قسط 10
“لنچ کرلو بابا کھانا لا رہے ہیں”
وہ وارڈروب سے کپڑے نکالتے ہوئے اسے دیکھے بغیر کہنے لگا
“میں تمہارے ساتھ لنچ نہیں کرو گی”
منہا صاف لفظوں میں اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی
“میں کر بھی نہیں رہا ویسے بھی باہر جارہا ہوں تم آرام سے لنچ کرلینا”
وہ اسے جواب دیتے ساتھ باتھروم کی طرف بڑھ گیا منہا خاموش رہی
کپڑے تبدیل کرنے کے بعد عابر بیڈروم سے بغیر اس سے کوئی بات کیے نکل گیا
تبھی بابا ٹرے میں کھانا لیے کمرے میں آئے اور ٹیبل پر رکھ کر چلے گئے منہا واشروم سے فریش ہوکر باہر آئی ٹیبل پر نظر پڑی کھانا پڑا دیکھ کر وہ اس طرف بڑھی اور بریانی کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی
(“شکر ہے آپ نے بریانی تو بنائیں میں تو ترس گئی تھی بریانی کی شکل دیکھنے کو”
منہا بریانی دیکھتے ہوئے چہک کر کہنے لگی سمینہ محترمہ اسے دیکھنے لگی
“توبہ کرو لڑکی ابھی چار دن پہلے ہی تو بریانی بنی تھی”
سمینہ محترمہ فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر منہا نے انہیں دیکھا
“تو کیا ہوا بیگم ہماری اکلوتی بیٹی ہے جو بھی اس کی پسند ہو وہ بنایا کریں”
عنایت صاحب فوراً سے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے
“آپ ہی نے بگاڑا ہے جب دوسری گھر جائے گی دال روٹی کھانی پڑے گی نا تب دیکھنا”
سمینہ محترمہ کرسی کھسکا کر بیٹھتے ہوئے اسے کہنے لگی منہا نے صدمے سے اپنی ماں کو دیکھا
“اللہ اللہ کیسے گھر بیاہی گی آپ مجھے”
منہا فوراً سے کہنے لگی جس پر سمینہ محترمہ اور عنایت صاحب فوراً ہنس دیے)
منہا اپنی والدین کو یاد کرنے لگ گئی آنکھوں میں پھر سے نمی آ گئی وہ کھانا پیچھے کرتی خاموشی سے بیڈ پر چلی گئی
وہ بیڈ پر آکر اپنی تھکاوٹ ختم کرنے کیلیے کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی وہ لیٹنے ہی لگی تھی کہ تبھی اس کے فون پر کال آئی منہا نے گردن موڑ کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے اپنے فون کو دیکھا
“ہیلو”
منہا نے کال اٹینڈ کرتے ساتھ بولا مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا
“ہیلو “
منہا نے ایک بار پھر سے بولا مگر اب بھی کوئی جواب نہیں آیا اور کال کٹ ہوگئی منہا فون کو دیکھنے لگ گئی
“میں جانتی ہوں بابا یہ آپ ہی ہیں آپ اپنی منہا کے بغیر کبھی بھی نہیں رہ سکتے ہیں بس کچھ دن کی بات ہے جس دن میں اپنی بے گناہی ثابت کردوں گی اس دن میں آپ کے پاس واپس آجاؤ گی اور تب تک آپ کے کچھ دن کے داماد کو سبق سیکھانا ہے مجھے “
منہا خود سے دل میں کہتے ساتھ فون واپس رکھتی لیٹ گئی اس کی نیند اڑ چکی تھی منہا نے شاور لینے کا سوچا وہ اٹھی اور وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگ گئی عابر کل ہی ملازم سے کہ کر اس کیلیے ڈریسز منگوا چکا تھا ان میں سے ایک لیتی وہ باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔
شاور وغیرہ لے کر وہ واپس کمرے میں آئی تو گھڑی چھ بجا رہی تھی عابر کے جانے کے بعد وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی شاور لینے کے بعد اس نے کچھ دیر یونیورسٹی کا کام کیا۔ اور پھر گھڑی پر نظر ڈالی جہاں دس بج چکے تھے وقت بہت تیزی سے گزرا تھا منہا بیڈ سے اٹھی سائیڈ ٹیبل پر موجود جگ کو اٹھا کر عابر کے کاؤچ پر پھینک دیا
“تیار ہوجاؤ عابر زید علی کیونکہ میں تمہارا جینا حرام کردوں گی”
منہا پانی گراتے ہوئے دل میں کہتے ساتھ جگ واپس ٹیبل پر رکھتی خود سکون سے بیڈ پر لیٹ گئی اور پھیل کر سو گئی۔
کچھ دیر کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تو نظر کاؤچ پر گئی جو گیلا تھا اس نے منہا پر نظر ڈالی اسے اس کی بچکانہ حرکت پر بہت ہی زیادہ غصہ آیا
“کیا مصیبت ہے یار منہا میرا سر پہلے ہی درد سے پھٹ رہا ہے “
عابر اپنا سر مسلتے ہوئے غصے سے کہنے لگا منہا اسی طرح سوئی رہی ٹس سے مس بھی نہ ہوئی
“اب تم دیکھو میں کیا کرتا ہوں”
عابر کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھا اور ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے کمرے میں واپس داخل ہوا اس کے منہ سے بلینکٹ ہٹا کر پانی کا گلاس اس پر گرا دیا
“پاگل جاہل انسان کیا بدتمیزی ہے یہ اتنے بڑے گھر میں رہ کر ایسی گٹھیا حرکتوں کرتے ہو ذرا تمیز نہیں ہے تم میں”
منہا اس کی حرکت پر ایکدم بھوکلا گئی بیڈ سے اتر کر غصے سے اسے کہنے لگی
“اور تم چھوٹے گھر میں رہ کر بھی چھوٹی حرکتیں کرتی ہو تمیز میں رہ کر بات کرو مجھ سے سمجھیں “
عابر سرد نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہنے لگا منہا نے اسے دیکھا
“میں باقی بیویوں کی طرح نہیں ہو جو تمہارے غصے یا باتوں سے ڈر جاؤں گی”
منہا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی عابر نے سختی سے اس کے بازوؤں کو پکڑا اور اسے اپنے قریب کرکے بڑی بے باکی سے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ گیا منہا کی سانس تھم گئی اچانک اتفاد پر وہ پہلے تو بھوکلائی اور پھر غصے سے اس کی قید میں مچلنے لگی اتنی مضبوطی سے اس کی نازک بازوؤں کو پکڑا ہوا تھا منہا کو شدید درد محسوس ہوا۔
“میں بہت برداشت کرچکا ہوں تمہاری بدتمیزی آج کے بعد مجھ سے بدتمیزی کرنے سے پہلے سوچنا کیونکہ شرم تو مجھ میں ایک پرسنٹ بھی نہیں ہے”
عابر منہا کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گیا منہا اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی
“ہمت کیسے ہوئی تمہاری یہ سب کرنے کی مجھے چھونے کی ہاں میں تمہاری جان لے لوں گی بےشرم بے حیا”
منہا غصے سے سرخ چہرہ لیا اسے گھور کر دیکھتی چیخ اٹھی
“آہستہ آواز رکھو شوہر ہوں حق رکھتا ہسبینڈ وائف کی پرسنل باتیں پورے گھر کو نہیں سناتے”
عابر اسے زچ کرنے کیلیے کہنے لگا منہا بڑی آنکھیں کیے اسے گھور رہی تھی
“میں تمہیں اپنا شوہر نہیں مانتی ہوں”
منہا اسے غصے سے چبا چبا کر کہنے لگی
“تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے کچھ نہیں ہوتا جتنے دن ہم ساتھ ہیں میں تمہیں چھونے کا پورا اختیار رکھتا ہوں اور اگر میرے اندر کا حیوان جاگ گیا نا تو تم اپنے گھر جاتے ہوئے اپنے ماں باپ کو نانا نانی بنا کر جاؤ گی”
عابر آنکھ دبا کر شوخیہ لہجے میں اسے بولا منہا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگ گئی۔
“اور اب تم کھڑی رہو یا بیٹھی رہو مجھے بہت نیند آرہی “
عابر اسے کہتے ساتھ بیڈ پر آکر سو گیا منہا ویسے ہی کھڑی اسے دیکھتی رہی تھی جو اس کی طرف پیٹ کیے مزے سے سورہا تھا
کچھ ہی دیر میں کمرے میں سسکیوں کی آواز سنائی دی عابر نے پلٹ کر دیکھا وہ اسی جگہ پر کھڑی آنسو بہا رہی تھی اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ اسے عجیب سی تکلیف محسوس ہوئی اور وہ خاموشی سے بیڈ سے اٹھ گیا
“سوجاؤ تم”
عابر نرم لہجے میں کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گیا اور منہا اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگ گئی
“بدتمیز انسان “
منہا بڑبڑاتے ہوئے کہتے ساتھ بیڈ کی طرف بڑھ گئی اور خود پر بلینکٹ ڈالتی آنکھیں بند کر گئی
عابر کمرے سے سیدھا سٹڈی روم میں آیا تھا وہ کرسی پر بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا اور اس نے ڈائری کھول کر ہاتھ پین میں لیا
“مجھے نہیں معلوم کہ میں ہمیشہ تمہاری طرف کیوں کھینچا چلا آتا ہوں کیا ہے ایسا تم میں کہ میں ہر بار ناچاہتے ہوئے بھی تمہارے سامنے ہار جاتا ہوں میں بہت الجھا ہوا ہے”
عابر ڈائری پر لکھ پین کو وہی چھوڑتا ڈائری بند کرگیا اس نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑایا ناجانے وہ کتنی سگریٹ پینے میں مصروف تھا
~~~~~~~~~~~
منہا یونیورسٹی کیلیے تیار ہوئی اور اپنے بیگ میں چیزیں رکھتی اس نے وال کلاک پر نظر ڈالی یونیورسٹی کا وقت ہونے والا تھا مگر عابر اب تک نہیں آیا تھا اس نے نیچے جانا کا سوچا مگر وہ تھوڑا گھبرا رہی تھی لیکن ہمت کرکے وہ زینے اترتی نیچے آئی اور عابر کو ڈھونڈنے لگی فہمیدہ کی نظر اس پر گئی
“اوہ لڑکی باپ کا گھر سمجھا ہوا ہے کیا ہاں”
فہمیدہ اسے دیکھتے ہوئے غصے سے کہنے لگی جس پر منہا نے فوراً ان کی طرف دیکھا مگر خاموش رہی
“ویسے اس نے تم سے کیوں نکاح کیا ایسی بھی کیا خاص بات تھی تم میں اس کے آگے پیچھے تو بہت سی لڑکیاں ہوتی تھی ویسے بھی تم چھوٹے گھر کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں”
فہمیدہ ابھی اسے دیکھتے ہوئے بول رہی تھی جب شیشہ ٹوٹنے کی آواز پر وہ پلٹی منہا کا دھیان بھی اس طرف گیا
“میں آپ سے کتنی بار کہوں اپنے کام سے کام رکھا کریں میرے معاملوں میں دخل اندازی کرنے کی ہرگز کوشش مت کیا کریں اور اس کے کریکٹر پر آپ ایک لفظ نہیں بولیں گے ورنہ بدتمیز تو آپ جانتی ہیں میں کتنا ہوں”
عابر سرخ آنکھیں لیے تیش میں انہیں دیکھتے ہوئے چلایا جس پر فہمیدہ اسے دیکھتی رہ گئی اور منہا اس کا غصہ دیکھ کر سہم گئی
“میں اس گھر کی مالکن ہوں تم میرے ساتھ اس طرح بات نہیں کرسکتے”
وہ اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی
“سوچیں اگر کل کو ڈیڈ مر گئے اور انہوں نے جائیداد میرے نام کردی تو سب سے پہلے میں آپ کو گھر سے نکالوں گا”
عابر چہرے پر مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگا فہمیدہ گھور کر اسے دیکھنے لگی
“شرم نہیں آتی تمہیں اپنے باپ کو مرنے کی بددعائیں دے رہے ہو”
وہ فوراً سے غصے سے عابر سے کہنے لگی عابر ہنسنے لگ گیا
“میں نے بددعا تو نہیں ایک نہ ایک دن آپ نے بھی مرنا میں نے بھی “
عابر فوراً سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا اور وہ خاموش ہوگئی۔۔
وہ دونوں یونیورسٹی پہنچ چکے تھے بریک ٹائم منہا خاموشی سے چلتے ہوئے کیفے ٹیریے میں آئی جہاں اسے کیف نظر آیا
“ہیلو منہا”
وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اسے کہنے لگا
“ہائے”
منہا سپاٹ لہجے میں اسے جواب دینے لگ گئی
“ایک بات پوچھوں کیف”
وہ بیٹھتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی کیف نے اسے دیکھا
“عابر کی اگر وہ مام نہیں ہیں تو کون ہے؟”
وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
“یہ تو کسی کو بھی نہیں معلوم اس کی مام کون ہے؟”
کیف فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گیا جس پر منہا بھی خاموش ہوگئی
بریک آف ہو چکی تھی وہ اپنی کلاس لینے کیلیے کلاس کی طرف بڑھ گئی کلاس لینے کے بعد وہ کلاس سے نکلنے ہی لگی تھی جب اس کا ایک کلاس فیلو اس کے پاس آیا
“منہا کیا تم مجھے اپنے نوٹس دے دو گی اصل میں فیملی میں شادی ہے میرے پہلے بھی نوٹس کمپلیٹ نہیں ہے”
وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہنے لگا منہا نے اثبات میں سر ہلا دیا اور اسے نوٹس تھما کر وہ کلاس سے باہر آ گئی۔
یونیورسٹی آف ہونے کے بعد وہ باہر کی طرف بڑھی اور گاڑی میں آکر بیٹھی تو ایک نظر عابر پر ڈالی جس کے ماتھے پر سلوٹیں موجود تھی اور اس کے چہرے پر سختی سجی ہوئی تھی
“کیا بات کررہا تھا وہ”
عابر سختی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا منہا نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوسری طرف نظروں کا تعاقب کرگئی
“میں تمہیں جواب دہ نہیں ہوں”
منہا اسے دیکھے بغیر صاف لفظوں میں جواب دیتی عابر کو مزید غصہ دلوا گئی
“تم مجھے جواب دہ ہو نکاح میں ہو میرے شوہر ہوں تمہارا”
عابر اسے دیکھتے ہوئے لفظوں کو چبا چبا کر اسے یاد دلانے لگا
“لڑکیوں کی عزت نیلام کرنے والا مرد اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ بات کرتا دیکھ برداشت نہیں کرسکا تم پر یہ سوٹ نہیں کیا بہرحال میں تم جیسی نہیں ہوں سمجھے”
منہا اس کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہنے لگی
“فار گاڈ سیک اس قدر باتیں مت کرو منہا کہ تمہیں ایک دن پچھتانا پڑے سمجھیں”
عابر اسٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مار کر غصے سے کہتے ساتھ گاڑی سٹارٹ کرگیا منہا خاموش رہی۔
عابر اسے گھر چھوڑتا غصے سے گاڑی تیز رفتار سے بھگا گیا منہا خاموشی سے گھر کے اندر بڑھ گئی اور سیدھا میں چل دی۔
~~~~~~~~~~~
پورا دن وہ آج بھی کمرے میں رہی تھی پہلے اس نے اسائمنٹ بنائی تھی پھر کھانا وغیرہ کھایا تھا منہا نے فون اٹھایا اور آئی مس یو کا میسیج لکھ کر عنایت صاحب کے نمبر پر سینڈ کردیا
عنایت صاحب اور سمینہ محترمہ کمرے میں موجود تھے جب فون کی بیل بجی انہوں نے فون اٹھایا اور منہا کا میسیج ریڈ کیا
“کس نے میسیج ہے”
سمینہ محترمہ عنایت صاحب کے چہرے پر چھائی مایوسی کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
“منہا کا”
وہ دل برداشتہ ہوکر کہنے لگے جس پر وہ انہیں دیکھنے لگ گئی
“عنایت ہم نے جذبات میں آکر اسے خود سے دور کر تو دیا ہے جبکہ ہمیں اس کا اعتبار کرنا چاہیے تھا وہ خوش بھی ہے اپنے گھر اب اسے لے آتے ہیں”
سمینہ محترمہ عنایت صاحب کو دیکھتے کہنے لگی انہوں نے اسے دیکھا
“آپ چائے بنا دیں گے مجھے “
وہ انہیں دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہنے لگ گئے جس پر وہ خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے چلی گئی عنایت صاحب میسیج کو دیکھنے لگ گئی
منہا بیڈ پر بیٹھی میسیج کا انتظار کررہی تھی مگر عنایت صاحب کا کوئی جواب نہیں آیا تھا اسے امید تھی وہ رپلائی کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا وہ انتظار کرتے کرتے سو گئی مگر ان کا جواب نہیں آیا
عابر ہمیشہ کی طرح رات کو دس بجے کے قریب گھر میں داخل ہوا تو نظر اس پر گئی جو بیڈ پر گہری نیند سورہی تھی ہیزل گرین آنکھیں پردے میں تھی کمرے میں اندھیرا تھا وہ چینج کرکے اپنی ٹیبل پر آتا اس کی لائٹ آن کرکے ڈائری کھول گیا
“میں نے دنیا میں بہت سی خوبصورت لڑکیاں دیکھی ہے منہا مگر تم میں ناجانے کیا ایسا ہے کہ تمہیں دیکھتا ہوں تو نظریں ہٹانا بھول جاتا ہوں مجھے تمہاری ہیزل گرین بڑی آنکھیں بہت پیاری لگتی ہے تمہارے سفید اور گلابی ہاتھ بےحد پسند ہے تم میرے دل میں ایک خاص جگہ پر ہو ایسی جگہ جو صرف تمہارے لیے ہے آج جب میں نے تمہیں اس انسان کیساتھ دیکھا تو مجھے تمہارا اس انسان سے بات کرنا بھی بلکل پسند نہیں آیا دل کیا اسے ختم کردوں میں جانتا ہوں ہمارا یہ رشتہ کچھ دنوں یا کچھ ہفتوں کا ہے تم نے ایک نہ ایک دن مجھ سے دور ویسے بھی ہوجانا ہے ہماری شادی کو ہفتہ ہوچکا ہے اور تم نے مجھ سے سیدھے منہ بات کیا میری شکل بھی نہیں دیکھی”
آخری لفظ ڈائری پر لکھتے ہوئے اس کے لبوں پر ایک اداس مسکراہٹ سج گئی تھی وہ ڈائری بند کرتا ایک دفعہ اسے دیکھ کر آرام سے کاؤچ پر آکر لیٹ گیا۔
~~~~~~~~~~~
ازنا اپنے روم میں بیٹھی تھی تبھی اس کا شوہر حسن کمرے میں آیا اور وہ بیڈ پر آکر بیٹھا
“اپنے ڈیڈ سے کل تم مجھے پانچ لاکھ کر دینا”
حسن اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ازنا نے اسے دیکھا
“پانچ لاکھ میں ڈیڈ سے کوئی پانچ لاکھ نہیں لانی والی ہوں”
ازنا اسے دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہنے لگ گئی جس پر وہ اسے غصے سے دیکھنے لگ گیا
“ضرورت ہے مجھے بزنس پر لگانے ہیں”
حسن اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گیا جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گئی
“ناجانے تم کتنے پیسے ڈیڈ سے لے کر چکے ہو میں کوئی پیسے نہیں لینے والی تم اپنے پیسے استعمال کرو اپنے بزنس کیلیے”
ازنا فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے منع کرتی کہنے لگی اس نے غصے سے اسے دیکھا
“زبان چلائے گی میرے سامنے”
حسن اس کے پاس آکر غصے سے کہتے ساتھ اس کے منہ پر ایک تھپڑ مار گیا
“تم اب اتنی سی بات کیلیے مجھ کر ہاتھ اٹھاؤ گے”
ازنا چہرے پر ہاتھ رکھے حیرانگی سے آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھنے لگی
“میرا جب دل چاہے گا میں ہاتھ اٹھاؤ گا اورتم سے شادی ایک بزنس ڈیل تھی جو میرے کسی کام نہ آ سکی اس لیے تم بھی میرے لیے کچھ نہیں ہے”
حسن غصے سے اسے کہتے ساتھ وہاں سے چلا گیا ازنا اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔
“میں نے دنیا میں بہت سی بری مائیں دیکھیں ہے لیکن کبھی کسی ماں نے شاید اپنی اولاد کو نہیں بیچا ہوگا آپ لوگوں نے اپنے بزنس کی خاطر میری شادی ایک انسان سے نہیں حیوان سے کردی ہے جسے عورت کی عزت کا معلوم ہی نہیں اب مجھے اس کے گھر واپس جانے کا مت کہیے گا “
وہ روتے ہوئے فہمیدہ جو دیکھتی کہنے لگی انہوں نے اسے دیکھا
“بےوقوف مت بنو ازنا تمہیں جانا ہوگا واپس اگر تم نہیں گئی تو وہ ہم سے پیسے مانگے گا اتنے جو ہم افورڈ نہیں کرسکتے ہیں ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں مجھے ابھی ایک کام سے جانا ہے”
وہ اسے کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی ازنا انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی منہا جو سیڑھیاں اتر کر جگ میں پانی بڑھنے کیلیے آرہی تھی ان دونوں کی باتیں سننے کے گئی فہمیدہ کے جاتے ہی وہ نیچے آئی اور اسے دیکھا اس کے چہرے پر نیل کا نشان تھا
“آپ کے چہرے پر چوٹ لگی ہے اس پر کچھ لگا لیں “
منہا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گئی
“مجھے ایسی چوٹیں کھانے کی عادت ہے”
ازنا چہرے پر تلخ مسکراہٹ سجائے کہتے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی منہا اسے جاتا دیکھنے لگ گئی
“بابا آپ ایک گلاس جوس بنا دیں گے”
منہا بابا کو گزرتا دیکھ فوراً سے کہنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گئے
“یہ لیں میڈیم”
بابا منہا کو جوس کا گلاس تھماتے ہوئے کہنے لگے
“شکریہ”
منہا کہتے ساتھ جوس کا گلاس لیتی ازنا کے کمرے کی طرف بڑھ گئی
“میں آجاؤ”
وہ کمرے میں آنے سے پہلے اجازت لیتی کمرے میں آ گئی ازنا مسکرائی
“تم یہاں”
ازنا اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی
“اتنے دنوں سے کسی سے بات ہی نہیں کی تو سوچا آپ سے آکر باتیں کرلوں”
منہا جوس کا گلاس اسے تھماتے ہوئے کہنے لگی وہ مسکرادی
“عابر نے تم سے نکاح کیوں کیا ہے”
ازنا جوس کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی
“ہم اس کے علاؤہ کوئی اور بات کرسکتے ہیں”
منہا نے فوراً سے اسے کہا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے نام وغیرہ اپنی ہوبیز بتانے لگ گئی
تبھی عابر کمرے میں داخل ہوا اور غصے سے ازنا کو دیکھا
“اس بےغیرت انسان نے پھر تمہیں مارا ہے نا”
عابر غصے سے کہتے ساتھ اس کے پاس آکر کرسی کھسکا کر اس پر بیٹھ گیا ازنا خاموش رہی منہا نے اسے دیکھا
“اب تم واپس گئی گا اس کا قتل ہوگا میرے ہاتھوں تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا”
وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ازنا ہنس دی
“تم مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہو”
ازنا اعتماد بھرے لہجے میں کہنے لگی جس پر عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“میں تمہاری فیورٹ آئسکریم لایا ہوں یاد ہے ہر روز تم کھاتی تھی”
عابر اس کے سامنے آئسکریم کرتا کہنے لگا ازنا نے اس سے تھامی
“تھینکیو میں نے پتہ نہیں کب سے نہیں کھائی”
وہ فوراً سے اسے کہتے ساتھ آئسکریم کھانے لگ گئی اور منہا عابر کو دیکھنے لگ گئی ناجانے اس شخص کے کتنے روپ تھے۔منہا وہاں سے اٹھ کر چلی گئی جبکہ عابر ازنا کے پاس ہی بیٹھا رہا
~~~~~~~~~~~~
منہا کمرے میں۔ آئی اسے عنایت اور سمینہ کی شدت سے یاد آئی اور وہ باتھروم سے وضو کرکے سر پر حجاب کی صورت دوپٹہ کہتی جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگ گئی وہ دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے آنکھیں بند کیے دعا مانگ رہی تھی تبھی عابر کمرے میں داخل ہوا اور نظر اس پر گئی اور نظریں ہٹانا بھول گیا اس نے اس گھر میں ازنا کو صرف نماز ادا کرتے دیکھا اور اب اسے دیکھ رہا تھا وہ کا قدر خوبصورت لگ رہی تھی زیرو بلب کی روشنی میں اس کا چہرہ کا قدر دمک رہا تھا منہا نے جائے نماز لپیٹی اور جگہ پر رکھ گئی
“تم کتنی خوش قسمت ہوں تمہارے ماں باپ نے تمہیں نماز پڑھنا سیکھائی ہے”
عابر اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا منہا نے اسے دیکھا
“یہ کیسی فضول بات ہے کیا تمہارے ماں باپ نے تمہیں نماز پڑھنا نہیں سیکھائیں”
منہا اسے دیکھتے بدلے میں سوال کرنے لگی عابر نے اسے دیکھا
“نہیں”
مختصر سا جواب دیتے ساتھ وہ کمرے سے باہر نکلتا سٹڈی کی طرف بڑھ گیا منہا اسے جاتا دیکھنے لگی
“سمجھتا ہے ایسے اچھا بن کر میرے دل صاف کرلے گا ہونہہ”
منہا اسے جاتا دیکھتے ہوئے دل میں کہتے ساتھ بیڈ کی طرف بڑھ گئی