قسط: 19
خضر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا گھر پہنچا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔لمبے لمبے دھگ بھرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔ اور ایک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔
شجیہ جو ابھی فریش ہوکر پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں بھیگے سراپے کے ساتھ باہر نکلی تھی خضر کے دروازہ کھولنے پر پلٹی۔۔
سامنے خضر کو دیکھتے جس کی بھوری انکھوں میں غضب کا غصّہ تھا اُسکے اوسان خطا ہوئے۔۔۔۔
خضر نے دروازہ بند کرتے گہری نظروں سے اپنی حسین بیوی کا جائزہ لیا جو پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹہ سے بےنیاز بھیگے بالوں کو پشت پر پھیلائے آنکھوں میں ڈر اور گھبراہٹ لیے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
چہرے پر ائی بھیگی لٹو سے ٹپکتی پانی کی بوندیں اُسکے سرخ رّخصار سے ہوتے اُسکی گردن میں گرتے جذب ہورہے تھے اور خضر کی نظر اُن بوندوں پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
وہ جو دو دن سے اُس سے خفا تھا سامنے اُسکا بہکاتا خوبصورت سراپا دیکھتے اُسکی ناراضگی ختم ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔
دھیمے قدموں سے شجیہ کی طرف بڑھتے وہ اُسے اب خمار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں خمار اور اُسکے بڑھتے قدموں کو دیکھتے تھوک نگلا ۔۔۔
خضر نے شجیہ تک پہنچتے اُسکی قمر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے اپنے انتہائی نزدیک کیا۔۔۔
خضر کی دہکتی سانسیں شجیہ کے چہرے پر پڑتی اُسکے گال تپاء گئی ۔۔۔۔۔
خضر۔۔۔شجیہ نے اُسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتے دھیمی آواز میں ایک گہرا سانس بھرتے کہا۔۔۔۔
کیا کہا تھا وائس میل میں۔۔۔خضر نے یکدم اُسکی قمر پر اپنی گرفت سخت کرتے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
وہ۔۔وہ آپ گھر نہیں آرہے تھے اسی لیے کہا۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھیں جن میں اب غصّہ تھا دیکھتے اٹکتی آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ خضر شجاعت چوہدری کو مجھ سے دور جانے کی بہت جلدی ہے جو ایسی بات ان لبوں سے ادا کی۔۔۔خضر نے شجیہ کے کانپتے گلابی لبوں پر اپنی نگاہ مرکوز کرتے گھمبیر سخت آواز میں کہا۔۔۔۔۔
نہیں میں آپ سے کبھی بھی دور نہیں جانا چاہتی خضر۔۔۔آپ مجھ سے ناراض تھے اور مجھے پتہ تھا آپ اسی طرح گھر واپس آئے گے اسی لیے میں نے وہ کہا۔۔۔شجیہ نے معصوم شکل بناتے اپنے ہاتھ خضر کے سینے سے گزارتے اُسکے کندھوں کے گرد رکھتے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اگر ایسا تھا تو کیوں کہیں وہ لفظ کیوں مجھے چھوڑ کر جا رہی تھی مجھ پر یقین نہیں تھا کہ میں بچا لیتا سب کو یہ محبت نہیں تھی۔۔۔یکدم ایک جھٹکے سے شجیہ کو مزید نزدیک کرتے وہ سخت لہجے میں اسکے چہرے پر جھکے گویا ہوا۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھیں بیقینی سے پھیلی آخر خضر ایسا کیسے بول سکتا تھا۔۔۔
محبت ۔۔۔محبت نہیں ہے آپ سے آپ ایسا کیسے بول سکتے ہیں خضر ۔۔۔اُس وقت جس طرح کے حالات تھے کسی نہ کسی کو قربان ہونا تھا۔۔۔یقین تھا آپ پر لیکن اُس وقت مجھے وہی صحیح لگا۔۔۔۔آپ کو لگتا ہے جو سب میں نے کہا وہ صرف آپکو تکلیف میں مبتلا کر گیا تھا تو نہیں خضر وہ سب کہتے میرا دل بھی خون کے آنسو رویا ہے۔۔۔خضر کے سینے پر ہاتھ مارتی اُسے ایک جھٹکا دیتی شجیہ چیخی تھی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔
خضر کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا غصّہ میں وہ بہت غلط بول گیا تھا۔۔۔۔
آپ سے دور جانا میرے لیے سوہانے روح ہے ۔۔۔اور انابیہ وہ قربان ہوئی اُسکا بچا ۔۔۔۔۔میں اپنے آپکو ان سب کا زمیدار سمجھتی ہو۔۔۔۔وہ میری محبت کو بچاتے خود قربان ہوئی خضر۔۔۔۔آنسوؤں میں شدت ائی تھی وہ سب یاد کرتے خضر نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔
تمھاری غلطی نہیں ہے اس میں۔۔۔تم کیوں خود کو زمیدار سمجھ رہی ہو اُس نے جو کیا وہ ہم کبھی نہیں بھول پائے گے کبھی نہیں میری جان وہ ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں سوچوں میں زندہ رہے گی۔۔۔۔خضر نے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔اُسکے آنسو دیکھتے غصّہ تو کہیں دور جا سویا تھا۔۔۔
شجیہ اُسکے سینے پر سر رکھے اپنی بہتی آنکھیں بند کر گئی تھی ۔۔۔
آپ نے کہا میں آپ سے محبت نہیں کرتی ۔۔شجیہ نے اپنے آنسو اُسکی قمیض سے صاف کرتے شکوہ کیا۔۔۔
وہ تو غصے میں بول دیا تھا باقی میں اچھی طرح جانتا ہو میری بیوی مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے ۔۔خضر نے جھکتے شجیہ کے کندھے پر لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
خضر کے لمس پر شجیہ کے وجود میں سنسنی سی دور گئی ۔۔اُس نے خضر سے دور ہونا چاہا جب خضر نے اُسکی پشت پر رکھے ہاتھ سے اُسے مزید نزدیک کرتے اُسکی کوشش ناکام کی۔۔۔۔
خضر۔۔۔اپنی گردن پر پڑتی خضر کی سانسیں اُسکی گردن جھلسا گئی تھی۔۔۔۔
خضر نے اپنے دہکتے لب شجیہ کی کان کی لو پر رکھے اور وہاں سے سفر کرتے اُسکی گردن پر جھک ایا۔۔۔
شجیہ نے خضر کی شرٹ کو دونوں مٹھیوں میں جکڑا۔۔۔۔
خضر کے دہکتے لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے شجیہ کی سانسیں تیز ہوئی دل کی دھڑکن حد سے تجاوز کرتی بڑھی۔۔۔۔۔
خضر نے ایک جھٹکے سے اُسکا رخ پلٹتے اُسکی پشت اپنے سینے سے لگائی شجیہ کی پچھلی گردن پر اپنا لمس چھوڑتے وہ اُسکے اوسان خطا کر رہے تھے۔۔۔
۔آپ ۔۔آپ ناراض تو نہیں اب مجھ سے۔۔۔شجیہ نے اپنی آنکھیں بند کئے کانپتے لبوں سے یہ لفظ ادا کیے۔۔۔۔
ناراضگی ہی تو دور کر رہا ہوں تمھارے لمس سے میری ناراضگی میرا غصّہ میری تھکن سب دور ہوجاتی ہے۔۔۔خضر نے کہتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے اُسکے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔
شجیہ اپنی آنکھیں بند کئے اپنے لبوں پر خضر کی شدت محسوس کر رہی تھی جو لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
شجیہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی لیکن اُس نے خضر کو خود سے دور نہیں کیا ۔۔۔۔
خضر اُسکی سانسوں پر رحم کرتا پیچھے ہٹا نظر اُسکے بھیگے ا لال ہوتے لبوں میں ٹھہری جو اُسکی شدت سے لال ہوئے تھے۔۔۔۔
تمہارا ہونا میری زندگی ہے کیوں ہو تم اتنی پیاری کہ میرا پتھر دل میرا سخت لہجہ تمہارے سامنے نرم پڑ جاتا ہے۔۔۔خضر نے اُسے اپنے بازو میں بھرتے اُسکے چہرے پر جھکتے پوچھا۔۔۔۔
کیونکہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور جو محب ہوتا ہے اُسکے لیے اُسکی محبت ہی سب سے حسین ہوتی ہے وہ لاکھ چاہنے کے بعد بھی اپنی محبت کو تکلیف نہیں دے سکتا۔۔۔۔شجیہ نے اپنی باہیں خضر کی گردن میں ڈالتے مان سے کہا ۔۔اور خضر مسکرا گیا اُسکی بات پر۔۔۔۔
یہ تو ہے تم پیار ،محبت ،عشق سب ہو میرا۔۔۔خضر شجیہ کو بیڈ پر لٹاتے اُسکے بال کان کے پیچھے کرتا گھمبیر آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔
تم ہی ہو جس کے انے سے خضر پورے دل سے مسکرایا ہے جسکی محبت نے خضر کو زندگی کا اصل مطلب سمجھایا ہے۔۔۔جس کے انے سے میری زندگی سوری ہے ۔۔۔۔۔خضر کہتے اُسکی گردن میں جھک ایا اور شجیہ اپنی آنکھیں موندیں اپنا آپ خضر کے حوالے کر گئی ۔۔۔۔




شجیہ چہرے پر حسین مسکراہٹ لیے کچن میں کھڑی خضر کے لیے کافی بنا رہی تھی۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اُس نے اُسے اپنی شدت بھری گرفت سے آزادی دی تھی۔۔۔
اب بھی بھیگے بالوں کے ساتھ وہ جلدی ہاتھ چلاتی خضر کے لیے کافی بنا رہی تھی کہ ملازمہ کی آواز پر اُسکے ہاتھ تھمے ۔۔۔۔
بیگم صاحبہ سامیہ بی بی ائی ہے حویلی سے۔۔۔ملازمہ نے اپنی پیاری سی مالکن کو دیکھ کر کہا جو چہرے پر محبت کے رنگ سجائے میٹھی سی مسکان لیے کھڑی تھی۔۔۔۔
شجیہ نے ملازمہ کی بات پر جلدی سے سر پر دوپٹہ اوڑھا اُسے حیرت ہوئی تھی سامیہ کے یہاں انے پر۔۔۔
یکدم اُسے یاد آیا فلک اور کامل دونوں گھر پر ہیں کہیں وہ اُن دونوں کو دیکھ نہ لے کیونکہ ابھی تک خضر نے گھر میں اُن دونوں کے بارے میں بات نہیں کی تھی وہ تیز قدموں سے باہر نکلی۔۔۔سامنے ہی لال رنگ کی بولڈ ساڑھی میں اُسے سامیہ نظر ائی جو اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔شجیہ نے پاس اتے سلام کیا۔۔۔۔
زائد کی نگاہ شجیہ پر ٹھہر سی گئی تھی کچھ پل تو سامیہ بھی اُسے دیکھے گئی جو سنہرے رنگ کی سادہ سی فروک میں سر پر ٹشو کا ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے لال چہرہ لیے اُسکے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔زائد نے فوراً سے جواب دیا جبکہ سامیہ نے وہ بھی دینا لازم نہیں سمجھا۔۔۔۔شجیہ کے چہرے پر بکھرے رنگ دیکھتے وہ پہچان گئی تھی کہ وہ خضر کے ساتھ کتنی خوش ہے اور یہی بات اُسے خٹک کر رہی تھی۔۔
کیسے انا ہوا آپ دونوں کا۔۔۔شجیہ نے ملازمہ کو اشارہ کرتے ہوئے اُن دونوں سے پوچھا۔۔۔
کیوں کیا کوئی کام ہوگا تب ہی میں اونگی ۔۔۔میں یہاں خضر سے ملنے ائی ہو بلاؤ اسکو ۔۔۔سامیہ نے اپنی بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر شجیہ نے اپنے لب بھینچے۔۔۔
کون ایا ہے ۔۔۔خضر کی آواز پر شجیہ سمیت اُن دونوں نے بھی پلٹ کر دیکھا تھا جو آرام دہ کالی ٹی شرٹ پہنے بھیگے بالوں کے ساتھ کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔سامیہ اور زائد کو دیکھتے اُس نے اپنی بھنویں سکوڑی۔۔۔اور چلتا شجیہ کے برابر میں آکر بیٹھا۔۔۔
خیریت تم دونوں یہاں۔۔۔خضر کے سوال پر شجیہ نے اپنی مسکراہٹ لبوں تلے دبائیں سامیہ تو تلملا گئی تھی خضر کی بات اور شجیہ کی مسکراہٹ پر۔۔۔۔وہ یہاں یہ دیکھنے ائی تھی کہ خضر اور شجیہ کا رشتا کیسا چل رہا ہے ۔۔۔
وہ ہم یہاں کراچی ایک دوست کے گھر دعوت میں آئے تھے تو سامیہ نے کہا تم سے ملتے چلے بس اسی لیے۔۔۔زائد نے دانت پیستے خضر کی طرف دیکھتے کہا جس نے جان بوجھ کر شجیہ کی قمر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے اپنے مزید قریب کیا تھا۔۔۔۔
لگتا ہے میرا انا تم دونوں کو پسند نہیں آیا۔۔۔سامیہ نے جلتی آنکھوں سے شجیہ کے لال ہوتے چہرے کو دیکھتے ملازمہ کے ہاتھ سے جوس تھاما۔۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے آپ مہمان ہے اور مہمانوں کی عزت کرنی چایئے۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے کہا جب سامیہ کی اگلی بات پر اُسکی مسکراہٹ سمٹی۔۔۔۔۔
ویسے تمہیں اپنا پہناوا صحیح کرنا چایئے اس طرح سادگی میں ہمارے خاندان میں نہیں رہتے مانا تم جہاں۔ سے ائی ہو وہاں پر اس طرح ہی کے کپڑے پہنتے تھے پر اب دیہان رکھنا چایئے۔۔۔۔سامیہ نے اپنا ساڑھی کا پلوں صحیح کرتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
میرا پہننا اوڑھنا سب میرے شوہر کے لیے ہے میں سادہ رہو یہ سجی سوری اپنے شوہر کو ہر حال میں اچھی لگتی ہو اور یہی کافی ہے میرے لیے کوئی اور کیا سوچتا ہے اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔شجیہ نے ہر ایک لفظ پر زور دیتے کہا۔۔۔۔
شجیہ کی بات پر جوس پیتی سامیہ کے ہاتھ سے جوس چھلک کر اُسکی ساڑھی پر گرا۔۔۔
اوہو واشروم کہاں ہے اب دھبہ آجائے گا اس پر۔۔۔سامیہ جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھی۔۔۔
آجائے میں آپکو لے چلو۔۔۔شجیہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔اور سامیہ کو لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔
اپنی نگاہوں پر قابو رکھو میں نہیں چاہتا تمھاری بیوی کم عمر میں بیوہ ہو جائے ۔۔۔۔لیکن اگر تم نے اپنی آنکھوں کو کنٹرول نہیں کیا تو جو میں نہیں چاہتا وہ مجھے کرنا پڑے گا ۔۔۔خضر نے اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھتے سخت و سرد آواز میں زائد کی طرف دیکھتے کہا جو شجیہ کی پشت کو تک رہا تھا۔۔۔یکدم سیدھا ہوا۔۔۔۔
خضر کے سنجیدہ اور سخت چہرہ دیکھتے اُسکے ماتھے پر پسینہ چمکا۔۔۔
کمرے میں اتے ہی سامیہ کی آنکھوں میں ستائش اُبھری تھی۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی گئی شجیہ کی چیزیں جو ایک سے ایک برینڈ کی تھی ۔۔۔اور وہی پر رکھی خضر اور شجیہ کی تصویر جس میں خضر اور شجیہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہنس رہے تھے ۔۔۔۔اُسکے تن بدن میں آگ لگی تھی۔۔۔۔
اگر وہ خضر کو ریجیکٹ نہیں کرتی تو اج یہ سب اُسکا ہوتا یہ شاندار گھر اور وہ شاندار شخص جو آج شجیہ کا تھا ۔۔اُس نے چبھتی نگاہوں سے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔
یہ رہا واشروم۔۔۔شجیہ نے واشروم کے پاس اتے اُسے کہا۔۔
ایک طرح سے تمہیں میرا شکریہ کرنا چاہئے ۔۔۔اگر میں خضر کو ریجیکٹ نہیں کرتی تو اج تم ایسی آسائشوں بھری زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔۔۔سامیہ نے تیز نگاہوں سے شجیہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
اہم اہم۔۔۔تمہارا شکریہ نہیں مجھے میرے رب کا شکریہ کرنا چایئے جو میں روز کرتی ہو جب جب اپنے جان سے عزیز شوہر کو دیکھتی ہو۔۔۔کیونکہ جوڑے بنانے والا وہ ہے۔۔۔خضر میرے نصیب تھے کسی نہ کسی طرح سے ہم دونوں کو ملنا ہی تھا۔۔۔شجیہ نے سینے پر ہاتھ باندھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔اور سامیہ تلملاتی ہوئی واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
شجیہ نے نفی میں سر ہلایا اور باہر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔




سامیہ اپنی ساڑھی صاف کرتے باہر ائی تھی کمرے میں کسی کو نہ پاکر اُسکی آنکھوں میں چمک اُبھری ڈریسنگ روم میں جاتے اُس نے الماری کھولی اور اُس میں موجود شجیہ کے کپڑوں کو دیکھتے اُسکے چہرے پر ناگواری ائی تھی ۔۔۔
کپڑے اُدھر سے اُدھر کرتے اُس کی نظر سائڈ پر رکھے پیپر پر پڑی۔۔۔۔
جلدی سے پیپر اٹھاتے اُس نے پڑھے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ نے اپنی جگہ لی۔۔۔
بڑی ائی میرا نصیب کرنے والی ۔۔۔جھوٹی شادی رچا کر بیٹھی ہے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں دونوں۔۔۔دانت پیستے بولتے اُس نے تیزی سے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔ہاتھ میں خضر اور شجیہ کے کنٹرکٹ میرج والے پیپر تھے۔۔۔۔




کامل چھوڑے مجھے اب۔۔۔فلک نے کامل کے سر کو دیکھتے کہا جو اُسکی گردن میں منہ دیے گہرا سانس بھر رہا تھا۔۔۔
فلک کو اپنے آپ پر غصّہ ایا کہاں وہ سونے لگا تھا اور اُس نے اُسے سونے نہیں دیا تھا اور اب کامل اُسے سکون نہیں لینے دے تھا تھا۔۔۔۔
مسٹر بین دیکھنا اُسے بھاری پر گیا تھا کامل چھوٹی موٹی شرارتیں کرتے اُسکے اوسان خطا کر رہا تھا۔۔۔۔۔
نہیں ایسے ہی رہو۔۔۔۔کامل نے اُسکے مزاحمت کرتے وجود کو جکڑتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔۔فلک نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔کامل ایک جھٹکے سے دور ہوا۔۔۔۔
کیا۔ ۔۔چلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہے آپ بھی نہ بلکل احتیاط نہیں کرتی ہے کس نے کہا تھا لیٹتے کو ۔۔چلتے ہیں تھوڑا سا ایسی کنڈیشن میں۔۔۔کامل نے فوراً سے فلک کے پیٹ پر ہاتھ رکھتے بغیر سانس لیے کہا اور فلک حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھے گئی جو کب سے اُسے اپنے سینے سے لگائے لیتا ہوا تھا نہ جانے کتنی بار فلک نے اُسے کہا اُسے جانے دے باہر چلتے ہیں لیکن نہیں۔۔۔۔اور اب کس طرح اُسے ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔
کامل آپ دائی ہے۔۔۔فلک نے اپنے لب بھینچ کر فقط اتنا پوچھا۔۔۔
کامل جو فکرمندی سے اُسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا اُسکی بات پر چونکا اور اپنی ائبرو اچکا کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
کیا میں آپکو دائی لگتا ہو۔۔۔کامل نے اُلٹا سوال پوچھا۔۔۔
جس طرح ابھی آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں اور احتیاط کا کہہ رہے ہیں ایسے تو مجھے آپ دائی ہی لگ رہے ہیں ۔۔۔غلطی آپکی تھی میں آپکو بول بھی رہی تھی مجھے اٹھنے دے لیکن آپ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے۔۔اور اب مجھے ہی ڈانٹ رہے ہیں۔۔۔فلک کی آواز آخر میں بھر ائی۔۔۔۔۔
اور کامل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا فلک کو رونا نہ بھی آرہا ہو تب بھی وہ اپنی ان بھوری چمکدار آنکھوں میں آنسو بھر لیتی تھی تاکہ کامل خان فوراً سے پگھل جائے۔۔۔۔
میں تو اچھا خاصا سو رہا تھا آپ نے ہی میری نند ارائی تھی تو پھر ایسے ساری غلطی آپکی ہوئی ۔۔۔۔کامل نے اُسکا ہاتھ تھامتے اُسے اپنے نزدیک کرتے کہا۔۔۔
کامل ساری غلطی میری تھی۔۔۔۔موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو لیے اُس نے کامل سے پوچھا ۔۔۔وہ جانتی تھی اب کامل نے کیا کہنا ہے اُسے پتہ تھا اُسکی آنکھوں میں آنسو کامل خان کی کمزوری ہے۔۔۔
نہیں بلکل نہیں غلطی تو میری تھی آپ تو بہت معصوم سی پیاری سی میری جان ہے۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری نمی لی آنکھیں دیکھتے اُسکی ناک میں پہنی بالی پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
بلکل ۔۔۔فلک نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اور کامل خان ہنس دیا اپنی بیوی کی چالاکی پر ۔۔۔
چلے باہر چلتے ہے۔۔۔فلک نے کامل کو کہتے تیزی سے بیڈ سے اُترنا چاہا جب کامل نے اُسکا ہاتھ تھاما۔۔۔
آرام سے احتیاط سے۔۔۔کامل نے اُسکی ناک کی ٹپ پر اپنی انگلی رکھتے کہا فلک نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا کر آرام سے بیڈ سے اُتری۔۔۔۔کامل کا بازو تھامے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔




سامیہ طنزیہ مسکراہٹ لیے لاؤنچ میں ائی تھی جہاں پر صرف خضر اور زائد تھے اُس نے کچن میں دیکھا جھاں شجیہ کھڑی ملازمہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔۔
کتنے اچھے ہو نہ تم دونوں۔۔۔سامیہ نے لاؤنچ کے بیچ و بیچ کھڑے ہوکر تیز آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ فوراً کچن سے باہر نکلی ۔۔خضر نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
ایکٹنگ میں۔۔۔سامیہ نے طنزیہ ہنستے خضر اور شجیہ کی طرف دیکھے جملہ مکمل کیا۔۔۔
خضر کی نظر اُسکے ہاتھ میں موجود کاغذ پر پڑی اور وہ سب سمجھتے نفی میں سر ہلا گیا۔۔
کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔شجیہ نے غصے سے پوچھا اب اُسکی برداشت کی حد ختم ہوچکی تھی ایک تو یہ لڑکی بن بلائے یہاں آکر عجیب قسم کی باتیں کر رہی تھی اور پھر اب یہ۔۔۔
میں یہ کہنا چاہتی ہو کہ بہت اچھی ایکٹنگ کرتے ہو دونوں ایک خوش حال سو کالڈ میاں بیوی کی ۔۔۔۔جبکہ اصلیت تو یہ ہے کہ تم دونوں نے کنٹرکٹ میرج کی تھی ۔۔۔سامیہ کی بات پر شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا۔۔۔
کسی کے کمرے میں گھس کر اُسکی چیزوں کو ہاتھ لگانا باتمیزی کہلاتی ہے ۔۔۔شجیہ نے اب کی بار آنکھوں میں غصّہ لیے سامیہ سے کہا۔۔۔۔۔
کیا ہو رہا ۔۔۔۔۔ہے۔۔۔فلک اور کامل جو باہر ہی آرہے تھے تیز آواز سنتے فلک نے پوچھا پر سامنے سامیہ کو دیکھتے اُسکی زبان لڑکھڑائی۔۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ کیا ہے ۔۔۔کیا کرتے پھر رہے ہو تم سب۔۔۔کون ہے یہ لڑکا۔۔۔اور تم ۔۔تم اسی لیے حویلی نہیں آرہی تھی۔۔۔۔بتاؤ کیا چکر ہے یہ سب کس کا بچا ہے یہ فاطمہ اماں مجھ پر تو بہت روک ٹوک لگایا کرتی تھی اب اپنی بیٹی کی کرتوت دیکھے گی تو اُنہیں پتہ چلے گا۔۔۔فلک کو اس حال میں دیکھتے سامیہ نے بوکھلا کر کہا۔۔۔۔
چپ کرو تُم ۔۔۔۔ورنہ تمھاری زبان نکال لونگا اگر اب ایک لفظ بھی میری بیوی کو بولا ۔۔۔۔شوہر ہو میں اُسکا میرا بچا ہے یہ۔۔۔سامیہ کی بات سنتے فلک کی سانسیں تیز ہوئی تھی وہ نفی میں سر ہلاتے رونے والی ہوئی تھی اور اُسکی بگڑتی حالت دیکھتے کامل نے غصے سے آگے بڑھتے سامیہ کے قریب اتے غراتے ہوئے یہ لفظ ادا کیے ۔۔۔
فلک کی بگڑتی طبیعت دیکھتے اُسکا دماغ ماؤف ہوا تھا اُسکا کوئی بھروسہ نہیں تھا سامیہ کا وہ گلا ڈبا دیتا اگر خضر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا نہ ہوتا تو۔۔۔
کیوں چپ کرو میں۔۔۔میں ابھی حویلی فون کرکے سب کو بتاؤ گی ۔۔۔کہ یہ شادی ایک ناٹک ہے اور اسکا بھی صبر کرو ۔۔۔۔سامیہ نے پہلے شجیہ اور پھر فلک کو دیکھتے ضدی لہجے میں کہا۔۔۔
شجیہ فوراً سے فلک کی طرف بڑھی جس کے چہرے سے یہ لگ رہا تھا وہ کسی بھی پل گرنے والی ہے۔۔۔۔۔
بلکہ مجھے فون کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ سب تو یہاں ہے۔۔۔سامیہ جیسے ہی پلٹی دروازے میں داجی اور فاطمہ اماں کو دیکھتے اُس نے تیزی سے کہا۔۔۔۔
اُسکی آواز پر سب ہی بیرونی دروازے کی طرف متوجہ ہوئے تھے اور وہاں داجی اور فاطمہ اماں کو دیکھتے اُن تینوں کے چہرے پر پریشانی جھلکی تھی زائد تو اپنی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سکون سے کھڑا تھا۔۔۔۔
فلک نے بھیگی نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
آئے فاطمہ اماں دیکھے اپنی بیٹی کی حرکتیں۔ ۔۔۔مان بننے والی ہے چھپ کر شادی رچا رکھی تھی انہوں نے۔اورہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ شادی کی بھی ہی ہےیہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔سامیہ کے الفاظ سنتے کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔۔
کیا کوئی اتنا بھی گر سکتا ہے ہاں جس انسان کے دل میں خود غرضی حرض ہو وہ کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔ ۔۔
فلک نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا تھا اور اپنی آنکھیں مونڈتے وہ زمین پر گرتی چلی گئی۔۔۔
فلک ۔۔۔۔کامل بھائی ۔۔۔خضر۔۔۔۔شجیہ فلک کو بیہوش دیکھتے چیخی ۔۔۔۔فاطمہ اماں اور داجی بھی پریشانی سے اُس تک آئے ۔۔۔
خدا کی قسم خضر اگر میری بیوی یہ بچے کو کچھ ہوا تو میں اس عورت کو چھوڑونگا نہیں ۔۔۔کامل ڈھاڑا اور جلدی سے فلک کے بیہوش وجود کو اپنی باہوں میں بھرتے باہر بھاگا۔۔۔
فاطمہ اماں داجی بھی فکرمندی سے اُسکے پیچھے بھاگے تھے۔۔۔۔
شجیہ نے جاتی سامیہ کا ہاتھ پکڑا اُسے پلٹتے کھینچ کر ایک تھپڑ اُس کے منہ پر مارا۔۔۔۔
لعنت ہے تم جیسی شیطانی عورت پر۔۔۔۔۔اگر اُسے کچھ ہوا نہ تو کامل بھائی بعد میں پہلے میں تمہارا یہ خبیث قسم کا دماغ ٹھکانے پر لے کر ائونگی۔۔۔۔۔شجیہ انتہائی غصے میں کہتی خضر کے پیچھے بھاگی تھی جو گھر سے پریشانی سے نکلا تھا۔۔۔۔
سامیہ اپنا سن ہوا لال گال لیے وہی کھڑی رہی ۔۔۔شجیہ کی بات پر اُسکے پورے وجود میں سنسنی سی دور گئی تھی۔۔۔۔



