قسط: 6
کتاب کو بند کرتے اُسکا دماغ اس وقت الجھنوں میں اُلجھا ہوا تھا ابھی دو دن پہلے تو اُسے اس شخص کا ذہنی توازن صحیح نہ لگا تھا اور اب اچانک سے وہ اُسکا پروفسیر بن کر اُس کے سامنے تھا۔۔۔
وہ جتنا اس انسان کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی اتنا ہی یہ انسان اُسکے ذہن پر قابض ہوچکا تھا اج بھی کتنی مشکلوں سے وہ اپنے دماغ کو فریش کرتی یونی ائی تھی اور اج پھر یہ شخص اُسے نظر آگیا تھا۔۔۔۔
انابیہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حسام نے اُسے پہنچانا کیوں نہیں اُسے لگ رہا تھا اُسکا سر پھٹ جائے گا۔۔۔۔
لیزا تم چلو میں ائی ۔۔۔۔انابیہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے لیزا سے کہا اور کلاس سے باہر نکلی۔ ۔
وہ اور اپنے دماغ پر بوجھ نہیں رکھ سکتی اُسے حسام سے بات کرنی تھی کہ آخر کیوں وہ اُس دن اُس سے وہ سب کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
حسام سے بات کرنے کا سوچتے ہی اُسکی دل کی دھڑکن جو اپنے معمول پر آگئی تھی پھر بڑھی۔۔۔۔۔
اب تمہارا کیا مسئلہ ہے کیوں اُس انسان کے بارے میں سوچتے ہی بھاگنے لگ جاتی ہو۔۔۔۔کوریڈور میں چلتی وہ اپنے دل کی دھڑکنوں سے مخاطب تھی۔۔۔
اُسے زیادہ ڈھونڈا نہیں پڑا سامنے ہی وہ اُسے اپنی طرف پشت کیے نظر ایا۔۔۔
انابیہ نے اپنے لبوں پر زبان پھیرتے اپنے اندر ہمت پیدا کی۔۔۔۔اور قدم قدم چلتی حسام سے دو قدم کی دوری پر کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔
وہ جو کلاس سے نکلتے ہی جون کو میسج کرتے اُسے یہاں بلا رہا تھا اپنے پیچھے کسی کی قدموں کی آہٹ محسوس کرتے وہ مسکرایا۔۔۔۔
آہٹ سے وہ پہچان گیا تھا کہ اُسکی پشت پر کون ہے۔۔۔جب اُسے وہی مدھم آواز اپنی پشت سے سنائی دی اور حسام کے لبوں پر مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔۔۔
سر۔۔۔اپنے سینے سے لگی کتاب پر اپنی گرفت اور مضبوط کیے انابیہ نے حسام کی چوڑی پشت کو دیکھتے پُکارا۔۔۔۔
حسام نے فون فوراً سے اپنی جیب میں ڈالا اور پلٹا جہاں وہ اپنی کالی آنکھوں سے اُسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔
حسام کو یہ دو قدم کی دوری بھی انتہاء کی چبھی دل نے شدت سے کہا اس دو قدم کی دوری کو مٹاتے سامنے کھڑے وجود کو اپنے سینے میں بھینچ لے ۔۔۔
جی۔۔۔حسام نے اپنی سوچوں پر قابو پاتے گھمبیر آواز میں انابیہ کے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا جو مضطرب لگ رہا تھا۔۔۔۔
جیسے وہ کچھ پوچھنا چاہتی ہے لیکن پوچھ نہیں پا رہی ہے ۔۔۔
وہ مجھے آپ سے۔۔۔مجھے پوچھنا تھا پرسوں زو ۔۔۔انابیہ کو سمجھ نہ ایا کس طرح سے اپنی بات پوری کرے حسام کی سیاہ نظروں کی تپش اپنے چہرے پر پڑتی اُسے مزید کنفیوز کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حسام اُسے اس وقت کنفیوز سی انتہاء کی پیاری لگی دل چاہا اُسکے ان گلابی لبوں کو ابھی اسی وقت اپنی شدت سے لال کرتے بھگو دے جو بے ربط جملے ادا کرتے اُسکا ضبط آزما رہے تھے۔۔۔۔
حسام نے ایک نظر کوریڈور میں دیکھا جہاں اس وقت زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔۔۔پھر واپس اپنی نظریں وہ انابیہ پر محدود کر گیا۔۔۔۔
آپ جو پوچھنا چاہتی ہے ریلیکس ہوکر پوچھے ۔۔۔حسام نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
انابیہ یک تک حسام کے لبوں پر ٹھہری مسکراہٹ کو دیکھے گئی جانے کیا سحر تھا اس مسکراہٹ میں ۔۔۔۔
حسام جانتا تھا اُسکی مسکراہٹ سامنے کھڑے وجود کو انتہا کی پسند تھی۔۔
وہ مجھے پوچھنا یہ تھا آپکو میں یاد ہوں۔۔۔۔انابیہ حسام کے لبوں پر جمی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے بیوقوفانہ جملہ بول اُٹھی۔۔۔۔
اور حسام اُسکے گم انداز میں کہیں گئی بات پر پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سر جھکائے ہنس دیا۔۔۔
انابیہ کی دل کی دھڑکن تھمی اور پھر تیزی سے دھڑک اُٹھی۔۔۔۔
یہ مسکراتے ہوئے کتنے پیارے لگتے ہیں۔۔۔یہ بات انابیہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔۔۔۔
جی بلکل آپ ہی تو اچھی طرح یاد ہے ۔۔۔حسام نے دوبارہ انابیہ کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
جییییییی۔۔۔۔انابیہ حسام کی بات میں ہوش میں ائی جی کو لمبا کرتے حیرت سے حسام کی طرف دیکھا۔۔۔۔
میرا کہنے کا مطلب تھا آپ وہی زو والی بات کے بارے میں بات کر رہی ہے شاید۔۔۔حسام نے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے سنجیدگی سے کہا ۔۔
جی میں اُسی کے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔۔انابیہ جو حسام کی پہلی بات پر حیرت زدہ ہوئی تھی ساتھ ہی اُسکے دل کی دنیا میں چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوتے اُسے محسوس ہو رہے تھے گویا ہوئی۔۔۔۔
میں اُسکے لیے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں دراصل آپکی شکل میرے بہت قریبی انسان سے ملتی ہے بہت قریبی انسان سے۔۔۔۔حسام نے ایک قدم کی دوری کو مٹاتے ہوئے اُسکے چہرے سے تھوڑے فاصلے پر اپنا چہرے رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔۔
اور اس انسان کو اپ نے مار دیا تھا۔۔۔۔انابیہ یکدم حسام کی کالی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ربط سے بولی۔۔۔
انابیہ کی بات پر حسام کا دل خوف سے دھڑکا اُس نے انابیہ کی آنکھوں میں غور کرتے جانچنا چاہا کہ ایا وہ یہ بات پوچھ رہی تھی یہ بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔
نہیں میں نے اُسے نہیں مارا ۔۔۔۔حسام کی زبان سے جھوٹ ادا ہوا وہ سچ بتا کر انابیہ کے دل میں اپنے لیے بدگمانی نہیں ڈالنا چاہتا یہ پھر وہ سچ کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
پھر آپ کہہ تو یہی رہے تھے یہ یہی کہنا چاہتے تھے ۔۔۔۔انابیہ کی آنکھیں اب ہر تاثر سے پاک تھی وہ بے تاثر نگاہوں سے حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
حسام کو انابیہ کا یہ انداز دیکھ کر شائبہ ہوا جیسے وہ کچھ بھی نہیں بھولی ہے اُسکی یاداشت نہیں گئی اور یہ سوچتے حسام کا خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا وہ کسی حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔۔۔ مجھے آپکی شکل میں اُسکی شکل نظر ائی جو مجھ سے بہت دور ہے شاید میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا تھا اسی لیے اُس دن وہ سب کر بیٹھا اور اسکے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہو۔۔۔۔حسام کو اتنی ہوا میں بھی گھٹن کا احساس ہو رہا تھا یہ سب بولتے ہوئے۔ ۔۔
انابیہ نے حسام کے کہنے پر اُس سے اپنی نظریں پھیری ۔۔۔۔
کون تھی وہ آپکی۔۔۔اپنی نظریں پھیرتے انابیہ نہ پوچھا۔۔۔
اب یہ تھوڑا پرسنل سوال ہے جو میں اپنی اسٹوڈنٹ کو نہیں بتا سکتا۔۔۔۔حسام نے اپنی گردن رب کرتے ہوئے انابیہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
جس نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔پھر شرمندگی سے اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔
وہ اب اُسکا پروفسیر تھا اور وہ اُسکی اسٹوڈنٹ ایسے میں وہ اُس سے اس طرح کے سوال تو نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
ائی ایم سوری مجھے بس تھوڑی کنفیوژن تھی جو اب دور ہوگئی آپکو یقیناً غلط فہمی ہوئی ہوگی مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔انابیہ نے مسکرانے کی سعی کرتے کہا۔۔۔۔
جی بلکل اور اٹس اوکے ۔۔۔حسام نے اُسکے حسین چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔
جب انابیہ نے اُس پر آخری نظر ڈالی اور آگے بڑھتی چلی گئی۔۔۔۔
حسام کی تپش زدہ نظروں نے دور تک اُسکی پشت کو تکا تھا اپنی منزل کی جانب اُس نے ایک قدم بڑھایا تھا ۔۔۔۔اور انہی راستوں پر چلتے وہ اپنی منزل اپنی بیہ تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔..




سر۔۔۔جون نے حسام کے پاس اتے کہا جو اب تک اُسی راستے کو تک رہا تھا جہاں سے بیہ گئی ہے ۔۔۔
جون کی آواز پر حسام نے اُسکی طرف دیکھا جو اُسکے ساتھ یہاں پر فٹ بال کوچ بن کر ایا تھا۔۔۔
مجھے لگ رہا ہے جون بیہ کی یاداشت نہیں گئی ہے وہ سب جانتی ہے۔۔۔حسام نے جوں سے کہا۔۔۔
اُسکی آواز میں واضح خوف تھا اُسکی کالی آنکھوں میں بھی اب اضطراب سا تھا۔۔۔
آپکو ایسا کیوں لگا سر ۔۔۔جون نے اُس سے پوچھا ۔۔۔
ایک پل کے لیے نہ جانے کیوں ایک پل کے لیے اُسکا ہے تاثر چہرہ دیکھتے اور جس طرح اُس نے مجھ سے بات کی وہ محسوس کرتے مجھے لگا ۔۔حسام کو بیہ کی تمام باتیں یاد ائی ۔۔۔۔
تو کیا وہ ناٹک کر رہی ہے اُنکی یاداشت نہیں گئی ہے ۔۔۔۔جون کو يقیں نہ ایا۔۔۔۔
یہ میں نہیں جانتا جون اُسکی ساری میڈیکل رپورٹس میں دیکھ چکا ہوں اُسکے ڈاکٹر سے بھی میں بات کر چکا ہے جن کے مطابق اُسکی یاداشت واقعی میں کھو گئی ہے۔۔۔۔حسام نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے پریشانی سے کہا۔۔۔
پھر آپکا وہم ہوگا سر یہ۔۔۔جون نے حسام کے پریشان چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔۔
دعا کرو جون میرا وہم ہی ہو میں نہیں چاہتا وہ پرانی تکلیف دہ باتوں کو یاد رکھے میں اُسکی اور اپنی نئی یادیں بنانا چاہتا ہوں جون۔۔۔۔حسام کے کہنے پر جون نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
جب اُسکی آنکھوں کے سامنے سدرہ کا غصے سے لال ہوتا چہرہ لہرایا اُسکے لبوں کو پر مسکراہٹ نے ڈیرہ جمایا ۔۔۔۔
خیریت ہے۔۔۔۔حسام نے جون کی طرف دیکھتے ایک آبرو اٹھاتے پوچھا۔۔۔۔
خیریت نہیں لگ رہی سر تیس سال کی عمر میں اب لگ رہا جیسے زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔۔۔سدرہ کے چہرے کو تصور میں رکھتے جون نے کہا۔۔۔۔۔
چلو اچھا ہے تمہیں بھی تمہارا مقصد مل گیا۔۔۔حسام نے سنجیدگی سے کہا اور دونوں یونی سے نکلتے چلے گئے ۔۔۔۔۔




وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیتی زرقان کے بارے میں سوچی جا رہی تھی اُسے اُسکے بارے میں سوچنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔
آنکھوں کے پردوں پر زرقان کی وہی شہد رنگ شوخ نظریں لہرا رہی تھی جو وہ اُس کے چہرے پر مقید کیے ہوئے تھا۔۔۔۔
زرقان کا اُس سے معافی مانگنا اُسے یہ کہنا کہ اُسے کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو اُسے بولے اُسکے دل میں عجیب سے احساسات پیدا کر گیا تھا۔۔۔
یہ سب زندگی میں پہلی دفعہ اُسکے ساتھ ہوربا تھا کسی کی گرم نظریں خود پر پڑتے محسوس کرتے اُسکے دل کی دھڑکنیں بڑھی تھی۔۔۔۔
صنف مخالف کی ذرا سی توجہ اُسکے دل کی کچی زمین پر ننھے نھنے پھول کی کلی کھلا چکی تھی جو ہلکے ہلکے پھول میں بدلنے والی تھی ۔۔۔۔
ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ زرقا ن کے بارے میں سوچتے اپنی آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔
یہ جانے بنا یہ احساسات جو وہ ابھی محسوس کر رہی جو اُسے حسین لگ رہے ہیں آگے جاکر کوئی انہیں بیدردی سے نوچ پھینکنے والا ہے۔۔۔۔




میں بھی پاگل ہوں اتنا بڑا ملک ہے ہوجاتی ہے غلط فہمی ہر کسی کو ۔۔۔۔انابیہ ریلنگ کے ساتھ لگی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھتے خود سے مخاطب تھی۔۔۔۔
اور میں بھی نہ۔ اُنہیں پاگل سمجھ بیٹھی لو بھائی وہ تو پڑھے لکھے اتنے اچھے پروفسیر ہے ۔حد ہوتی ہے ایک چیز کی ۔۔۔اُس نے خود کو کوسا۔۔۔
ویسے وہ کہہ رہے تھے انکا کوئی عزیز ہے جسکی شکل مجھ سے ملتی ہے۔۔۔کوں ہوگی وہ کیا اُنکی بیوی ہوگی یہ گرلفرینڈ۔۔۔۔انابیہ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے سوچا اور نہ جانے کیوں آخری بات سوچتے اُسکے دل میں عجیب سا احساس ہوا۔۔۔
نہیں نہیں شادی شدہ تو نہیں لگتے وہ مجھے اتنی عمر بھی نہیں ہے۔۔ مجھے تو لگتا بہن ہوگی اُنکی۔۔۔۔۔خود کو جیسے دلاسہ دیا۔۔۔۔۔
لیکن تمہیں خود کو تو لگ رہا تھا کہ وہ جسکے بارے میں بات کر رہے تھے وہ انکا عشق ہے۔۔۔اُسکے اندر سے آواز ائی اور انابیہ کو اپنی ہی کہیں بات اس وقت انتہائی زہریلی لگی۔۔۔۔
مجھے کیا ۔۔۔جو کوئی بھی ہو مجھے کیوں اتنا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔بس تھوڑے بہت ہینڈسم ہی تو ہے ۔۔۔اس میں کیا ہے اور بھی تو بہت سے لڑکے ہینڈسم ہے ۔۔۔۔لیکن مجھے ایسا کیوں لگتا ہے جب جب میں اُنکی شکل دیکھتی ہُوں ایسا لگتا ہے جیسے نہ جانے کب سے انکو جانتی ہو اور یہ دل ۔۔۔۔
تم نہ سدھر جاؤ ٹھرکی ہوگئے ہو یار جہاں اُس انسان کی شکل دیکھی وہی اپنی رفتار سے زیادہ تیز دھڑکنے لگے دل کا دورہ پرواؤ گے کیا۔۔۔۔۔وہ خود سے کہتی پھر اپنے دل سے مخاطب ہوئی جس نے اُسے پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔
ریلنگ پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے وہ چپ چاپ چاند کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
یہ بات اُسکی سمجھ سے باہر تھی اج کیوں حسام کو دیکھتے وہ اپنے دل اور آنکھوں پر قابو نہیں رکھ پائی تھی اپنے دل کے بدلتے احساسات اُسکی بھی سمجھ سے باہر تھے۔۔۔
دو دن سے تو وہ صرف حسام کو سوچے جا رہی تھی لیکن آج اُسے اپنے روبرو دیکھتے اُس سے بات کرتے اُسکے احساسات مزید عجیب ہوئے تھے جنکو وہ ٹھرک کا نام دے گئی تھی۔۔۔۔۔
وہ دونوں نکاح میں بندھے تھے یہ بات شاید وہ بھول گئی ہو لیکن اُسکی روح حسام سے جُڑی ہوئی تھی جسکی وجہ سے وہ جب جب حسام کا چہرہ دیکھ رہی تھی اُسے یو محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اُسے بہت پہلے سے جانتی ہے بہت اچھی طرح ۔۔۔۔




وہ دونوں اپنی اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ناشتہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور کبھی کبھار چوڑ نظروں سے کامل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
جو مہرون رنگ کی شرٹ اور بلیک جینز میں بلکل تیار بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔۔
بھائی کیا آپ اور بھابھی کہیں باہر جا رہے ہیں اج۔۔۔انابیہ نے نوالہ منہ میں رکھتے کامل سے پوچھا۔۔۔
نہیں تو ۔۔۔کامل نے اچھنبے سے پہلے فلک اور پھر بیہ کو دیکھتے کہا۔۔۔
پھر کیا آپ جانتے ہیں اج کیا ہے۔۔۔۔انابیہ نے فلک کو دیکھتے کامل سے پوچھا جو اب خود بھی پوری طرح کامل کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔۔۔۔
آج بدھ ہے۔۔۔کامل نے سادگی سے جواب دیا۔۔۔۔
وہ تو ہے ہی اج اُسکے علاوہ ۔۔۔انابیہ نے اُسے آنکھوں سے اشارتاً سمجھانا چاہا۔۔۔۔
آج بدھ کے علاوہ کیا ہے فلک ۔۔۔کامل نے فلک سے پوچھا۔۔۔۔
وہی جو آپ اج اکیلے باہر منانے جا رہے ہیں کامل لال کپڑوں میں لال رام بنتے۔۔۔۔فلک نے تنک کر جواب دیا۔۔۔۔۔
ہیں۔۔۔۔! کامل نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔
اُف اوہ بابا اج ویلنٹائن ہے تبھی تو آپ نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہے۔۔۔۔عروہ نے اپنے باپ کی عقل پر ماتم کرتے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پر مجھے تو پتہ نہیں تھا میں نے ایسے ہی پہن لی اور میں یہ ویلینٹائن نہیں مانتا یہ کون سی عجیب بلا ہے ۔۔۔۔کامل نے نیپکن سے ہاتھ پوچھتے ہوئے کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
یہ عجیب بلا نہیں ہے بابا دیکھئے گا باہر اج ہر جگہ آپکو لو برڈز نظر آئے گا اور ہوسکتا اج کوئی آپکی بیٹی کو بھی پرپوز کردے۔۔۔عروہ کے بے نیازی سے کہنے پر اُن تینوں کے منہ حیرت سے کھلے۔۔۔۔۔
دیکھ رہے ہیں آپ اسے کتنی تیز اور بیشرم ہوتی جا رہی ہے یہ اسکی عمر ہے یہ سب کہنے والی۔۔۔۔۔فلک کا غصّہ سے بُرا حال ہوا تھا عروہ کی بات پر۔۔۔۔
ماما میں پورے چھ سال کی ہوں۔۔۔عروہ تو اپنی عمر پر بات انے پر تلملا کر بولی تھی۔۔۔۔
پر باتیں تمھاری چھبیس سال کی لڑکی کی جتنی ہے۔۔۔فلک نے اپنی بیٹی کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل تو مسکراہٹ ضبط کیے اپنے پٹھاکے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
بس کرے نہ بھابھی بچی ہے۔۔۔بیہ نے فورا سے عروہ کی طرفداری کی۔۔۔
آپ دونوں کی وجہ سے ہی یہ بگڑ رہی ہے۔۔۔فلک نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
آپ بابا کی شہزدای ہے جس انسان کو بھی آپکو پرپوز کرنا ہوگا وہ سیدھا پہلے آپکے بابا کے پاس آئے گا اور پھر آپکے بابا دیکھے گے کہ وہ انسان آپکا خیال مجھ سے زیادہ رکھ سکتا ہے یہ نہیں۔۔۔۔ایسے کسی کو بھی آپکے بابا آپکے قریب تک نہیں انے دے گے۔۔۔کامل نے عروہ کے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے پیار سے کہا۔۔۔۔
اپنا خیال رکھنا گڑیا۔۔۔۔انابیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے وہ فلک کی طرف بڑھا۔۔۔۔
جس نے اپنے سر پر دوپٹہ لیتے کچھ پڑھنا شروع کیا تھا۔۔۔۔
کامل کے قریب انے پر فلک نے اُسکے چہرے پر پھونک مار کر دم کیا۔۔۔۔
اپنا خیال رکھئے گا حیاتی اج تھوڑی دیر ہوجائے گئی مجھے تو آپ سو جائیے گا۔۔۔۔کامل نے فلک کی پیشانی پر محبت سے بوسا دیتے کہا ۔۔۔
کامل کی بات پر فلک کا دل بجھ سا گیا پھر بھی وہ اثبات میں سر ہلاتی اُسے باہر دروازے تک چھوڑنے ائی۔۔۔۔
جب کامل کچھ یاد انے پر پلٹا۔۔۔۔
آج پاکستان سے شاداب آرہا ہے دیکھ لی جئے گا آپ۔۔۔۔کامل کہتا الوداعی نظر فلک پر ڈالے اپنی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔۔۔۔
فلک بھی اندر کی طرف بڑھ گئی شاداب خان کامل کی چچا کا بیٹا تھا جو آج آرہا تھا ۔۔۔۔




وہ لال رنگ کی گھٹنوں تک اتی فروک پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے سفید رنگت ،تیکھے نین نقش اوپر سے ہونٹوں پر لال رنگ کی لپ اسٹک لگائے ہاتھ میں لال گُلابوں کا بکے تھامے اپنے دیہان میں پھولوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی کچھ گنگناتی بیہ کے گھر کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔
جب دروازے کے قریب پہنچتے وہ دوسری طرف سے تیزی سے انے والے انسان سے ٹکرائی پھولوں کا بکے دور زمین پر گرا ۔۔۔ہائی ہیل کی وجہ سے وہ ابھی اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے گرتی جب سہارا لینے کو اُس نے مقابل کی شرٹ پکڑے اُسے بھی اپنے ساتھ گرایا۔۔۔۔۔
وہ جو آج ہی ایئرپورٹ سے جلدی جلدی گھر تک ایا تھا دروازے پر اتے ہی ایک لڑکی کے ٹکرانے پر رکا اور پھر اُس لڑکی کے سہارا لینے پر وہ بھی اُسکے ساتھ زمین بوس ہوا۔۔
اب نظارہ کچھ یو تھا لیزا زمین پر گری ہوئی تھی اور وہ اُس کے اوپر۔۔۔گرنے کی وجہ سے شاداب کے لب لیزا کی گردن سے ٹکرائیے اور دونوں ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے اپنی اپنی جگہ جم گئے ۔۔۔۔
لیزا کی آنکھیں اپنی گردن پر کسی لڑکے کے لمس کو محسوس کرتے صدمے سے پٹھی ۔۔۔۔۔
شاداب تو جیسے اس نازک وجود سے اٹھتی مہک میں کھو گیا تھا اُس نے نہ اپنے لب لیزا کی گردن سے ہٹائے نہ اُس سے دور ہوا بس سٹل سا لیزا کے وجود سے اٹھتی مہک کو محسوس کرتا رہا۔۔۔۔
اٹھو میرے اوپر سے ۔۔۔۔لیزا ہوش میں اتے ہی چیخی۔۔۔۔
لیزا کی چیخ پر وہ جو اُسکی خوشبو میں کھویا ہوا تھا اُسکی گردن سے منہ نکالتے اُسکے چہرے کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
چھوٹی چھوٹی گول آنکھیں جنہیں میکپ کرتے برا کیا گیا۔۔۔۔۔چھوٹی ہی ناک اور یہ لال رنگ سے رنگے ہونٹ وہ لیزا کی طرف دیکھتا ہی گیا۔۔۔۔
لیزا نے غصّہ سے اس انسان کو دیکھا جو اب اُسکے چہرے کو ایکسرے کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
سرخ و سفید رنگت کامل کی طرح سبز آنکھیں پٹھانی نین نقش۔۔۔۔۔وہ بھی خوبرو ہی تھا۔۔۔۔
ہٹ بھائی میرے اوپر سے ۔۔۔لیزا چرتے ہوئے بولی اور اپنے ہاتھوں کا پورا زور لگا کر شاداب کو خود سے دور داخیلا ۔۔۔۔
شاداب نے دور ہوتے لیزا کو دیکھا جو اب زمین سے کھڑی ہوتی اپنے ڈریس کو دیکھ رہی تھی جس پر جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔جبکہ اُسکے بھائی کہنے پر اُسکا حلق تک کروا ہوا تھا۔۔
یہ اللہ میرا ڈریس ، میرے پھول ،میری چپل۔۔۔لیزا نے پہلے اپنے ڈریس کو پھر پھولوں کو جو زمین پر بکھر گئے تھے اور پھر اپنی ہیل کو جو ٹوٹ گئی تھی دیکھتے صدمے بھری آواز میں کہا۔۔۔
وہ کتنی محنت اور لگن سے اج کے دن کے لیے تیار ہوئی تھی یونی میں اج فنکشن تھا جہاں وہ زبردستی بیہ کو بھی لے جانا چاہتی تھی جو نہ جانے کا بول چکی تھی یہ پھول بھی اُس نے بیہ کو منانے کے لیے لئے تھے۔۔۔۔
تم ۔۔۔ تُم نے میرا پورا حال خراب کردیا مسٹر دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے تم ۔۔۔لیزا غصے سے پلٹتی اپنی شہادت کی انگلی شاداب کی طرف کرتے ہوئے چیخی۔۔۔
اور اگر میں بھی یہی کہو کہ تم ۔۔۔تم نے میرا بھی پورا حال خراب کردیا ہے مس دیکھ کر نہیں چل سکتی تم تو۔۔۔شاداب نے بھی لیزا کے انداز میں اپنی شہادت کی انگلی اُسکے چہرے پر کرتے کہا اور لیزا کا غصّہ سے دماغ گھوما۔۔۔۔
میں دیکھ کر نہیں چلی ۔۔۔میں ۔۔۔مسٹر میں دیکھ کر چل رہی تھی۔۔۔۔لیزا نے غصے سے گہرا سانس بھرتے اپنی طرف انگلی کرتے کہا۔۔۔
جی تم ۔۔۔اور کیا دیکھ کر چل۔رہی تھی ان پھولوں کو ۔۔۔میڈم سڑک پر چلتے ہوئے نیچے یہ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا پڑتا ہے ناکہ ہاتھ میں تھامے بکے کو اپنے آپکو ہیروئن سمجھ کر آپ بکے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔شاداب کو کچھ پل پہلے وہ جتنی حسین لگی تھی ابھی اتنی ہی زہریلی لگی ۔۔۔۔۔یہ لڑکی اپنی غلطی نہیں ماں رہی تھی اُلٹا اُسی پر الزام لگا رہی تھی۔۔۔۔۔
آج کے دن یہ اللہ اج کے دن خاص طور پر آپ سے دعا مانگی تھی چار نفل ادا کرکے کہ ایک ہینڈسم چارمنگ لڑکے سے ٹکر کروانا جو مجھے دیکھتے ہی میرے پیار میں ڈوب جائے لیکن آپ نے اس کینگرو سے ٹکر کروا دی۔۔۔۔لیزا نے آسمان کی طرف دیکھتے بیچارگی بھری آواز میں کہا۔۔۔
شاداب جو اُسکی بات پر یکدم مسکرا پڑا تھا اُسکی آخر میں کی گئی بات پر اُسکی سبز انکھوں میں غصّہ لہرایا۔۔۔۔
اور تم تم خود کیا ہو بندریا ہو تُم لال لباس میں لال میکپ کی ہوئی بندریا۔۔۔۔۔شاداب نے فوراً سے اُسکے لال لباس پر چوٹ کی۔۔۔۔
اپنے آپکو بندریا کہہ جانے پر لیزا کا منہ حیرت سے کھلا۔۔۔۔۔
شاداب کو سمجھ نہ ایا وہ کیوں اس لڑکی سے بچوں کی طرح بحث کر رہا تھا۔۔۔۔
بیہ ۔۔۔۔۔لیزا کچھ بھی کہنے کے بجائے بیہ کا نام لیتی چیخی۔۔۔۔
فلک بھابی۔۔۔۔اپنے آپکو بندریا کہہ جانے پر اُسکی شربتِی آنکھیں آنسو سے بھر ائی۔۔۔۔۔۔وہ فلک کا نام لیتی بھی چیخی ۔۔۔
اور شاداب حیرت سے اُسے یوں چیختے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جو اُسکی طرف دیکھتے چیخی جا رہی تھی جبکہ اُسکی نم آنکھیں دیکھتے بھی اُسے بندریا بولنے پر شبہ ہوا کہ کہیں بندریا کے بجائے کوئی اور لفظ تو اُسکے مُںہ سے نہیں نکال گیا جو سامنے کھڑی لڑکی رونے لگ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔
فلک اور انابیہ کو ابھی ڈائننگ ٹیبل پر ہی بیٹھی آپس میں بات کر رہی تھی باہر سے اتی لیزا کی چیخ سنتے وہ جلدی سے باہر ائی۔۔۔۔
شاداب کو لیزا کے سامنے دیکھتے فلک کو سمجھ نہ ایا کہ کیا ہوا ہے جبکہ انابیہ حیرت سے شاداب کو دیکھ رہی تھی اُس نے پہلی بار شاداب کو یہاں دیکھا تھا ورنہ صرف کامل نے اُسے سب کی تصویریں ہی دکھائی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا لیزا۔۔۔انابیہ نے لیزا کے پاس اتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کیا ہوا ہے شاداب یہ رو اور چیخ کیوں رہی ہے۔۔فلک نے بھی شاداب سے پوچھا۔۔۔۔
آپ اس سے مت پوچھے بھابھی میں بتاتی ہوں۔۔۔بیہ اس نے میرا مذاق اڑایا ہے ۔۔۔اور ساتھ ساتھ مجھے زمین پر گرایا بھی۔۔۔لیزا نے بھیگی انکھوں کے ساتھ انابیہ سے کہا۔۔۔
نہیں بھابھی میں نے صرف اسکو بندریا بولا ۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی تب بولا جب اس نے مجھے کینگرو کہا۔۔ اور گری یہ اپنی خود کی حرکت کی وجہ سے ہے۔۔۔۔شاداب نے فوراً سے صفائی دی اور تیز نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا جو اب معصوم بنی ہوئی تھی۔۔۔۔
دیکھا دیکھا اس نے مجھے بندریا بولا بھلا کوئی اتنی حسین لڑکی کو بندریا بول سکتا ہے ۔اور کوئی لڑکی کیا جان بوجھ کر اپنا اتنا پیارا ڈریس گر کر خراب کروائے گئی۔۔۔۔۔لیزا نے آنکھیں جھپک جھپک کر آنسو زبردستی نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
انابیہ اور فلک نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اُنہیں یقین نہ ایا سامنے کھڑے نوجوان بچوں کی طرح آپس میں لر رہے تھے۔۔۔۔
بری بات شاداب ایسے نہیں بولتے ۔۔۔فلک نے شاداب کو ڈپٹا۔۔۔جو فلک کی بات پر غصّہ سے لیزا کو دیکھے گیا۔۔۔۔
اچھا چلو تُم چپ کرو ابھی تمہارا ڈریس ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔اور موڈ بھی ۔۔۔انابیہ نے لیزا سے کہا ۔۔۔
نہیں میرا موڈ ایسے ٹھیک نہیں ہوگا صرف ایک ہی طرح سے ٹھیک ہوگا۔۔۔لیزا نے انابیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کیسے۔۔۔انابیہ نے پوچھا ۔۔۔
جب ہم دونوں یونی میں جائے گے فنکشن میں ۔۔۔۔پلیز دیکھو میرے ساتھ صبح صبح کتنا بُرا ہوا ہے۔۔۔لیزا نے انابیہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنا مدا بیان کیا۔۔۔۔
فلک اور انابیہ اور شاداب کو پل لگا تھا سمجھنے میں کہ وہ ایموشنل بلیک میل کرنے کے لیے اتنا سارا ڈراما کر رہی تھی شاداب کو ذریعہ بنا کر۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ہم چلتے ہے تُم اس سے ملو یہ میرے کزن ہے شاداب۔۔۔۔انابیہ نے شاداب سے تعارف کروایا ۔۔۔
اور شاداب یہ لیزا ہے میری دوست۔۔۔انابیہ نے شاداب سے کہا۔۔۔۔
لیزا نے شاداب کی طرف دیکھا اور شاداب نے لیزا کی طرف اور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی اپنی آبرو ریز کرتے اپنا منہ پھیرا۔۔۔۔۔
چلو اب اندر۔۔۔فلک کے کہنے پر وہ سب اندر کی طرف بڑھے جب لیزا کچھ یاد انے پر رکی۔۔۔
صبر بھابھی میں اپنے پھول اٹھا لو ورنہ پھول پیروں میں آئے گے ۔۔۔لیزا نے کہتے پھول اٹھانا شروع کیے اور شاداب اس لڑکی کو دیکھے گیا جو ایک نمبر کی ڈرامے باز تھی لیکن تھی پیاری۔۔۔۔۔
لیزا کے انے پر وہ سب اندر کی طرف بڑھ گئے لیزا اور انابیہ تو اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی کیونکہ اُنہیں تیار ہونا ہے جبکہ شاداب اپنی گود میں عروہ کو لیے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔
شاداب گھر میں سب کیسے ہے اور خیریت اتنی ارجنٹ تم یہاں آئے۔۔۔فلک نے جوس دیتے ہوئے اُس سے پوچھا۔۔۔
سب ٹھیک ہے بھابھی بس بھابھی یہاں کی یونی میں ایڈمیشن لیا ہے اور کامل بھائی نے مجھے فورس کیا یہاں انے کو تو میں آگیا۔۔۔شاداب نے جوس کا گلاس پکڑتے ہوئے بتایا۔۔۔
صحیح پھر ایک کام کرو اگر تُم۔تھک نہیں گئے ہو تو ان دونوں کے ساتھ ہی یونی چلے جاؤ اج وہاں پر فنکشن بھی ہے یونی بھی دیکھ لینا اور تھوڑا انجواۓ بھی کر لینا۔۔۔۔فلک کے کہنے پر شاداب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔اور عروہ کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگیا۔۔۔۔



