میں اسیرِ محبت ہو گیا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4

آپ ادھر کھڑے ہو جاؤ نورے مما ابھی کچھ دیر میں ا جائیں گی مگر آپ نے یہاں سے نہیں ہلنا ۔ مما کا ویٹ کرو ادھر ۔ ہمیرہ نورے کو تلقین کرتی بول رہی تھی کیونکہ اس کی اکیڈمی کے سٹوڈنٹ اب واپس جا رہے تھے کیونکہ ان کا ٹرپ ختم ہو گیا تھا مگر ہمیرہ کو ابھی شاپنگ کرنے کے لیے مال جانا تھا اس لیے اس کا ارادہ تھا کہ وہ نورے کے ساتھ اکیلی خود ہی مال چلے جائے گی ۔
اس لیے وہ نورے کو duperre playground کے باہر ہی کھڑے ہونے کا کہتی وہاں سے چلی گئی کیونکہ بچوں کو بس میں بیٹھا کر وہ وہیں واپس آنے والی تھی ۔
#############################
آج ایک باسکٹ بال کا میچ ہو جائے ۔ داور نے باران اور داریہ کو دیکھتے کہا تو انہوں نے فورا ڈن کیا تھا ۔ چلو پھر Duperre playground چلتے ہیں دو منٹ کی واک پر ہے ۔
داریہ نے کہا تو وہ duperre playground کی طرف چل پڑے ۔ لاؤ رحمان کو مجھے پکراو ۔ داور نے داریہ کے آگے بازو کرتے رحمان کو پکر ے کے لیے کہا جس پر داریہ نے رحمان کو داور کو پکرایا تھا ۔ وہ صبح سے آوٹنگ پر آئے ہوئے تھے ۔
Desiny land , Efil tower اور Louvre Museum وغیرہ جیسی جگہوں پر گھوم پھر کر آئے تھے ۔ رحمان تو بہت ہی زیادہ خوش تھا کیونکہ آج اس کا دن بیسٹ گزرا تھا ۔ سارا دن وہ کبھی باران کی گود میں ہوتا کبھی داور کی تو کبھی داریہ کی گود میں ہوتا ۔ اسے زمین پر نہیں چلنے دیا تھا انہوں نے کہ کہیں وہ تھک نہ جائے ۔
چلو بابا کی جان آپ ادھر بیٹھو اور دیکھو کہ کیسے تمہارے بابا تمہارے چچا اور پھپھو کو ہراتے ہیں ۔ پلے گراونڈ میں پہنچ کر داور نے رحمان کی گال پر پیار کرتے اسے وہاں سائیڈ پر بنیں سیڑھیوں پر بیٹھاتے کہا جن پر آج کل گرین کلر ہو رکھا تھا ۔
کچھ دن پہلے ہی سارے گراؤنڈ کے کلر پھر سے چینج کیے گئے تھے ۔ داریہ ہیل اتار دو اپنی چوٹ نہ لگ جائے ۔ باران نے داریہ کی ہیلز کو دیکھتے کہا ۔ نہیں میں کھیل سکتی ہوں ان کے ساتھ بھی ڈونٹ وری ابھی آپ جانتے نہیں داریہ کو ۔ داریہ نے اپنے لمبے نیچے سے کرل کیے گئے گولڈن بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے کہا ۔
تمہاری مرضی ہے پھر نہ کہنا کہ موچ آگئی پاؤں میں ۔ باران نے اسے کہتے نیچے پری باسکٹ بال اٹھاٹے کہا ۔ فکر نہ کرو اس کی بس اپنے ہارنے کی تیاری کرو ۔ داور نے اپنا بلیک کورٹ رحمان کے پاس رکھ کر اپنی وائٹ شرٹ کے کے کف فولڈ کرتے کہا ۔ دیکھا جائے گا ۔ باران نے ترچھی مسکراہٹ دیکھاتے کہا اور کھیل شروع کیا تھا ۔
بال باران کے پاس تھی جبکہ داریہ اور داور اس سے پکرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر باران نے تیزی سے آگے بڑھتے بال کو باسکٹ میں ڈال کر گول کیا تھا ۔ تم ان تاتو دو ٹین دو اٹ ۔ پوپو تم آن ( کم ان چاچو یو کین ڈو اٹ ۔ پھوپھو کم ان ) رحمان باران اور داریہ کو چئراپ کرتا بولا تو داور نے حیران ہوتے اسے دیکھا جبکہ رحمان نے داور کے دیکھنے پر نظروں کا زاویہ بدل لیا تھا ۔
تم میرے بیٹے ہو تو مجھے سپورٹ کرو انہیں نہیں ۔ داور نے اسے انگلی وارن کرتے کہا جبکہ رحمان نے ناک چڑھا کر اس کی بات کو رد کیا تھا ۔ تم آن ایرو اش اوٹے دو ٹین دو بیتر ۔ ( کم ان ہیرو اٹس اوکے یو کین ڈو بیٹر ) ۔ اچانک سے وہاں کسی بچی کی توتلی آواز گونجی تو سب نے حیران ہوتے داخلی دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں پر رحمان کی عمر کی ہی خوبصورت سی بچی کھڑی تھی جس نے گلابی رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی ۔
داور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس بچی کے ہاس پہنچا تھا ۔ آپ کون ہو بیٹا ؟؟ یہاں کیا کر رہے ہو اکیلے ؟؟ داور نے اس کے پاس پنجوں کے بل بیٹھ کر پوچھا ۔ مئیاں نام نورے ائہ مئں جاں مما تا انجار تر رئی اوں ۔ ( میرا نام نورے ہے میں یہاں مما کا انتظار کر رہی ہوں ) نورے نے آنکھیں پٹپٹاتے داور کو جواب دیا جبکہ باران داریہ اور رحمان بھی ان کے ہاس پہنچ چکے تھے ۔
نورے نام ہے واہ مطلب آپ مسلمان ہو ۔ داور نے اس کے گال کھینچتے کہا تو نورے نے مسکراتے زور و شور سے سر ہلایا تھا ۔ مما کہاں ہے آپ کی ؟؟ داریہ نے پوچھا تو نورے نے اپنے توتلی زبان میں اسے بتایا تھا کہ اس کی ماں کہاں گئی ہے ۔ رحمان تو اس کے ساتھ جا کر کھڑا ہو چکا تھا ۔ کب سے گئی ہوئی ہے ؟؟ اسے نہیں پتا کہ بچوں کو ایسے اکیلا نہیں چھوڈتے خاص کر بچیوں کو ۔
داریہ نے غصے سے کہا ۔ باران تو بس خاموشی سے اس بچی کو دیکھ رہا تھا ۔ مما ٹو بتا اے تہ مودھے ڑش شے دھبراہت اوتی اے اش لیے مما اتیلی دئی اے عور نورے شٹونگ اے نئی درتی نورے تشی شے ۔
( مما کو پتا ہے کہ مجھے رش سے گھبراہٹ ہوتی ہے اس لیے مما اکیلی گئی ہے اور نورے سٹرونگ ہے نورے نہیں ڈرٹی ) نورے نے انہیں پٹر پٹر اپنی توتلی زبان میں بتایا تو داریہ اور داور مسکرا دیے ۔ بابا کہاں ہیں ؟؟ داور نے پوچھا ۔ بابا نئی ایں نورے تے ۔
( بابا نہیں ہیں نورے کے ) نورے نے اداسی سے کہا تو رحمان نے جلدی سے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا ۔ مئیے بابا دے لو ۔ مودھے مما دے دو ۔ ( میرے بابا لے لو مجھے مما دے دو ) رحمان کی بات نے جہاں نورے کو پریشان کیا تھا وہیں داور کے علاؤہ داریہ اور باران کو ہسی آئی تھی ۔ رحمان تم نہ اب بس کر دو یہ مما مما والی ضد ۔
چلو گھر چلیں بہت ہو گئی آوٹنگ ۔ داور رحمان کو سختی سے کہتا کھڑا ہوا اور پھر اسے کندھے پر زبردستی اٹھا چکا تھا ۔ بیٹا اپنا خیال رکھنا اور اگر کہو تو مما کے ہاس چھوڈ آؤں ؟؟ داور نے ہاتھ پاؤں چلاتے رحمان کو قابو کرتے نورے کہا تو نورے نے مسکرا کر نہ میں سر ہلایا تھا ۔ اوکے بائے بیٹا بائے بائے ۔
داور اور داریہ نورے کے گال پر پیار کرتے اسے گڈ بائے کہنے لگے جبکہ باران نے بس جاتے ہوئے نورے کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔ ان کے جانے کے پانچ منٹ بعد ہی ہمیرہ واپس آگئی تھی ۔
سوری میری جان دیر سے نکلی بس کیونکہ بس کے ٹائیر میں مسلہ ہو گیا تھا اس لیے دیر ہو گئی مجھے چلو چلیں ۔ ہمیرہ نے نورے کو گود میں اٹھاتے پیار سے کہا تو نورے نے مسکرا کر اس کی گردن میں منہ چھپا لیا ۔
#############################
سر سنا ہے آج کل جونسن آپ سے پنگا لینے کا سوچ رہا ہے ۔ کیونکہ وہ لندن اور پیرس پر اپنی حکومت کرنا چاہتا ہے ۔ ڈیوڈ نے داور سے پوچھا تو داور نے قہقہہ لگایا تھا ۔ دیکھنے دو اسے خواب کون سا پورے ہو جائیں گے ۔
وہ سمجھ رہا ہے کہ اگر وہ سمگلنگ میں مجھے ہرا دے گا تو وہ میری جگہ لے لے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ داور خان سمگلنگ کی وجہ سے نہیں اپنی سفاکیت کی وجہ سے یہاں ہے ۔ چھوڈو اس کو زیادہ اس پر دیہان دینے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں ۔ داور کی بات پر ڈیوڈ نے سر ہلایا تھا ۔ نئے موڈل کی گاڑی کیسی ہے ؟؟
داور نے پوچھا ۔ اچھی ہے سر مگر اس کی کے اندر کی مشینری کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ ڈیوڈ نے جواب دیا ۔ واپس بھیج دو اسے کمپنی کو اور کہنا بے کار مال ہم نہیں رکھتے ۔ داور اسے کہتا آٹھ کھڑا ہوا ۔
اور ہاں مجھے کچھ دن تک پیرس جانا ہے تو تم میرے ساتھ چلنا پیرس کیونکہ وہاں پر ایک ڈیل کرنی ہے ۔ داور اپنے کمرے کی جانب جانے لگا کہ تبھی رک کر ڈیوڈ سے بولا تو ڈیوڈ نے اوکے سر کہا تھا ۔
#############################
تم مجھے ایسے نہیں مار سکتے باران خان ۔ میں قطر کا ڈان ہوں ۔ مجھے مارو گے تو کھلی جنگ کا اعلان کرو گے ۔ کرسی پر بندھے آدمی نے باران سے کہا جو اس کے سامنے بیٹھا اپنے گلے میں پہنے بلیڈ پر ہاتھ کی انگلیوں پھیر رہا تھا ۔ جنگ کا اعلان تم نے خود کیا تھا شیخ عبدل میرے مال کو قطر میں داخل نہ ہونے دے کر ۔
اور ابھی تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو باران خان سے جنگ کرنے کی ہمت رکھے ۔ تم نے میرے راہ میں رکاوٹ ڈال کر اپنی موت کو بلاوا دیا ہے ۔ اب باران خان کے غصے کو بھگتو ۔
باران نے کہتے ہے گلے میں پہنا بلیڈ والا لاکٹ اتار کر شیخ کے بازوں پر کٹ لگائے تھے جبکہ اس کے کٹ لگانے سے ٹارچر روم میں شیخ کی چیخیں گونجیں تھیں ۔ وہ آہستہ آہستہ شیخ کے بازوں کے بعد اس کے چہرے پر بھی کٹ لگا رہا تھا جبکہ تکلیف سے شیخ کی چیخیں اور بلند ہو رہی تھیں ۔
بس کر دو ۔۔۔۔۔ پلیززز۔۔۔ ب۔۔باران خان ۔۔۔ معاف کر دو ۔۔۔۔۔دوبارہ تمہارے رستے ۔۔۔مم۔۔۔میں نہیں ۔۔۔ آوں گا ۔ تکلیف سے بے حال ہوتے اس شیخ نے التجا کی تھی جبکہ باران اس کے منت کرنے پر تنزیہ مسکرایا تھا ۔ کیا ہے نہ شیخ کہ میرا ایک ہی اصول ہے ” فیصلہ ہمیشہ موت کی صورت میں کرو زندگی بخش کر سرکشی کو بڑھاوا مت دو “ باران کی بات پر شیخ کا سانس سوکھا تھا ۔
باران نے خون سے بھرا بلیڈ شیخ کے ہی کپروں سے صاف کیا تھا اور پھر ادھا منہ میں ڈال کر اگلے ہی پل چہرہ اس کی گردن کے قریب سے گزارا تھا اور پھر شیخ کی گردن سے ابل ابل کر خون بہنے لگا ۔
مر گیا سالا لے جاؤ اسے اور داریہ کو بھیج دو اسے اس کے جانو کا کھانا ہو جائے گا ایک وقت کا ۔ باران نے اپنے سیکرٹری سے کہتے اپنے خون سے بھرے ہاتھوں کو چہرے کے پاس لیجا کر لمبا سانس کھینچا تھا ۔ آہ یہ خون کی سمل اس کی زندگی تھی اس کا سکون تھی ۔
#############################
یہ کیا طریقہ ہے ذزان ہر روز تم محلے کے کسی نہ کسی لڑکے سے لڑ کر اس کا سر پھاڑ کر ا جاتے ہو ۔ یہ پاکستان نہیں ہے جہاں کوئی کچھ نہیں کرے گا ۔ ہر بار میں لڑکوں کو پیسے دے کر چپ نہیں کروا سکتا ۔
کوئی کیس بھی کر سکتا ہے تم پر ۔ زیادہ محلے کے گنڈے بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے چچا اس کو ڈانٹتے ہوئے بول رہے تھے جبکہ وہ اپنے کانوں میں انگلی ڈال کر ان دیکھی میل نکال رہا تھا ۔ اسے پتا تھا کہ ان کا فکر میں ڈانٹنا سب دیکھاوا تھا ۔
بس کردیں چچا آپ کو زیادہ میرے باپ بننے کی ضرورت نہیں ۔ میں چاہے محلے کا گنڈہ بنوں یاں شہر کا آپ کو کیا مسلہ ہے ؟؟ سب پتا ہے مجھے آپ کا ۔ پچھلے چار سالوں سے میرے باپ کی ساری دولت پر ناگ بن کر بیٹھے ہیں آپ ۔ مگر بھولیے گا مت میں زندہ ہوں ابھی یعنی کہ شاہ خاندان کا وارث زندہ ہے ۔
میں آپ کو اپنی دولت کو ہتھیانے نہیں دوں گا ۔ اپنی تو ساری دولت جووے میں ہار ہار کر ختم کر دی اور اب میری جائیداد پر نظر رکھی ہوئی ہے آپ نے ۔ بہت ہو گیا ۔ اپنی صلاحیں اپنے پاس رکھا کریں مجھے نہیں چاہیے ہیں اور جلد یہاں سے چلے جائیں میں اور آپ کو اپنے گھر میں برداشت نہیں کروں گا ۔
وہ غصے سے ان پر چیختا گھر سے نکل باہر کھڑی اپنی ہیوی بائیک لے کر چلا گیا تھا جبکہ پیچھے اس کے چچا اپنی مٹھیاں میچ کر رہ گئے تھے ۔ آخر کب تک برداشت کرنا ہے اسے ؟؟ ختم کروائیں اسے جیسے آپ نے اپنے بھائی بھابی کو کروایا تھا ۔
اس کے رہتے کچھ نہیں ملنے والا ہم کو ۔ ان کی بیوی ان کے ہاس آتی بولی تو انہوں نے اپنی غصے سے ہوئی لال آنکھوں سے انہیں دیکھا ۔ پتا ہے مجھے کہ کیا کرنا ہے اس کا فکر نہ کرو دوبارہ گھر واپس زندہ نہیں آئے گا ۔ خطرناک مسکراہٹ چہرے پر سجائے انہوں نے کہا تو چچی نے بھی مسکرائی تھی ۔
############@@##############
داریہ تم نے شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟؟! آخر تمہیں تو شادی کرنی چاہیے باران کی تو بات الگ ہے مگر تم کب کرو گی شادی؟ کوئی لڑکا پسند ہے ؟؟؟ داور داریہ سے فون پر بات کر رہا تھا کہ تبھی اچانک اس سے شادی کا پوچھنے لگا ۔ بھائی ابھی تو کوئی ارادہ نہیں ہے میرا مگر جب دل کرے گا تو کر لوں گی شادی ۔
ویسے اگر سچ کہوں تو دور دور تک ارادہ نہیں ہے ۔ داریہ نے منہ کے برے برے زاویے بناتے کہا ۔ چلو تمہاری مرضی ہے میں صرف سمجھا سکتا ہوں ۔ داور نے پیار سے کہا تو وہ مسکرا پڑی۔ اچھا بچے زرا ضروری کام ہے مجھے تو تم سے پھر بات کروں گا۔ بائے بائے۔
داور نے کہا تو داریہ نے بھی داور کو بائے کہتے اپنے قدم باہر لان کی طرف بڑھائے تھے جہاں پر اس کا جانو بیٹھا تھا ۔ اس کا ارادہ اج کا دن جانو کے ساتھ گزارنے کا تھا۔ ویسے بھی کل اس کی بائیک ریس تھی اس لیے اسے فریش رہنا تھا اور فریش ہونے کا طریقہ جانو کے ساتھ ٹائم سپنڈ کرنا تھا ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial