قسط 18
چار دن گزر گٸے تھے مگر شایان کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا___ولید بخش چوہدری پولیس اور اپنے أدمیوں کو لگا رکھا تھا____ اس کو ڈھونڈہ نے کے لیۓ____ ان لوگوں نے دن رات سب نے ایک کردی شایان کو ڈھونڈہ نے میں __
ممتاز بیگم نے رو رو کے اپنا بُرا حال بنا دیا تھا____ یارم نے اس کے دوستوں سے بھی معلوم کیا مگر انہیں بھی اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا ____
یارم نے کہیں بار اس کے نمبر پہ کال کی مگر اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا____
یارم کیا تم شہر جا رہے ہو ___
یارم کو باہر جاتا دیکھ کر مایا اسے کے راستہ میں کھڑی ہوگٸی
ہاں کیوں۔۔۔سوالیہ نظریں مایا پہ رکھتے کہا
___ وہ کیا تم مجھے شہر لیں جاٶں گٸے ___ مجھے گھر جانا ہے اپنا کچھ ضروری سامان لینے ۔۔۔ کیا تم مجھے لیں جا سکتا ہو إ
ہمممممم چلوں__
وہ دونوں حویلی سے ابھی نکلیں ہی تھے کہ شاہدہ بیگم کی أواز پر دونوں ہی پلٹے تھے____
شوہر سے کس طرح بات کرنی چاہیے تمھیں کیسی نے سیکھایا نہیں —
شاہدہ بیگم گھورتے ہوۓ اسے غصہ سے بولیں___
کیا مطلب أنٹی___
مایا یارم دونوں کو شاہد بیگم کی بات سمجھ نہیں أٸی تھی__
مایا نا سمجھی میں بولی___
ہاں بھٸی ___اب تمھاری غلطی ہیں بھی نہیں ___أخر تم شہر میں پلی بھڑی جو ہو ___ تمھیں کیسے معلوم ہوگا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں ___
شاہدہ بیگم طنزنہ لہجے سے کہا تھا___
امی أخر ہوا کیا ہے__ أپ اس طرح مایا سے بات کیوں کر رہی ہیں ___وہ مجھ سے سہی سے تو بات کر رہی ہیں___
یارم نے سنجیدگی سے کہا تھا__
جی ہاں بیٹا اب بیوی کی غلطیاں تمھیں کہاں نظر أٸیں گٸی_
شاہدہ بیگم دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا
أنٹی مجھ سے کوٸی غلطی ہوٸی ہے__ تو أپ بتاٸیں میں أٸندہ سے خیال رکھوں گٸی__ اس بات کا
میرے بھولے بھالے بیٹے کے سامنے دیکھو تو کیسے اچھی بن رہی ہیں__
شاہدہ بیگم نے نفرت سے مایا کو دیکھتے دل میں کہا تھا___
شوہر کو تم کہہ کر مخاطب نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے عزت سے أپ کہہ کر بلایا جاتا ہیں اب سمجھی کہ نہیں___
شاہدہ بیگم کا ابھی لہجہ سخت تھا لفاظوں پہ زور دیتے کہا__
امی کیا فرق پڑتا ہے __اس سے کہ مایا مجھے تم کہے یا أپ مجھے تو اس بات میں کچھ غلط نظر نہیں أ رہا ___
یارم نے حیران کن انداز میں کہا__
ہاں ۔۔۔ بیٹا اب بیوی کی غلطی بھی تمھیں نظر کہاں أۓ گٸی __
شاہدہ بیگم وہاں سے پیر پٹختی چلی گٸی تھی__مایا کو ان کا لہجہ دل کو بُری طرح چُبا تھا __
چلو مایا __یارم مایا کا ہاتھ پکڑ کے باہر کی جانب قدم بڑھا رہا تھا
لیکن یارم وہ أنٹی __
امی کو بعد میں__میں منع لوں گا __وہ دل کی بہت اچھی ہیں __مایا لیکن تم اچھے سے جانتی ہو جن حالات میں ہمھاری شادی ہوٸی ہیں۔۔۔ بس اس وجہ سے وہ تھوڑی بد گمان ہے لیکن مجھے تم پہ پورا یقین ہے کہ تم ان کا دل ضرور ایک دن جیت لوں گٸی ۔۔۔۔۔ ہیں نا
مایا تو شاکت کی حالت میں اس سے دیکھ رہی تھیں اور یارم کا ہر الفاظ اس کے دل کو چھو گیا تھا اتنا اعتبار وہ اس پہ کرتا تھا __
مایا کی أنکھیں یکدم نم ہوٸی __
کیا ہوا یار ۔۔۔۔ دیکھو پلیززز اب تم تو رونا شروع نہیں کرو___ وہاں امی دکھی ہیں ۔۔۔اور یہاں تم رو رہی ہو۔۔۔ ڈرامہ سیریل کی طرح کہیں میں بیچارا ساس بہو کے بیچ میں پھس نہ جاٶں___
دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پہ سجاۓ بولا تھا مایا اس کی اُو__ ور ایکٹنگ دیکھ کھلکلاٸی تھی ۔۔۔یارم بینا أٸبرو چپکاۓ اس کی ہنسی میں کھو گیا
او ہیلو ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔کس کے خواب میں گم ہوگٸے ہو۔۔
وہ اس قدر اس کی ہنسی میں گم ہوگیا تھا کہ ___ مایا کب سے اسے پکار رہی تھی__ مگر وہ بُت بنا کھڑا اس سے تکتا رہا ___ ۔۔ مایا نے اس کے اگے چپٹی بجاٸی تو وہ بوکھلا کر ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا___ اور یکدم اگے دیکھنے لگا ۔۔اب وہ گاڑی کے پاس پہنچھ گٸیں تھے
اگر کہوں کہ ہاں میں کسی حسینہ کے خواب میں گم تھا تو پھر تم کیا کرو گٸی__
سوالیہ نظریں اس پہ رکھتے گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور مایا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ خود بھاگ کر ڈراٸیونگ سیٹ سمبھال گیا اور گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہی وہ مایا کو دیکھنے لگا___
تو میں پھر تمھاری اس سے شادی کروا دو گٸی سمپل__
وہ خوشی سے بولی اس کے جواب پہ یارم کا منہ کھولا رھ گیا
او ریٸلی
بغور اسے دیکھ کہا
جی ۔۔۔ وہ لاپرواھی سے بولی تھی
تم دنیا کی پہلی بیوی ہوگٸی جو سوتن أنے پر اتنی خوش ہو رہی ہیں___
اس نے بھی تان لی تھی کہ مایا کو اس کی زبان سے اطراف کروا کے رہے گا کہ مجھے فکر پڑتا ہے __
أے نو ۔۔۔ کیونکہ میں دوسری بیویوں سے الگ ہوں اسلیۓ
اترا کر بولی __
اچھا ٹھیک ہے___ اگر میری پیاری بیوی کی یہی خواہش ہے تو پھر یہی سہی اب میں ایسا بھی شوہر ہر گز نہیں ہوں کہ بیوی کی خواہش پوری نہ کر سکوں___
وہ بھی دوبدو اس ہی کے لہجے میں جواب دے گیا تھا مایا نے سر ہاں میں ہلالیا___
ارحام سلطان کسی کام کے سلسلے میں شہر گیا تھا اس کو گٸے ہوۓ چار دن ہوگٸے تھے ۔۔ یہ چار دن عُروشہا کے لیے سکون سے گزرے تھے____
عُروشہا حیدر سلطان اور قربان سلطان کی لاڈلی بن گٸی تھی ان گزرتے دنوں میں اب اس سے سلطان مینشن اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا حیدر سکطان قربان اپنی بیٹی کی طرح اس سے رکھ رہے تھے ___
وہ جس کے ساتھ اس کا رشتہ تھا وہ بینا بتاۓ ہی اسکو شہر چلا گیا تھا ____ارحام سلطان کی شہر جانے والی بات حیدر نے اس کو بتاٸی تھی اس نے تو اللہ پاک کا شکر ادا کیا تھا کہ کم سے کم اس کے غصے سے تو دور ہوں____کچھ دن کے لیۓ ہی سہی
اسلام علیکم عُروشہا بیٹی ___
بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگاۓ وہ کوٸی ناول ریڈ کر رہی تھی ۔۔۔۔ دو دن پہلے مایا اس سے مل کر گٸی تھی____ یارم کو کہاں تھا کہ تم بھی چلوں عُروشہا سے ملنے اس نے منع کیا کیونکہ وہ سلطان مینشن میں قدم نہیں رکھنا چاہتا تھا ____
اس کی جو فوریٹ چیزیں جو مایا کو پتا تھی وہ اس کے لیے شاپنگ کر أٸی تھی اپنے لیے جب شاپنگ کی تو ساتھ میں عُروشہا کے لیے بھی ڈریسز اور جو اس کی ضرورت کا سامان تھا وہ اس سے دیٸے کر گٸی تھی ان میں سے ایک ناولز بھی تھے جو اس کی پسدید پروٹین میں سے ایک تھیں____ اور اسکا موباٸل بھی جو یارم نے ٹھیک کروا تھا مایا کو اس سے دینا کے لیے کہا تھا_____
جب اچانک دروازے پہ کھڑی نوکرانی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا
وعلیکم سلام بُوا اندر أٸیں ۔۔۔۔ سلطان مینشن بُوا کو کام کرتے کچھ ہی سال ہوۓ تھے اور وہ اچھی خاصی عمر کی تھی سب ہی ان کی بہت عزت کرتے تھے ۔۔سر ثبات میں ہلایا
عُروشہا بیٹی یہ ڈراٸیور دیں گیا ہے أپ کے لیٸے اور کہا کہ سر نے یہ سب بیجھے ہیں____
جی بُوا أپ یہ مجھے دیں
اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز تھے عُروشہا نے ان سے لیۓ اور احترام سے جانے کا کہا تو وہ کمرے سے باہر چلی گٸی تھی ناول کو بیڈ پہ رکھ کے وہ بیگز کو حیریت سے دیکھنے لگٸی
سب بیگز چیک کیۓ کچھ ڈریسز تھیں شرٹ جو گھٹنوں سے اوپر تھیں وہ ہر جگہ سے ان ڈریسز کا جاٸزہ لینے لگٸی تھی چوڑیدار پجامہ تھا سب ڈریس شرٹ پجامہ تھیں اور جو کچھ اس کی ضرورت چیزیں تھی وہ بھی وہ تو حیران ہوٸی تھی
یہ جلاد اچانک شہد جیسا مھیٹا رویہ کیوں رکھ رہا ہیں دال میں کچھ تو کالا ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہیں
وہ پر سوچ انداہ میں کہنے لگی تھی۔۔۔
اس میں کیا ہیں__أخری بیگ کو دیکھ کر کہا تھا سب بیگز وہ اچھے سے چیک کر چکی تھی بس یہ ایک ہی تھا جس پر اس کی ابھی نظر پڑی تھیں
جیسے ہی اس نے بیگ کھولا اس میں لال رنگ کا ڈبا تھا کہاں سے کھولتا ہے وہ ڈبا یہ چیک کر رہی تھی
شاید یہاں سے کھولتا ہوگا
اس کی نظر گرین رنگ کے بٹن پہ گٸی تھیں جیسے اس نے وہ بٹن دبایا وہ اچھل کر پیچھے ہوٸی تھی ____ اس کے سانسیں اوپر نیچھے ہو رہی تھی____کیونکہ اس لال رنگ کے ڈبے میں نقلی چھپکلی تھی ڈر کے مارے اس کے حواس خطا ہوگٸے تھے
ابھی وہ اپنی بے حال حواسوں پہ قابو پا ہی رہی تھی ___
کہ اس کا موباٸل بجنے لگا تھا ۔۔کپکپاتے ہاتھ سے نمبر چیک کیۓ بغیر موباٸل کان پہ رکھ دیا
مس عُروشہا ارحام سلطان أپ کو میرا تحفہ کیسے لگا
موباٸل کان سے ہٹا کر اپنے سامنے کیا اسکرین پہ جو نمبر تھا وہ اس کے پاس سیو نہیں تھا مگر وہ أواز کو اچھے سے پہچان گٸی تھی
پھر سے موباٸل کان سے لگایا__
جی تو بتاٸیں __
گھمیبر أواز میں پھر سے پوچھا گیا__
ایسا کوٸی گفٹ دیتا ہیں۔۔۔وہ سختی سے بولی __
ارحام سلطان وہ نہیں کرتا جو باقی لوگ کرتے ہیں__
سپاٹ لہجے میں گویا تھا ۔۔۔یکدم وہ کال ڈسکنیکٹ کر گیا عُروشہا نے موباٸل کی اسکرین کو دیکھا ۔۔وہ شخص اخر کیا تھا ایک پہیلی ہر روز وہ اس کو حیران کر دیتا تھا اور اسکا دماغ ماف ہوجاتا تھا کچھ سوچ سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتی تھی___
شام کے وقت عُروشہا دو کپ چاۓ کے کچن سے اٹھا کر پہلے اس نے حیدر سلطان کو دینے گٸی تھی اور اب وہ سٹیڈی روم میں قربان سلطان کو دینے جا رہی تھی ____
ٹکٹک أنکل کیا میں اندر أ سکتی ہوں۔۔۔دروازے پہ کھڑی ہوتے کہا تھا قربان سلطان بیٹھے أنکھوں میں چشمہ لگاۓ کتاب پڑھ رہے تھے جب عُروشہا کی أواز پر سامنے دیکھا
عُروشہا بیٹی وہاں کیوں کھڑی ہو اندر أٶ___
قربان نے أنکھوں سے چشمے کو ٹیبل پہ رکھ خوش ہوتے کہا تھا وہ سر ہاں میں ہلا کر ٹیبل پہ چاۓ رکھ ان کی سامنے کرسی پہ بیٹھ گٸی__
أنکل أپ سے ایک بات پوچھوں__
سنجیدگی سے بات کا أغاز کیا تھا___
جی بیٹا کہو کیا بات ہے___
چاۓ کا سوپ لیتے کپ ٹیبل پر رکھتے اسے دیکھ نرمی سے کہا
أنکل ارحام ایسا کیوں ہیں میرا مطلب ہر وقت غصہ میں رہتا ہے __
عُروشہا کی بات پہ قربان سلطان کے چہرے پر مسکان بکھری
بیٹا ارحام بچپن میں ایسا نہیں تھا وہ خوش باش انسانوں میں سے ایک تھا ہر کسی سے مزاق مستی کرتا رہتا تھا لیکن کہتے ہیں ۔۔۔نا کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔۔۔بس اس برے وقت کی لپیٹ میں میرا ارحام بھی أگیا
قربان سلطان کا لہجے دکھ سے چور تھا __
مطلب أنکل میں کچھ سمجھی نہیں ۔۔۔۔ ناسمجھی سے قربان کو دیکھا کہا __
سر وہ عُروشہا بی بی کے گھر والے أٸیں ہیں___
اس سے پہلے قربان سلطان اس سے حیقیت بتاتا کہ چوکیدار نے أکر اطلاح دی___
انہیں اندر لیں أٶ۔۔۔ عُروشہا بیٹی جاٶ گھر والوں سے جاکر ملوں___
پیار سے عُروشہا کو دیکھ کہا
لیکن أنکل وہ یہاں کیسے اور کیوں۔۔۔ وہ گھبراتے بولی تھی اس سے سمجھ بھی نہیں أیا کہ کیوں انہیں اندر أنے کی اجازت دی جبکہ وہ ان کے دشمن ہے اس کی گھبراہٹ دیکھ پھر سے قربان کے چہرے پہ مسکان أٸی ____
عُروشہا بیٹی گھبراٶ نہیں میں اور ابا جان کو اس بات سے کوٸی احتراض نہیں ہیں ____ ہاں اگر ارحام ہوتا تو شاید انہیں اندر نہیں أنے دیتا ___میں اور ابا جان نے پہلے بھی کہیں بار تمھارے دادا سے کہا تھا___ کہ جو ہوا سو ہوا زندگی کا کچھ پتا نہیں ہے____اس دشمنی کو ختم کرتے ہیں ___نا ہی تمھارے دادا نے یہ بات مان نے کو تیار تھا ___۔اور نا ہی ارحام ___خیر چھوڑو ان باتوں کو تمھارے گھر والے نیچھے انتظار کر رہے ہوگٸے جاٶ یہاں سے۔۔۔اٹھو ۔۔شاباش___ اور نیچھے جاٶ
عُروشہا کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کے نرمی سے کہا تھا_____ تو وہ فوراً اٹھی
اور نیچھے کی جانب بڑھنے لگی سیڑھیوں کو عبور کرتے وہ اپنوں سے ملنے کی خوشی میں أنکھوں سے أنسوں گرنے لگے تھے ___وہ بہاتی نیچھے حال میں أٸی اس سے یہ دیکھ کر دھجکا لگا کہ اس کی ماں کے ساتھ اس کا باپ بھی اس سے ملنے أیا ہے____وہ بے یقینی کے عالم میں قدم بڑھاتے ان کے سامنے أٸی
عُروشہا میری جان ___
شاہدہ بیگم بھاگ کے اس سے اپنے ممتا بھرے سینے سے لگایا تھا
وہ اب بھی بے یقینی سے راشد چوہدری کو دیکھ رہی تھیں
کیسی ہو تم یہاں ٹھیک تو ہو کہیں تمھارے ساتھ کوٸی مار پیٹ تو نہیں کرتا یا پھر کھانا وقت پر کھاتی ہو ___
شاہدہ بیگم ایک ہی سانس میں سب سوال اسے کر گٸی ماں کو خود کے لیے اتنی فکر میں دیکھ زخمی مسکان اس کے لبوں پہ أٸی
وہ اس سے الگ ہوتے ہی شروع ہوگٸی
امی میں ٹھیک ہوں دیکھیں أپکی أنکھوں کے سامنے ہوں___ أپ کو کہیں سے بھی میری حالت بُرا نظر أ رہا ہیں __ نہیں نا __ أپ اتنا میرے لیے پریشان نہ ہوا کریں __ أنکل اور دادا جی بہت اچھے ہیں ۔۔۔ جو پیار خیال حویلی میں میرا نہیں رکھا گیا تھا_____ وہ یہاں میرا بہت اچھے سے رکھا جا رہا ہے___
تسلی دہ شاہدہ بیگم سے کہا تھا مگر اس کی نظر راشد پہ تھیں
عُروشہا تمھارے بابا بھی تم سے ملنے أٸیں ہیں أج
شاہدہ بیگم نے خوش ہوتے کہا
شاید کسی لالچ پہ أٸیں ہوگٸے یہ۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار عُروشہا کا باپ کے لیے ایسا تلخ الفاظ کہیے تھے جو شاہدہ بیگم کے ساتھ ساتھ راشد کو بھی حیران کر گیے تھے
عُروشہا تم یہ کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔ اچھا چھوڑو یہ باتیں زرا بابا سے بھی مل لوں__
شاہدہ بیگم بات کو أگے نہیں لے جانا چاہتی تھی اسلیٸے عُروشہا کی بات کو خاطر میں نہ لایا__
بابا کیسے ہیں أپ__
اس کا رویہ انجان پن والا تھا__
ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ٹھیک تو ہو ۔۔۔نا تم ۔۔۔۔ یا پھر
ابھی وہ کچھ کہتا اس سے پہلے قربان کی أواز پورے حال میں گونجی تھی اور وہ ان کے پاس أیا____
راشد تمھاری بیٹی کو ہم اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں ___اگر پھر بھی تمھیں ہمھاری بات پہ یقین نہیں ہے ___تو تم عُروشہا بیٹی سے خود پوچھ سکتے ہو ___ تمھارا فکرمندہ ہونا لازمی ہے____ لیکن میں تمھیں پوری تسلی دینا چاہتا ہوں__کہ عُروشہا کے ساتھ میں اور ابا کبھی کچھ ___غلط نہیں ہونے دیں گٸے___ یہ مانتا ہوں ارحام غصہ کا تیز ہے لیکن وہ دل کا بہت صاف ہیں۔۔۔۔ کہیں نہ کہیں تم بھی یہ بات اچھے سے جانتے ہو ____
قربان کی بات جہاں شاہدہ بیگم کو تسلی دی تھی وہاں راشد کی بھی ان کی بات سے کچھ پریشانی اتر گٸی تھی___
قربان میں تم سے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگتا ہوں مجھے معاف کردو
۔۔۔ سب کچھ میری وجہ سے ہوا تھا____شاید اگر میری بیٹی کی شادی تمھارے گھر پر نہیں ہوتی تو___مجھے کبھی اپنی غلطیوں پر پچتاوا نہیں ہوتا ___ ہوسکے تو مجھے معاف کردو ۔۔۔
وہ ہاتھ جوڑے قربان کے اگے کھڑا کہہ رہا تھا___ عُروشہا کو جھٹکا لگا تھا__ پہلی بار اس کا باپ اپنی غلطی تسلیم کر رہا تھا ۔۔شاہدہ بیگم کو حیرانی نہیں ہوٸی تھی کیونکہ وہ اپنے شوہر کی أنکھوں میں پچتاوا صاف دیکھ چکی تھیں__
راشد تم ہاتھ نہیں جوڑو اگر تم واقعی میں اپنے کیٸے پر شرمندہ ہو۔۔۔تو ____تم سب سے زیادہ جس کے قصور وار ہو اس سے جاکر معافی مانگنا کبھی _____
قربان کی أنکھوں میں نمی أ گٸی تھیں
ہاں ____ کہاں ہیں وہ ___میں اس سے بھی معافی مانگتا ہوں ابھی۔۔
راشد أنکھوں کی نمی صاف کرتے پورے حال میں نظر گھما رہا تھا
وہ____ اس سے پہلے کہ قربان زبان سے کچھ ادا کرتا سامنے سے ارحام سلطان ضاور کے ساتھ اندر أتأ دیکھاٸی دیا تھا___وہ سب چونک کے اس سے دیکھ رہے تھے کہ نا جانے اب وہ غصہ میں کیا کرے گا
ارحام ۔۔۔۔ قربان نے اس سے دھیمی لہجے میں پکارا __
ارحام کی أنکھوں میں یکدم راشد کو دیکھ کر أگ جلی تھیں عُروشہا دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ پتا نہیں اب وہ کیا کرے گا __
مٹھیوں کو ضبط سے بند کرتے سپاٹ چہرہ لیے سیڑھیاں عبور کرتے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا
راشد شاہدہ بیگم وہاں سے چلے گیے تھے عُروشہا کو اپنا سانس لینا بھی محال لگ رہا تھا ___
یارم مایا کو اس کے گھر کے گیٹ پہ چھوڑ کر خود کسی کام سے چلا گیا تھا____ اور اس سے شام کو واپس لے جانے کا کہہ کر گیا تھا وہ قدم بڑھاۓ چلتی گیٹ پہ کھڑی ہوکر چاروں اور اپنے گھر کو دیکھ رہی تھیں __
مایا بیٹی ___ چوکیدار نے حیرانی سے کہا اور فوراٗ دروازہ کھول دیا
جی کاکا وہ بس کچھ کام تھا اسلیٸے___
دکھی لہجے میں کہا تھا وہ یہاں اکر بہت دھکی ہوگٸی تھی____ اس کے باپ کی یادیں تھیں
ویسے مایا بیٹی یارم نہیں أیا أج___
چوکیدار کی یارم سے اچھی خاصی جان پہچان بن گٸی تھی ۔۔۔ہاں وہ عمر میں اس سے بڑے تھے___ مگر یارم کا اخلاق ان سے دوستنہ رہا تھا۔___۔اس لیٸے وہ اس کا پوچھا رہا تھا___
کاکا وہ تو چلا گیا ____أپ کو کچھ کام تھا ان سے تو أپ مجھے بتاٸیں
سوالیہ نظروں سے وہ انہیں دیکھ کر پوچھا___
نہیں نہیں مایا بیٹی وہ بس میں تو ایسے ہی پوچھ رہا تھا ___وہ ہر روز یہاں أتا ہے اور یہاں کی دیکھ بھال دیکھ کر چلا جاتا ہے جیسے تم سب کچھ چھوڑ کر چلی گٸی تھی____ اور صاحب جیسا اچھے اخلاق بڑے خلوص والا انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا اللہ پاک ان کی مغفرت فرماٸیں أمین ____
چوکیدار کی أنکھوں میں نمی أ گٸی
أمین کاکا __مایا نے بھی دعا کی باپ کی تعاریف سن کر وہ خوش ہوٸی تھی اور حیران بھی کہ یارم یہاں بھی أتا تھا_____ اس سے تو اس بات کی بنک بھی لگنے نہیں دی تھی____
کاکا مجھے کچھ کام ہے ____مایا نے سنجیدگی سے کہا
جی جی مایا بیٹی ___ مایا اندر کی جانب بڑھ گٸی سیڑھیاں عبور کرتی پہلے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے وہ شاہ زویر کے کمرے میں چلی گٸی ____کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی شاہ زویر اور اس کی فوٹو دیوار پہ لگٸی ہوٸی تھی____ وہ اندر بڑھی کمرے کو چاروں طرف دیکھنے لگٸی تھیں___ یکدم اس کی أنکھوں میں أنسوں أۓ
ڈیڈ أۓ مس یو ویری مس یو ڈیڈ ___أپ اتنی جلدی کیوں مجھے چھوڑ گٸے ___ مام کے جانے کے بعد ایک أپ ہی تو سب کچھ تھے میرا ۔۔۔پھر کیوں ڈیڈ ___
وہ روتی زمین پہ بیٹھ گٸی تھی یہاں اکر اسے باپ کی شدید کمی احساس نے اس سے گیر لیا تھا __
زمین سے اٹھی اور ٹیبل سے شاہ زویر کی فوٹو اٹھا لی
ڈیڈ أپ اتنی جلدی کیوں چلے گٸے___
وہ پھر سے بری طرح بلک بلک رونے لگی تھی_____ کچھ پل یوٸی فوٹو کو سینے سے لگا کر روتی رہی___ تھوڑا من ہلکا ہو جانے کے بعد باہر جانے لگی تھی کہ دل نے چاہا ایک بار الماڑی کھول کے باپ کے کپڑے دیکھ لوں____
الماڑی کھولی شاہ زویر کے کپڑے جیسے تھے ویسے ہی پڑے تھے___ بے جان جیزیں بھلا کہاں جاۓ گٸی یہ تو جان والی شے ہوتی ہے جو چلی جاتی ہے ____
کپڑوں کو یہاں وہاں ہیگرل سے کرتی بے تاب أنکھوں سے دیکھنے لگٸ الماڑی بند کرنے لگی تھی جب اچانک اس کی نظر ایک کاغذ پہ پڑی اس نے وہ اٹھا کر دیکھا ____
یہ کیا ہے____ وہ جاچتی نظروں سے اس کاغذ کو دیکھنے لگٸی اور کھولنے لگٸی اس پر لکھی تحریر کو پڑھنے لگی___
میری پیاری بیٹی مایا ___میں نے تم سے وعدہ کیا تھا ___کہ کبھی تمھاری مام جانی کے بعد تمھیں اکیلا کبھی نہیں چھوڑوں گا ___لیکن میں مجبور ہوں میری جان ___کیا کروں ___میری طبیعت میں کچھ مزا نہیں تھا___ایک دن میں اپنی اس طبیعت سے مجبور ہوکر ڈاکٹر کے پاس گیا ____اور انہوں نے میرا نیسٹ کیا اس میں کینسر کا لاسٹ سٹیج أیا تھا____میں دھک کیا مجھے کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا____میں نے بہت علاج کروایا ___لیکن کوٸی فاٸدہ نہیں ہوا____ڈاکٹر نے کہا کہ میرا بچنا مشکل ہیں____ اور میں کچھ دن کا مہمان ہوں___مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی___ کہ یہ بات میں تمھیں بتا سکتا_____ مجھے پریشانی ہوٸی کہ میرے جانے کے بعد تم اس دنیا کی بھیڑ میں اکیلی رھ جاٶں گٸی___
ایک دن میں نے یارم کو کال کی اس سے یہاں بلایا ۔۔۔۔۔ اور سب کچھ اس کو بتایا __مگر اس نے کہاں کہ أنکل اپ کو کچھ نہیں ہوگا ___ ہم اچھے سے اچھے ڈاکٹر کے پاس جاٸیں گٸے لیکن ___میرے اندر جینے کی طاقت مانو جیسے بیماری نے ختم کر دی تھی___میں نے یارم کو وصیت کی کہ اگر مجھے کچھ ہوجاٸیں تو تم میری بیٹی کا ہاتھ تھام لینا____اس سے کبھی تنہاں نہیں چھوڑنا ____
جیسے جیسے وہ تحریر پڑھتی جا رہی تھی اس کی أنکھوں سے أنسوں برس رہے تھے کاغذ کا اس نے دوسرا صحفہ پلٹا ___
میں اچھے سے جانتا تھا___ میری گڑیا کہ تم یونیورسٹی کے ٹاٸم سے شایان کو پسند کرنے لگی تھی ۔۔۔بہت ۔۔۔میں نے تمھاری أنکھوں میں دیکھی تھیں اس کے لیے محبت۔۔۔۔۔ ایک بار میں نے شایان سے تمھارے بارے میں بات کی تھی ۔۔۔میں جانا چاہتا تھا ۔۔۔کہ جو تم اس کے لیے فیل کرتی ہو ۔۔۔کیا وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ میں نے اس سے گھر بلایا اور تمھارے بارے میں بات کی۔۔۔۔ تو اس نے کہا کہ انکل ہم اچھے دوست ہیں___ کبھی میں نے مایا کو اس نظر سے نہیں دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔یہ سُن کر میرا دل ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔سوچ سمجھ کے تمھاری بات پکی یارم سے کردی ۔۔کیونکہ مجھے تمھارے لیے وہ بہتر ہمسفر نظر أیا ۔۔۔شاید جب تمھیں یہ خط ملے گا تب تک میں اس دنیا سے چلا جا چکا ہوٶں گا
لیکن مایا میری جان پرنسس ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔۔یارم بہت اچھا لڑکا ہیں۔۔اس کے ساتھ تم بہت خوش رہو گٸی ۔۔۔۔۔ اپنے گزریں ہوۓ کل کو بھول جانا۔۔ ۔۔اور اگے یارم کا ہاتھ تھام کر پوری زندگی خوشحالی سے گزرنا۔۔۔ مایا ہو سکے تو اپنے ڈیڈ کو معاف کردینا ۔۔بیچ میں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔۔لیکن مجھے پورا یقین ہے یارم پہ وہ تمھیں بہت خوش رکھے گا ۔۔مایا تمھارا ڈیڈ تم سے بہت محبت کرتا ہے میری پیاری پرنسس أۓ لو یو
تحریر پڑھ کے زمین پہ گرتی چلی گٸی ۔۔۔زارو زارو رونے لگٸی تھی ایک سچاٸی أج اس کے سامنے أٸی تھی ۔۔۔۔رو رو کر جب تھک گٸی تو خاموش___ ہوکر یارم کے ساتھ گزارے لمحے اس کا ہر بات پہ ساتھ کھڑے رہنا یاد أیا
مایا یار أٶ دیر ہو رہی ہے ۔۔۔رات ہونے سے پہلے ہمھیں حویلی لوٹنا بھی ہیں۔۔۔
یارم حال میں کھڑا اس سے چیخ کے بلا رہا تھا ۔۔۔جیسے اس کے کانوں سے یارم کی أواز ٹکراٸی وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی اور ڈوپٹے کو کندھے پہ ڈال کر بھاگی ہوٸی سیڑھیوں سے بھی بھاگتی ہوٸی نیچھے أٸی تھی__اور یکدم دھاڑ سے یارم کے گلے لگی ۔۔۔۔ اچانک اس کے گلے لگنے سے یارم چونکا تھا ____یارم کی قمیص کو مایا نے مٹھیوں میں جکڑا تھا زور سے وہ پھوٹ پھوٹ کے اس کے گلے لگ کے روٸی ۔۔۔یارم نے اس سے رونے دیا اس کو لگا شاید وہ اپنے باپ کو یاد کر رہی ہے
ششششششش مایا بس بس بہت رو لیا ۔۔۔ یار کیا اب میری پوری قمیص کو بھیگونا ہیں أنسوٶں سے___
وہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اسلیٸے یارم نے ایک نیاں طریقہ أزمایا تھا___ وہ یکدم اس کے گلے سے الگ ہوٸی تھی اور گھور دار نظروں سے اس سے گھورا تھا____ ہاتھ کا مکہ بنا کر اس کے پیٹ پہ دے مارا
ہہہہہ ہوں__ظلم بیوی____ یارم نے باسخت کہا تو مایا نے أنکھوں سے فوراً أنسوں صاف کرتی قہقہ لگا کر ہنسی کیونکہ یارم منہ پھولاۓ پیٹ کو مسل رہا تھا