قسط: 4
اب کیا کرنا ہے سر۔۔۔۔۔جون نے گاڑی چلاتے حسام سے پوچھا جو سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے اپنی آنکھیں مونڈے بیٹھا تھا۔۔۔۔
پتہ کرو اپنی میم کے بارے میں کہاں سے علاج ہوا ہے کہاں جاتی ہے کیا کرتی سب کچھ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مجھے معلوم ہونی چایئے۔۔۔۔سنجیدہ آواز میں حسام نے حکم دیا۔۔۔
لیپرڈ کی واپسی مبارک ہو ۔۔۔جون نے مسکراہٹ کے ساتھ حسام کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔
لیپرڈ واپس صرف اُن لوگوں کے لیے ایا ہے جو اُس سے اُس کی محبت دور کر رہے ہیں تمھاری میم کے سامنے میں صرف حسام بن کر رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔صرف حسام میں نہیں چاہتا وہ کبھی لیپرڈ کو یاد کرے ۔۔۔۔حسام کی آواز اب دھیمی تھی۔۔۔
جون نے اپنے خوبرو سر کی طرف دیکھا جو آج بھی وجاہت کا شاہکار تھا ۔۔جسے دیکھتے ہر نظر اُس پر ٹھہر جائے اُسکی قمر محبت نے توڑ دی تھی۔۔۔محبوب کی جدائی نے اُسے جہاں کمزور بنایا تھا اب اُسی محبوب کو پانے کے لیے وہ مضبوط بنا تھا ۔۔۔
جون کے گاڑی روکنے پر حسام نے اپنی آنکھیں کھول کر سامنے بنی پُر تعیش عمارت کو دیکھا۔۔۔۔۔
یہاں پر اپارٹمنٹ لیا ہے آپکے لیے ۔۔۔۔جون نے حسام کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے اُسے بتایا۔۔۔۔۔
جون کے ہاتھ سے اپارٹمنٹ کی چابی تھامتے وہ چپ چاپ بلڈنگ کے اندر بڑھ گیا۔۔۔
فلوقت وہ اکیلا رہنا چاہتا تھا تنہائی میں اپنے رب سے گفتگو کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
یہ سب جو کچھ ہوا یہ سب اعصاب شکن تھا اُسکے سر میں شدید درد تھا۔۔۔
کامل بیہ کو لے کر کیوں اتنا حساس ہو رہا تھا اُسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
اگر بیہ کی یاداشت غائب ہوچکی تھی تو حسام کے لیے یہ ایک طرح سے اچھا تھا وہ نئی یادیں بیہ کے ساتھ بنانا چاہتا تھا ایک نئی شروعات وہ بیہ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔




کامل ضروری کام کرتے اب گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔رات دس بجے کا وقت تھا اُسے پتہ تھا فلک کے علاوہ سب سو چکے ہونگے۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اُسے سامنے ہی فلک نظر ائی ریڈ رنگ کی ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض میں ملبوس بیڈ پر بیٹھی ہاتھ میں کتاب تھامے پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔جبکہ اُسکے بھورے بال کھلے ہوئے اُسکے سرخ رخساروں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔۔۔کامل نے زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ دروازہ بند کیا۔۔۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ جو مگن انداز میں اپنے ہاتھ میں تھامی کتاب پڑھ رہی تھی چونکی ۔۔۔
نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو کامل کو مسکراتے ہوئے اپنی طرف بڑھتا دیکھ وہ بھی مسکرا گئی۔۔۔۔
کھانا لاؤ آپکے لئے۔۔۔فلک نے بیڈ پر بیٹھتے کتاب سائڈ پر رکھتے کامل سے کہا جو اب اُسکے انتہائی نزدیک بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
نہیں بھوک نہیں ہے ابھی۔۔۔کامل نے فلک کے بالوں کی لٹ جو اُسکے سرخ عارض سے ٹکڑا رہی تھی کان کے پیچھے کرتے نرم لہجے میں کہا۔۔
کامل مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔فلک نے کامل کا موڈ صحیح دیکھتے ہمت کرتے اُسکے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے کہا۔۔۔
بولے حیاتی۔۔۔کامل نے اُسکے سفید بے داغ ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے کہا۔۔۔
دیکھے میری بات تحمل سے سنے جلد بازی میں کوئی سخت ردِعمل مت دی جئے گا۔۔۔فلک نے اس بھری نگاہوں سے کامل کی سبز انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
اُسے پتہ تھا جو وہ بولنے جا رہی تھی وہ سنتے کامل نے غصّہ کرنا ہے۔۔
بولے ۔۔کامل کو کچھ کچھ تو سمجھ آگیا تھا کہ اُسکی حیاتی کیا کہنا چاہ رہی ہے اس لیے اپنے لب بھینچ کر فلک کی نوز پن کو اپنی انگلی کی پوروں سے چھوتے ہوئے سنجیدہ آواز میں کہا۔۔۔
انابیہ کو لیپرڈ سے دور نہیں کرے۔۔۔دیکھے انابیہ نہیں جانتی اُسکے ساتھ ماضی میں کیا ہوا ۔۔۔بہتر یہ نہیں کہ وہ لیپرڈ کے ساتھ ایک نئی شروعات کرے۔۔۔۔فلک نے ایک ہی سانس میں کہتے کامل کی سبز آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
کامل نے اپنے جبڑے بھینچے اپنی حیاتی کی بھوری انکھوں میں دیکھا جہاں اُسکے غصّہ کا خوف تھا۔۔۔
آپکو کیسے پتہ یہ انابیہ کے لیے بہتر ہے۔۔۔کامل نے فلک کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے سینے کا حصہ بنایا۔۔۔۔
لیپرڈ بدل گیا ہے میں نے دیکھا اج کس طرح وہ آپ سے اتنی مار کھا کر بھی انابیہ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔۔وہ بیہ سے سچ میں پیار کرتا ہے کامل ۔۔فلک نے کامل کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے اُسکی داڑھی پر اپنا انگھوٹا رب کرتے نرم آواز میں کہا ۔۔۔
دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر بکھر رہی تھی اتنی نزدیکی پر۔۔۔
اگر میں آپ پر کوئی اور عورت لے اؤ آپ پر کسی اور عورت کو فوقیت دوں تو آپ کیا کہے گی اسکو ۔۔۔کامل کی بات پر فلک کی بھوری آنکھوں میں یکدم گلابی پن چھلکا۔۔۔
کیا کہہ رہے ہیں کامل میں آپکی جان لے لونگی صرف ایسا بولنے پر بھی۔۔ یہ سراسر بیوفائی ہے۔۔۔۔کامل کے چہرے پر فلک کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہوئی تھی جو کامل کو تو محسوس نہیں ہوئی لیکن فلک کے ہاتھوں میں درد ضرور ہوا ۔۔۔۔
لیکن کامل کے لبوں سے ادا ہوتے یہ لفظ سنتے وہ تڑپ اُٹھی تھی۔۔۔دل میں جلن کا احساس ہر حد پار کر گیا تھا۔۔اُسے اپنے پورے بدن میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئی ۔۔۔
آپ صرف میرے ایسے بولنے پر اتنا تڑپ اُٹھی ہے اور اسے بیوفائی کہہ رہی ہی تو سوچے ذرا بیہ نے کیسے وہ سب برداشت کیا ہوگا جب اُسکے شوہر نے اُسے اپنی محبت کہنے کے بجائے شجیہ بھابھی کو اپنی محبت کہا تھا۔۔۔کیسے وہ اپنے شوہر کی بیوفائی برداشت کرتے کرتے اپنے شوہر کے ہاتھوں ہی سات گولیاں کھا کر اپنا بچا اپنی یاداشت سب کھو بیٹھی تھی۔۔۔کامل فلک کے گال کو نرمی سے سہلاتے اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے سنجیدگی اور نرمی سے لفظ ادا کر رہا تھا۔۔۔۔
فلک چپ چاپ سی کامل کو سنے گئی کیونکہ ہر ایک لفظ جو وہ کہہ رہا تھا وہ سچ تھا۔۔۔۔
ہر بار نہ جانے کتنی جگہ میں نے پڑھا ہے اور دیکھا ہے کہ عورت مرد کی بیوفائی معاف کردیتی ہے اُسے واپس اپنا لیتی ہے کیوں آخر ۔۔۔جو ایک بار آپکو دھوکا دے سکتا ہے وہ دوسری بار دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔۔۔۔اور آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ مرد دوبارہ بیوفائی نہیں کر سکتا ۔۔۔۔عورتوں کو مضبوط بننا چایئے ۔۔۔وہ ہر بار اگر اپنے مرد کو اُسکی بیوفائی پر معاف کر دے گی تو مرد کو تو فری ہینڈ مل جائے گا وہ بیوفائی کرتا رہے گا اور عورت اسکو معاف کرتی رہے گی۔۔۔۔۔
کامل کی بات میں دم تھا ۔۔۔فلک چپ ہوئی اور کامل کے سینے پر سر ٹکا گئی۔۔۔
پھر کیا ہوگا ہماری بیہ کا کامل اُسکا مستقبل اُسکے آگے اُسکی پوری زندگی پڑی ہے۔۔۔فلک نے انابیہ کے لیے فکرمند ہوتے کہا۔۔۔وہ اُسے اپنی بہنوں کی طرح عزیز تھی شجیہ اور انابیہ یہ دو ہی تو اُسکی جان سے پیاری دوست بن گئی تھی۔۔۔۔
اُسکے مستقبل کی آپ فکر نہیں کرے حیاتی۔۔۔۔میں اُسکے مستقبل کے بارے میں سوچ چکا ہوں ابھی فلحال آپکا شوہر بہت تھک گیا ہے اور اُسے آرام چایئے۔۔۔کامل نے فلک کو بیڈ پر دراز کرتے خمار سے بھری آواز میں کہا۔۔۔
اُسکی آنکھوں میں نظر اتے خمار کو دیکھتے فلک کی پلکیں اُسکے عارض پر سایہ فگن ہوئی ۔۔۔۔
تو سو جائے ۔ تھکن اُتر جائے گی۔۔۔۔۔فلک نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
ہونہہ تھکن تو تب اترے گی جب میں آپکے وجود کے ہر حصے پر اپنی ہونٹوں کی مہر لگاونگا۔۔۔آپکے وجود میں پوری طرح سماتے آپکے پور پور کو اپنی شدت سے بھگوؤں گا تب جاکر یہ تھکن میرے بدن سے جدا ہوگی۔۔۔۔فلک کے چہرے کے ہر نقش پر اپنا بھیگا لمس چھوڑتے کامل جذبوں کی شدت سے دہکتی سانسیں فلک کے چہرے پر چھوڑتے گویا ہوا۔۔۔۔
اپنے چہرے پر پڑتی کامل کی دہکتی سانسیں اور اُسکا بھیگا لمس محسوس کرتے فلک نے اپنی باہوں کا حصار کامل کی قمر کے گرد باندھا۔۔۔۔۔
جبکہ اُسکے لفظوں سے اُسکے دل میں تلاطم برپا ہوا۔۔۔۔
کامل کی نظر اُسکے لرزتے گلابی لبوں پر پڑی اور پوری شدت کے ساتھ وہ اُس پر جھک ایا۔۔۔
قطرہ قطرہ فلک کی سانسیں خود میں آندیلتے وہ فلک اور اپنی جان ایک کر گیا تھا۔۔۔۔
کامل کی شدتوں پر اپنی بکھری سانسیں بحال کرتی وہ کامل کے گرد اپنا حصار مزید سخت کر گئی ۔۔۔۔۔




پنک رنگ کے سکرٹ اور سفید رنگ کی شرٹ میں کھلے سنہری بالوں کو پانی ٹیل میں باندھے وہ سدرہ کے ساتھ یونی میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔
ایک نظر یونی کی عمارت کو دیکھا۔۔۔۔
ہر طرف طلباء کو دیکھتے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دور گئی سدرہ بھی ستائش سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
ہماری کلاس کہاں پر ہے۔۔۔یونی کے بیچ میں کھڑے اُس نے سدرہ سے اشارہ کرتے پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں اب یہ تو معلوم کرنا پڑے گا۔۔۔۔سدرہ نے کہتے ادھر اُدھر اپنی نظریں گھمائی ۔۔۔۔
تم جاؤ معلوم کر کے اؤ میں یہی تمہارا انتظار کرتی ہو۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے امنہ نے سدرہ سے کہا۔۔۔
ٹھیک میں اتی ہوں تم یہی پر رہنا اوکے۔۔۔سدرہ نے اثبات میں سر ہلایا اور کہتی ہوئی وہاں سے آگے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
اوہ کیا لڑکی ہے۔۔۔اپنے ساتھی کی آواز پر وہ جو اپنے گروپ کے ساتھ ایک طرف کھڑا اسموکنگ کر رہا تھا ۔۔اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
کہاں ہے۔۔۔سنجیدگی سے سگریٹ کا آخری کش لیتے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا۔۔۔اور سگریٹ ایک طرف کو پھینکی۔۔۔
وہ دیکھ سامنے سنہری پری ۔۔۔۔اُسکے ساتھی دوست نے سامنے کھڑی امنہ کو دیکھتے خباثت سے کہا۔۔۔
زرقان نے اپنے دوست کی بات پر سامنے دیکھا۔۔۔
وہ واقعی میں سنہری پری تھی سنہری بال جو اُسکی قمر پر ناگن کی طرح جھول رہے تھے ہلکی ہلکی دھوپ میں اسکی سفید رنگت دمک رہی تھی نازک سے نین نقش لبوں کو دانتوں تلے دباتی وہ اپنی ساحرانہ آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھتی ذرقان کو سٹیل کر گئی تھی۔۔۔
ہزاروں نگاہیں اُس پر آکر تھم جاتی تھی اور اج اُسی مغرور زرقاں خان کی نظریں اس سنہری پری پر ٹھہر گئی تھی۔۔۔۔
وہ اپنے کان میں پہنی بالی کو اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے ملستے بڑی گہری نظروں سے امنہ کو دیکھ رہا تھا……
بیساختہ اُسکے قدم امنہ کی طرف بڑھے اپنے پیچھے اپنے دوستوں کے قدموں کی آواز پر وہ تھما ۔۔۔
پلٹ کر سنجیدہ نظروں سے اُنکی طرف دیکھا۔۔۔
تم میں سے کوئی نہیں آئے گا وہاں۔۔۔سنجیدگی سے اپنے دوستوں کو کہتے وہ امنہ کی طرف بڑھا ۔۔۔
پاس سے گزرتے لڑکے کے ہاتھ میں تھامی بال اپنے ہاتھ میں تھامی ۔۔۔
خود سے کچھ قدم کی دوری سے اتی تیز مردانا پرفیوم کی خوشبو محسوس کرتے وہ جو اطراف کا جائزہ لے رہی تھی سامنے متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔
اور سامنے بھورے بال جس کو جیل کی مدد سے اچھے سے سیٹ کیا ہوا تھا ۔۔بھوری ہی داڑھی ۔۔اور چمکتی شہد رنگ آنکھیں۔۔۔۔۔
امنہ کو سامنے سے اتا نوجوان اچھا خاصا ہینڈسم لگا۔۔۔
لیکن جب نظر اُسکے حلیہ پر پڑی تو امنہ کو لگا اُس نے جیسے کوئی کڑوا بادام چبا لیا ہوا۔۔۔
پینٹ جو گھنٹوں سے پٹھی ہوئی تھی براؤن شرٹ جو اُسکے سینے سے چپکی ہوئی تھی ۔۔جبکہ شرٹ کے اوپری چار بٹن کھلے ہونے کے باعث اُسکا کشادہ سینا واضح ہو رہا تھا۔۔ہاتھوں میں ڈھیر سارے بینڈ تو انگلیوں میں ڈھیر ساری مختلف پتھروں کی انگوٹھیاں ۔۔۔گلے میں پہنی وہ چین جو اُسکے چلنے سے بار بار اُسکے سینے سے ٹکڑا رہی تھی۔۔۔۔۔
ہاتھ میں بال تھامے اپنی طرف اس حسین مگر عجیب نوجوان کو بڑھتے دیکھ اُسکے مُںہ کا زاویہ بگڑا۔۔۔۔
ذرقان جو اپنی شہد رنگ آنکھیں اس سنہری پری پر ہی ٹکائے اسکی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔۔۔امنہ کی ہیزل بلیو انکھوں میں اپنے لیے ستائش محسوس کرتے اس نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی
وہ وجاہت کا شاہکار تھا اور اس بات کا اُسے غرور تھا ۔۔صنف مخالف ہو اور اُسے دیکھ کر فدا نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا بقول زرقان کے۔۔۔۔
لیکن امنہ کی آنکھوں میں اُبھرتی ستائش دو پل کی تھی۔۔۔اور اگلے ہی پل اُسکے منہ کے بگڑتے زاویے اور آنکھوں میں اپنے لیے چھائی ناگواری دیکھتے اُس نے اپنے گلابی لب بھینچے اور ایک جھٹکے سے بال امنہ کی طرف پھینکی۔۔۔
امنہ جو منہ کے زاویہ بگاڑے زرقان کو ہی دیکھنے میں مگن تھی اچانک اپنے سر پر انتہائی زور سے بال لگنے کی وجہ سے پشت کے بل زمین پر گری ۔۔۔
زمین پر گرنے سے قمر میں شدید درد اٹھا جبکہ ہاتھوں کی کہنیوں پر بھی رگڑ کا احساس ہوا۔۔
سسی۔۔درد سے اُسکے منہ سے سسکی اُبھری۔۔۔
ہاتھ میں تھامی کتاب بھی اُس سے دو قدم کی دوری پر گری ۔۔۔
قہقہوں کی آواز محسوس کرتے اُسکا رنگ شرمندگی سے سرخ ہوا ہیزل بلیو انکھوں میں درد اور اتنے لوگوں کے سامنے گرنے پر اہانت کے سبب نمی اُبھری۔۔۔۔
جب یکدم اپنے سامنے ایک سفید بینڈز سے بھرا مضبوط مردانا ہاتھ دیکھتے اس نے اپنے لب بری طرح دانتوں تلے چبائے ۔۔۔اور غصّہ سے لال بھبوکا چہرہ لیے ہاتھ بڑھانے والے کی طرف دیکھا ۔۔
جو اب اپنے اُن دو ڈمپل کی نمائش کرتے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
ائی ایم سو سوری ڈارلنگ ۔۔۔۔وہ تم مجھے نظر نہیں ائی ورنہ بال تمیں مارنے کا ارادہ نہیں تھا میرا۔۔۔بھاری مضبوط مردانا آواز میں وہ اپنا ہاتھ امنہ کی طرف بڑھائے گویا ہوا۔۔۔۔
اور امنہ کا دل کیا سامنے کھڑے انسان کا منہ توڑ دے۔۔۔جبکہ اپنے آنسوؤں پر بھی غصّہ ایا جو بہتے ہی جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔
زرقان کے ہاتھ اور بات کو نظرانداز کرتے وہ خود اُٹھی۔۔۔۔اطراف میں دیکھا تو نہ جانے کتنی ہی نظریں اُس پر مرکوز تھی ۔۔جن کی آنکھوں سے صاف واضح ہو ربا تھا کہ وہ اُس پر ہنس رہی ہے ۔۔۔جبکہ ظرفاں کے ڈارلنگ بولنے پر اُس کو اور بھی غصّہ ایا تھا ۔۔۔
آپ انتہائی گندے انسان ہے ایسے کیسے کسی کو بھی گہرا سکتے تمیز نام کی چیز ہے بھی یا نہیں آپ میں۔۔بتیمز انسان ۔۔۔۔آپکی وجہ سے سب مجھ پر ہنس رہے ہیں ۔۔۔
اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے وہ اپنا سارا غصّہ نکال رہی تھی ۔۔اور زرقان ہوںکوں کی طرح اُسکے ہاتھوں کو دیکھتا تو کبھی اُسکے چہرے کے تاثرات کو ۔۔۔
سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کیا بولنا چاہتی تھی ۔۔۔
جبکہ امنہ کے ہاتھ میں موجود وہ بریسلیٹ جسکی آواز اُسکے کانوں میں پڑتے اُسکا دماغ سن کر رہی تھی ۔۔۔۔
منہ سے بولوں یہ کیا اشارہ کر رہی ہو وہ جھنجھنا کر گویا ہوا۔۔۔
اور امنہ نے گہرا سانس بھرا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے اپنی عقل کو کوسا ۔۔سامنے کھڑا انسان کیسے اُسکے ہاتھ کے اشارے سمجھ سکتا تھا ۔۔۔
لیکن سامنے کھڑا انسان اتنا بیوقوف بھی نہیں تھا جو یہ نہ سمجھ پاتا کہ وہ بول نہیں سکتی ۔۔۔
اُسے یہی لگا کہ اب بھی زرقان اُسکا مذاق ارا رہا ہے اُسکی کمی کا ۔۔۔۔
ہیزل بلیو انکھوں میں آنسو روکنے سے سرخی بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔۔۔
جھکتے اپنی کتاب اٹھاتے اُس نے ذرقان کو دیکھتے اپنے ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو باہم ملایا اور پھر کھولا۔۔۔
جیسے پڑے مر میری جان چھوڑ ۔۔۔اور تیزی سے ایک طرف کو بڑھ گئی ۔۔۔۔
زرقان بت بنا سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اُسکے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔۔
یہ اتنی سی لڑکی جو اُسکے کندھے تک اتی تھی اُسے اُلجھا گئی تھی ۔۔۔۔۔
اب بھی اُسے اپنے کانوں میں اُسکے بریسلیٹ سے نکلتی وہ آواز گونجتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔
عجیب لڑکی تھی مجھے ہی اُلجھا گئی۔۔۔۔زرقان کہتا اپنی کان میں پہنی بالی کو گھماتے واپس اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
تنگ وہ اُسے کرنے ایا تھا لیکن اب ہو خود گیا تھا ۔۔آنکھوں کے سامنے وہی دو ہیزل بلیو نمی اور غصے کی آمیزش لی آنکھیں گردشِ کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔جبکہ جب وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے اُس سے بات کر رہی تھی وہ منظر اُسکی آنکھوں کے پردوں پر جم گیا تھا۔۔۔۔۔۔
ائی تھینک وہ بول نہیں سکتی۔۔۔۔زرقان کے ساتھی نے انگلش میں کہا۔۔۔۔
دوست کی بات پرزرقان کے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔۔
اُسے وہی لمحہ یاد آیا جب وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی انکھوں میں غصّہ لیے کھڑی تھی۔۔۔۔تو اس کا مطلب وہ بول نہیں سکتی تھی ۔۔
اُسکی کمی کا سنتے دل انجانے احساس سے دھڑکا ۔۔۔ایک سحر سا تھا جو وہ اُس پر پھونک گئی تھی۔۔۔۔
اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُس نے اپنا سر جھٹکا۔۔۔۔جیسے امنہ کا خیال ذہن سے نکالنا چاہا ہو۔۔۔



حسینہ تم یہاں بیٹھی ہو اور میں تمہیں ہر جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔۔یونی کے ایک کونے پر بنے ایک خوبصورت سے فاؤنٹین کی دیوار پر امنہ کو چہرہ جھکائے بیٹھے دیکھتے سدرہ نے اُسکے پاس اتے ہوئے کہا۔۔۔
امنہ نے اپنی بھیگی آنکھیں اٹھا کر سدرہ کی طرف دیکھا۔۔۔
کیا ہوا ہے یہ مٹی کیوں لگی ہے۔۔۔سدرہ نے پریشانی سے اُسکے پاس بیٹھتے اُسکے کپڑوں پر لگی مٹی دیکھتے اور آنکھوں میں جمی نمی دیکھتے پوچھا۔۔۔
سدرہ کے پیار سے پوچھنے پر امنہ رو پڑی اور روتے روتے اُسے اشارتاً بتایا۔۔۔۔۔
افف اللہ چلو مجھے بتاؤ کون تھا وہ میں اُسے زندہ نہیں چھوڑوںگی ۔۔۔دیکھنا یونی کی چھت سے اسکو نیچے پھینک دونگی میں ۔۔۔سدرہ نے نہایت غصے میں امنہ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں رہنے دو پلیز سدو تمہیں میری قسم۔۔۔مجھے ابھی یہاں نہیں رہنا بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔امنہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتے ہوئے کہا۔۔۔
اور سدرہ اپنے لب بھینچ گئی جانتی تھی وہ ان سب چیزوں سے بہت دور رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
ایک شرط پر تُم نے ان حسین آنکھوں کو اور اذیت نہیں دینی چپ ہو جائو۔۔۔سدرہ نے پیار سے اُسکے آنسو صاف کرتے شرط رکھی۔۔۔۔
اور اپنی جیب سے رومال نکالتے اُس سے امنہ کے کپڑوں پر لگی مٹی صاف کی ۔۔۔۔
جبکہ امنہ کے ہاتھوں پر رگڑ دیکھتے اُسکا غصّہ دوبارہ نمودار ہوا تھا ۔۔
لیکن ضبط کر گئی۔۔۔۔
اُسکا کوئی بہن بھائی نہیں تھا امنہ اُسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی اور امنہ پر کوئی تکلیف وہ کبھی برداشت نہیں کر پاتی تھی۔۔۔۔
امنہ کا ہاتھ تھامتے وہ یونی سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔




پولیس یونی فوم میں سر پر حجاب باندھے سادگی بھرا چہرہ لیے اسکول کے باہر کھڑی وہ عزیر کا انتظار کر رہی تھی جب سامنے سے ہی اُسے اپنا بیٹا اتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔۔
اُسکی کاربن کاپی ۔۔۔بھورے بال نیلی آنکھیں اور صحت مند وجود۔۔۔
ماما ۔۔عزیر نے شجیہ کے پاس اتے کہا۔۔
ماما کی جان کیسا گزرا آپکا دن۔۔۔۔شجیہ نے اُسکا بیگ اپنے ہاتھ میں لیتے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔
بہت اچھا گزرا۔۔۔عزیر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
چلے گڈ ۔۔۔یہ لے ماما آپکے لئے فریش جوس لے کر ائی ہے۔۔۔شجیہ نے ڈرائیونگ سیٹ پڑ بیٹھتے عزیز کی طرف جوس بڑھایا۔۔۔۔
شکریہ ماما۔۔۔عزیر نے ماں کا شکریہ ادا کیا۔۔۔
اور شجیہ مسکرا دی اُسکی بات پر۔۔۔۔اور گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔۔
ابھی وہ راستے میں ہی تھی جب کوئی وجود اُسکی گاڑی سے ٹکرایا ۔۔۔شجیہ نے فوراً سے گاڑی روکی۔۔۔
عزیر آپ باہر نہیں نکلے گے چاہے کچھ بھی ہوجائے گاڑی کو لاک کریں ۔۔۔شجیہ نے دیش بورڈ سے اپنی گن نکال کر عزیر کو ہدایت دی اور گاڑی لوک کرتے باہر نکلی ۔۔۔۔
عزیر ماں کی بات مانتے گاڑی کے اندر ہی بیٹھا رہا ۔۔۔
شجیہ جیسے ہی گاڑی سے دو قدم دور ہی سامنے ہی بارہ تیرا سال کی ایک معصوم بچی کو جو بہتی نگاہوں سے اپنی کہنی سے بہتے خون کو دیکھ رہی تھی چونکی۔۔۔۔۔شجیہ کی نظر تو اُسکے وجود پر زیب تن کپڑوں کو دیکھتے ہی جم گئی تھی۔۔۔۔۔
وہ فوراً سے اُس بچی کے پاس ائی جس کا بکھرا حلیہ اُسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔
بیٹا آپ ٹھیک ہے۔۔۔ایک نرم آواز پر اُس بچی نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔۔۔
معصومیت کے ساتھ ساتھ حسن۔۔۔۔وہ بچی انتہاء کی پیاری تھی۔۔۔
غزالی کالی آنکھیں جو گھنی پلکوں سے مزین تھی کھڑی ناک اور پتلے کٹائو دار ہونٹ۔۔۔۔
میں ٹھیک نہیں ہُوں پلیز مجھے بچا لے ورنہ وہ لوگ مجھے لے جائے گے ۔۔۔۔ایک مہربان چہرہ اور آواز سنتے اُس بچی نے بلکتی آواز میں کہا ۔۔۔۔
شجیہ نے پیچھے کی طرف دیکھا جہاں ایک روڈ تھا جو دوسری طرف جا رہا تھا۔۔۔
اس نے ایک نظر بچی کو دیکھا جو آنکھوں میں اُمید لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
یہ کوئی جال بھی ہوسکتا تھا اُسے سمجھ نہ ایا وہ کیا کرے۔۔۔خضر اور اُسکے لاکھ دشمن تھے جو اُسکی اس فیلڈ میں انے کے بعد مزید بڑھ گئے تھے۔۔۔۔۔
لیکن اُس بچی کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے اُس نے ایک منٹ میں اپنا فیصلہ لیا۔۔۔
چلو بیٹا اٹھو ۔۔۔شجیہ نے نہایت نرمی سے اُس بچی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اٹھایا جو اُسکے ساتھ اٹھتی شجیہ کی گاڑی تک ائی تھی۔۔۔۔
شجیہ نے اُسے پچھلی سیٹ پر بیٹھایا۔۔۔اور جلدی سے اپنا رومال اُسکی کوہنی پر رکھا۔۔۔اور خود جاکر ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوئی۔۔۔۔۔
ماما کون ہے یہ۔۔۔۔عزیز نے پیچھے بیٹھی بچی کو دیکھتے اپنی ماں سے پوچھا۔۔
یہ آپکی دوست ہے اور انکو ہماری وجہ سے چوٹ لگ گئی ہے اسی لیے ہم انہیں اپنے گھر لے کر جا رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے موبائل پر خضر کو میسج ٹائپ کرتے عزیر کو بتایا اور بیک مرر سے اُس بچی کو دیکھا جو عزیر کے ہاتھ میں پکڑے جوس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
آپ یہ پی لیں آپی اچھا فیل کرے گی ماما نے فریش بنایا ہے۔۔۔اور یہ چاکلیٹ بھی۔۔۔عزیر بھی شاید اُس بچی کی نظر اپنے جوس پر دیکھ چکا تھا اسی لیے اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا اور اپنی جیب میں رکھی چاکلیٹ بھی اُسے دی۔۔۔۔
بچی نے فوراً سے عزیر کے ہاتھ سے جوس تھاما اور پینے لگی۔۔۔۔
اُسے ایسے دیکھتے شجیہ سمجھ گئی تھی وہ نہ جانے کب سے بھوکی پیاسی تھی۔۔۔
گھر لے جاکر آرام سے وہ اس بچی سے سب جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔
اُسکی چھٹی حس اُسے کچھ غلط ہونے کی نشاندھی کر رہی تھی بچی کا لباس دیکھتے ہی اُسے احساس ہوا تھا جیسے کچھ گڑبڑ ہے اُسکے کپڑے جگہ جگہ سے پٹھے ہوئے بہت کچھ غلط ہونے کی نشاندھی کر رہے تھے۔۔۔شجیہ نے موڑ کاٹتے ہوئے دوبارہ اُس بچی کو دیکھا جو ایک طرف سکر کر لیتی اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی۔۔۔۔