قسط 6
آج ہفتے کا دن تھا ۔۔بہت دن بعد سہیل صاحب آفس جانے کے لئے تیار ناشتے کی میز پے بیٹھے تھے جب وہ ڈارک بلو پینٹ کوٹ کے ساتھ آف وائٹ شرٹ پہنے لائٹ بلوکلر کی ٹائی (جس پے ڈارک بلواسٹرپس تھیں ) لگاے خوشبوؤں سے اپنا وجود مہکاے ڈائنگ ٹیبل پے پہنچا ۔۔
سہیل صاحب نے اسے دیکھ کر زیر لب ماشاءالله کہا تھا ۔
“فریدہ بوا !!کافی لے آئیں جلدی پلیز ۔”گڈ مارننگ ڈیڈ ۔”کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوے بوا کو آواز لگائی ۔۔ساتھ ہی سہیل صاحب کو مخاطب کیا
“وعلیکم السلام ” سہیل صاحب نے دانت پیستے ہوےکہا ۔۔تو اس کے لبوں پے ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔
“سوری ڈیڈ !!السلام و علیکم “
“وعلیکم السلام ۔۔کتنی دفعہ تم لوگوں کو سمجھایا ہے صبح اٹھ کر بڑوں کو سلام کیا کرو لیکن تم لوگ نہ جانے کب سمجھو گے ۔۔”سہیل صاحب نے خفگی سے کہا اور چاۓ کی طرف متوجہ ہوے ۔۔
“بوا کافی لے آئیں ۔آئ ایم گیٹنگ لیٹ ۔۔” جھنجھلا کے بواکو آواز لگائی . ساتھ ہی سینڈوچ کا بایٹ لیا ۔
تب ہی بوا کافی لئے چلی آئیں ۔۔۔”لو میاں صبح صبح چیخنے کی ضرورت نہیں ہے ۔آ گئی تمہاری کافی ۔۔”اس کے سامنے کافی کا بڑا سا مگ رکھتے ہوے کہا ۔۔
“شکر ہے آ گئی ۔۔”کہتے ساتھ کافی کا سپ لیا ۔۔
“اف بوا !!اتنی بری کافی ۔۔۔کیا ہو گیا آپ کو ؟یہ تو کل والی سے بھی زیادہ بد مزہ ہے ۔۔” وہ کرا ہا
‘کہاں بد مزہ ہے ؟اتنی محنت سے تو بنائی ہے اور جب تم چیخ چیخ کے ہاتھ پیر پھلآو گے تو جلدی جلدی میں ایسی ہی بنے گی نا “
بوا بھلا اپنی غلطی مانتیں ۔۔۔الٹا اسے ہی باتیں سنا دیں ۔۔۔
اس نے ایک نظر سہیل صاحب کو دیکھا جو محظوظ کن نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔۔ان کا اکڑو مغرور بد دماغ بیٹا کس طرح بوا کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔یہ بلا شبہ ان کی اور سعدیہ کی آعلیٰ تربیت ہی تھی جو ان کی اولاد میں بڑوں کا ادب لحاظ موجود تھا ۔۔۔
“ڈیڈ آپ آفس جا رہے ہیں نا ؟ میں بھی وہیں جا رہا ہوں تو ساتھ چلتے ہیں ۔”
بد مزہ کافی کے دو تین سپ لے کر کپ کھسکایا اور سہیل صاحب سے مخاطب ہوا ۔۔۔
“تم اپنے آفس نہیں جاؤ گے ؟”سہیل صاحب نے استفسار کیا
“نہیں ۔۔منڈے سے جاؤں گا انشااللہ ۔۔۔شان کو کچھ ایشوز ہیں تو آج آپ کے آفس ہی جاؤں گا بس ۔۔”
“ہمم ۔۔شایان نے مجھ سے بھی ڈسکس کیا تھا ۔میں بھی اسی لئے آج جا رہا ہوں ۔”سہیل صاحب نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوے کہا .
“لیٹس گو دین ۔۔”غازیان نے برابر کی کرسی سے اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ اٹھایا ۔۔۔
“بوا پلیز ۔۔آپ آج کافی بنانے کی پریکٹس ضرور کر لیں ۔” جاتے جاتے بوا کو چھیڑا۔۔”آپ جانتی ہیں ناں صبح صبح کافی کے بغیر میرا گزارا نہیں ۔۔”
“میاں!! ہم نہیں اب اس عمر میں کچھ سیکھنے کے ۔۔۔خالدہ کو اتنی دفعہ کہا یہ موئی کافی بھی بنانی سیکھ لے اچھا بھلا کھانا بنا لیتی ہے لیکن چاۓ کافی بنانے میں بالکل ہی کوری ہے کمبخت ۔”
بوا نےاپنی بیٹی کا حوالہ دیا ۔۔۔
“اور صبح صبح کیا۔۔۔ تم تو چوبیس گھنٹے ہی کافی سے اپنا کلیجہ جلاتے رہتے ہو اسی لئےتو کہہ رہے ہیں تم سے۔۔۔بیوی لےآؤاب سارا دن کافی گھول گھول کے پلاتی رہے گی تمہیں ۔۔”
بوا کی بات پے سہیل صاحب کا قہقہہ نکلا ۔۔جب کہ اس نے خفگی سے بوا کو دیکھا ۔۔۔۔
“پلیز بوا اب پھر سے شروع نہ ہو جائیں ۔” جلدی سے کہتا ہوا سہیل صاحب کو آ نے کا اشارہ کر کے با ہر نکل گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے منصور خان کے ساتھ سائٹ کا وزٹ کرنا تھا ۔۔۔وہ اپنے مینیجر کے ساتھ پہنچ چکی تھی ۔۔جب کہ منصور خان ابھی تک نہیں آیا تھا۔ ۔
“مینیجر صاحب !!آپ نے کال کی منصور صاحب کو ؟ کب آیئں گے وہ ؟ “
مینیجر سے استفسار کرتے بیزار ہوئی ۔۔۔آج اسے منصور خان کو کچھ ایریاز کا وزٹ کرانا تھا پھر واپس جا کے فاروقی صاحب کے ساتھ میٹنگ کرنی تھی جب کہ ابھی تک اس کا کچھ پتا ہی نہیں تھا ۔
“جی میم۔۔۔میری بات ہو گئ وہ بس کچھ دیر میں آتے ہی ہوں گے ۔۔”
“عجیب نون پروفیشنل بی ہیویر ہے ۔”وہ بڑبڑآئ
تب ہی نظر سامنے سے آتے منصور خان پہ پڑی ۔۔۔
“سوری مس فاروقی !!میں لیٹ ہو گیا ۔آپ کو ویٹ کرنا پڑا ۔” معذرت خوانا انداز میں کہا
“اٹس اوکے ۔” رکھائ سے کہتے ہوے آگے بڑھ گئی ۔۔۔
منصور اس بد دماغ لڑکی کے تیور دیکھ کے رہ گیا ۔۔جب کہ ماتھے پے شکن آئ تھی ۔۔۔
ابھی بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا ا نہیں وزٹ کرتے جب منصور کا فون بجا ۔۔۔
“سوری یہ ضروری کال ہے ۔”اس نے کہتے کال پک کی ۔۔۔
چند لمحے بات کرکے عجلت میں فون بند کیا
“ایم سوری مس فاروقی ۔۔آ ی ہیو ٹو گو ۔اٹس این ایمرجنسی “
(مجھے جانا ہوگا ۔۔ایک ایمرجنسی ہے )
“اٹس اوکے مسٹر خان ۔۔۔نو پرابلم ۔۔سب خیریت تو ہے ؟آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو بتائیں پلیز ؟”اس کےحواس باختہ تاثرات دیکھ کے منال خود کو کہنے سے روک نہ پائی ۔۔
“نو اٹس اوکے ۔۔۔آئ ول منیج ۔۔” عجلت میں کہتا با ہر نکلتا چلا گیا ۔۔۔
منال اس کی پشت دیکھتی رہ گئی ۔۔۔نہ جانے کیوں اسے یہ آدمی بہت الجھا الجھا لگتا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی شاہ انڈسٹریز کی جانب گامزن تھی جب غازیان کا فون بجا ۔۔
“ہاں حیدر بول ۔۔” ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سنبھالا جب کہ دوسرےہاتھ سے کال ریسیو کی ۔۔۔۔”اوہ اچھا ۔۔۔پھر ۔۔چل دیکھتے ہیں ۔۔۔تو پریشان نہ ہو ۔۔کرتے ہیں کچھ ۔۔۔نہیں آج نہیں مل سکتا ۔۔۔۔رات میں بھی بزی ہوں ۔۔۔ہاں کل ملتے ہیں ۔۔اوکے ڈن ۔۔”
“خیریت ؟حیدر کیوں پریشان ہے ؟؟” فون بند کیا تو سہیل صاحب نے پوچھا۔
دوست تو اس کے بہت تھے لیکن حیدر بچپن کا بیحد قریبی دوست تھا بالکل بھائیوں جیسا پیار تھا دونوں میں ۔۔دونوں کے گھر والوں کے بھی آ پس میں بہت اچھے تعلقات تھے ۔۔
“بس ۔۔مصیبت میں پھنسا ہے آجکل ۔” کہتےہوے سر جھٹکا ۔۔”دھواں دھار عشق لڑا کے کزن سے انگجمنٹ کرتو بیٹھا لیکن اب اس کی فیانسی ذرا ذرا سی بات پے ناراض ہوکر پاگل بناتی ہے اسے ۔ ۔ابھی بھی کوئی جھگڑا ہوا ہے دونو ں کا ۔۔یہ کئی بار منا چکا لیکن ۔۔۔”
اس کے منہ بنا کر کہنے پر سہیل صاحب نے قہقہہ لگایا ۔۔۔
“میں نے تو اسے کل بھی جھاڑا ۔۔۔کیا ضرورت تھی یک طرفہ عشق لڑانے کی ؟اسی لئے وہ لڑکی نخرے دکھاتی ہے اب ۔۔ارینج میرج کررہا ہوتا تو یہ ایشوز تو نہ ہوتے ۔۔۔اب شادی کے بعد بھی یہ اسی طرح اس کے نخرے اٹھاتا رہے گا ۔۔ “
وہ ٹھیک ٹھاک تپا بیٹھا تھا ۔۔تب ہی بولتا چلا گیا ۔
“بر خور دار !!تم سے کس نے کہا کہ جو لوگ ارینج میرج کرتے ہیں وہ بیویوں کے نخرے نہیں اٹھاتے ؟” آئبرو اچکا تے محظوظ کن نظروں سے اس کے تپے تپے چہرے کو دیکھتے پوچھا
“آف کورس ۔۔۔لومیرج میں تو چلیں سجھ آتا ہے ارینج میرج میں کون اتنے نخرے اٹھا تا ہوگا؟” گاڑی سگنل پے روکتے کہا ۔۔
“ہاہ ” انہو ں نے گہری سانس خارج کی ۔۔۔”بیٹا جی!! آپ ابھی اس فیلڈ میں بالکل نا تجربہ کار ہیں ۔آپ بیوی نامی مخلوق کو ابھی جانتے ہی نہیں آپ کو نہیں پتا بیوی چاہے اپنی پسند سے لاؤ یا گھر والوں کی پسند سے یہ اچھے بھلے انسان کو ناک و چنے چبوا دیتی ہے انسان نا چاہتے ہوے بھی ان کے نخرے اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔۔” انہوں نے مسکراتی نظروں سے اس کے خو برو چہرے کو دیکھتےہوےکہا ۔
“ہوتے ہوں گے وہ کوئی ۔۔۔جو بیویوں کے نخرے اٹھاتے ہیں ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا ” بہت مغرور سا کچھ جتاتا سا انداز تھا ۔۔
“سب ہی ایسے ہوتے ہیں۔انفکٹ ایسا ہونا ہی پڑتا ہے ۔”سہیل صاحب نے لاپرواہی سے کہا
“ضروری نہیں سب ایسا کریں ۔”غازیان بضد تھا ۔
“چلو دیکھیں گے ۔۔” انہو ں نے بھی طنزیہ مسکراتے جیسے چلینج کیا تھا اسے ۔۔
“دیکھ لیجیے گا ۔۔”گاڑی آفس کے سامنے روکتے اس نے بھی چلینج قبول کرنے والے انداز میں کہا اور گاڑی کا انجن بند کیا ۔۔۔
سہیل صاحب لبوں پر محظوظ کن مسکراہٹ لئے ایک نظر اپنے اکڑو بیٹے پے ڈال کر گاڑی سے اتر گئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل صاحب کے ڈرائنگ روم میں اس وقت خوب رونق لگی تھی ۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی سہیل صاحب غازیان کے ساتھ راحیل صاحب کی پوری فمیلی کے لئے خوب سارے تحائف لےکر پہنچےتھے ۔آج ان کے چہرے کی رونق ہی الگ تھی ۔۔
سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس بے انتہا خوبرو ۔ اونچے لمبے مضبوط قد و قامت کے مالک غازیان کو دیکھ کر سب ہی بےحدخوش ہوے ۔۔۔اس وقت ڈرائنگ روم میں زینب کے علاوہ سب ہی موجود تھے اور غازیان کی غضب کی جازب نظراور پر وقار شخصیت سے مرعوب ہوے نظر آ رہے تھے ۔۔۔جب کہ وہ نارمل سا بیٹھا لبوں پے ہلکی سی مسکراہٹ لئے راحیل صاحب غزالہ صاحبہ اور زین کے چھوٹے چھوٹے سوالوں کے جواب دے رہا تھا ۔۔۔وہ لڑکپن سے ہی لوگوں کی توجہ جلد ہی اپنی طرف کھینچ لیتا تھا ۔۔۔اس کی شخصیت میں کچھ ایسی خاص بات تھی کہ لوگ اس سےفورأ مرعوب ہو جاتے تھے ۔۔جہاں جاتا ماحول پر چھاجاتا کچھ اسطرح کہ اس کے علاوہ بقیہ ساری چیزیں پس منظر میں چلی جاتیں ۔۔۔ا س لئے یہ چیزاس کے لئے کوئی نئی نہ تھی ۔۔
غازیان نے اپنے چچا کو آج کافی سال بعد دیکھا تھا ۔جب کہ زین سے وہ تین سال پہلےایئر پورٹ پر ملا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ سہیل صاحب بھی تھے ۔۔وہ لوگ لندن جبکہ زین دبئی آفیشل میٹنگ کے لئے جا رہا تھا ۔۔سہیل صاحب اور زین۔ ہی ایک دوسرے کو پہچانے اگر وہ اکیلا ہوتا تو زین کو پہچان بھی نہ پاتا ۔۔۔۔ایک تو شروع سے ہی وہ لوگ دوسرے شہر میں رہتے تھے ۔۔پھر چھٹیوں میں ملک سے باہر چلے جاتے ۔۔چچا کے گھر سے بھی کوئی ان کے گھر نہیں آتا تھا ۔۔۔اس کے بچپن میں کبھی دو چار دن کے لئے دادی ان کے گھر فیصل آباد رہنے آتی تھیں۔غازیان کو اپنی پروقار بے انتہا پیاری سی دادی بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔۔وہ اسے بہت مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں اور اپنے ہاتھ سے کھانا بھی کھلاتی تھیں ۔۔۔اسے یاد تھا ایک دفعہ اس نے ممی سے پوچھا تھا کہ وہ لوگ دادی سے ملنے چچا کے گھر کیوں نہیں جاتے ۔۔غازیان کی یادداشت میں آج بھی ممی کا جواب محفوظ تھا ۔۔۔”مجھے وہ عورت سخت نا پسند ہے ۔اور تمہاری دادی نے اسے ہمیشہ مجھ پر فوقیت دی ہے ۔۔۔میں اس کی شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتی ۔۔۔” “تمہاری دادی کو بے تحاشا بار کہا ہے کہ ہمارے ساتھ آ کر رہیں لیکن وہ اپنے چہیتے بیٹے اور بھانجی سے کسی طور دور نہیں رہ سکتیں ۔۔۔”
ابھی غزالہ صاحبہ کو دیکھ کر وہ ممی سے ان کی نفرت کو سوچ ر ہا تھا ۔۔۔اسے وہ ایک سیدھی سادھی خاتون لگی تھیں ۔۔نہ جانے ممی کیوں انہیں اتنا نا پسند کرتی تھیں۔ ۔۔؟خیر ہوگی کوئی وجہ ۔۔ اس نے اپنے خیالات جھٹکے اور سامنے متوجہ ہوا جہاں وہ خوبصورت سی لڑکی زویا اسے چاۓ پیش کر رہی تھی ۔۔۔چاۓ وہ بہت کم پیتا تھالیکن انکار کرنا اسے مناسب نہیں لگا اس لئے اپنی عادت کے برخلاف جاتے ہوے ۔۔۔کپ تھام گیا ۔۔۔
“بیٹا کچھ لو نا “۔۔۔غزالہ چچی نے ٹیبل پر سجے لوازمات کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔وہ بہت زیادہ ڈایٹ کونشس تھا اس طرح ہر وقت نہیں کھاتا تھا ۔۔۔اس لئے انھیں شائستگی سے انکار کر گیا۔۔۔۔
“یار یہ کباب تولے لو ۔۔” زین نےبے تکلفی سے کہتے ساتھ کباب کی پلیٹ اسے تھمایئ ۔۔”میری بیگم نے بناے ہیں یہ واحد ڈش ہے جو یہ اچھی بناتی ہیں ۔” زین نے مسکراہٹ دباتے کہا تو غازیان کہ لبوں پے بھی ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔جب کہ زین کی وائف نے اسے خفگی سے گھورا ۔۔۔
اسے یہ لوگ کافی سادہ مزاج اور ملن سار لگے تھے ۔۔۔ان کے انداز سے لگ ہی نہیں رہا تھا کے وہ لوگ اتنے سال ایک دوسرے سے نہیں ملے ۔۔
تب ہی دروازہ کھلا اور ایک انتہائی حسین دبلی پتلی دراز قدلڑکی سرخ اور سفید رنگ کے پرنٹڈ قمیض دوپٹے اور سفید ٹراوزر میں اندر چلی آئ ۔۔غازیان ایک لمحے کے لیے تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔وجہ ۔۔اس کی حد سے زیادہ خوبصورتی نہیں بلکہ اس کی دادی سے بے انتہا مشابہت تھی ۔۔ہو با ہو وہی شکل و صورت ۔۔آنکھیں ناک کچھ بھی تو مختلف نہ تھا ۔۔۔چہرے پے وہی ملاحت ۔۔۔۔اس کو دیکھ کر بے ساختہ غازیان کو خیال آیا کہ دادی بھی اپنی جوانی میں ایسی ہی خوبصورت دکھتی ہوں گی ۔۔بس اس کا قد دادی سے خاصا لمبا تھا ۔۔۔
“السلام علیکم بڑے ابا !!” اس نے سہیل صاحب کے پاس آ کر سلام کیا ۔۔
“وعلیکم السلام ۔۔کہاں تھی میری بیٹی ؟ آج تو نظر ہی نہیں آئیں ۔۔زویا سے بھی دو دفعہ پوچھا تمہارا ۔” سہیل صاحب نے محبت پاش لہجے میں کہتے ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس بیٹھا لیا ۔۔۔
“اچھا دیکھوتو میرے ساتھ غازیان بھی آیا ہے آج ۔۔” بڑے ابّا نے کہا تو اس نے چونک کر سائیڈ والے صوفے کی طرف دیکھا جس طرف ابھی تک اس کی نظر نہیں گئی تھی ۔۔۔جہاں وہ سیاہ شلوار قمیض کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کئے الٹے ہاتھ میں قیمتی گھڑی سجا ۓ ماتھے پر شان سے پڑے سیاہ بالوں اور گہری سیاہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ اپنی شاندار مردانہ وجاہت سے بھرپور شخصیت کے ساتھ ۔۔۔ایک شان سے براجمان زین کی کوئی بات سن رہا تھا۔ ۔۔
“السلام علیکم غازیان بھائی “۔۔۔قدرے ا ونچی آواز میں اسے سلام کیا
جس کا جواب اس نے سر کے اشارے سے دیا ۔۔اسی وقت زین کی کوئی کال آ گئی جسے سننے وہ با ہر چلا گیا ۔
“میں سو رہی تھی بڑے ابا۔۔ابھی زویا نے جگا کے آپ کے آ نے کا بتایا ۔۔آپ کو پتا ہے میری طبیعت خراب ہے۔۔” آہستہ سے کہا
“اوہ ۔۔کیا ہوا میری شہزادی کو ؟؟”سہیل صاحب نے فکر مندی سے پوچھا تو غازیان کی توجہ بھی اس کی طرف ہو گئی ۔۔”رات سے بخار ہے ۔”منہ بناتے ان کے شانے پر سر ٹکاتے کہا
“ہاں ۔۔ رات سے بخار ہے لیکن کوئی پرہیز احتیاط نہیں ۔۔اب موسم بدل رہا ہے لیکن اس لڑکی کو اتنی بری عادت ہے شام کو نہانے کی ۔۔۔ابھی بھی نہا کے آئ ہو نا تم ؟” غزالہ نے اسے لتاڑتے ہوے پوچھا ۔۔۔
“لیکن ٹھنڈے پانی سے تھوڑی نہائی ہوں۔” آہستہ سے منمنائی دیکھ لو ذرا اس کی ڈھٹائی ۔جتنا مرضی منع کر لو نہ تو یہ آدھی رات کو نہانا چھوڑتی ہےنا کھٹی چیزیں اچار۔ املی وغیرہ کھانا ۔۔اسی لئے آ ے دن گلہ خراب اور بخار ہوا رہتا ہے ۔۔”غزالہ خوب تپی بیٹھی تھیں ۔۔جب کہ اتنی عزت افزائی پر وہ بھی غازیان کے سامنے اس کا بخار سے سرخ ہوتا چہرہ کچھ اور سرخ ہو گیا ۔۔اس نے خفگی سے باپ کی طرف دیکھا تو وہ شانے اچکا گئے ۔۔۔ندا اور زویا بھی اپنی مسکراہٹ چھپا رہی تھیں ۔
“بیٹا جی !!اس بار آپ کی امی ٹھیک کہہ رہی ہیں میں ان کے ساتھ ہوں ۔”راحیل صاحب نے صاف ہری جھنڈی دکھائی ۔۔
“دیکھ رہے ہیں بڑے ابا۔۔۔اپنے بھائی بھابی کو ایک تو میری طبیعت اتنی خراب ہے اوپر سے یہ ڈانٹ رہی ہیں اور بابا بجاے میری سائیڈ لینے کے اپنی وائف کی سائیڈ لے رہے ہیں ۔”ہونٹ نکال کے گلوگیر لہجے میں کہتے سر ایک مرتبہ پھر سہیل صاحب کے شانے پے ٹکایا۔
غازیان نے دلچسپی سے اس لڑکی کا بچوں جیسا انداز اور اپنے باپ کا اس کے لئے التفات دیکھا۔۔
“اوں ہوں ۔۔۔راحیل ،غزالہ خبردار جو تم دونوں نے میری بچی کو ڈانٹااور راحیل تم ۔۔۔تم ہمیشہ زینب کی سائیڈ لو گے ۔” بڑے ابّا نے مصنوعی ڈانٹ پلائی ۔۔
“سہیل بھائی !!اسے اتنی سردی لگتی ہے ۔۔پھر بھی شام رات کو ضرور نہاتی ہے ۔”
“اف اللّه !!!یہ امی کیا میرے نہانے کا ٹوپک لے کر بیٹھ گئیں غازیان بھائی کے َسامنے ۔۔وہ پہلی دفعہ ہمارے گھر آ ے ہیں اور ہماری امی کا ٹوپک دیکھو۔۔۔ زویاپلیز۔۔۔ ٹوپک تو چینج کرواؤ یار ۔” زینب زویا کے کان میں بے بسی سے کراہی ۔جس کا چہرہ مسکراہٹ ضبط کرنے کے چکر میں لال ہو رہا تھا ۔۔۔جب کہ ندا کمرے سے باہر جاچکی تھی ۔۔زویا نے غازیان کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر تو مسکراہٹ نہ تھی لیکن اس کی کھنچائی پر آنکھیں مسکرا رہی تھیں ۔ وہ آنکھیں سکیڑے زینب کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔زینب کی تو ہمّت ہی نہ تھی کہ اس کی طرف دیکھتی ۔۔۔اس کا بس نا چل رہا تھا کہ پلک جھپکتے میں یہاں سے غائب ہو جائے ۔۔۔۔
اتنے میں اسے زور سےچھینک آئ ۔۔۔غزالہ صاحبہ جو کچھ بول رہی تھیں ۔۔۔ایک دم چپ ہو گئیں ۔۔۔زینب نے شکر کیا
اور صوفے سے اٹھ کر کافی ٹیبل تک آئ تا کہ ٹشو باکس سے ٹشو لے سکے ۔۔۔ٹیبل کے دوسری طرف غازیان بیٹھا تھا۔۔ابھی ٹشو باکس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک دفعہ پھر اسے زور دار چھینک آئ ۔۔غازیان نے جلدی سے ٹشو نکال کر اسکی طرف بڑھایا جو با مشکل اس سے تین فٹ کے فاصلے پر تھی ۔عین اسی وقت زینب نے بھی غازیان کی طرف دیکھا ۔۔۔نظروں کا زبردست تصادم ہوا ۔۔غازیان کو لگا اس کا دل ایک پل کے لیے تھما ہے ۔۔چھینک کے باعث سر پر اوڑھا جارجٹ کا سرخ دوپٹہ سرک کر نیچےہو گیا تھا ۔۔۔جس کے نیچے سے لمبے کالے بالکل سیدھے بے حد چمکدارہلکے نم بال جھٹکا کھا کر کچھ آگے سینے پر بکھر گئے تھے ۔۔۔ملائی جیسا بے داغ چہرہ ۔۔جھیل جیسی گہری ہلکی سبز آنکھیں جن میں ہلکا سا پانی ٹھہرا تھا اور گلابی ڈورے تیر رہے تھے ۔۔بڑی بڑی آنکھوں پر سایہ فگن سیاہ گھنیری خم دار پلکیں ۔چھوٹی پتلی سی کھڑی ناک جو فلو کی وجہ سے ہلکی سی سرخ ہو رہی تھی ۔۔گلابی خوبصورت جان لیوا کٹاؤ والے لب۔۔۔غازیان کی نگاہ بلا اختیار پھسلتی چلی گئی۔۔۔خوبصورت شفاف بے داغ لمبی سی گردن اور گردن کے اختتام پر ذرا سی بائیں جانب اوپر نیچے قدرے موٹے ابھرے ہوےدو سیاہ تل۔۔۔ کچھ اس طرح کہ ایک گردن کے اختتام پر جب کہ دوسر ا اس سے ذرا سا نیچے کچھ اور بائیں جانب ابھری ہوئ ہنسلی کی ہڈی پر موجود تھا ۔۔۔غازیان کو یوں لگا گویا خوبصورت شفاف بےداغ گردن پر ” دو”پہرے دار تعینات ہوں۔ ۔۔۔اس نے بہت مشکل سے نگاہ چرائی ۔۔۔
لمحہ بھر کی بات تھی لیکن اسے لگا پہلو میں موجود دل بڑی زور سے دھڑکا ہے ۔۔ ۔ وہ جو دن رات حسن میں گھرا رہتا تھا ۔۔جس کہ حلقہ احباب میں ایک سے ایک حسین چہرہ موجود تھا لیکن کبھی دل و نظر اس طرح بے اختیار نہیں ہوۓتھے ۔۔۔جیسےاس وقت ۔۔۔
زینب اس کے ہاتھ سے ٹشو لے کر تھینکس کہہ کر پلٹ چکی تھی ۔۔غازیان جیسے ایک دم ہوش میں آیا اور فورأ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
“میں چلتا ہوں اب ۔۔” وہ جلدی سے بولا ۔۔۔
“ارے کیوں بیٹا!! بیٹھو نا کھانا کھا کر جانا ۔۔۔” راحیل صاحب نے اس کے اسطرح اچانک اٹھنے پر کہا غزالہ صاحبہ نے بھی اصرار کیا ۔۔۔زین جو ابھی کمرے میں واپس آیا تھا اس نے بھی کافی روکا لیکن وہ نہ مانا ۔۔
“پھر کبھی سہی ۔۔ابھی میری ایک امپورٹنٹ میٹنگ ہے مجھےوہاں پہنچنا ہے ۔” اپنے ازلی دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوے راحیل صاحب اور زین سے مصافحہ کیا۔۔۔۔
“ڈیڈ میں صابر بھائی (ڈرائیور )کو کال کر رہا ہوں وہ آ جائیں گے آپ کو لینے۔” سہیل صاحب سے کہتے ہوے اس ساحرہ پے ایک بھی نظر اور ڈالے بغیر باہر نکل گیا۔۔
“زینب ،منیب کا فون ہے ۔۔تمہاری طبعیت پوچھ رہا ہے آ کر بات کر لو ۔۔”دروازے سے نکلتے ہوے ندا کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔