قسط: 15
خضر فریش ہوکر جیسے ہی باہر نکلا اُسکے فون پر بیس سے کال انے لگی میجر مہمد نے ارجنٹ اُسے ملنے کے لیے بلایا ۔۔۔
خضر نے فون رکھتے شجیہ کے بارے میں سوچا۔۔۔۔پوری رات وہ یہاں نہیں تھا اب بھی چلا جاتا نہ جانے شجیہ کیسا ردِ عمل دے گی۔۔۔۔۔
ایک گہرا سانس بھرتے اُس نے اپنے قدم بڑھائے لاؤنچ میں پہنچتے ہی اُسے سامنے ہی وہ نظر ائی جامنی رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹہ سر پر اوڑھے ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگاتی ہوئی ۔۔۔۔۔
خضر کے کلون کی تیز مہکتی خوشبو محسوس کرتے شجیہ نے پلٹ کر خضر کو دیکھا اور مسکرائی ۔۔۔
آجائے خضر ناشتہ تیار ہے۔۔۔شجیہ نے مسکراتے چہرے سے کہا۔۔۔
شجیہ مجھے کچھ ضروری کام ہے ارجنٹ جانا ہے۔۔۔خضر نے اُسکے قریب اتے نرم سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
خضر کی بات پر اُسکا مسکراتا چہرہ فوراً سمٹا۔۔۔۔
پر۔۔ابھی تو آپ آئے تھے۔۔۔شجیہ نے دھیمی آواز میں خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔۔
مجھے پتہ ہے میرے دل ۔۔۔بس یہ ایک کام ختم کر کے آجاؤ پھر سارا وقت میرا تمہارا ہوگا۔۔۔بس۔۔ جب تک میں گھر نہیں آتا تب تک کچھ بھی ہوجائے باہر نہیں نکلنا ۔۔۔۔خضر نے شجیہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے اُسکی نیلی انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
شجیہ نے فقط اثبات میں سر بلایا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر بوسا دیا اور تیز قدموں سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کے جاتے ہی ایک نظر ڈائننگ ٹیبل کو دیکھا تھا جہاں پر ناشتہ سجا ہوا تھا ۔۔نہ جانے کیوں اُسکی نیلی آنکھیں نم ہوئی ۔۔۔۔۔۔
تیزی سے وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔
اُسے لگ رہا تھا خضر اُسے نظرانداز کر رہا ہے۔۔۔۔نہ پوری رات وہ گھر تھا اور نہ اب۔۔۔بیڈ پر اوندھے منہ لیتی وہ اانہی سب چیزوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔
اتنا بڑا گھر اُسے گھٹن زدہ لگ رہا تھا نہ فلک گھر پر تھی کہ وہ اُس کے پاس چلی جاتی یہ تنہائی اُسے کاٹ کھانے کو دور رہی تھی۔۔۔۔۔
نسرین بیگم کے پاس جانے کا سوچتی وہ اُٹھی۔۔۔اپنی چادر الماری سے نکالتے پہنتے اُس نے ایک نظر اپنے آپکو آئینے میں دیکھا تھا نیلی انکھوں میں رونے کے سبب جو لالی ظاہر ہو رہی تھی کاجل کی گہری لکیر سے بھر کر اُسے چھپایا اور کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔
دل میں ایا کہ ایک مرتبہ خضر کو بتا دے لیکن ابھی اُسے خضر پر انتہا کا غصّہ تھا۔ اور ویسے بھی جس طرح خضر اُسے منع کرتے گیا تھا وہ اُسکو جانے ہی نہ دیتا۔ ۔اور وہ گھر پر تنہا نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے ڈرائیور کو ہسپتال لے جانے کا حکم دیا۔۔۔
اس بات سے بےخبر کہ اُسکا یہ قدم خضر اور اُسے گہرے ہجر میں ڈال دے گا۔۔۔



شجیہ کی گاڑی کے باہر نکلتے ہی جوہن نے اپنی گاڑی اسکے پیچھے لگائی لیپرڈ کے حکم کے مطابق اُسے کسی بھی طرح اج ہی شجیہ کو لیپرڈ تک پہنچانا تھا اور یہ اچھا موقعہ تھا۔۔۔
شجیہ نے سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکایا ابھی وہ ہاسپٹل سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھی جب اُسے دائیں بائیں جانب دو کالی گاڑیوں کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی انجانے خوف سے دل دھڑکا۔۔۔
سانس تو تب تھمی جب ایک گاڑی نے اُنکی گاڑی کو اور ٹیک کیا۔۔۔اور اُس میں سے نکلتے کالے لباس میں ملبوس آدمیوں نے گاڑی کو چاروں طرف سے گھیرا۔۔۔۔۔
شجیہ نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا موبائل تلاشنا چاہا لیکن وہ اپنا موبائل تو گھر ہی چھوڑ ائی تھی۔ ۔
جلدی سے خضر کو فون کرے۔۔۔شجیہ نے ڈرائیور کو تیزی سے کہا ۔۔۔ابھی ڈرائیور خضر کو فون کرتا کہ ایک گولی سامنے سے اتی اُسکے دماغ کے بیچ و بیچ لگی۔۔۔
شجیہ چیخی ۔۔گاڑی میں پھیلتے خون کو دیکھتے اُسے لگا اُسکی سانسیں بند ہوجائے گی۔۔جب اُسکی طرف کا دروازہ کھلا ۔۔۔
چھوڑو مجھے ہاتھ مت لگانا چھوڑو مجھے۔۔۔۔کالے لباس میں ملبوس جون نے شجیہ کا بازو تھام کر اُسے باہر نکالنا چاہا جب۔شجیہ مزاحمت کرتے چیخی۔۔۔لیکن یہ مزاحمت چند پل کی تھی جون نے کلوروفوم سے بھرا رومال شجیہ کے چہرے پر رکھا۔۔۔شجیہ کی آنکھوں سے بےبسی بھرے آنسو نکلے ۔۔۔
شجیہ کا سر ایک طرف کو ڈھلکا۔۔۔جون کے اشارے پر دو لڑکیاں گاڑی سے باہر نکلی اور شجیہ کو لے کر ایک گاڑی میں سوار ہوئی۔۔۔
پل بھر کا کھیل تھا اور شجیہ خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔۔خضر شجاعت چوہدری سے دور چلی گئی تھی۔۔۔۔




خضر میجر مہمد سے مل کر اپنی گاڑی میں سوار ہوا تھا ۔۔۔نہ جانے کیوں اچانک اُسے سینے میں دل کے مقام پر درد سا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔ایسا لگا جیسے دل کا کوئی حصہ کٹ کر اُس سے جدا ہو رہا ہے ۔۔۔
بیساختہ شجیہ کا سراپا ذہن میں لہرایا ۔۔۔۔دل کی دھڑکن حد سے سوا ہوئی۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے یہ خیال خضر کے ذہن میں فوراً سے گونجا۔۔۔۔اپنے فون سے گھر کے لینڈ لائن پر کال کی۔۔۔۔
ہیلو شجیہ کہاں ہے میری بات کرواؤ۔۔۔ملازمہ کے فون اٹھانے پر خضر نے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔لہجہ میں واضح فکر اور ایک خوف سا تھا ۔۔۔۔
سر میم ہاسپٹل چلی گئی ہے ۔۔۔ملازمہ کے بتانے پر خضر کے ماتھے پر بل پڑے انجانے خوف سے ماتھے پر پسینہ چمکا ۔۔۔
فون ڈیش بورڈ پر پٹھکتے اُس نے گاڑی تیز رفتار میں دوڑائی ۔۔اُس نے شجیہ کو منع کیا تھا گھر سے باہر نکلنے سے پھر بھی وہ نکلی اُسے پتہ تھا باہر لیپرڈ شجیہ کے ہر ایک قدم پر نظر رکھا ہوا ہے۔۔۔ایسے میں شجیہ کا باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا ۔۔
ڈیم ات۔۔۔تمھاری اس غلطی کی سزا تمہیں ضرور ملے گی شجیہ ۔۔اگر میری بیوی مجھ سے دور ہوئی تو میں سب کچھ تہس نہس کردونگا۔۔۔۔۔اپنا ہاتھ زور سے اسٹیئرنگ پر مارتے خضر لال بھبھوکا چہرے لیے ڈھاڑا ۔۔۔۔۔۔
اگر غلطی سے بھی شجیہ تک لیپرڈ پہنچ گیا تو خضر نہ جانے کیا کر گزرتا اُسے خود نہیں معلوم تھا۔۔۔
ہسپتال کے راستے پر اُسے سامنے ہی گاڑی نظر ائی دھڑکتے دل سے وہ اپنی گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔
دل تھا کہ انجانے خوف سے دھڑکتا اُسکے سینے سے ٹکڑا رہا تھا یہ خوف انجانا نہیں تھا بلکل بھی نہیں یہ خوف تو شجیہ کو کھو دینا کا تھا۔۔۔۔۔
اپنے ڈرائیور کو مردہ حالت میں دیکھتے خضر نے اپنی مٹھی بھینچی ۔۔۔پچھلی سیٹ پر پڑا شجیہ کا دوپٹہ اٹھا کر اپنے ہاتھ میں تھامتے اُس نے اپنے سینے سے لگایا تھا جان گیا تھا وہ اُس نے دیر کردی ہے۔۔۔۔اپنی آنکھیں مینچتے اُس نے خود پر ضبط کرنا چاہا جو انتہائی مشکل تھا۔۔۔
شجیہ اُس لیپرڈ کے ہاتھ لگ گئی ہے اس وقت وہ اُس کے پاس ہے یہ سوچ خضر کے سینے میں آگ دھکا گئی تھی ۔۔۔۔
اُس کا بس چلتا تو وہ شجیہ کو اپنے سینے میں چھپا کر اس دنیا کی ہر نظر سے بچا لیتا۔۔۔۔
بھوری آنکھیں پل بھر میں لال ہوئی۔۔۔ہاتھوں اور ماتھے کی نسیں اُبھری ہوئی اُسکے اشتعال کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔
ابھی اُسکی بیوی اُسکے پاس نہیں تھی اُسکی بیوی کی عزت جان خطرے میں تھی۔۔۔اور خضر یہ سب سوچتا پاگل ہونے کے در پر تھا۔۔۔
شدید غصے میں اتے اُس نے اپنا ہاتھ گاڑی کے شیشے پر مارا بھل بھل خون اُسکے ہاتھ سے بہتا زمین بھگو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ اُسکی ایک جھلک تک کسی غیر کو دیکھنے نہ دے اور اب تو وہ اُسکے پاس تھی۔۔۔۔۔۔
لہو رنگ بھوری آنکھوں سے اُس نے کامل کو زخمی ہاتھ سے فون ملایا۔۔۔۔بھوری آنکھیں خطرناک حد تک سرخ تھی۔۔۔



فلک ابھی فریش ہوتے باہر نکلی ہی تھی کہ اُسے کامل سامنے نظر ایا جو کسی سے فون پر بات کر رہا تھا جبکہ چہرہ حد درجہ اسپاٹ تھا۔۔۔
فلک کو حیرت ہوئی ابھی تو ہنستا مسکراتا ہوا کمرے سے گیا تھا تو اب کیا ہوا۔۔۔
کامل نے فلک کے انے پر اُسکی طرف دیکھا فون اپنی جیب میں رکھتے اُس نے فلک کے پاس اتے اُسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں تھاما۔۔۔
میرے دوست کو میری ضرورت ہے ۔۔۔اور میرے ملک کو بھی۔۔۔مجھے اس وقت جانا ہوگا۔۔۔لیکن میں تم سے ایک وعدہ چاہتا ہوں میرے انے تک میری بیوی اور بچے کا اچھے سے خیال رکھو گی۔۔۔مجھے میری واپسی پر دونوں صحیح سلامت تندرست چایئے۔۔۔۔کامل نے گھمبیر آواز میں فلک کے خوبصورت چہرے کو تکتے کہا جس کی بھوری چمکدار آنکھیں اُسکے جانے کا سوچتے ہی نم ہوئی تھی۔۔۔
خضر کو کیا ہوا ہے کامل سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔فلک نے خضر کے متعلق پوچھا کامل کی بات پر وہ سمجھ گئی تھی کہ خضر کی بات کر رہا ہے وہ۔۔۔۔
بھابھی اُس لیپرڈ کے ہاتھ لگ گئی ہے ۔۔اور اُنہیں اور باقی بچیوں کو صحیح سلامت واپس لانا ہے۔۔۔کامل کی بات پر فلک کی آنکھوں میں شجیہ کے لیے فکر مندی چھلکی ۔۔۔۔
ایسے کیسے ہوسکتا ہے کامل شجیہ ٹھیک تو ہوگی نہ وہ اُسے کوئی نقصان تو نہیں پہنچائے گا اور خضر وہ تو شجیہ کے بنا ایک دن نہیں رہ سکتا ہے یہ سب کیا ہورہا ہے کامل۔۔۔۔فلک کی آنکھیں چھلک پڑی اور کامل نے اُسکے آنسو دیکھتے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔
ریلیکس حیاتی کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا ہم بھابھی کو صحیح سلامت واپس لے کر آئے گے ۔۔لیکن تم اگر اس طرح روتی رہو گی تو میرا جانا مشکل ہوجائے گا۔۔۔۔کامل نے اُسکے آنسو دیکھتے بےبسی سے کہا۔۔۔
فلک نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے لیکن وہ پھر بہہ نکلے۔۔۔۔
آپ مجھ سے وعدہ کرے خضر کو تنہا نہیں چھوڑے گے ۔۔شجیہ اور باقی سب کو صحیح سلامت واپس لے کر آئے گے اور مجھے میرا شوہر اور میرے بچے کے بابا بھی صحیح سلامت واپس چایئے ۔جس طرح میں آپکو بلکل ٹھیک ٹھاک بھیج رہی ہو بلکل اسی طرح ۔۔فلک نے کامل کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھتے دوسرا ہاتھ اُسکے گال پر رکھتے بھرائے لہجے میں کہا جبکہ آنکھیں اچھی طرح کامل کے ہر نقش کو حفظ کر رہی تھی۔۔۔
میرا وعدہ ہے اپنی بیوی سے سب کو با حفاظت واپس لے کر اونگا۔۔۔چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔۔۔کامل نے فلک کے ماتھے سے اپنا ماتھا لگاتے نرم لہجے میں کہا آنکھیں بند کرتے فلک کو اپنے قریب محسوس کرنا چاہا۔۔۔اُسکا دل تو کیا تھا فلک کو خود میں بھینچ لے اور کبھی اپنے سینے سے الگ نہ کرے۔۔۔فلک کے ہر نقش کو اپنے بیتاب لمس سے بھگو دے ۔۔۔لیکن وقت نے اتنی اجازت کب دی تھی۔۔۔۔
چلو میں تمہیں حویلی چھوڑ اؤ وہاں تم محفوظ رہو گی۔۔کامل نے اپنے اوپر ضبط کرتے فلک سے علیحدہ ہوتے کہا۔۔
فلک نے اثبات میں سر ہلایا اور کامل کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اُسے لیے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔




میں اور انتظار نہیں کرسکتا آپ سمجھ کیوں نہیں رہے میری بیوی اس وقت اُس انسان کے پاس ہے میں انتظار کسی صورت نہیں کر سکتا۔۔۔۔خضر اپنی کرسی سے اٹھتا چیخا تھا میجر مہمد نے خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ دیکھتے اُنہیں ایک بھوکے شیر کی تصویر لہراتی نظر آرہی تھی۔۔۔لال آنکھوں کے ساتھ وہ انتہائی غصے میں تھا۔۔۔۔۔
کامل نے خضر کا بازو پکڑ کر اُسے کنٹرول کرنا چاہا۔۔۔۔
خضر میں جانتا ہوں تم پر کیا گزر رہی ہے ۔۔میجر مہمد نے کہنا چاہا۔۔۔جب خضر پوری قوت سے ڈھاڑا ۔۔۔
آپ نہیں جانتے سر آپ بلکل نہیں جانتے میں اپنی بیوی کی ایک جھلک تک کسی انسان کو دیکھنے نہ دو یہاں تو بات ہی کچھ اور ہے۔۔میری بیوی ابھی اُس لیپرڈ کے پاس ہے۔۔۔۔۔خضر کی آواز آفس کی دیواروں سے ٹکراتے واپس ائی تھی۔۔۔۔
کیا چاہتے ہو۔۔۔میجر مہمد جانتے تھے وہ سکون سے نہیں بیٹھے گا۔۔۔
ٹیم ریڈی کرے ۔۔ہم ابھی اُسکے مینشن پر حملہ کرے گے۔۔۔خضر نے اسپاٹ حتمی لہجے میں کہا۔۔۔۔
وہ اب اور مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا کسی بھی حال میں اُسے شجیہ اپنے پاس چایئے۔۔۔کسی بھی حال میں۔۔۔
ٹھیک ہے کامل ٹیم ریڈی کرے۔۔۔اگر خضر شجاعت چوہدری کو مینشن کا پتہ معلوم ہے تو پھر دیر کس بات کی۔۔۔میجر مہمد نے اطمینان سے کہا اُنکی بات پر کامل نے اپنی آنکھیں مینچِی نفی میں سر ہلایا۔۔۔
اور خضر ابکی بار خاموش ہوا۔۔۔صرف یہی تو ایک چوک تھی جو اُس سے ہوگئی تھی اُسے مینشن کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا اور نہ سائرہ کچھ بتانے کو تیار تھی۔۔۔۔وہ اس وقت جو بےبسی اپنے وجود میں محسوس کر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔وہ نہیں جانتا تھا شجیہ ابھی کس حال میں ہے کیسی ہے۔۔۔اُسکا دل ان وقتوں میں نارمل رفتار سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔اب بھی بولے کچھ آپ۔۔۔میجر مہمد نے اطمینان سے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اُس سے پوچھا ۔۔
وہ صرف اپکی بیوی ہی نہیں ہماری بہو بھی ہے ہمیں بھی اُسکی اتنی ہی فکر ہے جتنی آپکو ہے۔۔۔میجر مہمد نے ابکی بار سخت آواز میں کہا۔۔۔
خضر نے اپنی بھوری آنکھوں سے اپنے ماموں کی طرف دیکھا جو بچپن سے اُسکے ساتھ تھے انہی کی بدولت تو وہ ائی ایس ائی میں ایک ہیکر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔۔۔۔
جاؤ جاکر سائرہ سے بات کرو کوئی نہ کوئی کلو وہ لازمی دے گی۔۔۔میجر مہمد کے کہنے پر وہ دونوں اثبات میں سر ہلاتے اُنکے افس سے باہر نکلے تھے۔۔۔۔



سیدھی طرح سچ بتاؤنگی تو مریم کا بھاری ہاتھ اپنے اس نازک سے گال پر پڑنے سے بچ جاؤں گی۔۔۔کامل نے سائرہ کے سامنے بیٹھتے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے کہا جو لال ہورہا تھا۔۔۔۔
مجھے جو کچھ پتہ تھا میں نے بتا دیا ۔سائرہ نے قہر بھری نظروں سے کامل کو دیکھتے کہا۔ اُسکی بات پر شیشے کے پار کھڑے خضر نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔
ٹھیک طرح سے یاد کرو کچھ تو تمہیں پتہ ہوگا لیپرڈ کے مینشن کے بارے میں۔۔۔خضر مزید برداشت نہ کرتا سائرہ کے پاس اتے غرایا ؟۔۔۔۔
خضر کی سخت سرد آواز پر سائرہ کی آنکھوں میں خوف لہرایا ۔۔۔
مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔سائرہ نے کہا ۔۔اسکی ایک ہی رٹ پر اب کامل اور خضر دونوں کا ضبط ختم ہونے لگا تھا ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا اتنی خاص بندی کو اپنے بوس کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو۔۔۔۔
مریم۔۔۔کامل نے پاس کھڑی لیڈی آفیسر کو اشارہ کیا جو اُسکا اشارہ سمجھتے گرم کھولتا ہوا پانی سائرہ کے پاس ائی۔۔۔
یہ۔۔یہ۔۔کیا کر رہے ہو تم لوگ۔۔۔سائرہ گرم کھولتے پانی کو پاس دیکھتے خوف سے چیخی۔۔۔۔
تم نے ہمیں بیوقوف سمجھ رکھا ہے کہ تم مجھے کچھ نہیں پتہ کی رٹ لگائے رکھو گی اور ہم اُس پر یقین کر لے گے ۔۔۔۔نہ سائرہ بی بی ۔۔۔تم نے ائی ایس ائی کو مذاق سمجھ رکھا ہے شاید۔۔۔۔خضر نے انتہائی سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔
بتاتی ہو میں بتا رہی ہو۔۔۔۔مریم نے سائرہ کو بالوں سے پکڑتے اُسکا سر پانی کی بالٹی کی طرف کیا جب وہ چیخی۔۔۔
کامل اور خضر نے گہرا سانس بھرا۔۔۔



نکالو مجھے یہاں سے۔۔۔شجیہ نے ڈریسنگ ٹیبل کی ساری چیزیں ایک جھٹکے سے نیچے پھینکتے کہا۔۔۔
جب اُسکی آنکھ کھلی وہ اس اندھیرے کمرے میں ایک شاندار بیڈ پر تھی یہ کمرہ ہر اسائش سے مالا مال تھا۔۔۔اُس نے کتنی بار دروازہ بجایا لیکن کسی نے نہ کھولا۔۔۔
شدید غصے میں اتے اُس نے پورے کمرے کا حال برا کر دیا تھا۔۔۔۔
سنائی نہیں دے رہا نکالو مجھے یہاں سے شجیہ نے پاس پڑا واس اٹھا کر سامنے شیشے پر دے مارا۔۔۔۔




کیا ہوا ہے۔۔۔لیپرڈ نے کمرے کے پاس اتے باہر کھڑے جون سے پوچھا۔۔۔
ابھی جون کوئی جواب دیتا جب اندر سے اتی آواز پر اُس نے جون کو جانے کا اشارہ کیا۔۔۔
ہلکے سے کمرے کا دروازہ کھولتے اُس نے اندر قدم رکھا ۔۔۔۔
شجیہ جو اب دوسرا واس اٹھا کر مارنے لگی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر پلٹی۔۔۔۔
سامنے کالے سوٹ میں ملبوس لیپرڈ کو دیکھتے وہ تھمی۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں غصے کی شدت سے سرخی نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔۔۔۔
ہاتھ میں واس تھامے نیلی آنکھوں میں غصّہ لیے بھورے سلکی بھورے بال پشت پر پھیلآئے۔۔لیپرڈ کو اپنی جگہ سٹل کر گئی ۔۔۔۔
وہ یک تک شجیہ کے حسین چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔۔عنابی ہونٹوں پر ایک گہری حسین مسکراہٹ نے اپنی جگہ لی۔۔۔اپنے قدم آگے بڑھاتا وہ شجیہ کے قریب انے لگا۔۔۔
رک جاؤ میرے قریب مت انا جانے دو مجھے۔۔۔شجیہ نے اپنے ہاتھ میں تھاما واس اُسکی طرف پھینکتے چیختے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
واس سیدھا لیپرڈ کے سینے پر لگتا ٹوٹا ۔۔لیکن اب بھی اُسکے چہرے سے مسکراہٹ جدا نہ ہوئی پر وہ اپنی جگہ رک گیا تھا۔۔۔آخر سامنے محبوب کھڑا تھا جس کی کوئی بات وہ ٹال ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔
اگر جون یہاں ہوتا اور شجیہ کی اس حرکت پر لیپرڈ کو بلکل ریلیکس مسکراتے دیکھ لیتا تو یقیناً وہ پانچ چھ سالوں تک کوما میں چلا جاتا۔۔۔۔
وہ لیپرڈ جو اپنی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے کا انجام نہایت عبرت ناک کرتا تھا اج اپنے سینے پر ایک لڑکی کا وار سہہ گیا تھا۔۔۔
شجیہ نے حیرت سے سامنے کھڑے انسان کو دیکھ رہی تھی جس نے ایک لفظ تک نہ اسکو بولا فقط مسکراتا رہا۔۔۔۔
شجیہ کی نظر اُسکی کالی آنکھوں پر پڑی اور اُس میں نظر آتی چمک شجیہ کو پتھر کا کر گئی۔۔۔۔
وہ بھی تو ایک شخص سے محبت کرتی تھی تو کیسے نہ پہچانتی کہ سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں ایک خاص چمک ہے محبت کی چمک ۔۔۔۔
کیسی ہو۔۔۔لیپرڈ نے انتہائی نرمی سے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
مجھے یہاں سے جانے دو۔۔۔میں نے آخر تمہارا کیا بگاڑا ہے ۔۔شجیہ نے لیپرڈ کے کہنے پر سخت آواز میں پوچھا۔۔۔
بہت کچھ بگاڑا ہے آپ نے اس لیپرڈ کا۔۔۔اس دل کو لے کر غائب ہوگئی ہے۔۔۔میری نیند آپ نے چڑائی ہے میرے خیالات میرے ذہن پر اپنا قبضہ کیا ہے۔۔۔مختصر یہ کہ اس لیپرڈ کے اس بنجان دل پر حکمرانی کرنے لگی ہے۔۔۔لیپرڈ نے گھمبیر آواز میں شجیہ کا چہرہ دیکھتے ایک جذب سے ۔۔۔۔
میں ۔۔میں شادی شدہ ہو مجھے جانے دو۔۔۔شجیہ لیپرڈ کی بات پر گھبرائی اُسکی آنکھیں حیرانی سے پھیلی۔۔۔
ہونہہ ۔۔یہی تو بات ہے یہی ایک بات ہے جس کی وجہ سے مجھے آپکو اس طرح اپنے پاس لانا پڑا ۔۔۔۔لیپرڈ نے اپنا سر نفی میں ہلاتے کہا۔۔۔
دیکھو مجھے جانے دو تم میرے شوہر کو جانتے نہیں ہو تمہیں شرم نہیں اتی کسی شادی شدہ لڑکی سے یہ بات کہتے ہوا کچھ تو خدا کا خوف کرو۔۔۔شجیہ اپنی جگہ پر کھڑی ہی ہزیانی انداز میں چیخی۔۔۔اب تو اُسکا گلا بیٹھنے لگا تھا۔۔۔۔
میں کیا کرو میرے بس میں نہیں محبت ہوگئی ہے آپ سے چھوڑ تو سکتا نہیں آپکو۔۔۔اور خدا آپکو میرے نصیب میں بھی لکھ سکتا تھا پھر کیوں نہیں لکھا کیوں آپ مجھے دیر سے ملی پہلے بھی تو مل سکتی تھی۔۔۔۔لیپرڈ کی بات پر شجیہ نے زور سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
دیکھو میں خضر کا نصیب۔۔۔آہ ۔۔۔شجیہ ابھی کہنے لگی ہی تھی جب لیپرڈ نے اپنے ہاتھ میں تھامی پسٹل سے سامنے پڑے بڑے سے واس پر وار کیا۔۔۔۔
میں خضر کے نصیب میں تھی اُنکے نصیب میں لکھی گئی تھی اور یہ میرے اللّٰہ کا فیصلہ تھا جو مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔جب اُنکے نصیب میں تھی تو اُن تک ہی انا تھا مجھے۔۔۔شجیہ نے سمنبھل کر سرد آواز میں لیپرڈ کی طرف دیکھتے کہا آنکھوں میں ابکی بار کوئی ڈر نہیں تھا ۔۔لیپرڈ کی آنکھیں پل میں لال ہوئی ۔۔۔۔
اور میری محبت۔۔۔لیپرڈ نے گن سے اپنی داڑھی رب کرتے پوچھا۔۔۔
تمھاری محبت تمھاری غلطی۔۔میں جانتی ہو دل پر اختیار نہیں ہوتا لیکن جب آپکو پتہ چل جائے جس کو دیکھ کر آپکا دل دھڑک رہا ہے وہ آپکے نصیب میں نہیں وہ کسی اور کی امانت ہے تو اپنے قدم پیچھے لینے پڑتے ہے اپنے دل کو روکنا پڑتا ہے۔۔۔۔شجیہ نے پاس پری چادر بیڈ سے کھینچتے خود کے گرد اوڑھی۔۔۔۔
غلط یہ کرتے هونگے دوسرے لوگ میں لیپرڈ ہو ۔۔جسکو جو چیز اچھی لگتی ہے وہ حاصل کر لیتا ہے یہاں تو بات محبت کی ہے تو کیسے نہ چھینٹا میں آپکو اُس سے۔۔۔اور فکر نہیں کرے کچھ ہی پلوں میں آپ بیوہ ہوجائے گی۔۔اور اُسکے بعد ہم دونوں اپنی دنیا بسائے گے۔۔۔۔لیپرڈ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی پشت پر رکھتے اطمینان سے کہا۔۔۔
اُس نے جیتنے اطمینان سے یہ بات کی تھی اتنی ہی یہ بات شجیہ کو اذیت دے گئی تھی۔۔۔خضر کے بارے میں سوچتے اُسکی نیلی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہوا ۔۔۔۔
میں تمہارا منہ نوچ لونگی اگر میرے شوہر کو ایک کھڑوچ بھی ائی تو۔۔شجیہ غرائی نیلی آنکھوں میں غضب کا غصّہ سمایا ۔۔۔۔
یہی پیار یہی فکر میں اپنے لیے دیکھنا چاہتا ہوں اور ایک دن دیکھو گا ضرور۔۔۔لیپرڈ نے سائڈ سمائل کرتے کہا۔۔۔
کبھی نہیں میری فکر میرا پیار مجھ پر میری ہر چیز پر فقط میرے شوہر کا حق ہے ۔۔۔۔شجیہ نے نفی میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
باہر سے اتی فائرنگ کی آواز پر شجیہ مسکرائی۔۔۔۔اُس نے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھائے جب لیپرڈ نے اُسکا بازو پکڑا۔۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔۔چھوڑو ۔۔۔خضر بچائے مجھے۔۔۔خضر۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔شجیہ لیپرڈ کی گرفت میں چیخی دل نے جیسے صدا دی تھی کہ خضر ہی ہے وہ ہی ہے جو اُسے بچانے ایا ہے۔۔۔
لیپرڈ نے شجیہ کی گردن کی مخصوص رگ دبائیں اور پل میں وہ بیہوش ہوتے اُسکے کندھے پر گری تھی۔۔۔۔
سر ہمیں یہاں سے جانا ہوگا۔۔نیچے والے پورشن پر حملہ ہوگیا ہے۔۔جون نے کمرے میں اتے عجلت سے کہا۔۔۔
لیپرڈ نے آرام سے شجیہ کے وجود کو اپنی باہوں میں بھرتے قدم روف ٹاپ کی جانب بڑھائے تھے جہاں انکا ہیلی انکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔
سر وہ لڑکیاں۔۔۔جون نے نیچے قید ہوئی لڑکیوں کے بارے میں پوچھنا چاہا ۔۔
فلوقت میرے لیے میری محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔لیپرڈ سرد آواز میں گویا ہوا۔۔۔




سائرہ کی بتائی جگہ پر وہ لوگ آئے تھے ۔۔جہاں پر اس پاس سنسان میدان تھا اور بیچ میں بنا وہ عالیشان سا مینشن۔۔۔۔
خضر کی ٹیم نے جلدی سے پورے بنگلہ کو اور ٹیک کر لیا تھا شاید لیپرڈ اس بات سے نہ واقف تھا کہ وہ لوگ یہاں بھی آسکتے ہے اسی لیے اُس نے اپنی ٹیم کو تیار نہیں کیا تھا۔۔۔
کالی شرٹ اور کالی پینٹ میں ہاتھ میں گن تھامے خضر بیتابی سے سامنے اتے ہر وجود کو مارتا اندر داخل ہوا تھا ۔۔نظریں بس ایک وجود کو دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔
نیچے موجود ہر کمرے کے دروازے کو کھولتے وہ شجیہ کی تلاش کر ربا تھا اور ہر کمرے میں اُسے نہ پاکڑ اُسکے چہرے کے تاثرات مزید سخت ہوتے جا رہے تھے ۔۔اُسے ہر حال میں شجیہ واپس چایئے تھی صحیح سلامت ۔۔۔
مقابل کے وار سے بچتے بچاتے وہ شجیہ کو ہر جگہ تلاش رہا تھا لیکن اُسکی تلاش ناکام ہو رہی تھی دل کی دھڑکن اور گھبراہٹ حد سے سوا تھی۔۔۔۔
یکدم اُسے شجیہ کی آواز محسوس ہوئی ۔۔خضر نے جلدی سے اوپر کی جانب جانا چاہا جب پیچھے سے اتی گولی اُس کا بازو چیرتی نکل گئی اپنے درد کو ضبط کرتے اُس نے پلٹ کر وار کیا اور تیز قدموں سے اوپر کی طرف بڑھا۔۔۔اوپر اتے اُس نے ہر کمرے کو دیکھا ۔۔۔ایک آخری کمرے میں داخل ہوتے ۔۔وہ تھما سامنے ہی شجیہ کی چپل پڑی ہوئی تھی اسکا مطلب تھا وہ یہاں ہی تھی ۔۔۔خضر نے جلدی سے وہ چپل اٹھائی۔۔۔ہیلی کی آواز پر وہ چھت کی طرف بھاگا۔۔
قدموں کی رفتار تیز تھی بازو سے بہتا خون تلکیلف دے رہا تھا۔۔۔لیکن اُس سے زیادہ تکلیف سینے میں ہورہی تھی دل میں ۔۔۔جو شجیہ کے دور جانے سے اُسے محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔
خضر جب تک چھت پر ایا ہیلی ہوا میں اڑتے اُسکی شجیہ کو اُس سے دور لے گیا تھا۔۔۔
شجیہ ۔۔۔خضر اپنی پوری قوت سے چیخا تھا۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلایا بھوری آنکھیں پل میں لال ہوئی۔۔۔۔اتنے قریب اتے ہوئے بھی وُہ اُس سے دور چلی گئی تھی۔۔۔۔وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا ۔۔۔
خضر نے شدت سے اپنا ہاتھ پہلے سے زخمی ہاتھ زمین پر مارا تھا۔۔۔آخر کیوں ہوا تھا یہ اُسکے ساتھ ۔۔۔
ایک ہی انسان تو میری زندگی میں خوشیاں لایا تھا میرا تھا صرف و صرف میراجس نے بنا میری خامی کو دیکھے مجھ سے پیار کیا۔ ۔۔اور اب وہ بھی دور کر دیا ہے آپ نے۔۔۔خضر کے لبوں سے شکوہ نکلا ۔۔
میں تمہیں چھوڑو گا نہیں بلکل بھی نہیں ۔۔۔۔بخدا تمہاری موت میرے ہاتھوں سے ہونے ہے اگر میری بیوی کو ذرا سی بھی چوٹ ائی یہ کوئی نقصان پہنچا تو بہت بری موت دونگا میں تمہیں یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔۔خضر کے لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی۔۔۔وہ اب لیپرڈ کو بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا تھا قطعی نہیں۔۔۔۔
خضر۔۔۔کامل کی آواز پر خضر نے اپنی بھوری انکھوں سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔اپنے دوست کی آنکھوں میں نظر اتی اذیت تکلیف اور غصّہ دیکھ کر کامل نے اپنے لب بھینچے ۔۔۔
لڑکیاں مل گئی ہے وہ صرف یہاں سے بھابھی کو لے کر گیا ہے۔۔۔کامل کی بات پر خضر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔۔۔
چلو۔۔۔۔خضر نے فقط اتنا کہا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔
کہنے کو خضر کا لہجہ سادہ تھا لیکن اُس میں چھپے جنون اور شدت کو کامل اچھی طرح پہچان گیا تھا۔۔۔۔
اب لیپرڈ کی موت پکی تھی یہ بات کامل جان گیا تھا پہلے خضر اپنی قوم کی بچیوں کی۔عزت کی وجہ سے مجبور تھا پر اب نہیں۔۔۔