قسط 7
لنچ کے بعد سب لوگ تیار ہونے کیلیے اپنے اپنے رومز میں چلے گئے منہا ریڈ کلر کے ڈریس میں سر پر ہم رنگ حجاب کیے میک ایپ کے نام پر ہونٹوں پر لپ گلوس لگائے ہوئے تھا وہ اپنا حجاب سیٹ کرکے ارد گرد شال سے خود کو اچھی طرح کور کرتی تیار تھی امل بھی تیار تھی۔
کچھ ہی دیر سب سٹوڈنٹس تیار سے واپس نیچے آئے تھے عابر کی نظر منہا پر گئی لال رنگ اس کی دودھیانہ رنگت پر خوب جچ رہا تھا عابر کے دل نے ایک بیٹ مس کی وہ بامشکل اپنی نظریں اس سے ہٹا سکا اس کے بعد وہ سب لوگ سٹپارہ لیک جانے کیلیے نکل گئے پندرہ بیس کے سفر کے بعد وہ لوگ وہاں موجود سٹپارہ تھے وہ تصویروں کی طرح ہی دیکھنے میں بھی بےحد خوبصورت تھی ہر ایک اس نظارے سے لطف اندوز ہورہا تھا شفاف نیلے رنگ کا پانی سب کو اپنی جانب متوجہ کررہا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جسم کو لگ رہی تھی خوبصورت پہاڑیاں اور آسمان پر خوبصورت بادل اور آس پاس موجود گرینری اس نظارے کو مزید دلکش بنارہی تھی کچھ سٹوڈنٹس تصویریں وغیرہ لینے لگ گئے کچھ اس نظارے کو دیکھنے میں مصروف تھے اور کچھ اسی نظارے کی تصویریں وغیرہ لے رہے تھے۔
منہا ایک طرف کھڑی پانی کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی جب عابر کی نظر اس پر گئی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ چہرے پر ہلکی سی مسکان سجائے اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا اچانک اس کی نظر منہا کے بلکل سامنے طرف پڑی وہاں موجود دو لوگ اس کی تصویریں کھینچنے میں مصروف تھے عابر کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے اور چہرے پر یکدم سختی سی چھائی وہ بھاری قدم اٹھائے اس جانب آیا منہا نے اسے دیکھا
“تم کہیں اور جاکر کھڑی ہو”
عابر سخت لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا منہا نے گھور کر اسے دیکھا
“مسٹر میں نے معاف کیا ہے صرف تمہیں میرا ابا بننے کی ضرورت نہیں ہے”
منہا منہ بسور کر اسے صاف جواب دیتی پانی پر نظریں مرکوز کر گئی
“بیوقوف لڑکی مجھے ویسے بھی تمہارا ابا بننے کا کوئی شوق نہیں ہے سامنے لڑکے تمہاری تصویریں کھینچ رہے ہیں”
عابر اسے سامنے کی طرف اشارہ کیے خفگی سے کہنے لگا
“اوئے شرم نہیں آتی ہے تم لوگوں کو رکو تمہاری تو”
منہا گھور کر ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بازوؤں کے کف اوپر چڑھاتی انہیں کہنے لگی
“منہا تم وہاں نہیں جاؤ گی”
عابر اسے پکارنے لگا منہا نے گردن موڑ کر اسے دیکھا
“میں انہیں نہیں چھوڑوں گی بےشرم لوگ”
منہا غصے سے ناک پھلا کر بولتی ایک نظر ان دونوں لڑکوں پر ڈالے کہتی عابر کو بےحد کیوٹ لگی وہ دونوں لڑکے فوراً سے بھاگ گئے
“ہاہاہا بھاگ گئے ڈر کر”
منہا ہنستے ہوئے عابر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی عابر اسی پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا
“تم کیا ہو”
عابر اسی پر نظریں جمائے ایک بار پھر حیران ہوتا بولا
“میں تو ایسی ہی ہوں “
وہ کندھے اچکا کر مسکراتے ہوئے جواب دے گئی عابر بھی جواباً مسکرایا.
“یار مجھے واپس جانا ہے”
تبھی کیف ان دونوں کے پاس آتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا
“تجھے یہاں آنے کی کتنی اکسائٹمنٹ تھی اور اب واپس جانے کی بات کیف”
عابر گھور کر اسے دیکھتا سرد لہجے میں کہنے لگا جس پر کیف نے اسے دیکھا
“یار ہر وقت بِستی کرتا رہتا ہے تو”
کیف منہ پھلا کر کہنے لگا عابر اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا تبھی امل آتی نظر آئی
“امل”
کیف اسے دیکھتے ہی فوراً سے پکارنے لگا امل اس کی آواز سنتی سر پیٹ گئی
“کیا ہے”
وہ گھور کر اسے دیکھتے ہوئے تپ کر بولی
“مجھے اپنا کوٹ دے دو بہت سردی لگ رہی ہے”
کیف اس کے کوٹ پر نظر ڈالے اسے جان کر تنگ کرتا کہنے لگا
“کیف تم میرے ہاتھوں ضائع نہ ہوجانا کسی دن اپنے آپ کو مجھ سے بچا کر رکھو”
امل چلا کر اسے دانت پیس کر کہنے لگی کیف اور منہا قہقہ لگا ہنسے عابر پلک چھپکائے منہا کی ہنسی دیکھنے میں مصروف رہا۔
“میں جارہی ہوں تم دونوں ہنسوں بےوجہ”
وہ منہ بنا کر پیر پٹکتی وہاں سے چلی گئی منہا اس کے پیچھے بھاگی عابر اسے جاتا دیکھنے لگ گیا
“کیا دیکھ رہا ہے”
کیف اس کے پاس آتا قریب ہوکر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا عابر نے اس کی جانب دیکھا
“تجھے ہر بات جاننا لازمی ہے”
عابر اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا کیف دانت دیکھاتا مسکرایا
“بلکل ویسے بھی اگر تو نہیں بھی بتاتا مجھے پتہ لگ جاتا ہے”
کیف مسکرا کر اسے جواب دیتا مسکرانے پر مجبور کرگیا۔۔
~~~~~~~~~~~
رات کے وقت وہ لوگ سٹپارہ لیک سے واپس آئے تھے اور اسوقت تمام سٹوڈنٹس لان میں اکٹھے بیٹھے گانے وغیرہ گانے میں اور شور مچا رہے تھے منہا کو اپنے سر میں شدید درد محسوس ہوا وہ اپنی شال ٹھیک کرتی وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر ایک سائیڈ پر چلی گئی اس کی نظر عابر پر گئی
“تم یہاں کیوں اٹھ کر آ گئی”
عابر منہا کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
“درد ہورہا تھا سر میں اتنے شور کی عادت نہیں ہے نا بچپن سے اکیلی ہی رہوں گی”
منہا چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اسے جواب دینے لگی
“تم یہاں سب سے الگ کھڑے ہو کیوں”
منہا بھی ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگی
“گیدرنگ پسند نہیں اکیلا رہنا زیادہ پریفر کرتا ہوں”
وہ چہرے پر بھرپور سجائے اسے جواب دے گیا منہا سر کو خم دے گئی
“اور بتاؤ تم”
عابر اسے دیکھتے ہوئے چئیر پر بیٹھتا کہنے لگا منہا بھی خاموشی سے بیٹھ گئی
“کیا بتاؤ”
منہا نے بھی بدلے میں اس سے فوراً پوچھا
“تمہاری فیملی میں کون کون ہے”
عابر نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں پوچھا
“مام ڈیڈ اور میں اکلوتی بیٹی ہوں ان کی “
منہا مسکراتے ہوئے اسے بتانے لگی عابر سر اثبات میں ہلا گیا
“اور تمہاری فیملی میں کون کون ہے”
اب کی بار منہا نے وہی سوال اس سے پوچھا عابد کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ نمودار ہوئی
“میری فیملی میں کوئی نہیں ہے”
عابر نے اسے افسردگی سے جواب دیا اس کے لہجے میں موجود چھائی اداسی منہا نے صاف محسوس کی تھی
“اگر دل نہیں تھا تو کیوں آئے”
منہا فوراً سے اس سے کہنے لگی عابر نے اسے دیکھا
“کیف کی وجہ سے”
عابر نے ایک نظر کیف پر ڈال کر اسے بتایا جس پر منہا اسے دیکھنے لگی
“وہ تمہارے لئے بہت اہم ہے مگر تم تو اسے ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہو روعب جھاڑتے ہو اس پر خوامخواہ کیوں”
منہا کیف کو جاتا دیکھ عابر کی طرف چہرہ کیے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
“اس کے ڈیڈ نے اس کی ذمہداری مجھے دی ہوئی ہے بہت لاپرواہ ہے خود کو لے کر ایک یہی تو سچا ساتھی ہے بس میرے پاس “
عابر کیف کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا منہا اس کی بات قہقہ لگا کر ہنسی عابر ایک بار پھر اس کی ہنسی کو دیکھنے میں مجبور ہوگیا اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ سامنے خوبصورت لڑکی میں کیا سب سے زیادہ پسند ہے تو بلاجھجک ہی وہ اس کی ہیزل گرین آنکھیں اور اس کی خوبصورت مسکان کہ دیتا۔
“تم ہنسی کیوں”
عابر ہوش میں آتا اسے دیکھ کر آئبرو اچکائے کہنے لگا
“تمہیں دی ہوئی ہے یعنی تم اس کے دوسرے ابا ہو”
منہا ہنستے ہوئے اسے بولی عابر کے لبوں پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوئی
“مجھے واقع تمہیں پہچاننے میں غلطی ہوئی تم لڑکیوں کی عزت کرنا بخوبی جانتے ہو عابر زید علی”
وہ اپنے ہمیشہ والے انداز سے اسے کہنے لگی عابر مسکرا گیا جیسے اس کی بات اچھی لگی ہو۔
~~~~~~~~~~
وہ لوگ سونے کیلیے اپنے اپنے روم میں جا چکے تھے عابر اپنے روم میں بیٹھا ڈائری ٹیبل پر رکھے ہاتھ میں پین تھامے ہوئے تھا
“منہا عنایت مجھے نہیں معلوم مجھے تم میں اتنی دلچسپی کیوں ہورہی ہے اور نہ یہ سمجھ آرہی ہے اچھی لگتی ہو یا محبت ہوگئی ہے تم سے یہ سب سمجھنے سے قاصر ہوں میں لیکن میں اتنا ضرور لکھوں گا تم باقی لڑکیوں سے بہت مختلف بلکل مختلف ہو”
وہ مسکراتے ہوئے ڈائری پر لکھتا ڈائری بند کرکے رکھتا بیگ میں ڈال گیا اور منہا کا چہرہ یاد کرتے ہی اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی اور وہ کیف کیساتھ سو گیا
“ڈیڈ ٹھیک کہتے ہیں کہ واقع اس کے اندر کچھ ہے اس کے چہرے پر چھائی اداسی اور تکلیف مجھے صاف نظر آرہی تھی”
منہا عابر کو سوچتے ہوئے۔ امل کو دیکھتی بولی امل نے اسے دیکھا
“تم کیوں انٹرسٹ لے رہی ہو عابر میں چھوڑو یار”
امل اسے ایک نظر دیکھ فوراً سے بولی منہا نے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا گئی
“میں کیوں انٹرسٹ لے رہی ہوں صحیح بول رہی ہوں سوجانا چاہیے “
منہا کہتے ساتھ کروٹ بدل کر لیٹ گئی مگر عابر کی کہی بات اور اس کا چہرہ منہا کے ذہن سے نہیں نکل رہا تھا
~~~~~~~~~~~~
صبح عابر کی آنکھ سوا چھ کے قریب کھلی وہ بیڈ سے اتر کر فریش ہوا اور کیف کو اٹھایا
“کیا ہے عابر سونے دے”
کیف نیند میں بڑبڑاتے ہوئے اسے کہتے ساتھ بلینکٹ منہ تک اوڑھ گیا
“کیف دو منٹ سے پہلے اٹھ جا “
عابر اسے فوراً سے بولا اس کے منہ سے بلینکٹ ہٹانے لگ گیا
“کیا ہے بھائی کون صبح صبح جاگنگ پر جاتا ہے”
کیف اٹھ کر بیٹھتا روتی شکل بنائے کہنے لگا جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گیا
“ہوگئی ایکٹنگ جلدی سے تیار ہو”
عابر کہتے ساتھ اپنے بال ٹھیک کرنے لگ گیا اور وہ زبردستی بیڈ سے اتر کر باتھروم کی جانب بڑھ گیا
عابر اور کیف باہر آئے تو نظر منہا پر گئی جو لان میں ٹہل رہی تھی منہا ان دونوں کو اتنی صبح صبح اٹھا پاکر حیران رہ گئی
“تم یہاں اسوقت خیریت”
عابر کی نظر منہا پر گئی وہ رکتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا
“کچھ نہیں میں بس ماما بابا کو مس کررہی ہوں”
منہا چہرے پر اداس مسکراہٹ سجائے کہنے لگی جس پر عابر اور کیف نے اسے دیکھا
“تم لوگ کہاں جارہے ہو”
منہا نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھا
“جاگنگ کرنے”
عابر نے مختصر سا جواب دیا
“میں بھی چلوں”
منہا فوراً سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگ گئی
“سوچ لو کیا پتہ راستے میں عابر تمہیں کیڈنیپ کرلے”
کیف مزاحیہ انداز میں اسے دیکھتا کہنے لگا منہا نے ایک نظر عابر پر اور ایک نظر کیف پر ڈالی
“ان تین مہینوں میں اتنا تو معلوم ہوگیا ہے کہ عابر کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا ہے وہ لڑکیوں کی رسپیکٹ کرنا جانتا ہے”
منہا کیف کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دینے لگی کیف نے حیرت سے منہا اور پھر عابر کو دیکھا
“ابھی نہیں چلو پھر کبھی موقع ملا تو ضرور تمہیں جاگنگ پر ساتھ لے کر چلوں گا”
عابر اسے کہتا کیف کیساتھ آگے بڑھ وہ خاموشی سے ان دونوں کو جاتا دیکھنے لگ گئی
وہ دونوں پچھلے پندرہ منٹ سے مسلسل بھاگ رہے تھے
“مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے میں کیوں بھاگ رہا ہوں”
کیف اس کے ساتھ آتے ہوئے سانس پھولے کہنے لگا عابر نے اسے دیکھا
“اس سے اچھا منہا کو ہی ساتھ لے آتا “
کیف مسکراتے ہوئے عابر سے کہنے لگا عابر نے ایک نظر اسے دیکھا
“مجھے اگر امل آفر کرتی تو میں تو اسے لے آتا “
کیف امل کا سوچتے ہوئے کہنے لگا عابر ایکدم رک کر اسے دیکھنے لگ گیا
“تو واقع امل میں انٹرسٹڈ ہے کیا؟”
عابر اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا کیف نے اسے دیکھا
“اچھی لگتی ہے اسے تنگ کرنے میں مزا آتا ہے”
کیف مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگ گیا عابر سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا
“کیف وہ دونوں لڑکیاں بہت سیدھی اور اچھی ہے امید ہے مجھے تو اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی”
ابھی عبار کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ کیف نے اسے ٹوک دیا
“استغفر اللہ یار ایسا نہیں ہوں لاکھ گٹھیا صحیح مگر اتنا گٹھیا نہیں ہوں”
کیف بھی خفگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگ گیا وہ اثبات میں سر ہلا گیا اور دونوں جاگنگ دوبارہ کرنے لگ گئے..
~~~~~~~~~~~~
سب سٹوڈنٹس کو نیچے ناشتے کیلیے بلایا گیا تھا منہا شاور لے کر وائٹ کلر کے خوبصورت فراک اور ٹراؤزر میں ملبوس سر پر حجاب کیے میک ایپ سے چہرہ بلکل پاک وہ اور امل نیچے کی جانب بڑھے امل نے بھی جینز اور گھٹنوں تک آتی پنک فراک تیب زیب کی ہوئی تھی۔
امل اور منہا جب نیچے آئے تو ایک ہی ٹیبل خالی موجود تھی وہ دونوں وہاں جاکر بیٹھ گئے۔
“یار وہاں چلی”
کیف اٹھ کر اسے بول رہا تھا جب عابر نے اسے دوبار بٹھا لیا
“خاموشی سے یہاں بیٹھا رہ”
عابر اسے دیکھتے ہوئے غصے سے بولا جس پر وہ خاموشی سے بیٹھ گیا
عابر کی نظر منہا پر گئی اسے سر تا پیر مکمل دیکھنے لگ گیا عابر کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی منہا اور امل باتیں کرنے میں مصروف تھی منہا۔ کے چہرے پر مسکراہٹ برقرار تھی
“جسے دیکھ رہا ہے نا اس کی نظر تجھ پر گئی تو تیرا جو حشر ہوگا وہ بہت اچھے سے جانتا ہے”
کیف عابر کو دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بتانے لگا عابر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا
“جو کرے گی میرے ساتھ کرے گی تو فکر مت کر”
عابر صاف لفظوں میں اسے جواب دیتا منہا کو واپس نظروں کے حصار میں لے گیا اپنی دلی کیفیت اپنے جذبات کو وہ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہا تھا اس کی آنکھوں میں صاف منہا کیلیے محبت پیار عزت نظر آرہی تھی
“کیا وہ تجھے اچھی لگنے لگی ہے ؟”
کیف اب کی بار سنجیدگی سے سوالیہ نظروں سے دیکھتا پوچھنے لگا عابر کی نظریں منہا پر ہی مرکوز تھیں
“پتہ نہیں مگر ناجانے کیوں میرا دل خودبخود منہا کی جانب کھینچتا چلا جارہا ہے اس احساس کو سمجھنے سے قاصر ہوں مگر جو بھی ہے یہ احساس بہت خوبصورت ہے”
عابر منہا پر نظریں جمائے مسکراتی آنکھوں سے کیف کو جواب دے گیا
“تو پکا عاشق بن چکا ہے”
کیف اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کہنے لگا اب کی بار عابر نے گھور کر اسے دیکھا
ناشتہ لگ چکا تھا سب لوگ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے عابر ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے پینے میں مصروف تھا ناچاہتے ہوئے بھی عابر کی نظر ایک بار پھر منہا کی جانب چلی گئی وہ ساتھ میں چائے کا کپ تھامے کسی بات پر مسکرا رہی تھی عابر نے فون اٹھایا کیمرا آن کرکے اس کی تصویر کیمرے میں کیپچر کرلی اور تصویر کو دیکھ کر مسکرادیا۔۔
ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد وہ لوگ فام ہاؤس کے لان میں موجود جہاں برف باری ہورہی تھی ہر ایک اس موسم سے لطف اندوز ہورہا تھا منہا اپنے ارد گرد شال لپیٹے کھڑی مسکراتے ہوئے اس برفباری کو دیکھ رہی تھی اس کا وجود ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا زیادہ ڈھنڈ ہونے کی وجہ سے منہا کی ناک سرخ ہوچکی تھی
“استغفر اللہ گندی سردی ہے میرے سے برداشت نہیں ہورہی توبہ جیسے ساری برف یہی گر گئی ہو”
کیف سردی سے کپکپاتے ہوئے کہنے لگا عابر ساتھ کھڑا مسکرانے لگ گیا امل نے برف کا گولہ بنایا اور منہا کو مارنے لگی مگر وہ گولہ سیدھا کیف کے منہ پر جاکر لگا کیف نے امل کو دیکھا امل نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ لی
“غلطی سے لگا کیف میں منہا کو مار رہی تھی “
وہ فوراً سے اسے وضاحت دینے لگی کیف نے فوراً برف کا گولہ بنایا اور اسے دے مارا
“کیف کے بچے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی اب پہلے غلطی سے لگا اب برف مار مار کر تمہارا حشر نشر نہ کیا تو میرا نام امل نہیں ہے”
امل غصے سے لال ہوتی اسے بولتے ساتھ گولہ بنانے لگی منہا امل اور کیف کی بچکانہ حرکتوں پر ہنس رہی تھی امل نے گولہ بنا کر کیف کی طرف اچھالنا چاہا کیف بھاگ گیا اور وہ گولہ سیدھا منہا پر جا کر لگا منہا ہنستے ہوئے ایکدم ساکت ہوگئی اب امل اور کیف ہنس رہے تھے عابر کے لبوں پر مسکراہٹ چھائی تھی
“امل کی بچی اب تم نہیں بچو گی میرے ہاتھ سے”
منہا گھور کر اسے دیکھتے اسے مارنے لگ گئی عابر خاموش ایک طرف کھڑا منہا کو دیکھ رہا تھا تبھی منہا بھاگتے ہوئے امل سے بچ رہی تھی بےدھیانی میں بھاگتے منہا بری طرح عابر سے ٹکراتی ان بلینس ہوتی لڑکھڑانے لگی عابر نے اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے تھام کر بچا لیا منہا اسے دیکھنے لگی عابر کی نظریں بھی مرکوز تھی ڈارک براؤن آنکھیں ہیزل گرین آنکھوں سے ٹکرائیں تھیں اور عابر کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی وہ دونوں دو پل ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تبھی امل نے منہا کی جانب گولہ اچھالا تو عابر اسے فوراً سائیڈ پر کرگیا اور برف عابر کو لگ گئی منہا کیف اور امل تینوں حیرانگی سے دیکھنے لگ گئے
“سوری سوری بائے مسٹیک”
امل کانوں پر ہاتھ رکھے چہرے پر معصومیت سجائے عابر سے معافی مانگنے لگی عابر نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا
“تھینکیو”
منہا اسے مسکرا کر دیکھتی بولی عابر نے اس کی طرف دیکھا “یور ویلکم”
وہ اسی پر نظریں مرکوز نرم لہجے میں جواب دینے لگ گیا۔