قسط 10
اس کی أنکھوں کے سامنے بچپن سے لے کر جو اچھی یادیں پیار برے لمحات شایان کے ساتھ گزرے تھے وہ کسی مووٸ کی طرح اس کے دماغ میں چل رہے تھے کیسے وہ بچپن میں ایک ساتھ کھیلتے تھے جب ایک بار غلطی سے راشد چوہدری کا چشمہ ٹوٹ گیا تھا ان یادوں میں اس طرح کھو گٸی تھی کہ وہاں کے ماحول سے بے خبر ہوگٸی
یادیں
میرا چشمہ کیوں توڑا تم نے کیا ضرورت تھی میرے کمرے میں أ کر میری چیزوں کو توڑنے کی اور کس کی اجازت سے أٸی یہاں تم
ساتھ سال کی معصوم سی چھوٹی سی بچی کو راشد چوہدری گرجدار أواز میں اسے ڈانت رہا تھا
بابا م م وو غلطی س س م ہات ہاتھ
وہ چھوٹی سی بچی ہچکیاں لیتی روتی ہوٸی باپ سے سر جھکاۓ بول رہی تھی باپ کی ڈانت سے وہ ڈر سے چھوٹی معصوم بچی کا پورا وجود کانپ رہا تھا جھیل سی أنکھوں میں أنسوں اسے کے پیار سفید رخسار پہ بہتے رہے تھے
چپ ایک دم چپ جاٶ اپنی امی کے پاس دوبارہ یہاں غلطی سے بھی نہ أنا ۔۔۔۔چھوٹی بچی کو ڈری سہمی دیکھ کر بھی اس کے باپ کو ترس نہیں أیا
چچا جان یہ چشمہ مجھ سے ٹوٹا ہے وہ عُروشہا کے کمرے سے أنے سے پہلے میں یہاں أیا تھا أپ کے کبٹ سے پین لینے مجھے اسکول کا ھوم ورک لکھنا تھا اسلیۓ اور پین ڈھونڈہ نے کے چکر میں میں نے کبٹ کی چیزوں کو اولٹ پلٹ کرنے لگا اور میرا ہاتھ سے اچانک چشمہ گر گیا معاف کردیں چچا جان دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہوگا
شایان کمرے کے دروازے پہ کھڑا سب دیکھ چکا تھا کہ کیسے راشد چوہدری اپنی ساتھ سال کی معصوم بچی کے ساتھ تلخ لہجہ میں بات کر کے اس سے ڈانٹ رہا ہے فوراً ہی کمرے کے اندر أیا اور ساری عُروشہا کی غلطی کا الزام اپنے سر لے لیا تھا وہ بچی نم نگاہوں سے سامنے کھڑے سولا سال کے لڑکے کو دیکھ رہی تھیں اس کی کی گٸی غلطی اپنے سر لے لی تھی
ٹھیک ہے جاٶں باہر اب تم دونوں
راشد چوہدری نے دونوں کو سختی سے کہا تو شایان عُروشہا کا ننہہ سا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیۓ کمرے سے باہر نکل أیا
شایان بھاٸی أپ نے میری غلطی اپنے سر کیوں لی
وہ چھوٹی سی بچی اپنی جھیل سی أنکھیں ٹمٹماتی بغور اسے دیکھ کہا
کیوں کہ یہ میں کبھی نہیں دیکھ سکتا کہ میرے ہوتے ہوۓ کوٸی تمھیں بُری طرح ڈانتے جب جب تم پر مصیبت أٸیں گٸی شایان ہمیشہ عُروشہا تمھاری ڈال بنے گا اور ہاں یار پلیزززز یہ بھاٸی تو نہ بولو پتا نہیں کیوں پر تمھارے منہ سے مجھے بھاٸی الفاظ زہر کی ماندہ لگتا ہیں
سولا سال کا بچہ جو کہ عشق کی بیماری سے لاعلم تھا مگر اس چھوٹی سے گڑیا کا یوں بھاٸی کہنا اسے اچھا نہیں لگتا تھا
وہ بچپن کی یادیں یاد کرتی اس کے لبوں پر مسکان أٸی تھی ہوش تو تک أیا جب مولوی کی أواز اس کے کانوں سمت سے ٹکراٸی
أپ کا نکاح ارباب زحد سے ایک لاکھ روپہ کے طور پر طعے کیا جاتا ہیں کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
وہ بینا کوٸی حرکت کیۓ بُت بنی بیٹھی رہی تھی سب کے نظریں اس پر ٹکی ہوٸی تھیں راشد چوہدری نے شاہدہ بیگم کو اشارہ کیا انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
عُروشہا بیٹی مولوی صاحب أپ سے کچھ پوچھ رہے ہیں جواب دیں
شاہدہ بیگم کی أواز گرب سے چور تھی اس وقت کو وہ کوس رہی تھیں جب عُروشہا کو زندگی ملی تھی کم سے کم چھوٹی عمر میں چلی جاتی تو ایک درد تھا مگر زندہ رھ کر اس کے لیۓ ہر روز ایک نیاں امتحان اور سزا منتظر تھی
چوہدری سردار گزب ہوگیا گزب ہوگیا
ولیدبخش چوہدری کا وفادار أدمی بھاگتا ہوا ان کے پاس أکھڑا ہوا تھا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اس کا چہرہ پسینہ سے شل نمودار تھا چلاتے کہا
یکدم ولید بخش چوہدری کرسی سے اٹھ کھڑے ہوٸیں سب بھی ان کو اٹھتا دیکھ کے فوراً اپنی جگہوں سے کھڑے ہوۓ تھے
کیا ہوا اس طرح کیوں شور مچا رہے ہو کون سی قیامت أگٸی ہے
غصیلی أواز میں غرایا تھا
وہ سردار جی قیامت أگٸی ہے
نوکر کی أنکھوں میں خوف تھا جوسب نے بخوبی دیکھا تھا اور نا سمجھی میں سب اس کی بے باقی بات پر چونکیں
جو کہنا ہیں صاف بات کروں یوں گھماں پھراٶں نہیں
راشد اس کےروبرو کھڑے ہوتے کہا تھا نکاح ابھی کا وہی عُروشہا کی مرزی پہ رکا ہوا تھا
سردار جی چوٹا منہ بڑی بات مگر میں اپنے گہناھ گار أنکھوں سے دیکھ کر اور سن کے أ رہا ہوں
وہ پھر سے اس ہی ٹون میں بات کر رہا تھا سُجاد کو غصہ أیا تھاکیونکہ کب سے سب اس کی پوری بات سن نے کو تیار کھڑے تھے مگر جیسے أج اس کا ستارہ گردش میں تھا ایک منٹ میں اس کا گریبان ہاتھوں میں پکڑ لیا
صاف صاف بولوں گٸے اور تمھاری بات پوری ہو یا نہ ہو لیکن میرا ہاتھ تمھارے چہرے کا نقشہ بگاڑ دیٸے گا بکو اب
سجاد نے نوکر کوگریبان سے جھنجھوڑا تھا
ہمممم معافی صاحب میں بول رہا ہوں ۔۔۔وہ سجاد سے اپنا گریبان چھوڑاتے گویا تھا
سردار وہ ارحام سلطان نے سب گاٶں والوں کو أپ کے خلاف کر رہا ہیں وہ پنجاٸیت میں بیٹھا سب کو أپ کے اوپر اُکسا رہا ہے اور وہ پولیس والا بھی اس کے ساتھ ملا ہوا ہے پولیس والے کا نام کیا تھا ۔۔۔ جی ہاں وہ افسد
نوکر کے کہنے پر مانو ولید بخش چوہدری کے پیروں سے زمین کسک گٸی تھیں
کیا مگر وہ تو میرا خاص أدمی ہے اس کمینے سے کب ملا
ولید بخش چوہدری کو اپنا سر گومتا ہوا معلوم ہوا تھا
ابا جان ابھی تو وہاں چلتے ہیں پتا نہیں ارحام کمینہ اب کیا کرنے کا سوچ رہا ہے ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جاۓ ہمھیں جلدی ہی وہاں پہنچناں چاہیے
سجاد چوہدری نے ولید بخش چوہدری کو مخاطب کیا تھا تینوں ہی جلدی میں حویلی سے باہر نکل گیۓ تھے پیچھے شاہدہ بیگم نے عُروشہا کا گھونٹ اوپر کیا تھا اور اس کو جگہ سے اٹھایا اور لڑکے کے باپ ماں ہکا بکا رھ گٸے تھے
دیکھیں یہاں سے أپ لوگ ابھی جاٸیں ہمھارا کچھ أپسی معملا چل رہا ہیں وہ رہا حویلی کا دروازہ وہاں سے أپ لوگ تشریف لیجاٸیں
شاہدہ بیگم سک کا سانس لیا تھا اور دل میں ہی ارحام سلطان کو ڈھیر ساری دعاٶں سے نوازہ بھی کہیں نہ کہیں اس کی وجہ سے عُروشہا کی زندگی برباد ہونے سے بچھ گٸی تھی عزت کے داٸرے میں رھ کر شاہدہ بیگم نے لڑکے کے ماں باپ کو اچھے سے اچھا بھلا سنا دیا تھا
وہ تن پن کرتے غصہ میں وہاں سے چلے گیۓ تھے عُروشہا ماں کے جھٹ سے گلے لگی أنسوٶں کو کب سے روکے رکھا تھا کہ ماں کا أنچل ملتے ہی یکدم اس کے أنسوں بہنے لگیں تھے
ارحام سلطان بڑے شان سے ٹانگ پر ٹانگ رکھیں مغرور اندازہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ضاور کرسی کی ساٸڈ میں کھڑا تھا ولید بخش چوہدری قدم بڑھاۓ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا
اس کے بس میں ہوتا تو ابھی ارحام سلطان کو وہ زمین میں ملا دیتا مگر افسوس وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا کیونکہ مقابل کسی سے ڈرنے والا نہیں تھا
لگتا ہے سلطان خاندان کو بار بار دوسروں کا وقت برباد کرنے کا بڑا شوق ہے خود تو فالتوں ہیں ہی اور دوسروں کو بھی اپنے جیسا سمجھتے ہیں
ولید بخش چوہدری نے جبڑے بیچتے دانت پیستے گھور دار نظروں سے ارحام سلطان کو مخاطب کیا تھا
ارحام سلطان چوہدریوں کا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگا گیا تھا کہ شاید کوٸی نیاں کانڈ سر انجام دۓ رہا ہوگا اسلیۓ تو اتنے تیش میں ہے وہ ولید بخش چوہدری کا چہرہ دیکھتے ہی دل جلانے والی مسکان چہرے پہ سجاٸی جہاں أگ تھوڑی پہلے سے لگی ہوٸی تھی وہاں تھوڑی اور بڑا دی جاۓ اس نے دل میں کہا
لگتا ہے چوہدری سردار خاص کام بیچ میں چھوڑ أۓ ہیں اسلیۓ ان کا چہرہ لال ٹماٹر نظر أ رہا ہے
وہ کہاں باز أنے والا تھا جو ولید بخش چوہدری کی بات کا أخر پرپور جواب دینا تو بنتا تھا مزاق اوڑھانے والا انداز میں کہا تھا یہ سن کر ولید بخش پورے أگ بگولے ہوۓ
بولوں کیوں یہاں پھر سے سب کو بلایا ہے
راشد چوہدری نے سختی سے کہا
رونگ ۔۔۔ راشد چوہدری میں نے کسی کو یہاں نہیں بلایا حتٰی کہ تم لوگ خود بھاگتے ہوٸیں أۓ ہو یہ سوچ کر کہ کہیں تمھارے کالے کرتوت سب کو لاٸوے دیکھا نہ دو
ارحام سلطان أج پوری تیاری سے ان کا خون جلانے کا ارادہ کرتا تھا مسلسل انہیں زچ کرنے لگا
ابا جان چلیں ہم گھر چلتے ہیں سلطان تو ویلے ہیں لیکن ہمھیں بہت کام ہے
سجاد نفرت انگیز لہجہ میں کہتا ولید بخش چوہدری کو اٹھنے کا کہا
ایک پل کے لیۓ ارحام سلطان نے ایک پل کے لیۓ بھی لبوں سے دل جلانے والی مسکان دور نہیں کی تھی اور یہی تو اس کی حرکت چوہدریوں کا دماغ خراب کر رہی تھیں
سلطان سردار جی أپ کو کچھ کہنا ہیں تو بتاٸیں وہ کیا ہے معافی چاہتا ہوں پر میری بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسلیۓ اس کو چھوڑ کر میں پنجاٸیت کے فیصلے میں أیا ہوں
گاٶں کا أدمی ارحام سلطان سے احترام سے درخواس کرنے لگا تو ارحام کو احساس ہوا کہ چوہدریوں کی وجہ سے کیا کچھ ہو رہا ہے
وہ مظلوم چوہدری کے گاٶں کا تھا اور یہی ولید بخش چوہدری کا حکم تھا جب بھی کوٸی پنجاٸیت کا فیصلا ہوتا تھا کچھ بھی ہوجاۓ پر ہر گھر کا مرد وہاں موجود ہونا چاہیے اگر کوٸی مجبوری کی تحت نہیں أتا تو اچھا نہیں ہوگا اس کے لیۓ
جی ۔۔
ارحام سلطان نے احترام سے أدمی کو دیکھ کر کہا تھا
جیسے کہ أپ سب دونوں گاٶں کے لوگ جانتے ہیں پہلے جو پنجاٸیت لگاٸ گٸی تھی اس میں فیصلا نہیں ہوا تھا اور چوہدری جی نے کہا تھا کہ میں ان کے سجاد بیٹے کے لیۓ کوٸی ٹھوٹ ثبوت لاٶ تو میں أج وہی سب کے سامنے پیش کرنے والا ہوں اور اس بار فیصلا ہم سردارو کا نہیں بلکہ أپ گاٶں والوں کا فیصلا مانا جاۓ گا
وہ کرسی سے اٹھ کر گاٶں والوں کے سامنے کھڑا ہوتا گویا تھا اس کی بات پر گاٶں والے حیران ہوۓ تھے کہ فیصلا وہ خود کرۓ گے اور ولید بخش چوہدری تو غصہ سے مٹھیوں کو أپس میں مسلنے لگا تھا
خونخوار نظروں سے وہ ارحام کو کچا چبانے والے انداز میں دیکھ رہا تھا کیوں وہ جو کر رہا تھا وہ ولید بخش چوہدری اچھے سے سب سمجھ رہا تھا
ضاور ۔۔۔ارحام سلطان نے ضاور کو اشارہ دیا تھا اس نے لیپ ٹاپ میں
اگلیوں سے کام کرتے کچھ ڈھونڈنے لگا تھا چند منٹ میں اس نے ایک ویڈیو چلاٸی تھی اور اس کی اسکرین گاٶں والوں کی جانب کی
ویڈیو میں سجاد چوہدری نوکرانی جو کہ ارحام سلطان مینشن میں کام کرتی تھی راستے سے جا رہی تھی اور وہ راستہ ارحام سلطان کے گاٶں کا تھا وہ نشے میں دودھ تھا اسے نشے کی حالت میں وہ بھول گیا تھا کہ وہ سرحد ارحام سلطان کی ہے جبکہ یہ قانوں تھا کہ کوٸی بھی کسی بھی گاٶں کا بندہ وہ سرحد پار نہیں کرۓ گا
سجاد نے اس کا راستہ روکا وہ اس سے نظر انداز کرتی دوسریں راستے سے نکلنے لگی تھی کہ سجاد نے اس کو کلاٸی سے کھینچا اور وہ اس کے سینے سے جا لگی
وہ نوکرانی اس کے اگٸے ہاتھ جوڑ رہی تھی کہ صاحب مجھے جانے دو رو رہی تھی تڑپ سسک کے اسکے پیروں میں گری مگر اس دندرے نے اس پر ایک بار بھی ترس نہیں کھایا تھا اور
اسے گھسیٹتا جنگل میں لے گیا سب گاٶں والوں نے سجاد کو قہر بھری نظروں سے دیکھا تھا
سب اس کی اصلیت سے اچھے سے واقف تھے مگر یوں سب کے سامنے اس کی گلیز کرتوت کا بھنڈا پھوڑا گیا تو اپنا چہرہ چپانے لگا وہ نظریں شرمندگی سے دوسری جانب کر گیا تھا اب تو وہ جیسے کھونے میں چھپا کھڑا ہو گیا تھا
ضاور نے لیپ ٹاپ ساٸیڈ پر رکھ دیا اور پولیس والے کو اگٸے أنے کا اشارہ کیا تھا ارحام سلطان شان سے کھڑا چوہدریوں کے چہرہ دیکھ رہا تھا جن کا رنگ اوڑھا ہوا تھا
افسد بولو
ارحام سلطان نے روعب دار انداز میں کہا تو وہ ڈرۓ ہوۓ لہجے میں ولید بخش چوہدری کو دیکھنے لگا جو أنکھوں سے اسے چپ رکھنے کا اشارہ کر رہا تھا افسد کے لیے دونوں ہی طرف سے کھاٸی دیکھاٸی دیٸے رہی تھیں أرحام سلطان کو دیکھا جو قہر سے اسے دیکھ رہا تھا اور جان سے اسےمار دینے کا اشارہ کیا
چوہدری سردار نے مجھے ایک دن اپنی حویلی میں بلایا تھا اور میں خوشی سے گیا انہوں نے اپنے بیٹے سجاد چوہدری کے کیس کے بارے میں پوچھا اور جو جو اس کے خلاف ثبوت تھے وہ چپانے کے لیۓ مجھے بہت بڑی رقم دی گٸی تھی اور کہا گیا کہ میں اپنا منہ بند رکھوں
اور سب ثبوت اس طرح میٹا دو کہ وہ ثبوت ارحام سلطان سردار کے ہاتھ بھول کر بھی نہیں لگٸے
ڈرۓ لہجے میں کہتا یکدم چپ ہوا تھا اب خود کی شامت کا سوچ کر کانپ رہا تھا ولید بخش چوہدری کو اپنا پورا کھیل بگڑا ہوا نظر أ رہا تھا
سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کیا کروں کیونکہ ارحام سلطان نے مات جو ایسی دی تھی کہ بچنے کا کوٸی راستہ اسے نظر نہیں أ رہا تھا
جی تو بتاٸیں چوہدری جی أپ نے کہا تھا کہ پہلے ثبوت لاٶ پھر سجاد کو أپ خود میرے حوالے کریں گے تو کیا کہتے ہو گاٶں والوں ویسے تو چوہدری زبان سے نہیں مکرتے ہیں نہ ولید بخش چوہدی سردار
پہلے گاٶں والوں کی طرف دیکھا پھر چلتا ہوا ولید بخش چوہدری کو تیش نظروں سے دیکھا اور دانت پیستے کہا تھا
ولید بخش چوہدری کا دل کیا کہ مقابل کو گولی سے اوڑھا دو اب وہ گاٶں والوں کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں انہیں بغاوت اور شاید غصہ نظر أیا تھا
جی جی چوہدری سردار أپ سجاد کو ارحام سلطان کے حوالے کریں وہ ان کا مجرم ہیں وہ جو چاہیے کر سکتا ہیں ان کے ساتھ ویسے بھی پنجاٸیت کا أپ نے ہی اصول رکھا تھا کہ عزت کے بدلے عزت اور خون کے بدلے خون اب ارحام سلطان سردار کی مرزی ہیں
وہاں کھڑے ایک بزرگ نے کہا پھر یوں ہی دیکھتے دیکھتے سب ہی گاٶں والوں نے یہی کہا تھا مگر ولید بخش چوہدری ماتھے پر پسینہ لیۓ بیٹھا رہا وہ بیٹے کو کیسے دۓ سکتا تھا اس کو پتا تھا کہ ارحام جان سے مار دیٸے گا اس سے کیونکہ وہ اس کی فطرت سے واقف تھا کہ گہناھ کرنے والوں کو وہ زندہ نہیں چھوڑتا
سجاد کو نہیں دوگا کفارہ کرنے کے لیۓ تیار ہوں میں میرے بیٹے کو چھوڑ کر جو بھی تم مانگوں گٸے وہ تمھیں ملے گا
پہلی مرتبہ ولید بخش چوہدری ارحام سلطان سے تمیز کے داٸرے میں بات کر رہا تھا مگر دل میں اس نے تان لیا تھا کہ وہ ارحام کو نہیں چھوڑے گا وہ اس سے ختم کر کے دم لیگا
ہممممم سوچا جا سکتا ہے أپ کی أفر پر
ارحام سلطان سوچنے والے انداز میں کہتا کرسی پر پھر سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے روعب سے بیٹھ گیا
ٹھیک ہے ویسے ارحام سلطان کم ہی لوگوں پر ترس کھاتا ہیں لیکن ایک باپ کو میں اس کے بیٹے سے دور نہیں کرنا چاہتا
جبکہ چوہدری جی أپ کفارہ کرنے کے لیۓ تیار ہیں تو پھر ٹھیک ہے أپ کے بیٹے نے میرے گھر کی نوکرانی کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا مطلب میری عزت پر بات أٸی ہیں ۔۔۔۔ تو أپ اپنے گھر کی عزت میرے حوالے کریں گٸے
سب کے چہروں کے رنگ یکدم پھیکے پڑ گٸے تھے
کیا ہوا چوہدری جی ۔۔ وہ ان کی اوڑھی ہوٸی رنگت دیکھ کر پھر سے گویا تھا
راشد کا خان گھول اٹھا تھا جب اس کو بات سمجھ أٸی ایک سکینڈ میں وہ ارحام کا گریبان پکڑنے والا تھا کہ بیچ میں ضاور کھڑا ہوگیا
انکل اپنے غصہ کو تھوڑا قابو میں رکھیں وہ کیا ہے نہ اگر ہمھارے سردار کو ایک بار غصہ أگیا نہ تو أپ سب چوہدریوں کی شامت أ جاٸیں گٸی
راشد نے ضاور کو حقارت سے دیکھا تھا اور پیچھے ہوکے کھڑا ہوگیا
نہیں میں کبھی اپنی بیٹی اس کمینے کو نہیں دوگا ابا جان أپ چپ کیوں بیٹھے ہیں کچھ بولیں نہ کچھ بھی ہوجاۓ میں اپنی بیٹی نہیں دوگا چاہے جو بھی ہو
وہ ولید بخش چوہدری کو دیکھتے اپنا فیصلا سُنا رہا تھا اس کے چہرے سے پہلی بار عُروشہا کے لیۓ فکر جلک رہی تھی
تو پھر ٹھیک ہے جیسے تم چوہدریوں کی مرزی ہیں پھر سجاد میرا مجرم ہیں اسے میرا حوالے کرو اور یہ ماجرہ یہاں پر ختم کرو
کرسی سے اٹھ کر وہ چوہدری کو دیکھ کر کہتا ہوا ان کے روبرو کھڑا ہوا تھا وہ جانتا تھا کہ کچھ بھی ہوجاۓ ولید بخش چوہدری سجاد کو اسے نہیں دے گا
تم جو چاہتے ہو ویسا ہوگا مگر میرے بیٹے کا نام دوبارہ نہیں لوں گٸے تم
ولید بخش چوہدری نے سنجیدگی سے اس معملے کو دیکھ رہا تھا اس کا یوں ہاں کرنا راشد کو اپنی أنکھوں پر یقین نہیں أیا وہ حیریت سے باپ کی جانب دیکھتا رہا
ابا جان یہ أپ کیا کہہ رہے ہیں میں عُروشہا کو کبھی بھی اس درندے کو نہیں دوگا اور أپ اپنے بیٹے کو بچانے کے خاطر میری بیٹی کا سودا کر رہے ہیں حیریت ہو رہی ہیں مجھے
عُروشہا جس چیز کے لیۓ ہمیشہ ترسی تھی کہ اس کا باپ اس کے لیۓ لڑے اس کی ڈھال بننے أج راشد چوہدری کسی صورت میں وہ ارحام کو عُروشہا نہیں دینا چاہتا تھا اس کا باپ أج ڈھال بن کے کھڑا تھا مگر افسوس بہت دیر ہوگی تھی
راشد حالات سمجھنے کی کوشش کرو ویسے بھی تمھاری بیٹی ہم اسے ایسے نہیں دیٸے گٸے بلکہ نکاح کروأٸیں گے اور اس کا پہلے بھی تو ہم نکاح کروا رہے تھے نہ تو اب تمھیں کیوں مسٸلہ ہو رہا ہیں
اگر تمھارے بھاٸی کو اسے دیا تو وہ اس کی جان لے لیگا اور اوپر سے گاٶں والوں کا الگ خطرہ ہیں اگر ایسا نہیں کیا تو لوگ ہمھاری بغاوت کرنے پر اتر أٸیں گٸے سمجھو کچھ
ولید بخش چوہدی راشد کے کان میں ہلکی سرگوشی کرتے سمجھایا مگر اس کا دل زور زور سے بیٹی کے لیۓ دھڑک رہا تھا
وہ کیسے ہاں کرتا جانتا تھا کہ جس انسان کو وہ بیٹی دے رہا ہے وہ سترہ سال سے بدلے کی أگ میں جل رہا ہے وہ کیسے اس کی بیٹی کو کوٸی نقصان نہیں پہنچاۓ گا
ابا جان أپ کی سب باتیں ایک دم سہی ہیں لیکن عُروشہا کے ساتھ یہ بُرا سلوک کریں گا تو ہم کیا کریں گٸے أپ کو تو پتا ہے سلطان ہمھارے سالوں سے دشمن ہیں
راشد کو جو ڈر دل میں ستا رہا تھا وہ اخر اس کے لبوں پر أگیا
ابھی یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے
اتنا کہتا ولید بخش چوہدری ارحام کے روبرو کھڑا ہوا
ہم اپنے گھر کی عزت تمھیں نکاح کے طور پہ دیٸے گٸے اور اس کے بعد تم سجاد کو معاف کر دوگے ہیں منظور ہے تو بولوں
پھر سے وہی اکڑ ولید بخش چوہدری نے دیکھاٸی تھی
منظور ہے
اس نے بھی سخت لہجے میں کہا تھا ولید بخش چوہدری کو وحشت سے دیکھا اور اس کے لبوں پر کھیل فتح کرنے والی مسکان چوہدریوں کی طرف اچلاٸی تھی راشد کا دل کیا کہ وہ عُروشہا کو کہیں دور لے جاۓ جہاں اس سے ارحام سلطان ڈھونڈہ نہ پاۓ مگر وہ پہلی مرتبہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا
ضاور مولوی کو بلاٶ وہ کیا ہیں نہ میں ابھی نکاح کرنا چاہتا ہوں چوہدریوں کا کچھ خاص بھروسہ نہیں مجھے کب اپنی دی ہوٸی زبان سے پلٹ جاٸیں
وہ کہہ ضاور کو رہا تھا مگر نظر ان تین پر گاڑۓ ہوا تھا سجاد کا تو غرور ٹوٹ کیا تھا وہ جو گاٶں والوں کے سامنے روعب سے چلتا تھا اب وہ نہیں رہا تھا ارحام سلطان نے اس کی عزت پورے دونوں گاٶں میں دو کوڑی کی کر دی تھی
ضاور نے جلد ہی مولوی اور گواہ کا انتظام کیا تھا اور وہی پنجاٸیت میں مولوی نے سب گاٶں والوں اور چوہدریوں کی أمد پر نکاح شروع کیا
عُروشہا ابھی فریش ہوکر واشروم سے باہر نکلی تھی أج وہ خود کو کچھ پر سکون محسوس رہی تھی مگر یہ بھی بس کچھ پل کے لیے تھا ڈریسنگ ٹیبل کی جانب کھڑی ہوٸی کالے ریشمی بالوں کو ٹوٸلیہ سے سکھانے لگٸی تھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا اور بیڈ پر بیٹھی موباٸل اٹھا کر ناول ریڈ کرنے لگی کیونکہ وہ اپنے دماغ کو جو کچھ ہوا تھا ان سب سے ازاد کرنا چاہتی تھی
ارحام قربان أپ کا نکاح عُروشہا راشد بن سے ایک کروڑ میں طعہ کیا جاتا ہے کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
جی قبول ہے
اس طرح اس نے تین بار قبول ہے کے جملے پر زور دیتے کہا تھا اور راشد کی جانب دیکھا جس کے چہرے پر أگ جل رہی تھیں مزید اس کے لبوں پر مسکان گہری ہوٸی تھی
دلہن کہاں ہیں
مولوی نے وہاں سب مردو کو دیکھ کر تجسس سے پوچھا تھا
جی ہمھارے ساتھ چلے مولوی صاحب
راشد نے نہ چاہتے ہوۓ بھی مولوی کو حویلی لیجانے لگا تھا مولوی گواہ اور ارحام سلطان نے ان کے ساتھ ضاور کو بھیجا تھا وہ لوگ جیسے حویلی میں پہنچھے تھے حال میں بلکل خوموشی طاری تھی
راشد نے سب کو کرسیوں پر بیٹھنے کا کہا تھا
شاہدہ
راشد نے بیوی کو أواز دی
ج جی ۔۔ شاہد بیگم کو پتا تھا کہ راشد پنجاٸیت میں گیا ہے پر ان کا اچانک ان کے چلانے کی أواز پر وہ ہربڑاتی دوڑی چلی أٸی
عُروشہا کا گھونٹ اوڑھ کر اسے نیچھے لاٶ
شاہدہ بیگم کو جھٹکا لگا تھا کیوں جس لڑکے سے عُروشہا کی شادی ہونی تھی اس کو تو شاہدہ بیگم نے دھمکی سے انہیں بھاگا دیا تھا پھر پنچاٸیت سے أکر یوں اچانک ایسا کہنا ۔۔۔۔کیا ہوا وہ سوالی نگاہوں سے کرسیوں پہ بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر شوہر کو نا سمجھی میں دیکھا جس کا چہرے سپاٹ تھا
جاٶ
راشد نے سخت سے کہا تو وہ بے دماغ کی حالت میں عُروشہا کے کمرے کا دروازہ کٹکٹایا
عُروشہا دروازہ کھولوں
شاہدہ بیگم کا سانس اوپر نیچھے ہو رہا تھا اوپر سے اچانک پھر سے خوف ناک حیقیت أٸی جو انہوں نے سمجھا تھا کہ مصیبت ٹل گٸی ہے
عُروشہا جو اب بیڈ پر سونے کی نیت سے لیٹ رہی تھی وہ سونا چاہتی تھی کل بھی وہ بہت روٸی تھی نکاح کی پریشانی الگ جب اسے معلوم ہوا نکاح نہیں ہو رہا وہ پرسکون کی نیند کرنا چاہتی تھی تھکی ہوٸی تھی دروازہ کھولا
امی کیا ہوا
شاہدہ بیگم نے اس کی بات کا جواب دیٸے بغیر اس کے کندھے سے جو ڈوپٹہ لٹک رہا تھا وہ اسے کے سر پہ گھونگٹ أوڑھا
وہ اس کو جلدی میں نیچھے لے أٸی تھی عُروشہا کو تو اچانک پھر سے گھونگٹ اوڑھنا جبکہ اس کا نکاح تو کینسل ہوگیا ہے پھر کچھ سمجھ نہیں أرہا تھا وہ بس شاہدہ بیگم کی ہم قدمی کر رہی تھی
نیچھے أکر اسے کرسی پر بیٹھایا گیا اور شاہدہ بیگم کو لگا پھر سے اسکا نکاح اس پاگل انسان سے ہو رہا ہے پر اب اس نے ہار مان لی تھی بیٹی کو بچانے کی
مولوی صاحب أپ نکاح شروع کریں
اجازت ملنے کے بعد فوراً مولوی نے نکاح شروع کیا تھا
عُروشہا راشد بن أپ کا نکاح ارحام قربان سے ایک کروڑ میں طعے کیا جاتا ہے کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
مولوی کے منہ سے ارحام کا نام سن کر جہاں عُروشہا ہلنے کے قابل نہ رہی تھی وہی شاہدہ بیگم صدمہ میں شوہر کو دیکھ رہی تھیں
کیا أپ کو یہ نکاح قبول ہے
جب عُروشہا کی جانب سے کوٸی جواب نہ پاکر مولوی نے دوبارہ سوال دہرایا تھا اس بار راشد کو عُروشہا کی بات یاد أٸی تھی وہ جگہ سے اٹھ کر عُروشہا کی سر پہ کھڑے ہوکر اسے کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا سر پر دباٶ پڑنے پر اس نے چہرہ اوپر کیا
باپ کو دیکھا جہاں پہلی بار عُروشہا کو ایسا لگا کہ وہ دکھی ہے اس کے نکاح کے لیۓ
باپ کا شفقت بھرا ہاتھ محسوس کرتی أنکھوں سے بے حساب أنسوں نکل أۓ تھے ضبط سے أنکھیں بند کی
دلہن کی جانب سے طویل خاموشی دیکھ کر سب چونکیں تھے ضاور بھی حیران کن أنکھوں سے گھونگٹ میں بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہا تھا
ق قبول ہے
عُروشہا نے دل پر پتھر رکھ کر تین بار کاپتی زبان سے ارحام سلطان کو قبول کیا تھا اس کا دھیان تو سر پہ رکھے باپ کے ہاتھ پر تھا قبول ہے الفاظ تو اس نے یوٸی کہا تھا
سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی تھی ضاور سب کو لیکر پھر سے پنجاٸیت میں أیا تھا
شادی مبارک ہو دولے صاحب
ضاور نے أتے ہی ارحام سلطان کو اپنی جیت کی خبر سُناٸی تھی اس کے لبوں پر دل فریب مسکان أٸی اچانک اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا
چلیں چوہدری جی گلے ملے اب تو ہم رشتے دار بن گٸے ہیں
ولید بخش چوہدری کے زبردستی زور سے گلے لگا گیا
ابھی تو کھیل کی شروعات ہے ولید بخش چوہدری دھیرے دھیرے دیکھنا تمھیں خون کے أنسوں بہانے پڑے گٸے
وہ اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا
تمھاری بھول ہیں کہ تم جیت گٸے ہو تم نے میرے بیٹے کو ہتیار بنا کر جیتے ہو اس کھیل کا کچا کھلاڑی نہیں ہوں میں ارحام سلطان
وہ بھی دانت پیستے اسے کے کان میں سرگوشی کی یکدم گاٶں والوں کے سامنے زور سے ہاتھ ملایا تھا
اب دونوں گاٶں والوں میں انبن کم ہوٸی تھی مگر ان دو خاندان میں ابھی دوشمنی قاٸم تھیں
عُروشہا کمرے میں بیٹھی تھی لیکن اس بار وہ خاموش تھی رو نہیں رہی تھی أج پہلی بار اس سے احساس ہوا تھا کہ باپ کی سفقت کا وہ تو بس اس لمحہ میں کھوٸی ہوۓ تھی جب اس کے باپ کا ہاتھ اس کے سر پر تھا
وہ اب ارحام سلطان کی امانت تھی چوہدریوں کے پاس اب ۔۔۔۔۔۔۔اس کا دھیان ہی کہاں تھا کہ اس کا نکاح اس کے دشمن سے ہو گیا ہے اب وہ اس کی بیوی تھی اس کی ملکیت ۔۔۔