قسط: 9
مجھے ہسپتال پر ڈراپ کر دی جئے گا۔۔۔شجیہ نے گاڑی چلاتے خضر سے کہا۔۔۔
وہ لوگ اج کراچی کے لئے نکلے تھے ۔۔ساتھ میں فلک بھی تھی جو پچھلی سیٹ پر بیٹھی ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی۔۔۔شجیہ کی بات پر وہ سیدھی ہوئی۔۔۔۔
میں بھی چلو گی تمہارے ساتھ۔۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔خضر سنجیدگی و خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔۔
ہسپتال کے باہر گاڑی رکنے پر شجیہ جلدی سے اندر بڑھی تھی۔۔۔فلک بھی جلدی سے گاڑی سے اُتری تھی۔۔۔خضر کو گاڑی میں بیٹھا دیکھ فلک نے کڑے تیوروں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔
چلو جلدی تمہیں بھی چلنا چایئے اندر۔۔فلک تیز لہجے میں بولتی ہوئی آگے بڑھی تھی۔۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی خضر کو فلک کی بات پر گاڑی سے باہر نکلنا پڑا اُسکے گاڑی سے باہر اتے ہی تمام گارڈز چوکننا ہوئے تھے جنکو ہاتھ کے اشارے سے وہی رکنے کا کہتے وہ اندر بڑھا تھا۔۔۔



اماں۔۔۔شجیہ نے کوریڈور میں ہی نسرین کو دیکھ کر کہا تھا جو نم آنکھیں لیے تسبیح پڑھ رہی تھی شجیہ کی آواز پر فوراً سے اُسکی طرف دیکھا۔ ۔
میری بچی۔۔۔نسرین نے جلدی سے کہتے شجیہ کو اپنے گلے لگایا تھا آنکھیں نم تو شجیہ کی بھی تھی۔۔۔
بابا۔۔۔کیسے ہے اماں۔۔۔شجیہ نے فوراً سے آصف صاحب کے بارے میں پوچھا۔۔۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے وہ کوما میں چلے گئے ہے نہ جانے ہوش اتا بھی ہے یہ نہیں۔۔۔اللہ ہی مدد کر سکتا ہے اب۔۔۔نسرین کی آواز بھر ائی تھی یہ بتاتے ہوئے۔۔۔
یہ کیا بول رہی ہو اماں ایسا کیسے ہوسکتا ہے وقت پر آپریشن شروع ہوا تھا پھر یہ ڈاکٹر کہاں ہے۔۔۔شجیہ نے بہتی آنکھوں سے غصے سے کہا۔۔۔فلک بھی پیچھے کھڑی سب سن چکی تھی۔۔۔۔۔
اسلام علیکم انٹی۔۔۔۔اللہ پر بھروسہ رکھے وہ بہتر کریں گا۔۔۔۔۔فلک نے آگے بڑھتے سلام کرتے کہا۔۔۔نسرین نے اجان نظروں سے سامنے کھڑی نازک سی لڑکی کو دیکھتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
یہ فلک ہے اماں۔۔۔شجیہ نے تعارف کروایا ۔۔۔
اور میں اُسکی نند پلس دوست ہوں۔۔۔۔فلک نے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔
اتنے میں ڈاکٹر باہر آئے جو اندر آصف صاحب کو چیک کرنے گئے ہوئے تھے۔۔۔
ڈاکٹر میرے بابا۔۔۔۔شجیہ نے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔
وہ ٹھیک ہے وہ سن سکتے ہیں سب محسوس بھی کر سکتے ہیں لیکن وہ نہ اٹھ سکتے ہیں اور نہ بیٹھ ۔۔۔اُمید ہے وہ جلدی کوما سے باہر آجائے ۔۔۔سو میں سے ستر پرسنٹ چانس ہے کہ وہ تین سے چار مہینے کے بعد ہوش میں آجائے۔۔۔۔ڈاکٹر کے کہنے پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
فلک نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے حوصلا دیا ۔۔۔۔
شجیہ کی نظر خضر پر پڑی جو ایک طرف دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے ہے تاثر چہرہ لیے کھڑا تھا۔۔۔
اُسکے قدم خضر کی طرف بڑھے۔۔۔۔
میں اج اماں کے ساتھ رکو گی۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر خضر کا دل عجیب ہوا تھا۔۔۔۔مگر ماننا کس کو تھا۔۔۔۔
تم جو چاہے کر سکتی ہو یہ گاؤں نہیں ہے نہ حویلی جہاں پر ہمیں میاں بیوی کا ناٹک کرنا پڑے ہے اسی لیے تم آزاد ہو ۔۔۔۔خضر نے بے تاثر آواز میں کہا۔۔۔اسکی بات پر شجیہ کا دل دُکھا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے بنا کچھ کہےاثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔وہ چاہتا تھا جیسے وہ ہر چیز میں اُسکی نفی کرتی ہے اس بات پر بھی اُسے کچھ نہ کچھ کہے اپنی چلائے ۔۔۔۔۔۔خضر نے فوراً سے اپنا سر جھٹکا۔۔۔۔
یہ کنٹرکٹ نہیں ختم کیا ہے جب تک فلک اور کامل مل نہیں جاتے تب تک یہ کنٹریکٹ چلے گا۔۔۔خضر نے اپنی گردن پر ہاتھ پھرتے جیسے خود کو سمجھانا چاہا تھا۔۔۔۔
پتہ ہے مجھے اور آپ بفکر رہے یہ کنٹریکٹ زندگی بھر نہیں ختم ہوگا۔۔۔۔یہ بات اپنے اس دماغ میں بٹھا لے۔۔۔شجیہ نے ایڑھی کے بل کھڑے ہوتے اُسکے ماتھے پر اپنی دو اُنگلیاں رکھتے اُسے نوک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر اسکو دیکھا جو اُسکے کندھے تک بھی نہیں اتی تھی اونچا ہونے کے بعد بھی وہ صرف اُسکی گردن تک ہی آرہی تھی۔۔۔
وہ کیوں ایسی حرکتیں کرتی تھی کہ خضر کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کر جاتی اب بھی اُس نے بہت ضبط کے ساتھ اپنے ہونٹوں پر امدنے والی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔۔۔
شجیہ کہتی پیچھے پلٹی تھی جہاں اُسکی امّاں اور فلک مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی اُن دونوں کو دیکھتے ہی شجیہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ رقص کر گئی تھی۔۔۔۔
فلک نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اپنی پشت اُنکی طرف کیے فون کان سے لگا گیا تھا۔۔۔۔
اب میں چلتی ہو اپنا ڈھیر سارا دیہان رکھنا ٹھیک ہے۔۔۔۔فلک نے شجیہ کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
فلک نے نسرین سے الوداعی کلمات کہتے اپنے قدم خضر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔اور شجیہ کی نظروں نے دور تک خضر کی پشت کو تکا تھا۔۔۔
اور پھر نسرین کے کہنے پر آصف صاحب کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔خضر نے ایک پرائیویٹ روم میں انکو شفٹ کر دیا تھا۔۔۔شجیہ نے ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں ہر طرح کے پھل رکھے ہوئے تھے۔۔۔ساتھ میں کھانے کی بھی چیزیں رکھی گئی تھی ایک بیڈ پر آصف صاحب مشینوں میں جکڑے بے سدھ پڑے تھے۔۔ اُنکے ساتھ ہی ایک اور بیڈ رکھا گیا تھا جو نسرین کے لیے تھا۔۔۔یہ سب خضر نے کیا تھا۔۔۔۔۔شجیہ کے چہرے پر آسودگی بھری مسکراہٹ اُبھری۔۔۔۔
اُس نے قدم آصف صاحب کی طرف بڑھائے اُنکے ماتھے پر محبت سے بوسا دیتے اُسکا آنسو اُنکے ماتھے پر گرا تھا ۔۔۔نہایت پیار سے وہ آنسو شجیہ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ۔۔۔نسرین اُن دونوں کو دیکھتے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
شجیہ آصف صاحب سے دور ہوئی اور جاکر نسرین کے پاس صوفہ پر بیٹھتے اُسکی گود میں اپنا سر رکھ گئی۔۔۔نسرین نے پیار سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا جس نے اپنے باپ کی زندگی کو بچانے کے لیے اپنا آپ قربان کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔
لاڈو میاں بیوی کا رشتا بہت خوبصورت ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ نازک بھی نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے یہ دو انجان لوگوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے محبت خود با خود اس رشتے میں شامل ہو جاتی ہے ۔۔لاڈو تمہارا اور صاحب جی کا رشتا چاہے جیسے بھی جرا ہو وہ تمہارے شوہر ہے اُنکی عزت کرنا محبت کرنا ۔۔۔اُس رشتے کو پوری ایمانداری سے نبھانا۔۔۔۔
تیرے بابا تیرے اوپر طلاق کا دھبہ نہیں برداشت کر پائے گے لادو۔۔۔نسرین کی بات پر شجیہ نے اپنی آنکھیں بند کئے ہی اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔۔
آنکھیں بند کرتے ہی خضر کا وجود پوری شان کے ساتھ اُسکی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا مسکراہٹ نے فوراً سے لبوں کا احاطہ کیا۔۔۔۔




حیرت کی بات ہے بھئی کوئی اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔فلک نے شریر انداز میں خضر کی طرف دیکھتے کہا جو اپنا رخ بدلے ونڈو سے باہر دیکھتا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ہم۔۔ہاں کیا بولا تم نے۔۔۔۔خضر نے یکدم چونکتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
اُسکا دیہان تو تھا ہی نہیں یہاں سوچوں کے دھاگوں پر تو شجیہ سوار تھی۔۔۔۔۔۔۔
محبت ہو گئی ہے ؟۔۔۔فلک نے سیدھا سا سوال کیا۔۔۔خضر نے دونوں آبرو کو آپس میں ملا کر اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔
نہیں۔۔۔خضر نے کچھ پل کے بعد اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو جو تمھارے دل کی بات بھی جان جاتی ہے ۔۔۔فلک نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
جھوٹ نہیں بول رہا۔۔۔خضر نے فلک کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔
اچھی بات ہے محبت نہیں ۔۔۔۔اب اُسکی بھی زندگی ہے اور میں تو سو پرسنٹ شیور ہو جتنی وہ خوبصورت اور معصوم ہے کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں تو اُس سے محبت کرتا ہی ہوگا۔۔۔۔فلک نے خضر کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ دیکھتے کہا۔۔۔وہ خضر کے سنجیدہ چہرے کو ہی دیکھ رہی تھی جو پل میں تنا تھا۔۔اُسکے ماتھے کی رگ بھی اچانک سے پھولی۔۔۔۔
ہیں نہ صحیح کہہ رہی ہو میں۔۔۔فلک نے اُسکے سخت تنے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے تصدیق چاہی ۔۔۔خضر نے اپنی ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی تھی۔۔۔۔
یہ سنتے ہی سانس سینے میں تھمتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔نہ جانے کیوں ایسا لگا جیسے وجود جلنے لگا ہو۔۔۔۔رگو میں دوڑتا خوں لاوا میں تبدیل ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
مجھے کیا پتہ۔۔۔خضر نے سخت لہجے میں کہا۔۔اپنے لہجے کی کڑواہٹ وہ فلک کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن عشق اور جلن چھپائے نہیں چھپتی اور وہ بھی اُسکی بچپن کی دوست تھی اپنے دوست کی ہر ایک بات جانتی تھی۔۔۔
فلک نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی ۔۔۔۔
میں پوچھو گی اُس سے کیا پتہ اُسکی زندگی میں بھی کوئی ہو جس سے وہ بھی محبت کرتی ہو۔۔۔فلک نے ایک اور تیر پھینکا تھا اور یہ سنتے خضر کے تن بدن جل اٹھا تھا۔۔۔
مجھے آفس کا کچھ کام کرنا ہے تو یہ بات یہی ختم کرو۔۔۔خضر نے لیپ ٹاپ آن کرتے سخت آواز میں کہا۔۔۔
فلک اثبات میں سر ہلاتی ونڈو سے باہر دیکھنے لگی۔۔لیکن خضر کی دماغ کی دہی کر دی تھی۔۔۔
خضر لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ہوئے تھا لیکن دیہان تو سب فلک کی باتوں میں اٹک گیا تھا۔۔۔
مجھے کیا جو بھی ۔۔۔کرتی ہو وہ کسی سے بھی محبت ۔۔۔۔۔
کیا ہے یار۔۔۔خضر نے دل میں کہا لیکن یہ بات کہتے ہوئے بھی اُسے اپنے اندر اشتعال بڑھتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک انڈھیکی آگ اُسکے وجود میں جل رہی ہو۔۔جھنجھلا کر لیپ ٹاپ زور سے بند کرتے اُس نے آخری لفظ کہیں تھے۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔فلک سمجھ گئی تھی کیا ہوا اپنے لبوں پر امڈتی مسکراہٹ ضبط کرتے اُس نے انجان بنتے پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں آفس کا کام تھوڑا سا خراب ہوگیا ۔۔۔خضر نے جلدی سے کہا اور واپس لیپ ٹاپ آن کر لیا۔۔۔یہ بات تو اُسکے ذہن سے نکلنے والی نہیں تھی۔۔۔اسی لیے اپنے دماغ کو کہیں اور مصروف کرنا چاہا۔۔۔۔فلک واپس ونڈو سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔۔




گاڑی روکو جلدی گاڑی روکو۔۔۔فلک نے یکدم چیختے ہوئے کہا ڈرائیور نے فوراً سے گاڑی روکی تھی خضر بھی حیرانی سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
جو کچھ بھی سمجھے بغیر گاڑی سے باہر بھاگی تھی۔۔۔خضر بھی پریشانی سے گاڑی سے باہر نکلا تھا لیکن سامنے نظر اتا منظر دیکھ کر اُسکا دل کیا تھا یہ تو اپنا سر کسی دیوار پر مار لے یہ پھر سامنے موجود ہستی کا ۔۔۔
فلک کی دھڑکنیں تیز تھی پھولی سانسوں کے ساتھ بھاگتی وہ اُس تک ائی تھی۔۔۔۔
کا۔۔۔م۔۔ل۔۔کامل۔۔۔فلک نے گہرا سانس بھرتے اُس سے دو قدم کی دوری پر رکتے کہا۔۔۔۔جو گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا۔۔۔۔۔نیلے تھری پیس پہنے ۔۔۔۔
کامل جو سائرہ کو ساتھ شوينگ کے لیے لایا تھا ابھی گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تھا جب اپنی پشت سے اُبھرتی آواز پر وہ تھما تھا شدت سے اپنی پیچھے اُس وجود کے نہ ہونے کی تمنا کی تھی ۔۔۔اپنی آنکھیں منینچ کر اُس نے خود کو تیار کیا تھا کیونکہ اگر فلک پیچھے کھڑی ہوتی تو جو وہ کرتا وہ شاید ہی فلک برداشت کر جاتی ۔۔۔۔۔
کامل ہلکے سے پلٹا۔۔۔اور فلک وہ کانپتے جسم کے ساتھ نم آنکھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔آنکھیں لبالب نمکین پانی سے بھری تھی ۔۔
ہلکے سے اپنے قدم آگے بڑھاتی وہ اُس کے نزدیک ائی تھی اور کامل خان کا دل ساکت ہوا تھا وہ اپنی سانس تک روک گیا تھا۔۔لینس لگی آنکھوں میں سامنے موجود وجود کو دیکھتے تڑپ محبت کیا کیا نہ اُبھرا تھا۔۔۔۔
فلک نے اپنا کانپتا ہاتھ اگے بڑھاتے کامل کے گال پر رکھا تھا جیسے یقین کرنا چاہا ہو کہ ایا سامنے وہ موجود ہے یہ اُسکا وہم ہے۔۔لیکن جیسے ہی اُسکے ہاتھ نے کامل کے گال کا لمس محسوس کیا ۔۔۔وہ اپنا لب دانت میں دبائیں اپنی سسکی روکتے اُسکے گلے لگی تھی۔۔۔۔
افف کیا لمحہ تھا کامل خان کے لئے جب اُسکی زندگی اُسکے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔فلک کی سسکیاں بلند ہوئی تھی وہ بےتحاشا رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کامل کے دل نے شدت سے چاہا تھا اُسکے گرد اپنے ہاتھ باندھ کر اُسے زور سے اپنے سینے میں بھینچ لیں ۔۔۔۔
اُسے تو یقین ہی نہیں تھا اُسکے پاس کامل ہے وہ اُسکی گلے لگی ہوئی ہے لیکن یہ سچ تھا وہ اپنی کالی آنکھوں اور خوبرو چہرے کے ساتھ اُسکے سامنے تھا۔۔۔
کہاں تھے آپ میں نے کتنا یاد ۔۔۔ابھی فلک کے الفاظ مکمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ کسی نے اُسے بیدردی سے کامل سے دور کیا تھا۔۔۔
اس سے پہلے وہ زمین پر گرتی خضر نے اُسے تھاما ۔۔۔۔۔
فلک کو گرتے دیکھ کامل کی سانس رکی تھی خضر کے پکڑنے پر اُس نے سکون کا سانس بھرا تھا ورنہ شاید وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا نقصان کروا بیٹھتا۔۔۔
اُس نے اپنی مٹھیاں بھینچے سائرہ کی طرف دیکھا تھا جو کھا جانے والی نظروں سے فلک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔اُسکا دل چاہ رہا تھا ابھی اس سائرہ کو جان سے مار دے جس نے فلک کو دھکا دیا ہے۔۔۔۔
لڑکی تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے منگیتر کو گلے لگانے کی ۔۔سائرہ آگے بڑھتی فلک کو تھپڑ مارنے لگی جب خضر نے انتہائی سختی سے اُسکا ہاتھ بیچ میں ہی روکا ۔۔۔۔
دور ۔۔غلطی سے بھی یہ غلطی مت کرنا ۔۔ورنہ اس غلطی کی معافی تمہیں نہیں ملے گی۔۔۔۔خضر نے انتہائی زور سے سائرہ کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے سخت سرد لہجے میں کہا۔۔۔خضر کا سخت لہجہ اور بھوری آنکھوں میں خونخوار تاثرات دیکھتے سائرہ نے تھوک نگلا اور اپنے قدم پیچھے لیے۔۔۔۔۔۔
فلک اُسکی بات پر بیقین سی ہوتی کامل کو دیکھے گئی ۔۔
یہ میرے شوہر ہے کامل کہیں نہ آپ اُسے آپ میرے شوہر ہے اسکے۔۔اسکے منگیتر نہیں۔۔فلک نے تڑپ کر کامل کا بازو پکڑ کر کہا۔۔۔۔
خضر نے غصے بھری نظروں سے کامل کی طرف دیکھا تھا جو اپنے لب بھینچے کھڑا تھا اُس نے ایک بھی نظر فلک کے چہرے پر نہیں ڈالی تھی۔۔۔
کامل بولے نہ ۔۔۔فلک نے کامل کو کچھ نہ بولتے دیکھ اپنے دونوں ہاتھ سے اُسکا چہرہ تھام کر آس بھرے لہجے میں کہا اور کامل خان کا دل تڑپ اٹھا تھا اپنی جان سے عزیز بیوی کی حالت دیکھتے۔۔۔
وہ تو چاہتا تھا کہ پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بتائے کہ ہاں سامنے کھڑی لڑکی اُس کی بیوی ہے اُسکی زندگی ہے اُسکی محبت ہے لیکن یہ فرض وہ اس فرض کی وجہ سے چپ تھا۔
آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے۔۔۔دیکھے میری طرف دیکھے تو آپ بابا بننے والے ہے۔۔۔کامل میری طرف دیکھے تو صحیح۔۔۔فلک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔اسکی بات پر سائرہ نے غصے بھری نظروں سے اُسکی طرف دیکھا تھا جبکہ کامل خان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا اُسکی حالت دیکھتے ۔۔۔
کامل تم بولتے کیوں نہیں کچھ پتہ نہیں یہ لڑکی کس کی ناجائز اولاد کو تمہارے اوپر تھوپ رہی ہے ۔۔۔بتاؤ اسکو تم میرے منگیتر ہو پرسوں شادی ہے ہماری ۔۔۔۔سائرہ نے کامل کا بازو پکڑ کر حقیر انداز میں فلک کو دیکھتے کہا ۔۔۔۔جو اُسکی بات پر سن سی ہوگئی تھی۔۔۔۔
وہ یک تک کامل کو دیکھے گئی ۔۔۔اُسے پورا یقین تھا ابھی کامل بولے گا ہاں یہ میری بیوی ہے اور یہ بچا میرا ہے ۔۔۔۔
سائرہ کی بات پر خضر نے اپنی آنکھیں بند کی ضبط سے۔۔۔۔۔۔
دیکھے میں آپکو نہیں جانتا آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی پلیز ہمیں پریشان نہیں کریں میری کوئی بیوی نہیں ہے میری شادی میری گرل فرینڈ سے ہونے والی ہے۔۔۔۔یہ لفظ یہ لفظ کامل خان کی زبان سے نکلتے فلک کا دل چیر گئے تھے۔۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے جو دل کامل کو سامنے پا کر تیز دھڑک رہا تھا وہ سن ہوا۔۔۔کامل کے بازو پر رکھا ہاتھ بیساختہ نیچے ڈھلکا تھا۔۔۔۔اور کامل خان سمجھ گیا تھا اُس نے کھو دیا ہے فلک کو ۔۔۔وہ اُس سے کوسوں دور چلی گئی ہے۔۔۔
اُس نے اپنی بيقین بھوری آنکھیں جن میں چمک نامدار تھی کامل کی کالی آنکھوں میں گاڑھی جہاں شناسائی کی کوئی رمک اُسے نظر نہیں آئی۔۔۔۔
لیکن یہ چہرہ اور یہ لمس یہ تو وہ ہر صورت میں پہچان جاتی تھی کامل کے وجود سے اٹھتی خوشبو وہ کیسے نہ پہچانتی۔۔۔۔
فلک نے کامل سے دور ہوتے اثبات میں سر ہلاتے اپنے آنسو بیدردی سے صاف کیے ۔۔۔
ٹھیک ہے معذرت آپ کو تنگ کیا ۔۔۔مجھے ہی غلط فہمی ہوئی۔۔ہوئی ہوگی۔۔۔اور یہ۔۔یہ بچہ یہ بچہ میرا بچہ ناجائز ہی ہے۔۔۔فلک نے بہت ضبط سے لڑکھڑاتی آواز میں یہ لفظ اپنی زبان سے ادا کئے تھے۔۔۔اور یہ الفاظ نہیں تھے یہ چابک تھے جو کامل خان کے دل کو لہو لہو کر گئے ۔۔۔۔۔
چلو خضر چلے۔۔۔۔فلک نے ایک بھی نظر کامل کو نہیں دیکھا تھا۔۔خضر کو بولتی وہ گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
آنکھوں میں اب کوئی آنسو نہیں تھا ۔۔۔بلکل صاف بے تاثر آنکھیں۔۔۔۔۔
خضر نے کامل کو ایسی نظروں سے دیکھا تھا جیسے ابھی کچا چبا جائے گا۔۔۔اور اپنے قدم بھی گاڑی کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔۔
چلو چلے پتہ نہیں کہاں سے آجاتے ہے ایسے لوگ۔۔۔سائرہ بولتی ہوئی واپس گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی۔۔۔
کامل نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔۔۔یہ سب اُسکی زندگی میں کیا ہورہا تھا۔۔۔۔
مجھے جلد از جلد اس منہوس عورت کا کام تمام کرنا ہوگا۔۔۔گاڑی میں بیٹھی سائرہ کو دیکھتے اُس نے سوچا ۔۔دماغ تو فلک کی طرف تھا جانے وہ کیسی ہوگی۔۔۔۔




فلک تم ٹھیک ہو۔۔۔خضر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فلک سے پوچھا جو نہ جانے اپنے ہاتھ کی لیکروں میں کیا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ہم۔۔۔ٹھیک ہو میں۔۔۔۔خضر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے جس کا ہم نے سوچا تک نہیں ہوتا۔۔۔۔
دیکھو اج میں اُس شخص کے بچے کو اپنی کوک میں لیے پھر رہی ہو جس نے مجھے اپنی بیوی ماننے سی ہی انکار کر دیا۔۔۔کتنا عجیب ہے نہ۔۔۔۔۔فلک نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
طلاق لے لیتے ہے۔۔۔خضر نے کہنا چاہا جب فلک کی درد بھری آنکھوں میں دیکھتے وہ چپ ہوا۔۔۔
جو شخص مجھے اپنی بیوی نہیں مانتا وہ مجھے طلاق دے گا۔۔۔نہیں ۔۔میں طلاق لے بھی نہیں سکتی ساری زندگی میں اُس کے نام پر گزار سکتی ہوں ۔۔۔چاہے وہ شخص مجھے پہچانے یہ نہ پہچانے ۔۔۔میں جانتی ہو میرا رب جانتا ہے وہ انسان میرا شوہر ہے میرے بچے کا باپ ہے میرا بچہ ۔۔ناجائز نہیں ہے۔۔۔۔فلک کی آواز بھر ائی ۔۔۔
بس مجھے ڈر لگتا ہے اپنی ماں کا۔ سامنا کیسے کرونگی ۔۔۔۔اُنہیں کیسے اپنی پاک دامنِی کا یقین دلائو گی ۔۔۔فلک نے خضر کے چہرے کی طرف دیکھتے ٹوٹے لہجے میں کہا۔۔۔
تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔کسی کی بھی نہیں تمہارا بھائی تمہارا دوست تم پر یقین رکھتا ہے میں ہوں تمہارے ساتھ اور میرے ہوتے ہوئے کوئی بھی تم انگلی نہیں اٹھا سکتا۔۔۔تم پاک ہو فلک ۔۔۔۔تمہیں کسی کو اپنی پاک دامنِی کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔خضر نے فلک کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئی اپنی گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
فلک کچھ بھی بولے بنا اپنا سر سیٹ کی پشت پر ٹکایا اور اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر اپنے فون پر دیکھا جہاں کامل کے لاتعداد میسج آئے ہوئے تھے۔۔۔فلک کی خیریت دریافت کرنے کے ۔۔۔خضر نے اپنے لب بھینچے۔۔۔فلحال وہ کامل سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا فلک کی حالت کو دیکھتے وہ ابھی پریشان تھا۔۔۔۔