ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 19

پھولی سانسیں با مشکل سمبھالتی خود کو حوصلا دیتی سیڑھیوں کو عبور کرکے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی
جیسے ہی وہ کمرے کے دروازے پہ پہنچھی اس کو ایک زور کا جھٹکا لگا تھا
بُوا یہ سب سامان میرے کمرے میں سیٹ کروا دیجٸے گا ابھی
عُروشہا کے الماڑی سے کپڑے نکال بُوا بیڈ پہ رکھ رہی تھی۔۔۔ان کی سر پہ ارحام کھڑا انہیں تاکید کر رہا تھا
عُروشہا کی نظر اچانک ارحام سے ٹکراٸی وہ اسے سرد نگاہوں سے گھور رہا تھا
بُوا اس کا سب سامان وہاں سے لیکے ارحام کے کمرے کی جانب بڑھ گٸی تھی
یہ أپ نے کیا ۔۔۔۔۔کیا اور کیوں میرا سامان أپ میرے کمرے سے لیں جا رہے ہیں
خود میں بھڑی ہمت جتاۓ بے یقینی سے اس سے دیکھ کہا تھا
ارحام ایک ایک قدم مغرونہ چال چلتے روبرو اس کے سامنے کھڑا سپاٹ لہجے میں گھور رہا تھا
مس عُروشہا ارحام سلطان شاید أپ بھول رہی ہیں ۔۔تو میں أپ کو زرا یاد دلا دو __ کہ أپ میرڈ ہیں ___ اور میرڈ لڑکیوں کا ویہی کمرا ہوتا ہے جو اس کے شوہر کا ہوتا ہے __ انڈر سٹینڈ
دانتوں پہ زور دیتے چبا چبا کر کہا
پر مجھے دادا جی نے یہ کمرا دیا تھا ۔۔۔۔مجھے أپ یہاں سے نہیں نکال سکتے ورنہ میں جاکر دادا جی کو بتا دو گٸی
اس کی دھمکی عمیزہ پہ ارحام سلطان کی أنکھوں میں خون اتر أیا
کھینچ کے اس سے زور سے دیوار سے لگایا ڈر کے مارے وہ أنکھیں بند کر گٸی دونوں بازٶں کا اس کے ارد گرد حصار بنایا
تمھاری ہمت کیسے ہوٸی مجھے دھمکی دینے کی ۔۔۔ کیا سمجھتی ہو تم خود کو دادا جی نے کیا پیار سے بات کیا کر لی تم سے ۔۔۔۔۔تو تم أسمان پر اوڑھنے لگی ہو۔۔
اس کے کان کے قریب دھاڑا سے غرایا تھا
یکدم اس کی جھیل سی أنکھوں میں أنسوں أۓ
دوبارہ تم نے مجھے غلطی سے بھی دھمکی دی ۔۔۔تو اپنے حشر کی زمیدار تم خود ہوگٸی ۔۔۔لاسٹ وارنگ دیں رہا ہوں
یکدم اس سے پیچھے ہوا ایک سرد نظر اس سہمی سی أنکھیں بند کیے لڑکی کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا
کچھ پل وہ یوٸی خاموش کھڑی تھی جب کسی کے ہونے کا احساس نہیں ہوا تو اپنی أنکھیں کھولی جن میں أنسوٶں کا پانی جما ہوا تھا
وہ یکدم اس کے رخسار پہ بہنے لگا
میں کہاں ہوں سسہہہ
اس سے جیسے ہوش أیا سر پہ ہاتھ رکھا تھا جہاں اس کے سر پہ پٹی باندھے ہوٸی تھیں درد کی شدد سے وہ تڑپ اٹھا تھا
کوشش کرتے أنکھیں کھولی نظر ہر طرف گھماٸی تھی کچھ یاد أنے پر حیران ہوا
میرا تو ایکسینڈنٹ ہوا تھا پھر میں یہاں کیسے أیا
وہ خود سے ہمکلامی ہوا
جب دروازہ کھول کر نرس اندر أٸی اس کو لگی ڈرپ چیک کرنے لگٸی
نرس مجھے یہاں کون لایا ہے
وہ سمجھ گیا کہ کوٸی تو اس کو ھوسپیٹل لیکر أیا ہے پر کون اس سے تجسس ہوٸی
وہ أپ کو۔۔۔۔ نرس اس سےدیکھ کے بتا ہی رہی تھی کہ دروازہ کھولنے کی أواز پر دونوں نے اس طرف دیکھا
چوبیٸیس سال کی لڑکی چلتی ان کے پاس أ رہی تھی اور اس کے چہرے پہ دھیمی سی مسکان تھی بالوں کو پونی سے قید کیا ہوا تھا یلو رنگ کی شرٹ جو کہ اس کے گھٹنوں سے تھوڑی اوپر تک پجامہ بھی ہم رنگ کا تھا ڈاکٹر کا سفید رنگ کا کوٹ پہنا تھا کندھے کی ایک ساٸڈ پہ ڈوپٹہ جھول رہا تھا دودھیا سفید رنگت گلابی ہونٹ أنکھوں میں ایک کشش تھیں اس کی أنکھیں نارمل تھیں مگر ان میں چمک عجیب تھیں
اب أپ کیسا فیل کر رہے ہیں ۔۔ أے ھوپ أپ بہتر فیل کر رہے ہوگٸے
مسکرا کر شایان کو مخاطب کیا
مجھے یہاں کون لایا ہے۔۔۔۔۔ بس اسے تو یہ جانے کی پڑھی تھی کہ کون اس کو موت سے بجا کر ایک نٸی زندگی کی جانب لے أیا ہے
جی میں أپ کو ھوسپیٹل لیں أٸی ہوں میرا نام تانیہ صدیقی ہے ۔۔۔ دراصل رات کے وقت میں ہاٸوے سے گزر رہی تھی تو أپ کی گاڑی کا بُرا ایکسینڈنٹ ہوتے دیکھا تھا اور میں ایک ڈاکٹر ہوں میری زمیداری لوگوں کی زندگی کو بجانا ہیں ۔۔ میں گاڑی سے نکل کر أپ کے پاس أٸی اور فوراً أپ کی نس چیک کی أپ زندہ تھے اور فوراً طور پہ میں أپ کو یہاں لیں أٸی
اس نے پوری نفصیل بتاٸی شایان کو
أپ اٹھیں نہیں ابھی أپ کے زخم تازہ ہیں۔۔۔۔۔ أپ کے سر پر بُری طرح سے چوٹ لگی ہے ۔۔۔۔۔۔اور أپ کا خون بھی بہت بہہ گیا ہے۔۔۔۔۔ اسلیۓ أپ کا جلدی ہمھیں اپریشن کرنا پڑا ۔۔۔۔ ویسے أپ نے جان بوجھ کر اپنی گاڑی ٹرک میں ماری ۔۔ ۔۔۔وجہ پوچھ سکتی ہوں ۔۔ایسا کیوں کیا أپ نے
ہاتھ سے ڈرپ نکال کر وہ أٹھ رہا تھا جب ڈاکٹر نے اس کو اٹھتا دیکھ کر کہا
دیکھیں مس تانیہ صدقی میں أپ کو جواب دہ نہیں ہوں۔۔۔ کہ میں نے کیوں اپنا ایکسینڈنٹ کیا ۔۔اور رہی بات ۔۔أپ نے میری زندگی بجاٸی ہے ۔۔بٹ میں پھر بھی أپ کو Thank You نہیں بولوں گا
اس کا ایکٹٹیوڈ دیکھ تانیہ چونک کر اسے دیکھنے لگٸی
میں أپ سے تمیز سے بات کر رہی ہوں۔۔۔۔ ۔۔اور ایک أپ ہیں۔۔۔۔۔جو پتا نہیں خود کو کیا سمجھ رہے ہیں
جھنجھلا کر بولی
اوکے میری ماں ۔۔۔ مہربانی أپ کی بس اب ہٹو میرے راستے سے
سرد لہجے میں بولا تھا اس کو تو اپنے سامنے کھڑی لڑکی پہ غصہ أ رہا تھا کہ کیوں اس نے جان بچاٸی
عجیب پاگل انسان ہے
تانیہ زیر لب بڑبڑا کے کہا اور سامنے اس کی کارواٸی کو دیکھ رہی تھیں جو اب سب ڈرپز کو نکال چکا تھا بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا
قدم أگے بڑھایا ہی تھا کہ اس کو چکر أنے لگا تانیہ نے نرس کو اشارہ کیا پھر دونوں نے اس سے سہارا دے کر بیڈ پہ بیٹھایا
دیکھیں أپ کا جو بھی نام ہے ۔۔۔ چار دن سے أپ بیھوش تھے أپ کو بہت زیادہ کمزوری ہوگٸی ہیں ۔۔۔ چپ کر کے أرام کریں
شایان کو جھٹکا لگا کہ وہ چار دن سے بیھوش تھا لیکن سامنے کھڑی لڑکی کی بات کو نظر اندازہ کرکے پھر سے اٹھنے لگا تھا کہ اس بار تانیہ نے اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوکر اس کا فرار ہونے کا راستہ تر کر دیا
مجھے جانے دیں میرے گھر والی پریشان ہو رہے ہوگٸے
شایان نے تحمل سے کہا
او اچھا ۔۔مگر مجھے ایسا کیوں لک رہا ہے کہ اگر أپ کو واقعی اپنی فیملی کی اتنی ہی زیادہ پریشانی ہوتی تو یہ قدم أپ ہرگز نہیں اٹھاتے
اس کا بات کرنے کا لہجہ سہی تھا مگر ناجانے شایان کو مزاق اوڑھانے والا اندازہ لگا تھا
أپ ہوتی کون ہیں میرے راستے کو روکنے والی
شایان چلایا تھا
بھیو یو ور سیلف مسٹر
یہ ھوسپیٹل ہے أپ کا گھر نہیں جو أپ اس طرح چلا رہے ہیں ۔۔
تانیہ کی برداش اب جواب دے گٸی تھی اخر مقابل کی جُرات پر جُرات دیکھ وہ بھی پوری تپ گٸی تھی
ہاں تو أپ ہٹیں میرے راستے سے پھر میں بھی بھیو سیلف میں رہوں گا خود أپ مجھے اس طرح ری ایکٹ کرنے پر مجبور کر رہی ہیں
وہ اس سے گھورو سے نوازتا دانت پیستے کہنے لگا
او ریٸلی بٹ سوری مسٹر ہمھارے ھوسپیٹل کا رول ہے کہ کسی بھی پیشنٹ کو تب تک ڈسچارج نہیں کر سکتے جب تک وہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتا اور ایک أپ ہیں جو زبردستی کیے جا رہے ہیں
وہ بھی اسے گھورتے ہوۓ بولی تھی شایان کو وہ بہت زہر لگ رہی تھی اس کا دل کر رہا تھا یا وہ خود کا سر دیوار پہ مارے یا پھر سامنے کھڑی لڑکی کا
وہ اس سے اگنور کرتا اٹھ کھڑا ہوا پھر سے قدم دروازے کی جانب بڑھاۓ تھے
روکیے اگر أپ جانا چاہتے ہیں تو أپ مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتاٸیں میں أپ کو چھوڑ أٶ گٸی
تانیہ کو اپنی پریشانی بھی لاحق تھی کیونکہ اگر وہ اس حال میں چلا جاتا اور اس کا دو بارہ ایکسینڈنٹ ہوتا تو وہ پھس جاتی کیونکہ وہ ایک ڈاکٹر تھی اور رول کے مطابق شایان اس کا پیشنٹ تھا
اس کی جاب کو بھی خطرہ ہو سکتا تھا
شایان نے سامنے کھڑی ڈھیٹ ڈاکٹر کو طیش نظروں سے گھورا
اس مہربانی کی ضرورت نہیں ہے میں خود جا سکتا ہوں میرے ہاتھ پاٶں ابھی تک سلامت ہیں
وہ بھی مانے کو تیار نہیں ہو رہا تھا
اس بندہ کو ھوسپیٹل نہیں بلکہ پاگل کھانے لیں جانا چاہیے تھا مجھے تاکہ اس کی سہی سے عقل ٹھکانے پر أ جاتی
وہ شایان کو غصہ سے دیکھ کر من میں بڑبڑاٸی تھی
دیکھیں میری جاب کا بھی سوال ہیں اگر أپ اس طرح اس کیڈیشن میں جاٸیں گے تو میرے لیے کل کو کوٸی مسٸلہ ہو سکتے ہے أپ سمجھنے کی کوشش کریں
تانیہ نے اب کی بار بہت مشکل سے اپنا لہجہ نارمل رکھا تھا
تو وہ أپ کا مسٸلہ ہے مس تانیہ میرا نہیں
وہ لاپرواھی سے کہتا اگے دروازے کی جانب بڑھا
ٹھیک ہے پھر میں پولیس میں أپ کی اف أۓ أر درج کرواتی ہوں ۔۔۔۔کہ أپ نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے پھر انہیں أپ ہینڈل کریں گا
تانیہ دھمکی دیتی کوٹ سے موباٸل نکال نمبر ڈایل کرنے لگٸی تھی کہ اچانک شایان نے اس سے موباٸل لے لیا
اس کو ڈر تھا کہ اگر وہ پولیس جاۓ گا تو یہ بات حویلی والوں کو معلوم ہو جاۓ گٸی پھر ان کے سوالوں کے جواب اس کے پاس موجود نہیں تھے
اوکے فاٸن چلیں میں أیڈریس بتا دیتا ہوں
مجبورن اس سے ہاں کرنی پڑی اخر اور کر بھی کیا سکتا تھا تانیہ کے لب مسکراۓ تھے اخر وہ اس بحث میں جیت گٸی تھی
جی چلیں
تانیہ ڈراٸیونگ سیٹ سمبھالی شایان پیچھے بیٹھنے لگا تھا کہ تانیہ کی أواز پر رکا
میں أپ کی ڈراٸیور نہیں ہوں جو أپ پیچھے بیٹھ رہے ہیں أپ کی مہربانی ہوگٸی کہ اگر أپ اگے أکر بیٹھیں گٸے تو
تانیہ نے غصیلی أواز میں کہا تو شایان کا دل کیا تھا کہ اس کو چلتی گاڑی سے دھکا دے دو گا
زور سے گاڑی کا پچھلا دروازہ بند کیا تھا تانیہ کا اسے کے درعمل پر منہ کھولا رھ گیا
پھر وہ اگے لڑکھڑاتا بیٹھ گیا تھا تانیہ نے گاڑی سٹارٹ کی وہ اس سے ایڈریس پوچھ رہی تھی بار بار وہ بد مزاج ہوتا ایڈریس بتا رہا تھا
تین گھنٹے کے بعد ان کی گاڑی حویلی پہنچھی شایان گاڑی سے اتر کر اندر جا رہا تھا جب تانیہ کو پلٹ کر مخاطب کیا
اب جب یہاں تک أ ہی گٸی ہو تو اندر تک بھی چھوڑ دو
اس سے جتاتے لہجے میں بولا تھا وہ اندر نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔لیکن اس سے ہمیشہ ایسی حویلی اور گاٶں کا ماحول دیکھنے کا بہت شوق تھا سو اس نے کوٸی بحث کیے بغیر ہاں میں سر ہلا کر اس کے ساتھ ہم قدمی چل رہی تھی
اچانک شایان کے سر میں درد محسوس ہوا تھا ایک بازٶں سے اس کو گرنے سے تھام لیا ان دونوں کے بیچ میں تانیہ نے فاصلا قاٸم رکھا تھا
دھیرے سے اندر لے أٸی تھی صحن میں نظر گھماٸی اس کو کوٸی نظر نہیں أیا پھر دھیرے سے جاکر ارام سے شایان کو کرسی پہ بیٹھایا
خواتین کی أواز کچن سے أرہی تھیں شاید وہ کام میں لگٸی ہوٸی تھیں
شایان تم کیسے ہو اور یہ سب کیسے ہوا
یارم مایا مسکراتے سیڑھیوں سے اتر رہے تھے جب ان کی نظر شایان پہ پڑی دوڑ کر اس کے پاس أٸیں تھے اور أتے ہی یارم نے اس کا پریشانی سے حال پوچھا
اس کے پورے جسم پہ زخموں کے نشان تھے سر پہ پٹی باندھی ہوٸی تھیں
یار ٹھیک ہوں میں پانی کا گلاس لادو
وہ بات کر یارم سے رہا تھا مگر کہہ مایا کو رہا تھا مایا فوراً کچن کی جانب گٸی
چچی جان باہر شایان ۔۔۔ وہ بس اتنا کہتی پانی کا گلاس جلدی میں اٹھاکر باہر أٸی اور یارم کو دیا کہ وہ شایان کو دیں
شایان کو مایا کے درعمل پر پہلی بار حیریت ہوٸی کہ وہ خود بھی تو گلاس دے سکتی تھی یارم کو دینے کی کیا ضرورت تھی
یارم نے شایان کے اگے گلاس کیا گلاس تھام لیا اور پانی کو حلق میں اتارنے لگا
شایان یہ سب کیا ہوا ہے میرے بیٹے کتنی چوٹٸیں أٸی ہیں
ممتاز بیگم اس کا پورا جاٸزہ لیتی بولی تھی أنسوں بہانے لگی
شایان کی حالت دیکھ کر سب پریشان تھے
امی کچھ نہیں ہوا وہ بس
چپ کرتے گردن موڑ کے سب سے الگ کھڑی تانیہ کو دیکھا
کیا بولو یہ سب کیسے ہوا
یارم نے کہا
۔
گاڑی سلپ ہوگٸی تھی اس وجہ سے چوٹٸیں أٸی ہیں لیکن پہلے سے ٹھیک ہوں
سنجیدگی سے کہا
اسلیٸے چار دن سے تمھارا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا
یارم نے مزید پوچھا اس نے سر ہاں میں ہلایا اچانک مایا کی نظر تانیہ پہ گٸی تھیں سب کو شایان کی فکر کرتا دیکھ رہی تھی مایا اس کے پاس گٸی
ڈاکٹر تانیہ ایم راٸٹ ۔۔۔مایا نے اس دیکھ کہا وہ چونکی کہ اس کو کیسے پتا کیونکہ وہ اس سے نہیں جانتی تھی
جی لیکن أپ کو کیسے پتا ۔۔۔حیران ہوتے پوچھا
جی وہ یہاں سے۔۔۔ مایا نے اس کے پہنے کوٹ کے اوپر بلیک پہٹی کی طرف اشارہ کیا تھا تو وہ سمجھ گٸی اور مسکرا کر سر ہاں میں ہلایا
سب ہی اس کی جانب اب متوجہ ہوۓ تھے
شایان یہ لڑکی کون ہے
ممتاز بیگم نے حیران کن اندازہ میں اس سے دیکھ پوچھا
امی یہ تانیہ ڈاکٹر ہے انہوں نے میرا علاج کیا ہے مجھے کمرے میں یارم چھوڑ کے أٶں گٸے
ہاں چلو۔۔۔ یارم دھیرے سے اس کے بازٶں پہ ہاتھ رکھ کے اس کے کمرے کی طرف چل دیا
بیٹا أپ کا بہت بہت شکریہ جتنا میں شکریہ ادا کروں کم ہے میرے بیٹے کو ایک نٸی زندگی دی ہیں أپ نے
ممتا بیگم نم أنکھوں سے تانیہ کو دیکھ کر بولی
نہیں نہیں أنٹی اس میں شکریہ والی بات نہیں ہے یہ تو میرا فرض تھا اور زندگی موت اللہ پاک کے ہاتھ میں ہیں ہم انسانوں کے ہاتھ میں نہیں میں تو بس ایک وصیلا تھی
تانیہ مسکراتے شاہدہ بیگم مایا ممتاز کو دیکھ کر کہا تھا
ہاں بیٹا یہ تو ہے لیکن پھر بھی أپ شایان بیٹے کو گھر تک چھوڑ نے أٸی ہیں ۔۔أج کے دور میں ایسا رحم و دل ڈاکٹر کم ہی ملتے ہیں
شاہدہ بیگم نے کہا
أنٹی اللہ حافظ اب میں چلتی ہوں ۔۔مجھے دیر ہورہی ہے۔۔۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔سب نے اس کی مصروفیات سمجھ کر کسی نے اس کو روکنا مناسب نہیں سمجھا
اللہ حافظ بیٹا
سب نے کہا تو وہ مسکراتی وہاں سے چلی گٸی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial