مثالِ عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

خضر نے اپنے کمرے میں آکر ایک گہری سانس بھری تھی۔۔۔۔ایک کمی سی محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی چیز اُسکے پاس نہیں ہے اُس سے دور ہے۔۔
فلک تو گھر اتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔۔خضر نے اپنے لئے آرام دہ سوٹ نکالا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ فریش سا کالی سینڈو اور کالے ٹراؤزر میں گیلے بالوں کے ساتھ باہر ایا تھا۔۔۔۔
بیڈ پر بیٹھتے ہی کل رات کا منظر آنکھوں میں لہرایا لبوں پر خود با خود مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنائی۔۔۔۔اُسے نہیں یاد تھا وہ شجیہ کے انے سے پہلے کب مسکرایا تھا لیکن جب سے وہ اُسکی زندگی میں ائی تھی اُس کے لب مسکراہٹ میں ڈھل رہے تھے ۔۔۔۔
کل کا منظر۔۔۔🥀
سب مہمانوں سے فارغ ہوکر جب وہ کمرے میں ایا تھا سامنے شجیہ کو آئینے کے سامنے بیٹھا دیکھ رکا ۔۔۔۔
وہ محویت سے اُسے دیکھے گیا جو اپنے کانوں سے بھاری جھمکے اُتارنے کی جدوجھد کر رہی تھی۔۔۔۔
شاید اُسکے درد ہورہا تھا تبھی وہ اپنا نچلا لب دانت تلے دبائے ہوئے تھی۔۔۔
اور یہ دیکھتے خضر کا دل کی حالت عجیب ہوئی۔۔نازک ہونٹوں پر یہ ظلم اُس سے قطعی برداشت نہیں ہو رہا تھا دل ہمک ہمک کر اُسکے قریب جاتے اُسکے نازک لبوں کو اُسکی گرفت سے نکال کر خود کو شدت بھری گرفت میں لینے کو اکسا رہا تھا۔۔۔
ویسے بھی اُس لڑکی کو دیکھتے وہ اپنا ضبط کھو دیتا تھا۔۔۔۔۔
اپنے سر کو جھٹک کر اپنے دل میں پیدا ہوتے شوریدہ جذبات کو سلاتے وہ اپنے کپڑے لیے واشروم میں چلا گیا تھا شجیہ کو دیکھنے سے مکمل اجتناب کیا تھا۔۔۔
واشروم کے دروازہ بند ہونے کی آواز پر شجیہ نے سکون کا سانس بھرا تھا ورنہ بھوری انکھوں کی تپش اپنے آپ پر محسوس کرتے اُس کے ہاتھوں کی ہٹیلیوں میں پسینہ بھر گیا تھا۔۔۔۔۔
اُس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ جانتی ہے خضر اُسے لو دیتی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔۔۔پوری محفل میں بھی اُسکی نظر شجیہ پر ہی تھے۔۔۔۔لیکن جب شجیہ اُسکی طرف دیکھتی وہ سرعت سے اپنی نظریں پھیر جاتا تھا۔۔۔
اور شجیہ کو اپنے شوہر کی یہ ادا نہایت ہی اچھی لگی تھی ۔۔۔۔۔
شجیہ نے آئینے میں نظر آتے اپنے خوبصورت عکس کو دیکھا۔۔۔۔وہ محبت کرنے لگی تھی خضر سے اور یہ محبت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔لیکن خضر کے سخت الفاظ اُسکے دل کو لہو کر جاتے تھے۔۔پر وہ اپنے شوہر کی یہ بات بھی ہنس کر برداشت کر جاتی تھی جانتی تھی اگر خضر کے سامنے اُسکی باتوں پر روۓ گی تو خضر کا مقابلہ نہیں کر پائے گی ۔۔اُسے خضر سے زیادہ ڈھیٹ بننا تھا۔۔۔اور ڈھیٹ تو وہ شروع سے ہی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ نے ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے اپنے لیے کوئی آرام ده سوٹ نکالنا چاہا جب اُسکی نظر خضر کی شرٹس پر پڑی۔۔۔مسکراتے لبوں کو دباتی اُس نے وہ شرٹ اور خضر کا ٹراؤزر تھاما تھا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ خضر کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ جو اُسکے کندھوں سے نیچے کھسک رہی تھی ۔۔خضر کا ٹراؤزر جس کے پائچے کو کم سے کم پانچ بار موڑ کر اپنے برابر کیا گیا تھا۔۔۔۔اور شرٹس کی آستینیں اُسکی حتیلیوں تک آرہی تھی۔۔۔۔باہر نکلی تھی۔۔۔ ۔
شجیہ کے باہر نکلتے اُسکی نظر خضر پر گئی تھی جو ہمیشہ کی طرح کالی سینڈو اور کالے ٹراؤزر میں صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا۔۔۔۔شجیہ کا دل دھڑکا۔۔۔دھڑکتے دل کے ساتھ اُس نے اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھائے تھے جبکہ نظریں خضر پر جمی تھی جس نے ایک نظر بھی اٹھا کر اُسکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔
اُدھر خضر اپنے دل میں پیدا ہوتے جزباتوں کی وجہ سے پریشان شجیہ کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کے یوں انجان بننے پر اپنے دانت پیسے تھے۔۔۔تکیے کو اٹھا کر زور سے اپنی جگہ پر رکھا لیکن خضر نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔۔۔۔
شجیہ نے سائڈ ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے کینڈل کے اسٹینڈ کو دیکھا۔اور پھر کچھ بھی سوچے بنا ایک جھٹکے سے اٹھا کر زمین پر دے مارا۔۔۔۔
کوئی چیز نیچے گرنے کی آواز پر مجبوراً خضر کو اس طرف دیکھنا پڑا۔۔۔لیکن سامنے نظر اتا منظر دیکھتے اُسکے کی بورڈ پر چلتے ہاتھ تھمے ۔۔۔۔وہ یک تک اُسکی طرف دیکھتے گیا۔۔۔جو اُسکی شرٹ اور ٹراؤزر میں ایک معصوم سی بچی لگ رہی تھی گلابی گال مزید گلابی ہوئے تھے جو یقیناً خضر کی گہری نظروں کی وجہ سے ہوئے تھے۔۔۔
وہ اُسکے حسین سراپے میں الجھ کے رہ گیا تھا ۔۔۔کندھوں سے سرکتی اُسکی شرٹ جس کی وجہ سے اُسکے دودھیا بازو نظر اتے خضر کے ضبط کا امتحان لے رہے تھے ۔۔۔۔صراحی دار گردن جو بھورے بالوں کے جوڑے باندھنے سے صاف نظر آرہی تھی بالوں کی چند شریر لٹیں اُسکے من موہنے چہرے پر اتی خضر کا چین و سکون غارت کر گئی تھی۔۔۔اتنی مشکل سے تو اپنے جذباتوں پر پل باندھا تھا اور اب ۔۔۔یہ تو طے تھا سامنے کھڑی لڑکی نے خضر کو چین سے جینے نہیں دینا تھا۔۔۔۔
وہ یہ غلطی سے گر گیا۔۔۔شجیہ نے معصوم سے انداز میں کہتے اسٹینڈ اٹھایا تھا۔۔
شجیہ کی آواز پر وہ ہوش میں ایا۔۔۔۔۔۔
لڑ ۔۔۔۔خضر نے کہنا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر کہیں ہاتھ میں پکڑا اسٹینڈ ہی لڑکی کہنے پر اُسکے سر پر نہ مارڈے وہ چپ ہوا۔۔۔
یہ میرے کپڑے کس کی اجازت سے پہنے ہے۔۔۔خضر نے لہجے کو سخت کرتے کہا۔۔۔
اپنے شوہر کی چیزیں استعمال کرنے کے لیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔شجیہ کہتے ساتھ بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔۔
نیلی نظریں خضر کی بھوری انکھوں پر ٹکی تھی۔۔۔جبکہ دل تو اُسکی لو دیتی نظروں سے پسلیوں سے سر توڑ رہا تھا۔۔۔۔۔
کسی کی بھی چیز استعمال کرنے پہلے اُس سے اجازت لیتے ہے اتنا بھی نہیں پتہ تمہیں۔۔۔خضر کے سرد لہجے پر شجیہ نے اُسکی آنکھوں پر غور کیا تھا اُسکے لہجے میں سختی ضرور شامل تھی لیکن آنکھوں میں نہیں۔۔۔۔
میاں بیوی میں ایسا نہیں ہوتا اپ چاہے تو میرے کپڑے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔شجیہ نے تیزی سے بولتے اپنی ٹانگوں پر كمفرٹر ڈالا لیکن جب خود کو ہی اپنی بات کا احساس ہوا تو کھسیانی سی ہنسی ہنستے خضر کی طرف دیکھا ۔۔جو اب سچ میں کھا جانے والی نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
مجھے لگتا ہے مجھے سو جانا چایئے اج کے لیے اتنا کافی ہے۔۔شجیہ جلدی سے کہتی اپنے منہ تک کمفرٹر اوڑھے کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔۔۔اور خضر وہ بیساختہ اُسکی اس ادا پر مسکرا گیا۔۔۔۔۔شجیہ کا اشارہ جس طرف تھا وہ سمجھ گیا تھا مطلب وہ جان بوجھ کر اُسکے کپڑے پہن کر ائی تھی تاکہ اُسکی توجہ حاصل کر سکے۔۔۔۔
شجیہ نے ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کی تھی جس طرح خضر کی لو دیتی نظریں اُسکے وجود کا احاطہ کر رہی تھی وہ اُسکی دل کی دنیا تہہ بالا کر گیا تھا۔۔۔۔یہ احساس کتنا خوش نما تھا ننھی ننھی محبت کی کونپلیں دل کی زمین پر اُگ رہی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗
خضر نے لیپ ٹاپ سے نظر اٹھا کر بیڈ کی طرف دیکھا۔۔اور نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
شجیہ اتنی سردی میں بھی اپنا ایک پاؤں کمفرٹر سے نکالے اُسکی طرف کروٹ لیے ایک ہاتھ بیڈ پر پھیلائے اپنا منہ پورا تکیہ میں گھسائے سو رہی تھی۔۔۔خضر نے لیپ ٹائپ بند کرتے اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔احتیاط سے شجیہ کی ٹانگ اٹھا کر کمفرٹر اُسکے پیروں پر ٹھیک کیا۔۔۔شجیہ کو کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا۔۔۔
نرمی سے اُسکے چہرے پر آئے بھورے بال پیچھے کرتے ۔۔اُسکے سرخ و سفید چہرے کو تکا جہاں نیلی آنکھیں جو اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے بات کرتی تھی بند تھی۔۔لمبی گھنی پلکوں کی جھالر سرخ عارض پر سایہ فگن تھی ۔۔۔۔گلابی لب جو ہلکے سے واہ ہوئے تھے۔۔اُنہیں دیکھتے خضر بلکل احتیاط سے اُس پر جھکا تھا دھیرے سے اپنے لب شجیہ کے ادھ کھلے لبوں پر رکھے پورے وجود میں ایک سرور سا دوڑتا محسوس ہوا۔۔۔اپنی آنکھیں بند کئے وہ نہایت نرمی سے اُسے لبوں کا لمس محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سکون صرف محرم کے لمس سے ہی رگوں میں بہتا ہے۔۔۔۔
شجیہ کی نیند کا خیال کرتے وہ اُس سے دور ہوا تھا۔۔۔۔
دور ہوتے ہی اپنی بے اختیاری پر شدت سے افسوس ہوا۔۔۔یہ اُس نے جذبات کی رو میں بہتے کیا کر لیا تھا ۔۔اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
بیوی ہے میری چاہے جیسے بھی ۔۔اور ویسے بھی وہ سو رہی ہے اُسے نہیں پتہ چلا ہوگا۔۔۔خضر نے اپنے دل کو سمجھایا جو شاید اُس سے سوال کرنے لگا تھا کہ کس حق سے شجیہ کو چھو رہے ہو۔۔۔پر اسکا جواب تو خضر شجاعت چوہدری کے پاس تھا ہی نہیں۔۔۔۔۔
اُسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی اُس نے یہ کیوں کیا ہے۔۔۔۔۔
اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُس نے سائڈ ٹیبل کی دراز سے چاکلیٹ نکالی تھی۔۔۔۔جب تک وہ چاکلیٹ کھاتا رہا اُسکی نظر شجیہ کے حسین چہرے پر ٹکی رہی۔۔۔۔
اُس نے یہ کیوں کیا تھا اُسے نہیں پتہ تھا نہ ہی وہ اُسکی وجہ جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ کے قریب ہوتے وہ اُسکے چہرے سے ایک انچ کے فاصلے پر اپنا چہرے رکھتے اپنی آنکھیں بند کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔
صبح جب اُسکی آنکھ کھلی تو شجیہ کمرے میں نہیں تھی وہ سمجھ گیا باہر ہوگی۔۔اور پھر سب کے ساتھ ناشتہ کرتے وہ کراچی کے لیے نکل گئے تھے۔۔۔اُسے کہیں سے بھی شجیہ کے چہرے سے یہ نہیں پتہ چلا کہ وہ رات ہوئی کروائی کے بارے میں جانتی ہے۔۔۔۔خضر نے سکون کا سانس بھرا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
یہ سب سوچتے بھی اُسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔۔۔دل نے شدت سے اُس وجود کو اپنے پاس اس کمرے میں دیکھنے کی تمنا کی تھی ۔۔۔۔
سر۔۔۔ملازم کے دروازے پر انے پر وہ اپنی سوچوں سے باہر نکلا تھا۔۔۔
بولوں ۔۔۔خضر نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
سر فلک میم کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہی ہے۔۔ملازم کے کہنے پر وہ کسی انہونی کا سوچتے فوراً سے کمرے سے بھاگا تھا۔۔۔
ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولتے وہ فلک کے کمرے میں داخل ہوا تو اُسے سامنے ہی صوفے پر بیہوش دیکھ وہ جلدی سے اُسکی طرف لپکا۔۔۔۔
فلک کو اٹھاتے اُس نے آرام سے بیڈ پر لٹایا تھا۔۔ملازم کو ڈاکٹر کو بلانے کا کہتے اُس نے فلک کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا جو کوئلے کی طرح دہک رہا تھا۔۔۔۔۔
فلک کی جیسی حالت تھی کسی لڑکی کا اس کے پاس ہونا لازم تھا۔۔۔جلدی سے ہسپتال میں موجود اپنے گارڈ کو فون کر کے شجیہ کو گھر لانے کا حکم دیا ۔۔۔۔
شجیہ جو نسرین بیگم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی گارڈ کے بتانے پر نسرین بیگم کو الوداعی کلمات کرتے فوراً سے وہاں سے نکلی تھی۔۔۔
دیکھ کر چلے۔۔۔۔ہسپتال سے باہر نکلتے ہی شجیہ کا کندھا ایک وجود سے ٹکرایا شجیہ جلدی میں کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی لیکن اُس وجود کو پتھر کا کر گئی تھی۔۔۔۔ایک پل صرف ایک پل میں ہی وہ شجیہ کے ہر نقش کو ازبر کر گیا تھا اپنی زیرک نگاہوں سے۔۔۔۔
کالے ٹو پیس میں موجود وہ شخص شجیہ کی پشت پر نظر آتے بھورے بالوں کو دیکھتے مسکرایا تھا۔۔۔۔۔آنکھوں پر سے چشمہ ہٹا کر اُس نے اپنے ساتھ کھڑے وجود کو دیکھا جو اُسکی آنکھوں کو دیکھتے ہی کپکپا گیا تھا ۔۔پتھر سی سرد آنکھیں ۔۔۔۔جن میں وحشت ناچ رہی تھی۔۔۔سب کچھ تباہ و برباد کرنے کی۔۔۔۔۔
Who is she ..?
عنابی لبوں سے سرد ٹھٹھرا دینے والی آواز نکلی۔۔۔۔
I don’t know leopard…
پاس کھڑے منیجر نے ہلکی آواز میں کہا۔۔۔
Check out her details and send people to chase her…..
وہ بولتا ہوا پلٹ گیا پیچھے منیجر نے جلدی سے اپنے گارڈ کو شجیہ کے پیچھے بھیجا تھا ۔۔اگر غلطی سے بھی کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ جانتا تھا وہ اُسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔۔۔۔
شجیہ باہر نکلتی گاڑی میں بیٹھی تھی اُسے گارڈ نے فلک کی طبیعت خرابی کا بتا دیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ خضر نے اُسے گھر واپس بلوایا ہے۔۔۔۔اُسے فلک کی ٹینشن ہو رہی تھی وہ جانتی تھی وہ کتنے نازک مراحل سے گزر رہی ہے۔۔۔۔۔
💗💗💗
شجیہ گاڑی رکنے پر جلدی سے اندر کی طرف بڑھی تھی لیکن اندر بڑھتے ہی اندر کا منظر دیکھتے اُسکی حسین چہرے پر ناگواری ائی تھی ننھے سے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔۔۔۔کیونکہ خضر صاحب سامنے ہی سینڈو پہنے اپنے مضبوط بازؤں کو دعوت نظارہ بنائے ڈاکٹر سے بات کر رہے تھے۔۔۔
شجیہ تیز قدموں سے اُسکی طرف بڑھی تھی بلکل خضر کے پاس پہنچتے اُسکے بازو سے اپنا بازو ٹکائے شجیہ نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تھا جو اب انجان نظروں سے شجیہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
میں شجیہ خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔۔خضر کی بیوی۔۔شجیہ نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔اس فیمیل ڈاکٹر کی پیار اور ستائش بھری نظریں وہ خضر پر محسوس کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکی طرف دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے سامنے کھڑی فیمیل ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔فلک کو میں نے نیند کا انجکشن لگا دیا ہے وہ جتنا آرام کرے گی اتنا اُنکی صحت میں بہتری ائی گی۔۔۔۔۔۔باقی اللہ کے کرم سے سب ٹھیک ہے۔۔۔ڈاکٹر کا شجیہ کی بات پر عجیب سا منہ بنا تھا خضر کی شخصیت سے وہ کافی زیادہ متاثر ہوئی تھی۔۔۔۔اسی لیے بولتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔
ڈاکٹر کے جاتے ہی شجیہ نے غصے سے خضر کی طرف دیکھا جو اُسکی طرف ہی نہ سمجھ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کمرہ کون سا ہے ہمارا۔۔۔شجیہ نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے تیز لہجے میں کہا۔۔۔خضر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ایک طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
وہ سمجھ گیا تھا شجیہ کو جلن ہو رہی ہے۔۔۔۔شجیہ نے اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے اُسکی آنکھیں ستائش سے پھیلی تھی۔۔۔اتنا شاندار کمرہ ۔۔۔۔ہر چیز اس کمرے میں پرفیکٹ تھی گول بیڈ جس کے اوپر خضر کی اندراج سائز تصویر چسپا تھی۔۔۔۔یہ کمرہ بلکل حویلی کے کمرے کی ہی طرح تھا بس کافی بڑا تھا حویلی کے کمرے کے مقابلے ۔۔۔سائڈ پر ایک روم فریزر بھی رکھا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
بس ایک چیز تھی جو شجیہ کو پسند نہیں ائی تھی اور وہ تھا اُس کمرے کی دیواروں کا رنگ جو کالا تھا۔ ۔۔۔شجیہ نے اپنے قدم ڈریسنگ روم کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
ڈریسنگ روم میں موجود الماری کھول کر دیکھی تو وہ پوری ہی خضر کے کپڑوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔
جناب کے پاس اتنے کپڑے ہے لیکن پھر بھی اپنی باڈی دکھانے کا شوق پڑا ہے۔۔۔۔شجیہ نے سامنے نظر آتی سفید رنگ کی شرٹ اٹھائی اور باہر نکلی۔۔۔۔
کمرے سے باہر نکلتے ہی اُسے خضر نظر ایا جو شاید کمرے میں ہی آرہا تھا۔۔۔شجیہ کے یکدم باہر نکلنے پر وہ رکا۔۔۔شجیہ نے شرٹ خضر کے کندھے پر رکھی۔۔۔۔
فلک کا کمرہ کدھر ہے۔۔۔شجیہ نے خضر کی طرف دیکھے بنا ویسے ہی تیز لہجے میں پوچھا۔۔۔
خضر نے چپ چاپ سے راہداری کے تیسرے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔۔۔
اور شجیہ اب بھی بنا کچھ بولے فلک کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔اور خضر حیرت سے اُسکی پشت کو تکتا رہ گیا جو گھر میں اتے ہی مالکن کی طرح اُس پر حکم جھاڑ رہی تھی۔۔۔۔
ائی ایس ائی کا وہ ہیکر جس کے آگے کوئی کچھ بولتا نہیں تھا جو صرف اپنی سنتا تھا اپنی کرتا تھا اُسے پانچ فٹ کی نیلی آنکھوں والی لڑکی چپ کروا دیتی تھی۔۔۔۔۔۔وہ اُسکے سامنے کچھ بول ہی نہیں پاتا تھا کیونکہ اس پانچ فٹ کی نیلی آنکھوں والی آفت کے پاس اُسکے ہر سوال کا جواب موجود ہوتا تھا۔۔۔۔
کندھے پر رکھی شرٹ کو اُس نے جلدی سے پہن کر اپنے قدم فلک کے کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔تھے ہلکے سے کھلے دروازے سے وہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ فلک کی تمام دوائیاں چیک کر رہی تھی۔۔۔یکدم اُسکا فون بجا۔۔۔۔
فون اٹھا کر دیکھا تو کامل کا نمبر دیکھتے اُسکے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔۔
ایک نظر شجیہ کو دیکھتے اُس نے اپنے قدم باہر لون کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
بول۔۔۔خضر نے فون اٹھاتے کہا۔۔۔
ابھی تیرے گھر سے ڈاکٹر گئی ہے فلک ٹھیک ہے۔۔۔کامل نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
ٹھیک نہیں ہے وہ اسٹریس کی وجہ سے بیہوش ہوگئی تھی۔۔۔خضر کے بتانے پر کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔۔
اور تو یہ اب بتا رہا ہے مجھے۔۔ تو اُسے شہر لایا ہی کیوں۔۔۔۔۔۔کامل نے غصے سے پوچھا۔۔۔
حویلی میں رہتے وہ اور گھٹن محسوس کر رہی تھی جب جب وہ فاطمہ اماں کے ساتھ ہوتی اُسکے چہرے پر ایک عجیب طرح کی اذیت میں دیکھ سکتا تھا تو پھر تو وہ ماں ہے اور جیسی فلک کی حالت ہے اگر اُنہیں پتہ لگ گیا جانتا ہے نہ پھر کیا ہوگا۔۔۔خضر نے بھی سخت آواز میں کہا۔۔۔۔کامل نے اپنے لب بھینچے تھے خضر کی بات پر وہ صحیح تو کہہ رہا تھا۔۔۔
کیا آپ ڈیٹ ہے کچھ پتہ چلا۔۔۔خضر کے کہنے پر کامل نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
انڈر ورلڈ سے جو بھی ان لوگوں کے ساتھ ملا ہوا ہے وہ یہاں پاکستان ایا ہوا ہے۔۔۔اگلے مہینے یہاں سے بہت زیادہ تعداد میں لڑکیاں سپلائی ہونی ہے۔۔۔کامل نے صبح سائرہ کی جو بات سنی تھی وہ سب خضر کو بتائی ۔۔۔۔
خضر کے چہرے پر سختی نے اپنی جگہ لی کامل کی بات سنتے۔۔۔۔
بس ایک کلو کا انتظار ہے اُسکے بعد سب سچائی سامنے ہوگی۔۔۔کامل کے کہنے پر خضر نے گہرا سانس بھرا جب اُسکی اگلِی بات سنتے خضر چونکہ تھا۔۔۔۔
میں تیرے گھر کے گیٹ کے باہر ہوں۔۔مجھے فلک سے ملنا ہے۔۔۔کامل کی بات پر خضر کا دل کیا اُسے اٹھا کر کہیں پھینک آئے ۔۔۔۔
وہی رک جا اندر قدم نہیں بڑھانا جب تک میں نہ بولوں۔۔۔سالے پہلے نہیں بتا سکتا تھا میری بیوی بھی اندر ہے۔۔۔اُسے کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔خضر بہ دھانی میں کیا بول گیا تھا اُسے خود اندازہ نہیں تھا اندازہ تو تب ہوا جب کامل اُسکی بات پر ہنسا۔۔۔
مبارک ہو بھائی بھابھی کو اپنی بیوی مان ہی لیا بھائی تو نے۔کامل نے ہنستے ہوئے کہا۔۔اور اب خضر کا دل چاہ رہا تھا اپنے آپ کو کہیں پھینک آئے۔۔۔
چپ کر ورنہ اندر نہیں انے دونگا میں تُجھے۔۔۔خضر نے دھمکی دی ۔۔کامل نے ہنستے ہوئے فون بند کیا۔۔۔۔
💗💗💗
خضر فلک کے کمرے میں ایا تو شجیہ وہی فلک کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اہم۔۔۔وہ مجھے بھوک لگی تھی کیا تُم کچھ بنا دونگی۔۔۔خضر کو سمجھ نہ ایا کس بات پر اُسے اس کمرے سے لے کر جائے۔۔۔اسی لیے جو سمجھ ایا وہ بول گیا لیکن شجیہ کی حیرت سے پھیلی آنکھوں کو دیکھتے اُسے جی بھر کر کامل پر غصّہ ایا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ کو حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی تھی خضر کی بات پر ۔۔۔کہ اُس نے پہلی بار اپنی ذات سے جری کوئی بات اُس سے کی تھی۔۔۔ورنہ گھر میں ڈھیروں ملازمین تھے وہ کسی سے بھی کہہ سکتا تھا۔۔
وہ فوراً سے اثبات میں سر ہلاتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کے کمرے سے نکلتے ہی کامل کو میسج کیا تھا۔۔۔۔جو بیک ڈور سے اندر آگیا تھا۔۔۔
خضر جلدی سے شجیہ کے پیچھے گیا۔۔۔۔
کیا کھائے گے آپ۔۔۔شجیہ نے کچن میں اتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ابھی جب وہ ہسپتال سے ائی تھی تو ملازم موجود تھے لیکن ابھی گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔۔ ۔
کچھ بھی بنادو ۔۔۔خضر نے کچن کے سامنے رکھی چھوٹی سی ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر میگی بنا دو۔۔۔شجیہ کے کہنے پر خضر نے اپنی نظریں موبائل سے ہٹا کر اُسکی طرف دیکھا تھا جو روایتی بیویوں کی طرح اُس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
میں کوئی بچا نہیں ہو بھوک لگ رہی ہے کوئی اور چیز بنا دو۔۔۔خضر نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
منہ تو ہمیشہ کسی بچے کی طرح ہی پھولا کر پھیرتے ہے۔۔۔شجیہ نے دوپٹہ سر سے اُتار کر قمر پر باندھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔لیکن خضر کے کانوں تک اُسکی آواز با آسانی پہنچ گئی تھی۔۔۔۔
کیا کہا۔۔خضر نے اپنی آبرو ریز کرتے پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔شجیہ نے جلدی سے کہا۔۔اور فریج کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
اور خضر اپنے موبائل کو سائڈ پر رکھے محویت سے شجیہ کو دیکھنے لگا جو تیز تیز ہاتھ چلاتی کھانا بنانے میں مصروف تھی۔۔۔ایک خوش کن احساس اُسے محسوس ہوا۔۔۔کیسے اُسکے ایک بار کہنے پر وہ انتہائی خوشی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کچن کی طرف ائی تھی۔۔۔۔۔۔
اپنے دل کی حالت اُسے بدلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔۔شجیہ آس پاس ہوتی تو اُسکے وجود میں سکون سا بھر جاتا ۔۔۔۔۔اُسے جب جب وہ دیکھتا تھا اُسے چھونے کی اُسکے لمس کو محسوس کرنے کی تمنا بڑھ جاتی تھی۔۔۔۔
یکدم فلک کی کہیں باتیں اُسکے دماغ میں گونجی۔۔۔۔تو اپنا وجود جلتا محسوس ہوا ۔۔۔
ایک بات پوچھو تم سے۔۔۔خضر نے شجیہ کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔
جی بولے۔۔۔شجیہ کو تو اج حیرت پر حیرت ہو رہی تھی کیسے وہ آدمی اُس سے بات کر رہا تھا ورنہ ہر وقت تو وہ سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔
کیا ۔۔کسی کو پسند کرتی ہو تم۔۔۔خضر کو یہ کہتے ہوئے اپنے گلے میں تکلیف کا احساس ہوا دل کی دھڑکیں اور جسم کا روأ روأ اُسکے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔جبکہ سینے میں ایک لاوا دہکتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔
خضر کی بات پر شجیہ کے چلتے ہاتھ تھمے ۔۔۔۔
خضر بس خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔شجیہ نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔خضر نے ایک گہرا سانس بھرا تھوڑا سکون سا محسوس ہوا جلتے دل کو۔۔۔۔۔
آپ کیوں پوچھ رہے تھے ۔۔۔شجیہ نے پوچھا۔۔۔۔
بس اسی لیے کہ اگر کسی کو۔پسند کرتی ہو تو بہتر ہے ایک سال بعد یہ کنٹریکٹ تو ختم ہو جائے گا پھر تمہیں بھی تو کچھ نہ کچھ مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے۔۔۔میں اُس سے بات کر لیتا پھر ۔۔۔۔خضر نے یہ لفظ کیسے کہے تھے یہ بس وہ خود جانتا تھا یہ الفاظ بولتے ہوئے اُسکے دل میں ایک چھبن کا احساس ہوا تھا رگوں میں دورتا خوں رکتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔ایسا لگا تھا جیسے کسی نے وجود کو تپتی بھٹی میں جھونک دیا ہو ۔۔۔
آہ۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ کا ہاتھ سن ہوتا گرم گرم توے سے ٹکرایا تھا۔۔وہ سسکی سی بھر کر اپنے لال ہوتے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
یہ تکلیف اتنی نہیں تھی جتنی تکلیف خضر کے کہے گئے لفظوں سے ہوئی تھی۔۔۔ابھی کچھ پل پہلے وہ کتنا خوش تھی اور اس انسان نے ہمیشہ کی طرح سخت لفظ بول کر اُسکی خوشی غارت کی تھی ۔۔۔
خضر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا ابھی وہ شجیہ کا ہاتھ تھامتا اُس سے پہلے ہی شجیہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا۔۔۔اپنی نیلی لال ہوتی آنکھوں سے اُس نے خضر کی طرف دیکھا ۔۔۔
تکلیف دینے کے بعد مرہم رکھنے نہیں اتے چوہدری صاحب۔۔۔اور میرے مستقبل کی فکرِ آپ مت کرے۔۔۔آپکو کیا ملتا ہے میرے چہرے سے خوشی کی رمک چھین کر بتائے۔۔۔۔شجیہ نے درد ضبط کرتے سخت لہجے میں کہا۔۔خضر اُسکی بات پر اپنے لب بھینچ گیا ۔۔۔اگر اُن لفظوں سے تکلیف شجیہ کو ہوئی تھی تو اُس سے بھی زیادہ اُن لفظوں سے اپنا دل خضر کو رکتا ہوا محسوس ہوا تھا یہ سب کیوں تھا وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
نہیں ہے نہ کوئی جواب آپ کے پاس کبھی اپنے دل سے ٹھکرا جانے کے ڈر کو نکال کر میری طرف بڑھے ۔۔۔۔میری محبت کا مذاق نہیں بنائے۔۔۔آپکو ذرا بُرا نہیں لگا اپنی بیوی سے وہ سب لفظ کہتے ہوئے جو سنتے ہی میرا دل چاک ہوا ہے۔۔۔شجیہ کے کہنے پر خضر کی بھوری آنکھوں میں سرخی نمایاں ہوئی۔۔۔
بہت خوشی ہوگی اپنی بیوی کے منہ سے کسی غیر مرد کا نام سن کر ۔۔۔کس طرح آپ یہ پوچھ سکتے ہیں یہ بول سکتے ہیں کہ ایک سال بعد میں آپ سے جدا ہوکر کسی اور کے ساتھ گھر بساؤ گی کیا بات ہے ۔۔۔صحیح ہے ختم کرے یہ کنٹرکٹ ڈھونڈ لونگی میں بھی کوئی ایسا جو مجھ سے ۔۔۔ابھی شجیہ کے لفظ اُسکی زبان پر ہی تھے جب خضر نے اپنے ایک ہاتھ سے اُسکا سر پکڑ کر اپنی طرف کیا اُسکے پہلو سے اپنا دیمج ہاتھ گزار کر اُسکے سرخ لبوں کو اپنی جنونی گرفت میں لیا۔۔۔۔
شجیہ سوکھے پتے کی ماند لرز اٹھی خضر کے اس اقدام سے ۔۔۔اور وہ جنونی ہوتا اُسکی ایک ایک سانس پینے کے ڈر پر تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے جھتپٹا کر اُسکی گرفت سے نکلنا چاہا۔۔۔لیکن خضر کی گرفت انتہائی سخت تھی اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہوتے خضر پیچھے ہٹا تھا۔۔۔شجیہ نے خضر کے پیچھے ہونے پر ایک لمبا سانس بھرا۔۔۔۔
خضر نے اپنے ہاتھ سے شجیہ کے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور اُسکے لبوں سے نکلتے خون کو اپنی انگلی کی پوروں سے چنا۔۔۔۔
شجیہ تڑپ اٹھی تھی خضر کی اس حرکت سے۔۔۔۔
وہ الفاظ میں نے کیسے اپنی زبان سے ادا کیے تھے وہ میں ہی جانتا ہو لیکن تمہارے اُن گلابی لبوں سے یہ سب سنتے میں ضبط نہیں کر سکتا۔۔۔مجھے میرا وجود دہکتے کوئلے کی طرح جلتا محسوس ہورہا ہے ۔۔ابھی تک۔۔۔
وہ سب بولنے کے بجائے میرے منہ پر ایک تھپڑ مارتی اور کہتی کہ ایک سال بعد کیا پوری زندگی یہ کنٹریکٹ ختم نہیں ہوگا۔۔۔۔۔میں۔یہی لفظ تو تمہارے ان لبوں سے سننا چاہتا تھا۔۔۔۔خضر کا ہاتھ ابھی بھی شجیہ کے گال پر تھا۔۔۔۔
میں ڈرتا نہیں ہو ٹھکرائے جانے سے بیشک پوری دنیا مجھے ٹھکرا دے ۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن جب سے تم میری زندگی میں ائی ہو تب سے ڈر گیا ہو یہ سوچتے کہیں تُم مجھے نہ ٹھکرا دو۔کہیں میں تُمیں اپنے احساسات بیان کرو اور تم انکا مذاق بنا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ نے تڑپ کر اُسکی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں ایک گہرے دکھ کی رمک نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
آپ غلط ہے خضر بلکل غلط ہے آپ نے خود اپنے اوپر زندگی کی خوشیاں حرام کر رکھی ہے اپنے اوپر ایک بےجا سخت کھول چڑھا کر اس کھول کو توڑ دے اور پھر دیکھے زندگی کتنی حسین ہے۔۔۔۔میں آپکو کیوں ٹھکراؤ گی پیار کرتی ہو آپ سے محرم ہے آپ میرے مجازی خدا آپکو ناراض کرتے اپنے رب کو ناراض نہیں کر سکتی میں۔۔۔شجیہ نے محبت سے چوڑ لہجے میں کہا۔۔۔۔
تمہیں میری خامی ۔۔۔خضر نے کچھ کہنا چاہا جب شجیہ نے اُسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھتے اُسے چپ کروایا۔۔۔
کبھی آئینے میں دیکھا ہے آپ نے خود کو ۔۔۔شیر جیسی یہ بھوری آنکھیں اور اتنی لمبی گھنی پلکیں کہ هدا بیوٹی کی نکلی پلکوں کو بھی ٹکر دے ۔۔۔یہ کھڑی مغرور سی ناک جس پر ہر وقت ایک غرور اور غصّہ جمع رہتا ہے اور پھر یہ۔ ۔۔۔یہ پتلے پتلے عنابی لب۔۔۔چہرے پر ہلکی سی داڑھی ۔۔۔اُف کیا کمی ہے آخر آپ میں مجھے بتائیں ایک یہ دل بھی جو لگتا سرد و سخت لیکن ہے نہیں۔۔۔شجیہ نے باری باری اُسکی آنکھوں ناک اور لبوں پر انگلی رکھتے کہا ۔۔
اہ۔۔۔شجیہ کہتے کہتے ذرا سا نیچے کو ہوتی گرنے لگی جب خضر نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے مضبوط بازوں میں بھرا تھا۔۔۔
یہ لے کہاں ہے آپ میں خامِی جب آپ اپنی بیوی کو گرنے سے بچا سکتے ہیں اُسکی حفاظت کر سکتے ہیں۔۔ کوئی خامی نہیں ہے ۔۔۔آپ اُن ہزار مردوں سے اچھے ہے جو عورت کو اپنے نام پر چھوڑجاتے ہیں جو عورت پر بیجا ہاتھ اٹھانے کو اپنی مردانگی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے گلے میں اپنی بابیں ڈالتے کہا۔۔خضر کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔۔۔۔
اور تمہیں کیسے اتنا یقین ہے کہ میں تم پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاؤ گا۔۔۔خضر نے پوچھا۔۔۔
یقین ہے مجھے آپ پر۔۔۔آپکی آنکھوں میں میرے لیے غصّہ ضرور نظر آئے گا لیکن حقارت نہیں۔۔۔۔نفرت نہیں۔۔۔اور میں یقین سے کہہ سکتی ہو آپ مجھ پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے گے ۔۔۔۔آپکی آنکھوں میں میرے لیے عزت ہے جو میں محسوس کر سکتی ہو۔۔۔شجیہ نے مضبوط پُر یقین لہجے میں کہا۔۔۔
اور خضر شجاعت چوہدری اپنی بیوی کا یہ یقین کبھی نہیں ٹوٹنے دے گا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی ناک پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔
چلے اب جلدی سے بول دے ۔۔شجیہ نے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
کیا۔۔خضر نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
یہی کہ پہلی نظر میں آپ مجھے اپنا یہ دل دے بیٹھے تھے۔۔۔محبت کرتے ہیں آپ مجھ سے۔۔۔شجیہ نے خضر کے دل پر اپنی انگلی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ میں بتاؤنگا نہیں عملی طور پر کر کے دکھاؤ گا۔۔۔خضر نے بیباکی سے کہا شجیہ کا سفید رنگ فوراً سے سرخ ہوا۔۔۔خضر نے اپنے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial