قسط 17
صبح سے لیکر اب دوپہر ہو چکی تھی دھیرے دھیرے اس نے اپنی پلکیں چپکاٸی تھیں سب ہی اس کے کمرے میں موجود تھے اٍن چھ ساتھ گھنٹوں میں ارحام سلطان کی جان پہ بناٸی تھی وہ اتنا اس سے لیکر پریشان تھا کہ صبح کا ناشتہ بھی اس نے نہیں کیا تھا کیونکہ عُروشہا ہوش میں نہیں أٸی تھی اس نے تین اور ڈاکٹرز کو بُلایا تھا اس سے چیکب کے لیۓ کہ وہ کیوں اب تک ہوش میں نہیں أٸی سب ہی ڈاکٹرز نے ایک ہی بات کی کہ ڈر کی وجہ سے اس سے بخار ہوا ہے مگر ارحام سلطان کا شاید وہ صبر أزماں رہی تھی ہوش میں نہ أکر اس کے پلکیں چپکانے پر ارحام کو چھوڑ کے سب ہی اس کی اور متوجہ ہوٸیں تھے
أنکھیں کھولی تو سب کو اپنے کمرے میں دیکھا وہ دھیرے سے بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھ گٸی تھی اس نے نظر پورے کمرے میں گھماٸی تھیں ارحام صوفے پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے مغرور اندازہ میں بیٹھا تھا موباٸل میں مصروف اس کو نظر أیا تھا عُروشہا کو حیریت ہوٸی اسے اس کے بیھوش ہونے سے کوٸی فرق نہیں پڑا ہو جیسے اس کا کوٸی قصور تھا ہی نہیں کیونکہ ارحام ایسا ری ایکٹ کر رہا تھا اس سے ہوش میں دیکھ کے کہ اس سے زرا بھی پرواھ نہیں ہوٸی مگر دراصل حیقیت تو کچھ اور ہی تھی جو وہ عُروشہا نہیں چانتی تھی لیکن ضاور سب جان گیا تھا کہ وہ کتنا اس کے ہوش میں أنے سے پہلے تڑپا تھا
میری پیاری گڑیا کی اب طبیعت کیسی ہیں اور بیھوش کیسے ہوٸی
حیدر سلطان نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور پیار بھرے لہجے میں پوچھا اس نے گردن موڑ کے اس سنگدل کو دیکھا جو موباٸل میں ایسے مصروف دیکھا رہا تھا جیسے وہ کوٸی امپورٹنٹ کام کر رہا ہو اور اس سے ضرور کام اس کے لیٸے کوٸی ہو ہی نہیں
دادا جی تھکن کی وجہ سے فنکشن میں بہت تھک گٸی تھی نہ اسلٸے ہوسکتا ہے کہ میں بیھوش ہوگٸی
نظریں چراتے بولی اس کی بات سن کے ارحام جو موباٸل میں کچھ ٹاٸپ کر رہا تھا وہ ہاتھ یکدم رُکا تھا مگر اس نے ایسے ظاہر کیا کہ وہ وہاں ہوکے بھی وہاں نہیں ہے جیسے
اچھا گڑیا اپنا خیال رکھا کرو اب ہم تو بوڑے ہوگٸے ہیں ہمھارا خیال بھی تو ہمھاری بیٹی نے رکھنا ہے اور اگر وہی ٹھیک نہیں ہوٸی تو کیسے چلے گا پھر
نرم لہجے میں کہا
جی دادا جی میں اب ٹھیک ہوں أپ پریشان نہ ہو
تسلی دیتے کہا
ارحام سب ان کی گفتگو سُن رہا تھا وہ کشمکش کا شکار ہوا تھا کہ کیوں عُروشہا نے دادا جی کو نہیں بتایا اس سے اچھا موقع اس کے لیٸے کہاں تھا اس کا نام لینے کے بجاۓ اس نے جھوٹ بولا
قربان نے بغور گھور کے ارحام کو دیکھا ہمیشہ کی طرح سپاٹ لہجے میں بیٹھا تھا مگر اس سے کچھ کہنے کا مطلب اپنا سر دیوار پہ مارنے کے برابر تھا
ضاور خود چونکا تھا یہ سوچ کہ اس انسان کے کتنے چہرے ہیں وہ اسکا بچپن کا اچھا دوست اور کمپنی کا پاٹنر تھا مگر أج تک وہی اس شخص کو پہچان نہیں پایا تھا
ارحام میرے کمرے میں أٶ زرا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
سب ہی کمرے سے باہر جا چکے تھے قربان اس سے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا ارحام موباٸل جیب میں رکھتا عُروشہا کی طرف دیکھے بینا ہی کمرے سے نکل کے قربان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا
جی ڈیڈ أپنے بُلایا۔۔۔ کمرے میں أتے کی استفسار کیا
ہاں یہاں بیٹھو ۔۔۔۔ اپنے سامنے صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ سر ہاں میں ہلا کے اس پہ پراجمان ہوا تھا
عُروشہا کیسے بیھوش ہوٸی تھی۔۔قربان کا کہجہ سخت تھا ارحام کے چہرے پہ مسکان بکھری تھی اس کا باپ کتنا پہچانتا ہے اس سے
مجھے کیا پتا ڈیڈ اب میں کوٸی وگیانی تو ہوں نہیں جو مجھے پتا ہوگا کہ وہ بیھوش کیسے ہوٸی اور کیوں ہوٸی ۔۔۔انکاری جواب دیتا ان کی أنکھوں میں دیکھا
اس کا جواب سُن قربان سلطان نے غصہ میں مٹھیاں میچ لی
ارحام میں تمھارا باپ ہوں تمھاری رگ رگ سے اچھے سے واقف ہوں اسلۓ میری سیدھی بات کا سیدہ سا جواب دو __ ان کا لہجہ ابھی بھی سخت تھا
جب أپ میری رگ رگ سے واقف ہیں تو پھر اندازہ بھی خود ہی لگا لیں
اخر وہ بھی انکا خون تھا ان کی طرح دوبدو جواب دیا تھا
ارحام عُروشہا سے اپنا رویہ درست کرو وہ بچی معصوم ہے اس سے بدلے کی جنگ میں مت گھسیٹوں __
قربان کو پتا تھا کہ وہ میری بات ہر بار کی طرح اس بار بھی نہیں مانے گا مگر اس بے گہناھ بچی پہ ہوتا ظلم بھی برداش نہیں کرسکتا تھا
ابھی ڈیڈ سوچا نہیں کہ اس کو اس جنگ میں گھسیٹنا ہے کہ نہیں ۔۔۔ لیکن میرا کچھ بھروسہ نہیں ہے ۔۔۔۔ کہ کب کیا کہا ۔۔۔اور کیا کر جاٶں مجھے خود کو بھی پتا نہیں ہوتا خیر کوشش کرو گا ۔۔
لاپرواھی سے کہتا کرسی سے اٹھ کر باہر کی جانب قدم بڑھایا ہی تھا قربان کی بات پہ اس کے چلتے قدموں کو یکدم بریک لگٸی تھیں
تمھارے پیدا ہونے سے پہلے تمھاری ماں پر میں بھی ہر وقت غصہ کرتا تھا ۔۔۔بے وجہ کبھی کبھی بس انہیں ڈانٹ دیتا تھا ۔۔۔۔لیکن پھر بھی تمھاری ماں نے کبھی مجھ سے شکوہ نہیں کیا اور میرے غصہ کو ہمیشہ برداش کرتی رہی
مگر ہر عورت ایک جیسی نہیں ہوتی ارحام ۔۔۔۔۔عورت کانچ کی طرح نازک ہوتی ہے۔۔۔۔ اور موم کی طرح نرم وہ محبت کرنے پر أٸیں تو تمھارے قدموں میں بیٹھ جاٸیں گی ۔۔۔۔ اور اگر بدلا لینے پہ أٸیں تو اپنے قدموں میں گرا سکتی ہے اتنی طاقت رکھتی ہے عورت ذات
مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا تھا میں نے ان سے دل و جان سے معافی مانگی ۔۔۔۔۔ اس نے مسکرا کر مجھے معاف کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی انسان غلطیاں نادانی میں کر جاتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد صرف پچتاوے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔۔۔۔۔۔۔ باقی تمھاری مرزی مجھے تمھیں ایک بار پھر سمجھانا چاہیے تھا اور میں نے سمجھا لیا
قربان ارحام کے روبرو کھڑے ہوتے سنجیدگی سے کہا تھا لیکن بیوی کی یاد میں ان کی أنکھیں نم ہوٸی تھیں۔۔۔ اس سے گردن پھیر کے وہ أنکھوں میں أٸی نمی صاف کرنے لگا تھا ارحام نے باپ کی جانب دیکھا۔۔اگے بڑھ کر ان کو بازٶں سے تھام کے اپنے سامنے کیا
ڈیڈ کوشش کرو گا غصے کو کنٹرول کرنے کی __ اتنا کہتا وہ باہر نکل گیا تھا اب کچن کی جانب اس کا جانے کا ارادہ تھا کچن میں داخل ہوا
بُوا ہمھارا کھانا ہمھارے کمرے میں بیجواں دیجٸے گا ___ ارحام نے وہاں کی پکی عمر کی ایک خاتون سے کہا تھا وہ حکم دے کر اپنے کمرے میں چلا گیا جیسے وہ کمرے میں داخل ہوا عُروشہا کو بیڈ سے اٹھتا دیکھنے لگا
اس سے پہلے کہ وہ چکر کھا کر بُری طرح گرتی ارحام بھاک کے اسے تھام گیا تھا ۔۔۔۔اس کا ایک ہاتھ اس کی کمر پہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرا اس کے ہاتھ میں وہ اس کو خود کے اتنے قریب دیکھ کر گھبرا گٸی تھی۔۔۔۔۔ اور اس سے کچھ قدم کا فاصلا کرنا چاہا ۔۔۔۔لیکن ارحام نے نہ تو اس کی کمر سے ہاتھ دور کیا تھا۔۔۔۔۔نہ ہی اس کے ہاتھ کو چھوڑا تھا۔۔۔۔۔وہ بار بار اپنا ہاتھ پیچھے کر رہی تھی۔۔۔۔ مگر ارحام اس کی ساری حرکتیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ مگر اسکا ہاتھ چھوڑنے کی زحمت نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بھی بڑے مزے سے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ کہ وہ نازک سی لڑکی اخر کب تک اپنا ہاتھ چھوڑوانے کے لیٸے اپنی اینرجی ویسٹ کرے گٸی۔
میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔ کوشش کرنے کے بعد بھی وہ ارحام کے ہاتھ سے اپنا نازک ہاتھ چھوڑوا نہیں سکی تو اس سے دیکھ جھنجھلا کے بولیں
کیوں___ سپاٹ لہجے میں اس سے دیکھ کہا تھا عُروشہا کو اس سے ایسے جواب کی توقل بلکل بھی نہیں تھی وہ تو پھٹی أنکھوں سے اس کی جُرت دیکھ رہی تھیں
کیونکہ میں چاہتی ہوں اسلٸے ۔۔ وہ اس سے گھور کے بولی
زبردستی اس سے بیڈ پہ بیٹھایا تھا وہ حیریت سے دیکھ رہی تھیں کہ کل اس شخص نے بینا سوچے سمجھے تکلیف دی اور أج ایسے پرواھ کر رہا ہے جیسے واقعی میں میرے بیھوش ہونے میں انہیں فرق پڑا ہے
وہ بس سوچ کے رھ گٸی کچھ کہا نہیں تھا
دروازے پہ دستک ہوٸی وہ اس سے چھوڑ کے دروازہ کھول گیا تھا۔۔ بُوا کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھیں ان سے وہ ٹرے لی اور انہیں جانے کا کہا تھا ٹرے ٹیبل پہ رکھ کے عُروشہا کی اور متوجہ ہوا
پہلے کھانا کھاٶ ۔۔اس کے بعد جہاں تمھارا من کریں چلی جانا
اس کا لہجہ پتھریلا تھا وہ اس کی فکر بھی ایسے کر رہا تھا جیسے اس پہ روعب جما رہا ہو شاید اس سنگدل انسان کو فکر کرنی بھی نہیں أتی تھی
عُروشہا نے اس کی بات کا کوٸی جواب نہیں دیا تھا اور پھر سے بیڈ سے اٹھ کر واشروم کی جانب قدم بڑھا گٸی تھی کہ ارحام اس کے سامنے دیوار بن کے کھڑا ہو گیا
تمھیں ایک بات ایک بار کہنے سے سمجھ نہیں أتی کیا ۔۔کیا کہا میں نے ابھی کہ پہلے کھانا کھاٶ
وہ اسے گھورتے ہوۓ بولا تھا
مجھے واشروم جانا ہے
اس سے بار بار راستے سے ہٹتا نہ دیکھ کے اس نے شرمندگی سے سر نیچھے جھکا کے کہا ___ ہاں تو جاٶ ۔۔۔ وہ سخت لہجے میں گویا تھا
وہ بھول رہا تھا کہ وہ تو جانے کے لیۓ جتن کر رہی تھی لیکن مقابل ہی اس کے اگٸے کھڑا ہو رہا تھا بار بار
أپ میرا راستہ چھوڑیں گٸے تو ہی میں جاٶں گی نہ
تھوڑی سختی سے کہا تھا
اس کے کہنے پہ وہ ساٸیڈ پر ہوا تھا عُروشہا تھوڑا اگٸے گٸی ہی تھی کہ اس کو پھر سے چکر أنے لگا تھا وکنیس کی وجہ سے اور اتنا وقت بیھوش رہنے کی وجہ سے کمرزو فیل کر رہی تھی
ارحام کچھ ہی فاصلے پہ اس سے کھڑا تھا فوراً بازٶں سے اسکو تھام کے گرنے سے بچا گیا
اب بھی کہو کہ چھوڑو مجھے ۔۔طنزیہ بولتا اس کی جانب گھور کے دیکھ کہا تھا کہ عُروشہا نظریں جھکا گٸی تھیں
چلو میں لیں چلتا ہوں__ بازٶں سے وہ اسے تھام کے بولا تھا اور دھیرے سے قدم بڑھانے لگا تھا لیکن اپنے ہاتھ کو پیچھے کھیچنے کی وجہ سے وہ پیچھے مڑا تھا
اب کیا ہوا۔۔۔ اس کی جانب دیکھتے کہا تھا اور جھنجھلایا
أپ مجھے ایسے کیسے لیں جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ہمت کرتی بولی اس سے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ ارحام واشروم میں اس سے لے جاۓ
تو کیا اب تمھارے لیٸے ارحام سلطان ہلیکاپٹر لیکر أۓ گا ۔۔۔تاکہ تم اس پر چھڑ کے واشروم جا سکو
سرد لہجے میں کہتا وہ عُروشہا کو شرمندہ کر گیا تھا ۔۔۔۔
چلو اب چپ کرکے ورنہ اندر بھی ساتھ چلوں گا اگر اس طرح ری ایکٹ کروں گی تو۔۔۔۔۔
ہاتھ کھینچتے وہ اب اس سے واشروم تک لے کے أیا تھا عُروشہا کا دل کیا کاش زمین پھٹ جاۓ اور وہ اس میں دھس جاۓ
دیوار کی مدد سے اور ہاتھ اس پہ رکھتی دھیرے سے وہ واشروم کے اندر داخل ہوٸی تھی مڑ کے دروازہ لاک کرنے لگی تھی کہ ارحام نے دروازے پہ لات رکھی وہ جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھا
دروازے کو لاک نہیں کرو اگر تمھیں پھر سے چکر أگیا تو خود کو سمبھال نے کی طاقت تم میں نہیں ہے
گھمیبر أواز میں کہا تھا ارحام کی بات پہ عُروشہا کا دل کیا سر دیوار پہ دیٸے ماروں
أپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ایسے کیسے میں __ شرم کے مارے اس کی زبان نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا اور بیچ میں ہی چپ ہوگٸی تھی
کیا ۔۔۔۔وہ سرخ أنکھیں اسے پہ گاڑے پوچھا عُروشہا کا دل کیا کاش ہوش میں نہ أتی مقابل کو اس کے لیٸے سمجھنا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا___ نہ وہ اسکا غصہ برداش کر پاٸی تھی نہ ہی اس کی اس طرح فکر کرتا وہ برداش کر پا رہی تھی
یکدم اس کی أنکھوں میں أنسوں أۓ تھے ارحام کو سمجھ نہیں أیا اخر ایسا بھی کیا اب بول دیا جو رونے لگ گٸی
اچھا ٹھیک ہے لاک کروں
اس کی فکر میں وہ بھول گیا تھا کہ وہ کیا کہہ گیا تھا جب بات سمجھ أٸی پھر اجازت دی
اس نے فوراً دروازہ لاک کیا تھا اور دروازے سے ٹیک لگاۓ لمبی سانسیں لینے لگی تھی دل تھا کہ زور سے دھک دھک کر رہا تھا
ولید بخش چوہدری پورے کمرے میں ٹہل رہا تھا شاید کوٸی پریشان تھی جب دروازہ کھول کر سجاد اندر أیا
ابا جان جی أپ نے مجھے بُلایا۔۔ ولید بخش چوہدری کے برورو کھڑے ہوتے کہا تھا
کتنی دیر لگا دی چلوں گاڑی نکالو جلدی سے
سجاد سر ہلاتا باہر چلا گیا تھا اور ان کی پیچھے ولید بخش چوہدری بھی ادھے گھنٹے میں ان کی گاڑی پولیس اسٹیشن پہنچھی تھی وہ لوگ گاڑی سے اتر کے اندر کی جانب چل دیٸے تھے
کل جو عورت أٸی تھی اسکا شوہر نشے کی حالت میں مار پیٹ کرتا ہے اس کے ساتھ اس کیس کا کیا بنا ۔۔۔ افسد سامنے کھڑے ھولدار سے پوچھنے لگا تھا
سر ان کے کیس کا کیا بنے گا أپ کو بتایا تھا نہ کہ ان کے شوہر نے پیسے دیں کر کیس کو بند کرنے کا کہا تو ہم نے فوراً ہی کیس کو رد کر دیا أپ سے بینا پوچھیں
ھولدار نے سب تفصیل سے بتایا تھا افسد کو شدید غصہ أیا اور وہ کرسی سے اٹھ کر ھولدار کے سامنے کھڑے ہوتے گھور دار نظروں سے دیکھا ھولدار کے پسینے چھوٹنے لگے کہ اس کی اب شامت أگٸی ہے شاید
س سر ۔۔ وہ گھبراتا منہ سے کچھ بول ہی رہا تھا جب افسد نے اس کے کالر کو جھاڑتے اسے یکدم گلے لگ گیا
ویل ڈن تم نے بہت ہی اچھا کام کیا مجھے تم سے یہی امید تھی جواد ۔۔ گلے سے الگ ہوتے افسد خوشی سے بولا تھا ھولدار خوش ہوا تھا اپنے سر کو دیکھ کے
افسد نے خاکی وردی پہنے سے پہلے جو قسم کھاٸی تھی کہ وہ غریبوں کی مدد کرے گا حق سچ کے راستے پہ جی جان لگا دیگا اور اپنے اُحدے کو سہی سے استعمال کرۓ گا لیکن یہاں تو کچھ اور ہی ہو رہا تھا اس نے جو قسمیں کھاٸی تھیں ان میں سے ایک بھی اس نے پوری نہیں کی تھی۔۔۔ پیسوں کے لیٸے وہ بے گہناھ کو سزا دیتا تھا اور گہناھگار کو پیسوں کے لٸیے چھوڑ دیتا تھا وہ ایک نمبر کا لالچی اور مکار انسان تھا
ولید بخش چوہدری سجاد اندر جیسے أٸیں افسد کی نظر ان پہ پڑی اس سے لگا کہ اب اس کی موت پکی ہے جو کچھ اس نے کیا تھا وہ کیسے بھول پاتا
چ چوہدری س سردار أپ أٸیں بیٹھے او ے جا سردار کے لیٸے گرم ٹھندہ لیں کر أ
کرسی کو صاف کرتے گھبراہٹ پہ قابو پاتے وہ ھولدار کو حکم دیا تھا
ولید بخش چوہدری اس سے قہر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا مانو جیسے ابھی ہی وہ اس سے زندہ زمین میں گاڑ دیگا
افسد مجھے تم سے ایسی غلطی کی امید ہرگز نہیں تھی پنجاٸیت میں تم نے جو کیا سزا تو تمھیں ملے گٸی
دھمکی دیتے دھاڑا تھا افسد تو پورا پانی پانی ہوگیا
چوہدری سردار جی مجھے معاف کر دیں ارحام سلطان نے مجھے دھمکی دی تھی اور میں بہت ڈر گیا تھا میں أپ کے أگے ہاتھ جوڑ رہا ہوں مجھے معاف کر دیں اب سے کوٸی غلطی نہیں ہوگٸی أپ جو جیسا بھی کام کہے گٸے میں کروں گا بس اس بار مجھے معاف کر دیں سردار جی
افسد ولید بخش چوہدری کے پیر پکڑتے گڑگڑانے لگا
جو بھی کہوں گا کام کرو گٸے سوچ لو اگر اس بار غلطی ہوٸی تو تمھارے چھوٹے چھوٹے جسم کے ٹکڑے کر کے کتوں کے أگے پھینکوا دو گا
وہ اس کی گردن کو اوپر کرتے خونخوار أنکھوں سے دیکھتے الفاظ پہ زور دیتے گویا تھا
جی ج جی سردار أپ جو بھی کہیں گے وہ میں کرنے کے لیٸے تیار ہوں
ولید بخش چوہدری کے پیروں سے فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا
تو سُنو مجھے ارحام سلطان کی موت چاہیے اس کی لاش چاہیے وہ تڑپ تڑپ کے میرے أگٸے دم توڑیں
ولید بخش چوہدری کی بات سن افسد کے رونٹھے کھڑے ہوۓ سانس لینا ہی وہ بھول گیا تھا
بولو کرو گٸے یہ کام۔۔۔ اور اس کام کی منہ مانگی قیمت ملے گی تمھیں۔۔۔۔۔۔ ولید بخش چوہدری نے اس کے چہرے کی اوڑھی ہوٸی رنگت دیکھ کہا تھا وہ اس قدر شاکت تھا جیسے سانس لےنا بھول گیا ہو
لیکن سردار جی ارحام سلطان کی جان لینا اتنا أسان کام نہیں ہے
ڈرے ڈرے لہجہ میں کہا
پھر تمھاری جان لینا تو احسان ہیں ۔۔دھمکی عمیزہ کہا
یہ کام میرے اکیلے کی بس کی بات نہیں ہے ایک أدمی ہیں سردار جو خون دن دھاڑے کرتا ہے اور اپنا کام اتنی صفاٸی سے کرتا ہے کہ کسی کو اس پر شک بھی نہیں ہوتا پیسوں کے لیٸے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے
افسد اپنی جان چھوڑانا چاہتا تھا ولید بخش چوہدری سے کیونکہ اس سے صاف انکار کرکے اپنی موت کو دعوا نہیں دینا چاہتا تھا اور جو کام انہوں نے کہا تھا وہ احسان نہیں تھا ارحام سلطان کو مارنے کا مطلب شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال نے کے برابر تھا
اگر کوٸی گڑبڑی ہوٸی تو ۔۔۔ ولید بخش چوہدری غلطی سے بھی وہ ایسی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے وہ پھس جاۓ وہ ارحام سلطان کو اچھے سے جانتا تھا کہ وہ اس کے کھیل میں اس سے مات دۓ سکتا ہے اگر وہ کل کو پکڑا جاتا ہیں اور ارحام سلطان نے یہ بات پوری پنجاٸیت میں سابت کی پھر سے تو سردار کے احدے سے ہٹ جاۓ گا بادشاھ تب تک بادشاھ ہوتا ہے جب تک اس کی عوام اس کے خلاف نہیں جاتی
نہیں نہیں سردار جی وہ اپنا کام بہت اچھے سے کرتا ہے۔ میں سب سمبھال لوگا بس ایک بار أپ حکم کریں
افسد نے انہیں پورا مطمٸمن کرنا چاہا
ٹھیک ہے افسد یاد رکھنا یہ تھمارے پاس اپنی جان بچانے کا أخری موقع ہیں
ولید بخش چوہدری نے پھر سے اسے دھمکی دی ۔
أپ بے فکر رہے ہیں چوہدری سردار جی اس بار أپ کو شکایت کا کوٸی موقع نہیں دو گا پکا
سجاد ۔۔۔ ولید بخش چوہدری نے سجاد کو اشارہ کیا تھا ۔۔اس نے پیسوں کی ایک گھٹی ٹیبل پر رکھی ۔۔افسد نے جلدی سے وہ پیسے اٹھا لیٸے
پورے پانچ لاکھ ہے باقی کے پیسے جب کام ہوجاٸیں گا تمھیں مل جاٸیں گے
شکریہ چوہدری سردار جی میں أج ہی اس کام پہ لگ جاتا ہوں
افسد خوشی سے جھوم اٹھاتا ولید بخش چوہدری نے بس سر ہاں میں ہلایا کرسی سے اٹھیں اور باہر کی جانب چل دیٸے
ولید بخش چوہدری سے ہار ہضم نہیں ہورہی تھی جو ارحام سلطان نے پوری پنجایت میں اس سے دی تھی ۔۔۔۔ وہ یہ تک بھول گیا تھا کہ اب وہ اس کی پوتی کا شوہر ہے ۔۔لیکن پہلے کون سا ولید بخش چوہدری کو پوتی کی پرواھ تھی جو اب ہوتی
أپ نے ابھی تک چاۓ نہیں پی راشد اب تو چاۓ بھی ٹھنڈی ہوگٸی ہے
راشد چوہدری نے شاہدہ بیگم کو چاۓ بنانے کا کہا تھا اور وہ بنا کے انہیں دے گٸی تھی مگر نہ جانے وہ کھڑکی سے باھر کے نظاروں کو دیکھا رہا تھا اور کہیں کھویا ہوا بھی تھا
ہاں پیتا ہوں۔۔۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا
أپ کی طبیعت تو ٹھیک ہیں نہ راشد اگر کچھ ہوا ہیں تو بتاٸیں
ان کے پیچھے کھڑی ہوتی انہیں دیکھ کہا تھا شاہدہ بیگم کو وہ گم سم سے لگٸے تھے
کچھ سوچ رہا ہوں۔۔ ان کا ابھی رُخ کھڑکی سے باہر کی طرف تھا وہ شاہدہ بیگم کو یوں ہی جواب دے رہے تھے کھوۓ اندازہ میں کہا
کیا سوچ رہے ہیں أپ۔۔۔۔۔شاہدہ بیگم نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھ کہا تھا مگر وہ ابھی کھوۓ اور پریشانی ان کے چہرے پر جلک رہی تھیں
یہی کہ میں ایک اچھا باپ اور شوہر کبھی نہیں بن سکا۔۔۔۔ اور نہ ہی کبھی خود کو اچھا سابت کرنے کی کوشش کی
اب وہ شاہدہ بیگم کو دیکھ غمگین سا بولا تھا
أپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں أج سب خیریت تو ہیں
شاہدہ بیگم کو کچھ سمجھ نہیں أیا تھا کہ ان کا شوہر زندگی میں پہلی بار ایسا کیوں کہہ رہا ہے وہ تو تبھی خاموش تھے جب ولید بخش چوہدری نے اس سے کہیں بار سزا دی تھی اور کہیں بار بے وجہ ہاتھ بھی اٹھایا تھا تو پھر اج اچانک انہیں ایسا کیا ہوا جو وہ اس طرح کی بات کر رہا تھا وہ الجھی تھی
ہاں خیریت ہے۔۔۔بس اتنا کہتے وہ بیڈ پہ بیٹھ گیا اور بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھ گیا
پتا ہیں شاہدہ میں نہ ہی ایک اچھا باپ بن سکا اور نہ ہی اچھا شوہر بس ہیمشہ بُرا سلوک کیا تمھارے ساتھ اور
شاہدہ بیگم کو دیکھا بول رہا تھا مگر اچانک وہ چپ ہوا تھا شاہدہ بیگم بیڈ پہ بیٹھی تھی اور راشد کے ہاتھ پہ اپنا تسلی والا ہاتھ رکھا
وہ سمجھ گٸی تھی کہ کچھ تو ایسا ہوا ہے ورنہ کبھی راشد چوہدری اس طرح نہیں کہتا
راشد أپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ أپ خامخواھ سوچ رہے ہیں۔۔۔۔
پیار بھرے لہجے میں شاہدہ نے راشد کو دیکھ کہا تھا
ایسا ہی ہے شاہدہ عُروشہا کے ساتھ میں نے بہت غلط کیا ہے کبھی پیار سے اس کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا بس ہمیشہ اس کے ساتھ تلخ رویہ رکھا ہے کبھی باپ کا فرض سہی سے ادا نہیں کیا — ناجانے اس کے ساتھ وہاں کون سا سلوک ہوتا ہوگا اس سے کوٸی مارتا پیٹتا تو نہیں ہوگا نہ
شاہدہ نے أج اپنے شوہر کو عُروشہا کی فکر کرتے دیکھ ان کی أنکھیں بھیگی تھیں
راشد کیا ہم عُروشہا سے ملنے چلیں۔۔۔ وہ نم أنکھوں سے شوہر کو دیکھ بولی تھی
لیکن شاہدہ۔۔۔۔۔ راشد شاہدہ کا ہاتھ چھوڑ کر سوچ میں پڑ گیا تھا کیونکہ وہ اچھے سے اپنے باپ کو جانتا تھا وہ خود بھی جانا چاہتا تھا لیکن وہ ہچکچاں رہا تھا
راشد منع نہیں کریں گا میرا دل ناجانے کل سے گھبرا رہا ہے عُروشہا کو لیکر کہ وہ ٹھیک نہیں ہے ایک بار اپنی أنکھوں سے اس سے دیکھ لوں گٸی تو میرے دل بھی تسلی ہو جاٸیں گٸی
ٹھیک ہے ہم چلیں گٸیں۔۔۔ کچھ سوچ کر اخر راشد نے وہاں جانے کا فیصلا کیا
شام کے وقت أسمان پر ہر طرف کالے بادلو کا راج تھا بجلی کڑک رہی تھیں تیز ہواٶں سے پیڑ شور مچا رہے تھے
تم یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو۔۔
عُروشہا نے سفید رنگ کا سادہ سا سوٹ پہنا ہوا تھا تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھیں اس نے کندھوں پہ گرم شال ڈالی ہوٸی تھی گارڈن میں موسم کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔ دواٸی کی وجہ سے اب وہ پہلے سے بہتر فیل کر رہی تھی۔۔۔۔ جہاں اب بادل گرج رہے تھے اور بارش ہونے کا پیغام دے رہے تھے ۔۔۔اپنے پیچھے سے أواز پہ وہ پلٹی جہاں بلیک پینٹ سفید شرٹ بال سٹاٸیل سے سیٹ کیۓ ہوۓ تھے وہ مغرور شخص ہیڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔ وہ ایک ایک قدم اس کی جانب بڑھا رہا تھا اب وہ اس کے روبرو کھڑا ہوا
موسم کا حسین نظارہ دیکھنے أٸی تھی ۔۔۔۔ اس کی سرخ أنکھوں میں اپنی جھیل سی أنکھوں سے دیکھ کے کہا تھا
تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اندر جاکر بیڈ ریسٹ کرو
دونوں ہاتھ پینٹ میں ڈالے ہوۓ تھے أسمان کی جانب دیکھا جہاں اب ہلکی بارش کی بوندیں زمین پہ ٹپ ٹپ پڑ رہی تھیں
أپ کو پسند نہیں ہیں ایسا موسم ۔۔۔ عُروشہا نے اسے دیکھ کہا
مجھے پسند نہیں ہے۔۔۔وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا اور چہرہ ہمیشہ کی طرح سرد تھا
کیوں ۔۔۔۔ زرا دیکھیں نہ کتنا حسین موسم ہے ہلکی بارش بھی ہو رہی ہے
عُروشہا کے بال کھولے ہوۓتھے جو تیز ھوا کے چلتے بار بار اس کے چہرہ پہ کچھ لٹیں أ رہی تھیں جو وہ انہیں بار بار کان کے پیچھے کر رہی تھی اس کے جواب پہ ارحام نے اس کو دیکھا جو ایک ہاتھ اگے کرتے ان بارش کی بوندیں اس کی ہتھلی پہ پڑ رہی تھیں اور وہ أنکھیں بند کیۓ اس موسم کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔ارحام اس کے چہرہ کو دیوانوں سے تکنے لگا ریشمی بال جھیل سی أنکھیں وہ اس سے ہر بار خود کی طرح کھیچتی تھی اور وہ اسکی طرح جا بھی رہا تھا ۔۔۔وہ نادان لڑکی اس بات سے بے خبر تھی کہ اس کی یہ اداٸیں اور خوبصورتی ارحام سلطان کو پاگل بنا رہی ہے
یکدم ارحام نے اس کو کلاٸی سے پکڑ کے خود کے قریب کیا تھا ۔۔اچانک حملے کی وجہ سے اس کی شال کندھوں سے کسک کر زمین پہ گری تھی اور وہ خود نازک سی گڑیا جاکر اس کے مظبوت سے سینے سے ٹکراٸی
واقعی میں بہت حسین ہیں ۔۔۔ وہ مدہوش ہوتے اسے کے چہرے پہ اتی لٹیوں کو اس کے کان کے پیچھے کرتے بولا تھا
عُروشہا اپنے کان میں اس کا گرم لمس محسوس کرتی اس کی روح کانپ اٹھی تھی
ارحام چھوڑیں پلیزز ۔۔۔ وہ تڑپ اٹھی تھی جب ارحام نے بے سخت اس کی کمر پہ ہاتھ ڈالا تھا اور وہ اسے خود کے اور زیادہ نزیک کر گیا تھا
ابھی تو تم نے خود ہی کہا کہ موسم کتنا حسین ہے اور مجھے اتنا حسین موسم پسند کیوں نہیں اتا تو اب کیا کرو ۔۔۔ تم اپنے حساب سے موسم کو انجاۓ کرو اور میں اپنے۔۔۔۔ وہ اس سے خود سے دور کر گیا اور ایک ایک قدم اس کی طرف بڑھا رہا تھا اور وہ اس کے الفاظ میں پوری لرز گٸی تھی ایک ایک قدم وہ پیچھے کرتی جا رہی تھی
مجھے ٹھنڈہ لگ رہی ہے۔۔۔۔ اس کی أنکھوں میں أج خمار تھا جیسے دیکھ اس کے دل کی دھڑکنیں بے تابی سے دھڑکنے لگی تھیں شال کو زمین پہ دیکھ اس کو خود سے دور کرنے کا أٸیڈیا نظر أیا
اچھا لیکن تمھارے ماتھے پہ تو مجھے پسینہ نظر أرہا ہے
وہ اس کے ماتھے کی طرف اشار کرتے اپنے قدم پھر بھی اس کی طرف بڑھا رہا تھا پیچھے قدم کرتی وہ جاکر دیوار سے لگی تھی۔۔۔ارحام ہاتھ جیب سے نکال کر ایک ہاتھ دیوار پہ رکھ گیا تھا۔۔ اور اس کے فرار ہونے کا راستہ بند کر دیا اس کے چہرے کی اوڑھی رنگت اور ڈر دیکھ ارحام کو مزا أنے لگا تھا
میری دواٸی کا وقت ہوگیا ہیں۔۔۔۔۔ اس کی أنکھوں میں دیکھ معصومیت سے بولی ارحام با مشکل ہنسی دانتوں میں دبا رہا تھا تھوڑا اس کے نزیک ہوا وہ دیوار سے چپک گٸی ارحام اس کی دل کی دھڑکنوں کی أواز صاف سن رہا تھا
مس عُروشہا ارحام سلطان زرا ہمھیں بھی بتاٸیں گا کہ۔۔۔۔ کون سے اندھے ڈاکٹر نے أپ کو شام کی میڈیسن لینے کا کہا ہیں وہ بھی شام کے وقت۔۔۔
وہ تو بھول گٸی تھی کہ یہ وقت دواٸی کا ہے ہی نہیں پر اس سے کسی بھی طرح مقابل سے جان چھوڑوانی تھی سو جو دماغ میں بات أٸی کہہ دی
وہ م ۔۔۔ وہ یہاں وہاں دیکھنے لگٸی کہ کیسے مقابل سے جان چڑاٸی جاۓ
جی وہ أپ کیا ۔۔۔ وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو دیوار سے پن کر گیا تھا
اور اس کی أنکھوں میں جھکا تھاجہاں اب وہ رونے کے در پہ تھی
أ پ دور ہٹیں کوٸی أ جاٸیں گا
جب دیکھا وہ کسی طرح اس سے دور نہیں ہٹ رہا تھا اس نے ایک نیاں بہانا بنایا
ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرزی پھر ہم اس حسین موسم کو کمرے میں انجاۓ کرتے ہیں ۔۔۔
وہ ایک قدم پیچھے ہوا عُروشہا بھاگ ہی رہی تھی کہ ارحام نے اس کے ڈوپٹے کا پلٶں پکڑا تھا عُروشہا نے کسکتے ڈوپٹے پہ ہاتھ کے پیچھے دیکھا جہاں معنی خیزی نگاہوں سے اس سے دیکھ رہا تھا
ارحام پلیزززز میرا ڈوپٹہ چھوڑیں
وہ اپنے ڈوپٹے کو اس کے ہاتھ سے کھیچنے لگی تھی لیکن وہ چھوڑ نہیں رہا تھا اوپر سے اس کی ننہی سی حرکتیں دیکھ رہا تھا
ارحام اس کے ڈوپٹہ کے پلٶں کو گول کرتے اپنے مظبوت ہاتھ میں پکڑ کے زور سے اس سے کھینچا کہ وہ کھینچتی ہوٸی اس کے سینے سے أ لگی تھی اور ڈوپٹہ اس سے پوری جُدا ہوا تھا وہ ارحام کے ہاتھ میں تھا
کیوں مس عُروشہا ارحام سلطان کو مجھ سے ڈر لگ رہا ہیں
وہ اس کی تھوڑی کو اوپر کرتے اس کی جھیل سی أنکھوں میں دیکھ بولا تھا عُروشہا کو جب ہوش أیا تو خود کو بینا ڈوپٹہ کے دیکھ اس کی أنکھوں میں أنسوں أگٸے
رو کیوں رہی ہو ۔۔۔۔۔ وہ اس سے روتا دیکھ حیرانی سے بولا تھا
ڈوپٹہ میرا۔۔۔
وہ معصومیت سے بول کر سر نیچھے جھکا گٸی ارحام کا تو دھیان اس کے چہرہ سے ہٹ نہیں رہا تھا ۔۔
عُروشہا اب رونے لگی تھی ارحام نے جھٹکے سے اس سے دور ہوا تھا اور اس کی جانب دیکھا جو اس سے ڈوپٹہ کے بغیر دیکھ کے وہ یکدم نظریں پھیر گیا تھا اور عُروشہا کے أگے اس کا ڈوپٹہ کیا وہ اپنی نظریں دوسری جانب مکمل کرگیا تھا
جھٹکے سے وہ ڈوپٹہ اس کے ہاتھ سے لیتی اندر کی جانب بھاگی جیسے اس کے پیچھے کوٸی بھوت لگا ہے اس کے بھاگنے کی سپینڈ دیکھ ارحام سلطان کا زور دار قہقہ لگا کر ہنسا تھا
پاگل ۔۔۔۔ خود سے ہمکلامی ہوتا ہنستا ہوا اندر کی جانب بڑھا رہا تھا
کمرے میں أتے ہی اس نے باسخت دروازہ کو لاک کیا تھا دل کی دھڑکنوں پہ ہاتھ رکھا جو 200 کی سپینڈ سے بھاگ رہی تھیں
یہ میرے دل کو کیا ہوگیا ہیں۔۔۔۔۔ اتنا تیز کیوں دھڑک رہا ہے ۔۔۔۔یہ شخص میری جان لےیں کے چھوڑیں گا ایک دن۔۔۔