مثالِ عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

اٹھ مہینے پہلے۔۔۔
یس سر آپ نے بلایا۔۔۔۔ایک مضبوط سخت آواز پر انہوں نے سامنے کھڑے دو نوجوانوں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
ہاں ۔۔۔بیٹھو۔۔۔کرنل محمد نے ان دونوں کو سامنے بیٹھنے کو کہا تھا۔۔۔
تم دونوں کو ایک خاص کام کے لیے بلایا ہے ۔۔۔۔کرنل نے اُن دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اُنکی بات پر بھوری آنکھوں نے سبز آنکھوں کو دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
سوات کے جنگل کے بیچ و بیچ ایک گاؤں آباد کیا ہوا ہے جو لگتا ایک گاؤں ہے لیکن وہاں سے پاکستان کے ہر شہر سے اغوا کی گئی لڑکیوں اور کم عمر بچیوں کو لایا جاتا ہے اور باہر ملکوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔۔۔کرنل صاحب نے انتہائی ضبط سے یہ بات کہی تھی۔۔۔
اُنکی بات پر سامنے بیٹھے دونوں نوجوانوں کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی تھی۔۔۔۔
وہاں کا مین آدمی اُس گائوں کا سردار ہے ۔۔اور اُسکی بیٹی جو فلہال اُس گاؤں میں نہیں رہتی۔۔۔۔۔لیکن یہ سب لوگ اکیلے نہیں کر رہے اس کے پیچھے بلیک ورلڈ کے کسی بندے کا ہاتھ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔کرنل صاحب نے اپنی کرسی سے پشت ٹکاتے ہوئے کہا ۔۔
اور اُن دونوں کے چہرے کے تاثرات دیکھے جو سخت تھے۔۔۔۔
تم دونوں کو اُس گاؤں میں جانا ہے۔۔وہاں موجود پاکستان کی عزتوں کی حفاظت کرنی ہے اُنہیں بحفاظت اُنکے گھر پہنچانا ہے۔۔اور وہ پورا گاؤں تباہ کرنا ہے۔۔۔باقی اُسکی بیٹی اور انڈر ورلڈ کے اُس انسان کا بھی پتہ کرنا ہے ۔۔۔کرنل صاحب کی بات پر اُن دونوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
آپ نے سارا ہیکنگ کا کام سمنبھالنا ہے ۔۔۔اور باقی آپ دونوں بہتر جانتے ہے کیسے اور کیا کیا کرنا ہیں ۔۔کرنل نے پہلی بات بھوری آنکھوں والے کو دیکھتے کہیں تھی اُنکی بات پر بھوری آنکھوں والے نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
اور دونوں اُنہیں سلوٹ کرتے باہر نکلتے چلے گئے تھے۔۔۔۔
ہمیں جلد ہی یہ کام کرنا ہے۔۔۔سبز آنکھوں والے نے اپنی گھمبیر آواز میں بھوری آنکھوں والے سے کہا تھا جس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
ائی ایس ائی کا بہترین آفیسر ۔۔۔۔جسکے کئی روپ تھے اور ہر روپ میں وہ اپنے مخالفین کو کانپنے پر مجبور کردیتا تھا جس کی سبز آنکھوں میں چھائی سنجیدگی اور دشمن کے سامنے ہونے پر انے والی وحشت سے دشمن کی ٹانگیں تک کانپ جاتی تھی۔۔۔۔
۔۔۔کامل خان پشاور کے امیر ترین گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان ۔۔۔جسکی سبز سرد آنکھیں کسی کا بھی دل چرا سکتی تھی کھڑی مغرور ناک چوڑی جولائن ۔۔۔کسرتی جسامت اوپر سے آنکھوں میں سنجیدگی۔۔۔۔گورا رنگ پٹھانی نین نقش ۔۔واللہ وہ بلا کا حسین تھا۔۔۔
دوسرا ائی ایس ائی کا بہترین ہیکر ۔۔۔۔۔خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔حسین بھوری آنکھوں کا مالک جسکی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں دیکھا جاسکتا تھا کھڑی مغرور ناک عنابی لب ۔۔۔۔کسرتی جسم ۔۔۔سفید و سرخ رنگت۔۔ جس کے چہرے پر ہمہ وقت سنجیدگی رہتی تھی۔۔۔۔۔مسکراہٹ لفظ اُسکی زندگی میں تھا ہی نہیں شاید۔۔۔وہ منٹوں میں سامنے کھڑے انسان کا دماغ پڑھ لیتا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی محرومی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا دنیا اُسے بزنس مین کے طور پر جانتی تھی مگر اُسکی سچائی صرف اور صرف اُسکے دوست کامل خان کو پتہ تھی۔۔جسکو دنیا نے اُسکی محرومی کی وجہ سے نیچا دکھایا۔۔۔جو اپنے ایک ہی ہاتھ کا استعمال کرتے اپنے دشمن کو دھول چٹا سکتا تھا۔۔۔۔جس کا دل سخت تھا ۔۔۔۔
اور دونوں جگری دوست۔۔۔ہر ایک مشکل اور مصبیت سے ساتھ مل کر لڑنے والے ۔۔۔محبت لفظ سے دور بھاگنے والے جنکو محبت نے ایسا جکڑنا تھا جس سے وہ ساری زندگی آزاد نہیں ہو پاتے ۔۔۔۔
💗💗💗💗
کامل نے ایک نظر آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا تھا ۔۔۔سفید رنگت کو سانولی رنگت میں تبدیل کیا گیا تھا اور سبز آنکھوں کو کالی آنکھوں میں ۔۔۔۔
بلیک رنگ کی شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں سانولی رنگت میں بھی وہ خوبرو لگ رہا تھا چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اُسے مزید پرکشش بنا رہی تھی ۔ ۔
پلین کے اوپر کام کرتے اج وہ یونی جا رہا تھا جہاں سے وہ ایک طالبہ علم کی حثیت سے سوات جاتا ۔۔۔۔
کیسا لگ رہا ہوں میں۔۔۔کامل نے پیچھے بیٹھے خضر سے پوچھا جو لیپ ٹاپ مصروف تھا۔۔۔۔
خضر نے نظر اٹھا کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
کالا لگ رہا ہے ۔۔خضر نے سنجیدگی سے کہا اور واپس لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
اب اتنا بھی نہیں لگ رہا تھوڑا تو رنگ صاف لگ رہا ہے۔۔۔۔کامل نے آئینے میں خود کو دیکھ کر کہا اور بیگ اٹھایا۔۔۔
یونی میں جس کلاس میں تو ہے وہاں میری دوست پلس بہن بھی ہے ۔۔۔فلک ۔۔۔خضر کی بات پر کامل نے پلٹ کر اُسے دیکھا ایک یہ نام وہ خضر کی زبان سے اشتر و بیشتر سنتا رہتا تھا۔۔۔
تو ۔۔۔کامل نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں میں نے سوچا بتا دو ۔۔خضر نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔خضر نے ایک نظر اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ڈالی اُسے اج استبل بھی جانا تھا اپنے گھوڑے کو دیکھنے جو بیمار تھا۔۔۔۔
اپنے ماتھے پر انگوٹھا رگڑتے وہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
کامل نے یونی میں داخل ہوتے ہی نفی میں سر ہلایا تھا وہاں پر موجود لڑکیوں کی ڈریسنگ دیکھ کر تو اُسے غصّہ چڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
آگئی وہ یار کیا ہے یہ لڑکی۔۔۔۔ایک لڑکے کی آواز پر کامل کی آبرو تنی تھی۔۔۔اُس نے اُس لڑکے کی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا تو سامنے سے اتی لال رنگ کی شورٹ فروک جو اُسکے گھٹنوں تک اتی تھی وائٹ پینٹ پہنے اسکراف کو گردن کے گرد لپیٹے اپنے براؤن بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔وہ کندھے پر بیگ لٹکائے وہ کسی بات پر ہنستی ارد گرد کھڑے لوگوں کی اپنے اوپر نظروں کو نظرانداز کرتی چل رہی تھی۔۔۔۔کامل کی نظر اُسکی بھوری چمکتی آنکھوں پر اٹک گئی تھی ایسی ہی آنکھیں اُس نے دیکھی تھی لیکن اُن میں ایسی چمک نہیں تھی ۔۔۔یہ آنکھیں تو خضر کی آنکھوں کی طرح تھی۔۔۔۔
نازک سے نین نقش ۔۔۔چھوٹی سی ناک جس میں پہنی چھوٹی سی بالی جس میں لگا ایک چھوٹا سا موتی جو شائد ہیرا تھا جو دور سے اُسکی آنکھوں میں جمع چمک کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔۔
کامل کسی حصار میں بندھا اُسکی طرف دیکھے جا رہا تھا وہ حسین تھی انتہا کی حسین۔۔۔۔جو کسی کو بھی اپنے طرف دیکھنے پر مجبور کردے ۔۔۔۔۔
کامل خان کی نظریں اُسے دغا دیتی فلک کے چہرے پر مرکوز تھی۔۔۔
کسی مہکی ہوا کی طرح وہ اُسکے پاس سے گزری تھی کامل نے اُسکی پشت کو تکا تھا اور پھر اپنا سر جھٹکا۔۔۔۔۔
اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بھی کلاس کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
کلاس میں داخل ہوتے ہی اُسکی نظر سامنے اُٹھی تھی جہاں وہ بیٹھی اپنے موبائل میں مصروف تھی کامل نے فوراً سے اپنی نظریں اُس پر سے ہٹائی تھی۔۔۔۔اور جا کر سب سے آخری سیٹ پڑ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
پروفیسر کے انے پر اُسے فلک کا نام معلوم ہوا تھا۔۔۔۔اور وہ گہرا سانس بھرتے رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اب اُسے سمجھ ائی تھی فلک کے وجود میں اتنی کشش کیوں محسوس ہورہی تھی آخر خضر کی کزن تھی اُس کی طرح ہی سحر انگیز شخصیت رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔
پروفیسر نے اُسکا تعارف بھی کروایا تھا جس پر سب نے اُسکی طرف دیکھا تھا مگر فلک کا دیہان تو اپنی کتاب پر تھا اُس نے ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر کامل کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔اور یہ بات کامل خان کو کافی ناگوار گزر رہی تھی جسکا اُسے خود بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
اُسکی نظر وقفے وقفے سے فلک کی طرف اٹھ رہی تھی اور وہ ان سب سے جھنجھلا رہا تھا۔۔۔اُسے فلک سے چر ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے اُس کے دل کی حالت عجیب ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗
خضر ابھی اپنے فارم ہاؤس میں موجود استبل میں ایا تھا۔۔۔۔
اندر داخل ہوتے ہی اُسکی نظر ایک غیر متوقع منظر پر پڑی۔۔۔
سامنے کوئی لڑکی کھڑی تھی اُسکے گھوڑے کے پاس جس کی پشت خضر کی طرف تھی۔۔۔دوپٹے کے حالے سے جھانکتے اُسکے بھورے بال خضر کی توجہ کا مرکز بنے تھے ۔۔۔۔
خضر کے کشادہ ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔۔لیکن اگلا منظر دیکھ کر اُسکے پتھر دل میں ہلکی سی درار اُسے محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
لال رنگ کی شلوار قمیص زیب تن کیے سرخ و سفید رنگت نیلی آنکھیں چھوٹی سی ناک اور بھرے بھرے گال اور گلابی لب۔۔۔۔جو مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے۔۔۔۔
خضر کا وجود کچھ پل کے لیے صرف کچھ پل کے لیے استل ہوا تھا وہ بس سامنے نظر اتے شجیہ کے حسین چہرے کو ٹکے جا رہا تھا۔۔۔۔جو اُسکے پسندیدہ گھوڑے کے پاس کھڑی اُسکے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔۔۔
لاڈو چلو بیٹا گھر جاؤ اب صاحب جی اتے ہوگئے اس کے پاس اُنہوں نے تمہیں دیکھ لیا تو غصّہ کرے گے ۔۔۔۔آصف صاحب نے شجیہ کے پاس اتے ہوئے کہا۔۔۔
شجیہ نے منہ بناتے اُنکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔
یار بابا میرا دل نہیں چاہ رہا اس کے پاس سے جانے کا یہ کتنا پیارا ہے۔۔۔شجیہ نے اپنے لب سفید گھوڑے کے جو بلا کا حسین تھا سر پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔وہ یونی جا رہی تھی بابا کے ساتھ جب اُنہوں نے اسکو بتایا تھا کہ استبل میں ایک گھوڑا بیمار ہے اور پھرشجیہ نے ضد لگا لی تھی ساتھ جانے کی۔۔۔۔
چل رہی ہوں بابا۔۔۔آصف صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے اُس نے کہا تھا اور پھر وہ وہاں سے اندر کی طرف بڑھ گئی اپنا بیگ لینے جو اُس نے اندر رکھا تھا۔۔۔۔فارم ہاؤس کے۔۔
شجیہ کے سامنے سے اوجھل ہونے پر خضر شجاعت چوہدری نے اپنا سر جھٹکا تھا ۔۔۔اور اپنے قدم اپنے گھوڑے کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔
یہ گھوڑا خضر شجاعت چوہدری کے دل کے بہت قریب تھا وہ اس کے پاس کسی کو بھٹکنے نہیں دیتا تھا ہزار وہ مصروفیت میں گھرا کیوں نہ ہو وہ اس سے ملنے ضرور اتا تھا۔۔۔لیکن آج ایک انجان لڑکی کا اس کے پاس کھڑا ہونا اُسے بُرا نہیں لگا تھا۔۔۔۔آصف صاحب کی بات پر اُس لڑکی کو جاتا دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ آصف کی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔۔
اُسے خود پر اچنبھا ہو رہا تھا کہ کتنی دیر سے وہ ایک لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔اپنا سر جھٹکتے وہ گھوڑے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔
شجیہ جو اپنا بیگ لیتے باہر نکلنے لگی تھی اُسی گھوڑے کے پاس نیلے ٹو پیس میں ملبوس لمبے چوڑے آدمی کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی۔۔۔لیکن یہی سمجھتے کہ یہ ہی اُسکے بابا کے صاحب جی ہے اُس نے منہ بنایا تھا اور وہاں سے چلتی گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
اگلے دن پلین کے مطابق یونی کی طرف سے کامل سوات کے لئے نکلا تھا۔۔۔۔
بس میں بیٹھتے ہی اُسکی نظر فلک پر پڑی تھی اور اُسکی ڈریسنگ دیکھتے کامل نے اپنے لب بھینچے تھے۔۔۔۔۔
وہ اج بلیو رنگ کی شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس تھی۔۔۔۔جس سے اُسکا نازک سا سراپا واضح ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
اوپر سے اج تو لبوں پر گلابی رنگ بھی لگایا گیا تھا۔۔۔بس میں بیٹھے تمام لڑکوں کی نظر فلک پر پڑتے دیکھ نہ جانے کامل کو کیوں اپنے وجود میں ایک اندھیکا لاوا سا بہتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
اپنے دل کی حالت سے پریشان ہوتے اُس نے اپنی آنکھیں موند لی اور سر سیٹ کی پشت سے ٹیکا لیا تھا۔۔۔۔۔۔
کم سے کم دو دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد وہ لوگ سوات پہنچے تھے تھکاوٹ کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے بک کیے گئے کمروں میں چلے گئے تھے کامل نے اس سارے وقت میں فلک کو۔دیکھنے سے اجتناب برتا تھا۔۔۔۔۔۔
کامل۔نے اکمرے میں اتے ہی اپنے کانوں میں ائیرپیس لگایا تھا ۔۔جس سے وہ خضر سے رابطہ میں رہتا۔۔۔۔
ہاں کیا معلوم ہوا۔۔۔کامل نے اپنے بیگ سے اپنی شرٹ نکالتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
جس ہوٹل میں تم رکے ہو وہی سے تقریباً 150 کلو میٹر کی دوری پر وہ گاؤں ہے جہاں سے جانے کے دو راستے ہے ایک جنگل اور دوسرا تمہارے ہوٹل سے کچھ دور پر بہتی نہر ۔۔۔خضر نے کافی کا کپ اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے تفصیل بتائیں ۔۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے میں انشاءاللہ کل وہاں تک پہنچ جاؤگا تم ٹیم تیار رکھنا۔۔۔کامل نے شرٹ بدلتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ۔۔۔خضر نے کہتے کال بند کی تھی نظریں سامنے آسماں پر چمکتے اُس چاند پر تھی۔۔۔۔۔جو آج اکیلا ہی آسمان پر تھا کوئی ستارہ اُسکے اس پاس نہیں تھا۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے اُسکی آنکھوں میں۔لال جوڑے میں ملبوس کسی پری پیکر کا عکس اُبھرا۔۔۔۔۔
خضر نے فورا سے اپنی آنکھوں کو بند کرکے کھولا تھا۔۔اُس عکس کو ہٹانا چاہا۔۔۔۔
اور پھر اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
💗💗💗
صبح ہوتے ہی کامل بوتل سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔وہ صرف خضر کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔دھیرے دھیرے تمام اسٹوڈنٹ ہوٹل سے نکلتے چلے گئے تھے۔۔۔۔
کامل نہر کے پاس بنے پل سے کچھ دور ایک درخت پر ٹیک لگائے سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔۔۔
جب اُسکی نظر فلک پر پڑی جو لال رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ میں موبائل پر مصروف پل پر ائی تھی۔۔۔
مختلف انیگل سے اپنی تصویریں لیتی وہ کامل خان کا دل دھڑکا گئی تھی۔۔۔۔۔کامل یک تک اُسکے حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔جب وہ اپنے ہونٹوں کو آپس میں ملاتی گول۔کرتے تصویر لیتی کامل کو لگتا اُسکا دل اُسکے سینے سے باہر نکل جائے گا۔۔۔اُس کا دل۔شدت سے فلک کے ان گلابی لبوں پر اپنا لمس چھوڑنے کی التجا کر رہا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے فلک پل کے نیچے کی طرف جھکی اور کامل نے اپنے دانت پیستے اپنے قدم اُس تک بڑھائے تھے فلک ذرا سی دس بیلنس ہوتی اور سیدھا نیچے نہر میں گرتی۔۔۔۔۔۔
وہ فلک کو پکڑنے آگے بڑھا ہی تھا جب فلک کے ساتھ ساتھ وہ بھی بہتی نہر میں گرا تھا۔۔۔اُسے اپنی فکر نہیں تھی وہ اپنے آپکو بچا سکتا تھا لیکن اُسے صرف اور صرف فلک کا خیال تھا فلک کے ڈوبتے وجود کو جلدی سے اُس نے اپنے مضبوط بازوں میں بھرا تھا۔۔۔
اور اُسے لیے ایک طرف کو تیرا تھا لیکن تیز بہتے پانی کے بہاؤ کی وجہ سے وہ بھی بیہوش ہوگیا تھا۔۔۔
اُسے جب ہوش آیا تو وہ کسی جنگل کے کنارے پر تھا آنکھیں کھولتے ہی اُس نے فلک کو تلاشا تھا جو اُسے کچھ دور ہی بیہوش ملی تھی۔۔۔۔۔
اُسکی مدھم سانسیں محسوس کرتے کامل کی دل کی دھڑکن رکی تھی وہ جو آج تک کبھی خوفزدہ نہیں ہوا تھا سامنے پڑی بیہوش لڑکی جس کو جانے ہوئے بھی اُسے کچھ دِن ہوئے تھے اُسکی مدھم سانسیں اُسے خوف محسوس کروا گئی تھی۔۔۔۔۔
کامل نے جلدی سے اُسے اپنی سانسیں دی تھی جس کی وجہ سے وہ ہوش میں ائی تھی اور پھر اُنہیں انہی گاؤں کے لوگوں نے پکڑ لیا تھا جن کا صفایا کرنے کامل یہاں ایا تھا۔۔۔
ان آدمیوں کی فلک پر پڑتی غلیظ نظریں وہ محسوس کرتا ضبط کرتا رہ گیا تھا۔۔۔۔وہ فلک کی موجودگی میں سخت جھنجھلایا تھا۔۔۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا نکاح ہوا تھا۔۔۔خضر سے کامل کا رابطہ بھی منطقہ ہوگیا تھا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے۔۔۔۔
فلک کو اپنے نکاح میں لیتے ہی ایک عجیب سا سکون اُسے اپنی رگو میں اترتا محسوس ہوا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اُن کا نکاح کروا کر وہ لوگ صبح تک کامل کو مارنے کی تجویز کر بیٹھے ہیں اور پھر وہ فلک کو دوسری لڑکیوں کے ساتھ یہاں سے باہر ملک سپلائی کر دیتے۔۔۔اور یہی سوچ تھی جس نے کامل کے تن بدن میں ایک اندیکھی سی آگ بھڑکا دی تھی۔۔۔۔۔۔
کامل کو یقین تھا صبح تک خضر نے یہاں اپنی ٹیم بھیج دینی ہے ۔۔نکاح کے دوران اور اُسکے بعد بھی اُسکی نظریں محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھ رہی تھی اور پھر جب وہ کمرے میں ایا تھا سامنے فلک کا دو آتشہ روپ دیکھ کر وہ مضبوط مرد اپنا ضبط کھو بیٹھا تھا اس رشتے کو تسلیم کرتے وہ فلک سے اپنا حق لے بیٹھا تھا۔۔۔۔
صبح کمرے کے باہر انے والے شخص کو وہ پہچان گیا تھا جو اُنکی ہی ٹیم کا ممبر تھا۔۔۔اس کا مطلب تھا یہاں کی ہر چیز اب انکے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا ابھی تھوڑی دیر بعد یہاں کا منظر بدل جائے گا۔۔۔سب سے پہلے فلک کو محفوظ جگہ پر پہنچانا تھا۔۔۔وہ جلدی سے وہاں سے فلک کو لے کر ہوٹل ایا تھا اور اُسے وہاں صحیح سلامت چھوڑ کر وہ واپس اسی جگہ ایا تھا ۔۔جہاں خضر بھی موجود تھا۔۔۔
کیا اپڈیٹ ہے۔۔۔کامل نے خضر سے آکر کہا جو بلیک ٹی شرٹ اور بلیک جینز پہنے وہاں کھڑا تھا۔۔۔
ہم جب یہاں پر آئے تو کوئی بھی نہیں تھا صرف یہ عورتیں ہی یہاں موجود تھی۔۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں پانچ چھ عورتیں کھڑی تھی۔۔۔۔
یہاں نہیں ہے وہ مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہاں ہے۔۔۔کامل نے کہتے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے۔۔۔۔
تھوڑی دور پہنچ کر وہ زمین پر بیٹھا تھا خضر نے سنجیدگی سے اُسکی طرف دیکھا تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے مٹی ہٹائی تھی اور پھر ایک چھوٹا سا دروازہ نظر ایا تھا۔۔۔
خضر نے اپنی ٹیم کو ریڈی رہنے کا آرڈر دیا جب ایک ایک کرتے وہ سب اُس دروازے سے اندر جاتے گئے۔۔۔۔
وہاں موجود سارے دشمن عناصر کو اُنہوں نے شکست دی تھی۔۔۔خضر کی نظر ایک طرف گئی جہاں پر جنگلے نما ایک کمرہ بنایا گیا تھا خضر فوراً سے اس طرف بڑھا تھا۔۔جہاں پر کئی معصوم لڑکیوں اور بچیوں کو رسی کی مدد سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔۔۔خضر نے جلدی سے اُن کو آزاد کروایا ۔۔۔۔
جو آنکھوں میں تشکر لیے اپنے مسیحاؤں کو دیکھ رہی تھی جن کی وجہ سے اج اُنکی عزت خراب ہونے سے بچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
باقی سارے آدمیوں کو پکڑ لیا گیا تھا وہ لوگ فتح یاب ہو کر یہاں سے نکلے تھے ۔۔۔۔
اب اس سردار کا کیا کرنا ہے ۔۔۔کامل نے اپنی شرٹ صحیح کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
کیا کرنا رکھو اسے ٹارچر سیل میں کچھ نہ کچھ تو بتائے گا۔۔۔خضر نے ایک نظر اُن سب کو دیکھتے ہوئے کہا جن کو آفیسر پکڑ کر لے جا رہے تھے۔۔۔۔
مجھے کچھ بتانا ہے تُجھے۔۔۔کامل نے خضر کے خوبرو چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ نہیں جانتا تھا کہ خضر اُسکے اور فلک کے نکاح پر کیا ردعمل دے گا۔۔۔۔۔
جانتا ہُوں سب۔۔بہتر یہی ہے اب اس رشتے کو نبھاؤں فلک بہت اچھی ہے اور مجھے اُسکے لیے تم بہتر لگے ۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اسکی بات پر کامل ہنس پڑا ۔۔۔
تُجھے کیسے پتہ چل جاتا ہے سب۔۔۔کامل کہ پوچھنے پر خضر نے اپنی بھوری آنکھیں اُسکے لینس لگی آنکھوں میں ڈالی۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری اپنے آپ سے جُڑے رشتوں کی پل پل کی خبر رکھتا ہے ۔۔خضر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔
خیر کوئی لال پڑی آجکل آپکے فارم ہاؤس پر دیکھی گئی ہے۔۔کامل نے کہتے ساتھ اُسے ان نظروں سے دیکھا کہ کامل خان بھی اپنے دوست کی زندگی کی پل پل کی خبر رکھتا ہے ۔۔۔
کامل کی بات پر جھٹ سے خضر کی آنکھوں میں شجیہ کا سراپا لہرایا تھا وہ اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔۔
تمہیں اج شام ہی امریکہ کے لیے نکلنا ہے اب فلک کو کیسے سمنبھالنہ ہے یہ تم جانو ۔۔۔خضر نے اپنے سر کو جھٹک کر کامل کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔
مگر کیوں۔۔۔کامل نے سنجیدگی سے فلک کے بارے میں سوچتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کیونکہ اس سردار کی بیٹی امریکہ میں ہے جسے تمہیں یہاں پاکستان لانا ہے اور اس سے انڈر ورلڈ میں موجود اُس انسان کے بارے میں بھی پتہ کرنا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔۔۔قسط نے کہتے ساتھ اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
وقت نہیں ہے تین بجے کی فلائیٹ ہے تمھاری۔۔۔خضر نے گاڑی میں بیٹھتے تیز آواز میں کہا تھا کامل نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھا تھا جہاں دو بج رہے ہیں وہ بری طرح اپنے لب چبا گیا تھا۔۔۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنے کسی کام کی وجہ سے یوں پریشان ہوا ہو لیکن بات یہاں پر فلک کی تھی اُسکے ساتھ ایک اور وجود جر چکا تھا۔۔۔
لیکن فرض ہمیشہ پہلے نمبر پر ہوتا ہے۔۔۔
اور پھر کامل خان فلک کو اپنے رنگ میں رنگے چھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔اور وہ بچاری اُسکے جانے کے بعد اندر ہی اندر مر گئی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر شجاعت چوہدری اپنے ذہن سے شجیہ کے وجود کو پوری طرح مٹا چکا تھا لیکن نہیں جانتا تھا جسکی شبیہ وہ مٹا چکا ہے اُس وجود نے ساری زندگی کے لیے اپنی چھاپ اُسکے دل پر چھوڑ جانی ہے۔۔۔۔
فلک کو دن بہ دن خاموش دیکھ کر وہ اپنے لب بھینچ جاتا تھا۔۔۔پھر جب فاطمہ اماں نے فلک سے شادی کرنے کا بولا اُس وقت وہ حد سے زیادہ پریشان ہوگیا تھا شجیہ کے انے پر اُسے اپنی اس مصبیت کا حل نظر ایا تھا۔۔۔اور اُس نے کنٹرکٹ میرج کی تھی ایسے حالات میں ایک یہی حل تھا جو اُسے سمجھ ایا تھا کیونکہ وہ فاطمہ اماں کو اچھی طرح جانتا تھا وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔۔۔۔لیکن اگر اُسکی شادی ہو جاتی تو وہ کبھی اُسے مجبور نہیں کرے گی فلک سے شادی کرنے پر ۔۔۔۔۔
تقریباً دو مہینے بعد کامل نے پاکستان کی۔ سر زمین پر قدم رکھا تھا لیکن وہ اکیلا نہیں تھا اُسکے ساتھ ایک اور وجود تھا اور وہ وجود تھا سائرہ کا۔۔۔۔
جو سردار کی بیٹی تھی کامل نے اُسے ایسے اپنے جال میں پھنسایا تھا کہ وہ کامل کے وجود کو نظرانداز ہی نہ کر سکی تھی۔۔۔۔
کامل کے دل نے شدت سے پاکستان واپس آنے کہ انتظار کیا تھا تاکہ وہ اپنی متائے جان سے مل سکے جس کے بغیر وہ ادھورا تھا۔۔۔۔
وہ رات کی خاموشی میں اپنی اصلی شخصیت کے ساتھ فلک سے ملنے ایا تھا۔۔۔۔اُسکے پاس بیٹھ کر اُسکے وجود کو محسوس کرتے اس کے ترپتے دل کو سکون ملا تھا۔۔۔
فلک کے کمرے میں اُس نے ایک کیمرہ لگا دیا تھا جس سے وہ فلک کی ہر ایک حرکت پر نظر رکھ رہا تھا پھر جب فلک اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے روئی تھی کامل کی پیشانی پر بل پڑے تھے جو وہ سوچ رہا تھا اگر ایسا کچھ تھا تو وہ خضر کو نہیں چھوڑتے والا تھا اُس نے خضر کو فون ملایا تھا لیکن وہ بند جا رہا تھا ۔۔۔اگلے دن جب خضر نے فون اٹھایا اور کامل کے شک پر سچ کی مہر لگائی ۔۔۔تب اس مضبوط مرد کی آنکھوں میں اپنی بیوی کے لیے اپنی اولاد کے لیے ایک آنسو آنکھوں سے نکلا تھا۔۔۔۔
وہ نہیں روک سکا تھا خود کو فلک سے ملنے کے لیے اسی لیے وہ اپنا روپ بدل کر فلک سے ملنے ایا تھا اٹھ مہینے بعد اُسے ایک وصل کی رات نصیب ہوئی تھی جس میں وہ اپنے اوپر ضبط نہیں کر سکا تھا جانتا تھا فلک اس کے بعد ٹوٹ جائے گی بکھر جائے گی لیکن اپنے دل کا کیا کرتا۔۔۔۔
اُسے خضر کے بارے میں بھی سب پتہ تھا کس طرح اُس نے فلک سے شادی سے بچنے کی خاطر شجیہ سے شادی کی تھی اور وہ دل سے یہ چاہتا تھا جس طرح اسے محبت نے جکڑا ہے اُسکے دوست کو بھی محبت جکڑ لے۔۔۔۔تبھی اُسکا دوست اپنی زندگی کو کھل کر جی پائے گا۔۔۔۔
💗💗💗💗
حال ۔۔۔
فلک نے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھولی ۔۔۔۔لیکن خالی بیڈ کو دیکھتے وہ تیزی سے اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
وہ پھر یہاں نہیں تھا ۔۔۔۔۔
کا۔۔۔مل۔۔۔فلک نے ہوچکی لیتے اُسکا نام لیا تھا بھوری آنکھیں پل میں بھیگی تھی۔۔۔وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی واشروم ڈریسنگ ہر جگہ اُس نے دیکھ لیا تھا لیکن کامل کہیں نہیں تھا۔۔۔
پھر چھوڑ گئے پھر ۔۔۔۔کیوں آخر کیوں اذیت دے رہے ہیں اتنی مجھے میرا خیال نہیں ہے تو کم سے کم اپنی اولاد کا تو خیال کر لے۔۔۔فلک اپنے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑے چیخی تھی۔۔۔۔
شجیہ جو اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی فلک کے کمرے کے پاس سے گزرتی اُسکے چیخنے کی آواز پر گھبرائی اور فوراً سے اندر ائی تھی۔۔۔
نیچے زمین پر فلک کو ہچکیاں بھرتے دیکھ وہ فوراً سے اُسکے پاس ائی تھی۔۔۔
کیا ہوا فلک ۔۔شجیہ نے فلک کے دونوں ہاتھوں سے بال آزاد کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
فلک شجیہ کو اپنے پاس دیکھ کر اُسکے گلے لگی شدت سے رو دی تھی۔۔۔
وہ پھر مجھے چھوڑ گئے پھر میرے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑ کر وہ پھر مجھے تنہا کر گئے اُن سے کہو آجائے میرے پاس یہ مجھے اپنے پاس بلا لے ۔۔۔میرے لیے نہیں تو اپنی اولاد کے لیے۔۔۔میں نہیں رہ سکتی اُنکے بنا۔۔۔فلک نے روتے ہوئے اذیت زدہ لہجے میں کہا تھا۔۔۔
اسکا ایک ایک لفظ شجیہ کو حیران اور پریشان کر گیا تھا اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ فلک کی بات پر کیا کہہ پر اتنا ضرور تھا فلک کو اس طرح دیکھتے اُسکی اپنی آنکھیں بھی نم ہوئی تھی۔۔۔۔
اٹھو فلک ۔۔فلک اٹھ جاؤ۔۔۔یکدم اُسکے کندھے پر رکھا فلک کا۔ سر ڈھلکا تھا اور شجیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے وہ فلک کا گال تھپتھپاتے اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
جس طرح سے فلک نے اُسے کہا تھا وہ حویلی میں کسی اور سے کوئی بات نہیں کرسکتی تھی ایک نظر فلک کو دیکھا آرام سے اُسکا سر زمین پر رکھتے سر پیٹ وہ دوری تھی۔۔۔۔
اور یہ سب منظر اپنی سکرین پر دیکھتا کامل اپنی ضبط سے سرخ ہوتی سبز آنکھیں مينچ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔اپنی محبت اپنی بیوی کو اس طرح اذیت میں دیکھنا جب وہ ممتا کے نازک مراحل سے گزر رہی ہو کتنا اذیت ناک ہوتا ہے یہ کوئی کامل خان سے پوچھتا۔۔۔۔
اُسکی نظریں بیقراری سے فلک کے وجود پر مرکوز تھی جس میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی تھی اپنی اُنگلیاں اُس نے دھیرے سے سکرین پر نظر آتے فلک کے وجود پر رکھی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر خضر کہاں ہے آپ۔۔۔۔شجیہ بھاگتی ہوئی کمرے میں ائی تھی اور خضر کو کمرے میں نہ پاکر اُس نے تیز آواز میں کہا تھا۔۔۔
خضر جو شاور لے رہا تھا شجیہ کے ایسے چلانے پر جلدی سے شاور بند کرتا اپنے کپڑے پہن کر نکلا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔خضر نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے سنجیدگی سے شجیہ کی نیلی روئی آنکھوں اور لال چہرے کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔۔نہ جانے کیوں ان نیلی آنکھوں میں نمی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔۔۔۔
خضر وہ فلک بیہوش ہوگئی ہے آپ پلیز جلدی آجائے ۔۔۔۔۔شجیہ کہتی ساتھ اُسے کمرے میں چھوڑتے باہر بھاگی تھی ۔۔خضر یہ سنتا تیز رفتاری سے شجیہ کے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔۔
کمرے میں اتے ہی خضر نے فلک کے بیہوش وجود کو اٹھا کر بیڈ پر لٹایا تھا شجیہ جلدی سے فلک کے برابر میں بیٹھی اُسکا ہاتھ رگڑ رہی تھی ۔۔۔
خضر کو فلک کے پاس دیکھتے کامل نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی تھی ۔۔۔دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے وہ کرسی کی پشت پر اپنا سر ٹکا گیا تھا۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے اسے ۔۔۔خضر نے فون پر نظریں رکھتے شجیہ سے پوچھا تھا۔۔۔
پتہ نہیں میں نیچے جا رہی تھی کمرے سے چیخنے کی آواز ائی تو فلک رو رہی تھی اور پھر وہ بیہوش ہوگئی ۔۔شجیہ نے جلدی سے بتایا ۔۔۔خضر نے گاؤں میں موجود ڈاکٹر کو فون کیا تھا۔۔۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر شجیہ کو دیکھا جو بار بار کچھ پڑھتی فلک پر پھونک رہی تھی اُسکے چہرے پر صاف فکرمندی دیکھی جا سکتی تھی فلک کے لیے۔۔۔۔وہ گہری نظروں سے شجیہ کو دیکھ رہا تھا جو اس پاس کو بھولے صرف فلک کی طرف متوجہ تھی۔۔۔
سامنے بیٹھی لڑکی واقعی میں صاف دل کی مالک تھی۔۔۔اُسکی سچائی اُسکی نیلی آنکھیں صاف بتاتی تھی۔۔۔جسے خضر محسوس کرتے بھی جھٹلا جاتا تھا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ایک ملازمہ کے ساتھ ڈاکٹر آئے تھے۔خضر نے ملازمہ کو دروازے پر سے ہی واپس کر دیا تھا۔۔۔۔۔ڈاکٹر کے انے پر خضر نے اپنی نظریں شجیہ پر سے ہٹائیں تھی ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے جلدی سے آکر فلک کا ہاتھ پکڑ کر اُسکی نبض چیک کی تھی اور سکرین پر نظر آتا یہ منظر دیکھتے کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی تھی۔۔۔
خضر کے بھی ماتھے پر بل پڑے تھے گاؤں میں ایک ہی چھوٹا سا ہسپتال تھا جس میں اُس نے کال کی تھی لیکن اُس نے لیڈی ڈاکٹر کو بھیجنے کا کہا تھا میل ڈاکٹر کو دیکھتے اُسکے ماتھے پر بھی بل پڑے تھے۔۔۔۔۔
انہوں نے کب سے کھانا نہیں کھایا ہے۔۔۔ڈاکٹر نے شجیہ کی طرف دیکھتے پوچھا تھا اور یہ بات خضر کو انتہائی ناگوار گزری تھی۔۔۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔فلک نے ایک نظر خضر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
یہ فور منتھ پریگنٹ ہے آپکو انکا خیال رکھنا ہے ٹینشن کی کوئی بات نہیں ہے بس یہ کمزوری کی وجہ سے بیہوش ہوئی ہے انکا زیادہ سے زیادہ خیال رکھے یہ کچھ دوائیں ہے جو لکھ دی ہے یہ لینا انکے لیے نہایت ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے مسکرا کر رثانیت سے شجیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اُسکے ہاتھ میں پرچی دی تھی۔۔اور یہ حرکت تو خضر شجاعت چوہدری کے تن بدن میں ایک جلن سی پیدا کر گیا تھا۔۔۔۔
شجیہ خاموش سی ہوتی فلک کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔اور ڈاکٹر کی نظریں شجیہ پر مرکوز رہی۔۔۔۔۔اور خضر کو لگ رہا تھا اُسکے ماتھے کی رگیں اشتعال سے پھٹ جائے گی۔۔۔۔
جی ہم اسکا دیہان رکھے گے آپ کے انے کا شکریہ۔۔۔خضر نے دانت پیستے ہوئے کہا جبکہ غصے بھری نظریں ڈاکٹر پر مرکوز تھی جس نے خضر کی غصے بھری نظروں۔ کو اپنے اوپر دیکھتے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
میں نے لیڈی ڈاکٹر کو بھیجنے کا کہا تھا پھر آپ کیوں۔۔۔۔خضر نے ابکی بار سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔
لیڈی ڈاکٹرتھی نہیں ہسپتال میں ۔۔اسی لیے مجھے انا پڑا ابھی ابھی جواننگ دی ہے ۔۔۔ڈاکٹر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا جب کہ اب بھی نظریں شجیہ کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔جو فلک کی طرف ہی متوجہ تھی۔۔۔۔
خضر نے انتہائی سختی سے اُسکی تھوڑی پکڑ کر اُسکا رخ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔۔اور دھیمی سخت آواز میں اُسکے چہرے پر غرایا تھا۔۔۔۔
جاتے ہی اپنا ریزیگنیشن لیٹر لے جانا دوبارہ مجھے اس گاؤں میں نظر نہ اؤ۔۔۔خضر کی بات پر ڈاکٹر نے غصے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
اور تم ہوتے کون ہو مجھ سے یہ بولنے والے۔۔۔ڈاکٹر کے پوچھنے پر خضر نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔اُسکی گرفت میں اتنی سختی تھی کہ ڈاکٹر کو اپنی ہڈی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری نام ہے میرا اُمید کرتا ہوں یہ نام اچھے سے معلوم ہوگا تمہیں۔۔۔خضر کی بات پر ڈاکٹر کے چہرے سے ہوائیاں اری تھی اس نام کو تو سب ہی اچھے سے جانتے تھے اس گاؤں کا ہونے والا سردار اور ایک مشہور بزنس مین ۔۔۔۔۔
سوری سر۔۔ڈاکٹر بولتا ہوا جلدی سے باہر بڑھا تھا۔۔۔ ۔
جب خضر نے شجیہ کی طرف دیکھا تھا۔۔جو اب بھی فلک کے بالوں میں اپنی اُنگلیاں چلاتی خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
خضر نے ایک گہرا سانس بھرا تھا دوسری طرف کامل نے بھی اپنی سرخ آنکھیں بند کی تھی ۔۔وہ جلد از جلد یہ مشن ختم کرتے فلک کو اپنے پاس لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔۔
لڑکی میری بات سنو۔۔۔۔خضر کو سمجھ نہ ایا شجیہ کو کیسے مخاطب کرے اسی لیے ایسے ہی اُسے پُکارا ۔۔۔شجیہ نے خضر کی بات پر اپنی غصے بھری آنکھیں اٹھا کر سکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔جب جب خضر اُسے اُسکا نام لینے کے بجائے لڑکی کہتا تھا اُسکا دل چاہتا تھا کچھ کر بیٹھے۔۔۔۔۔۔
شجیہ کی نیلی آنکھوں میں غصّہ دیکھتے خضر نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔۔
یہ بات صرف اس کمرے تک ہی رہنی چایئے باہر اسکے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہونا چایئے۔۔۔خضر نے سرد سنجیدہ آواز میں کہا تھا۔۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر بلایا تھا اُسکی بات پر۔۔۔اور خضر خاموشی سے اُسے ایک نظر دیکھتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial