میرا دل تیرا مسکن

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 7

وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے سڑک پر بلا مقصد گاڑی دوڑا رہا تھا ۔۔اس کی میٹنگ رات دس بجے تھی جب کہ ابھی صرف آٹھ بجے تھے ۔۔عجیب سی بے چینی نے اس کے گرد احاطہ کیا ہوا تھا ۔۔وہ چاہ کر بھی اس ساحرہ کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہا تھا۔۔
ایسا نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی زینب جیسی حسین لڑکی دیکھی ہی نا تھی ۔۔اللّه تعالیٰ نے اس کے خاندان کو بڑی فیاضی سے حسن کی دولت سے نوازا تھا۔ ۔۔اس کے خاندان میں ہی ایک سے بڑھ کرایک حسین چہرہ موجود تھا۔۔وہ شرو ع سے ہی مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھا اور ایک آزاد ماحول میں پلا بڑھا تھا ۔۔۔۔ اس کے حلقہ احباب میں لڑکیاں بھی شامل رہی تھیں جو اس کی شاندار پرسنیلیٹی سے متاثر ہو کر اس کی ایک نظر التفات کی منتظر رہتی تھیں ۔۔لیکن وہ صنف نازک کے ساتھ ہمیشہ ایک خاص حد میں رہنے کا قائل تھا ،کبھی ایسا بے اختیار نہ ہوا تھا ۔ہمیشہ اپنی نظروں کو بھی قابو میں رکھا تھا۔کبھی اپنی نگاہ کو بھی بھٹکنے نہ دیا تھا۔ ۔۔مگر آج ۔۔۔
“شاید اس لڑکی کی دادی سے حد سے زیادہ مشابہت نے مجھے اس کی طرف اٹریکٹ کردیا اور میں ۔۔۔۔ہاں یقیناً یہی بات ہے ورنہ۔۔۔اب ایسی بھی کوئی حور پری نہیں ۔”
اس نے سر جھٹکتے خود کو باور کروایا۔ بلآخرآدھے گھنٹے میں وہ اپنے آپ کو کوئی جواز دینے میں کامیاب ہوا تھا ۔اس نے گہری سانس خارج کر کے گاڑی کی اسپیڈ بڑھادی اور موبائل اٹھا کر کال ملائی ۔۔
“کہاں ہے تو ؟”حیدر کے ہیلو کے جواب میں پوچھا
“گھر پر ۔”اس نے جواب دیا
“ریڈی ہو جا میں دس منٹ میں پک کرنے آ رہا ہوں تجھے ۔” کہہ کر بغیر اس کی سنے فون کاٹ دیا ۔
اس وقت اس صورت حال سے نکلنے کے لئے دھیان بٹانا ضروری تھا اس لئے بہتر ہے حیدر کے ساتھ ٹائم گزارا جائے ۔۔اس نے سگنل کی سرخ بتی پر نظریں جما تے ہوے سوچا ۔۔اچانک چند لمحوں بعدآس پاس کا سارا منظر تحلیل ہوگیا اور سرخ بتی کے درمیان میں بس ۔۔ موٹے موٹے ابھرے ہوے “دو تل” رہ گئے ۔
غازیان نے بلا اختیار اپنے ارد گرد دیکھا ۔۔۔
“وہاٹ ربش ۔۔”اپنے دل میں پیدا ہونے والی خواہش پر زور سے سر جھٹک کر دانت پیستے خود کو سرزنش کیا اور سگنل گرین ہوتے ہی تیزی سے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ دونوں کچن میں ندا بھابی کے ساتھ ڈنر کی تیاری کروا رہی تھیں ۔ زویامسلسل غازیان کی تعریفوں میں رطب السان تھی ۔ جس کی تائید زینب اور ندا بھی گاہے بگاہے کر رہی تھیں ۔
“زینب!! سلاد بنا لیا توسب کو کھانے کے لئے بلالو میں اور زویا ٹیبل لگا لیتے ہیں ۔”
ندا نے سالن کا چولہا بند کرتے ہوے زینب سے کہا ۔۔۔جس کا چہرہ ہلکے ہلکے بخار کی تمازت سے تپ رہا تھا۔
وہ سر ہلاتی باہر چلی گئی ۔۔ڈرائنگ روم میں آئ تو خلاف توقع سہیل صاحب نہ تھے ۔۔جب کہ زین راحیل صاحب کے ساتھ بیٹھا ہلکی آواز میں ان سے کچھ بات کر رہا تھا ۔۔
“بڑے ابّا کہاں ہیں ۔۔؟کھانا تیار ہوگیا ۔۔” اس نے غزالہ صاحبہ کی طرف دیکھتے پوچھا ۔۔کمرے کا ماحول کچھ عجیب سا لگا ۔۔راحیل صاحب کاچہرہ پریشان سا جب کہ غزالہ اور زین حد سے زیادہ سنجیدہ لگے ۔۔
“چلے گئے ۔۔انہیں کچھ کام تھا ۔” غزالہ کا ا نداز سپاٹ سا تھا ۔۔
“چلے گئے ۔۔؟”زینب نے حیرت سے دوہرایا ۔۔
“اتنی جلدی کیوں چلے گئے ؟پہلے غازیان بھائی اچانک چلے گئے اب بڑے ابّا ۔۔یہ آج ہو کیا رہا ہے ؟” اس نے تبصرہ کیا ۔
“کچھ نہیں ہو رہا ۔۔چلو تم کھانا لگاؤ آ رہے ہیں ہم ۔۔” غزالہ نے سخت انداز میں کہا تو وہ کندھے اچکاتی چلی گئی ۔
کھانے کی میز پر بھی خلاف معمول خاموشی تھی ۔۔زینب نے تو بخار کی وجہ سے براۓنام کھایا ۔سہیل صاحب بھی دو چار نوالے لے کر اٹھ گئے ۔غزالہ اور زین بھی بے دلی سے کھا رہے تھے ۔سب کو ہی محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی بات ہوئی ہے لیکن ان تینوں کی سنجیدگی دیکھ کر لڑکیوں کی ہمّت نہ ہوئی کہ کچھ پوچھ سکیں ۔۔
کھانے سے فارغ ہو کر زویا برتن دھونے لگی ۔۔زینب کچن سمیٹ رہی تھی ۔۔ندا علی کو سلانے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔۔راحیل صاحب کمرے میں جا چکے تھے ۔۔ٹی وی چل رہا تھا ۔۔۔ غزالہ صاحبہ اور زین کبھی ٹی وی پر نظر ڈال لیتے تو کبھی آہستہ آواز میں تھوڑی دیر بعد آپس میں کوئی بات کر نے لگتے ۔۔صاف نظر آ رہا تھا کہ دونوں میں سے کسی کی توجہ بھی ٹی وی کی طرف نہیں تھی۔
“تم جاؤ زینی ۔۔دوائی کھا کے ریسٹ کرو آج چاۓ میں بنا لوں گی ۔”زویا نے برتن دھوتے ہوے کہا
“ٹھیک ہے ۔۔۔میں لیٹنے جا رہی ہوں ۔۔سر میں بہت درد ہو رہا ہے میری چاۓ کمرے میں لے آنا۔۔”وہ کہتے ہوے کچن سے نکل گئی۔
کمرے میں آ کر اس نے عشاء کی نماز پڑھی اور دوائی کھا کر ابھی لیٹی ہی تھی کہ دھڑام سے دروازہ کھول کر زویا اندر داخل ہوئی ۔۔وہ بری طرح رو رہی تھی ۔۔
زینب ایک دم دہل کر اٹھ کے بیٹھی ۔۔۔
“کیا ہوا زویا ۔۔؟ تم رو کیوں رہی ہو ۔۔؟ بابا ٹھیک ہیں۔۔ ؟” فق ہوتے چہرے کے ساتھ کئی سوال اکھٹے کر گئی ۔
زویا بغیر کچھ بولے اس کے گلے لگ کے رونے لگی ۔۔۔
“زویا!! کچھ بتاؤ تو سہی ۔۔میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی آج ۔۔۔بابا کو کچھ ہوا ہے کیا؟” اس بار آنکھوں میں نمی لئے بے حد گھبراۓ لہجے میں پوچھا
راحیل صاحب کو آٹھ ماہ پہلے ہلکا سا انجائنا کا اٹیک ہوا تھا ۔۔۔جس کے بعد ڈاکٹرز نے بہت احتیاط بتائی تھی گو کہ وہ بالکل ٹھیک تھے اب لیکن سب گھر والے ان کا خاص خیال رکھتے تھے ۔۔اسی وجہ سے اس وقت فورأزینب کادھیان ان کی طرف گیا ۔
“ہٹوتم !!! میں جا کے دیکھتی ہوں کیا ہوا ہے۔ ” زویا کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر اسے پیچھے ہٹا کے اٹھی ۔
زویا نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا اور روتے ہوے بولی ۔
“سب ۔۔ٹھ ۔۔ٹھیک … ہیں ۔۔بابا بھ ۔۔”
“پھر تم رو کیوں رہی ہو ۔۔؟” زینب کی سانس میں سانس آئ ۔۔تو جلدی سے زویا کی بات بیچ میں کاٹ گئی ۔۔
“اچھا پہلے پانی پیو ۔۔۔پھر بتاؤ ۔۔اتنی بری طرح کیوں رو رہی ہو ۔۔” پانی کا گلاس بھر کر اس کے لبوں سے لگایا اور آنسو صاف کئے ۔۔
“اب بتاؤ ۔۔کیا بات ہے؟” پانی پی کر زویا کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو پوچھا
“بڑےابّا نے غازیان بھائی کے لیے میرا رشتہ مانگا ہے ۔۔” زویا نے روتے بلکتے ہوے بتایا
“کیا ۔۔۔؟ تمہیں کیسے پتا چلا ؟زینب نے حیرت سے پوچھا
“ابھی برتن دھو کر بابا کے کمرے کی طرف گئی تا کہ زین بھائی سے پوچھ لوں وہ کافی پیئں گے یا چاۓ ؟ تو اندر سے باتوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔میں۔۔۔میں را حم کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتی زینب ۔۔” تفصیل بتاتے وہ بری طرح رو دی ۔۔۔
“انشااللہ ۔۔سب ٹھیک ہوگا تم حوصلہ رکھو ۔” اسے تسلی دی ساتھ ہی پوچھا ۔۔
“پوری بات تو بتاؤ ۔۔۔ کیا بات ہو رہی تھی ؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو کیسے آ گیا ؟ آج تو بزی تھا تو ؟”حیدر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا ۔
“میٹنگ میں کچھ ٹائم تھا تو سوچا تیرے ساتھ ڈنر کر لوں ۔۔” اس نے احتیاط سے موڑ کاٹتے ہوے کہا ۔
“ہوں ۔۔اچھا یہ بتا، تو اتنا تیار شیار ہو کر دولہا بن کر گیا کہاں تھا ۔۔؟”
معنی خیزی سے آنکھیں گھماتے ہوۓ پوچھا
“ڈیڈ کے ساتھ ا یک جگہ گیا تھا۔۔” پہلے اسے گھوری سے نوازا پھر بتایا ..
جب کہ اس جگہ کا ذکر کرتے ہی ایک معصوم سا چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم گیا تھا ۔۔۔غازیان نے سر جھٹکا اور گاڑی اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ کے سامنے پارک کی جہاں وہ دونوں اکثر آتے رہتے تھے۔
“کیا بات ہے؟ آج تو کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے ؟”
ویٹر کو اپنا آرڈر لکھوا نے کے بعد حیدر نے سیگریٹ سلگاتے ہوے کہا ۔۔
“کیا مطلب ؟ کیسا لگ رہا ہوں میں ؟” اس نے آئ برو اچکا کر پوچھتے اس کے ہاتھ سے سیگریٹ چھین کر کش لیا
“قسم سے پکا عاشق لگ رہا ہے ۔۔۔گم صم سا کھویا کھویا اداس ۔۔ سیگریٹ پھونکتا ہوا ۔۔۔تو جو بمشکل کبھی سیگریٹ کے ایک دو کش سے زیادہ نہیں لیتا آج میرا پورا سیگریٹ پھونک گیا ۔۔”
حیدر نے ٹیبل پے آگے کی طرف جھکتے ہوےشرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوے تفصیلی تجزیہ پیش کیا ۔۔۔
“بکواس بند کر اپنی ۔۔۔صبح تو ،تواپنی لو سٹوری کے فلاپ ہوجانے کا ماتم کر رہا تھا ۔اب میں یہاں تیرے مسلے کا حل پیش کرنے آیا ہوں لیکن تو میری ٹانگ کھینچنے لگ گیا۔۔۔” دانت پیستے اسے لتاڑا جب کہ دل میں اسے بیشمار گالیوں سے نوازا تھا ۔۔۔یہ بیسٹ فرینڈز بھی نا ۔۔۔ پورے کمینے ہوتے ہیں۔۔ہر رگ سے واقف
حیدر ایک دم سیدھا ہو بیٹھا ۔۔” بتا کیا سوچا ہے تو نے؟” جلدی سے پوچھا ۔۔
“نہیں۔ اب نہیں بتا رہا تو اپنی بکواس کیے جا بس ۔۔” وہ اکڑا ۔
“یار !!مذاق کر رہا تھا ۔۔تو ،تو برا ہی مان گیا۔” وہ منّت پے اتر آیا ۔۔۔
جانتا تھا اس نے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا ۔۔بلا کا زہین جو تھا کمینہ ۔۔
غازیان نے حسب عادت آنکھیں چھوٹی کر کےچہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجا کر اسے دیکھتے کہا۔۔۔ “اب آیا نا تیری دم پے پاؤں ۔۔۔پہلے بتا ۔۔اب کریگا بکواس ؟”
“اتنا غرور نہ کر تیرا وقت بھی آنا ہے ۔۔۔جب تیری بیوی تیرا ناک میں دم کریگی تو، تو میرے پاس ہی آ ۓگا اپنے دکھڑے رونے ۔” ویٹر کھانا لے آیا تھا ۔۔۔اس کے کھانا سرو کر کے جانے کے بعد حیدر خوب بھڑکا ۔
“ہاہ “میں غازیان احمد شاہ ہوں کسی کی اتنی مجال نہیں کہ میری ناک میں دم کرے ۔۔” لزانیہ کا بایٹ لیتے ہوے باور کروایا ۔
“چل اب بک بھی دے کیا کہہ رہا تھا ۔۔” تھوڑی دیر تک جب وہ خاموشی سے کھانا کھاتا رہا تو حیدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تب ہی شدید طیش کے عالم میں بھڑکتے ہوے بولا ۔۔۔ساتھ ہی فرائیڈ فش پلیٹ میں نکالی ۔
“سمپل سا سولیوشن ہے ” ۔۔”جتنی جلدی ہو سکے شادی کر لے ۔۔۔۔”
لیمو نیڈ کا سپ لیتے سکون سے کہا ۔۔
“ابھی ایک دوسرے سے دور ہو الگ الگ رہتے ہو ۔۔۔کوئی بات ہو جائے تو اسے سمجھانا ہینڈل کرنا مشکل ہوتا ہے تیرے لئے۔۔۔
شادی کے بعد ایک ساتھ رہو گے توجتنا تو کمینہ ہےنا اسے پٹانا تیرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا ۔۔”معنی خیز ی سے آنکھیں گھماتے چٹکی بجاتے ہوے کہا ۔
“آئیڈیا تو بہت اچھا ہےیار ۔۔” حیدر قائل ہوتے پرجوش ہوا
“لیکن میں ابّا سے اپنی شادی کی بات کروں گا نا ۔۔تو وہ میری کھال کھینچ دیں گے ان کی ہٹلر کی فیمیل ورژن بھانجی نے شرط ہی یہی رکھی تھی کہ اس کی پڑھائی ختم ہونے سے پہلے شادی کا ذکر بھی نہیں کیا جاےگا۔ ” حیدر نے منہ بگاڑ تے مایوس کن لہجے میں کہا ۔۔۔
“ابے بندر” ۔۔۔تجھ سے کس نے کہا ہے انکل سے تو شادی کی بات کریگا ” ٹشو سے منہ صاف کرتے استفسار کیا ۔
“پھر کون بات کریگا ۔۔؟ تو ۔۔؟” وہ حیرت سے مستفسر ہوا ۔
“میرے ڈیڈ ۔۔” مسکراتی آنکھوں سے کہا ۔۔تو حیدر خوشی سے جھوم اٹھا ۔۔۔
“دیکھا ۔۔میں کہتا ہوں نا بہت کتا دماغ پایا ہے تو نے ۔۔” حیدر کی زبان پھر چلی ۔۔۔
“زیادہ بکواس کی تو میرے ڈیڈ ،انکل سے بات نہیں کریں گے پھر ساری زندگی بیٹھا اپنی” اسے” مناتا رہیو۔ ” دھمکی دی گئی تھی ۔۔
“یہ تو نے’اس,اس’ کیا لگا رکھی ہے ؟ سیدھی طرح بھابی بول ۔۔۔گھٹیا ۔۔۔۔”
حیدر بھی تپا ۔
“پہلے تو بھابی بناتو لے پھر میں بھابی بول بھی دوں گا ۔۔”۔چیلنجنگ انداز میں کہتے ویٹر کو بل پے کرتے ریسٹورنٹ سے با ہر کی جانب چل دیا ۔۔۔جلتا کلستا حیدر بھی ساتھ ہو لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(راحیل صاحب کے ڈرائنگ روم کا منظر )
غازیان کے جانے کے کچھ دیر کے بعد جب کمرے میں بس راحیل صاحب ، غزالہ صاحبہ اور زین رہ گئے ۔۔۔تو سہیل صاحب اپنے مدعے کی طرف آ ۓ ۔۔۔
“تم لوگوں کو غازیان کیسا لگا ۔۔؟” انہوں نے گلا کھنکھار کے بات شروع کی ۔۔
“ماشاءالله بھائی !!! میرا تو دل خوش ہو گیا دیکھ کر۔ اللّه پاک مزید کامیابی عطاء فرماۓ۔۔۔” غزالہ صاحبہ نے محبت سے کہا تو زین نے بھی تائید میں سر ہلایا ۔۔۔
“مجھے تو آپ کی جوانی کی جھلک نظر آئ اس میں ۔۔۔آپ کی طرح ہی دنیا کو اپنی مٹھی میں کر لینے کا جنون ۔۔ویسی ہی ذہانت سے بھرپور چمکدار آنکھیں ۔۔لیکن بس ایک فرق ہے ۔۔”۔راحیل صاحب نے بات درمیان میں ادھوری چھوڑی تو سہیل بھائی نے فورا پوچھا ۔۔۔”وہ کیا ۔۔؟”
“غازیان آپ سے زیادہ ہینڈ سم ہے ۔آپ جوانی میں اتنے خوبرو نہیں تھے ۔۔”راحیل صاحب نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ کہا تو سب ہی ہنس پڑے ۔۔
“یہ تو تم نے بالکل ٹھیک کہا راحیل ۔۔غازیان نا صرف مجھ سے بلکہ اپنے دونو ں بھائیوں سے بھی زیادہ ہنڈسم ہے ماشاءالله۔۔”
“آج میں یہاں تم لوگوں سے ایک خاص بات کرنے آیا ہوں۔ ۔۔دراصل میں بہت دنو ں سے یہ بات کرنا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا پہلے تم لوگ غازیان سے مل لو پھر ہی یہ مناسب رہے گا ۔”سہیل صاحب نے تمہید باندھی تو تینوں ہی ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو گئے ۔۔
“راحیل میرے بھائی !!میں آج غازیان کے لئے تمہاری زویا کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔ “
جیسے ہی انہوں نے کہا ۔۔۔چند لمحو ں کے لئے تینو ں کو ہی سمجھ نہیں آیا کیا رد عمل دیں۔ ۔ جب کہ سہیل صاحب منتظر نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے ۔۔
سب سے پہلے راحیل صاحب نے ہی خاموشی توڑی ۔۔۔”بھائی آپ کی اور ہماری حثیت میں زمین ۔۔”
“راحیل کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے میں پھر پچھتاوے میں گھر جاؤں ۔۔”سہیل صاحب نے تیزی سے کہتے ہوے درمیان میں ہی ان کی بات قطع کردی ۔۔
“اگر کوئی اور اعتراض ہے تو بیشک کہو لیکن یہ بات نا کرنا ۔”
“نہیں۔۔ اور کیا اعتراض ۔۔۔غازیان ماشاءالله لاکھوں میں ۔۔”
“آپ بھائی صاحب کو صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے ۔۔۔؟”
غزالہ صاحبہ جو بے چینی سے پہلو بدل رہی تھیں ۔۔ایک دم سے درمیان میں راحیل صاحب کی بات کاٹتی ہوئی بولیں ۔۔
سہیل صاحب نے چونک کر انھیں دیکھا ۔۔۔”کیا بات ہے غزالہ ؟ تم بتاؤ ؟”
“سہیل بھائی دراصل زویا کا رشتہ تو کئی سال سے روبینہ آپا کے بیٹے کے ساتھ طے ہے ۔۔اب وہ ماشاءالله تعلیم مکمل کرکے ڈاکٹر بن گیا ہے تو اگلے مہینے آپا کا نکاح کرنے کے لئےپاکستان آنے کا ارادہ ہے۔۔ ۔پھر رخصتی زویا کے کاغذات بننے کے بعد ہوگی۔ ” غزالہ صاحبہ نے تفصیل بتائی تو ۔۔۔
“چلو اچھی بات ہے ۔۔یہ تو نصیب کے کھیل ہیں۔ ۔اللّه تعالیٰ بچی کے نصیب اچھے کرے ۔۔” سہیل صاحب بہت دلگرفتہ لہجے میں بولے ۔
” تم لوگوں نے ذکر بھی نہیں کیا بچی کے رشتے کے متعلق ۔” بلا اختیار گلہ کر بیٹھے ۔۔
“بڑے ابّا !!آپ سے کبھی اس موضوع پر بات نہیں ہوئی اسی لئےبس ۔ ” زین نے جلدی سے کہا ۔۔۔
“ہممم ۔۔۔چلو اب میں چلتا ہوں” ۔۔۔کہتے ہوے اٹھے تو راحیل صاحب ایک دم تڑپ کر اٹھے ۔۔”بھائی ایسے ناراض ہو کر نا جائیں ۔۔”سہیل صاحب کے ہاتھ پکڑ کر بولے
“میں ناراض ہو کر نہیں جارہا راحیل ۔۔۔جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اس میں کسی سے کیا ناراضگی ” راحیل صاحب کا شانہ تھپکتے کہا ۔۔”میں پھر آجاؤں گا لیکن آج نہیں رکوں گا ۔” غزالہ صاحبہ اور زین نے بھی روکا لیکن وہ نہیں رکے اور باہر نکلتے چلے گئے جہاں انکا ڈرائیور ان کا منتظر تھا ۔
ان کے جاتے ہی راحیل صاحب مضمحل سے صوفے پر ڈھے گئے ۔۔۔۔
“آج۔ میرا بھائی مجھ سے ناراض ہو کے گیا ہے ۔۔”گلوگیر لہجے میں بولے ۔۔
” بابا !!کیا ہو گیا آپ کو ؟ سنبھالیں خود کو ۔۔” زین نے فورا پاس بیٹھ کر تسلی دی ۔۔غزالہ نے بھی پانی کا گلاس بھر کر پکڑایا ۔۔
“جب میں اپنے طریقے سے بات کر رہا تھا تو تمہیں بڑ ی جلدی پڑی تھی “صاف صاف” بات کرنے کی ۔۔” وہ غزالہ صاحبہ کا ہاتھ جھٹک کر صاف صاف پر زور دیتے بگڑے تیور سے بولے
غزالہ صاحبہ تو ان کے انداز دیکھ کر حیران رہ گئیں ۔۔۔
“تو کیا غلط کیا میں نے ۔۔؟جب زویا کا رشتہ طے ہے تو کیا ضرورت ہے گھما پھرا کر بات کرنے کی۔؟” آپ تو گول مول بات کر رہے تھے ۔۔
“تو تم نے ایک لمحہ لگاے بغیر صاف جواب دے کر بہت اچھا کیا ؟” انہوں نے تیز لہجے میں کہا ۔۔۔غزالہ تو بس انھیں دیکھ کر رہ گئیں ۔۔بھائی کے لئے اتنی حساسیت انھیں ذرا اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔۔
“بابا !!میرا خیال ہے ۔۔امی نے ٹھیک کیا “
“اب زویا کا تو رشتہ طے ہے اگلے مہینے انشااللہ نکاح ہو جاےگا ۔پھر بات لٹکانے کا کیا فائدہ ۔۔۔”زین نے کہا ۔
“ہاں برخوردار !! تمہاری امی نے پہلے کبھی کچھ غلط کیا ہے جو اب غلط کریں گی ۔۔۔یہ تو ہمیشہ ٹھیک ہی کرتی ہیں ۔۔؟ راحیل صاحب نے خونخوار نظروں سے غزالہ صاحبہ کو دیکھتے ہوے کہا
“میرا بھائی اتنے برسوں بعد ملا اور ناراض ہو گیا ۔۔جاتے جاتےوہ گلہ بھی کر کے گئے ہیں کہ رشتہ طے ہونے کا انھیں بتایا بھی نہیں ۔۔” ان کا قلق کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔
ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن تو ہوے ہیں آپ کے بھائی صاحبہ کو “ہماری یاد آ ے ۔۔اب اتنی جلدی انھیں گزشتہ تمام برسوں کی رپورٹ تو پیش نہیں کی جا سکتی ۔۔”غزالہ صاحب نے بھرپور طنز کیا
“تمہیں جو تکلیف ہے ۔۔۔اچھی طرح جانتا ہوں میں۔ ۔تمہیں برداشت ہی نہیں ہو رہا میرے بھائی کا مجھ سے ملنا ۔۔” راحیل صاحب نے الزام تراشی کی حد کر دی۔۔
“آپ کیا چاہ رہے ہیں ۔۔؟ اپنے بھانجے سے طے ہوا سالو ں پرانا رشتہ ختم کر کے آپ کے امیر کبیر بھتیجے سے بیاہ دوں بیٹی؟ ویسے آپ کے ہاں تو پیسوں کی بنیاد پے رشتے ناتے توڑ دینا عام بات ہے۔” غزالہ صاحبہ نے تلملا کر بھرپور جوابی کاروائی کی ۔۔
“بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔” راحیل صاحب دھاڑ ے
جب کہ زین حیرت سے باپ کا یہ روپ دیکھ رہا تھا ۔۔اس نے کبھی بھی راحیل صاحب کو اس طرح غصہ کرتے یا غزالہ سے اس لہجے بات کرتے ہوے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔وہ ایک نرم مزاج اور شائستہ طبیعت کے انسان تھے ۔۔
اس نے بڑ ی مشکل سے راحیل صاحب کو ٹھنڈا کیا غزالہ صاحبہ کو بھی آنکھوں کے اشارے سے چپ رہنے کا کہا ۔۔۔
اسی وقت زینب کھانے کے لئے بلانے آئ تو سب خود کو نارمل ظاہر کرنے لگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ پی سی میں موجود تھا ۔۔۔اس کی ایک معروف نیوز چینل کے پروگرام پروڈیوسر اور اسکی ٹیم کے ساتھ میٹنگ تھی ۔۔۔وہ بزنس سے متلعق ایک ہفتہ وار پروگرام شرو ع کرنا چاہتے تھے جس میں صاحب ثروت نوجوانو ں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور نئی صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جائے تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری پر قابو پایا جا سکے ۔اس وقت غازیان بزنس کی دنیا پر چھایا ہوا تھا ۔وہ کامیابی کے ساتھ نا صرف پاکستان میں بلکہ کئی بیرون ممالک میں بھی بزنس کر رہا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ بلا کا ہینڈسم۔ پروقار اور پر ا عتماد بھی تھا اس لئے وہ انھیں اپنے پروگرام کے لئے نہایت موزوں لگا ۔
غازیان کو بھی پروگرام کا موضوع انٹرسٹنگ لگا ۔۔۔وہ بھی اپنے ملک کے نوجوانو ں کو گائیڈ کرنا چاہتا تھا ۔محنت کرنے کی لگن جو مفقود ہوتی جا رہی ہے اسے ابھارنا چاہتا تھا ۔۔۔اس لئے گھنٹہ بھر کی میٹنگ کامیاب ٹھہری ۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تین مہینے بعد ہونا تھا ۔اس عرصے میں پروگرام کے فورمیٹ۔ ٹیم ۔میزبان کی سلیکشن وغیرہ کے مراحل طے پانے تھے ۔
رات سوا گیارہ بجے جب وہ واپس گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا تواس کا دماغ میٹنگ اور ٹی وی پروگرام کے گرد ہی گھوم رہا تھا۔ ۔جب ہی اچانک ایک مرتبہ پھرآنکھوں کے سامنے موجود ونڈ ا سکرین پر وہی شام والا منظر نمودار ہو گیا ۔۔۔
“اوہ ناٹ اگین ۔۔” وہ کرا ہ کے رہ گیا ۔۔
اس نے سرجھٹک کر دانستہ اپنی توجہ ونڈ اسکرین کے پار دوڑتے بھاگتے بےھنگم ٹریفک پر مرکوز کر دی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں راحم کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتی زینب ۔۔” وہ بری طرح رو دی ۔۔۔
“انشااللہ سب ٹھیک ہوگا تم حوصلہ رکھو۔پوری بات بتاؤ ۔۔۔کیا بات ہو رہی تھی ؟”اسے تسلی دی ساتھ ہی پوچھا تو وہ آہستہ سے بتانے لگی ۔
“امی اور بابا کی بحث ہو رہی تھی ۔۔”
“بابا کہہ رہے تھے انہیں بہت دکھ ہے جس طرح شکستہ دل آج بڑے ابّا گئے ہیں اور یہ کہ بڑے ابّا نے بھائی سے رشتہ مضبوط کرنے کی کوشش کی جسے ہم لوگوں نے ٹھکرا دیا .”
“جب کہ امی کا موقف تھا کہ جب میرا رشتہ پہلے سے طے ہے تو وہ بڑے ابّا کی خواہش بھلا کیسے پوری کر سکتے تھے ۔۔۔”
زویا نے بہت مشکل سے روتے ہوۓ سسکیاں لیتے ہوۓبات پوری کی ۔۔
“زویا میری جان !! اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ بڑے ابّا کو انکارکردیا گیا ہے ۔۔پھر تم خود کو رو رو کر کیوں ہلکان کر رہی ہو ۔۔۔؟”اس نے محبت سے گلے لگاتے ڈھارس بندھائ
“مجھے ڈر لگ رہا ہے زینب ۔۔۔کہیں بابا ،بڑے ابّا کی خواہش ۔۔۔”
وہ بات بھی پوری نہ کر سکی اورایک مرتبہ پھر رو دی ۔۔۔”نہیں تم تسلی رکھو بابا جیسا اصول پسند آدمی ایسا کبھی نہیں کریگا ۔۔۔ابھی انھیں وقتی صدمہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں بابا کے لئے اپنے خونی رشتے بہت اہم ہیں ۔۔بس ان سے یہ برداشت نہیں ہو پا رہا کہ وہ بڑے ابّا کی خواھش کا احترام نہ کر سکے۔ تم دیکھنا دو تین دن میں سب ٹھیک ہوجاےگا انشااللہ ۔” اس نے زویا کو رسان سے سمجھایا تو زویا کو بھی کچھ تسلی ہوئی ۔۔۔
“بھلے راحم ، غازیان بھائی کی طرح بے تحاشا امیر نہیں ہینڈسم بھی ان سے کم ہی ہوں گے لیکن پھر بھی میرے دل میں بس وہی ہیں۔ ان کے علاوہ میرا نام کسی اور کے ساتھ لیا جا نا بھی مجھے سخت اذیت سے دوچار کر رہا ہے زینب ۔۔” وہ ہچکیوں کے درمیان اٹک اٹک کر بولی ۔۔۔”کچھ غلط تو نہیں ہوگا نا ؟ “
اپنے دل کا حال اس کے آگے بیان کرتے ہوے آخر میں یقین دہانی چاہی تو وہ بے اختیار اسے گلے لگا گئی ۔۔۔
“انشااللہ کچھ غلط نہیں ہوگا زویا۔ اللّه پر بھروسہ رکھو ۔” ۔اس کے آنسو صاف کرتے کہا ۔۔۔”چلو اب سو جاؤ ۔ذرا سی دیر میں حالت بگاڑ لی تم نے اپنی ۔”اس کے آنسو پونچھ کر اسے بستر پے لٹا کر لائٹ بند کر کے خود بھی لیٹ گئی لیکن دونوں ہی کی آنکھوں سے نیند دور تھی اور دونوں ایک ہی بات سوچ رہی تھیں۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial