وحشتِ دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 11

وہ اسوقت سٹڈی میں بیٹھا ہاتھ میں سگریٹ لیے گہرے گہرے کش لگا رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار منہا کا پرنور چہرہ لہرا رہا تھا اس نے آنکھیں بند کی تو اسی کا چہرہ نظر آرہا تھا آنکھیں کھول رہا تھا تو وہی ہر جگہ نظر آرہی تھی اسے اب اس عجیب سی کیفیت سے غصہ سا آنے لگا وہ جو نہیں چاہتا تھا وہی ہورہا تھا وہ لڑکی اس کے حواسوں پر چھا رہی تھی۔۔
منہا کمرے میں بیڈکراؤن سے پشت ٹکائے بیٹھی سونے کی کوشش کررہی تھی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھیں
“یہ کیا ہوتا ہے پورا دن عجیب انسان”
منہا منہ بسور کر دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے خود سے سوچنے لگی
“مجھے کیا ہاں میری بلا سے جہاں بھی ہو”
منہا دروازے سے نظریں ہٹاتے ہوئے فوراً سے خود کو جھڑکتی کہنے لگی
منہا کو ناجانے اچانک کیا سوجھی وہ اٹھی اور پیروں پر چپل پہنتے ساتھ وہ باہر کی طرف بڑھ گئی اس نے دائیں بائیں نظر گھمائی تمام کمروں کی لائٹس بند تھی مگر ایک کمرے کی لائٹ آن تھی
“ادھر کون ہے”
منہا اس کمرے کو دیکھتے ہوئے فوراً سے سوچنے لگی
“جانا چاہیے یا نہیں ؟”
منہا اس کمرے پر نظریں جمائے خود سے دل میں سوال کرتی کہنے لگی
“اگر کوئی ہوگا تو آجاؤ گی واپس”
منہا کہتے ساتھ اپنے قدم اس طرف بڑھا گئی اور اندر چلی آئی جب نظر سامنے ہی گلاس وال کے پاس کھڑے عابر پر نظر گئی کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی عابر پلٹا منہا کو دیکھ کر اسے حیرانگی ہوئی تھی
“اوہ تو تم اس وجہ سے روم میں نہیں تھے”
منہا اس کے ہاتھ میں موجود سگریٹ دیکھ کر فوراً سے کہنے لگی عابر نے فوراً اپنے ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیا
“تم یہاں کیا کررہی ہو”
عابر لہجے میں تھوڑی سختی لیے بدلے میں سوال کرنے لگ گیا
“پیاس لگی تھی مجھے تو جگ میں پانی نہیں تھا پانی پینے کیلیے کمرے سے باہر آئی تو اس روم کی لائٹ آن دیکھ کر اسطرف آ گئی مگر شاید ڈسٹرب کردیا تمہیں “
منہا اسے جھوٹ کہتے ساتھ اسٹڈی سے باہر کی جانب قدم بڑھا گئی عابر اس کے پیچھے آیا
“تم سوئی نہیں ابھی”
منہا اور عابر روم میں پہنچے تو عابر اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا منہا اسے جواب دیے بغیر بیڈ کی جانب بڑھنے لگی جب عابر نے اس کی کلائی پر اپنی مضبوط گرفت ڈالتا اسے اپنے قریب کرگیا
“آج کے بعد نظرانداز مت کرنا سوئی کیوں نہیں”
وہ اسے اپنے قریب کیے روعبدار لہجے میں نظریں اس پر جمائے پوچھنے لگا عابر کی گرم سانسوں کی تپش خود پر محسوس کرتے ہی منہا کے حواس معطل ہوئے تھے
“میں تمہیں جواب دہ نہیں”
منہا اپنی بےترتیب ہوتی دھڑکنوں اور اپنی غیر ہوتی حالت کو نظرانداز کیے دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں جواب دینے لگی
“چھوڑو مجھے مجھے نیند آرہی ہے”
منہا اپنی کلائی چھڑوانے کی مزاحمت کرتے ہوئے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی عابر نے گرفت ڈھیلی کردی منہا اپنی کلائی چھڑواتی بیڈ کی جانب بڑھ گئی عابر اسے بیڈ کی جانب جاتا دیکھتا خود خاموشی سے کاؤچ پر آکر لیٹ گیا۔
صبح عابر کی آنکھ کھلی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر گئی منہا اپنے سیاہ لمبے بالوں کو سلجھانے میں مصروف تھی عابر کی نظر اس کے خوبصورت بالوں پر گئی وہ اس کے بال پہلی بار دیکھ رہا تھا اور وہ اسوقت کھلے بالوں میں اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ عابر اس سے نظریں ہٹانا بھول گیا اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی منہا کی نظر اس پر گئی اسے خود کو دیکھتا پاکر وہ کنفیوز سی ہوئی اور فوراً سے بالوں کی چوٹی بنانے لگ گئی
“لیٹ ہورہے ہیں”
منہا وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے اسے بتانے لگی عابر ہوش میں آیا اور چہرے پر ہاتھ پھیرتا اٹھ کر باتھروم کا رخ کر گیا منہا اسے جاتا دیکھنے لگ گئی
“واقع یہ کوئی جن ہے اس کے نہ اٹھنے کا پتہ لگتا ہے نہ سونے کا”
منہا منہ بسورے بڑبڑاتے ہوئے کہتے ساتھ پونی سے چوٹی کو باندھ کر پیچھے کرتی سٹالر اٹھاکر حجاب کرنے لگ گئی
وہ دونوں نیچے آئے تو زید علی ازنا اور فہمیدہ تینوں ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے
“کہاں جارہے ہو تم”
زید علی کی روعبدار آواز میں اس کے بڑھتے قدم رک گئے اس نے گردن موڑ کر انہیں دیکھا
“یونیورسٹی”
عابر انہیں دیکھتے ہوئے لفظی جواب دے گیا
“اچھا ازنا کو راستے میں حسن کے گھر ڈراپ کردو”
زید نے فوراً سے اس سے کہا ازنا عابر اور منہا بھی حیرانگی سے ان کو دیکھنے لگ گئی
“میں نے نہیں جانا”
ازنا فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر زید علی نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا
“میں نے تم سے نہیں پوچھا عابر اسے چھوڑ کر آؤ”
وہ ازنا کو خاموش کرواتے ہوئے عابر سے مخاطب ہوئے
“میں نہیں جاؤں گی”
ازنا اپنی بات پر ڈٹی تھوڑا غصے سے کہنے لگی فہمیدہ نے فوراً اسے دیکھا
“ازنا خاموش رہو تم جب تمہارے ڈیڈ کو پانچ لاکھ دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اس کی وجہ سے تم کیوں ضد کررہی ہو”
فہمیدہ سخت لہجے میں اسے جھڑک کر کہنے لگی
“آپ لوگ کیسے ماں باپ ہیں جب آپ کی بیٹی نہیں ہے خوش تو کیو”
منہا ابھی بول رہی تھی جب زید علی نے منہا کو فوراً ٹوک دیا
“لڑکی ہمارے معاملوں میں تم نہ ہی دخل اندازی کرو تو بہتر ہوگا اپنے کام سے کام رکھو عابر اپنی بیوی کو اپنی زبان میں سمجھا دو”
زید صاحب سرد نگاہوں سے منہا کو دیکھتے ہوئے عابر کو کہنے لگے عابر نے ایک نظر منہا پر ڈالی
“جی ڈیڈ میں غلط بات پر ضرور اپنی بیوی کو خاموش رہنے کا بولوں گا مگر وہ یہاں ٹھیک ہے”
عابر فوراً سے منہا کی حمایت میں بولا جس پر زید علی کو شدید غصہ آیا
“اب تم کل کی آئی لڑکی کیلیے اپنے باپ سے بحث کرو گے”
زید علی تیش سے چلا کر کہنے لگے منہا سہم گئی جبکہ عابر انہیں ویسے ہی دیکھ رہا تھا
“میں ازنا کو نہیں چھوڑنے جارہا ہوں”
عابر اپنے لفظوں پر زور دیے کہتے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا منہا بھی خاموشی سے اس کے پیچھے آئی
“اس لڑکی کا کچھ کرنا ہوگا”
زید علی ان دونوں کو جاتا دیکھ دل میں خود سے ہمکلام ہوئے۔۔
~~~~~~~~~~
“ہیلو کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں”
ایک نوجوان خوبصورت سا لڑکا پینٹ شرٹ میں ملبوس بالوں کو نفاست سے سجائے امل کے ساتھ موجود خالی سیٹ پر اشارہ کرتا امل سے پوچھنے لگا
“جی”
امل اس پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر تھوڑا فاصلہ اختیار کرتی کہنے لگی وہ مسکراتے ہوئے بیٹھ گیا
منہا کو آتے ہوئے تھوڑی دیر ہوگئی تھی اس لیے امل کیساتھ کسی کو بیٹھا دیکھ وہ دوسری خالی چئیر پر جاکر بیٹھ گئی تبھی سر کلاس میں داخل ہوئے اور کلاس سٹارٹ ہوگئی امل لیکچر نوٹ کررہی تھی اور ساتھ ساتھ میں پوائنٹس کو وہ پیج پر اتار رہی تھی اچانک اس کا پین چلتے چلتے رک گیا ساتھ بیٹھے نفوس نے اس کی جانب ایک پین بڑھایا امل نے ایک نظر اسے دیکھا اور پین تھام گئی
“تھینکیو”
امل اسے دیکھے بغیر کہتے ساتھ لکھنے میں مصروف ہوگئی اور وہ سر کو خم دے گیا۔
لیکچر آف ہوگیا تھا امل نے رجسٹر بند کیا اور پین اسے تھما دیا
“مائی نیم از عرش”
عرش اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہنے لگا امل نے ایک نظر اس کے ہاتھ اور پھر اس پر ڈالی
“امل”
امل اس سے ہاتھ ملائے بغیر لفظی سا جواب دیتے ساتھ اٹھ کر کندھے پر بیگ لٹکاتے منہا کی جانب بڑھ گئی وہ کچھ دیر اسی پوزیشن میں بیٹھا رہا اگلا لیکچر ان کا فری تھا تو وہ دونوں کینٹین کی جانب بڑھ گئے عرش امل کو جاتا دیکھنے لگ گیا۔
“کیسی ہو؟؟”
امل اور وہ دونوں باہر آئے ہی تھے امل پوچھنے لگی
“امل کچھ دن تم پلیزز یہ سوال نہ کرو تو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ کچھ دن میں میں بلکل ٹھیک نہیں رہوں گی”
منہا اس کے ساتھ چلتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی امل نے اسے دیکھا
“تم عابر کو غلط سمجھ رہی ہو منہا اس نے یہ سب نہیں کیا”
امل اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگی منہا نے اسے دیکھا
“اوہ ریلی میں اسے بہت اچھے سے سمجھ گئی ہوں اچھائی کا دیکھاوا کررہا گٹھیا انسان”
منہا تپ کر کہتے ساتھ کیفے ٹیریا کی جانب بڑھ گئی اور کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی امل بھی اس کیساتھ والی چئیر پر بیٹھ گئی
“تمہیں کچھ بھی سمجھانا فضول ہے”
امل ہار مانتے ہوئے کہنے لگی منہا نے اسے دیکھا
“ایک دفعہ بس مجھے معلوم ہوجائے یہ سب کیا دھرا عابر کا ہے پھر تم دیکھنا؟”
منہا امل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی امل اسے سن رہی تھی
“کیا کرو گی پھر تم ؟”
امل فوراً سے پوچھنے لگی منہا کی نظریں اسی پر تھیں
“اس کا اصل چہرہ سب کے سامنے لاؤں گی اور پھر اس سے ڈیوارس لے کر ڈیڈ کے پاس واپس چلی جاؤں گی”
منہا فوراً سے اسے جواب دینے لگی امل نفی میں سر ہلا گئی
“پھر تم ساری زندگی عابر کی ہی دلہن بن کر رہو کیونکہ ایسا کوئی پروو تمہارے ہاتھ نہیں لگنے والا “
امل منہ بنا کر اسے کہنے لگی جس پر منہا اسے گھور کر دیکھنے لگی
“تم سے بات کرنا کی فضول ہے”
منہا اس کی بات سن کر بدمزہ ہوتی کہنے لگی جس پر امل خاموش رہی۔۔
~~~~~~~~~~
وہ دونوں یونیورسٹی سے گھر واپس آئے تھے وہ کمرے میں ابھی پہنچے تھے
“تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوا ہے بابا کھانا لا رہے ہیں فریش ہوکر کرلینا”
عابر بیگ اتارتے ہوئے اپنی ریسٹ واچ اتار کر ڈریسنگ پر رکھتا اسے کہنے لگا
“تم زیادہ میرے ابا مت بنو مجھے جو کرنا ہوگا میں کرلوں گی”
منہا بھی بیگ اتارتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر عابر اسے دیکھنے لگ گیا منہا جو فریش ہونے کیلیے باتھروم کی طرف بڑھ رہی تھی عابر نے اس کا بازو تھام کر اسے اپنی جانب دھکیلا منہا اس کے بےحد قریب آگئی
“مجھ سے دور رہو میں تمہارے ساتھ مجبوری کے تحت رہ رہی ہوں میری مجبوری کا فائدہ مت اٹھاؤ سمجھیں”
منہا آنکھیں بند کیے اکھڑے لہجے میں کہنے لگی عابر کے ماتھے پر شکنیں ابھری اسے اس کی بات سخت ناگوار گزری
“میں نے تمہاری کون سی مجبوری کا فائدہ اٹھایا ہے ایکسپلین اٹ”
عابر اپنی سنجیدہ سرد نگاہوں سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے درشتگی سے پوچھنے لگا منہا نے آنکھیں کھول کر اس کی آنکھوں میں دیکھا آنکھوں میں موجود نفرت عابر کو بری طرح چبھا۔
“جان جان کر میرے قریب آنے کی کوشش کرتے ہو مجھے چھونے کی کوشش یہ سب مجبوری کا فائدہ نہیں تو اور “
منہا اسے دیکھتے ہوئے غصے بھرے لہجے میں جواب دینے لگی جب عابر نے اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے جکڑا اس کی آنکھوں میں چھائی وحشت اور سرخی منہا کو گھبرانے پر مجبور کر گئی اور اس کی انگلیوں کی سختی اپنے بازوؤں پر محسوس کرکے اسے شدید تکلیف کا احساس ہوا وہ لب بھینچ گئی۔
“جسٹ شیپ ایپ اپنی فضول بکواس بند رکھو اگر تمہاری مجبوری کا فائدہ اٹھانا ہوتا تو اسی رات ذبردستی تم سے اپنا حق چھینتا “
وہ چہرے پر چٹانوں جیسی سختی سجائے اونچا لہجہ اختیار کیے کہنے لگا منہا اسے دیکھنے لگ گئی۔
“تمہیں کیا لگتا ہے تم ایسی باتیں کرو گے میں یقین کرلوں گی تم جھوٹے ہو آخر تم میرے لیے یہ سب کیوں کرو گے تم بس اچھے بننے کا دیکھاوا کررہے ہو”
منہا اسے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہنے لگی
“انیف از انیف منہا سننا چاہتی ہو تو سنو پیار کرتا ہوں تم سے میرے دل میں رہنے لگی ہو تم عابر زید علی کیلیے بےحد اہم ہوچکی ہو”
عابر اس کے بازوؤں پر اپنی گرفت حد درجہ سخت کرتا سرد لہجے میں غصے میں ہی سہی مگر اظہار کر بیٹھا تھا اور منہا بلکل اسٹل کھڑی اسے دیکھنے لگی عابر اسے دیکھے بغیر کمرے سے چلا گیا منہا ویسے ہی کھڑی رہی
“بول کر کیا گیا ہے یہ آدمی حد کی بھی حد ہوگئی ہے استغفِرُاللہ”
منہا ہوش میں آتی اس کی کہی باتوں پر تپ کر کہتی باتھروم کا رخ کر گئی
عابر سڑکوں پر بلاوجہ گاڑی دوہرا رہا تھا وہ اپنی کہی بات پر بہت بری طرح پچھتا رہا تھا
“آر یو میڈ تھوڑا ہوش کرلیتے عابر”
عابر زور سے سٹیرنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے غصے سے کہنے لگا
“کیسے کروں گا اب سامنا”
عابر بالوں پر ہاتھ پھیرے پریشان کن لہجے میں خود سے کہنے لگ گیا
~~~~~~~~~~~
عابر کے جانے کے بعد منہا نے لنچ کیا اور اس کے بعد کپڑے تبدیل کرتی وہ ازنا کے کمرے کی جانب بڑھ گئی
“میں آجاؤ”
منہا دروازے پر دستک دیتے ہوئے پوچھنے لگی
“آجاؤ”
ازنا فوراً سے اسے جواب دینے لگ گئی منہا کمرے میں داخل ہوئی تو نظر اس پر گئی اس کی آنکھوں میں نمی تھی جو منہا کو صاف دیکھائی دی
“آپ رو رہی ہیں”
منہا ازنا کو دیکھتے ہوئے اس کے پاس آکر بیٹھتی پوچھنے لگی تو اس نے اسے دیکھا
“نہیں”
وہ اپنی نمی چھپاتی اسے جواب دینے لگی منہا اسے دیکھ رہی تھی
“اصولاً خود رونے کے بجائے اس انسان کو رولانا چاہیے جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے جس نے آپ کو رولایا ہے”
منہا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے بتانے لگی ازنا ہنس دی ۔
“یادہے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی تو آپ نے کہا تھا دوسری کی دی ہوئی تکلیف تو سمجھ میں آتی ہے لیکن خود کو تکلیف یا درد کیوں دیں تو آپ بھی وہی کریں نا خود کو درد دینے کے بجائے خوش رہے رونے سے کچھ بھی نہیں ہوگا بس تھوڑی ہمت کریں اور خود کیلیے لڑیں”
منہا اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سمجھانے لگی جس پر ازنا نے اسے دیکھا
“ڈیڈ کبھی بھی نہیں مجھے یہاں رہنے دیں گے”
ازنا نم آنکھوں سے فوراً سے کہنے لگ گئی جس پر منہا اسے دیکھنے لگی
“آپ وہاں جاکر بھی تو خود کیلیے لڑ سکتی ہیں نا اگر آپ کی جگہ میں ہوتی اور میرا شوہر میرے ساتھ ایسا سلوک کرتا تو میں اس کا حشر نشر کردیتی”
منہا کی معصوم سی بات پر ازنا ہنس دی منہا بھی مسکرا گئی
“میرے بھائی تم پر کبھی بھی نہیں ہاتھ اٹھائے گا میں نے اس کی آنکھوں میں تمہارے لیے فکر عزت اور محبت دیکھی ہے”
ازنا فوراً سے اسے بتانا ضروری سمجھنے لگی منہا نے ازنا کو دیکھا اس کے لبوں کی مسکراہٹ یکدم سمٹ گئی
“ہم آپ کی بات کررہے ہیں جائیں اپنے لیے لڑیں اگر وہ آپ کو مارتے ہیں نا آپ اسے مارنا کوئی لحاظ نہ کرنا “
منہا اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہنے لگی جس پر ازنا اثبات میں سر ہلا گئی اور پھر دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئی
عابر شام کے پہر جب گھر لوٹا کمرے میں آیا اسے منہا کمرے میں نہیں دیکھی تبھی ساتھ والے کمرے سے ہنسنے کی آوازیں آئی وہ اس طرف بڑھا ازنا اور منہا کو مسکراتے ہوئے دیکھ اسے حیرانگی ہوئی
“عابر تم آجاؤ یار تم تو میری بہت پیاری بھابی لے کر آئے ہو”
ازنا منہا کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی منہا کو مجبوراً مسکرانا پڑا عابر کی نظریں اسی پر مرکوز تھیں
“اور وہ کیسے؟”
عابر منہا پر ہی نظریں مرکوز کیے ازنا سے پوچھنے لگا
“ہر لحاظ سے مجھے تو ایسا لگا میں لڑکیوں کی عابر سے بات کررہی ہوں”
ازنا ہنستے ہوئے کہنے لگی عابر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی
“خیر میں واپس جارہی ہوں آج رات کو مجھے پتہ لگ گیا ہے مجھے کیا کرنا ہے”
ازنا اسے دیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہنے لگی جس پر عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“تم ن”
ابھی عابر بولنے ہی لگا ازنا نے اسے ٹوک دیا
“کہ دیا نا میں نے مجھ پر یقین رکھو میں خود کیلیے لڑو گی”
ازنا اسے دیکھتے ہوئے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجائے کہنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔
“مجھے یونیورسٹی کا کچھ کام ہے پھر ہوتی ہے ملاقات”
منہا اسے کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی عابر بھی خاموشی سے کمرے سے چلا گیا
عابر کمرے میں آیا تو منہا اپنے بیگ سے بکس نکال رہی تھی
“منہا”
عابر نے اسے مخاطب کیا منہا نے غصے سے نظریں اس کی جانب اٹھائی
“جو جاتے ہوئے فضول بات کرکے گئے تھے اس کا کیا مقصد تھا عابر میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا مجھے ان لڑکیوں میں سے تو ہرگز مت سمجھنا جو تمہارے آگے پیچھے پھرتی ہیں”
منہا غصے سے اسے دیکھتے ہوئے تھوڑا اونچا لہجہ اختیار کیے کہنے لگی
“میں ان لڑکیوں کو یہ سب بولتا بھی نہیں تھا تمہیں کچھ بھی بتانے کا فائدہ نہیں ہے منہا سمجھ لو وہ سب جھوٹ تھا”
عابر اس کی باتیں سن کر غصے میں آتا سرد لہجے میں کہتے ساتھ باتھروم کی جانب بڑھ گیا
“اللہ تعالیٰ کب میری اس انسان سے جان چھوٹے گی”
منہا اس کے باتھروم میں جاتے ہی بےبسی سے کہتے ساتھ کتابیں لیتی بیڈ پر آ گئی۔۔۔
وہ باتھروم سے فریش ہوکر باہر آتا بغیر اسے دیکھے سٹڈی کی جانب بڑھ گیا منہا نے بھی اسے دیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا
عابر ہمیشہ کی طرح اسٹڈی میں آتا ڈائری کھول کر ہاتھ میں پین تھامتا لکھنے لگ گیا
“تم مجھے سمجھ ہی نہیں رہی ہو منہا اور نہ تم سمجھنا چاہتی ہو میرے دل میں جو تمہارے لیے فیلینگز ہے محبت لفظ تو اس کیلیے بہت چھوٹا ہے تمہاری آنکھوں سے نکلا ایک آنسو مجھے تکلیف پہنچاتا ہے یہ صرف تم ہو جس کی ہر بدتمیزی جس کا اونچہ لہجہ اور جس کی غلط باتوں کو برداشت کررہا ہوں کیونکہ تم میرے لیے بہت زیادہ خاص ہو”
عابر ڈائری پر لکھتے ہوئے اس پر نظریں جمائے کہتے ساتھ ہلکا سا مسکرایا اور ڈائری بند کرگیا تبھی اس کا فون بجا
“کیا بنا”
اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے فوراً سے پوچھا
“میں کوشش کررہا ہوں جلد ہی انفارمیشن مل جائے گی”
دوسری جانب سے ایک بھاری آواز سنائی دی
“جتنا جلدی ہوسکے یہ کام ہوجانا چاہیے”
عابر نے کہتے ساتھ فون بند کردیا اور اپنی پسندیدہ مشغلہ سگریٹ پینے لگ گیا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial