میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 11

غزالہ صاحبہ اور زین اس وقت اکبر صاحب کے گھر میں موجود تھے۔ ۔۔زویا کے نکاح کی تاریخ مقرر ہونے کا سن کر سب نے ہی خوشی کا اظہار کیا ۔۔جب کہ زینب کے اچانک رشتہ طے ہونے کا سن کر فرحین صاحبہ اور ندا چند لمحوں کے لئے بالکل چپ رہ گئیں ۔۔۔فرحین کا ارادہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے منیب سے زینب کو بیاہنے کا تھا ۔۔جو زویا کا ہم عمر تھا چند ماہ بعد اس کا سی ۔ اے مکمل ہونے والا تھا ۔۔۔
فرحین اور اکبر صاحب کے چھ بچے تھے ۔۔بڑے بیٹے محسن کی پیدائش کےکئی سال بعد تک ان کے ہاں کوئی اور اولاد نہ ہوئی۔ ۔۔اکبر صاحب اور فرحین صاحبہ دونوں کو ہی اور بچوں کی خواھش تھی اس لئے ہر طرح کا علاج معالجہ اور دم دورود کروایا ۔۔بلآخر اللّه نے ان کی سن لی، اور خوب سنی ۔۔محسن سے چھ سال چھوٹا احسن پھر صبا ۔۔پھر اریب ۔ندا اور منیب ۔۔۔محسن اعلی تعلیم کے لئے کینیڈا گئے اور پھر وہیں کے ہو رہے ۔۔احسن اور صبا بھی شادی کے بعد وہیں مقیم تھے ۔۔
اکبر صاحب کے گھر تو ندا کچھ نہ بولی لیکن گھر آ نے کے بعد جب وہ اور غزالہ صاحبہ اکیلی بیٹھیں تو خود کو روک نہ سکی ۔۔۔
“پھپو !! امی کا ارادہ تھا منیب کے لئے زینب کو مانگنے کا ۔۔۔اور منیب کی بھی یہی خواہش ہے ۔۔ہم تو منیب کی پڑھائی ختم ہونے اس کے سیٹ ہونے کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔”
“خدا کے لئے ندا ۔۔چپ ہو جاؤ اب جو ہونا تھا ہو گیا ۔اپنے انکل کے سامنے اب یہ ذکر بھولے سے بھی نہ کرنا ” وہ ندا کا ہاتھ دباتے ہوے جلدی سے بولیں اور اس کی غیر موجودگی میں گھر میں ہوئی ساری بات بتانےلگیں ۔
انکی زبانی ساری بات سن کر ندا جو اپنے بھائی کی زینب کے لئے شدید پسندیدگی سے واقف تھی ۔ خاموش رہ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا بات ہے۔۔۔؟ جب سے آفس سے آیا ہوں دیکھ رہا ہوں آپ کچھ الجھی الجھی پریشان سی ہیں ۔۔”
فاروقی صاحب نے کتاب کا مطالعہ کرتے ہوے عینک کے پیچھے سے رابعہ صاحبہ کو دیکھتے استفسار کیا ۔
رابعہ صاحبہ نے لوشن کی بوتل بند کر کے رکھی اور بیڈ پر ان کے پاس آ کر بیٹھیں ۔۔۔
“آج امل آئ تھی” انہوں نے بات کا آغاز کیا تو فاروقی صاحب کتاب بند کر کے پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوے ۔۔امل کا آنا کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی ۔جانتے تھے بات یقینا کچھ خاص ہوگی ۔۔
“همم پھر ؟” آگے استفسار کیا
“وہ بتا رہی تھی سہیل بھائی غازیان کی شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔اس لئے انہوں نے غازیان سے پوچھا کہ اگر وہ کہیں کممیٹڈ ہے تو بتا دے ۔۔لیکن اس کے صاف لفظوں میں بتانے پر کہ وہ کسی کے ساتھ کممیٹڈ نہیں ہے انہوں نے اس کا رشتہ اپنی بھتیجی کے ساتھ طے کردیا ۔۔اور غالبأ چند روز میں انگجمنٹ بھی ہے ۔”
” یہ تو خوشی کی بات ہے ۔۔؟ آپ کیوں پریشان ہیں ۔۔؟ “رابعہ صاحبہ خاموش ہوئیں تو فاروقی صاحب نے پوچھا ۔۔۔تب وہ مزید گویا ہوئیں ۔۔
“بات یہ ہے کہ ہماری منال غازیان کو اس حوالے سے۔۔۔”
انہوں نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی ۔۔۔
“هممم !!! سچ پوچھو تو مجھے بھی اس حوالے سے غازیان بہت پسند تھا ۔۔میں چاہتا تھا منال کی شادی غازیان سے ہو ۔۔لیکن خیر ۔ اگر غازیان ایسا نہیں چاہتا تو کوئی بات نہیں۔ ۔ہماری منال کے لئے رشتوں کی کمی نہیں ۔۔” فاروقی صاحب نے کہا
“لیکن میں منال کے رد عمل سے خوفزدہ ہوں “رابعہ صاحبہ نے ا پنا خدشہ بیان کیا ۔
“ابھی منال کو اس بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔میں اسے کچھ دن کے لئے دبئی برانچ سنبھا لنے کے لیے دبئی بھیج دیتا ہوں ۔۔ابھی اس کا یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے ۔۔”
“دیکھ لیں ” اچا نک پتا چلے گا تو اسے زیادہ شاک نہ لگے ۔۔رابعہ صاحبہ پریشانی سے بولیں ۔۔
“کچھ نہیں ہوتا ۔۔منال سمجھدار بچی ہے ۔۔۔بات سمجھ جاےگی ۔اس معاملے کے ٹھنڈا ہوتے ہی میں جلد ہی اس کی شادی کردوں گا ۔” فاروقی صاحب کے اطمینان دلانے پر رابعہ صاحبہ بھی مطمئن ہوتی سر ہلا گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں ۔۔غزالہ صاحبہ ندا اور زویا کے خوب بازاروں کے چکر لگ رہے تھے ۔۔زینب بس ایک دفعہ ہی زویا کی مہندی میں پہننے کے لئے اپنا ڈریس ۔ سینڈل وغیرہ لینے گئی تھی ۔
اس کے بی بی اے کے چھٹے سیمسٹر کے امتحانات نزدیک تھے تو آجکل پڑھائی کا خوب زور تھا۔ دھڑا دھڑ اساینمنٹ بن رہے تھے ۔۔پریزینٹیشنز دی جارہی تھیں ۔
دوسری طرف منیب بھی اپنی پڑھائی میں بے حد مصروف تھا ۔سارا دن یونیورسٹی پھر رات رات بھر دوستوں کے ساتھ گروپ اسٹڈی ۔۔ایسے میں اس کی توجہ گھر پر کم ہی تھی ۔نا ہی اس نے غزالہ صاحبہ کی طرف بہت دن سے چکر لگایا تھا ۔۔ندا نے شکر ہی کیا ۔۔۔فرحین صاحبہ اور ندا کا ارادہ زینب کی منگنی کے بعد منیب کو آ گاہ کرنے کا تھا ۔۔
آج گھر میں خوب گہما گہمی تھی ۔۔۔آج روبینہ صاحبہ اپنے شوہر اور اکلوتے بیٹے راحم کے ساتھ لندن سے تشریف لا رہیں تھیں۔۔راحم ان کی شادی کے دس سال بعد بہت منّت و مرا دوں سے ہوا تھا۔ رمشا کل رات کو ہی بچوں اور شوہر وقاص کے ساتھ پنہچی تھی ۔۔جب کہ ازلان اپنی فیملی اور عائشہ صاحبہ و ابراھیم صاحب کے ساتھ دو دن پہلے آ چکا تھا ۔۔۔عائشہ صاحبہ اور راحیل صاحب کے درمیان بھی خوب جذباتی سین چلاتھا ۔۔ خیر اب سب بے حد خوش تھے ۔۔۔سب کو ہی خوبصورت اور پر وقار سی زینب خوب بھائی تھی ۔غازیان گھر بھر کی آنکھوں کا تارہ تھا تو سب کو ہی اس کے حوالے سے زینب خوب عزیز ہو گئی تھی ۔۔۔عرصے بعد سارا خاندان ایک ساتھ جمع ہوا تھا ۔۔راحیل صاحب اور سہیل صاحب کا سب کو اکھٹا دیکھ کر ڈھیروں خون بڑھ رہا تھا ۔۔ انہیں شدّت سے اپنے فیصلے کی درستگی کا احساس ہو رہا تھا ۔ان کا ایک فیصلہ سالوں سے بکھرے خاندان کو اکھٹا کر گیا تھا ۔
جہاں سب بیحد خوش تھے وہیں سہیل صاحب کا فشار خون اپنے آخری سپوت کی حرکتوں کی وجہ سے بلند ترین سطح پر پھنچا ہوا تھا۔ جو گھر سے تاحال غائب تھا ۔۔
غازیان ایک میٹنگ اٹینڈ کر کے ابھی اپنے آفس پہنچا ہی تھا کہ اس کا فون رنگ ہوا ۔۔کوٹ کی جیب سے فون نکال کر دیکھا تو ڈیڈ کالنگ لکھا آ رہا تھا ۔۔۔اس نے کال اوکے کرکے فون کان سے لگایا ۔۔۔دو تین بار “ہیلو ۔۔ہیلو ڈیڈ ۔۔” کرنے کے بعد بھی کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا وہ ابھی فون بند ہی کرنے والا تھا کہ سہیل صاحب کی آواز سنائی دی ۔۔
“چلو خدا کا شکر ہے یہ تو پتا چل گیا کہ تمہاری یاد داشت صحیح سلامت ہے ۔۔ تمہیں یاد ہے کہ تمہارا باپ ابھی زندہ ہے ۔”
غازیان کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔یہ طنزیہ لب و لہجہ سہیل صاحب کے غصے میں ہونے کا پتا دیتا تھا ۔ وہ کبھی بھی غصے میں چیخ و پکار نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ ایسے ایسے طنز کرتے کہ سعدیہ صاحبہ اور وہ تینوں بھائی مسکراہٹ دبا کر رہ جاتے ۔
“لیکن بیٹے افسوس ہے ۔۔ آپ یہ بھول چکے کہ اس دنیا میں آپ کا ایک گھر بھی ہے ۔۔۔”
ان کی طنزیہ آپ جناب پر غازیان کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔جسے سن کر وہ خوب ہی بھڑکے ۔۔”کوئی غیرت شرم بچی ہے تمھارے پاس یا اسے بھی بیچ کر اپنے بزنس میں انویسٹ کر چکے تم ؟” ایک مرتبہ پھر طنز کیا گیا ۔۔۔
اس مرتبہ غازیان نے خاموشی توڑی ۔
“کیا ہوگیا ڈیڈ ؟ آج اتنی گولہ باری کیوں کر رہے ہیں ؟”مسکراتے لہجے میں پوچھا ۔
“شکر مناؤ اس وقت میرے سامنے نہیں ہو ۔۔اگر سامنے ہوتے تو دو جوتے لگا تا تمہیں ۔” وہ گرجے
“ہوا کیا ہے ؟ ” اس بار سنجیدہ ہوتے پوچھا ۔۔۔
“سبحان اللّه !! آپ کی معصومیت پر میں قربان جاؤں ۔۔۔
گھر سے گئے تین ہفتے ہوگئے ۔۔ایک ہفتے بعد تمہاری منگنی ہے ۔۔۔یہاں دوسرے ملک سے لوگ پھنچ گئے اور جناب کا کچھ اتا پتا نہیں اور اس پر میرے بچے کی سادگی ۔۔واہ بھئی واہ ۔۔۔انہوں نے سردھنا ۔
غازیان بھرپور مسکرایا ۔۔۔” اب اگر لوگ اتنے فارغ ہیں کہ دوسروں کی منگنیوں میں شرکت کرنے کے لئے مہینہ مہینہ بھر پہلے پنچ گئے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں اس بارے میں ۔۔” ۔اس نے لاپرواہی سے کہتے انھیں مزید سلگایا ۔۔
“بکو مت !!گھر سے کیوں غائب ہو یہ بتاؤ ۔۔؟پچھلے ہفتے جب تم دبئی میں تھے تب تو تمہارا پروگرام دبئی سے سیدھا کراچی آ نے کا تھا پھر واپس اسلام آباد جانے کی وجہ ۔۔”۔اسے جھاڑ پلاتے در يافت کیا ۔۔
وہ بھی سیدھا ہو کر بیٹھتے بولا ۔۔۔”ڈیڈ یہاں ورکرز کے کچھ سیریس اشوز چل رہے ہیں۔۔ انہیں رزولو کرنے میں لگا ہوں ۔۔اس کے علاوہ ایک کنسائمنٹ بھیجنا ہے ترکی ۔۔۔ بس اسی سب میں پھنسا ہوں آج کل ۔۔”
“بہرحال جو بھی ہے کل ہر حال میں گھر پہنچو ۔ہفتے بعد منگنی ہے تمہاری ۔۔کچھ اس کے لیے تیاری کرو ۔۔۔” سہیل صاحب نے حکم دیا ۔
“نو ڈیڈ !!کل تو ام پوسیبل ہے ۔۔تین دن میں کنساینمنٹ چلا جائے گا پھر اس کے بعد ہی آ پاؤں گا ۔۔اور انگجمنٹ ایسا کوئی بڑا فنکشن نہیں ہے جس کے لئے میں ہفتہ بھر پہلے کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جاؤں ۔۔۔جسٹ ایک رنگ ہی پہنانی ہے نا ۔۔آ کر پہنا دونگا آپ کی بھتیجی کو ۔۔”لاپرواہی سے کہا تو سہیل صاحب غصہ ضبط کرتے بولے ۔
“میں نے غلطی کی ۔۔مجھے تمہاری شادی کرانی چاہیے تھی تاکہ تمہیں اپنی ذمےداری کا احساس ہوتا ۔۔۔سا ری زندگی میں نے بھی بزنس کیا ہے۔ ۔تمھارے بھائی بھی کر رہے ہیں ۔ تمہاری طرح بزنس کے پیچھےباؤلا کوئی نہیں ہوا پھر رہا ۔ ۔ہر چیزمیں توازن اچھا لگتا ہے ۔خیر ۔۔کان کھول کر سن لو تین دن بعد تم ہر حال میں گھر پر ہو۔۔۔” انہوں نے کہتے ساتھ ہی کھٹ سے فون کاٹ دیا ۔۔
غازیان ایک نظر فون کو گھور کر رہ گیا ۔۔۔پھر سر جھٹک کر سامنے رکھی فائل کھول لی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے راحم اور اس کے والدین آے تھے ۔زینب نے زویا کو چھیڑ چھیڑ کر برا حال کر رکھا تھا ۔۔کیوں کہ راحم کی متلاشی نگاہیں مسلسل زویا کو تلا ش کر رہی تھیں جو بس ذرا سی دیر کو سلام کرنے آئ تھی اس کے بعدناجانے کس کونے میں چھپ گئی تھی ۔ اور راحم بس اس دشمن جان کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا تھا ۔۔اب زینب بار بار آ تے جاتے زویا کو راحم کی بیقراری کی داستان سنا کر سرخ ہونے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔اب جب کہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ لوگ روبینہ صاحبہ کی نند کےگھر جارہے تھے جہاں ان کا قیام تھا تب بھی زینب کی چھیڑ چھاڑ جاری تھی ۔۔یہ سلسلہ تب رکا ۔جب بڑے ابّا کے ساتھ ازلان ،رباب ان کے بچے،عائشہ اور ابراھیم صاحب آ پہنچے ۔۔اب شرم سے دوہرے ہونے کی باری زینب کی تھی ۔۔۔امل جتنی ریزرو طبیعت کی مالک تھی رباب اتنی ہی شوخ و چنچل ۔بہت جلد گھلنے ملنے والی اور قدرے بے باک تھی ۔۔ایسی ایسی باتیں کرتی کہ زینب کے کانو ں سے دھواں نکلنے لگتا ۔۔اوپر سے اس کے دونوں بچوں کے سوال ۔۔۔چار سالہ پریشے تو زینب کو پکڑ کر بیٹھ جاتی کیوں کہ اتفاق سے اس کی فیورٹ گڑیا کی بھی آنکھیں سبز ۔بال کالے اور رنگت گلابی تھی ۔تو بس اس نے پہلی دفعہ زینب کو دیکھتے ہی اپنے معصوم انگریزی لب و لہجے میں کہا ۔۔
“شی از مائی ڈول “
“نو پری !!شی از غازیان چاچوز ڈول ۔۔”رباب نے معنی خیز نظروں سے زینب کو دیکھتےکہا تو زینب سے پلکیں اٹھانا مشکل ہوگئیں ۔۔
” بٹ ہی از آ بواۓ اینڈ بوآیز ڈونٹ پلے ودھ ڈولز (لیکن وہ لڑکے ہیں اور لڑکے گڑیا سے نہیں کھیلتے ) اس کی جر ح جاری تھی ۔۔
“یس یو آر رایٹ پری۔۔”شی از نوٹ ہز ڈول۔۔شی از ہز برائیڈ ۔ (ہاں پری ۔۔ تم صحیح کہہ رہی ہو ۔۔یہ غازیان کی گڑیا نہیں بلکہ اس کی دلہن ہے ۔) ندا جو ابھی سب کو چاۓ دے کر ان کے پاس لاؤنج میں آ کر بیٹھی تھی ۔ پریشے کو پیار کرتےایک نظر زینب کے شرم سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوے بولی۔
بس اس کے بعد سارا وقت دونو ں بچے اسے سب کے سامنے غازیان چاچوز برائیڈ (غازیان چاچو کی دلہن )کہتے رہے ۔۔زینب کا شرم سے برا حال تھا کیوں کہ وہ سب مردوں کے سامنے بھی غازیان چاچو کی دلہن کی گردان کیے جا رہے تھے ۔۔۔۔
آج بھی رباب ۔ ندا اور زویا کے ساتھ مل کر اسے خوب تنگ کر رہی تھی ۔زویا کو خوب بدلے نکالنےکا موقع ملا تھا ۔۔صبح سے زینب اسے تنگ کر رہی تھی تو اب اس کی باری تھی ۔۔رمشا مسکرا تے ہوے ان کی چھیڑ چھاڑسے محظوظ ہو رہی تھیں ۔وہ سب لڑکیاں لاؤنج میں بیٹھی تھیں ۔جب کہ سب بڑوں کی محفل ڈرائنگ روم میں جمی تھی۔۔ جب پریشے نے پوچھا
“ممی !!!یہ دلہن کیا ہوتی ہے ۔۔؟
“دلہن مینز ۔۔وائف “۔۔رباب نے اس کی پونی ٹائٹ کرتے بتایا ۔۔”وائف کیاہوتی ہے ۔؟” پریشے کا ایک اور سوال تیار تھا ۔۔
“وائف مینز دلہن ۔۔”۔زویا نے مسخرے پن سے پری کےگلابی پھولے پھولے گال کھینچتے ہوے کہا
“پھپو۔ ممی ۔۔!! بتایئں نا ۔۔وائف کون ہوتی ہے ۔۔؟” وہ بضد ہوئی ۔
“بیٹا !!وائف وہ ہوتی ہیں جو ڈیڈی کے ساتھ رہتی ہیں ۔ جیسے آ پکی ممی آپ کے ڈیڈی کی وائف ہیں ۔۔” رمشا جو زویا کی قمیض کی ترپآئ کر رہی تھیں ۔۔۔سنجیدگی سے بچی کی الجھن دور کرنے کی خاطر بولیں ۔۔لیکن یہاں فورأ ہی ایک نیا سوال اٹھایا گیا ۔
“اگریہ ڈول غازیان چاچو کی وائف ہیں تو یہ ان کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں ۔۔؟ جب کہ وائف تو اپنے ہز بینڈ کے ساتھ رہتی ہیں ۔۔۔” اس مرتبہ چھ سالہ نوفل نے سمجھداری سے سوال کیا ۔۔۔زینب جو کب سے اٹھنے کے لئے پرتول رہی تھی ۔اب اور برداشت نہ کر سکی اور ایک دم کھڑی ہوگئی ۔۔۔لیکن رباب نے ہاتھ پکڑ کر بیٹھا لیا ۔
“اے لڑکی خبردار !! جو یہاں سے ہلیں بھی ۔۔میں بڑی جیٹھانی ہوں اور یہ میرا حکم ہے ۔۔۔بیٹھی رہو ۔” اس نے آنکھیں نکا لتے لہجے میں مصنوعی سختی اور اکڑ پیدا کرتے ہوے کہا تو سب ہی ہنس پڑيں ۔۔۔
“بتایئں نا ممی ۔۔؟” نوفل نے ماں کا کندھا ہلا کر متوجہ کیا ۔
“بچو !! یہ ڈول ایک سال کے بعد آپ کے غازیان چاچو کی وائف بنیں گی تب ہی یہ ان کے ساتھ رہیں گی ۔۔”رباب نے بتایا تو نوفل سمجھ کر سر ہلا گیا ۔۔جب کہ پریشے نے پوچھا ۔
” جب یہ ڈول غازیان چاچو کی وائف بن جائیں گی ۔۔جیسے آپ ڈیڈی کی وائف ہیں ۔تو پھر یہ ہر وقت غازیان چاچو کے ساتھ رہیں گی ان کے روم میں ۔۔جیسے آپ ہر وقت ڈیڈی کے ساتھ رہتی ہیں ۔۔؟
” یس !!بالکل اسی طرح ۔۔۔” رباب نے تسلی کرائی ۔۔۔
زینب کی پلکیں اٹھنے سے انکاری تھیں ۔۔مصیبت یہ کہ وہ اٹھ بھی نہیں سکتی تھی۔ رباب اس کا ہاتھ جکڑے بیٹھی تھی ۔۔زویا ۔ندا اس کی حالت سے خوب محظوظ ہورہی تھیں ۔۔
“ممی !!پھر یہ ڈول رات کو بھی غازیان چاچو کے ساتھ ہی سویئں گی ۔۔؟ جیسے آپ ڈیڈی کے ساتھ سوتی ہیں ۔” نوفل نے ایک اور سوال داغا۔۔۔زینب زمین میں گڑ نے والی ہوگئی ٹانگوں میں اتنی جان نہ رہی کہ اٹھ کر بھاگ ہی جاتی ۔۔اس پر ان سب کی دبی دبی ہنسی ۔
اس دفعہ رباب بھی جھینپ گئی اور جان چھڑانے والے انداز میں بولی ۔۔”ہاں ہاں سویئں گی بھی ۔۔”
“اور چاچو ڈول کو” ہگی” بھی کریں گے اور یہاں اور یہاں “کسی” بھی کریں گے ۔۔؟جیسے ڈیڈی آپ کو کرتے ہیں ۔۔۔
پریشے نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ اپنے ماتھے اور گال پر ہاتھ رکھ کر معصومیت سے پوچھا تو جہاں رباب بری طرح سٹپٹا گئی وہیں زویا ، رمشا اور ندا کے چھت پھاڑ قہقہے بلند ہوۓ ۔۔اور زینب ۔۔۔زینب کا تو بس نہ چلتا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔۔وہ زبردستی رباب سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بمشکل اپنے آپ کو گھسیٹتی ہوئ کمرے میں بھاگ آئ ۔۔۔ہاتھ پیروں میں سنسنی سی دوڑ رہی تھی ۔۔۔تھوڑی دیر بعدسرپٹ دوڑتی دل کی دھڑکنوں پر قابو پا کر اس نے نظر اٹھا کر ڈریسنگ مرر میں نظر آتے خود کے عکس کو دیکھا تو چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔
جب اس نے راحیل صاحب کو ہاں کی تھی تو دل میں اس شخص کے لئے کوئی جذبہ موجود نہیں تھا لیکن اب آہستہ آہستہ وہ شخص دل و دماغ پر قابض ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔دل میں اس کے لیے جذبات سر اٹھا رہے تھے ۔۔۔اچانک نگاہوں کے سامنے اس کا چھا جانے والا سراپا لہرایا تو وہ جلدی سے آئینے کے آگے سے ہٹ گئی ۔۔چہرے سے یوں بھاپ نکلنے لگی گویا وہ سامنے بیٹھا اسے دیکھ رہا ہو ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial