وحشتِ دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5

“واہ میرے بھائی کیا واٹ لگائی ہے اس کی”
کیف اس کے ساتھ چلتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہنے لگا عابر نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا وہ فوراً سیدھا ہوکر کھڑا ہوگیا
“تم اتنا ڈرتے کیوں ہو اس سے”
منہا جو کیف کے ساتھ کھڑی تھی قریب ہوکر آہستگی سے پوچھنے لگی کیف نے اسے دیکھا
“جب یہ غصے میں ہوتا ہے نا تو سامنے کوئی بھی ہو یہ اڑا دیتا ہے اور مجھے بھری جوانی میں مرنے کا ہرگز شوق نہیں ہے ابھی تو میری شادی ہونی ہے اور پھر بچے بھی “
کیف منہا کو مسکراتے ہوئے بتانے لگا امل نے اسے دیکھا
“جب دیکھو بس اپنی شادی کا ہی سوچتے رہتے ہو”
امل فوراً سے بیچ میں مداخلت کیے اسے کہنے لگی کیف نے اسے دیکھا
“تمہیں کیا ہے تمہارے ذہن سے سوچتا ہوں “
کیف بھی اسی کے انداز میں اسے جواب دینے لگ گیا امل منہ بسور گئی
“ہوگئی فضول باتیں پریزنٹیشن دیکھاؤ اپنی مجھے کیف”
عابر کیف پر نظریں جمائے سختی سے کہنے لگا کیف مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا
“تجھے کیوں دیکھاؤ تو پاٹنر تھوڑی ہے میرا مانا جگڑی یار ہے پریزنٹیشن تو میں نے کل کی تیار کرکے امل کو دے دی”
کیف مسکراتے ہوئے بڑی صفائی سے جھوٹ بول گیا عابر اسے سن رہا تھا
“جھوٹا میں نے اکیلے نے بنائی ہے”
امل فوراً سے عابر کو کہنے لگی کیف نے گھور کر اسے دیکھا
“ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس جاکر پکچرز بنا کر آؤ”
عابر اسے فوراً سے بولا کیف اثبات میں سر ہلا گیا
“اور اگر یہ کام گھنٹے میں نہ ہوا تو سیدھا فون تمہارے ڈیڈ کو جائے گا”
عابر نے آنکھوں پر گاگلز لگا کر اسکی جانب دیکھ کر دھمکی دی
“بس اب یہی دھمکی دینی رہ گئی تھی”
کیف چہرے پر مسکراہٹ سجائے دل میں کہنے لگا عابر کی نظریں اسی پر مرکوز تھیں
“ہوجائے گا”
کیف کہتے ساتھ وہاں سے چلا گیا امل بھی اس کے ساتھ آئی
“ایک بات پوچھوں”
ان دونوں کے جاتے ہی منہا اس کے مقابل میں آکر کھڑی ہوتی اس سے مخاطب ہوئی
“کوئی فضول بات نہیں ہے تو پوچھ لو”
عابر سپاٹ لہجے میں اسے کہتا آگے کی جانب قدم بڑھانے لگ گیا
“تم نے اس لڑکی کو پروٹیکٹ کیوں کیا تم تو۔ خود لڑکیوں میں انقلاب”
منہا ابھی بول رہی تھی عابر نے اسے ٹوک دیا منہا اسے دیکھنے لگی
“انیف منہا میں زبردستی نہیں کرتا لڑکیوں کے ساتھ اور ان کی انسلٹ اس طرح کبھی بھی نہیں کرتا ہوں پہلے بھی بولا تھا جس بات کا نہیں علم تو وہ بات نہ کرو لڑکیاں خود میرے پیچھے آتی ہیں جن لڑکیوں کو اپنی عزت کی پرواہ نہیں تو ہم کیوں کریں”
عابر اسے دیکھتے ہوئے ٹھنڈے لہجے میں کہتے ساتھ وہاں سے آگے بڑھ گیا منہا اسے جاتا دیکھنے لگ گئی جو بھی تھا بات تو اس کی ٹھیک تھی
~~~~~~~~~~~~
عابر گھر میں داخل ہوا ٹی وی لاؤنچ میں قدم رکھتے ہی نظر زید صاحب پر گئی اور شاید ان کے ساتھ ان کے دوست موجود تھے عابر انہیں پوری طرح نظرانداز کرتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا زید صاحب سمیت ان کے دوستوں نے بھی اسے جاتا دیکھا تھا زید صاحب کو شرمندگی سی محسوس ہوئی تھی
“زید تم اپنے بیٹے کو اپنا بزنس کیوں نہیں جوائن کرواتے ؟؟”
زید کے تین دوستوں میں سے ایک نے اسے دیکھتے ہوئے بولا زید نے اسے دیکھا
“ابھی تو وہ پڑھ رہا ہے پڑھائی کے بعد وہ میرا بزنس ہی سنبھالے گا”
زید چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اپنے دوست کو جواب دینے لگا جس پر وہ سر کو خم دے گئی
منہا اپنے کمرے میں سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی ڈائری لکھنے میں مصروف تھی
“مجھے اس انسان سے بہت سے اختلافات ہیں مگر آج اس نے ایک بات بلکل ٹھیک بولی چند تحائف اور کچھ میٹھی باتوں سے وہ اپنی شریعت کی مخالفت کرجاتی ہیں اگر عورت چاہے نا تو وہ مرد کو اپنی انگلی کا ناخن تک نہ چھونے دیں کیونکہ وہ یہ کرسکتی ہے واقع کچھ لڑکیوں کو اپنی عزت کی بلکل پرواہ نہیں ہوتی اور اس بات سے میں عابر سے اتفاق کرتی ہوں وہ برا ہے مگر عورتوں کی عزت کرنا اسے معلوم ہے”
منہا اپنی ڈائری پر لکھتے ہوئے اپنی ڈائری بند کرتی ہیں رکھتی کرسی سے پشت ٹکا گئی۔
وہ اپنے روم میں کھڑا تھا تبھی زید صاحب کمرے میں داخل ہوئے اس کی نظر ان پر گئی
“تمیز نہیں ہے تم میں کی جب مہمان گھر آئیں تو سلام دعا کرنی چاہیے”
زید صاحب سرد لہجے میں عابر کو دیکھتے ہوئے بولے عابر نے اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی
“تمیز اور تربیت تو ماں باپ کرتے ہیں میری تو نہ ماں ہے نہ باپ”
وہ سگریٹ جلا کر لبوں سے لگاتا دھواں ہوا میں اڑا کر بولا
“کیا فضول بکواس کررہے ہو زندہ ہوں میں میں ہوں تمہارا باپ”
زید صاحب فوراً سے تیش میں آتے اسے کہنے لگے عابر نے انہیں دیکھا
“اچھا اوہ میں بھول گیا تھا”
عابر لاپرواہی سے جواب دیتا سگریٹ پینے میں مصروف ہوگیا
“بہت ہی بدتمیز ہوگئے ہو عابر تم کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں”
زید صاحب سرد لہجے میں اسے بولے عابر انہیں سن رہا تھا
“خیر ماں تو میری ہے نہیں اور باپ بچپن سے لے کر آج تک کام میں ہی مصروف ہوتا ہے چار دن مل رہے ہیں ہم ہے نا تو ایسے مصروف لوگوں کی پھر ایسی ہی اولاد ہے خیر مجھے ریسٹ کرنا ہے آپ جاسکتے ہیں “
عابر کہتے ساتھ سگریٹ ڈسٹ بین میں پھینک کر بیڈ کی جانب بڑھ گیا اور وہ اسے بس دیکھتے رہ گئے اور خاموشی سے کمرے سے چلے گئے
عابر پر لیٹ گیا اور پھر سے وہ بہت گہری سوچوں میں گم ہوگیا
منہا کمرے میں اسوقت جائے نماز بچھائے نماز پڑھنے میں مصروف تھی اس کے چہرے پر نور چھایا ہوا تھا اس نے سلام پھیرا اور دعا کیلیے ہاتھ اٹھا گئی
“اللہ تعالیٰ آپ نے مجھے ہر ایک شے سے نوازا ہے الحمداللہ بابا اور ماما کی لمبی عمر کرنا آمین میں اس قابل تو نہیں ہوں لیکن میری دعا ہے کہ دنیا کی ہر لڑکی کی حفاظت آپ کریں وہ غلط راستے پر نہ جائیں انہیں سیدھے راستے کی توفیق عطا فرما”
منہا آنکھیں بند کیے سچے دل سے اللہ سے دعا مانگتی چہرے پر پھیر گئی جائے نماز کو کبرڈ میں رکھتی وہ بیڈ پر آکر لیٹتی سونے کی تیاری کرنے لگی
~~~~~~~~~~
وہ گہری نیند سورہی تھی جب اس کا فون بجا اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا اس نے ایک آنکھ کھولی اور سائیڈ ٹیبل پر موجود فون پر نظر ڈالی “Mr swagger” سکرین پر جگمگا رہا تھا وہ برا منہ بناتی فون اٹھا کر کان سے لگا گئی
“تم پاگل ہو کیا سوا چھ بجے کیا تکلیف پڑی ہے فون کرنے کی”
منہا نیند میں ڈوبی آواز میں غصے سے اس سے کہنے لگی
“ساڈھے سات یونیورسٹی میں تیار ہوکر پہنچ جانا”
عابر اسے حکم دینے والے انداز میں بتانے لگا وہ فون کو گھورنے لگ گئی
“میرا پہلا لیکچر نو بجے ہے میں ساڈھے سات کیا کروں گی آ کر”
منہا اس کی بات پر تپ کر اس سے پوچھنے لگی
“میں اپنا پروجیکٹ سب سے پہلے سبمٹ کرنے کا قائل ہوں”
عابر نے اسے جلدی آنے کی وجہ بتائی منہا کا دل کیا وہ فون میں گھس کر اسے کوئی چیز دے مارے
“تو تم کردینا میرا ساتھ ہونا ضروری نہیں”
منہا ضبط کرتی لفظوں پر زور دیے اسے جواب دینے لگی
“بلکل ضرورت ہے یہ پروجیکٹ ہم دونوں کا ہے دونوں ساتھ سبمٹ کروائیں گے”
عابر نے فوراً سے اسے جواب دیا منہا نے ایک گہرا سانس لیا اور اوکے کہتے ساتھ فون بند کرگئی
“ساڈھے چھ تو اس انسان نے بات کرتے کرتے کردی ہے”
منہا منہ بسور کر کہتے ساتھ شاور لینے کے غرض سے باتھروم کی جانب بڑھ گئی
سات بج کر پندرہ منٹ میں وہ ریڈی ہوکر کمرے سے باہر نکلی اور ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھ گئی
“منہا بیٹا آج جلدی تیار نہیں ہوگئی آپ “
عنایت صاحب اسے دیکھتے ہوئے وال کلاک پر نظر ڈال کر بولے
“ڈیڈ پروجیکٹ سبمٹ کروانا ہے عابر نے کہا ہے کہ وہ سب سے پہلے کروائے گا”
منہا منہ بنائے عنایت صاحب کو جواب دیتی بریڈ کھانے لگ گئی
“بڑا ذمہدار بچہ ہے ماشاء اللہ “
عنایت صاحب نے ایک بار پھر عابر کی تعریف کی جو منہا سے ہزم نہیں کوئی اور وہ جوس پیتی اٹھ کھڑی ہوئی عنایت صاحب بھی اسے چھوڑنے کیلیے کھڑے ہوگئے
“اللہ حافظ ماما”
وہ مسکراتے ہوئے سمینہ محترمہ کو کہتی باہر کی جانب تیزی سے بڑھ گئی
~~~~~~~~~~
وہ دونوں پروجیکٹ سبمٹ کروا کر ابھی باہر نکلے تھے کہ عابر تیز قدم اٹھائے آگے کی جانب بڑھ گیا
“عابر”
منہا نے اسے پیچھے سے پکارا عابر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا
“پروجیکٹ ختم ہوگیا نا تمہارا اور میرا راستہ بھی الگ “
عابر اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا منہا اسے دیکھنے لگی
“مجھے اپنی بات یاد ہے تمہیں میں نے بولا تھا میرا نمبر پروجیکٹ ختم ہوتے ہی ڈیلیٹ کرنا “
منہا اسے یاد دلاتے ہوئے آنکھیں چھوٹی کیے کہنے لگی عابر نے جیب سے فون نکالا اور اس کا نمبر بلاک کردیا
“تم نے مجھے بلاک کیوں کیا میرا نمبر ڈیلیٹ کرنا چاہیے تھا تمہیں “
منہا غصے سے عابر کو خود کو کو بلاک کرتا دیکھ بولی عابر اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگا
“تم پاگل ہو تمہیں ڈیڈ سے کبھی”
عابر مذاقیہ انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا
“اے ڈیڈ پر مت جانا”
منہا شہادت والی انگلی دیکھاتی اسے ٹوک گئی عابر اسے دیکھنے لگ گیا
“میں کسی کے ڈیڈ پر نہیں جارہا ہوں ویسے اگر تمہاری کوئی بہن ہے جو تمہاری طرح نک چڑھی نہ ہو تو مجھے ضرور بتانا بریو گرل”
عابر اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا منہا کی نظر اس کے ڈمپل پر گئی مگر اگلے ہی پل وہ نظر اس کے چہرے پر کر گئی عابر وہاں سے چلا گیا
“گو ٹو ہیل”
منہا غصے سے اسے جاتا دیکھ کر بولی اور منہ پھلا گئی
“کیا ہوا منہ کیوں پھلایا ہوا ہے”
امل اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر فوراً سے پوچھنے لگی
“وہ ہے نہیں عابر سائیکو”
منہا منہ بنائے امل کو وجہ بتانے لگی وہ مسکرا دی
“اتنا بھی برا نہیں ہے یار کل اگر وہ نہ آتا تو ناجانے اس لڑکی اور تمہارے ساتھ کیا ہوتا”
امل فوراً سے اس کی سائیڈ لیتے ہوئے بولی منہا نے اسے دیکھا
“میں اپنی پروٹیکشن خود کرسکتی ہوں مجھے اس آوارہ سڑک چھاپ کی پروٹیکشن کی ضرورت نہیں تھی “
منہا فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے بولی جس پر امل نفی میں سر ہلا گئی
“سڑک چھاپ تو مت بولو اسے اس کا باپ شہر کا سب سے بڑا بزنس ٹائیکون ہے “
امل برا مناتے ہوئے اسے کہنے لگی منہا نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا
“تم بہت انٹرسٹ نہیں لے رہی ہو اس میں”
منہا فوراً سے منہ بناتے ہوئے اسے بولی امل حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی
“امل امل”
کیف بھاگتے ہوئے امل کی جانب بڑھتا اسے پکارنے لگا امل اور منہا دونوں نے اسے دیکھا
“آؤ چلو پروجیکٹ سبمٹ کروانے چلیں”
وہ سانس بہال کرتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا امل نے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر نظر ڈالی جہاں دس بج رہے تھے
“مجھے ایک گھنٹہ ہوچکا ہے اپنا پروجیکٹ سبمٹ کروائے”
امل منہ بنا کر اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگی کیف اسے دیکھنے لگ گیا
“اچھا یار بہت بھاگ کر آیا ہوں تمہارے لیے ایک کام کرو کیٹین سے جوس لادو”
کیف اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا امل بھی چہرے پر مسکراہٹ سجا گئی
“پروجیکٹ ختم ہوچکا ہے اب شکل گم کرو اپنی اپنا ہر کام خود کرو”
امل اسے گھور کر دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ منہا کیساتھ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
“تم کیوں اس سے اتنا چڑھتی رہتی ہو ہاں”
منہا اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی امل نے نفی میں سر ہلا دیا
~~~~~~~~~~~
عابر یونیورسٹی کے بعد گھر میں داخل ہوا تو اس کی نظر سامنے ہی فہمیدہ بیگم پر گئی پہلے تو انہیں دیکھ کر موڈ خاصا خراب ہوا اور پھر نظر ان کے لباس پر گئی ٹراؤزر اور سلیولیس شورٹ شرٹ میں ملبوس ایک نامحرم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی شاید وہ ان کا کوئی فرینڈ تھا عابر کے ذہن میں سوچ آئی جس گھر کے بڑے ہی ایسے ہوں تو چھوٹو سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے
عابر خاموشی سے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تین چار دن مسلسل پروجیکٹ پر کام کرنے کی وجہ سے وہ تھک چکا تھا اس لیے وہ آج اپنی تھکاوٹ اتارنے کا ارادہ رکھتا تھا
منہا ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے نظریں ٹی وی سکرین پر جمائے ہوئے تھی
“کیسی جارہی ہے اسٹڈیز منہا دل لگ گیا ہے نا یونیورسٹی”
عنایت صاحب اسی وقت گھر میں داخل ہوتے منہا کے پاس آکر اسے کہنے لگے
“جی بابا لگ گیا ہے”
وہ مسکراتے ہوئے انہیں جواب دینے لگی
“یہ تو بہت اچھا ہوا ہے پھر”
وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگے جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی
“اور پروجیکٹ کا رزلٹ کب آئے گا”
وہ ایک اور سوال اس سے پوچھنے لگے
“یہ نہیں معلوم بابا مجھے ابھی”
وہ فوراً سے جواب۔ دیتے ساتھ نظریں واپس سکرین پر جما گئی اور عنایت صاحب سر کو خم دے گئے
~~~~~~~~~~
وہ ایڈٹیریم میں موجود تھے پروجیکٹ کے رزلٹس کی اناؤسمنٹ ہورہی تھی عابر اور منہا کی سکینڈ پوزیشن آئی تھی
“سو سٹوڈنٹس آپ سب کیلیے ایک اور گڈ نیوز ہے اس سیچرڈے آپ سب کا ٹرپ دو دن کیلیے سکردو جارہا ہے”
سر احمد مائک پر اناؤسمنٹ کرتے ہوئے بتانے لگے جس پر سب سٹوڈنٹس خوش ہوئے اور آہستہ آہستہ ایڈٹیریم سے باہر کی جانب بڑھ گئے
“میری وجہ ہم 7 پوزیشن پر آئے ہیں”
کیف امل کے پاس آتے ہوئے فوراً سے بولا امل نے غصے سے اسے دیکھا
“اگر تم تھوڑی محنت کرلیتے نا میرے ساتھ تو فورتھ یا ففتھ پوزیشن بھی آجاتی ہماری”
امل اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگی
“ٹوپ 10 میں آ گئے ہیں نا خوش نہ ہونا ناشکری کہیں کی”
وہ اسے منہ بنائے کہتے ساتھ عابر کی جانب بڑھ گیا منہا اس کی باتوں پر ہنسنے لگ گئی
“پاگل نہ ہو تو خیر منہا تم ٹرپ پر چل رہی ہو “
امل اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی جس پر منہا نے اسے دیکھا
“نہیں بابا کبھی پرمیشن نہیں دیں گے مجھے “
منہا اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی امل خاموش ہوگئی اور وہ دونوں کلاس کی جانب بڑھ گئے
~~~~~~~~~~~~
منہا اسوقت ڈنر پر ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھی
“یونیورسٹی کا ٹرپ جارہا ہے سکردو اس سیچرڈے کو “
منہا کھانا کھاتے ہوئے عنایت صاحب اور سمینہ محترمہ کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی
“تو بیٹا آپ جارہی کو نا یہی تو عمر ہوتی ایڈوینچرز کی بہت انجوائے کرنا آپ ضرور جائیں “
عنایت صاحب اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگ گئے منہا انہیں دیکھنے لگ گئی
“موڈ نہیں ہے میرا بابا”
منہا پانی کا گلاس اٹھا کر انہیں جواب دینے لگی
“کوئی ضرورت نہیں اتنی دور جانے کی سکردو اور اتنا خطرناک علاقہ ہے”
سمینہ محترمہ فوراً سے انکار کرتے ہوئے کہنے لگی عنایت صاحب نے انہیں دیکھا
“بیگم آپ بھی تو گئی تھی نا کالج کے ٹرپ کے ساتھ یاد ہے”
عنایت صاحب فوراً سے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہنے لگے سمینہ محترمہ انہیں دیکھنے لگ گئی
“آپ بھی تو میرے پیچھے وہاں آئے تھے “
سمینہ محترمہ شرماتے ہوئے ان سے کہنے لگی عنایت صاحب مسکرا گئے اور منہا ان دونوں کو دیکھنے لگی جن کی لو سٹوری پھر شروع ہوگئی تھی وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئی
~~~~~~~~~~~
اگلے دن وہ یونیورسٹی سے لیکچر لے کر کلاس سے باہر آئی تھی اور امل اس کے پاس آئی
“تمہیں معلوم کے اس دن جو لڑکا بدتمیزی کررہا تھا سر نے عابر اور اس لڑکے کو بلایا ہے آفس میں”
امل اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی منہا نے ایک نظر اسے دیکھا
“چلو “
منہا امل سے کہتے ساتھ آفس کی جانب بڑھ گئی
عابر اور وہ لڑکا آفس میں کھڑے تھے سر ان دونوں کو غصے سے دیکھ رہے تھے
“عابر آپ نے کیوں بلاوجہ اسے مارا”
سر غصے سے عابر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے عابر نے سر کو دیکھا
“سر یہ لڑکی کیساتھ بدتمیزی کررہا تھا اس کی انسلٹ کررہا تھا”
عابر نے سپاٹ لہجے میں سر کو جواب دیا جس پر سر نے اس لڑکے کو دیکھا جو چہرے پر شرافت سجائے کھڑا تھا
“مجھے نہیں لگتا ایسا ہوا ہوگا آپ غصے کے ویسے بھی بہت تیز ہیں اسلیے آپ کو دو دن کیلیے سسپینڈ کرتے ہیں”
سر نے سرد لہجے میں عابر کو دیکھتے ہوئے بولا منہا اور امل باہر کھڑی باتیں سن رہی تھی تبھی منہا آفس کی جانب بڑھی
“سر میں آجاؤ”
منہا دروازے کے پاس کھڑی ہوتی پرمیشن لیتی پوچھنے لگی سر کی نظر منہا پر گئی
“ابھی نہیں بعد میں آئیے گا ابھی میں بزی ہوں”
سر نے اسے فوراً سے بولا منہا اندر داخل ہوگئی سر اسے دیکھنے لگ گئے
“آئی ایم سوری سر لیکن میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں عابر نے جان بوجھ کر اسے نہیں مارا یہ پوری یونیورسٹی کے سامنے اس لڑکی کی انسلٹ کررہے تھے اور جب میں اس لڑکی کو بچانے گئی تو انہوں نے میرے ساتھ بھی بہت بدتمیزی کی عابر نے تو اس لڑکی کو پروٹیکٹ کیا تھا اگر آپ کو سسپینڈ کرنا بھی ہے تو اسے کریں عابر کو نہیں “
منہا فوراً سے سر کو سب تفصیل سے بتانے لگی سر نے اسے دیکھا منہا نے عابر کو دیکھا جو مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اس کے دیکھتے ہی عابر آئبرو اچکا گیا
“آپ دونوں جاسکتے ہیں”
سر عابر اور منہا کو اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے وہ دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے
“تھینکیو”
عابر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا منہا نے بھی اسے دیکھا
“اس کی ضرورت نہیں میں نے سچ کا ساتھ دیا ہے بس”
منہا اسے کہتے ساتھ امل کے ساتھ وہاں سے چلی گئی عابر اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
~~~~~~~~~~~
“یار عابر چل لے نا بہت مزا آئے گا”
کیف اس کے کمرے میں کھڑا اسے منانے کی کوشش کررہا تھا
“کیف میں بہت دفعہ وہاں جا چکا ہوں میں ہرگز نہیں جاؤں گا”
عابر اسے صاف لفظوں میں منع کرتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا
“مزا آئے گا دوستوں کیساتھ جانے میں تو الگ مزا ہے نا اور میں نے سنا ہے منہا بھی جارہی ہے”
کیف اسے مسکرا کر بتانے لگا عابر نے اسے دیکھا
“مجھے اس جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا چلا جا میرے روم سے “
عابر اسے فوراً سے جواب دے گیا کیف اسے منہ بسور کر دیکھنے لگ گیا مگر اس کے ذکر پر عابر کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی
“اچھا سوچتا ہوں”
عابر اس کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر کہنے لگا کیف خوشی سے اس کے گلے لگ گیا
“تم نہیں چل رہی ٹرپ پر”
امل فون کان سے لگائے منہا سے پھر سے پوچھنے لگی
“امم ٹھیک ہے چل لیتی ہوں”
منہا سوچ کر اسے جواب دیتی خوش کر گئی وہ مسکرا گئی
“بہت مزا آئے گا”
امل خوشی سے چہک کر بولی جس پر منہا مسکرا گئی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial