قسط 2
یہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع 500 گز کے ایک خوبصورت بنگلے کا منظر ہے ۔۔۔جو بوگن ویلیا کی بیلوں سے ڈھکا ہوا ہے ۔۔۔چھوٹا سے ڈرائنگ روم میں خوب رونق لگی تھی ۔۔۔
جس وقت وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوی سہیل احمد بے ساختہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے ۔۔”راحیل یہ۔۔ یہ ۔۔” ان کی حیرت دیدنی تھی۔
“جی بھائی جان یہ میری سب ے چھوٹی بیٹی زینب “۔راحیل صاحب محبّت سے چور لہجے میں بتایا ۔۔۔
زینب جو کچھ کنفیوزڈ سی تھی، بابا کے ساتھ ہی ٹک گئی . . . .
“یہ تو ہو۔ با ہو امّاں جان جیسی ہے” ۔۔۔۔
سہیل صاحب جو ورطہ حیرت میں تھے۔۔۔۔بولے
“بیٹا !!ادھرآو میرے پاس ۔” اپنے پاس بلایا ۔۔۔ وہ تایا کے پاس آئ ۔۔۔۔۔”ماشاءالله وہی سرخ و سفید رنگت ویسے ہی کالے سیاہ خوب صورت بال اور ہلکی سبز آنکھیں۔۔۔۔۔”
سہیل احمد شاہ نے اس کی۔ پیشانی چومی۔۔۔۔
زینب جو اپنے رعب دار سے تایا کی شخصیت سے مرعوب سی ہوئی کھڑی تھی ۔۔۔ان کے اتنے التفات سے کچھ حیران سی تھی جب کہ باقی سب دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
“جی بھائی جان جب اس کی پیدایش کے بعد میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو میں بھی دنگ رہ گیا تھا تب ہی اس کا نام بھی اماں جان کے نام پے رکھا اور زینب کی شخصیت میں اماں جان کی گہری چھاپ ہے ۔۔۔۔۔”
“آپ کو پتا ہے سہیل بھائی !!! اس کی بیشتر عادات بھی خالہ جان جیسی ہیں ۔۔۔راحیل تو اسے اکثر اماں جان کہتے ہیں ۔”۔غزالہ بیگم نے کہا تو سب ہی ہنس پڑے ۔۔۔
اور پھر کافی دیر تک باتوں کا سلسلا چلتا رہا ۔۔۔۔زویا اورزینب کو اپنے بڑے ابّا بہت پسند اے۔۔۔۔وہ جلد ہی اپنی عادت ک مطابق سہیل صاحب سے بے تکلف ہوگئیں ۔۔۔
اور جب شام کو سات بجے راحیل احمد شاہ کے اکلوتے بیٹے زین احمد گھر آے اور ساری بات پتا چلی، تو ان کی دونو ں نٹ کھٹ بہنیں تایا کا ساتھ بیٹھی اپنی فیملی کا تعار ف کروا رہی تھیں ۔۔۔۔۔
“تایا جان یہ ہمارے بابا کی دوسری اولاد ۔۔۔۔رمشا آپی سے ڈھائی سال چھوٹے “۔۔۔”دی گریٹ زین احمد شاہ “۔۔۔۔زویا نےڈرامائ انداز میں کہا تو سب ہی ہنس پڑے۔۔۔
“ان کی شادی ہمارے ماموں کی سب سے چھوٹی بیٹی نداآپی سے دو سال پہلے ہوئ ہے ۔۔۔اور یہ اس گولو مولو سے بچے کے بابا جانی ہیں ۔۔۔۔”
زینب نے اپنی گود میں بیٹھے علی کے گال نوچتے ہویے کہا ۔۔۔۔۔
جس پہ علی صاحب نے شدید رد عمل دیتے ہوۓ زور سے اپنا باجا بجایا اور اپنے ہاتھ اپنے باباجانی کی طرف بڑھاۓ تھے ۔۔۔
“ماشاءالله ۔۔۔اکبر بھائی اور فرحین بھابی کیسے ہیں؟”سہیل صاحب نے غزالہ صاحب سے پوچھا
“اللّه کا شکر ٹھیک ہیں۔۔۔ ماشاءالله سب بچے بیاہ دیے بس ایک بیٹا رہ گیا جو ندا سے چھوٹا ہے ۔ پڑھ رہا ہے ابھی ۔۔”
“اور رمشا اپنے گھر میں خوش ہے ؟رمشا کے کتنے بچے ہیں؟” سہیل احمد شاہ نے پوچھا ۔۔۔
“رمشا کے دوبچے ہیں ماشاءالله ۔۔۔سعودیہ عرب کے شہر جدّہ میں رہتی ہے” غزالہ صاحبہ نے بتایا ۔۔۔
“رمشا کا میاں تمھارے بچپن کے دوست رضوان کا بیٹا ہے نا ،راحیل ؟”سہیل صاحب نے اپنی یاد داشت کو ٹٹولتے ہے کہا ۔۔۔۔
“جی بھائی۔۔” راحیل احمد نے جواب دیا
“مجھے معاف کر دو راحیل ۔۔۔میں اتنے سال کتنا غافل رہا ہوں اپنے بچوں سے ۔۔۔”سہیل صاحب ایک دفع پھر آبدیدہ ہو گئے ۔بار بار دونوں بھائیوں کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں ۔۔۔۔
غزا لہ صاحبہ بھی اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھیں ۔۔۔
سہیل احمد کا ملال کسی طور کم نہیں ہو رہا تھاان کا بس نہی چل ڑھا تھا ک وقت کا پہیہ الٹا گھما دیں لیکن گزرا وقت کہاں واپس آتا ہے ۔۔۔
زین احمد نے سہیل اور راحیل احمد کو تسلی دی ۔۔۔۔
“اوہو ۔۔۔آپ لوگ ہمارے انٹروڈکشن کے درمیان یہ اموشنل سینز بند کریں ۔۔۔”
“نو مور رونا دھونا”۔۔۔۔”گا ئزجسٹ چل “
ماحول کا بوجھل پن زینب کی آواز نے توڑا ۔۔۔۔اس کے نٹ کھٹ انداز پے سب ہی مسکرا دئے
“اچھا سہی ۔۔۔جو ہماری بیٹی کہے ۔۔۔”
سہیل احمد بولے
جو زینب کو گلے سے لگآۓ بیٹھے تھے ۔۔
“اچھا جناب !!!تو رمشا آپی اور زین بھائی کے بعد نمبر آتا ہے زویا صاحبہ کا ۔”
“جو اپناتعا رف آپ کوپہلے ہی کرواچکیں اور سب سے آخر میں آتا ہے۔ ما بدولت کا نمبر ۔۔”زینب نے باقاعدہ کھڑے ہو۔ کے ہاتھ کا مایک بنا کے گلا كهنكهارا ۔۔۔
“ھم ا وم ۔۔۔۔۔”
نام ۔۔۔۔زینب احمد شاہ
عمر 20 سال
زینب نے ابھی کہا ہی تھا کے زویا نے آواز لگائ ۔۔۔۔”جھوٹ بالکل جھوٹ “
“عمر ۔۔۔ساڑھے بیس سال ۔۔” زویا نے کہا تو
زینب نے زویا کو گھور ا ۔۔۔۔۔
“اوکے اوکے” ۔۔۔۔”یو جیلس “
“بڑے ابا !!پھر میں کہاں تھی ؟” زینب کو اپنے بڑے ابّا بے حد اچھے لگے تھے۔ ۔۔بچپن سے جو دد ھیا لی رشتو ں کو لے کر تشنگی تھی، ایک دم مٹ گی تھی جیسے ۔۔۔۔
یہ ان کا دوستانہ رویہ ہی تھا کے وہ اپنے تایا سے ایک دم گھل مل گئی تھیں ۔۔
“آپ بتا رہی تھیں کہ نام زینب احمد شاہ اور عمر بیس ۔۔۔۔”
سہیل ا حمد جو زینب کو بتا رہے تھے۔۔۔ زویا کے آنکھیں دکھانے پہ زبان دانتوں تلے دبا کر جلد ی سے بولے
“اووپس ۔۔ساڑھے بیس سال “
انکے کہتے ہی زویا نے تالیاں بجائیں ۔۔۔
“ویل ڈن بڑے ابا ۔۔۔”
“اوکے !!اب آگے ۔۔” زینب بولی
“بی بی اےتھرڈ ایئر فرام کراچی یونیورسٹی کی بے حد قابل سٹوڈنٹ۔۔”
“مستقبل کی ایم بی اے فرام آئ بی اے انشااللہ ۔۔۔۔جسٹ لائک مائی بڑے ابا ۔۔”زینب نے چمکتی آنکھوں سے کہا ۔۔۔
سہیل احمد کی آنکھیں اتنی محبّت پہ پھر نم ہوئی تھیں ۔۔۔۔”انشااللہ ۔۔” انہوں نے بھی کہا
“انتہائی سلیقہ مند “۔۔۔تعارف جاری تھا ۔۔۔جب
“جھوٹ پھر سے جھوٹ ۔۔۔”
زویا کی زبان میں پھر كهجلی ہوئی ۔۔
زینب نے آنکھیں دکھائیں تھیں ۔۔۔
“اچھا بس اب یہ انٹروڈکشن ختم کرو اور جا کے ڈنر کا انتظام کرو ۔۔”
“سہیل بھائی ان دونو ں کی شرارتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی ۔۔۔” غزالہ صاحبہ نےپہلے ان دونو ں سے اور پھر سہیل احمد شاہ سے کہا۔۔۔۔
“ماشاءالله غزالہ، راحیل کتنی رونق ہے تمھارے گھر میں ۔۔۔سچ بات ہے گھر کی اصل رونق تو بیٹیوں سے ہی ہوتی ہے ۔۔۔”
سہیل صاحب نے حسرت زدہ لہجے میں کہا ۔۔۔
“ارے بھائی ۔۔یہ بھی آپ کی ہی بیٹیاں ہیں ۔اداس کیوں ہو رہے ہیں ۔۔؟”
راحیل صاحب نے سہیل صاحب کو شانے پے ہاتھ رکھ کر تسلی دی
“ہاں ہاں بالکل ۔۔” انہو ں نے کہا تھا ۔۔۔
غزالہ صاحبہ نے ان کی یہ محفل ختم کرائی تھی ۔۔
تو وہ دونوں اپنی بھابی ندا کے ساتھ ڈراینگ روم سے باہر کچن میں چلی گئیں ۔۔۔یہ اور بات کہ کچن من بھی ان تینو ں کا موضوع گفتگو بڑے ابا ہی تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوش گوار ماحول میں ڈنر کرنے کے بعد سب ایک بار پھر ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے اور ایک مرتبہ پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔جب ہی ندا اور زویا ک ساتھ چاۓ کی ٹرے تھامے زینب کمرے میں داخل ہوئی ۔زویا اور زینب سب کو چاۓ سرو کر نے لگیں ۔۔۔
“تآیا جی آپ بھی تو اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتایں ۔۔” ندا نے علی کو زین کی گود سے لیتے ہویے کہا۔۔۔جو ماں کو دیکھتے ہی بے چین ہو گیا تھا ۔۔۔
“ہاں بیٹا ضرور کیوں نہیں ۔۔۔ پہلے آپ بچیاں ادھر آئیں اور اپنا انعام لیں ا تنا اچھا کھانا کھلایا ہمیں ۔۔” سہیل احمد نے کہا اور ساتھ ہی تینو ں کی جانب پیسے پکڑاے ۔۔۔وہ جھجھک رہی تھیں لیکن غزالہ اور راحیل صاحب کے اشارے پے لے لئے ۔۔۔
“واہ بھئی !! چاۓ بھی بہت مزے دار بنی ہے ۔۔۔۔بہت د ن بعد ایسی پکی ہوئی چاۓ پی ہے ورنہ اجکل تو بس وہ ٹی بیگ گھول کے پکڑا دیتے ہیں ۔۔۔”سہیل صاحب نے کہا ۔۔۔
“چاۓ ،کافی بنانے کی تو اسپیشلسٹ ہےزینب ، بڑےابّا ۔۔اس سے اچھی چاۓ کوئی بنا ہی نہیں سکتا ۔۔۔”زین نے محبّت سے بہن کو دیکھتے ہویے کہا
جواب میں زینب نے فرضی کالر جھاڑااور اتراتے ہویے کہا ۔۔۔”بس جناب- کبھی غرور نہیں کیا ۔” اس کے ا سٹائل پے سب ہی ہنس پڑے ۔۔۔
“اچھا بڑے ابّا بتایں نہ سب کے بارے میں ۔۔۔ ویسے کافی کچھ تو ہم جانتے ہیں ۔۔” زویا نے بے چینی سے کہا
“ہاں تو جیسا کہ تم بچوں کو معلوم ہی ہے میرے تین بیٹے ہیں ماشاءالله ۔۔”سہیل صاحب نے بولنا شروع کیا
“سب سے برا ازلان ہے ۔۔۔اس کی بیوی رباب ۔۔۔جو تمہاری عائشہ پھپو کی بیٹی ہیں ۔۔۔”
سہیل صاحب نے بتانا شروع کیا تو زینب نے بد مزہ ہوتے ہے کہا ۔۔ . “اہوو و ، بڑے ابا یہ تو ہمیں پتہ ہے ۔۔۔اب اتنے بھی نہ بلد نہیں ہم ۔۔۔۔ “
“بیٹا جی!! آپ کو تو پتا ہے لیکن ہماری ندا بیٹی کو تو نہیں پتا نا ۔۔۔ان کے لئے بتا رہا ہوں ۔۔۔۔”
“او ڈاٹس دا پوانٹ” زینب نے ہاتھ اٹھا ۓ۔۔۔
“رباب آپی تو ہمارے ہاں آیئں تھیں،چند سال پہلے عائشہ پھپو کے ساتھ ۔۔”زین نے کہا
“میرے بچے ہمیشہ اپنے دد ھیا لی رشتوں کے لئے ترسے ہیں بھائی جان ۔۔آپ نے اور عائشہ نے مجھے بہت دور رکھا خود سے، ہمیشہ گھڑی دو گھڑی کے لئے مہمانوں کی طرح آ ے میرے گھر ۔۔۔مجھے بہت گلہ رہے گا۔ ۔۔میں نے بارہا کوشش کی آپ لوگوں سے خود کو جوڑنے کی لیکن آپ لوگوں نے میری کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے مجھے بے گانہ کر دیا ۔ ۔ابّا کا تو بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا لیکن امّا ں کو یہ غم بھی کھا گیا ۔۔”راحیل صاحب نے شکایتی لہجے میں نم آنکھوں سے کہا تو سہیل احمد پھوٹ پھوٹ کے رو دیے ۔۔
“میری کوتاہی ہے ۔۔۔میں گناہ گار ہوں اپنی ماں کا ،تمہارا ۔۔۔میں پیسہ کمانے من اتنا مگن ہو گیا کہ اپنی ماں بھائی سے ہی دور ہو گیا ،مجھے معاف کر دو راحیل “
سب ان کی جانب بڑھے ۔۔۔ “برے ابا !!حوصلہ کریں ۔” زین نے دلاسا دیا ۔۔۔۔
“آپ بار بار سہیل بھائی کو رلا کر ان کی اور اپنی طبیعت خراب کر رہے ہیں ۔۔خالہ جان کو بھی تکلیف پہنچ رہی ہوگی سہیل بھائی کے رونے سے ۔۔ان کی جان بستی تھی سہیل بھائی میں ۔۔۔” غزالہ صاحبہ نے کہا ۔۔
“جو ماضی میں ہوا اسے بھول جائیں ۔۔۔اب ہمارے بچے آپس میں مل جل کے رہیں یہ غلطیاں نہ دوہرائیں۔۔۔”
عجیب بوجھل سا ماحول ہو گیا تھا ۔۔۔۔زویا زینب بھی سہمی سی کھڑی تھیں ۔۔۔۔سہیل احمد کا رونا سب کو رلا گیا تھا ۔۔
وہ دوپہر سے اب تک کئی دفعہ معافی مانگ چکے تھے لیکن ان کا ملال کم ہی نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔
جب ہی زینب زمین پے سہیل صاحب کے سامنے آ کے بیٹھی ۔۔۔ہاتھ ان کے گھٹنوں پے رکھے اور بولی
“بڑےابّا!!! پلیز۔۔۔نہ رو یں ہم آپ سے پہلی دفعہ اتنی ساری باتیں کر رہے ہیں۔ اتنا مزہ آ رہا ہے ۔۔۔۔ماضی میں کیا ہوا ہم نہیں جانتے ۔ہم یہ لمحے جینا چاہتے ہیں ۔۔پلیز ۔۔۔۔ہمیں یہ پل جینے دیں ۔۔۔آپ کو ایسے دیکھنا ہم سب کے لئے بہت تکلیف دہ ہے ۔۔۔چپ ہو جائیں پلیز ۔۔” اسکا اپنا لہجہ بھی روہانسا ہو رہا تھا ۔
سہیل صاحب نے زینب کے سر پے ہاتھ رکھا ۔۔۔اس کی پیشانی چومی ۔۔
“بھائی جان بس اب کوئی پرانی بات نہیں ہوگی ۔۔سب بھول جائیں ۔۔۔بچے بھی پریشان ہو رہے ہیں ۔۔”راحیل احمد نے سہیل کے شانو ں پے ہاتھ پھیلا یا ۔۔۔
“ہاں میری بیٹی ۔۔۔مجھے بھی اپنے بچوں سے باتیں کر کے بہت مزہ آ رہا ہے میں نے تم بچوں کو بھی پریشان کر دیا ۔۔۔جاؤ تم ایک پيالی مزیدار سی چاۓ بنا کے لاؤ پھر باتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں گے ۔۔۔۔”
سہیل صاحب نے زینب سے کہا ۔۔۔
“بس ابھی لائی ۔۔” وہ خوش ہوتی اٹھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن میں واقع شیشے کی پندرہ منزلہ پر شکوہ عمارت کے مین ڈور سےوہ بھر پور مردانہ وجاہت کا شاہ کار باھر نکلا ۔۔۔بلیک کلر کے آفیشل سوٹ میں ملبوس گلے میں ٹائی لگاے ۔۔ کلائی میں قیمتی گھڑی ۔ہاتھوں میں ایپل کا جدید ماڈل کا لیپ ٹاپ تھا مے ۔۔۔ چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا قد ۔۔سیاہ چمکدار آنکھیں ۔۔۔جو جیت کے نشے سے سرشار تھیں ۔۔۔
پیشانی پہ بکھرے سیاہ گھنے چمکدار سلکی بال ۔۔ہلکی بڑھی ہوئی شیو ۔۔جو اس کی وجاہت میں چار چاند لگا رہی تھی ۔۔۔
بھرے بھرے خوب صورت لبوں پہ بہت دل فریب مسکراہٹ تھی جو نا جانے کتنی لڑکیوں کو دل تھا منے پہ مجبور کر رہی تھی ۔۔۔چہرے سے بھر پور خوشی جھلک رہی تھی ۔۔۔۔
آج وہ بے حد خوش تھا ۔۔۔ابھی ابھی یو کے کی بہت بڑ ی کمپنی کے ساتھ ڈیل سائن کر کے آیا تھا ۔۔۔کامیابی ایک کے بعد ایک اس کے قدم چوم رہی تھی ۔۔۔
وہ یہ خبر سب سے پہلے اپنے جان سے عزیز ڈیڈ کو سنانا چاہتا تھا ۔۔اس لیے پارکنگ میں پہنچ کے اپنی مرسڈیز میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ ساتھ والی سیٹ پر رکھا اور کوٹ کی جیب سے فون نکال کے کال ملائی ۔۔۔