وحشتِ دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 8

آج سب سٹوڈنٹس”Blind lake” گھومنے کیلیے آئے ہوئے تھے انہوں نے ادھر بھی بہت انجوائے کیا اور اس وہ جگہ بھی سٹپارہ لیک کی طرح بےحد خوبصورت تھی شام کے قریب وہ لوگ واپسی کیلیے نکل چکے تھے رات کے وقت یہ جگہ بہت خطرناک ہوجاتی تھی
کچھ دیر بعد وہ لوگ فام ہاؤس پہنچ واپس پہنچ چکے تھے کل صبح واپسی تھی اس لیے تمام سٹوڈنٹس فام ہاؤس میں بیٹھے ٹرتھ اینڈ ڈئیر کھیل رہے تھے۔
“منہا ٹرتھ یا ڈئیر ؟؟”
بوتل جیسے ہی منہا پر رکی امل فوراً سے اس سے پوچھنے لگ گئی
“ڈئیر”
منہا فوراً سے مسکرا کر کہنے لگی اسے ویسے بھی ایڈوینچرز کرنے کا شروع سے بہت شوق تھا
“سوچ لو جو کہیں گے وہ کرو گی”
ایک سٹوڈنٹ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی منہا اثبات میں سر ہلا گئی
“ٹھیک ہے تو فام ہاؤس کے سامنے جو جنگل دیکھ رہی ہو جاؤ اس کا ایک راؤنڈ لگا کر آؤ”
اس لڑکی نے جنگل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے ڈئیر دیا منہا نے گردن موڑ کر اس جنگل کی دیکھا اس کا دل گھبرایا وہ پریشان ہوئی
“ڈر گئی کیا؟”
منہا کو خاموش پاکر وہ لڑکی فوراً مذاق اڑانے والے انداز میں کہنے لگی
“منہا کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہے میں جاؤں گی”
منہا کہتے ساتھ مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی امل اور کیف پریشان ہوئے
“منہا پاگل ہوگئی ہو تم کہیں نہیں جارہی بیوقوف تمہارا دماغ خراب ہے یہ کیسا ڈئیر ہے”
کیف غصے سے منہا کو جاتا دیکھ کر کہنے لگا اور اس لڑکی کو بولا
“میں جارہی ہوں میں نے ڈئیر ایکسیپٹ کرلیا ہے”
منہا کہتے ساتھ خاموشی سے فام ہاؤس سے باہر کی جانب قدم بڑھا گئی کیف اور امل اسے پکارتے رہے مگر وہ سنی ان سنی کرتی چل دی
کیف بھاگتے ہوئے عابر کی جانب بڑھا کیف کی نظر اس پر گئی جو اکیلا کھڑا سگریٹ لبوں سے لگائے ہوئے تھا عابر کی نظر کیف پر گئی تو اس نے منہ سے سگریٹ نکال کر دھواں ہوا میں اڑایا
“عابر وہ منہا جنگل میں چلی گئی وہ پاگل سامعیہ نے اسے ڈئیر دیا ہے”
کیف پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پریشانی سے کہنے لگا عابر کی سانس رک گئی اور وہ پریشان سا کیف کو دیکھنے لگ گیا وہ بھاری قدم اٹھائے اس طرف بڑھا سب سٹوڈنٹس پریشان کھڑے ہوئے منہا کو جاتا دیکھ رہے تھے عابر اس طرف آیا
“آر یو میڈ”
عابر سامعیہ کو سرخ آنکھوں سے دیکھتےہوئے چیخ کر کہتے ساتھ جنگل کی طرف بڑھ گیا سب سٹوڈنٹس پریشان ہوچکے تھے۔
منہا چلتے ہوئے بہت آگے نکل چکی تھی شدید اندھیرا ہونے کی وجہ سے اب اسے خوف اور رونا دونوں آرہا تھا اور اب وہ صرف پچھتا رہی تھی وہ خوفزدہ نظریں ارد گرد گھمائی چل رہی تھی جب اپنے پیچھے سے کسی کی آواز سنائی دی منہا کی سانس سینے میں اٹک گئی
“استغفرُللہ کون ہے میرے پیچھے منہا بی بریو”
منہا بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہتے ساتھ انکھیں بند کرکے گہرا سانس لیتی ہاتھ کا پنچ بنا کر مڑی اور اسے مارنے لگی جب عابر نے اس کا ہاتھ فوراً پکڑلیا
“تم”
منہا فون ٹارچ اس کے چہرے پر کیے اسے دیکھتی حیرانگی سے کہنے لگی
“کیا بیوقوفی ہے یہ منہا”
عابر اسے دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہنے لگا منہا اسے دیکھنے لگی
” بیوقوفی نہیں ہے مجھے ڈئیر ملا تھا”
منہا منہ بسور کر اسے جواب دینے لگ گئی عابر اسے غصے سے دیکھ رہا تھا
“چلو اب بے وقوفی لڑکی اگر کچھ ہوجاتا تو”
عابر اس پر ہی اپنی سرد نگاہیں ڈالے فکرمند سا کہنے لگا منہا اسے خاموشی سے دیکھ رہی تھی
“میں کس طرف مڑا تھا یار”
عبار پلٹ کر جانے کیلیے آگے بڑھا ہی تھا پریشانی سے کہنے لگا منہا نے اسے دیکھا
“سب تمہاری وجہ سے ہورہا ہے”
عابر اسے خود کو دیکھتا پاکر فوراً سے کہنے لگا
“میں نے تو نہیں کہا تھا کہ میرے پیچھے آؤ نہ آتے مجھے اپنا دھیان رکھنا آتا ہے”
منہا بھی خفگی سے سینے پر بازو باندھ کر اسے جواب دینے لگ گئی
“خاموش رہو منہا”
عابر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے راستہ یاد کرنے لگا
“میں کہاں سے آئی تھی مجھے بھی یاد نہیں”
منہا منہ بسورے بڑبڑا کر خود سے کہنے لگی عابر نے اسے دیکھا
“صرف تمہاری اس احمقانہ حرکت کی وجہ سے ہم دونوں یہاں پھنس گئے ہیں”
عابر اسے انگلی دیکھا کر تیز لہجے میں کہنے لگا منہا اسے گھور کر منہ بسور گئی
“اب چلو میرے پیچھے”
عابر اسے کہتے ساتھ آگے بڑھنے لگا منہا اسے دیکھ رہی تھی
“میں نہیں جارہی تمہارے ساتھ تمہیں تو راستہ بھی یاد نہیں ہے آئے بڑے میں کھو گئی تو”
منہا اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی جب عابر نے اسے ٹوک کر اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل گئی۔
وہ دونوں گھنٹے سے مسلسل چل رہے تھے مگر راستہ نہیں مل رہا تھا منہا چل چل کر تھک چکی تھی
“عابر میں تھک گئی ہوں”
منہا بیٹھتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی عابر نے اسے دیکھا
“تو کیا ہیلو کاپٹر منگواؤ اب تمہارے لیے”
عابر رک کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا منہا نے غصے سے اسے دیکھا
“مجھے کچھ دیر آرام کرنا ہے”
منہا درخت سے پشت ٹکائے اسے کہنے لگی عابر اسے دیکھ رہا تھا
“ٹھیک ہے تم آرام کرو جب کوئی جانور آکر تمہیں کھا جائے گا نا تب پتہ لگے گا”
عابر اسے تپ کر غصے سے کہنے لگا منہا ایکدم گھبرا گئی
“کیا یہاں جانور بھی ہوتے ہیں؟؟”
منہا پریشان سی اسے دیکھتی خوف زدہ سی بولی عابر کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی
“نہیں یہ بغیر جانوروں والا جنگل ہے جنگل ہے جانور تو ہوں گے”
عابر اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر سختی سے کہنے لگا
“مجھے پہلے شک تھا اب یقین ہوچکا ہے تم پوری پاگل ہو”
عابر اور وہ دونوں پھر سے چلنے لگے عابر اسے چلتا دیکھ کر کہنے لگا
“نہ سنگنلز آرہے ہیں اوپر سے رات کے ساڈھے تین ہوچکی ہے”
عابر فون پر وقت دیتے ہوئے پریشانی سے چلتے ہوئے کہنے لگا
“رات کے نہیں صبح کے ساڈھے تین ہوتے ہیں”
منہا اسے فوراً سے بتانے لگی عابر نے اسے دیکھا جس لڑکی کو صبح اور رات کی پڑی ہوئی تھی
“صبح اور رات کا بتاتی رہو ویری گڈ”
عابر اسے ٹونٹ کرتے ہوئے بولا منہا نے ایک بار پھر اسے ناراضگی سے دیکھا
“کاش تمہاری جگہ کیف ہوتا “
منہا چلتے ہوئے مایوس لہجے میں کہنے لگی عابر نے فورا اسے دیکھا
“کیوں؟”
عابر نے سنجیدگی سےاسے دیکھتے ہوئے سوال کیا
“کچھ نہ ہی صحیح لیکن دو تین جوکس سنا کر موڈ اچھا کرلیتا میرا “
منہا منہ بنائے سر جھکا کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے چلتے ہوئے کہنے لگی
“منہا تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے تمہیں معلوم ہے ہم اس جنگل میں گم ہوگئے ہیں کیا ہو تم تمہیں ذرا فکر نہیں ہورہی ہے”
عابر اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگا منہا نے اسے دیکھا
“مجھے واقع کوئی فکر نہیں ہورہی کیونکہ تم جو میرے ساتھ ہو “
منہا اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے دیکھ کر بے اختیار بول گئی عابر اسے دیکھنے لگا۔۔
اسوقت گھڑی پانچ بجارہی تھی عابر اور منہا ابھی بھی جنگل میں ہی تھے
“عابر مجھے بہت زیادہ نیند آرہی ہے”
منہا لڑکھڑاتے قدموں کیساتھ اس کے قدم سے قدم ملاتی چلتے ہوئے آہستہ آواز میں کہنے لگی
“یہی سوجاؤ”
عابر اسے فوراً سے کہتے ساتھ اسے لڑکھڑاتا چلتا دیکھ کر اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام گیا تاکہ وہ گر نہ جائے
“ایک بات بتاؤ نہ تم تھک رہے ہو نہ نیند آرہی ہے جن کے بچے ہو کیا”
منہا اس کے ساتھ چلتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی عابر کے لب تھوڑے اوپر کو اٹھے وہ خاموشی سے چلنے لگ گیا۔
“عابر میرا ہاتھ نہ چھوڑنا ورنہ گر جاؤں گی اس کے بعد ہم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں گے”
منہا اس کے ساتھ چلتے ہوئے آدھی نیند میں کہنے لگی عابر نے اسے دیکھا
“معافی کیوں؟؟”
عابر اسے دیکھتے ہوئے اس سے ایک بار پھر سوال کرگیا
“میری ماما کہتی ہیں کہ نامحرم کو ہاتھ کا ناخن بھی نہیں چھونا چاہیے اور تم میرے لیے نامحرم ہو تم بھی آیت لکرسی پڑھ لینا میں بھی پڑھ لوں گی”
منہا اسے دیکھتے ہوئے فورآ سے بتانے لگی عابر اس کی بات سن کر دھیرے سے مسکرایا وہ نیند میں عجیب بہکی بہکی باتیں کررہی تھی
چھ بجے کے قریب وہ لوگ بلآخر سڑک پر پہنچ گئے منہا کی نظر سامنے ہی امل کر گئی
“امل”
وہ خوشی سے چہکتے ہوئے عابر کا ہاتھ چھوڑتی امل کی طرف بھاگنے لگی تبھی عابر نے اس کی کلائی پر مضبوط گرفت حائل کرکے اسے اپنی جانب کھینچا منہا عابر کے سینے لگ آ لگی تیز رفتار سے آتا ٹرک وہاں سے آگے نکل گیا عابر کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی منہا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں تھیں۔
“بی کئیر فل”
عابر اسی پر نظریں جمائے کہنے لگا منہا کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی اور وہ دونوں فام ہاؤس کی طرف بڑھے
تمام سٹوڈنٹس منہا اور عابر کو ٹھیک آتا دیکھ پرسکون ہوئے اور امل منہا کے گلے لگ گئی
“آپ سب کو تو میں بعد میں پوچھتا ہوں تھینکیو سو مچ عابر تم نے ہماری یونیورسٹی کی ریپوٹیشن خراب ہونے سے بچا لیں”
سر اسے دیکھتے ہوئے فورآ سے شکر گزار لہجے میں کہنے لگے عابر نے سر اثبات میں ہلا دیا
“اس نے یونیورسٹی کی تھوڑی اس نے تو اپنی محبت کی ریپوٹیشن بچائیں ہے”
کیف عابر کے کان میں مسکراتے ہوئے کہنے لگا عابر نے گھور کر اسے دیکھا
“جاکر سب واپسی کی تیاری کریں ہم تھوڑی دیر میں نکل رہے ہیں”
سر ان سب کو آرڈر دے کر خود بھی اندر کی جانب بڑھ گئے اور سب سٹوڈنٹس اپنے اپنے رومز کی جانب بڑھ گئے۔
~~~~~~~~~~~
وہ لوگ واپسی کیلیے نکل چکے تھے منہا واپسی کے پورے راستے سو کر آئی تھی اور اب شام کے قریب وہ لوگ یونیورسٹی پہنچ چکے تھے
“تھینکیو سو مچ عابر”
منہا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی عابر بھی مسکرا کر اسے دیکھنے لگ گیا
“یور ویلکم”
عابر بھی مسکرا کر اسے جواب دینے لگ گیا
عنایت صاحب جو منہا کو لینے کیلیے آئے ہوئے تھے ان کی نظر منہا پر گئی جو عابر کے ساتھ کھڑی بات کررہی تھی منہا نے جیسے ہی عنایت صاحب کو دیکھا مسکراتے ہوئے فوراً اس طرف بڑھ گئی
“اسلام و علیکم بابا”
وہ ان کے گلے لگتے ہوئے مل کر کہنے لگی انہوں نے بھی منہا کے سر پر ہاتھ رکھا
“وعلیکم السلام”
وہ بھی مسکراتے ہوئے اسے پیار سے جواب دینے لگ گئے
“یہ لڑکا کون تھا بیٹا”
عنایت صاحب عابر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھنے لگ گئے
“بابا میں نے بتایا تھا نا کہ میرا پروجیکٹ پاٹنر بنا ہے یہ وہی لڑکا تھا “
منہا انہیں دیکھتے ہوئے فوراً جواب دینے لگ گئی جس پر وہ اچھا اچھا کہتے گاڑی کی طرف بڑھ گئے
وہ دونوں گھر پہنچے منہا سمینہ محترمہ سے ملنے کے بعد کچھ دیر ان کے پاس بیٹھی اور پھر سونے کیلیے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
منہا گہری نیند سورہی تھی جب اس کے دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی منہا پریشانی سے نیند سے جاگے اور بیڈ سے اتر کر دروازہ کھولنے لگی اس نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ سمینہ محترمہ نے ایک زوردار تھپڑ بغیر سوچے سمجھے اس کے منہ پر دے مارا منہا بےیقینی سے سمینہ محترمہ کو دیکھنے لگی
“ماما”
منہا انہیں پکارنے لگی وہ اسے غصے سے دیکھ رہی تھی
“شرم آنی چاہیے ہے تمہیں”
وہ غصے سے اسے کہتے ساتھ وہاں سے آگے کی جانب بڑھ گئی منہا پریشان سی ان کے پیچھے آئی
“بابا ماما نے مجھے تھپڑ کیوں مارا ہے”
منہا کی نظر صوفے پر بیٹھے عنایت صاحب پر گئی وہ تو بھرائی ہوئی آواز میں ان کے پاس آتے ہوئے پوچھنے لگی جو ہاتھ میں موبائل تھامے نظریں سکرین پر جمائے ساکت سے بیٹھے تھے
“میں نے تو تم پر کبھی بھی سختی نہیں کی کسی چیز سے نہیں روکا منہا اگر تمہیں وہ پسند تھا مجھے آکر کہتی”
عنایت صاحب اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگی منہا ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی
“مجھے کون پسند تھا بابا کیا بول رہے ہیں آپ”
منہا پریشانی سے عنایت صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی انہوں نے فون اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیا منہا اس نے فون پر نظر ڈالی اور منہا کو ایسا لگا کسی نے آسمان اس کے سر پر گرا دیا اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا محال لگا۔۔
~~~~~~~~~~~
“عابر”
کیف اس کے کمرے میں داخل ہوتا اسے پکارنے لگا عابر اس کی آواز پر آنکھ کھول کر اسے دیکھنے لگا اور پھر وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں صبح کے سات بچ رہے تھے وہ اتنی صبح یہاں کیوں آیا تھا
“کیا ہوا”
عابر اٹھ کر اسے بیڈکراؤن سے پشت ٹکائے چہرے پر ہاتھ پھیرتا اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا کیف سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا
“عابر مجھے واقع یقین نہیں ہورہا تو ایسا کیسے کرسکتا ہے مجھے لگتا تھا تو لڑکی کے ساتھ فلرٹ کر سکتا ہے اسے تنگ کرسکتا ہے مگر تو ایسا نہیں کرسکتا ہے میں۔ سمجھا تو منہا سے واقع محبت کرنے لگا تھا یار”
کیف اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجائے خفگی سے کہنے لگا عابر کے ماتھے پر سلوٹیں نمودار ہوئی
“کیا بکواس کیے جارہا ہے میں نے کیا کردیا ہے “
عابر ناسمجھ سے انداز میں اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا کیف نے فون اسے تھما دیا عابر سکرین پر موجود تصویروں کو دیکھنے لگا عابر کے چہرے پر پریشانی سی چھائی وہ تصویریں منہا اور اس کی ٹرپ پر لی گئی جب اس نے اسے ٹرک سے بچایا تھا تو اس کے سینے سے لگی تھی اور ایک جگہ اسے گرنے سے پچایا تھا دو تین مزید تصویریں تھیں
“یہ میں نے واقع نہیں کیا ہے یار تو پاگل ہے میں اس لڑکی کی عزت کو خراب کروں گا جس کی عزت کی پرواہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے”
عابر سرد لہجے میں کیف کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا کیف پریشان سا اسے دیکھ رہا تھا
منہا کی آنکھوں میں بےتحاشہ آنسو تھے اور وہ عنایت صاحب کے پاس بیٹھی ہوئی تھی
“میری بات کا یقین کریں جیسا آپ دونوں سوچ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے بابا میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے سچ میں”
منہا روتے ہوئے اپنی گواہی دیتے ہوئے کہنے لگی
“یہ بات تم مجھے کہ سکتی اپنی ماں اور دنیا کو دنیا کو کیا کہو گی بتاؤ مجھے”
عنایت صاحب اب کی بار تھوڑا سرد لہجے میں کہنے لگے منہا نفی میں سر ہلا گئی
“تم نے ہماری عزت دو کوڑی کی کردی ہے منہا مجھے شرم آرہی ہے کہ یہ کہتے ہوئے کہ یہ میری اکلوتی بیٹی ہے”
سمینہ محترمہ روتے ہوئے اسے دیکھ غصے سے کہنے لگی منہا ان دونوں کو دیکھ رہی تھی
“میرا بات تو سنیں ماما بابا ایسا کچھ بھی نہیں ہے اس انسان نے تو”
منہا روتے ہوئے اپنی وضاحت دینے کیلیے بول رہی تھی اچانک اسے عابر کا خیال آیا
“تم انتہائی گٹھیا انسان ہو تمہیں میں نہیں چھوڑوں گی”
منہا لہجے میں غصہ لیے کہتے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی اور فون ڈھونڈنے لگی فون پر نظر پڑتے ہی اس نے اٹھا کر عابر کا نمبر ڈائل کیا جو دوسری ہی بیل پر اٹھا لیا گیا
“یہ سب کیا ہے عابر کیوں کیا کے تم نے ایسا ہاں میں تمہیں لڑکیوں کی عزت کرنے والا سمجھتی تھی اچھا انسان سمجھتی تھی مگر میں غلط تھی تم واقع بہت گٹھیا ہو”
منہا چلا کر غصے سے اسے کہنے لگی عابر دوسری طرف خاموش کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا
“منہا میری بات سنو”
عابر اسے خاموش پاکر فوراً سے بولنے لگا منہا نے ٹوک دیا
“مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی تم نے ہی کہا تھا تم اپنے راستے اور میں اپنے راستے تم نے ہی مجھ سے معافی مانگی تھی پھر کیوں کیا تم نے یہ سب میرے ساتھ عابر کیوں”
منہا چیخ کر روتے ہوئے اسے کہنے لگی عابر جو اس کی آواز سے اندازہ ہوچکاتھا وہ کس قدر پریشان ہے
“میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی عابر زید علی “
منہا نے کہتے ساتھ فون بند کردیا اور وہی بیٹھی بیڈ پر بیٹھ آنسو بہانے لگ گئی اسوقت اسے ایک ہی راستہ نظر آیا وہ باتھروم کی جانب بڑھی اور وضو کرکے جائے نماز بچھاتی نفل ادا کرنے لگ گئی
“امل کو کال کر ابھی کے ابھی ہم منہا کے گھر چل رہے ہیں”
عابر کیف کو دیکھتے ہوئے غصے سے کہنے لگا کیف اسے دیکھنے لگ گیا
“تو پاگل ہے کیا عابر تو وہاں جائے گااس کا باپ جان سے ماردے گا “
کیف اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگا عابر نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا
“آئی ڈونٹ کئیر کال کر”
عابر آنکھوں میں سرخی سجائے اٹل لہجے میں کہنے لگا کیف نے امل کو کال ملائی۔۔
~~~~~~~~~
وہ تینوں منہا کے گھر کے باہر موجود تھے عابر نے بیل بجائے کچھ ہی دیر میں عنایت صاحب نے دروازہ کھولا عابر پر نظر پڑتے ہی انہیں غصہ آیا
“اسلام و علیکم انکل میں عابر ہوں مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے پلیزز دروازہ مت بند کیجیے گا”
عابر فوراً سے عنایت صاحب کو دیکھتے ہوئے ریکوئسٹ بھرے لہجے میں کہنے لگا جس پر خاموشی سے ان تینوں کو اندر آنے کا راستہ دیا
عنایت صاحب نے ان تینوں کو بیٹھنے کا بھی نہیں بولا تھا وہ تینوں خود ہی بیٹھ گئے تھے
“انکل میں بھی ٹرپ پر موجود تھی ایسا کچھ نہیں ہوا تھا عابر نے تو بس منہا کو بچایا تھا صرف”
امل بات کی شروعات کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہنے لگی عنایت صاحب خاموشی سے سننے لگی
“جی آنکل ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں “
کیف بھی فوراً سے بیچ میں بول پڑا عابر انہیں دیکھ رہا تھا
“انکل آپ یقین کریں آپ کی بیٹی اور میرا “
عابر ابھی بول رہا تھا کہ عنایت صاحب نے اسے خاموش کروا دیا
“مجھے کچھ نہیں سننا ہے نکاح کرو گے منہا سے”
عنایت صاحب سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے عابر خاموش سا انہیں دیکھنے لگا اسے سمجھ نہیں آیا وہ کیا جواب دے منہا جو نماز پڑھ کر باہر آئی تھی عنایت صاحب کے الفاظ سن کر وہ وہی ساکت ہو گئی
“جی کروں گا”
عابر نے فوراً سے ہامی بڑھ دی کیف امل دونوں بےیقینی سے اسے دیکھنے لگ گئے اور منہا نے نفرت بھری نگاہوں سے عابد کی طرف دیکھا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial