قسط 11
شام کے چار بجے اس کی أنکھ کھولیں تھیں چادر کو ساٸیڈ پر رکھتے اٹھ کے بیٹھ گٸی تھی پورے کمرے کا جاٸزہ لیا شاید جس کو وہ ڈھونڈہ رہی تھی وہ وہاں موجود نہیں تھا واشروم سے پانی کے گرنے کی أواز پہ وہ سمجھ گٸی کہ وہ شخص وہاں ہے
واشروم کے دروازے کھولنے کی أواز پر اسے نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا
جہاں یارم سادہ سے براٶن کلر کے شلوار قمیص زیب تن کی ہوٸی تھی گھیلے بالوں کو ٹوٸلیہ سے رگڑتا چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل پہ کھڑا ہوا تھا ٹوٸلیہ سے بال سکھانے کے بعد ٹوٸلیہ کو صوفے پر پھینکا اور بالوں میں برش کرنے لگا تھا مایا نے اسے بغور دیکھ رہی تھیں وہ ہیڈسم لگ رہا تھا
یارم نے خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کی اور أٸینہ میں ہی اس کو مایا کا عکس دیکھا جو اسے بڑی فرست سے دیکھ رہی تھی أٸینہ میں جب مایا کی نظر یارم سے ٹکراٸی تو یکدم چوری پکڑی جانے پر نظریں پھیر گٸی اس کی اس حرکت پر اسے کے چہرے پہ دھیمی سے مسکان لبوں پر أ بکھری
اب طبیعت کیسی ہیں
اس کے سامنے کھڑے ہوتے پیار سے پوچھا
ٹھیک ہوں یارم مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہیں
بیڈ سے اٹھ کر اسے کے بروبرو کھڑی ہوتی کہا
ہممم کہوں میں سن رہا ہوں۔۔۔۔۔وہ نرم لہجے میں گویا تھا مگر مایا ہچکچا رہی تھی کہنے میں شاید بات کہا سے شروع کرنی چاہیے وہ الفاظ ڈھونڈہ رہی تھی
وہ میں یہ
ٹکٹکٹکٹک۔۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کو تبیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے
یارم بابا ۔۔۔زیبی کی أواز پر یارم نے فوراً ہی دروازے کی جانب لپکا تھا اور دروازہ کھولا
یارم بابا یہ عُروشہا بی بی کے کچھ کپڑے ہیں انہوں نے مایا بی بی کے لیۓ بیجھے ہیں۔۔۔
زیبی نے فوراً اپنے أنے کی وجہ بتاٸی
خالہ بی أپ یہ مجھے دے اور أپ کچھ کھانے کے لیۓ لے أٸیں گٸی
جی کیوں نہیں یارم بابا ابھی کچن سے لاتی ہوں
زیبی مسکراتی وہاں سے چلی گٸی تھی یارم نے دروازہ لاک کیا تھا بیڈ پر کپڑے رکھے
مایا ان میں سے جو تمھیں اچھا لگٸے پہنھ کر فریش ہو جاٶ پھر ساتھ میں مل کر کھانا کھاتے ہیں کل تمھیں شاپنگ پر لے جاٶ گا اور جو تمھیں چیزیں چاہیے وہ سب ضرورت کی لے لینا
یارم نرم لہجے میں کہتا کمرے سے باہر نکل نے لگا ہی تھا کہ کچھ یاد أنے پر پلٹا
اور ہاں ڈریسنگ ٹیبل پر فاٸل رکھی ہے میں نے وہ دیکھ لینا صبح أنکل کے وکیل کی مجھے کال أٸی تھی وہ بزنس کے بارے میں بات کر رہے تھے میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ یہ سب مایا دیکھے گٸی ایک بار تم فاٸل ریڈ کر لینا
لیکن یارم م ؟ی میں کیسے
پریشانی کن لہجہ میں کپکپاتی زبان سے اس کی جانب دیکھ کے کہا تھا
مایا وہ تمھارے ڈیڈ کا بزنس ہیں ان کے جانے کے بعد وہ تمھیں سمبھالنا ہیں شاید یہ وقت ابھی ٹھیک نہیں ہے ان باتوں کا پہلے تمھاری طبیعت ٹھیک ہوجاۓ پھر دیکھیں گٸے ابھی تم فریش ہو کر أٶ مجھے تھوڑا امی سے کام ہے تھوڑی دیر میں أٶ گا تب تک تم فریش ہو جانا ٹھیک ہے
یارم سنجیدگی سے کہتا مایا کو کشمکش میں ڈال کر شاہدہ بیگم کے کمرے کی اور چل دیا تھا
مایا کپڑے دیکھنے لگٸی تھی کہ اس کے قابل ساٸز کا ڈریس ہے پانچ چھ ڈریس میں ایک بلو کلر کا سادہ سا سوٹ نظر میں أیا سیم ہم کلر کا ڈوپٹہ وہ لیکر واشروم میں چینج کرنے چلی گٸی تھی
اسلام علیکم امی ۔۔۔
شاہدہ بیگم بیڈ پر بیٹھی گہری سوچ میں ڈوبی ہوٸی تھی جب یارم نے اکر انہیں مخاطب کیا تھا
والیکم سلام ۔۔۔
یکطرفہ جواب دیا اور گردن موڑ کر دوسری طرف کر لی یارم کمرے میں داخل ہوتے ہی شاہدہ بیگم کے گھٹنوں میں بیٹھ گیا اس سے لگ رہا تھا کہ اس کی ماں مایا سے شادی کرنے والی بات سے اسے خفا ہے
امی ناراض ہیں أپ۔۔
شاہدہ بیگم گردن موڑ کر اس کی طرف کردی اور بیٹے کو دیکھا تھا دل میں جو درد انکے اٹھ رہا تھا وہ کیسے اس کو بتاتی أج نہ کل تو بتانا پرۓ گا وہ خود سے ہمکلامی ہوٸی تھی اور سوچ نظریں یارم پر ٹکی تھی وہ تو کہیں اور کھوٸی ہوٸی تھی
امی بتاٸیں نہ أپ مجھ سے ناراض ہیں ۔۔۔
شاہدہ بیگم کی جانب سے جواب نہ پاکر اسے نے اپنا سوال پھر سے دہرایا
کیوں ناراض ہوٶں گٸی میں تم سے جس کو جو سہی لگتا ہیں سب ہی وہی کرتے ہیں کسی کو میری پرواہ کہاں ہیں کہ مجھے بُرا لگٸے یا نہیں ۔۔۔۔
انکا لہجہ خفا تھا۔۔وہ یارم سے بھی ناراض تھی اخر ماں کی امیدوں پر پانی جو اسے نے پھیرا تھا
امی اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے اگر مجھے فرق نہیں پڑتا تو أپ ہی بتاٸیں کیا میں أپ کے پاس أتا نہیں نہ تو پھر أپ اس طرح کیوں کہہ رہی ہیں غصہ ہے تو أپ تھپڑ لگاۓ مگر اسطرح کی بات تو نہ کریں
مانتا ہوں میں نے أپ کا بہت دل دکھایا ہے پر امی پلیزززز سمجھنے کی کوشش کریں میں اس وقت نکاح کے لیۓ تیارا ہرگز نہیں تھا لیکن ڈاکٹر نے انکل شاہ زویر کے کینسر کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ان کے کینسر کا لاسٹ سٹیج ہے اور انہوں نے بڑی امید سے اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا کہا تو میں انہیں منع نہیں کر سکا تھا اور حالات ہی کچھ ایسے تھے امی
یارم شاہدہ بیگم کی أنکھوں میں دیکھ کر سچ بتایا لیکن ان کی أنکھیں سرد اسے نظر أٸی تھیں
چلو مان لیا کہ ان کا لاسٹ سٹیج تھا کینسر کا پھر انہوں نے بیٹی کو تو بتایا ہوگا نہ ۔۔۔۔۔اور اب یہ مت کہنا کہ تمھاری بیوی بھی بے خبر تھی ان سب سے کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا بیٹا
شاہدہ بیگم نے یارم کا ہاتھ خود سے دور کیا تھا أخر وہ کیا ۔۔کیا سمجھتی یہ کہ جو یارم نے اچانک ان کے سر پر بہو أکر کھڑی کردی تھی یا پھر یہ کہ ان کی بیٹی دشمنوں کے گھر کی ہوگی ہے لازمی ان کا تو رویہ تلخ ہونا بنتا تھا
امی أپ یقین کریں واقعی میں مایا کو بھی کچھ پتا نہیں تھا وہ تو ابھی تک باپ کے صدمہ میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اوپر سے اس کا چچا جو اس کے باپ کی جاٸیداد کے ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ گیا ہے جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ۔۔۔۔۔۔ شاہ زویر انکل فوت ہوگٸے ہیں اس ہی دن وہ ان کے أفیس میں جاکر ہنگامہ کیا تھا۔۔۔۔۔کہ ان کے جانے کے بعد ان کی ساری پاور پرٹونی ان کی ہیں اور ان کو اپنا حق دیا جاۓ
یارم شاہدہ بیگم کو کسی بھی حال میں سچ سے أگاھ کروانہ چاہتا تھا کیونکہ بعد میں بہت سے مسٸلے ہو سکتے تھے یارم کو سب ٹھندے دماغ سے کام کرنا تھا اچانک شاہ زویر کی وفات نے مانو اس کے سر پر أسمان جتنی زمیداریاں رکھ دی تھیں
ٹھیک ہے تمھاری ہر بات پر یقین کرتی ہوں لیکن میں اس سے بہو کے روپ میں کبھی نہیں اپناٶں گٸی اور یہ میرا أخری فیصلا ہیں
شاہدہ بیگم غصہ میں کہتی پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گٸی تھی پیچھے یارم سر پیٹتا رھ گیا
ارحام سلطان أج بہت خوش تھا اخر ہوتا بھی کیسے نہ کیونکہ چوہدریوں کی برباری کی پہلی سیڑھی وہ چڑ چکا تھا جیسے وہ گھر میں داخل ہوا تھا اور اپنے کمرے میں جانے لگا
ارحام ۔۔۔۔۔
حیدر کی گرجدار أواز پر گردن گھماکر سیڑیوں سے نیچھے دیکھا جہاں اس کا دادا جان کھڑا سرد تیش میں اسے گھور رہا تھا۔۔۔۔ ارحام ان کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔کہ انہیں جو کچھ پنجاٸیت میں ہوا ہے وہ سب معلوم ہوگیا ہے
جی دادا جان ۔۔۔
وہی کھڑا انہیں دیکھ کر سنجیدگی سے جواب دیا
نیچھے أٶ ۔۔۔۔
حیدر سلطان کا وریہ ابھی تک تلخ تھا اس نے سر ہاں میں ہلایا اور نیچھے أیا تب تک ضاور بھی باہر سے حال میں داخل ہوا تھا
یہ کیا میں سن رہا ہوں۔۔۔
سخت لہجے میں سوال کیا تھا
اب مجھے کیا پتا دادا جان کہ أپ نے کیا سُنا ہیں ۔۔
انداز لاپراھ تھا ارحام کے جواب پر حیدر سلطان نے ضبط سے مٹھیاں بیچ لی تھیں
تمھیں زرا بھی اندازہ ہے کہ تم نے کیا ۔ ۔۔۔۔۔کیا ہیں ۔۔
حیدر سلطان کا تو مانو غصہ سے أج بُرا حال تھا ایک أٸیرو اچکاۓ بال ہاتھوں سے اسٹاٸل بناتے وہ صوفے پر براجمان ہوا تھا
قربان بھی اسٹیڈی روم سے نکل کر حال میں أگیا تھا کیونکہ حیدر سلطان کی گرجدار أواز سن کر اس کو حیرانی ہوٸی تھی کیونکہ وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے البتہ انہوں نے کبھی گھر کے نوکروں پر بھی غصہ نہیں کیا تھا ۔۔۔۔پھر اچانک کیا ہوا یہ دیکھنے وہ دوڑے چلے أٸے تھے
کیا ۔۔۔۔۔ کیا ہے دادا جان ایک نکاح ہی تو کیا ہے اور اس میں کون سی بُراٸی ہے۔۔۔۔۔۔ ہمھارے اسلام میں نکاح کرنا سنت ہیں بس وہی سنت پوری کرکے أیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ أپ کو تو فخر کرنا چاہیے مجھ پر اور ایک أپ ہیں کہ غصہ کیۓ جا رہے ہیں
اس کا کہنے کا لہجہ نرم تھا یہ کہوں کہ زچ کرنے والا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ حیدر سلطان کو باتوں ہی باتوں میں کہہ گیا تھا کہ دیکھو دادا جان أپ کی لاکھ کوشش کرنے کے بعد بھی مجھے أپ روک نہیں پاۓ
وہ ان کا پوتا نہیں ہوتا تو حیدر سلطان اس کو ایک پل میں قتل کر دیتا
بیشک نکاح کرنا ہمھارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے۔۔۔۔۔لیکن میں اچھے سے جانتا ہوں کہ تم نے یہ سب کیوں کیا ہے تم اتنے گر گٸے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدلے کی أگ میں ایک معصوم لڑکی کو بیچ میں لاٸے ہو مجھے حیرت ہو رہی ہے تمھیں اپنا پوتا کہتے ہوۓ۔۔۔
حیدر سلطان کا لہجہ اور الفاظ دونوں ہی سخت تھے۔۔۔۔۔۔۔
حیدر سلطان کے الفاظ ارحام کے دل کو گھایل کر گٸے تھے وہ یکدم سے جگہ سے اٹھ کر حیدر کی أنکھوں میں بینا خوف کے کھڑا ہوا تھا
واہ دادا جان أپ کو ان کی اتنی پرواہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوگٸی ہے ۔۔ہوگٸی بھی کیوں نہ أخر ولید بخش چوہدری أپ کا جگری دوست جو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس مجھے اس بات کا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ کہ أپ اپنی بیٹی کے قاتلوں کو کیسے معاف کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ کر بھی سکتیں ہیں ۔۔۔اس میں کون سی بڑی بات ہے لیکن أپ کو کیا پتا درد کیا ہوتا ہیں
مجھ سے پوچھے چھوٹی عمر میں دو بار یتیم ہوا ہوں۔۔۔ دو بارہ اپنی ماں کو کھویا ہیں میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔أپ کے لیۓ یہ سب بھول جانے والی باتیں ہوگٸی لیکن ارحام سلطان کے لیۓ نہیں
اس کی أنکھوں میں پل میں خون اتر أیا تھا اس کی وحشت کو دیکھ کے دو منٹ کے لیۓ حیدر سلطان کو بھی اسے خوف محسوس ہوا تھا
ارحام یہ کون سا طریقہ ہے ابا جی سے بات کرنے کا ۔۔۔
قربان اس کے روبرو کھڑے ہوتے کہا تھا ان کا لہجہ سخت تھا
أپ ہی بتاٸیں کس لہجہ میں ۔۔۔۔ أپ لوگوں سے میں بات کروں جو أپ کو سمجھ أ جاۓ میری بات ۔۔۔
وہ کہتا وہاں رکا نہیں تھا بلکہ غصہ میں سیڑھیاں عبور کرنے لگا تھا ۔۔۔۔کہ حیدر سلطان کی أواز پر اس کے چلتے قدموں کو یکدم بریک لگٸی تھیں
تمھیں سرداری کے أحدیں سے میں ابھی اس ہی پل ہٹاتا ہوں۔۔۔ جاٶ ۔۔ جانا چاہتے تھے نہ بیگلون تم۔۔۔۔۔۔۔ کاش تمھیں بُلاتا ہی نہیں میں سمجھا تھا ۔۔۔ سترہ سال ہوگٸے ہیں شاید تمھارے دل میں نفرت کی أگ ٹھنڈی ہوگٸی۔۔۔ ہوگی لیکن یہ میری بھول تھی جو میں ایسا سمجھ رہا تھا
حیدر سلطان کی أنکھیں یکدم نم ہوٸی تھیں أواز میں درد صاف جلک رہا تھا ارحام نے انہیں پلٹ کر نہیں دیکھا تھا
دادا جان أ یم سوری ۔۔۔مجھے ویسے بھی یہ سرداری کے احدیں سے کوٸی دلی لگاٶں نہیں تھا۔۔۔۔۔ مگر أپ کی انفارمیشن کے لیۓ بتا دو کہ اگر میرے پاس یہ أحدہ نہ بھی ہوتا۔۔ تو بھی ارحام سلطان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ چوہدریوں کو برباد کر سکتا ہے
وہ یہ کہتا سیدھا اپنے کمرے کی جانب چل دیا تھا کمرے کا دروازہ درام سے کھولا غصہ میں وہ پورا پاگل ہورہا تھا ۔۔۔۔بیڈ کی چادر کو بے دردی سے زمین بوس کیا تھا ڈریسنگ ٹیبل کی چیزوں کو کھینچ کر زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔۔ ایک منٹ میں پورے کمرے کا حشر نشر بیگاڑ دیا تھا ۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ کمرے میں مانو بھیانک طوفان أیا ہو اس طرح چیزیں بکھری پڑی ہوٸی تھیں زمین پر کانچ کے ٹکڑے جگہ جگہ زمین پر تھے بال یکدم جو سیٹ کیے ہوۓ تھے وہ اب ماتھے پر جھول رہے تھے
جیب سے لاٸٹر نکل کر سگریٹ جلایا۔۔۔۔۔۔اور اس کے لمبے لمبے قش برنے لگا تھا جیسے ضاور کمرے میں أیا نظر پورے بکھرے کمرے میں دوڑاٸی تھی وہ دھیرے دھیرے ارحام کے پاس زمین پہ بیٹھ گیا
ارحام۔۔۔۔
ضاور کے پکارنے سے اسے نے گردن أٹھا کر ضاور کو دیکھا وہ اس کا چہرے دیکھ کر ہل سا زخمی مسکرایا تھا
لال أنکھیں جن میں وحشت بھری تھیں وہ سگریٹ کا قش لیتے گردن کو بیڈ سے ٹیک لگاۓ أنکھیں موندہ گیا تھا شاید درد چپا رہا تھا جو اسکو اندر سے کھا رہا تھا ۔۔۔۔۔جینے نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔وہ جو پل پل بدلے کی أگ میں مر رہا تھا
کیوں أیا ہو تم یہاں جاٶ یہاں سے ۔۔۔
درد سے چور أواز میں وہ اس کی طرف دیکھے بغیر کہہ رہا تھا
ارحام تم ٹھیک ہو
وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر گویا تھا
تمھیں کیا لگتا ہیں کہ میں ٹوٹ گیا ہوں۔۔۔۔ دادا جی کی باتوں سے نہیں ضاور ۔۔۔۔۔۔میرے سینے میں پتھر ہے جو کسی کے کچھ کہنے سے نہیں ٹوٹتا۔۔۔ نہ ہی اس میں کسی کے لیۓ کوٸی جزبات ہیں
وہ ابھی اس ہی پوزیشن میں أنکھیں موندے ہوا تھا سگریٹ کو بند أنکھوں سے ہی کھڑکی سے باہر پھینکا تھا شاید اس نشانا ایک دم پکا تھا وہ جاکر سیدھا باہر گرا
تو پھر یہ حال۔۔۔۔ضاور نے کندھے اچکاۓ پھر سے سوال کیا اس کی نظر ابھی تک ارحام پر تھیں
سترہ سال پہلے جو کچھ ہوا تھا۔۔۔ جب جب یاد أتا ہے تب تب تمھارے دوست کا یہی حال ہوتا ہے ۔۔۔اب میں اس درد کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینا چاہتا ہوں
أنکھیں کھول کر سیدھا بیٹھ گیا تھا قہر سے کہا وہ اسے بغور دیکھنے لگا تھا۔۔۔
لیکن ان سب میں اس لڑکی کا۔۔۔۔ کیا قصور ہے جس سے تم نے نکاح کیا ہیں ۔۔۔۔۔اس نے سنجیدگی سے سوال پوچھا
ہممم اس کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ چوہدریوں کے گھر پیدا ہوٸی ہے۔۔۔۔۔ سپاٹ لہجے میں کہتا اٹھ کر واشروم میں بند ہوا
پیچھے ضاور نے بس کمرے کو افسوس سے دیکھا جو اس کے غصہ کی داستان بتا رہا تھا
شایان میرے بچے تمھاری یہ حالت کس نے کی۔۔۔
شایان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تھا ممتاز بیگم اس کی طرف بھاگتی ہوٸ أٸ ماتھے پر پٹی بندھی ہوٸ اس کے پورے جسم مین زخم کی ہلکی خراشیں تھی
ممتاز بیگم نے بازٶں سے سہارا دیا تو وہ لڑکھڑاتا ہوا اندر أیا اور کرسی پر براجمان ہوا تھا۔۔
ہاۓ میرے بچے کو کس کی بُری نظر لگ گٸی ہے أج ہی میں تمھارا صدقہ دوگٸی کیسے اتنی چوٹیں میرے بچے تمھیں أٸی ہیں
ممتاز بیگم نے تو زور زور سے رونا پیٹنا لگا رکھا تھا کہ سب ہی ان کی أواز سن کے باہر صحن میں أگٸے تھے اور شایان کی حالت دیکھ سب ہی پریشان بھی ہوۓ تھے
یہ سب کیسے ہوا
یارم اس کے برابر میں بیٹھتے ہی پوچھنے لگا
یارم وہ کچھ نہیں بس ہلکا سا اکسینڈنٹ ہوا ہے ۔۔۔۔گاڑی کیراس کر رہا تھا۔۔۔ اچانک پیچھے سے أکر ایک کار والے نے گاڑی کو ٹکر لگا دی اور یہ سب ہوگیا
اطمینان سے یارم کو دیکھ کے کہا
شکر ہے اللہ پاک کا کچھ ہوا نہیں
شاہدہ بیگم نے شکر ادا کیا تو سب نے بھی اللہ پاک کا شکر ادا کیا
عُروشہا مایا سیڑھیوں کے اوپر کھڑی سب سن اور دیکھ رہی تھیں
عُروشہا میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ شایان کی نظروں کا مقابلہ کر سکے اور مایا کے لیۓ تو وہاں کا ماحول ہی نیاں تھا دونوں ہی وہاں سے نیچھے کا منظر دیکھ رہی تھیں جب عُروشہا نے مایا کو مخاطب کیا
بھابھی أپ پر یہ ڈریس بہت جچہ رہا ہے ماشا اللہ بہت پیاری لگ رہی ہیں أپ۔
عُروشہا نے اس کا سر سے لیکر پاٶں تک جاٸزہ لیتے کہا تھا وہ واقعی میں اس کے دیٸے ہوۓ کپڑوں میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی
عُروشہا کے کہنے پر مایا کا دھیان اس کی طرف گیا ۔۔۔۔۔۔۔
تھینکس عُرو تم مجھے میرے نام سے بلایا کرو ہم دوست ہیں مجھے یہ بھابھی کا الفاظ کچھ خاص پسند نہیں
اوکے مایا اب خوش۔۔۔۔ وہ بھی دھیمی سی مسکان لبوں پر لے أٸی
عُروشہا نے چہرے پہ مسکان سجاۓ کہا۔۔۔۔۔ لیکن اس کو مایا کی بات کچھ چبی تھی۔۔۔ مگر یہ سمجھ کر کہ اس کے باپ کی ابھی وفات ہوٸی ہے شاید اسلیۓ چڑچڑی لگ رہی ہے اس نے بھی اس کا رویہ نظر اندازہ کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔اور اپنے کمرے میں چلی گٸی تھی اور مایا ابھی وہی کھڑی شایان کو دیکھ رہی تھیں پھر اپنے خیالوں کی دنیا کو جھٹک کر کمرے میں چلی گٸی
رات کے کھانے کے ٹیبل پر سب ہی گھر کے افراد موجود تھے مایا نیچھے نہیں أنا چاہتی تھی مگر یارم زبردستی اس سے نیچھے لایا تھا ۔۔۔۔اس کا ماننا تھا کہ وہ گھر کے لوگوں سے ملے گٸی تبھی تو ہی اس کی جان پہچان سب سے ہوگٸی اور گل مل جاۓ گٸی کمرے میں رھ کر وہ اور زیادہ ڈپریشن کا شکار ہو سکتی ہے
کل سے سجاد تم راشد کے ساتھ زمینوں کا کام سمبھالوں گٸے
ولید بخش چوہدری نے سجاد کی جانب دیکھ کے سنجیدگی سے کہا
لیکن ابا جان مجھے ان حساب کتاب کے بارے میں اتنا کچھ پتا نہیں اور جبکہ بھاٸی جان سب سمبھال رہا ہیں تو میری کیا ضرورت ہے
سجاد کا منہ کڑوا ہوگیا تھا باپ کی بات پہ
کیونکہ یہاں وہاں منہ مارنے سے اچھا ہے کہ تم کام پر دھیان دو اور رہی بات سمجھ نہ أنے کی تو وہ تمھیں راشد سب سیکھا دیٸے گا
سب کھانا کھا بھی رہے تھے اور ولید بخش چوہدری کی بات بھی دھیان سے سن رہے تھے
راشد کل سے سجاد تمھارے ساتھ کام پر جاٸیں گا
راشد کی جانب دیکھ کر سنجیندگی سے کہا تھا ولید بخش چوہدری میں اتنا کچھ ہوجانے پر کچھ تو سدھار أیا تھا کہ اپنے نالاٸق بیٹے کو سیدھا راستہ دیکھا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ان کا ماننا تھا کہ وہ کام میں مصروف رہے گا ۔۔۔۔تو غلط کاموں سے بھی دور رہے گا ۔۔۔۔اور اس میں ہم سب کی بھلاٸی بھی ہے ۔۔۔راشد نے چاول کا منہ میں چمچہ ڈالتے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔۔۔اور عُروشہا کی جانب راشد نے دیکھا جس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا
راشد چوہدری کو بہت دکھ ہوا تھا کہ اس کے باپ بھاٸی کی وجہ سے اس کی بیٹی دشمنوں کے گھر جاۓ گی عُروشہا کو خود پر کسی کی نظر محسوس ہوٸی تھی سر اٹھاکر سب کی اور دیکھا ۔۔۔جہاں راشد چوہدری کی اسے نظر ملی وہ فوراً نظریں پھیر گیا تھا اور یہ پہلی بار ہوا تھا
شایان بار بار عُروشہا کو دیکھ رہا تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ کاش مولوی کو ساتھ لاتے وقت اس کا اکسینڈنٹ نہیں ہوا ہوتا تو اب تک وہ اس کے نکاح میں ہوتی۔۔۔۔ وہ تو اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ تو اب کسی اور کی بیوی بن ہوگٸی ہے
یارم نے چاول مایا کی پلیٹ میں ڈالے جو کہ خالی تھی وہ بے دماغ میں ہی اس خالی پلیٹ میں چمچہ ہلا رہی تھی اچانک یارم کی حرکت پر مایا نے چونکہ کے اس کی جانب دیکھا
دھیان کہاں پر ہے أپ کا مسز یارم چوہدری
پیارے برے انداز میں وہ اس کے کان میں ہلکی سرگوشی کر گیا اور سب کی جانب دیکھا جو کھانے کی اور متوجہ تھے اس نے سک کا سانس لیا تھا کہ شکر ہے کہ کسی نے اس سے دیکھا نہیں
جب مایا کے کان کی لوح میں اس کی گرم تپش پھونک گٸی تھی۔۔۔۔۔وہ یکدم کنفیوز ہوٸی۔۔۔۔۔ اس کا ہاتھ کانپ نے لگا تھا اور ہاتھ سے چمچہ نیچھے گر گیا
چمچہ گرنے کی أواز پر سب نے چونک اس کی اور دیکھا
مایا تم ٹھیک ہو ۔۔۔عُروشہا نے تعجب سے پوچھا
جواب میں اس نے سر ہاں میں ہلایا تھا۔۔۔ پھر سب کھانے کی طرف متوجہ ہوۓ تھے
یارم سمجھ گیا کہ اس کی حرکت پر مایا کا رنگ اوڑھ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔گھور دار نظروں سے مایا نے اسے نوازہ تھا یارم نے اس کے در عمل پر اسکو دیکھ کر ایک أنکھ ونگ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مایا کی أنکھیں یکدم اس کے در عمل پر پھٹی پھٹی رھ گٸی
چہچورا ۔۔۔
مایا نے دانت پیستے زیر لب بڑبڑایا بخوبی اس کی أواز یارم نے سنی تھی کیونکہ وہ اس کی ساٸیڈ والی کرسی پر بیٹھا تھا
یارم اپنی ہنسی دانت میں دبا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مایا کو تنگ کرنے کا اس کے دماغ میں ایک اور أٸڈیا أیا تھا ۔۔۔۔۔یکدم پیر کو شوز سے ازاد کرتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔ مایا کے سفید پیروں پر اپنے پیر سے حرکت کرنے لگا ۔۔۔اس کے پیر کا لمس محسوس کیا ۔۔۔۔ اچانک مایا کھانا چبانے لگٸ تھی کہ بت بن گٸی تھی اس کے لیے نوالا حلق کے اندر اتارنا بھی مشکل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دھیرے سے حلق کے اندر اتارا۔۔۔۔۔۔ کھا جانے والی نظروں سے یارم کو گھورا ۔۔۔۔۔۔تو یکدم اس نے اپنے پیر پیچھے کیۓ تھے