وحشتِ دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 4

آج اتوار تھا منہا ناشتہ کرنے کے بعد اپنے مدرسے والی باجی کی طرف چلی گئی تھی وہ ان کے گھر میں داخل ہوئی
“اسلام و علیکم”
منہا مسکراتے ہوئے اپنی باجی کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
“وعلیکم السلام”
باجی اسے دیکھ کر خوشی سے بولی منہا ان کے پاس بیٹھ گئی
“تم تو بھول ہی گئی ہو مجھے بچی آتے ہی نہیں ہو کہاں غائب ہو”
باجی ہاتھ میں موجود تسبیح کو سائیڈ پر رکھتی شکوہ کرتی پوچھنے لگی
“ارے نہیں باجی میرا یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا ہے نا تو وہی مصروف ہوتی ہوں آج تھوڑا وقت ملا سوچا آپ سے ملنے آجاؤ”
منہا مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ کر بتانے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی
“کیسی ہے پھر یونیورسٹی ؟؟”
باجی کرسی سے اٹھ کر اس سے سوال کرتی کچن کی جانب بڑھ گئی
“یونیورسٹی تو اچھی ہے میں تو زیادہ پڑھائی میں ہی رہتی ہوں لیکن ایک بدتمیز آوارہ لڑکے سے بحث ہوگئی ہے میری بہت ہی کوئی بدتمیز ہے”
وہ باجی کے پیچھے کچن میں آتے ہوئے انہیں جواب دینے لگی باجی شربت بنانے میں مصروف تھی
“منہا اس سے دور ہی رہنا ٹھیک ہے بچی تمہارے لیے یہی بہتر ہے”
وہ شربت بناتے ہوئے اسے تنبیہہ کرنے لگی منہا نے اثبات میں سر ہلا دیا
“جی میں دور ہی رہوں گی”
وہ ان کی بات مانتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی باجی شربت ٹرے میں رکھ کر اس کی طرف بڑھا گئی منہا نے تھام لیا اور ایک گلاس باجی نے خود اٹھا لیا
“اندر آجاؤ باہر سردی ہے”
باجی اسے بولتے ساتھ ٹی وی لاؤنچ کی جانب قدم بڑھا گئی اور منہا بھی ان کے پیچھے ٹی وی لاؤنچ میں آ گئی ان کے پورے گھر میں جگہ جگہ ایک ہی بچے کی تصویریں تھی منہا وہ تصویریں پھر سے دیکھنے لگ گئی
~~~~~~~~~~~
وہ یونیورسٹی کے گیٹ کے پاس ہی کھڑا منہا کا ویٹ کررہا تھا آتے جاتے ہر انسان کو وہ دیکھ رہا تھا بہت سی لڑکیاں اس کی نظروں کے سامنے سے گزری تھی ہر ایک جینز اور ٹاپ میں ملبوس تھی اور دوپٹہ تو دور سکارف تک گلے میں نہ تھا تبھی اسے وہ بلیک کلر کی ٹراؤزر اور شارٹ فراک میں سر پر حجاب کیے کندھے پر بیگ لٹکائے چلتے ہوئے گیٹ عبور کیے یونیورسٹی میں داخل ہوئی عابر نے اسے دیکھا مگر منہا اسے نظرانداز کرتی آگے کی جانب بڑھنے لگ گئی عابر حیرانگی سے اسے دیکھنے لگ گیا
“ایکسکیوز می میں کب سے کھڑا یہاں تمہارا ویٹ کررہا ہوں”
عابر اس کے ساتھ چلتے ہوئے سرد لہجے میں بولا منہا نے ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی
“میں نے تو نہیں بولا تھا”
وہ صاف لفظوں میں جواب دیتی آگے کی جانب تیزی سے بڑھنے لگی عابر بس اسے دیکھتا رہ گیا
“Anyway یہ میری پریزنٹیشن”
عابر نے اسے کہتے ساتھ اس کی جانب بڑھا دی منہا نے تھام لی اور اپنی اسے دے دی
دونوں یونیورسٹی میں ایک جگہ جاکر بیٹھ کر ایک دوسرے کی پریزنٹیشن دیکھنے لگ گئے
“تمہاری والی ڈن کرتے ہیں”
منہا اس کی پریزنٹیشن دیکھ کر پہلے تو حیران مگر پھر فوراً سے بولی عابر نے اسے دیکھا
“تمہاری بھی اچھی ہے”
عابر نارمل لہجے میں اسے جواب دینے لگا منہا نے اسے دیکھا
“جھوٹی تعریفیں لینے کا شوق نہیں ہے “
منہا اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولی عابر بس اسے دیکھتا رہ گیا
“اینی وے پکچرز کیلیے چلنا چاہیے”
عابر کھڑا ہوتا جیب میں ہاتھ ڈالے اسے کہنے لگا منہا اسے دیکھنے لگ گئی
“میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی”
منہا بھی کھڑی ہوکر اسے دیکھتی صاف منع کر گئی
“ٹھیک ہے پھر میں اکیلا چلا جاتا ہوں اور اپنی مرضی کی پکچرز لے آتا ہوں بعد میں مت بولنا”
عابر بھی اسی کے انداز میں اسے جواب دیتے ساتھ جیب سے گاڑی کی کیز نکالنے لگ گیا
“ویٹ مجھے پرمیشن لینے دو”
منہا کہتے ساتھ اپنے بیگ سے فون نکالنے لگ گئی
“پرمیشن کس کی پر میشن؟؟”
عابر فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے پریشان سا پوچھنے لگا
“بابا کی اگر وہ دیں گے تو چلوں گی”
منہا نے کہتے ساتھ نمبر ڈائل کیا اور فون کان سے لگا گئی عابر منہا کو واقع حیران کردیتی تھی آج بھی ایسی لڑکیاں موجود تھی جو اپنے پیرینٹس سے پرمیشن کے بغیر کچھ نہیں کرتی تھی
“امپریسو”
وہ اسی پر نظریں جمائے مسکرا کر بولا
“چلو”
منہا فون کان سے ہٹاتی عابر کے پاس آتے ہوئے کہنے لگی اور وہ دونوں گاڑی کی جانب بڑھ گئے
“بیک سیٹ پر بیٹھنے کی غلطی بھی مت کرنا آئی ایم ناٹ آ ڈرائیور “
عابر اور منہا گاڑی کی جانب بڑھے تو عابر اسے فوراً سے کہنے لگا منہا نے گھور کر اسے دیکھا اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی عابر بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال گیا اور گاڑی سڑک پر دوہرا گیا۔
وہ انٹرومنٹس کی دکان میں آ چکے تھے عابر اس دکان والے سے ہاتھ ملاتا دکان میں داخل ہوا اور وہ دونوں مل کر وہاں موجود چیزوں کی تصویریں لینے لگ گئے کچھ منہا کی پسند کی اور کچھ عابر کی پسند کی پانچ سات تصویریں لینے کے بعد وہ دونوں دکان سے نکلے عابر نے ریسٹ واچ پر نظر ڈالی انہیں اس کام میں آدھا گھنٹہ لگا تھا وہ دونوں گاڑی کی طرف بڑھنے لگے جب عابر کی نظر ایک آدمی پر گئی جو فٹ پاتھ پر سردی میں پٹھے کپڑوں میں بیٹھا کانپ رہا تھا عابر نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہزار روپے کا نوٹ ہاتھ میں آیا عابد آگے بڑھ کر اس آدمی کو دینے لگ گیا منہا کے بڑھتے قدم رک گئے اور وہ اسے دیکھنے لگ گیا
“یعنی عابر زید علی کے اندر دل بھی ہے”
منہا اسے دیکھتے ہوئے دل میں بولی عابر اس بندے کے پاس سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور آنکھوں میں گلاسز لگاتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا منہا بھی گاڑی میں بیٹھ گئی اور عابر گاڑی سٹارٹ کرگیا۔
عابر نے منہا کو یونیورسٹی میں چھوڑا وہ گاڑی سے باہر نکلی
“میں کچھ دیر میں آؤں گا”
عابر اسے کہتے ساتھ گاڑی سڑک پر دوہرا گیا اور منہا اندر کی جانب بڑھ گئی
~~~~~~~~~~~
امل منہا کی جانب بڑھی منہا نے اسے دیکھا
“تم عابر کیساتھ کہاں گئی تھی”
امل اس کے پاس آتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگ گئی
“خوشی سے نہیں گئی تھی مجبوراً جانا پڑا خیر تم بتاؤ تمہارا پروجیکٹ پاٹنر کون ہے”
منہا اس کے ساتھ چلتے ہوئے جواب دیتی بدلے میں سوال کرنے لگ گئی
“اسی کے دوست کیف لائبریری میں ہے میرے ساتھ چلو یار”
امل اسے جوبا دیتے ساتھ تیزی سے قدم اٹھائے لائبریری کی جانب بڑھی اور منہا مسکرائی
وہ دونوں لائبریری میں داخل ہوئے وہ ایک چئیر پر ہیڈ ڈاؤن کیے سونے میں مصروف تھا
“کیف”
امل نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر اونچی آواز میں اسے پکارا کیف ایکدم اٹھ گیا
“کیا ہوا”
وہ نیند میں امل کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگ گیا
“پروجیکٹ ہم دونوں کا ہے صرف میرا نہیں ہے”
وہ غصے سے اسے بولی کیف فورآ سے ہوش میں آیا
“ہم دونوں کا”
کیف فورآ سے اسے جواب دینے لگ گیا امل اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی
“پریزنٹیشن کہاں ہے”
امل اسے دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے پوچھنے لگی کیف اسے دیکھ رہا تھا
“وہ تو نہیں بنائی میں نے”
کیف معصومیت سے اسے دیکھتا جواب دے گیا امل غصے سے اسے دیکھنے لگ گیا
“پڑسو ہمیں سبمٹ کروانی ہے اور تو اور ہم نے پکچرز لینی ہے ابھی “
امل غصے بھری نظریں اس پر جمائے بولا جس پر کیف اثبات میں سر ہلا گیا
“میں نے کل رات بنانے کی کوشش کی لیکن پھر عابر کے گھر چلا گیا ہم دونوں نے مووی دیکھی کیا کمال مووی تھی”
کیف مسکراتے ہوئے اسے بتانے لگا امل سر پر ہاتھ رکھ گئی اور منہا ہنسنے لگ گئی
“مجھے گھنٹے میں پریزنٹیشن بنا کردو”
امل غصے سے اسے دیکھ کر بولی جس پر کیف رونی شکل بنا گیا
“تم بنا لو نا یہ مجھ سے نہیں ہوگا رحم کھاؤ میں غریب ہوں”
کیف رونی شکل بنائے ڈرامہ انداز میں بولا امل کا دل کیا وہ اس کا گلہ دبا دے
“غریب اور جس کار میں تم آتے ہو وہ کس کی ہے ہاں”
امل اسے گھور کر دیکھتی پوچھنے لگی کیف نے اسے دیکھا
“وہ ڈیڈ نے لے کر دی ہوئی ہے اچھی ہے نا چینج کرنے کا سوچ رہا ہوں “
کیف فوراً سے اسے کہنے لگ گیا امل غصے سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ گئی
“اللہ تعالیٰ کیسے انسان کو میرا پروجیکٹ پاٹنر بنادیا مجھے اکیلا کرنا پڑے گا سب “
امل اپنا غصہ ضبط کرتی بولتے ساتھ اپنی پریزنٹیشن دیکھنے لگ گئی اور منہا ان دونوں کی باتوں کو بہت انجوائے کررہی تھی
“مجھے تو بھوک لگی ہے میں کینٹین جارہی ہوں بیسٹ آف لک”
منہا امل کو مسکراتے ہوئے اسے بولتے ساتھ لائبریری سے چلی گئی کیف چہرے پر ہاتھ رکھے پینسل سے کھیلنے لگ گیا اور امل اپنی پریزنٹیشن کو ایک بار پھر سے دیکھنے لگ گئی
“بھاڑ میں جاؤ تم پکچرز اب تم لے کر آؤ گے”
امل اسے شہادت والی انگلی دیکھا کر لفظوں پر زور دیے کہتے ساتھ لائبریری سے اٹھ کر چلی گئی کیف اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔۔
~~~~~~~~~~~~
منہا عنایت صاحب اور سمینہ محترمہ ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے تھے
“بیٹا کیسا رہا دن پکچرز بنا لی تھی”
عنایت صاحب مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگے منہا جو چپس کھا رہی تھی اثبات میں سر ہلا گئی
“پکچرز لی ہم دونوں نے اور پھر یونیورسٹی واپس آگئی”
منہا مسکراتے ہوئے انہیں جواب دیتے ساتھ چپس منہ میں ڈال گئی
“بھلا بچہ لگ رہا اسے کبھی گھر بھی بلاؤ”
عنایت صاحب عابر کا اندازہ لگاتے ہوئے بولے منہا نے حیرانگی سے آنکھیں بڑی کرلیں
“استغفر اللہ بھلا بہت ہی برا لڑکا ہے بابا”
منہا دل میں فوراً سے کہنے لگی عنایت صاحب اسے دیکھ رہے تھے
“نہیں بابا بس یونیورسٹی کی حد تک ٹھیک ہے گھر بلانے کی کیا ضرورت ہے”
منہا فوراً سے عنایت صاحب کو جواب دینے لگ گئی وہ خاموش ہوگئے
“کس لڑکے کیساتھ تم یونیورسٹی گئی تھی ہاں”
سمینہ محترمہ اسے غصے سے دیکھتی سوال کرنے لگی منہا نے انہیں دیکھا
“ماما میرا یونیورسٹی کا پروجیکٹ ہے تو ہم دونوں ایک ٹیم ہے اسی لیے ہمیں ایک کام کیلیے جانا پڑا “
منہا انہیں دیکھتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگی
“اس کی ٹانگیں کھل گئی ہیں یونیورسٹی جاکر روک لیں اسے عنایت “
سمینہ محترمہ عنایت صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی جس پر منہا سر پر ہاتھ رکھ گئی
“مجھے میری بیٹی پر پورا یقین ہے آپ جائیے کافی بنا کر آئے پیتے ہیں”
عنایت صاحب مسکراتے ہوئے ان سے کہنے لگے جس پر سمینہ محترمہ نے انہیں دیکھا
“کافی مہنگی ہے وہ نہیں بناؤں گی اور نہ پیوں گی”
سمینہ محترمہ فوراً سے جواب دینے لگ گئی عنایت صاحب مسکرا گئے اور منہا انہیں دیکھتی نفی میں سر ہلا گئی
“تو بیگم میں پینے کیلیے لاتا ہوں ایسا کرو منہا بچے آپ بنا آؤ “
عنایت صاحب مسکراتے ہوئے جواب دیتے ساتھ منہا سے کہنے لگے جس پر وہ سر کو خم دیتے ساتھ اثبات میں سر ہلا کر کچن کی جانب بڑھ گئی
عابر اپنے کمرے میں بیٹھا ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے ہوئے تھا فہمیدہ کٹی پارٹی میں گئی ہوئی تھی جبکہ زید علی اپنے آفس میں موجود تھے گھر میں صرف ملازم اور عابر ہی موجود تھا کافی ختم ہوتے ہی وہ ورک آؤٹ کرنے کیلیے روم کی جانب بڑھ گیا اور ورک آؤٹ کرنے لگا اس کی سوچوں میں اسوقت منہا چھائی ہوئی تھی کتنی مختلف اور صاف دل کی لڑکی۔ تھی اس کی ہر ایک ادا ہر ایک بات اور ہر چیز عابر کو امپریس کررہی تھی کیا تھی وہ لڑکی اس کی سمجھ سے بلکل باہر تھی اس کا خیال آتے ہی لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ڈمپل نمایاں ہوا جو اس خوبصورت نوجوان کے چہرے کو مزید چار چاند لگا رہا تھا۔۔
~~~~~~~~~~~~
منہا کیفے ٹیریا میں بیٹھی کتاب پر نظریں جمائے ہوئے تھی تبھی امل بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئی
“کیا ہوا ہے امل”
منہا اسے بھاگتا اور گھبرایا ہوا دیکھ فوراً سے پوچھنے لگی
“یار منہا وہاں ایک لڑکی بہت بڑی مشکل ہے مجھے تو ڈر لگتا ہے نا تم تو بہت بریو ہو یار تم چلو نا میرے ساتھ اس کی ہیلپ کریں”
امل اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے اسے بولی منہا کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے اور وہ فوراً اٹھ کر امل کے ساتھ چل دی وہ دونوں اس طرف آئے اور سامنے کا منظر دیکھنے لگے جہاں ہر ایک کھڑا اس لڑکی کا تماشا بنتا دیکھ رہا تھا
“کیا کہا تھا تم نے تمہارے لیے تمہارے باپ کی عزت بہت اہم ہے ہے نا میری چند تعریفوں اور چند مہنگے گفٹس سے سب بھول گئی تم جیسی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی”
وہ لڑکا اس لڑکی پر نظریں جمائے طنزیہ لہجے میں بولتا قہقہ لگا گیا اور اس کی جانب بڑھا اسے چھونے لگا تھا
“خبردار خبردار جو تم نے اسے چھوا بھی اور آپ سب آپ سب اس لڑکی کی مدد کرنے کے بجائے یہ سب انجوائے کررہے ہیں شرم آنی چاہیے آپ سب کو”
منہا اس لڑکی کے آگے آکر کھڑی ہوتی غصے بھری نگاہوں سے اسے دیکھ اونچی آواز میں بولی
“ہو تم کون ہے اور عابر کی نیو گرل فرینڈ رائٹ”
وہ لڑکا منہا کو دیکھتا ہنس کر مزاحیہ انداز میں کہنے لگا اس سے پہلے منہا کچھ بولتی
“شیٹ ایپ اوئے”
عابر کی گرج دار اور اونچی آواز وہاں موجود ہر ایک شخص کے کانوں سے ٹکرائی تھی عابر بھاری قدم اٹھائے اس کے پاس آیااور اس کے منہ پر بھرپور مکہ جھڑ گیا منہا اور وہ لڑکی پیچھے کو ہوگئی عابر ایک کے بعد تین چار مکے مزید مارتا اس کے چہرہ بگاڑ گیا
“اپنی بکواس بند کر بےغیرت انسان اگر اس گندی زبان سے ایک بھی گٹھیا لفظ منہا کیلیے نکلا تو بولنے کے قابل نہیں رہے گا”
عابر سرخ آنکھیں لیے تیش سے بولتا اسے زمین پر پھینک گیا اور زمین پر پڑا اس لڑکی کا دوپٹہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا
“اور آپ جو ہو وہی رہو ان جیسے لڑکوں کی باتوں میں آنے کی ضرورت نہیں ہے”
عابر اس کی طرف دوپٹہ دیتا بغیر اسے دیکھا وہ لڑکی دوپٹہ تھام کر شرمندگی سے وہاں سے بھاگ گئی
“اور تو آج کے بعد اس یونیورسٹی میں دیکھا بھی تو کھڑے کھڑے تجھے زمین میں گاڑھ دوں دفعہ ہوجا”
عابر سخت تیور لیے اسے چیخ کر کہتا سب کو سہمنے پر مجبور کر گیا اور وہ شخص غصے سے عابر کو دیکھتا وہاں سے چلا گیا منہا حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی وہ جو کل تک کسی لڑکی کیساتھ تھا آج وہی ایک لڑکی کی عزت کو بچا گیا تھا
“چلو”
عابر منہا پر ایک نظر ڈال کر کہتے ساتھ آگے کی جانب بڑھ گیا منہا خاموشی سے اس کے پیچھے آئی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial