قسط: 20 باب 1
سب ہسپتال میں فکرمندی سے ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے تقریباََ ادھا گھنٹہ ہونے کو ایا تھا لیکن ابھی تک ڈاکٹر باہر نہیں ائی تھی۔۔۔۔
کامل بےچینی سے چکر لگاتا اپنے آپ پر ضبط کر رہا تھا اُس نے ایک خونخوار نظر ایک طرف کھڑی سامیہ پر ڈالی جو اب بھی ڈھیٹوں کی طرح ہسپتال تک آگئی تھی۔۔۔۔
کامل کی سبز لہو رنگ ہوتی آنکھوں کو دیکھتے سامیہ نے تھوک نگلا۔۔۔۔
داجی اور فاطمہ اماں کی نظریں بھی اس خوبرو نوجوان کو دیکھ رہی تھی جو اضطرابی کیفیت میں چکر لگاتا اپنی سبز انکھوں میں اُنکی بیٹی اور نواسی کے لیے ڈھیروں فکر اور محبت سموئے ہوئے تھا۔۔۔۔
اور یہاں روم کا بند دروازہ دیکھتے کامل کی جان لبوں پر ائی ہوئی تھی ۔۔۔اُسکا دل اج سے پہلے کبھی اس طرح نہیں دھڑکا تھا ۔۔۔وہ اب فلک پر کوئی آنچ بھی نہیں انے دے سکتا تھا وہ اُسکی بیوی اُسکی محبت اُسکے بچے کی ماں تھی۔۔۔۔
کیسی ہے وہ۔۔۔۔۔ڈاکٹر کے انے پر کامل نے اگے بڑھتے تیزی سے ان سے پوچھا۔۔۔
وہ اب ٹھیک ہے ۔۔زیادہ اسٹریس لینے کی وجہ سے وہ اپنے حواس بحال نہیں کر پا رہی تھی بہت مشکل سے اُنکی طبیعت بحال ہوئی ہے۔۔۔اسٹریس پریشانی اُن کے لئے اور بچے دونوں کے لیے اچھا نہیں ہے آپ کوشش کرے اُنہیں پر سکون ماحول میں رکھے اگر اب اُنہیں کوئی اسٹریس یہ پریشانی دی تو ہوسکتا ہے تب اُنکی طبیعت بہت زیادہ بگڑجائے اور اُنکی جان اور بچے کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔باقی آپ اُن سے مل سکتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر لب بھینچے کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔
ڈاکٹر کے کہنے پر کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔بنا کسی کی طرف دیکھے وہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتے اندر گیا ۔۔۔۔
شجیہ خضر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر داجی کی طرف۔۔جو اب خود بھی کمرے میں داخل ہوگئے تھے۔۔۔۔
فلک اپنی آنکھیں موندے لیتی ہوئی تھی ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور بند آنکھوں سے آنسو بہتے اُسکے چہرے کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔۔
فلک۔۔۔کامل نے اُسکے پاس اتے اُسکے بال صحیح کرتے پیار بھرے لہجے میں اُسے پُکارا۔۔۔
فلک نے کامل کے پکارنے پر اپنی لال روئ روئ آنکھیں کھولتے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔
کامل اُسکی روئی سوجی آنکھیں دیکھتے اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔فاطمہ اماں نے کمرے میں داخل ہوتے اپنی جان سے عزیز بیٹی کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اذیت تھی وہ اسکے قریب ائی۔۔۔۔
فلک نے کامل کے چہرے سے نظریں پھیرتے اپنی اماں کو دیکھا ۔۔۔
اماں۔۔۔میں ۔۔میں بتانا چاہتی تھی۔۔۔اماں مجھے معاف کردے۔۔۔میں آپکو بتانا چاہتی تھی نکاح کا۔۔۔پر میں ڈر ۔۔ڈر پلیز اماں مجھ سے ناراض مت ہو۔۔۔پلیز۔۔۔۔فاطمہ امّاں کا ہاتھ پکڑے فلک نے روتے ہوئے بے ربط جملے ادا کیے ۔۔
اور کامل خان کا بس نہ چلا کہ وہ اُسکے روتے تڑپتے وجود کو اپنے سینے میں بھینچ لے۔۔۔وہ محض سبز آنکھوں سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے کھڑا فلک کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔
ہششس۔۔۔پہلے تو آپ چپ کرے۔۔۔۔آپکو رونے کی ضرورت نہیں ہے میں اور بابا آپکے نکاح کے بارے میں جانتے ہیں بھائی جان ہمیں سب کچھ بتا چکے ہیں بیٹا۔۔۔ہم کیوں اپنی بیٹی سے ناراض ہونگے۔۔۔ہم یہ سب جانتے ہیں آپکا نکاح کس حال میں ہوا ہے کیسے ہوا ہے۔۔۔آپ اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے ہمیں اور کیا چائیے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے فلک کے آنسو صاف کرتے اُسکے چہرے پر پیار کرتے نرم آواز میں کہا ۔۔۔
فاطمہ اماں کی بات پر سامیہ کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔۔۔۔
جبکہ فلک اُنکے ہاتھ پر اپنا سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔۔
خضر اور شجیہ نے سکون کا سانس بھرا۔۔۔۔۔
فاطمہ اماں نے فلک کو اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔
کامل نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے میجر مہمد اندر آرہے تھے کامل نے آنکھوں سے انکا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنی آنکھیں جھپکتے اُسے تسلی دی ۔۔۔۔
خضر۔۔۔داجی نے اپنا رخ خضر کی طرف کیا ۔۔۔اُنکی آواز پر شجیہ نے بھی اُنکی طرف دیکھا۔۔۔ڈر تو اُسے بھی لگ ربا تھا نہ جانے وہ کیا کہہ گے۔۔۔۔
داجی۔۔۔خضر نے اُن کی طرف دیکھتے کہنا چاہا۔۔۔۔
کچھ بھی کہنے یہ وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ہم ایک فیصلہ کر چکے ہیں آپ چاروں کے لیے۔۔۔۔۔۔داجی کی بات پر اب لڑکیوں نے بھی اُنکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔دل اُن چاروں کے انجانے خوف سے دھڑکے۔۔۔
کیسا فیصلہ ۔۔۔۔خضر اور کامل دونوں نے یک زبان کہا۔۔۔
آپ چاروں کا دوبارہ نکاح کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔خضر آپ چائیے جتنے بھی بڑے ہوجائے ہمارے لیے ہمارے وہی چہوٹے سے خضر رہے گے آپکے ہر ایک عمل پر ہماری نگاہ تھی ہم جانتے تھے آپ نے یہ کنٹرکٹ میرج کی ہے اور اپنی بہو کی صورت دیکھتے ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ پوری ایمانداری سے اس شادی کو نبھائے گی ۔۔۔اور آپ کا دل بھی اپنی جانب راغب کر لے گی۔۔۔۔
داجي کے کہنے پر خضر اور شجیہ کی آنکھوں اور دل میں سکون بھرتا جا رہا تھا اور سامیہ کے چہرے پر موجود مسکان اور سکون ختم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔یہاں تو بازی پلٹ گئی تھی۔۔۔۔
خضر نے مسکراتے شجیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامہ ۔۔۔۔اُسکی آنکھوں میں اب سکون تھا ۔۔اُس نے شجیہ کی طرف دیکھا جس نے اُسکے ہاتھ پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر دی تھی اور مسکراتی نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کامل کے والدین سے بات ہو چکی ہے وہ جلد کراچی آرہے ہیں ۔۔۔اور پھر بہو کے والد کی طبیعت کو دیکھتے ہم نے سادگی سے نکاح کی تقریب کرنے کا سوچا ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے مسکراتے ہوئے اُن سب سے کہا۔۔۔
میجر محمد سب کچھ داجی اور فاطمہ اماں کو بتا چکے تھے اور کامل کی فلک کے لیے محبت کو بھی فاطمہ اماں اور داجی پہلے فکرمند ہوئے تھے لیکن کامل کے بارے میں جاننے اور اُسکی فیملی کے بارے میں جاننے کے بعد وہ مطمئن ہوگئے تھے۔۔۔۔



فلک کی ڈرپ ختم ہوتے ہی کامل اُسے احتیاط سے ہسپتال کے باہر لایا تھا۔۔۔اُسکا ہاتھ تھامتے اُسے نرمی سے گاڑی میں بٹھاتے اُس نے اُسکا دوپٹہ جو گاڑی سے باہر نکلا ہوا تھا اُسے اندر کیا۔۔اور پلٹ کر اُن سب کو دیکھا ۔۔۔سامیہ اور زائد تو ہسپتال سے چلے گئے تھے فاطمہ اماں اور داجی خضر اور شجیہ کے ساتھ ہی تھے۔۔۔
میں اپنی بیوی کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔۔امید ہے آپ لوگوں کو اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔کامل نے داجی اور فاطمہ اماں کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔اُسکی بات پر فلک کا رنگ سرعت سے لال ہوا۔۔۔اُسکے لہجے سے کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ وہ پوچھ رہا ہے وہ اُنہیں بتا رہا تھا ۔۔
جبکہ فاطمہ اماں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔کامل نے اُنکے اثبات میں سر ہلانے پر اُن دونوں کے سامنے اپنا سر جھکایا داجی اور فاطمہ اماں دونوں نے اُسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا ۔۔اور کامل نے گاڑی میں اپنی جگہ سمنبھالي ۔۔۔۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں کامل۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے پر سر رکھتے پوچھا۔۔۔۔
ہم آئس کریم کھانے جا رہے ہیں۔۔۔کامل نے موڑ کاٹتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
سچی ۔۔۔فلک نے خوشی سے اُسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔
مچی۔۔۔کامل نے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔فلک لال ہوتی واپس اپنا چہرہ اُسکے کندھے پر رکھ گئی۔۔۔۔۔
جبکہ کامل نے اپنے فون سے ایک۔ضروری میسج کرکے اپنا دہان ڈرائیونگ پر مرکوز کیا۔۔۔




شام کا وقت ساحلِ سمندر پر گاڑی کے بونٹ پر بیٹھے وہ دونوں آئس کریم سے لطف اندوز ہوتے سامنے لہروں اور ڈوبتے سورج کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
کامل اُسے ساحل سمندر پر لے ایا تھا۔۔۔۔
کامل ۔۔۔فلک نے کامل سے کہا جو اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالے اُسکے پاس بیٹھا سامنے سمندر کی لہروں کو تک رہا تھا۔۔۔
جی حیاتی۔۔۔کامل نے اُسکے سر پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل کتنا حسین منظر ہے نہ یہ۔۔۔فلک نے مہبوت ہوتے کہا۔۔۔
واقعی سب سے حسین منظر ہے یہ۔۔۔کامل نے اُسکے سر پر اپنی تھوڑی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل میں اج بہت ڈر گئی تھی۔۔۔فلک نے آئس کریم کھاتے ہوئے کہا۔۔۔
میں بھی۔۔۔کامل نے اُسکی قمر پر گرفت مضبوط کرتے اُسے مزید خود میں بھینچا۔۔۔اج جس طرح وہ بیہوش ہوئی تھی اور پھر ڈاکٹر کی بات یاد اتے اُسکا دل دوبارہ تیز دھڑکا تھا۔۔۔۔
آپ کیوں ڈرے تھے۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے سے سر اٹھا کر اُسکے خوبرو چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔
آپ کو بیہوش ہوتا دیکھ کر ۔۔۔آپکے اور اپنے بچے کے لیے، آپ دونوں کی صحت کے لیے میں ڈر گیا تھا آپ دونوں کو کوئی آنچ ائے میں یہ کبھی برداشت نہیں کر پاؤ گا۔۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری انکھوں پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
اور اگر اماں ہمیں الگ کر دیتی تب ۔۔۔آپ کیا کرتے۔۔۔فلک نے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دباتے کامل کے چہرے کی طرف دیکھتے سوال کیا۔۔۔
کامل کا نرم چہرہ فوراً سے سخت ہوا۔۔۔اُس نے جبڑے بھینچ کر فلک کی طرف دیکھا۔۔۔
آپکو مجھ سے صرف و صرف موت الگ کر سکتی ہے ہمارا رشتا کمزور نہیں ہے ۔۔۔۔آپ میری ہے ۔۔۔اور میں کسی بھی حال میں آپکو خود سے دور نہ کرتا۔۔۔میں یہ جملہ سوچنا بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی آئندہ یہ جملہ آپ کہ ان گلابی لبوں سے سننا چاہتا ہوں ۔۔۔۔کامل کا ہر لفظ سنجیدگی اور شدت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔
اتنا پیار کرتے ہیں آپ مجھ سے۔۔۔فلک نے چمکتی انکھوں سے پوچھا۔۔۔
حد سے زیادہ۔۔۔۔کامل نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا۔۔۔۔
چلے اب۔۔۔کامل نے گاڑی کے بونٹ سے اترتے فلک کو قمر سے تھامتے نیچے اُتارا ۔۔۔۔
چلتے ہیں پر میں چاہتی ہو آپ یہاں ریت پر دل بنا کر میرا اور اپنا نام لکھے۔۔۔فلک نے فرمائش کی۔۔۔۔
اور اس سے کیا ہوگا۔۔۔کامل نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
میں اُسکی تصویر کھینچ کر اُسے اپنے فون وال پیپر پر لگاؤ گی نہ۔۔۔اور کتنا کیوٹ لگتا ہے میں نے بہت ساری ویڈیوز بھی دیکھی ہے کامل پلیز نہ۔۔۔۔فلک نے اُسکا کندھا پکڑتے ہوئے التجائی لہجے میں کہا۔۔۔۔
کامل نے اگے بڑھتے ایک پتھر اٹھایا اور اُس سے سمندر کے کنارے پر دل بنا کر اُس میں اپنا اور فلک کا نام لکھا۔۔۔۔
فلک کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔وُہ آنکھوں میں محبت لیے کامل کو دیکھے گئی جو اپنے کپڑوں کی پرواہ کیے بنا گھٹنوں کے بل بجتے محویت سے اپنا اور اُسکا نام لکھ رہا تھا۔۔۔۔
ہوگیا ہے کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔کامل نے کھڑے ہوتے فلک سے پوچھا۔۔۔
جس نے ریت پر دیکھا اور پھر جلدی سے کامل کی پاکٹ سے فون نکالتے اُسکی تصویریں لی۔۔۔
بہت خوبصورت۔۔۔ فلک نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔یکدم ایک تیز لہر ائی اور دونوں نام آپس میں گڈ مڈ کر گئی۔۔۔
کیا فائدہ لہر نے ہمارا نام مٹا دیا۔۔۔کامل نے گہرا سانس بھرتے کہا۔۔۔۔
اُس نے ہمارا نام مٹایا نہیں ہمیں ایک دوسرے میں شامل کر دیا ہے دونوں نام ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ہے جیسے ہم دونوں ایک دوسرے میں سمائے ہے۔۔۔۔میرا دل آپکے سینے میں دھڑکتا ہے اور آپکا دل میرے سینے میں ،جیسے آپ ہے تو میں ہے ہو جیسے میں ہو تو آپ ہے۔۔۔۔بلکل اس طرح اس لہر نے ہم دونوں کے ناموں کو آپس میں ملا کر ہم دونوں کو ایک کردیا ہے ۔۔۔۔فلک نے کامل کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔
کامل نے اُسکی بات پر اسکا خوبصورت چہرہ تکا تھا۔۔۔واللہ یہ حسین لڑکی اُسکی زندگی تھی۔۔۔۔
آپ سے تو میرا روح کا رشتہ ہے حیاتی۔۔۔کامل نے اُسکا گال سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
آپ مجھے حیاتی کیوں بولتے ہے۔۔۔فلک نے پوچھا۔۔۔
کیونکہ آپ میری زندگی ہے اسی لیے۔۔۔۔اور عربی میں اسکا مطلب ہوتا ہے میری زندگی۔۔۔۔کامل نے اُسکی تھوڑی چومتے کہا۔۔۔
اوہ تو میں بھی آپکو حیاتی کہہ سکتی ہو۔۔۔فلک نے اپنی ائبروں اچکا کر پوچھا۔۔۔
جی بلکل آپ میری زندگی ہے میں آپکی زندگی ہو بس بات ختم ۔۔۔کامل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
تو چلے حیاتی۔۔۔فلک نے ہنستے ہوئے کامل سے کہا۔۔۔
جی حیاتی چلے۔۔۔۔۔کامل نے اُسکی ناک کی ٹپ کو لبوں سے چھوتے کہا۔۔اورفلک کا ہاتھ تھامے وہ گاڑی میں سوار ہوا ۔۔۔




فارم ہاؤس سے کچھ دور کامل کی نظر فلک پر پڑی۔ جو سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکائے سو گئی تھی۔۔۔۔
کامل نے اپنا ہاتھ بڑھاتے نہایت نرمی سے اُسکا گال سہلایا ۔۔۔فارم ہاؤس کے باہر گاڑی روکتے اُس نے فلک کو دیکھا۔۔۔
حیاتی۔۔۔نرم محبت بھرا لہجہ ۔۔۔
ہم۔۔۔فلک نے نیند میں بند انکھوں سے کہا۔۔۔
گھر آگیا ہے۔۔۔کامل کی بات پر فلک نے اپنی آنکھیں کھول کر ونڈو سے باہر دیکھا جہاں ایک خوبصورت سا فارم ہاؤس تھا۔۔۔
ہم یہاں کیوں آئے ہے کامل۔۔اور یہ آپکا فارم ہاؤس ہے۔۔۔فلک نے سوال کیا۔۔۔
ہم یہاں کیوں آئے ہے یہ تو اندر جاکر پتہ لگے گا۔۔اور ہاں یہ ہمارا فارم ہاؤس ہے۔۔۔۔کامل نے کہتے اپنی طرف کا دوازا کھولا ۔۔۔۔۔۔
فلک کی طرف اتا دروازہ کھولتے اُسے باہر نکالا ۔۔
اُسکا ہاتھ تھامتے وہ فارم ہاؤس کے اندر بڑھا تھا۔۔۔جہاں اندر داخل ہوتے ہی ایک خوبصورت لون تھا جہاں سے اتی موتیاں کے پھولوں کی مہک فلک کا دل خوشگوار کر گئی تھی۔۔۔۔
کامل اُسے لیے فارم ہاؤس کے اندر داخل ہوا جہاں دروازے پر ہی دو لڑکیاں کھڑی تھی۔۔۔فلک حیرت اور ستائش سے اس محل نما گھر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
آپ ان کے ساتھ جائے یہ آپکو تیار کرے گی ہم ملتے ہے کچھ دیر میں۔۔۔کامل نے فلک سے نرمی سے کہا اور اُن دو لڑکیوں کو اشارہ کیا۔۔۔فلک سمجھ گئی تھی کہ کامل نے ضرور اُسکے لیے کوئی سرپرائز پلین کیا ہے ۔۔۔اُسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا اثبات میں سر ہلاتی وہ اُن لڑکیوں کے ساتھ ایک طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
میم یہ آپکا ڈریس ہے آپ چینج کر لے۔۔۔۔ایک لڑکی نے اُسے سامنے رکھا گیا ڈریس اٹھا کر کہا۔۔۔فلک نے ڈریس کو دیکھتے اپنی آنکھیں پھیلائئ تھی۔۔۔اتنا حسین ڈریس ۔۔۔۔
پیلے رنگ کی فروک جس کا گھیر انتہاء کا تھا۔۔۔گہرا گلا۔۔۔اور انتہا کی خوبصورت فروک ۔۔۔
“یہ تو سیم بیل کی طرح کا سوٹ ہے”۔۔
۔فلک نے بیوٹی اینڈ ڈا بیسٹ میں موجود لڑکی کا نام لیتے کہا۔۔۔اُسے یہ فلم انتہاء کی پسند تھی۔۔۔نہ جانے کتنی بار وہ یہ فلم دیکھ چکی تھی اور جس طرح کی فروک بیوٹی نے پہنی تھی کتنی ضد کی تھی اُس نے ایک ایسا ڈریس لینے کی۔۔۔۔
اُسکی آنکھیں خوشی سے چمکی تھی۔۔ وہ فوراً سے وہ ڈریس لیتے چینج کرنے گئی تھی۔۔۔۔



فلک نے آئینے میں خود کی طرف دیکھا ۔۔۔۔بھورے بالوں کا کچھ حصہ لے کر درمیان میں جوڑا بنایا گیا تھا اور باقی بال پشت پر کھلے چھوڑ رکھے تھے۔۔۔۔
بھوری آنکھوں پر کاجل لگائے نوز رنگ پہنے لبوں کو گہرے سرخ رنگ سے رنگے ،بھرے بھرے گالوں پر لالی لگائے ۔۔۔نازک سے بندے پہنے وہ انتہاء کی حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
گہرے گلے سے نظر آتی اُسکی سفید بے داغ گردن اُسکا رنگ لال کر گئی تھی۔۔۔۔کامل کا سوچتے اُسکے وجود میں ایک برق رفتاری سی دور گئی تھی ہاتھ فوراً سے پیسنے سے بھرے۔۔۔۔
” میم یہ شوز “۔۔۔ملازمہ کے جوتے لانے پر اُسے حیرت ہوئی۔۔۔۔
“ہیل نہیں ہے۔”۔۔فلک نے پوچھا۔۔۔
“وہ سر نے خاص تاکید کی تھی کہ ہیل والی چپل نہیں پہننی آپکے لئے یہ شوز بھی وہ خود لائے ہے”۔۔۔ملازمہ نے رسانیت سے بتایا۔۔۔اور فلک محض مسکرا کر رہ گئی۔۔۔کامل کی اس حرکت پر۔۔۔وہ اُسکے لیے نہایت فکرمند تھا۔۔۔وہ اُسکی چھوٹی سی چھوٹی چیز کا بھی خیال رکھتا تھا ۔۔۔۔اور فلک اُسکی محبت محسوس کرتے اپنے آپکو نہایت ہی خوشنصیب سمجھتی تھی۔۔۔۔
کمرے سے باہر نکلتے اُسکا دل پسلیوں سے سر ٹکڑا رہا تھا ہاتھوں میں۔پسینہ بھرنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
ملازمہ اُسکا ہاتھ تھامے اُسے پچھلے لون میں لے ائی فلک کو وہاں چھوڑتے وہ گدھے کی سینگ کی طرح غائب ہوگئی ۔۔۔۔
ارے رکے ۔۔۔فلک نے ملازمہ کو آواز دی پر وہ ان سنا کرتے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
فلک نے سامنے دیکھا جہاں ہر طرف اندھیرا تھا۔۔اُسے حیرت ہوئی اُس نے ایک قدم اگے بڑھایا جب اُسکے پیروں کے نیچے سے لائٹ جلی۔۔۔فلک کو حیرت ہوئی وہ جیسے جیسے قدم بڑھا رہی تھی ویسے ویسے اُسکے قدموں کے نیچے سے لائیٹس جل رہی تھی۔۔ لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح اپنے قدم بڑھاتے اس روشنی کو دیکھتے مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ایک جگہ پر جاکر وہ رکی ۔۔۔۔یکدم ساری لائیٹس آن ہوئی اور سامنے نظر آتا منظر دیکھتے فلک کی آنکھیں تحیر سے پھیلی ۔۔۔
اس پاس کے درختوں پر چھوٹی چھوٹی جگنوں کی ماند گولڈن رنگ کی لائیٹس لگائی گئی تھی۔۔۔۔۔اُسکے دائیں اور بائیں طرف دیوں کی ایک قطار تھی جو جلتے وہاں روشنی بکھیر رہے تھے ۔۔۔۔پھولوں کی مدھم مدھم خوشبو،
اور سامنے پرنس سوٹ میں ملبوس اُسکا سبز آنکھوں والا شہزداہ جس کے ہاتھ میں ایک جگنوؤں سے بھرا جار تھا عنابی لبوں پر ایک گہری مسکان لیے آنکھوں میں خمار محبت کا سمندر لیے مہبوت سا ہوتا اپنی شہزادی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔یہ انتہائی دلکش منظر تھا۔۔۔۔
یہ سب بہت خوبصورت تھا ۔۔بہت زیادہ ۔۔ وہ اُسکی بیوٹی تھی اور وہ فلک کا بیسٹ ۔وہ صبح سے جتنا رو چکی تھی جتنا وہ پریشان ہوئی تھی اب سامنے نظر اتا منظر دیکھتے اُس سے کئی زیادہ خوش تھی۔۔۔۔
کامل مہبوت سا اپنی حیاتی کو دیکھے گیا۔ دل کی دھڑکنوں میں تلاطم برپا ہوا۔۔۔جذبات انگڑائی لیتے بیدارہوئے ۔۔۔کھوئے کھوئے انداز میں اپنے قدم بڑھاتا وہ فلک تک ایا اُس سے ایک انگلی کے فاصلے پر رکتے اُس نے فلک کی بھوری چمکدار آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
دیہان دے محترمہ اپنی زلفوں پر،
یہ میرا ذہن اُلجھا رہی ہے ،
دیہان دے محترمہ اپنی ان آنکھوں پر،
یہ مجھے خود میں ڈوبا رہی ہے ،
پھر سے کہہ رہا ہوں دیہان دے محترمہ اپنی مسکراہٹ پر،
یہ میرے دل کی دھڑکن بڑھا رہی ہے۔،
کامل نے فلک کے چہرے پر جھکتے گھمبیر آواز میں کہا کامل کے اس طرح شعر پڑھنے پر فلک کے لبوں پر ٹھہری مسکان مزید گہری ہوئی ۔۔۔
آپ تو شاعر بھی بن گئے ہے ۔۔۔فلک نے کامل کی سبز آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
عشق میں عاشق شاعر نہ بنے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔کامل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔اور فلک کے ہاتھ میں جگنوؤں سے بھرا جار تھمائیہ۔۔۔۔
فلک کے پیچھے جاتے اُسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا فلک اپنی سانسیں روک گئی اُسکی نزدیکی پر۔۔۔کامل نے اپنے دونوں ہاتھ اُسکی قمر سے گزارتے اُسکے پیٹ پڑ رکھے ۔۔۔
حسین ہے نہ ۔۔۔کامل نے فلک کے ہاتھ میں تھامے جار کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
جی۔۔فلک نے اپنے ہاتھ میں تھامے جار میں موجود جگنوؤں کو محویت سے دیکھتے کہا۔۔۔
اور بھی حسین لگے گے جب آپ انکو آزاد کرے گی۔۔۔کامل نے اپنی تھوڑی فلک کے کندھے پر رکھتے کہا۔۔۔۔۔اُسکے جسم سے اٹھتی مدہوش کن خوشبو میں گہری سانس بھرتے اُس نے فلک کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
فلک نے کامل کی لو دیتی سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے جار کھولا ۔۔۔۔روشنی بکھیرتے جگنوں جار سے نکلتے ہر سو بکھرے ۔۔۔فلک کے لبوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔۔۔۔
کامل فلک کے چہرے پر نظر آتے خوشی کے رنگ دیکھتے مسکرا گیا۔۔۔۔۔
دیکھا حسین لگ رہا ہے نہ یہ منظر۔۔۔کامل نے اُسکے کان کی لو کو اپنے لبوں میں دبائے پوچھا۔۔۔
بہت حسین لگ ربا ہے۔۔۔۔فلک نے جگنوں کو دیکھتے کہا۔۔۔اور کامل خان جنگوؤں کی روشنی میں فلک کا حسین چہرہ دیکھے گیا۔۔۔
اپنی گردن پر کچھ محسوس کرتے فلک نے اپنی گردن کی طرف دیکھا جہاں پر ایک انتہائی نازک خوبصورت سا پینڈینٹ تھا۔۔۔۔جس میں چھوٹا سا دل بنا ہوا تھا اور وہ ایسے چمک رہا تھا جیسے کوئی جگنو اُس میں قید ہو۔۔۔۔
یہ بہت خوبصورت ہے کامل۔۔۔۔فلک نے ستائش بھرے لہجے میں اُس پینڈینٹ کو چھوتے کہا۔۔۔
آپ سے کم۔۔۔کامل نے اُسکے کندھے پر لب رکھتے محبت سے کہا۔۔۔
ڈانس کرے۔۔۔کامل نے فلک کا رخ پلٹتے اُس سے پوچھا۔۔۔
پر یہاں تو کوئی میوزک ہی نہیں ہے۔۔۔فلک نے کندھے اچکا کر کہا۔۔۔
آپ بس میری انکھوں میں دیکھئے گا۔۔میری نظروں کی زبان کو سمجھئے گا ہمیں میوزک کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔۔۔کامل نے اُسکی قمر پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔
فلک نے کامل کی بات پر اُسکی سبز محبت سے بھری آنکھوں میں دیکھتے اپنا ہاتھ اُسکے کندھے پر رکھا۔۔۔
آپ نے میری خواہش پوری کی ہے کامل۔۔۔فلک نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
جانتا ہو۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
کیسے جانتے ہے آپ کہ بیوٹی بننا میری خواہش تھی۔۔۔فلک نے سوال کیا۔۔۔کامل اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالے ہلکے ہلکے موو کر رہا تھا۔۔۔۔
آپ سے جری ہر چیز کے بارے میں جانتا ہو میں آپکی ہر خواہش پوری کرنا میرا فرض ہے۔تو یہ کیسے ادھوری چھوڑ دیتا۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے من موہنی صورت کو تکتے کہا۔۔۔۔
اور یہ سب آپ نے کب کیا۔۔۔فلک نے اُسکے قدموں کے ساتھ قدم ملاتے پوچھا۔۔۔
یہ سب کرنے کا سوچا تو بہت پہلے تھا لیکن آج جو کچھ ہوا اور جتنا آپ نے ان حسین بھوری انکھوں پر اج ظلم ڈھایا ہے ان آنکھوں میں چمک اور یہ خوشی جو اس وقت نظر آرہی ہے یہ دیکھنے کے لیے اج ہی یہ سرپرائز دینے کا سوچا۔۔کامل کے کہنے پر فلک مسکرا گئی۔۔۔۔
آپ بہت اچھے ہے کامل ۔۔۔بہت اچھے نہ جانے آپ میں ایسا کیا ہے جو میں آپ میں گم ہوتی چلی گئی میں اپنے دل کو آپکی طرف راغب ہونے سے روک ہی نہ پائی ۔۔۔میرے قدم آپکی طرف بڑھتے چلے گئے ۔۔۔۔میرا اپنے دل پر اپنے حذباتوں پر قابو ہی نہ رہا۔۔۔فلک نے ااُسکی سبز انکھوں میں دیکھتے ایک جذب سے کہا۔۔۔
کہتے ہیں اللہ زندگی میں آپکے کسی نیک عمل کا انعام دے دیتا ہے اور مجھے نہیں معلوم میرا ایسا کون سا عمل ہے جو میرے رب کو پسند آگیا اور اُس نے اُسکے عوض۔ آپکو میرے نصیب میں لکھ دیا۔۔۔۔شاید آپ میرے کسی عمل کا تحفہ ہے جو مجھے ملا ہے۔۔۔۔ کامل نے گھمبیر لہجے میں ایک جذب سے کہا۔۔۔
آپکا شکریہ میری زندگی میں انے کے لیے ۔۔۔آپکا شکریہ مجھے باپ جیسے مرتبے پر فائض کرنے کے لئے۔۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو اپنی انگلی سے چھوتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
وہ کب سے اُسکے یہ ہلتے سرخ لبوں کو دیکھتے اپنے اوپر ضبط کر رہا تھا۔۔
اپنا ضبط کھوتے وہ اُسکے سرخ لبوں پر جھکا فلک کی قمر پر ہاتھ رکھتے اُسے مزید اپنے قریب کیے وہ سب کچھ بھلائے بس فلک کی سانسیں پینے میں مگن تھا۔۔۔فلک نے اُسکے کولر کو دونوں ہاتھوں سے دبوچا ۔۔۔۔۔
نرمی سے فلک کے لبوں کو چھوتے وہ فلک کو بھی خود میں گم کرتا چلا گیا۔۔۔۔فلک کے بال اُسکے کندھے سے سرکتے اُسکے بالوں تک آئے اُسکے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے وہ کامل کے عمل میں اُسکا ساتھ دینے لگی۔۔۔۔
سب سے دلکش آپ مجھے تب لگتی ہے جب میری شدت سے آپکے یہ گلابی لب بھیگ جاتے ہیں اور آپکے چہرے کی رنگت سرخ ہوتی ہے۔۔۔کامل نے فلک سے دور ہوتے اُسکے سر سے اپنا سر ٹکائے گھمبیر خمار بھری آواز میں کہا۔۔۔فلک نے اُسکے کہنے پر اپنی آنکھیں بند کی۔۔چہرہ لال گلابی ہوا۔۔۔۔۔
کامل نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنی باہوں میں بھرتے لون کے سائڈ پر بنے دروازے سے اندر داخل ہوا۔۔۔فلک نے حیرت سے اس راستے کو دیکھا جو سیدھا ایک کمرے میں کی طرف اتا تھا۔۔پورے کمرے کو سجایا گیا تھا ۔۔جگہ جگہ دیئے جلا کر رکھے گئے تھے۔۔۔کامل نے فلک کو کمرے کے بیچ و بیچ اُتارا ۔۔۔۔
اسکی پشت اپنے سینے سے لگائے اُس نے اُسکے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے مزید خود میں بھینچا۔۔۔۔
کا۔۔مل۔۔۔کامل مجھے بھوک لگ رہی ہے کھانا کھاتے ہے۔۔۔فلک نے اُسکی پر تپش سانسیں اپنی نظر آتی قمر پر محسوس کرتے اٹکتی آواز میں کہا۔۔۔
حیاتی آپ باہر سے بہت کچھ کھا کر ائی ہے ابھی میری بھوک مٹائے ۔۔۔۔کامل نے اُسکے کان میں گھمبیر سرگوشی کی اور اپنے دہکتے لب اُسکی پچھلی گردن اور واضح ہوتی قمر پر رکھتے فلک کے اوسان خطا کیے۔۔۔گہرے سانس بھرتے وہ اپنی دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔جو لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
کامل نے ایک جھٹکے سے اُسکی زپ کھولی اور فلک کو لگا اُسکا دل بس اب سینے سے نکل کر باہر آجائے گا۔۔۔
فلک نے فوراً سے اپنے سینے سے فروک پکڑ کر روکی۔۔۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے اُس کا رخ بدلا اُسکے ہونٹوں کو اپنے قبضے میں لیے وہ اُسکی قمر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے سہارا دیے پیچھے قدم لیتا چلا گیا ۔۔۔اور فلک کو سمجھ نہ ائی اپنا آپ کیسے سمنبھالے۔۔۔۔
فلک کو ارام سے بیڈ پر لٹاتے وہ اُس پر جھک ایا ۔۔۔
آج یہ گریز نہ ممکن ہے میری جان ۔۔۔۔آپکی روح میں اُتر کر آپکی سانسوں سے بھی زیادہ آپکے قریب ہونا چاہتا ہوں اُمید کرتا ہو آپ میرے کام میں دخل نہیں دے گی۔۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے سینے سے جکڑی فروک سے اُسکے ہاتھ ہٹاتے بیڈ پر رکھے اُسکی انگلیوں میں اپنی اُنگلیاں پھنسائے وہ دوبارہ اُسکی سانسوں پر قابض ہوا۔۔۔۔
اور فلک کو لگا اُسکا دل بند ہوجائے گا۔۔۔کامل نے فلک کے لبوں کو آزادی دیتے اُسکی گردن پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔اور فلک نے گہری سانس بھرتے اپنے آپ کو سمنبھالا ۔۔۔۔۔
کامل کے لب اب حدود کو پار کر رہے تھے۔۔۔اُسکے ہاتھ بیباکی سے فلک کے وجود پر سفر کر رہے تھے اور فلک آنکھیں بند کئے اُسکا لمس برداشت کر رہی تھی ۔۔۔۔
وہ انتہائی نرمی سے اُسے چھو رہا تھا ۔۔۔کمرے کی معنی خیز خاموشی میں اُن دونوں کی دہکتی بکھرتی سانسوں کا شور گونج رہا تھا۔۔۔۔