قسط 15
” آج تو اتنی حسین لگ رہی ہو جانم ۔۔میری جان لینے کا ارادہ ہے کیا ۔۔؟
رسم کے بعد سب اپنی باتوں میں مشغول تھے جب راحم نے زویا کی طرف ہلکا سا جھکتے ہوے کہا ۔۔زویا شرما کر سر جھکا گئی ۔۔
” میں سوچ رہا ہوں کل رخصتی بھی کروا ہی لوں ۔۔”ایک مرتبہ پھر شرارت سے بولا تو اس نے بے اختیار نظريں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔حیرت سے آنکھیں پھیلا ے وہ اتنی پیاری لگی کہ وہ ایک بار پھر شرارت کرنے سے خود کو روک نہ پایا ” آئ تھنک تم بھی یہی چاہتی ہو ۔۔؟ پھر ۔۔بات کروں ماما سے ؟ ہلکے سے اسکے بازو سے اپنا بازو ٹکرا کر معنی خیزی سے بولا
” جی نہیں میں ایسا کچھ نہیں چاہتی ۔۔” شرم سے بے حال ہوتے بہت ہلکی آواز میں منمنائی ۔
” لیکن میں تو یہی چاہتا ہوں ۔۔مجھے اب تمہاری دوری گوارہ نہیں ” ذرا سا اس کی طرف جھکتے سرگوشی کی۔
” راحم ” . وہ حیرت سے پکار گئی ۔۔راحم کی بے تابیاں اور وارفتگیاں اس کے ہاتھ پیر پھلا ے دے رہی تھیں۔ ۔دو تین سال سے رشتہ طے ہونے کے باوجود اسنے کبھی ایسی بے قراری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا ۔۔دونوں کے درمیان کبھی کبھار کسی خاص موقعے عید یا دونوں کی سالگرہ وغیرہ پر ہلکی پھلکی نارمل سی بات چیت ہوجاتی تھی ۔۔ باوجود ایک دوسرے کے جذبات سے آگاہ ہونے کے کبھی اس طرح کی رومانوی گفتگو ان کے مابین نا ہوئی تھی ۔۔لیکن آ ج راحم کی بے باک گفتگو اور اس کی نگاہوں کے پیغام سہنا زویا کے لئے ہرگز آسان نہ تھا ۔۔
” جی جان راحم ” جان لٹاتے لہجےمیں بولا تو زویا نے شرم سے لرزتے آنکھیں جھکا لیں ۔۔چہرے پر گلال بکھر گیا ۔۔ذرا سی نظر اٹھا کر سامنے کھڑی زینب کو سر کے اشارے سے پاس بلایا ۔۔
” زینی !! مجھے نیچے لے چلو ۔۔میں تھک گئی ۔” زینب کے پاس آ نے پر اس سے کہا۔۔ زینب فورا ہی ندا کو مدد کے لئے بلاتی زویا کو اٹھانے لگی ۔۔راحم اس کی شرارت سمجھ کر ارے ارے ہی کرتا رہ گیا ۔۔وہ شرارت سے مسکراتے زینب کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی جب راحم کی سرگوشی کان میں رس گھول گئی ۔
” رات میں کال کرونگا ۔۔فون اٹھا لینا ” وہ لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ لئے بغیر کچھ کہےندا اور زینب کے ساتھ چلی گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” زویا کتنی بری ہو تم ۔۔کیسے ایکدم انھیں اکیلا چھوڑ کر آ گئیں ۔۔ندا نے ہسنتے ہوے کہا ۔۔۔
“بیچارے راحم بھائی کی شکل دیکھنے والی ہو گئی تھی ۔۔” زینب بھی بولی ۔۔ زویا کو نیچے لائیں تو بجاےکمرے میں جانے کے وہیں اوپر والے فلور کے لاونج میں صوفوں پر ٹک گئیں ۔رمشا اور سیمی بھابی جو مٹھائی ۔پھول ۔ مہندی۔ ابٹن اوپر سے سمیٹ کر نیچے رکھنے گئی ہوئی تھیں انھیں لاونج میں براجمان دیکھ کر وہیں چلی آئیں ۔۔ اور اب راحم کی بے تا بییوں کا احوال سن کر سب ہی ہنس رہی تھیں ۔۔” ہے بھی تو اتنی پیاری ۔۔اور آج تو اسمان سے اتری حور لگ رہی ہے ۔۔ بیچارہ راحم بھی کیا کرے ۔۔” رمشا نے پیار سے اس کی تھوڑی چھو تے کہا تو زویا بلش کر گئی ۔۔
” دونوں ہی حسین ترین لگ رہی ہیں آج تو ۔۔” سیمی بھابی بھی بولیں۔
” غازیان بھائی نے بھی زینب کو مسلسل نظروں کے حصار میں رکھا ہوا تھا ۔۔” ندا نے بھی شرارت سے ہنستے اپنا حصّہ ڈالا
” ہاں ۔۔ندا صحیح کہہ رہی ہو ۔۔میں نے جب جب غازیان کو دیکھا ۔۔اس کی نظریں زینی پر ہی تھیں ۔۔” سیمی بھابی قہقہہ لگاتے بولیں ۔۔زینب خود کو موضوع گفتگو بنتا دیکھ شرما کر نظریں جھکا گئی ۔۔جب کہ سیمی بھابی رمشا سے مخاطب ہوئیں
” رمشا !! یہ تم لوگوں نے خاندان میں بتایا نہیں کہ کل زینب کا بھی نکاح ہے ۔۔”
” بھابی ۔۔تقریبا سب کو ہی پتا ہے ۔۔کیوں کیا ہوا ۔۔؟ ” رمشا نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔
” وہ اپنے امتیاز ماما کی بہو اپنے بھائی کے لئے زینب کا پوچھ رہی تھیں ۔۔۔خیر میں نے انھیں بتا دیا تھا ۔۔بلکہ غازیان کو دکھا بھی دیا تھا ۔۔” سیمی بھابی نے غزاله صاحبہ کے کزن کی بہو کا حوالہ دیتے ہوۓ تفصیل بتائی ۔۔لاؤنج کے باهر کھڑے غازیان نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچیں ۔۔وہ جو اس لڑکے کی طبیعت صاف کر کے واپس اوپر جا رہا تھا ۔۔سیڑھیوں کے پاس پہنچا تھا جب اس کے کانوں میں اپنا نام پڑا ۔۔وہ نا دانستگی میں وہیں ٹھہر کر ان کی گفتگو کے چند جملے سننے لگا ” اچھا کیا آپ نے ۔۔اصل میں زینب کا نکاح ابھی کچھ دن پہلے ہی طے ہوا ہے نا ۔۔تو شاید امی انھیں بتانا بھول گئیں ہوں گی ۔۔” رمشا نے پہلے سیمی بھابی سے کہا پھر زینب کو چھیڑ ا۔۔”اور لگو اتنی پیاری ۔۔سب ہی فریفتہ ہو رہے ہیں ۔۔”
” غازیان بھائی جس طرح اسے دیکھ رہے تھے مجھے تو لگتا ہے کل ہی رخصتی کروا لیں گے ۔۔” ندا نے شرارت سے کہا تو سب ہنس پڑیں ۔۔زینب کے لیے یہ سب سے حساس موضوع تھا جب ہی فورا شروع ہو گئی ۔۔
” جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔بابا اور بڑ ے ابا نے وعدہ کیا ہے مجھ سے ۔۔دو تین سال تک رخصتی نہیں ہوگی ۔۔”
” غازیان بھائی نے تو وعدہ نہیں کیا نا ” اپنی کلائی میں بندھے گجرے کو چھیڑ تی زویا ہلکے سے بولی تو ندا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر چھوٹا سا قہقہہ لگایا
” میرا بی بی اے ۔۔پھر ایم بی اے ۔۔میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی ” روہانسی آواز میں بولی تو سیمی بھابی نے فورا اسے گلے لگایا
” خبردار اسے تنگ کیا تو ۔۔جیسا میری گڑیا چاہے گی ویسا ہی ہوگا ۔۔” رمشا نے ان دونوں کو گھرکا ۔
غازیان لب بھینچتا تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا ۔۔وہ سب اپنے دھیان میں بیٹھی تھیں کسی نے بھی اسے گزرتے نہیں دیکھا ۔۔
” چلو اب اوپر ۔۔کھانا شروع ہو گیا ہوگا ۔۔” رمشا نے جلدی مچائی ۔
” زینب تم زویا کو کمرے میں لے جاؤ ۔۔میں تم دونوں کا کھانا بھجواتی ہوں ۔” ندا زینب سے کہتی ان دونوں کے ساتھ باہر نکل گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازیان آف موڈ کے ساتھ اوپر پہنچا ازلان زین اور ایک دو لڑکوں کے ساتھ کھانے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ۔۔ ” کیا ہوا کس کا فون تھا ؟ ڈیڈ بتا رہے تھے تم کال سننے گئے ہو ۔۔” ازلان اسے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔
” اسلام آباد سے منیجر کی کال تھی ۔بس وہی سیچوشن ہے ۔۔” مختصر کہا ۔۔جب کہ زین نے کھانا نکالنے کے لئے اس کی جانب پلیٹ بڑھائی ۔۔جسے وہ شکریہ کہہ کر تھام گیا ۔۔کچھ فاصلے پر شایان اور امل بھی ہاتھوں میں کھانے کی پلیٹس پکڑے آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے ۔۔
وہ اپنی پلیٹ میں تھوڑی سی بریانی نکال کر پلٹا تو پھپو نے اشارے سے اپنی طرف بلایا ۔۔وہ رباب اور دو اور خواتین کے ساتھ کھڑی تھیں ۔۔غازیان نے پاس جا کر سلام کیا جس کا ان خواتین نے خوش دلی سے جواب دیا ۔
” شاہین آپا !! یہ ہے میرا بھتیجا غازیان ۔۔اسی کا زینب کے ساتھ نکاح ہے کل ۔۔” اس کے پاس جانے پر محبت سے اس کے چوڑے شانوں پر بازو پھیلاتے تعارف کروایا
” ماشاءالله ۔۔ چاند سورج کی جوڑی ہے ۔۔اللّه سلامت رکھے ۔۔” وہ خواتین مرعوب ہوتی نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولیں ۔۔
” کیا کرتے ہو بیٹا ۔۔؟ اب وہ آنٹی باقاعدہ اس کا انٹر ویو لینے کے موڈ میں تھیں ۔
” بزنس کرتا ہوں . ” اس نے ہلکے سے ہونٹ پھیلا کر کہا
” ماشاءالله ” کہہ کر وہ خاتون اب پھپو سے کوئی بات کرنے لگیں تو وہ ایکسکیوز کرتا سائیڈ پر ہوگیا ۔۔رباب بھی اس کے پاس چلی آئ
” یہ کون تھیں ؟” اس نے رباب سے پوچھا
“ماما لوگوں کی کوئی پرانی محلے دار تھیں ۔۔نانا نانی کے زمانے کی کافی دیر سے ماما سے باتیں کر رہی تھیں ۔۔زینب میں انٹر سٹڈ لگ رہی تھیں تو ماما نے فورا تم لوگوں کے نکاح کا بتادیا ۔۔” رباب نے تفصیل سے بتایا تو اس کا پہلے سے گھوما ہوا دماغ کچھ اور گھوم گیا ۔۔
” پوری دنیا میں ایک وہی خوبصورت لڑکی رہ گئی جو سارے اسی کے لیے پاگل ہو رہے ہیں ۔۔” منہ بنا کرخود کلامی کی ۔
” کیا ۔۔کہہ رہے ہو ؟ ” رباب نے پوچھا
” کچھ نہیں ۔۔۔کب تک چلے گا یہ سب ؟” پلیٹ ساتھ پڑی ٹیبل پر رکھتے ہوے بیزار لہجے میں رباب سے پوچھا ۔
” کیوں۔۔ کیا ہوا ؟” اس کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کراس نے پوچھا
” کچھ نہیں ۔۔” بیزاری سے کہا تو وہ کندھے اچکاتی ازلان کی طرف چل دی ۔۔غازیان نے اطراف میں نظریں گھمائیں ۔۔زینب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔سب کھانے کے ساتھ انصاف کرتے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔وہ دل میں اس دشمن جان کو دیکھنے کی خواھش لئے آہستہ سے نیچے کی جانب بڑھ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید اس کی لگن سچی تھی ۔۔ وہ ایک زینہ اتر کر نیچے آیا جب ہی وہ سہج سہج چلتی ، ایک ہاتھ سے غرارہ سنبھالے سیڑھیاں اتر کر دائیں جانب مڑتی دکھائی دی ۔۔سب مہمان اوپر تھے ۔۔سیڑھیوں پر کچھ بچے آ جا رہے تھے ۔۔۔۔غازیان تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا اس کے پیچھے لپکا ۔۔
زینب جگ میں پانی لینے کچن میں آئ تھی ۔۔کچن کے سلیب پر ابٹن مہندی کے باؤل ۔ مٹھائی کے ٹوکرے ۔ پھولوں کی پتیاں اور نا جانے کیا کیا پڑا تھا ۔۔اس نے جلدی سے جگہ بنا کر سلیب پر جگ رکھا اور فریج سے پانی کی بوتل نکال کرجگ میں انڈیلی۔۔ تب ہی کچھ احساس ہونے پر گردن موڑ کر اپنے بائیں جانب کچن کے دروازے کی طرف دیکھا ۔ جہاں اپنی سحر انگیز شخصیت کے ساتھ وہ پوری شان سے دروازے کے فریم میں ایستادہ تھا ۔
” آ ۔۔آ پ ۔۔” زینب کی آنکھیں اسے وہاں دیکھ کر حیرت سے پھیلیں۔۔
لبوں سے ہلکی سی آواز نکلی
” هممم۔ ۔۔میں ۔۔” غازیان نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے کہا اور ایک ایک قدم اٹھاتا اس کے قریب چلا آیا ۔۔جو گلابی چہرے کے ساتھ بے حد کنفیوز نظر آ رہی تھی ۔۔کبھی شانوں پر پڑا دوپٹہ ٹھیک کرتی تو کبھی نچلا لب دانتوں میں دبا رہی تھی ۔۔چند پل ایسے ہی خاموشی سے گزر گئے جب زینب نے ہمت کرتے دھیرے سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو بالکل خاموش کھڑا تھا جب کہ خود پر جمی اس کی سلگتی نگاہوں کا احساس کر کے اسے اپنا آپ پگھلتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔
” آ پ۔ ۔آ پ کو کچھ چاہیے ۔۔؟” انگلیاں مروڑتے بمشکل پوچھا ۔۔اس کی یہاں آمد کا مقصد اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔کسی کے کچن میں آ جانے کا دھڑکا الگ لگا ہوا تھا ۔۔
” ڈونٹ ووری ۔۔مجھے جو چاہیے وہ میں اپنے لئے خود ارینج کرلوں گا ۔۔” غازیان نے ایک بھرپور نگاہ اس بہاروں کے موسم میں کھلتے گلابوں سی لڑکی کے دلکش مہکتے سراپے پر ڈالی اور اپنے ماتھے پر بکھرے سیاہ چمکدار بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا دل میں اٹھتی ڈھیروں خواہشوں پر پہرے بٹھاتے گھمبیر دلکش آواز میں بولا ۔
اسکی عجیب سی بات پر زینب نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔غازیان نے بمشکل اس کے خوبصورت چہرے سے نظر ہٹاتے نگاہوں کا زاویہ بدلا تو سامنے رکھے مہندی اور ابٹن کے باؤل دکھائی دیے ۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔ہاتھ بڑھا کر اس کی نازک سی مرمریں گلابی کلائی تھامی اور اپنی انگلی سے ذرا سی مہندی اٹھا کر اس کی ہتھیلی کے بیچ و بیچ لگا دی ۔۔زینب منہ کھولے ہونق سی اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی ۔جلدی سے اپنی کلائی کھینچ گئی ۔۔جب کہ غازیان نے اب ابٹن کے باؤل میں انگلی ڈالی اور اسی طرح ذرا سا ابٹن نکال کر اس کے نرم گلابی گال پر لگا دیا ۔۔وہ بدک کر پیچھے ہٹی ۔۔
” یہ ۔۔یہ کیا ۔۔کر رہے ہیں آپ ۔۔؟” سرخ ہوتے لرزتی آواز میں بہت مشکل سے پوچھا ۔۔اسکی حرکت سے ہاتھوں پیروں میں کپکپاہٹ اتر ای تھی ۔۔
” تمہیں ابٹن لگا رہا ہوں۔ ۔مہندی کی رسم کررہا ہوں تمہاری۔۔ تاکہ تمہیں کوئی گلہ نہ رہے ۔۔۔۔سی یو ویری سون ۔۔مائی ڈیر وائف ٹو۔بی” آنکھوں اور لبوں کی تراش میں خوبصورت مسکراہٹ لئے اپنی سحر انگیز آواز میں کہتا گہری نظر اس کے کلیوں سے نازک لرزتے دلکش وجود پر ڈالتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔
اس کے جانے کے بعد زینب نے تیزی سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا جو گویا پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا اور جلدی سے گلاس میں پانی انڈیل کر لبوں سے لگایا ۔۔سردی کے موسم میں بھی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے ۔۔
اس کے ساتھ ابھی کیا ہوا تھا ۔۔۔وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی ۔۔چند لمحوں بعد دل کی دھڑکنوں نے ذرا اپنی رفتار معمول کے مطابق کی تو گلابی انگلیوں کی پور سے گال کو چھوا جہاں اس نے ابٹن لگایا تھا ۔۔اس کی انگلی کا پر تپش لمس گال پر ابھی بھی تازہ تھا ۔۔اسکی پلکیں لرز گئیں ۔۔جلدی سے اپنا گال اور گلابی ہتھیلی پر لگی مہندی ٹشو سے رگڑ کر صاف کی۔۔پانی کا جگ اٹھا کر تیزی سے اوپر بڑھ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے دبئی آۓ ہوۓ پندرہ دن ہو گئے تھے ۔۔لیکن کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔۔شروع میں چند دن فاروقی صاحب اس کے ساتھ ہی رکے ۔۔کچھ نیۓ پروجیکٹس اور کلاینٹس وغیرہ کے بارے میں اسے گائیڈ کیا ۔۔وہ چند دن میں ہی بزنس کے اسرار و رموزاچھی طرح سمجھ گئی تھی ۔۔اب وہ اس کے کام سے مطمئن ہو کر دو دن پہلے ہی کراچی گئے تھے ۔۔۔جب کہ منال کا ابھی کچھ دن کا کام باقی تھا ۔۔۔سارا دن میٹنگز ، پریزینٹیشنز یا کلائنٹس کے ساتھ آفیشل لنچ یا ڈنر میں گزر جاتا کہ اسےذرا بھی کسی اور طرف توجہ دینے کا خیال ہی نہ آتا ۔۔فاروقی صاحب نے اسے بری طرح بزنس میں الجھا دیا تھا ۔۔۔آنا تو اس کے ساتھ منصور خان کو بھی تھا لیکن وہ کچھ نجی مصروفیات کی بنا پر نہ آ سکا۔۔۔آج بھی وہ سارا دن میٹنگز میں مصروف رہی تھی ۔۔اب رات کے نو بجے اپنے اپارٹمنٹ کی طرف جاتے ہوے اپنی کچھ ضروری چیزوں کی خریداری کرنے کا خیال آیا تو باوجود تھکن کے وہ دبئی کے مشہور ترین ” دبئی مال ” میں چلی آئ ۔۔ایک گھنٹے میں خریداری کرنے کے بعد اب اس کا ارادہ گھر جانے کا تھا جب ہی اسے ایک مشہور جیولری شاپ سے حیدر نکلتا دکھائی دیا ۔۔
“ہا ۓ حیدر ۔۔ہاو آر یو ۔۔؟” اس نے خوشدلی سے پوچھا
“او ہاۓ۔۔۔واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز ۔۔ای ایم فائن ۔۔۔وہاٹ اباؤٹ یو ۔۔؟ حیدر نے بھی اسے دیکھ کر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا ۔
“تم یہاں کیسے ۔۔۔؟”منال نے بالوں کو دو انگلیوں کی مدد سے شانوں سے پیچھے جھٹکتے پوچھا
” بس کچھ بزنسس میٹنگز تھیں انہی کے لئے آیا تھا۔ تم بتاؤ ۔۔!! تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔؟کہیں غازیان کی شادی کے لئے اپنی شاپنگ تو نہیں کرنے آئیں ۔۔۔تم لڑکیاں شاپنگ کے معاملے میں اتنی ہی کریزی ہوتی ہو نا ۔۔۔”حیدر نے ہنستے ہوے اسے چھیڑا ۔ وہ حیدر کی بات سمجھی ہی نہیں ۔۔ بس غازیان اور شادی کا ذکر سن کر ہی دل گدگدا گیا ۔۔۔بہت مشکل سے خود کے جذبات کر قابو رکھ کر بولی ۔
“نہیں !!میں بھی بزنسس کے سلسلے میں ہی آئ تھی ۔۔بس اب تو تین چار دن کا کام ہی رہ گیا ۔۔”
“اوہ۔۔!! اٹ مینز تم کل غازیان کے نکاح میں شامل نہیں ہوگی ۔۔۔” حیدر نے ہونٹوں کو گول گھماتے کہا ۔۔”اچھا ہے۔ ۔ایسے اچانک نکاح کرنے پر اس کمینے کے ساتھ یہی ہونا چاہئےکہ اس کے امپورٹنٹ ڈے پر اس کے دوست ساتھ نہ ہوں ۔۔”حیدر نے مصنوعی خفگی سے کہا جب کہ آنکھوں سے غازیان کی محبت صاف ظاہر تھی ۔
جب کہ دوسری طرف اسکی بات سن کر منال کی حالت ایسی تھی جیسے کسی نے جسم سے جان نچوڑ لی ہو ۔۔کان سائیں سائیں کر رہے تھے ۔۔ اس نے بڑ ی مشکل سے خود کو کچھ بولنے کے قا بل کیا ۔۔
“کیا ۔۔کیا کہا تم نے ۔۔؟ کس کا نکاح ہےکل ۔۔؟”
اپنی بےجان ہوتی ٹانگوں کو بمشکل سنبھالتے بدقت پوچھا ۔۔
“غازیان کا ۔۔غازیان کا نکاح ہے نا کل ۔۔” لگتا ہے تمہیں بھی اس بارے میں کچھ نہیں پتا ۔” حیدر نے پوچھا تو وہ بے ساختہ نفی میں گردن ہلا گئی ۔
” مجھے بھی اس نے آج صبح ہی بتایا ہے ۔۔کہہ رہا تھا اسے خود ایک دن پہلے پتاچلا ہے ۔۔”حیدر نے ہلکا سا ہنستے ہوے کہا ۔۔ “میں نے بھی سارا دن لگا کے سارا کام آج ہی نمٹایا ہے اب تین گھنٹے بعد فلائٹ ہے کراچی کی ۔۔تو سوچا بھابی کے لئے نکاح کا گفٹ لے لوں ۔۔ “اس نے کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتے ہوے کہا ۔۔
حیدر اس کی آنکھوں میں اترتی بیقینی کو اس کی لاعلمی کی وجہ سمجھ رہا تھا ۔۔بس ۔۔۔
“لیکن ایسے اچانک ۔۔۔غازیان کا نکاح کس سے۔۔کس سے ہو رہا ہے ۔۔؟”
وہ جیسے حیدر کی باتیں سن ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔پھنسی پھنسی آواز میں بولی ۔۔
“یار اس کی کزن سے ہو رہا ہے نا ۔۔ کچھ دن پہلے ہی تو انکل نے رشتہ طے کیا تھا۔۔۔ بس اب اچانک انکل نے نکاح کا پروگرام بنا لیا۔۔۔تمہیں امل بھابی نے نہیں بتایا ۔۔؟” حیدر نے تفصیل بتاتے ساتھ ہی پوچھا ۔
منال نے ایک دفعہ پھر نا میں گردن ہلائی ۔۔جسم میں جیسے جان ہی نہ رہی تھی ۔۔
“اوکے منال۔۔!! میری فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے ۔۔بس ابھی ہوٹل سے سامان اٹھا کر ایئر پورٹ کے لئے نکلوں گا ۔۔”
حیدر نے عجلت دکھاتے کہا تو اس نے بہت کوشش سے ذرا سا مسکراتے ہاتھ ہلایا ۔۔۔حیدر کے وہاں سے جانے کے بعد بمشکل خود کو گھسیٹی ہوئی قریب رکھے بینچ تک لائی اور اس پر ڈھے گئی ۔۔۔
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو گئی تھی جیسے ۔۔۔ذہن بالکل بلینک ہو گیا تھا ۔۔اس وقت صرف بے یقینی کی کیفیت تھی ۔۔اپنے تئیں تو وہ یہی سوچے بیٹھی تھی غازیان جب بھی شادی کریگا اس سے ہی کریگا اب غازیان کا نکاح کسی اور سے ۔۔۔ذہن اس بات کو قبول ہی نہیں کرپارہا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ایسی کیا بات ہے جو تم مجھے اتنی ایمر جینسی میں وہاں سے اٹھا لاۓہو ۔۔۔جانتے ہو کتنی مشکل سے راحیل سے طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر آیا ہوں۔۔۔۔
سہیل صاحب نے خشمگیں نظروں سےاسے دیکھتے کہا ۔۔
جب کہ وہ خاموشی سے انھیں دیکھ رہا تھا ۔۔
“کیا بات کرنی ہے تمہیں۔ بتاؤ اب ۔۔خاموش کیوں ہو ۔۔؟”سہیل صاحب نے کڑے تیوروں سےاسےگھورتے ہوۓ پوچھا
“کل میرا زینب سے نکاح ہے تو ۔۔” غازیان نے گلا کھنکھارتے ہوے بات کا آغاز کیا ۔
“تو ۔۔؟” سہیل صاحب نے سوالیہ ایک آئ برو اچکاتے درمیان میں ہی ٹوکا اور گہری نظروں سے بیٹے کا جائزہ لیا جس کا چہرہ ہمیشہ کی طرح بالکل پر سکون تھا ۔۔۔اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔
“تو ۔۔یہ کہ میں کل ہی نکاح کے ساتھ رخصتی بھی چاہتا ہوں ۔۔”
اس نے اپنے ازلی دو ٹوک انداز میں بات مکمل کی اور آرام سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گیا ۔۔جب کہ دا یاں بازو صوفے کی پشت پر پھیلا لیا تھا ۔۔
“دماغ ٹھیک ہے تمہارا ؟ فضول باتیں نہ کرو ۔۔ایسا کچھ نہیں ہو سکتا ۔”اس نے جتنے آرام سے بات کی تھی اس کی بات سن کر سہیل صاحب اتنے ہی بے آرام ہوے ۔۔۔غصے سے دبی دبی آواز میں چیخے ۔۔
“کیوں نہیں ہو سکتا ۔۔؟ انتہائی آرام سے پوچھا
“بس !! کہہ دیا نہیں ہو سکتا ۔۔تو نہیں ہو سکتا ۔۔”سہیل صاحب بھی دو ٹوک بولے ۔۔
“ٹھیک ہے ۔۔۔پھر میں کل۔۔ یہ نکاح بھی نہیں کروں گا ۔۔”غازیان صوفے سے اٹھتا ان کے مقابل دو قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوتا نہایت پرسکون لہجے میں بولا
“بکواس بند کرو اپنی ۔۔! سہیل صاحب طیش کے عالم میں چیخے ۔۔بس نہیں چل رہا تھا اس کا گلا دبا دیں جو پہلے تو فرمابرداری سے ان کی ہر بات مانتا چلا گیا اور اب عین ٹائم پربے تکی باتیں کر کے ان کا دماغ خراب کر رہا تھا ۔۔
“ٹھیک ہے ۔۔نہیں کرتا بکواس ۔ بس آپکو انفارم کرنا تھا سو کر دیا ۔اب مجھ سے کل کوئی گلہ نہ کیجیے گا ۔۔۔”
اس نے شانے اچکاتے ازلی پر سکون انداز میں کہا ۔۔سہیل صاحب ابھی تک غصے سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔جب وہ مزید بولا
“چلیں ۔۔اب ریسٹ کریں۔ ۔۔کافی رات ہوگئی ۔۔”مزے سے انہیں کہتے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھاگیا ۔۔۔سہیل صاحب دانت پیستے ہوے مٹھیاں بھینچ گئے ۔۔گہری سانس خارج کر کے خود پر قابو پایا ۔
“رکو ۔۔! بات سنو ۔۔یہاں آ کر بیٹھو ۔۔۔” خود کو کنٹرول کر کے دھیمے لہجے میں بولتے خود بھی صوفے پر بیٹھ گئے اور اسے بھی اشارے سے بیٹھنے کا کہا ۔۔سجھ گئے تھے اس الٹے دماغ کے انسان کو دوسرے طریقے سے ہینڈل کرنا ہوگا ۔۔۔
جب کہ غازیان جو ان کا اطمینان بہت سکون سے غارت کرکے اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا ان کی پکار پر بڑ ی مشکل سے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا چہرے کے تاثرات سنجیدہ رکھتا ان کے سامنے آ بیٹھا ۔۔
“دیکھو بیٹا ۔۔!! تم ماشاءالله بہت سمجھدار ہو ۔۔مجھے یقین ہے میری بات سمجھو گے ۔۔” انہو ں نے میٹھے لہجے میں بات کا آغاز کیا تو باوجود ضبط کے اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔
اس بار ڈانٹ ڈپٹ کے بجا ے لہجے میں چاشنی بھری تھی۔۔۔ یعنی اسے قائل کرنے کے لئے اسٹریٹجی چینج کرلی گئی تھی ۔۔۔یہ ہی سوچ کر وہ مسکرایا تھا ۔۔
اس کے مسکرانے پر سہیل صاحب اسے گھور کررہ گئے۔ ۔دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف تھے ۔۔مقابل کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اچھی طرح جانتے تھے ۔۔اسی لئے اس کی اس بیہودہ مسکراہٹ کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔۔ سہیل صاحب اچھی طرح سمجھتےتھے ۔۔
“تم اچھی طرح جانتے ہو میں نے چند دن پہلے صرف تمہارا رشتہ پکا کیا تھا ۔۔پھر میری خواہش کا احترام کرتے ہوے راحیل نکاح پر رضامند ہو گیا ۔۔حالاں کہ اس نے مجھے بتایا تھا زینب کافی اپ سیٹ ہوگئی تھی ۔۔۔وہ ابھی پڑھنا چاہتی ہے ۔اب راحیل کسی صورت رخصتی ۔۔وہ بھی یوں أنا فانأکرنے پر ہرگز راضی نہیں ہوگا ۔۔۔” سہیل صاحب نے سنجیدگی سے اپنی بات اس کے سامنے رکھی تو وہ بھی سنجیدہ ہوکر ہمکلام ہوا ۔۔
“ڈیڈ !! پڑھائی وغیرہ کا کوئی ا یشو نہیں ہے ۔۔یہ آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ وہ یہاں آ کر بھی جتنا چاہے پڑھ سکتی ہے ۔۔”
اس نے دو جملوں میں گویا بات ہی ختم کر دی ۔
“یار راحیل نہیں مانے گا ۔۔۔اس نے زینب سے وعدہ کیا ہے جب تک وہ نہیں چاہے گی رخصتی نہیں کریگا اور وہ خود بھی اسے پڑھائی کے دوران ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا ۔۔” سہیل صاحب اس کی ایک ہی رٹ سے جھنجھلا کر بولے ۔۔
“هممم ۔۔! تو پھر اسے سکون سے پڑھنے دیتے ہیں ۔۔۔یہ نکاح وغیرہ بھی ابھی رہنے دیں ۔۔”اس نے بڑے آرام سے اپنی تھوڑی کھجاتے ہوے سہیل صاحب کو ایک مرتبہ پھر بے آرام کیا
“فضول بات نہیں کرو بار بار ” اس طرح چند گھنٹے پہلے تم نکاح سے انکار کس طرح کر سکتے ہو ۔۔؟”سہیل صاحب غصے سے بھڑکے ۔۔۔سب کچھ صحیح چل رہا تھا نہ جانے اچانک اس لڑکے کے دماغ میں کیا خناس سما گیا ۔ ۔
“ڈیڈ ۔۔!! میں ہرگز بھی نکاح سے انکار نہیں کر رہا ۔۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں یا تو نکاح کے ساتھ رخصتی بھی کل ہی ہوگی یا پھر نکاح بھی نہیں ہوگا ۔۔”
وہ اپنے ازلی پرسکون دوٹوک انداز میں بولا تو سہیل صاحب دانت کچکچا کر رہ گئے ۔۔جان گئے تھے کہ ان کی یہ ڈھیٹ اولاد اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی ۔۔۔
“میں پوچھ سکتا ہوں ایسی کیا آفت ان پڑی کہ تم ۔۔جو ابھی ڈیڑھ دو سال تک شادی نہیں کرنا چاہتے تھے ایک دم اتنے اتاولے ہو گئے ۔۔؟”چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ اور اگلے بندے کو شرمندہ کرنے والے تاثرات سجا کر بولے۔
غازیان کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ یہ سوال ضرور کیا جاےگا ۔۔۔بلکہ وہ جانتا تھا ابھی جب باقی گھروالوں کو اس کے مطالبے کا پتا چلے گا تو اس کا ٹھیک ٹھاک مذاق اڑا یا جاےگا کہ وہ زینب کے ہوشربا حسن سے گھائل ہو گیا وغیرہ وغیرہ ۔۔لیکن اسے پروا نہیں تھی ۔کوئی کچھ بھی کہے ۔۔۔وہ فیصلہ کرچکا تھا ۔۔جو اٹل تھا ۔
وہ صوفے پر تھوڑا سا جھک کر آگے کی جانب آیا اور سہیل صاحب کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا سکون سے بولا ” میں اس لئے ” اتاولا “ہو رہا ہوں ڈیڈ ۔۔کیوں کہ اب میں شادی کی “ضرورت” محسوس کرنے لگا ہوں ۔۔”
اس کے بے باکی سےچند لفظوں پر زور دے کر کہنےسے سہیل صاحب چند لمحوں کے لئے متحیر رہ گئے پھر ہوش میں آتے خود ہی جھینپ گئے ۔۔۔دل میں خود کو ملا مت کی وہ بھی کس ڈھیٹ کو شرمندہ کرنے چلے تھے ۔۔جب کہ وہ دوبارہ سکون سے صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔چند لمحے ان کے چہرے کے تاثرات بغور دیکھ کر اندازہ لگایا ۔۔اس کا کام ہو چکا تھا ۔۔دل ہی دل میں خود کو داد دیتے ۔۔ سہیل صاحب سے بولا
“اوکے ڈیڈ ۔۔!! آئ ایم گوئنگ ٹو سلیپ ۔۔(میں سونے جارہا ہوں ) آپ بھی اب آرام کریں ۔۔”
“جس کی تمھارے جیسی اولاد ہو اس کے نصیب میں آرام کہاں ۔۔؟”
اس کےاس قدر اطمینان پر وہ سلگ کر بولے
وہ ہنستا ہوا ان کے پاس آ کر انھیں سائیڈ سے گلے لگا گیا ۔۔
“میں کل راحیل سے بات کروں گا لیکن مجھے نہیں لگتا وہ مانے گا ۔۔تم زیادہ امید نہ رکھو ۔۔”خفگی سے اس کے ہاتھ جھٹکتے بولے ۔۔
“اور مجھے پورا یقین ہے ۔۔۔آپ انھیں منا لیں گے ۔۔” نرمی سے ان کے ہاتھ چومتا بولا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔
سہیل صاحب اس کی پشت کو گھور کر رہ گئے ۔۔۔ایک نظر دیوار گیر کلاک پر ڈالی جو رات کے گیارہ بج کر پانچ منٹ کا وقت دکھا رہی تھی ۔۔
باقی گھر والے ابھی تک نہیں آ ۓ تھے ۔۔۔وہ دل ہی دل میں صبح راحیل صاحب سے بات کرنے کے لئے جملے ترتیب دیتے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عجیب لٹی پٹی حالت میں مال کے بینچ پر بیٹھی تھی ۔۔۔آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔ ۔۔۔کچھ دیر پہلے جو چہرہ تازگی و دلکشی کی مثال لگ رہا تھا اب بالکل سفید پڑگیا تھا جیسے سارا خون نچڑ گیا ہو ۔۔وہ جانے کب تک یونہی وہاں بیٹھی رہتی جب وہاں موجود ایک گارڈ کے متوجہ کرنے پر ہوش میں آئ ۔۔جو اس سے پوچھ رہا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہی ہے یا وہ اس کے لئے کیب ارینج کروا دے ۔۔۔اس نے گہری سانس لی ۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے فضا میں آکسیجن کم ہو گئی ہو اور اس کا جسم کسی بھی وقت بے جان ہو کر گر جاےگا ۔۔بہت مشکل سے خود کو کمپوز کر کے گارڈ کو کیب کروانے کا کہا ۔۔کار ڈرائیو کرنے کی پوزیشن میں تو وہ اب نہیں تھی۔۔۔کلائی پر بندھی خوبصورت نازک گھڑی پر نظر ڈالی ۔۔رات کا ایک بج چکا تھا مال میں اب رش بہت کم ہو گیا تھا ۔۔وہ پچھلے ڈھائی گھنٹے سے اسی بینچ پر بیٹھی تھی ۔۔گارڈ کے مطلع کرنے پر اپنا وجود زبردستی گھسیٹتی کیب تک پہنچی ۔۔۔پھر اسے نہیں معلوم کس طرح کیب ڈرائیور کو ایڈریس سمجھایا ۔۔ہوش تو تب آیا جب کیب اپارٹمنٹ بلڈنگ کے سامنے رکی ۔۔پرس میں ہاتھ ڈال کر جتنے درہم ہاتھ آ ۓ کیب ڈرائیور کو تھما کر شکستہ قدموں سے چلتی اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔کیب ڈرائیور نے ترحم سے اس خوبصورت لیکن بےحد غمزدہ لڑکی کو دیکھا اور کیب آگے بڑھا دی ۔۔
گھر آ کر اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ۔۔۔احساسات پر جو برف پڑی ہوئی تھی وہ بری طرح پگھل گئی ۔۔۔وہ ضبط کھو کر بری طرح بکھرگئی ۔۔وہ اپنے بال نوچ نوچ کر رو رہی تھی ۔اور چند منٹوں میں ہی خوبصورتی سے سجے قیمتی سامان سے آ راستہ کمرے کی حالت بری طرح بگاڑ چکی تھی ۔۔۔بلا شبہ وہ اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں تھی ۔اس وقت اس حال میں اس کا کوئی اپنا اسے دیکھ لیتا تو اس کا کلیجہ پھٹ جاتا۔
دیا ر غیر میں اپنوں سے دور اس طرح اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹا تھا کہ اس پہاڑ کے نیچے آ کر اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا تھا ۔اور کوئی نہیں تھا اس کےپاس ۔۔جو اس کے کرچی کرچی ہوے وجود کو سمیٹ لیتا ۔