رنگ سجائے مزید اُسکے دل میں اپنے لیے عشق بھر گئی تھی۔۔۔۔
“خضر میں کہہ رہی ہو باہر کوئی ہے اور آپکو رومانس سوجھ رہا ہے”۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے خفگی سے کہا۔۔۔
“کوئی نہیں ہے میری جان وہم ہے تمہارا اب تم نے اٹھا ہی دیا ہے تو رومانس کرنے میں کیا برائی ہے”۔۔۔خضر نے اُسکی ناک سے اپنی ناک رب کرتے خمار بھری آواز میں کہا۔۔۔اور اُسکے ہونٹوں پر جھکنے لگا۔۔۔
“ڈھر !!!!!۔۔۔یکدم سے باہر سے کچھ شیشہ ٹوٹنے کی آواز ائی۔۔۔
“دیکھا میں کہہ رہی ہو کچھ ہے کوئی ہے آپ عمران ہاشمی بننے میں لگے ہے چلے نہ ایسا نا ہو وہ میرے بچے کے کمرے میں گھس جائے۔”۔۔۔شجیہ جو اپنی آنکھیں بند کئے خضر کی سانسیں اپنے ہونٹوں پر محسوس کر رہی تھی باہر سے اتی آواز پر یکدم اُس کے اوپر سے ہٹتی چیخی اب تو خضر بھی پریشان ہوا تھا اُسکی بات پر۔۔۔۔۔
“تم یہی رکو میں ایا ٹھیک ہے”۔۔۔خضر نے بیڈ سے اٹھتے سائڈ ڈرو سے اپنی ریولور نکال کر شجیہ سے کہا۔۔۔
“بلکل نہیں میں بھی آپ کے ساتھ جاؤنگی”۔۔۔شجیہ نے کہتے اپنی سائڈ ڈرو سے اپنی ریولور نکالی ۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلا کر اپنی ضدی بیوی کو دیکھا جو جب سے ڈی ایس پی بنی تھی تب سے اُسکے اندر ایک ہٹلر کی روح آگئی تھی۔۔۔۔
دبے قدموں سے وہ دونوں محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھتے وہ لاؤنچ میں آئے تھے۔۔۔جہاں مکمل خاموشی تھی۔۔۔
کچن سے ہلکی ہلکی آواز وہ دونوں اپنی گن تیار کرتے کچن میں آئے تھے لیکن اگلا منظر دیکھتے وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔
کیونکہ سامنے ہی انکا صاحبزادہ سٹول پر چڑھ کر اپنے لیے میگی بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
“عزیر” ۔۔۔شجیہ نے حیرت سے گنگ لہجے میں اُسے پُکارا۔۔۔
“آپس امو جان میں نے آپ دونوں کو اٹھا دیا مجھے بھوک لگ رہی تھی تو میں میگی بنا رہا تھا”۔۔۔عزیر نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے دونوں سے کہا۔۔۔
اُسکے کہنے پر شجیہ اور خضر نے بیک وقت وہاں لگی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں رات کے تین بج رہے تھے۔۔۔
“اس وقت!!!۔۔۔شجیہ اور خضر نے ایک زبان کہا ۔۔
“ہاں مجھے اس وقت بھوک لگ رہی تھی اور وہ بھی بہت تیز اور مجھ سے غلطی سے یہ تین پلیٹ بھی ٹوٹ گئی “۔۔۔بڑی معصومیت سے عزیر نے اپنا کارنامہ بتایا۔۔۔۔
شجیہ اور خضر کے لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری ۔۔
اُن دونوں کی رات کو بھوک لگنے کی عادت اُن کے بچے میں بھی تھی۔۔۔۔
“آپ دونوں گنز کے ساتھ کیا کر رہے تھے”؟۔۔عزیر نے اُن دونوں کے ہاتھوں میں گن دیکھتے پوچھا۔۔۔
“کچھ نہیں وہ ویسے ہی۔۔”۔شجیہ نے بات پلٹی۔۔۔جبکہ خضر عزیر تک اتا اُسے سٹول پر سے اٹھا کر اپنی گود میں لے گیا تھا۔۔۔
“نو نو آپ دونوں سمجھے گھر میں چوڑ آئے ہیں” ۔۔۔ائی ایم رائٹ۔!۔۔عزیر نے اطمینان سے اُن دونوں کو دیکھتے کہا۔۔۔۔
جس پر وہ دونوں ہنس دیے۔۔۔۔۔
“بیگم بھوک تو مجھے بھی لگی تو کچھ بنا دے آپ”۔۔۔خضر نے ڈائننگ ٹیبل پر رکھی کرسی پر عزیر کو بیٹھا کر شجیہ سے کہا۔۔جس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
ایک نظر پھیلے کچن کو دیکھا اور نفی میں سر ہلاتی میگی بنانے لگی ۔۔۔
رات کے تین بجے وہ دونوں اپنے بیٹے کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے میگی کھا رہے تھے۔۔۔۔عزیر کی باتیں سنتے کبھی وہ ہنس دیتے تو کبھی اُس کی کسی پر بات غصّہ کا دکھاوا کرتے۔۔۔۔
ان پانچ سالوں میں انکا رشتہ مزید مضبوط ہوگیا تھا۔۔۔اُنکی زندگی حسین تھی اُنکی اولاد کے ساتھ۔۔۔پر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔۔۔آزمائشیں تو سب کی زندگی میں اتی ہے۔۔۔۔
💗💗💗
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial