قسط 16
کاش وہ پل لوٹ أۓ

کاش وہ دن لوٹ أۓ 

کاش تو پکارے ایک بار مجھے

یہ تیرا دیوانہ ہر رسم توڑ کے تیرے پاس أۓ

سمجھ بیٹھے تھے منزل کو پالیا ہم نے 

وہ ایک خواب تھا جس کو حقیقت سمجھ بیٹھے

ایک فریب تھا ایک دھوکا تھا ایک سازش تھی

وہ کب سے اس سنسان سڑک پر گاڑی کو غصہ و درد کے مارے بھاگا رہا تھا لیکن ہجرۓ عشق کا درد تھا کہاں کم ہونے والا تھا
وہ وجہیہ مرد بچوں کی طرح رو رہا تھا____ تیز سپینڈ سے گاڑی ڈراٸیونگ کر رہا تھا ___ اسے نے یکدم گاڑی کو بریک لگاٸی تھی یہ تو شکر تھا ___ رات کا وقت تھا __ سڑک بلکل سنسان تھی اگر وہ دن میں اس طرح گاڑی ڈراٸیو کرتا یا پھر یکدم بریک لگاتا تو اس کا بہت بُرا اکسینڈنٹ ہوتا ۔۔۔
گاڑی سے نکل کر ویران سنسان سڑک کو دیکھ نے لگا ___ کتنی طویل خاموشی تھی ___ وہی سناٹا طوفان اس کے دل میں ہول مچا رہا تھا _____ گھٹنوں کے بل بیٹھ کے پھوٹ پھوٹ کے وہ وجہیہ مرد رونے لگا تھا____ شاید اس کا صبر جواب دے گیا تھا ___ وہ ٹوٹ گیا تھا ہار گیا تھا اپنی محبت کو کسی اور کی قسمت میں لکھا دیکھ کر___
عُروشہا کیوں تم میری نہیں ہوسکی ___ہر دعا میں تمھیں مانگا __ میری ہر چلتی سانس میں تم بسی ہو ___ میرے جسم میں تم خون کی طرح رقص کرتی ہو ____کیا میں نے اس سے دل سے نہیں مانگا تھا ___ یا اللہ _____کیا میری چاہت میرا عشق میری عقیدت __ اُس ارحام کے بدلے کی أگ سے زیادہ نہیں تھی ___ ہاں اسلیۓ تو وہ جیت گیا اور میں ہار گیا ______کہاں کہاں سے مھٹاٶں تمھیں دماغ و دل سے ___ یا روح سے____ اے میرے اللہ پاک بس اُس ایک شخص کے علاوہ میں نے کبھی کچھ نہیں مانگا تجھ سے اور وہی میرا نہیں ہوا __
أسمان کی جانب دیکھ کر وہ دھاڑے مار کے روتے ہوۓ فریاد کر رہا تھا _____
أگر میری زندگی میں ___ میری عُروشہا نہیں تو پھر ٹھیک ہے___ اِن چلتی ہوٸی سانسوں کا بھی کوٸی وجود نہیں دنیا میں ۔____
پاگلوں کی طرح وہ ری ایکٹ کر رہا تھا اس کا دماغ اس کے ہی کنٹرول میں نہیں رہا تھا ___ أنسوٶں کو گال سے بے دردی سے رگڑتے یکدم کھڑا ہوا__ اور گاڑی میں جا بیٹھا ۔۔سٹرینگ پہ ہاتھ رکھتے أنکھیں بند کی ۔۔۔۔
اس کی أنکھوں کے سامنے عُروشہا کا حسین چہرہ لہرایا تھا___ ٹھنڈہ سانس لیتے ہی یکدم أنکھیں کھول لی ___اس کے سر پر جنون سوار تھا ___ انسان پہ جب جنون سوار ہوتا ہے __ یا تو وہ انسان خود کو نقصان پہنچاتا ہے __ یا پھر دوسروں کو __ اور شایان اس سٹیج پہ تھا__ کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے پہ تٗلا ہوا تھا____
کچھ سوچنے اور سمجھ نے کی صلاحیت اس کے دماغ نے کھو دی تھی____
سٹرینگ کو مظبوتی سے پکڑتے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔۔۔۔ گاڑی کو دھیرے سے تیز سپینڈ پہ چلا دی اتنی کی سڑک کے ارد گرد کی چیزیں دیکھاٸی ہی نہیں دیٸے رہی تھی
جان بوجھ کے گاڑی ہاہوے کی طرح چلا دی جہاں ہر وقت گاڑیوں کا رش ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی گاڑی ہاہوے میں داخل ہوٸی قسمت اچھی تھی___ اس کی اتنی سپینڈ کے باوجود بھی اس کی گاڑی باقیوں کی گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچ جا رہی تھی_____ اس سے اب غصہ أنے لگا تھا___ کیوں اس کی گاڑی کسی سے نہیں ٹکرا رہی
اچانک سامنے سے تیز سپینڈ میں ٹرک أتی نظر أٸی اسے سے_____گاڑی اس ساٸیڈ پہ کی تاکہ اس کے نیچھے گاڑی أ جاۓ اور وہ اس زندگی سے أزاد ہوجاۓ___
وہ یہ بھول بیٹھا تھا__ کہ اسلام میں خودکشی کی معافی رب نے نہیں دی ۔۔۔۔ بس اس لمحے اس کے سر پہ تو موت کا بھوت سوار تھا ___وہ سہی اور غلط راستے کو بھول بیٹھا تھا ____
اچانک سپینڈ سے أتی ٹرک سے اس کی گاڑی بُری طرح سے ٹکراٸی گاڑی کے انجر پنجر ڈھیلے ہوگٸے تھے ____ مسکراتے وہ أنکھیں بند کر گیا سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کا خون تیزی سے بہنے لگا تھا____
پر یہاں اپنی جان پیاری اس سے کہاں تھی
پورے ہاہوے لوگوں کے ہجوم سے ایکٹا ہوگیا تھا___ اتنا بُرا اور خطرناک اکسینڈنٹ دیکھ کر___ لوگ حیرانگی کے عالم میں منہ پہ ہاتھ رکھ گٸے___وہ خون میں لت پت زمین پر بے جان پڑا تھا ___ لیکن کسی میں اتنی انسانیت نہیں تھی کہ اس شخص کو ھوسپیٹل پہنچاں دیا جاۓ_____
یہ لڑکا کب سدھرے گا فون کیوں اٹھا نہیں رہا __ میں تو اس کی اب روز نٸی حرکتوں سے تنگ أ گٸی ہوں ___ نہ اس کو میری پرواھ ہے نہ ہی اس کے باپ کو ___
ممتاز بیگم کب سے اس سے کال رہی تھی بیل مسلسل جانے کے بعد بھی سامنے سے کال ریسیو نہیں ہو رہی تھی____ تو وہ پریشانی میں پورے کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی ___بار بار اس کا نمبر بھی اس امید سے ملا رہی تھی کہ شاید اس بار کال ریسیو ہوجاٸے___
اب کون سا طوفان أگیا ہے __ جو تم اس طرح ٹہل رہی ہو وہ بھی پورے کمرے میں أرام سے بیٹھ جاٶ___
سُجاد چوہدری جیسے کمرے میں داخل ہوا ممتاز بیگم کو پریشان ہوتا دیکھتے کہا
أپ کا اکلوتا بیٹا شایان ہیں__کبھی اس کی بھی فکر کر لیا کریں
ممتاز بیگم غصے سے بولی
اب کیا ہوا اس سے___ سُجاد چوہدری کا لہجہ لاپرواھ تھا
جی وہ أپ کا بیٹا تھوڑ ہی ہیں جو أپ کو اس کی زرا بھی فکر ہو گٸی____ أپ کو اتنا پتا ہو کہ____ وہ اتنی رات کے وقت گھر نہیں ہے____ پتا نہیں کہاں چلا گیا ___ کب سے فون پہ فون کیٸے جا رہی ہوں___ لیکن مجال ہے جو ایک بار یہ سمجھ کر میرا فون اٹھا لیں کہ ماں پریشان ہوتی ہوگٸی لیکن نہیں _____۔
سر ہاتھوں میں دیٸے پریشانی غصہ سے بیڈ پہ بیٹھتے بولی ۔۔۔
جوان اولاد ہے اس کی بھی اپنی زندگی ہے ____ تم ہر بار خومخواھ خود تو پریشان ہوتی ہی ہو_____ اور ساتھ میں مجھے بھی کرتی ہو ۔۔۔۔۔
سجاد بیڈ پہ بیٹھتے کمبل کو سیدھا کرنے لگا تھا ان کا اب سونے کا ادارہ دیکھ ممتاز بیگم حیران ہوٸی ____
پچھلی بار بھی أپ نے یہی کہا تھا لیکن بعد میں کیا ہوا تھا أپ کو پتا ہے ہاتھ پاٶں توڑوا کر أیا تھا___
سجاد کے سر پہ کھڑی ہوتی بولی
ہاں لیکن ضروری نہیں ہیں کہ وہ ہر بار ہاتھ پاٶں توڑوا کے أٸیں گا تم بھی نہ ممتاز عجیب باتیں کرتی ہو___
کمبل کو خود پر اوڑھتے سجاد لیٹ گیا لیکن ممتاز بیگم کی أنکھوں سے نیند کوسو دور تھیں____ ماں کا دل تو اولاد کے لیٸے موم کی طرح ہوتا ہے ____جب تک ان کو اپنی أنکھوں کے سامنے سہی سلامت دیکھ نہ لے ماں کے بے چین دل کو چین کہاں ملتا ہے___
یا اللہ پاک میرے بچے کو اپنے مان و حفاظت میں رکھنا أمین ۔۔۔
ممتاز بیگم دل میں رب سے دعا گوہی ہوٸی تھی ۔۔۔۔
رات کے وقت سب ہی أپنے کمروں میں تھے ۔۔۔مایا کو سُجا کہ یہ اچھا وقت ہے___ ریبی سے بات کرنے کا۔۔۔۔ فنکشن میں جو ڈریس پہنا ہوا تھا وہ چینج کرنے کے بعد واشروم سے باہر أٸی تھی ___ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بال سُکا رہی تھی
یارم تم یہ کیا کر رہے ہو۔۔ یارم کو بیڈ سے تکیہ لیتے صوفے پر رکھ کے سو گیا ____أٸینے سے گردن موڑ کے مایا نے اس سے کہا
سو رہا ہوں یار____ اور کیا کروں گا وہ بھی رات کے وقت___
یارم مایا کی جانب دیکھ کہا
الحمداللہ میری أنکھیں بلکل ٹھیک ہیں____ مجھے بھی دیکھاٸی دیں رہا ہے____ کہ تم سونے کی تیاری کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔پر میں نے یہ کہا کہ تم صوفے پہ کیوں سو رہے ہو ۔۔۔بیڈ پہ کیوں نہیں
وہ تعجب سے پوچھنے لگٸی ۔۔۔۔ جب سے ان کی شادی ہوٸی تھی یارم صوفے پہ سونے لگا تھا۔۔۔۔مگر مایا نے اس سے صوفے پہ سونے نہیں دیا ۔۔۔ وہ سب سمجھ رہی تھی____ کہ یارم اسلیۓ ایسا کر رہا ہے ۔۔۔تاکہ وہ انکنفرٹ محسوس نہیں کریں___ مایا نے بہت فورس کیا کہ میں صوفے پہ سوٶں گٸی_____ اور اس کی ضد دیکھ کے اس کی بات مان گیا تھا ۔۔۔تب سے وہ بیڈ پر سوتا تھا اور مایا صوفے پر___
بس أج میرا دل کر رہا ہے ادھر سونے کو۔۔۔۔۔۔۔۔ تکیہ کو باہوں میں بھرتے مایا کو دیکھ سنجیدگی سے کہا ____
یارم ___ پیار بھرے لہجے سے اسے پکارا
جی جانے من۔۔۔۔۔۔ اسے معنی خیزی نگاہوں سے دیکھا ____ مایا کا اس کے جواب پہ منہ کھولا رھ گیا۔۔۔
منہ بند کروں جانے من ورنہ مہچر منہ میں چلا جاٸیں گا____
وہ اسکا منہ کھولا دیکھ اس کا مزاق اوڑھانے لگا ____ مایا کو تو سمجھ نہیں أیا کچھ اس نے فوراً بیڈ سے تکیہ اس کی طرف پھینکا۔۔۔
أہہہہہہہہ۔۔ یارم نے منہ سے باسخت چیخ نکلی
مایا دیکھنا تم پکی جہنم میں جاٶ گی ___ تکیہ کو صوفے پہ رکھ سیدھا ہوتا بیٹھ گیا جھنجھلایا
جی لیکن مجھ سے پہلے تمھارا ٹکٹ جنم کے لیۓ تیار کر کے رکھا ہیں اللہ پاک کے فرشتوں نے____
وہ اس سے گھور دار نظروں سے نوازہ تے بیڈ پہ بیٹھی
وہ کیوں۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے سوال پر اُلجھا تھا
کیونکہ مسٹر یارم چوہدری أپ بہت زیادہ لوفر ہوگٸے ہو___ اسلیۓ
دانت پیستے کہا
کیا مطلب بیوی کو جانے من کہنے سے میں لوفر ہوگیا____ اور جہنم میں جاٶں گا واہ جی واہ۔۔۔۔۔۔ شکر ہیں اللہ پاک نے اعمال نامہ لکھنے کے لیۓ دو فرشتے مقرر کیۓ ہیں ۔۔۔۔۔ ہم انسانوں کے ہاتھ میں نہیں دیا اعمال نامہ لکھنا ۔۔۔۔۔۔ ورنہ تم دنیا کی پہلی بیوی ہوتی جو اپنے شوہر کا ہنسنا بھی گہناھ ہی لکھتی۔۔۔۔۔۔
یارم نے چڑکے کہا تھا کیونکہ اس کو تو صدمہ لگا تھا____ کہ اس کی بیوی جانے من کہنے پہ اس سے سیدھا جہنم میں پہنچاں دیا _____بچوں کی طرح منہ پھولاۓ اس کی طرف سے گردن موڑ کے دوسری جانب کر گیا ____ اب یہ اس کا نیاں طریقا تھا مایا سے ناراضگی جتانے کا
مایا بچوں کے طرح اس سے منہ پھولایا چہرہ دیکھ کے ہنسی أ رہی تھی جوکہ اس نے دانتوں میں دبا دی _____ ورنہ وہ اور زیادہ ناراض ہوجاتا
اچھا بابا سوری اب اپنا منہ ٹھیک کرو۔۔۔ دونوں ہاتھ کان سے لگاۓ دھیمی سی مسکان چہرے پہ لاۓ کہا ____ وہ اس سے ٹھیری أنکھوں سے دیکھنے لگا__ ہاتھ کان پہ رکھتی ۔۔۔۔۔ وہ بلکل چھوٹی بچی لگ رہی تھی
اوکے اب چپ کر کے سو جاٶ_____ تھوڑا اس کا لہجہ سخت تھا_____ مایا سمجھ گٸی کہ وہ اب ناراض نہیں ہے اس سے تنگ کرنے کے لیۓ تھوڑا سخت لہجے میں کہا ہے____ وہ صوفے يہ لیٹ گیا ____ وہ أج بہت تھک گیا تھا اس سے نیند بہت أ رہی تھی ______اسلیٸے اس سے سونے کی جلدی تھی_____ مگر مایا کشمکش کا شکار ہوٸی کہ کیسے وہ باہر جاٸے _____ یارم جھاگ رہا تھا اگر وہ رات کے وقت باہر جاتی تو اس سے وہ سوال کرتا ___
اسلیۓ مایا نے سر اثبات میں ہل کے لیمپ أف کرتی کمبل خود پہ اوڑھ کے لیٹ گٸی۔۔۔۔۔ گردن کو اٹھا کے دیکھا کہ یارم سو گیا کہ نہیں مگر وہ کروٹ بدل رہا تھا فوراً وہ نیچھے ہوٸی ۔۔۔۔۔۔۔
ارادہ ریبی سے بات کرنے کا ابھی تر کرتی أنکھیں بند کرکے سو گٸی____
عُروشہا دیر تک رونے کی وجہ سے اس کی سسکیاں ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔۔۔ ارحام سلطان کا ہر دن ایک نیاں ڈراونہ روپ دیکھ کر وہ بھادر لڑکی جو ہر مشکل کے سامنے ڈنٹ کے کھڑی ہوجاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔دوسرں کے لیٸے أواز اٹھانے والی حالات نے اسے اس قدر سے توڑ دیا تھا کہ وہ اپنے اوپر ہوتے ظلم پہ بھی خاموش رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی سسک رہی تھی زمین پہ ہی سو گٸی ۔۔۔۔۔ فنکشن میں اتنا ہیوی ڈریس جولری پہنھ کے وہ تھک گٸی تھی ۔۔۔اوپر سے پانچ گھنٹے سے لگاتار رونے کی وجہ سے وہ نڈھال ہوگٸی ۔۔۔۔۔۔۔کب اس سے نیند نے اپنی لپیٹ میں لیا اس سے خبر ہی نہیں ہوٸی تھی___
رات ڈھل گٸی تھی ایک نٸے دن کا أغاز ہوا تھا پرندوں کی أوازیں صبح کے موسم کو پرسکون بنا رہی تھیں۔۔
پوری رات ارحام سلطان ___ سلطان مینشن نہیں لوٹا تھا ۔۔۔صبح کے چھ بجے کا وقت تھا ۔۔۔۔۔پورے مینشن میں خاموشی چھاہی ہوٸی تھی _____ باہر سے أتے ہی وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا ____جو کہ اس کے بال ماتھے پہ جھول رہے تھے
سیڑھیوں کو عبور کرتے وہ سیدھا اپنے کمرے کی جانب رخ کر گیا ۔۔۔کمرے کا دروازہ کھول کے جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔ اس کی نظر عُروشہا پہ گٸی جو زمین پہ سو رہی تھی ___
پورے کمرے میں نظر گھماٸی پورے فرش پہ کانچ کے ٹکڑے بکھرے ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔ یہ توشکر تھا ۔۔۔کہ عُروشہا جس کونے میں زمین پہ پڑی تھی ۔۔۔۔۔وہاں کوٸی کانچ کا ٹکڑا نہیں تھا۔۔۔۔
کمرے کی حالت کو اور عُروشہا کو نظر انداز کرتا الماڑی سے اپنا بلیک سادہ سا سوٹ نکال کر واشروم میں چینج کرنے چلا گیا ۔۔۔۔ چند منٹ کے بعد باہر أیا ۔۔۔۔ تب بھی اس کی نظر زمین پہ ویسی حالت میں عُروشہا پہ پڑی
پھر سے وہ نظرانداز کرتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا أٸینے میں اپنا عکس دیکھ بالوں کو برش کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔مسلسل اس کی نظر أٸینے میں بھی عُروشہا پہ تھیں____
اس سے کچھ عجیب لگا کیوں کہ نہ تو وہ ہل رہی تھی ۔۔۔۔نہ ہی کروٹ بدل رہی تھی ۔۔۔۔۔ برش کو ٹیبل پر رکھ کے کانچ کے شیشوں سے بجتا دھیرے سے وہ نیچھے گھٹنوں کے بل بیٹھ کے اس سے ہلایا تھا
اس کا پورا وجود بخار سے تپ رہا تھا ۔۔۔زمین پہ سونے کی وجہ سے ٹھنڈہ میں کانپ بھی رہی تھی ____ ایک منٹ نہیں لگایا ۔۔۔۔ارحام نے پیار سے باہوں میں بھر کے اس سے اٹھایا تھا ۔۔۔۔۔ ارام سے بیڈ پہ اس سے لیٹایا اور کمبل کو اس کے ارد گرد اچھے سے اوڑھا مگر وہ تب بھی کانپ رہی تھی ____
اس کے چہرہ کو دیکھا جہاں شدید رونے سے أنسوٶں کے نشان تھے ۔۔۔۔مٹھیوں کو غصہ سے بند کیا اس سے اب خود پہ غصہ أرہا تھا ۔۔۔۔کہ جب وہ کہہ رہی تھی کہ شایان اس کا ہاتھ نہیں چھوڑ رہا تھا ۔۔۔وہ خود اس کے غریب نہیں گٸی تھی۔۔۔۔۔اور یہ سب منظر اس نے خود اپنی أنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ شایان کو خود سے دور کر رہی تھی۔۔۔۔
پھر بھی غصہ میں وہ اس سے چوٹ پہنچاں گیا تھا ۔۔۔
گھڑی میں وقت دیکھا اور موباٸل ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھا کر فوراً نمبر ڈایل کر کے موباٸل کان سے لگایا
ہیلو پانچ منٹ ہے تمھارے پاس جلدی سے ڈاکٹر کو میرے کمرے میں لیں أٶ گو ____
سامنے سے جیسے کال ریسیو ہوٸی وہ فوراً حکم دراص کر گیا
یار ابھی چھ بجے کون سا ڈاکٹر ملے گا مجھے
۔۔۔۔۔۔
ضاور کی سامنے سے أواز حیران کن تھی ۔۔۔۔۔اس سے ارحام سلطان کے دماغ پہ شک ہوا کہ اتنی صبح ھوسپیٹل میں ڈاکٹر کو کہاں سے وہ ڈھونڈہ کے لے أۓ گا
وہ تمھارا مسٸلہ ہے میرا نہیں مجھے بس پانچ منٹ میں ڈاکٹر یہاں چاہیے ____
ارحام غصہ میں کہتا کال ڈسکنیٹ کر گیا تھا ضاور کو کچھ سمجھ نہیں أیا کہ کہاں سے ڈاکٹر کو لاٶ ۔۔۔۔۔۔۔۔أخر ارحام سلطان کا حکم تھا کچھ نہ تو کچھ کرنا ہی تھا ورنہ وہ اس سے اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔
ضاور جاگنگ چھوڑ کے اپنے کمرے کی جانب بھاگا اور ایک منٹ میں جلدی سے فریش ہوکے سلطان مینشن سے گاڑی کو فل سپینڈ سے شہر کی جانب دوڑاٸی___
اوۓ بات سُن گاٶں سے پاس والے کسی ھوسپیٹل کی لکویشن سینڈ کر ایک منٹ میں___
ضاور گاڑی کی سپینڈ بھڑا رہا تھا اور ایک ہاتھ سے کال پہ کسی سے بات کرنے لگا۔۔۔
کمینے انسان سونے دیں صبح صبح میری نیند کا دشمن کیوں بن رہا ہیں۔۔۔
مقابل منہ تکیہ پہ دیٸے جھنجھلا کے بولا
یہاں میری سانس اٹکی ہوٸی ہے اور تمھیں اپنی نیند کی ھڑی ہیں ____حیرانگی سے کہا
سانس تمھاری اٹکی ہوٸی ہے میری نہیں____ مقابل لاپرواھی سے گویا تھا
ضاور نے غصہ سے مٹھیاں میچی___
اوکے نہیں سینڈ کریں گا نہ لکویشن ۔۔۔۔ ساری زندگی کے لیۓ تجھے __ اب ارحام سلطان ہی سُلاٸیں گا سوچ لیں بیٹا۔۔۔۔
دھمکی دیتے ضاور مسکرایا وہ سمجھ گیا تھا کہ اب اس کا کام مقابل ایک منٹ کے اندر کرے گا
کیا۔۔۔۔ وہ چلایا اور فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
جی __ کیونکہ جو کام بول رہا ہوں___ وہ مجھے باس نے پانچ منٹ میں کرنے کو کہا ہے ____ باس کے کہنے کا مطلب پانچ منٹ ___ جو کہ تم سے بات کرکے دو منٹ تو ویسٹ ہو گٸے ہیں میرے
ضاور مسکراتا مقابل کو اندر تک ڈرا گیا تھا
بس بس اب زیادہ بات کو ہواٸی نہ دیں ابھی سینڈ کرتا ہوں___
مقابل ضاور سے جلدی اب بات ختم کرنا چاہتا تھا البتہ اس کی زبان سے ارحام کا نام سن کے اس سے کام کو جلدی ختم کرنا چاہتا تھا___
مقابل کال رکھ گیا ___ جلدی سے لیپ ٹاپ اٹھایا گاٶں کے أپس پاس کسی ھوسپیٹل کی لکویشن جلدی سے ڈھونڈہ کے ضاور کو ایک سیکنڈ میں سینڈ کی ____ اس کے لیٸے یہ باٸیں ہاتھ کا کھیل تھا ____
جان بچی تو لاکھوں پاۓ___ أج اس بات کی حقیقی معنہ سمجھ أٸی
لیپ ٹاپ کو بیڈ کے دوسرے ساٸیڈ رکھ کے بیڈ پہ لیٹ گیا تھا ___اور لمبی سانسیں لیتے ہی أنکھیں بند کرتے گویا تھا __
ضاور کی موباٸل پہ میسج أیا اس نے ایک ہاتھ سے وہ میسیج کھولا ___ یکدم اس کے لبوں پہ مسکراہٹ أٸی
ویسے بندہ ہیں کام کا___ مسکراتا لکویشن کو دیکھ گویا
فوراً لکویشن پہ پہنچاں ___ ارحام عُروشہا کے ماتھے پہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کر رہا تھا مگر اس کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا____
ضاور ڈاکٹر کو لیکے چار منٹ میں سلطان مینشن پہنچاں تھا ڈاکٹر کو لیکر ارحام کے کمرے پہ دستک دی ۔۔۔
أجاٶ ۔۔۔ جواب ملنے پہ فوراً اندر داخل ہوٸیں۔۔۔
کیا ہوا ہے انہیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے عُروشہا کو دیکھ ارحام سے پوچھا
ڈاکٹر أپ ہیں یا میں ہوں___ جو مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا ہوا ہے
___پہلے سے وہ پریشان تھا عُروشہا کو لیکر اور اوپر سے ڈاکٹر کے سوال پہ اس سے مزید غصہ أیا ___ ڈاکٹر نے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جس کی أنکھیں سُرخ تھیں __ ارحام نے ڈاکٹر کو گھور کے دیکھا اور اشارہ کیا عُروشہا کا چیکب کرو وہ اس کی قہر بھری نظروں سے
ڈر گیا تھا ___ڈاکٹر کو اپنا سانس گلے میں اٹکتا محسوس ہوا تھا___ اور فوراً ___ عُروشہا کا چیکب کرنے لگا بیڈ کے دوسری ساٸیڈ پہ ارحام بیٹھا اس کا ہاتھ مسل رہا تھا_ تاکہ اس کے ہاتھ گرم ہو اور وہ جلدی میں ہوش میں أجاۓ
ڈاکٹر چیکب کر چکا تھا ضاور ارحام سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے___
ڈر کی وجہ سے انہیں بخار ہوگیا ہے اسلٸے یہ بیھوش ہوگٸی ہے پہلے بھی أۓ تھنک یہ بیھوش ہوٸی ہیں ڈر کی وجہ سے ____
ڈاکٹر اس کی بند أنکھیں کھولتے چیکب کرنے لگا اور ساتھ میں وہ انہیں پتا بھی رہا تھا .____ اب مکمل ڈاکٹر اس کا چیکب کرچکا تھا ____
ارحام سے مخاطب ہوا
میں دواٸی دیں رہا ہوں___ اگر اس طرح دوبارہ یہ بیھوش ہوٸی ____ تو ان کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہیں ابھی میں نے انہیں انجیکشن لگا دیا ہے__ ان شااللہ جلدی بخار ختم ہوجاٸیں گا ___ کوشش کریں انہیں أپ ہر ڈر و پریشانی سے دور رکھیں __
ڈاکٹر دواٸی لکھ کے ارحام کی جانب کاغذ کیا تھا___فوراً ضاور نے ان سے لے لیا اور ڈاکٹر کوچھوڑ نے باہر چلا گیا
ارحام کو خود پہ بہت غصہ أ رہا تھا ___ کہ اس کی وجہ سے وہ اس حال میں بیڈ پہ پڑی ہے___
___ صبح مایا کی أنکھ جلدی کھولیں جلد سے فریش ہوکر نیچھے أٸی نظر پورے صحن میں دوڑاٸی لیکن کوٸی اس سے نظر نہیں أیا تھا وہ سیڑھیاں اترنے لگی ____
اب اس نے کچن کی جانب قدم بڑھایا تھا جیسے وہ کچن میں داخل ہوٸی اس سے وہاں صرف اکیلی ریبی نظر أٸی تھی____ اس نے شکر کا سانس لیا کہ وہ اکیلی ہے کچن کے دروازے سے باہر جھاکا کہ کوٸی____ أ تو نہیں رہا جب اس نے پوری تسلی کر لی___ زیبی سے بات کا کہاں سے اسے أغاز کرنا ہے وہ سوچنے لگی تھی
مایا بی بی أپ أج اتنی جلدی اٹھ گٸی ہیں أپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ
زیبی اس سے دیکھ کہا کیونکہ وہ اتنا جلدی نہیں اٹھتی تھی ____
جی خالہ بی میں ٹھیک ہوں ہاں وہ بس أج أنکھ تھوڑی جلدی کُل گٸی تھیں____
خالہ بی میں أپ کی بیٹی کی عمر کی ہوں أپ مجھے مایا کہہ کر بُلایا کریں___ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ أپ مجھے بی بی کہہ کر بُلاٸیں
___ مایا باپ کی اکلوتی بیٹی ہونے کے بعد اور اتنے بیک بیلنس کی مالک تھی لیکن کبھی اس نے غرور نہیں کیا تھا __ وہ تو نرم دل کی مالک تھی غریبوں سے محبت کرنے کی عادی تھی
لیکن اچھا نہیں لگتا أپ اس حویلی کی بہو ہیں اور میں ایک نوکرانی أپ کو أپ کے نام سے کیسے بلا سکتی ہوں۔۔۔
___ زیبی نے شرمندہ لہجے میں کہا
لیکن أپ کو خالہ بی میں خود کہہ رہی ہوں نہ پلیززززز اگر کسی نے أپ کو کچھ کہا تو میں ہوں____ میں خود کہہ دو گٸی کہ أپ کو میں نے کہا ہے_
زیبی ڈر رہی تھی کیونکہ وہ حویلی کے لوگوں کو اچھے سے جانتی تھی لیکن اب یوں بار بار مایا کو منتیں کرتا دیکھ اس کو منع بھی نہیں کر سکی اسلیۓ مسکرا کے ہاں میں سر ہلایا
چاۓ پیوں گٸی یا کافی۔۔۔۔۔ چاۓ کا برتن چولہے پہ چڑھاتے کہا
خالہ بی أپ جو بھی بناٸیں گٸی وہ میں پیوں گٸی ۔۔۔ویسے خالہ بی أپ اس حویلی میں کب سے ملازمہ ہیں
مایا نے سنجیدگی سے سوال پوچھا ___
پہلے تو انہیں تجسس ہوا تھا کہ مایا کیوں پوچھ رہی ہے پھر سوچا شاید بچی نے ایسے ہی پوچھ لیا ہوگا ___
راشد سجاد کی شادی نہیں ہوٸی تھی ان کی ماں گُل بہار بیگم اچھے اخلاق کی خاتون تھی ___ تب مجھے نوکری کی سخت ضرورت تھی ایک دن میں حویلی ان کے پاس أٸی اور ان سے کام مانگا تو انہوں نے مجھے ملازمہ کا کام دیا میں نے خوشی میں ہاں کی اور تب سے میں یہاں ہوں ___
پوری تفصیل مایا کو بتاٸی وہ ٹیبل سے ٹیک لگاۓ زیبی کی بات دھیان سے سن رہی تھی ۔۔۔۔
اب وہ کہاں ہیں ۔۔۔ مایا نے مزید جانے کی کوشش کی
کون___ زیبی کو کچھ سمجھ نہیں أیا کہ وہ کس کا کہہ رہی ہے
گًل بہار بیگم ___ زیبی نے مایا کی جانب دیکھ کہا اس نے سر ہاں میں ہلایا
راشد اور سجاد پانچ سال کے تھے جب وہ دنیا چھوڑ کے چلی گٸی تھی __ تب سے حویلی اور ان کا خیال میں نے رکھا ____ اور وہ جب بڑے ہوگٸے اور ان کی شادی ہوگٸی تو ممتاز بیگم بی بی اور شاہدہ بیگم بی بی نے حویلی کی زمیداریاں سمبھالی
خالہ بی أپ کے بچے کہاں ہیں شادی کے بعد أپ کہاں رہتی تھی
____ مایا کے سوال پر زیبی کا کام میں چلتا ہوا ہاتھ یکدم جھٹکے سے رکا تھا
مایا نے بغور انہیں دیکھا ____ یہ باتیں چھوڑ اب شاہدہ بی ہی ممتاز بی بی أتی ہوگٸی مایا بیٹی تمھیں کچھ چاہیے تو بتا دو وہ میں ابھی بنا دیتی ہوں___
مایا نے نوٹ کیا کہ اس کے سوال کو وہ نظرانداز کر گٸی ہے
اچھا خالہ بی اگر أپ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تو ٹھیک ہے لیکن مجھے أپ سے ایک بات پوچھنی ہیں_____ پلیززز بڑی امید سے میں أپ کے پاس أٸی ہوں__ مجھے انکار نہیں کریٸے گا
مایا نے اس بات کو چھوڑ دیا ابھی وہ جس کام کے لٸے أٸی تھی___ اس نے وہ پوچھنا ابھی ضروری سمجھا
زیبی حیرانگی سے اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کے ہاں میں سر ہلا دیا
سترہ سال پہلے سلطان اور چوہدریوں کی دشمنی کی وجہ کیا تھی اتنی گہری دوستی اخر دشمنی میں کیوں بدلی
مایا کا سوال زیبی کے ہوش اوڑھا گیا تھا وہ کیوں اخر جاننا چاہتی تھی– اس کے ایک سوال نے زیبی کے ذہن میں کہیں سوال پیدا کیے تھے ____ زیبی کی یکدم اوڑھی رنگت مایا نے بخوبی محسوس اور دیکھی تھی۔۔۔
اے لڑکی اپنے کام سے کام رکھو ۔۔۔۔__
پیچھے سے ولید بخش چوہدری کی گرجدار أواز پر وہ دونوں کی نظر دروازے پہ گٸی جہاں وہ انہیں گھور کے دیکھ رہا تھا
دادا جان میں تو بس____ مایا گھبرا گٸی
بس میں کچھ نہیں سُنا چاہتا کہ تم یہاں کیا کرنے کے أرادے سے أٸی ہو لیکن پہلی اور أخری بات کہ دوبارہ میں تمھاری زبان یا پھر کسی اور کی زبان سے اس بارے میں دوبارہ بات کرتا نہ دیکھوں
ولید بخش چوہدری نے مایا کو نظروں سے گھورا تھا اس کے کہنے کا مطلب زیبی سمجھ گٸی کہ وہ زیبی کو مایا کو کچھ بتانے سے انکار کر رہا ہے اور ساتھ میں دھمکی بھی
ولید بخش چوہدری باہر چلا گیا تھا زیبی نے مایا کو اشارہ کیا کہ باہر جاٶ
وہ زیبی کو خوفزدہ دیکھ اس کا شک یقین میں بدلا کہ یہ صرف حویلی نہیں بلکہ راز حویلی ہے جس میں کہیں راز چھپاۓ گٸے ہے
وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی گٸی اور ریبی اپنے کام میں لگ گٸی