ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 2

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سخت منع ہے۔
رکو یارم
جیسے یارم عُروشہا کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہا پیچھے سے ولید بخش چوہدری کی گرجدار أواز پر وہ دونو رکیں
تم دوسری گاڑی میں آ جاٶ عُروشہا اس گاڑی میں میرے ساتھ چلے گٸ
لیکن دادا جان وہ
یارم کچھ کہتا اس سے پہلے ولید بخش چوہدری نے گھورا اس کے الفاظ وہی رکے
ولید بخش چوہدری عُروشہا کے ہاتھ زور سے پکڑ لیا اور گاڑی کے اندر دھکا دیا حملا اتنا اچانک ہوا کہ سیٹ سے اسکا سر ٹکرایا اسے سر میں درد کی لہر اٹھی پر اس کے درد کی پرواھ ولید بخش چوہدری کو کہاں تھی
وہ اپنے ہی خون سے اتنی نفرت کرتا تھا کہ اگر اس کو کچھ ہوجاتا تو بھی شکرانے کی نفل ادا کرتا
حویلی کے مین گیٹ کے اندر ان سب کی گاڑیاں رُکی ولید بخش چوہدری نے عُروشہا کو گھسیٹتے اس کی چادر کھینچنے کی وجہ سے وہی زمین بوس ہوٸی تھی جانورو کی طرح کیچھتے أگن میں پھینکا
وہ اتنی زور سے گری کہ اس کے منہ سے با سخت چیخ نکلی جو پوری حویلی میں گونجی سب ہی افراد کمروں سے اور نوکر سب کام چھوڑ کر شور کی أواز سن کر باھر أگٸیں
شاہدہ بیگم کی أنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گٸی تھیں وہ بھاگ کر عُروشہا کے پاس زمین پر بیٹھ گٸی
عُروشہا کیا ہوا میری جان میری طرف دیکھوں ہوا کیا ہے کوٸی کچھ بولیں گا یا مجھے کچھ بتاٸیں گا
عُروشہا کے زور دار زمین پر گرنے کی وجہ سے ایک ہونٹ فٹ گیا جس کا نتیجا یہ تھا کہ فٹے ہونٹ سے خون بھنے لگا تھا
شاہدہ اپنی اونچی أواز نیچھی رکو ورنہ ایسا نا ہو بیٹی کے ساتھ ساتھ تمھیں بھی ابا جان سے سزا ملے گاٶں کے لوگ ہو یا پھر حویلی کے جو غلطی کرتا ہے وہ سزا کا حقدار ہوتا ہے تمھاری لاڈلی کو ہر وقت بھوت سوار رہتا ہیں نا أج ابا جان اسے کا یہ سارا بھوت اتاریں گٸے
راشد بخش چوہدری نے اپنی بیگم کو عُروشہا کے پاس سے کھینچ کے دور کیا
راشد میری بیٹی اس کا مطلب عُروشہا أپکا خون نہیں ہے وہ أپکی کچھ نہیں لگتی ایسا سلوک تو کوٸی غیروں کے ساتھ بھی نہیں کرتا جس طرح میری بیٹی کے ساتھ أپ لوگ کرتے ہیں وہ بھی باپ کے زندہ ہوتے ہوۓ
شاہدہ بیگم صدمے سے دو چور لہجے میں دھاڑی
راشد چوہدری بیوی پہ ہاتھ اٹھانے والا تھا جو کہ شایان نے اگے بڑھ کر فورا ہوا میں راشد چوہدری کا ہاتھ روک دیا
چچا جان أپ کیسے چچی جان پر ہاتھ اٹھا سکتے ہیں
حیریت سے راشد کی جانب دیکھ گویا
ابھی شایان بخش چوہدری کے أگٸے بڑھ کر عُروشہا کو بھی سہارا دینے والا ہی تھا کہ ولید بخش چوہدری نے لال أنکھیں لیے اس کے راستہ میں دیوار بن کھڑا ہوگیا
أگرکسی کو اپنی جان پیاری نہیں ہے تو وہ اس لڑکی کی شوق سے مدد کر سکتا ہیں
لیکن جو اس کی مدد نہیں کریں گا وہی محفوظ رہے گا کتنی بار منع کیا کہ میرے معملے سے دور رہو مگر نہیں اس کی تو عادت ہوگٸی ہیں نا میرے ہر کام میں ٹانک اڑانے کی کاش اس کا بھی وہی انجام کرتا جو باقی حویلی کی بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا زندہ ہی دفنا دیا ہوتا تو أج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا وہ تو شکر ہے کیسی نے پنجاٸیت میں اسے دیکھا نہیں۔۔۔۔۔۔
ولید بخش چوہدری زور سے دھاڑے کہ زندہ انسان تو خیر حویلی کی دیواریں تک ہل گٸی تھیں عُروشہا کا منہ دبوچتے پھر سے زمین پر دھکا دے کے گرایا اس پیاری نازک سی لڑکی کی أنکھوں میں یکدم أنسوں أگٸے تھے
آخر کیوں أپ میرے ساتھ اتنی نفرت کرتے ہیں کیا میں اپکا خون نہیں ہوں یا پھر اس حویلی کی بیٹی نہیں جو میرے ساتھ جانوروں سے بھی بہتر سلوک أپ کرتے ہیں
او اب سمجھی ۔۔اسلیۓ أپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔۔۔ہیں نا کیونکہ میں أپ کے ہوتے ہوٸے مظلوموں پر أواز اٹھاتی ہوں
أیک بات کہوں دادا جی بچپن میں أپ نے میری زندگی خیرات میں نہیں بخشی تھی أپ مجھے کیسے مار پاتے جب تک میرا رب نہیں چاہتا اور میرا رب یہی چاہتا ہے
اسلیۓ تو میں أج تک زندہ ہوں أپ نے کتنے جتن کیٸے مجھے مارنے کے پھر بھی مار نہیں پاۓ
دیکھوں پھر بھی میں أپ کے سامنے سہی سلامت کھڑی ہوں میرا رب بھی یہی چاہتا ہے کہ میں أپ کے ہوتے ہوٸے ظلموں پر أواز اٹھاٶں اسلیۓ بچپن سے لیکر اب تک زندہ ہوں
با مشکل لڑکھڑاتی پاٶں میں کھڑی ہوٸی ایک ایک الفاظ چبا چبا کر کہا
اس کی اتنی ہمت پر حویلی کے لوگوں کے تو منہ کھولیں کہ کھولے رھ گٸے تھے شاہدہ بیگم تو سر پیٹتی رہی اپنی بے وقوف اولاد پر جو کہ ولید بخش چوہدری کیسا تھا وہ کسی پر رحم نا کرنے والا انسان تھا اس شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال لیا تھا
چٹاخ۔۔۔
ایک زور دار تھپڑ اس کےمنہ پر رسید ہوا تھپڑ اتنا زور سے اس کے گال پر پڑا وہ خود کو سمبھال نہیں سکی بے دھڑک سے جاکر زمین پہ اوندھے منہ گری
راشد أپ جوان بیٹی پر کیسے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں ہاں مانتی ہوں اس نے پنجاٸیت میں جانے کی غلطی کی ہے پر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ أپ اس کو مارۓ
راشد بخش چوہدری کے أگۓ کھڑی دھاڑی شاہدہ بیگم
بابا أپ سے ایسی ہی امید کی جاسکتی ہیں
یارم بھی باپ کے روبرو کھڑا ہوا زخمی شیر کی طرح دھاڑا
بس بہت کر لی سب نے اپنی منمانی زیبی زیبی کہاں مر گٸی ہو
ولید بخش چوہدری گرجدار لہجے میں پکارنے لگیے گھر کی نوکرانی کو
ج ج جی بڑے سردار ۔۔۔ گردن نیچھی احترام سے کھڑی تھی
أج سے بلکہ ابھی سے لیکر اس کا کالیج جانا بند اور تین دن تک اسٹور روم میں اس کا کھانا پینے بھی بند اس کی سزا یہ ہے کسی کو زیادہ ہمدردی کا بھوت سوار ہیں تو ابھی بتا دو اس کے لیۓ
اس سے بھی بڑھ کر میرے پاس سزا ہے اور ہاں اس بار اگر بینا سزا پوری کیۓ وہاں سے باھر نکلی تو حویلی کے سارے نوکروں کی میں خود قبر کُدواٶں گا اور زندہ ان سب کے سب کو زمین میں گاڑ دوگا
ولید بخش چوہدری اپنا فیصلا سُنا کر اپنے کمرے کی طرف رُخ کیا ہی تھا کہ یارم کی أواز پر رُکا
دادا جان مانتا ہوں عُرو سے غلطی ہوٸی ہیں لیکن غلطی اتنی بھی بڑی نہیں کہ اس کو معاف کیا نہیں جاسکتا ایسی سزا کی حقدار میری بہن نہیں ہے جو أپ اسے دۓ رہے ہیں
یارم بہت تحمل سے ولید بخش چوہدری سے کہا
جی دادا جان میں یارم کی بات سے اتفاق رکھتا ہوں تین دن سے لگاتار بھوکی پیاسی رہی تو وہ مر جاٸے گٸی عُروشہا دوبارہ ایسا کچھ نہیں کریں گٸی ایک بار معاف کرد دۓ
شایان بھی اس کی حمایت کرنے لگا دونوں پوتوں کو عُروشہا کی حمایت کرتے دیکھ کے ولید بخش چوہدری نے طیش سے مٹھیاں بیچ لی
اب تم دونوں اتنے بڑے ہوگٸے ہو کہ میرے فیصلے کے خلاف جاٶں گے
ولید بخش چوہدری دونوں کی طرف دیکھ دھاڑے وہ کیسے دیکھ سکتا تھا اپنے پوتوں کو اپنے فیصلے کے خلاف جاتا
نہیں دادا جان ہم کبھی أپ کے فیصلے کے خلاف نہیں جا رہے ہیں ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ أپ عُروشہا کو ایک موقع دیں پلیززز دادا جان
شایان ولید بخش چوہدری کا ہاتھ تھام اطمینان سے بولا
اس کا ہاتھ یکدم جھٹک دیا
میں اپنا فیصلا نہیں بدلوں گا چاہے اس کی جان ہی کیوں نا چلی جاٸیں اور جس کو جو بھی کرنا ہے بڑے شوق سے کریں لیکن ایک بار میرے ادا کیے جملوں کو زرا یاد کر لینا
ولید بخش چوہدری کمرے میں چلا گیا تھا عُروشہا اپنے باپ کو زخمی مسکراہٹ لیے دیکھ رہی تھیں
عُروشہا بی بی
نوکرانی سہارا دیتے اسے زمین سے کھڑا کیا تھا اس کا رُخ اسٹور روم کی جانب تھا اچانک کچھ یاد أنے پر زیبی سے ہاتھ چھوڑوایا اور باپ کے سامنے أ کھڑی ہوٸی تھی
بس اتنا کہوں گٸی أپ سے کہ أپ جیسے باپ کو زندہ رہنے کا کوٸی حق نہیں ہے اولاد کے حق میں جو باپ بول نہیں سکتا اس باپ کو مر جانا چاہیے
أج مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کاش میں یتیم ہوتی کم سے کم یہ دکھ تو میرے کلیجے کو چھلی نہیں کرتا کہ باپ کے ہوتے ہوٸے بھی میرے ساتھ یتیموں سے بھی بُرا حشر کرتے ہیں حویلی کے رہنے والے عزیم لوگ
دکھ سے پرپور طنزیہ لہجے میں کہتی ہاتھوں سے بے دردی أنکھوں سے أنسوں رگڑتی زیبی کو چلنے کا اشارہ کیا وہ ہمت والی نازک سی لڑکی کو اندر سے بس ایک دکھ کھاٸے جاتا تھا کہ اس کا باپ ایک بار بھی اس کے لیے نہیں بولا
عُروشہا کی باتیں وہاں کھڑے چند لوگوں کو چُبی تھی
ق
شاہدہ بیگم اس وقت خود کو بے بسی کی حد تک بے بس محسوس کر رہی تھی ماں ہوکر بھی وہ بیٹی کے لیے لڑ نہیں سکی
شایان غصہ میں کمرے میں چلا گیا تھا اور یارم کا بھی حال ایسا ہی تھا وہ بھی کمرے میں بند ہوگیا راشد چوہدری کی أنکھوں میں زرا بھی شرمندگی نہیں تھی اس کی بیٹی کے ساتھ ستم کیے جارہے تھے مگر مجال ہے جو چہرے پر کچھ فرق پڑا ہو
ممتاز بیگم شاہدہ بیگم کے پاس أٸی تھی وہ جو أنسوں بہا رہی تھی
خود کو میں اکثر بد نصیب ماں سمجھتی تھی کہ میں اپنی کومل کو بچا نہیں سکی خود کو ہر وقت کوستی رہتی تھی لیکن شاہدہ ایک بات بولوں مجھ سے زیادہ بدنصیب ماں تم ہو شکر ہیں میری کومل کو سکون کی موت تو نصیب سے ملی مگر تمھاری عُروشہا دیکھو زندہ ہوکر بھی روز پل پل مرتی ہے
ممتاز بیگم شاہدہ بیگم کو تسلی دینے کے بجاۓ جلے پرنمک چڑک رہی تھی
ممتاز حوصلہ نہیں دیں سکتی تو کم سے کم زہریلی باتیں نہیں کرو جاٶں یہاں سے
شاہدہ بیگم بھیگی أنکھوں سے ممتاز بیگم کودیکھ کر دکھ میں بولی ۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر پیر پٹختی کمرے میں چلی گٸی تھی شاہدہ بیگم اسٹور روم کی جانب گٸی مگر کسی نوکر نے انہیں عُروشہا سے ملنے نہیں دیا اسٹور روم کے دروازے پر دو چوکیدار کھڑے کیے تھے ولید بخش چوہدری نے جیسے کہ وہ ان کی پوتی نہیں غیر ہو اتنی سخت سزا دی گٸی تھی جب کہ وہ بے قصور تھی
رات کے وقت اسٹور روم کی لاٸٹ أون کی مگر وہ خراب تھی ایک توصبح سے لیکے شام ہونے کو تھی ایک بھی نوالا حلق میں اس نے نہیں اُتارا تھا
بھوکا تو جیسے تیسے انسان رھ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر نہیں اب پانی کی پیاس اسکا بُرا حال کر رہی تھی کھڑکی سے چاند کی روشنی اندر عبور کر رہی تھی دیوار سے ٹیک لگاۓ سسکیاں لے رہی تھی دودھیا سفید رنگ پورا چہرہ أنسوٶں سے بہگا ہوا تھا چھوٹی سی ناک شدید رونے کی صورت میں لال ہو رہی تھیں گلابی ہونٹ فٹے ہوۓ تھے کالے سلکی بال جو کمر سے تھوڑا نیچھے تک أتے جھیل سی سنہری أنکھیں جن میں کاجل لگایا ہوا تھا وہ کاجل رونے کی وجہ سے پورے چہرے کے ہر طرف پھیل گیا تھا شاید اپنی قسمت کو کوس رہی تھی وہ اتنی پیاری تھی اللہ پاک نے اس سے حُسن برکر دیا تھا
وہ معصوم سی لڑکی کا حال بے حال تھا صبح سے اسٹور روم میں بند تھی
اس کو تکلیف ولید بخش چوہدری کے رویہ سے نہیں ملی بلکہ اپنے سگے باپ کے لہجے سے ملی تھی جب اس کی ماں ڈال بن کھڑی تھی
اس کے باپ نے وہ ڈال بھی توڑی تھی شاہدہ بیگم کو دور کردیا اس خوف سے کہ کہیں ولید بخش چوہدری بیوی کی غلطی کی وجہ سے غصہ میں أکر پروپرٹی سے حاک نا کردۓ
عُروشہا کمزور لڑکیوں میں سے نہیں تھی ہاں وہ تھی تو ایک معصوم لڑکی مگر اپنے حق اور گاٶں پہ ہوتے ظلموں پر أواز أٹھانا اچھے سے جانتی تھی
اس بات کا دکھ اس کو اندر ہی اندر ختم کرتا تھا کہ اس کا سگا باپ پیسوں کے لیے ولید بخش چوہدری جو کہ اس کا دادا تھا اس کے لیے بچپن سے لیکر کبھی ایک بار بھی اس کی ساٸیڈ نہیں لی
وہ کمرا بڑا عالیشان تھا کمرے کی بیڈ شیٹ سے لیکے ڈریسنگ ٹیبل تک ہر چیز لال رنگ کی تھی ایسا لگتا تھا کہ کمرے کےمالک کو لال رنگ بہت شدید پسند ہو جیسے عشق کا بھی رنگ لال ہوتا ہے اور بدلے کا بھی
واشروم سے باھر نکلتے بالوں کو ٹوٸلیہ سے رگڑتا ڈریسنگ ٹیبل کے أٸینہ میں کھڑا اپنا عکس دیکھ رہا تھا اچانک دروازے پر ہونے والی دستک نے اس کا دھیان کھینچا
أ جاٶ
باھر کھڑے شخص کو جیسے اندر أنے کی اجازت ملی وہ فوراً کمرے میں داخل ہوا
ارحام سردار أپ کو أپ کے دادا جان نے یاد فرمایا ہیں
نوکر نے عدب سےأنے کی وجہ بتاٸی وہ أٸینہ سے بال سیٹ کرکے نوکر کے سامنے أیا
تم سے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے سردار نہیں کہا کرو
رنجیندگی سے کہا
أپ گاٶں کے مُکیہ سردار ہے اسلیۓ سردار کہتا ہوں
اچھا جہاں تک ضاور مجھے یاد ہے کہ گاٶں کا سردار میں نہیں دادا جان یا میرے ڈیڈ ہیں میں بس کچھ دن کے بعد واپس بیگلون چلا جاٶں گا پھر یہاں ڈیڈ داداجان ہوگٸے اور وہی سمبھالے گٸے یہ سب ضاور تم میرے بچپن کے اچھے مخلص دوست ہو اسلیۓ سردار یا ایسا کوٸی الفاظ یوز نہیں کرو جس سے ہمھاری دوستی میں فرق پڑے
ہاں لیکن دوستی اپنی جگہ ہے اور
ابھی ضاور کچھ کہتا ارحام نے اسکو گھور کے دیکھا تو اس کے وہ منہ میں الفاظ رکھ گٸے
گاٶں میں أکر تم بھی گاٶں والوں جیسا ری ایکٹ کر رہے ہو ہمھاری جو دوستی ہے وہی رہے گٸی چاہے ہم گاٶں میں ہو یا بیگلون میں
ہممم اوکے باس اب چلیں
ضاور ارحام سلطان کے کندھے میں ہاتھ حاٸل کیا اور چلنے کا اشارہ کیا
ہم قدم چل بھی رہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے
کیوں جانا چاہتے ہو یہاں سے کیا
ارحام سمجھ گیا کہ ضاور کیا پوچھنا چاہتا ہے اور بیچ میں کیوں رُکا وہ اسکا بچپن کا دوست تھا لیکن اس کے غصہ سے ڈرتا بھی تھا کیونکہ ارحام غصہ کا تیز تھا کب کہاں کیا کر جاۓ کوٸ نہیں جانتا تھا
باتیں کرتے وہ حیدر سلطان کے کمرے تک أ پہنچے تھے ارحام اندر گیا ضاور دروازے پر رُکا
دادا جان أپ نے بلایا
ہممم میرے پاس أٶ
حیدر سلطان بیڈ گراٶڈ سے ٹیک لگا کر سیدھا بیٹھ گیا ارحام برابر میں بیٹھا
أج پنجاٸیت میں کیا ہوا ۔۔۔۔ سنجیدگی سے سوال کیا گیا
وہی جو کہیں سالوں پہلے ہوا تھا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے دادا جان
اسے کا لہجہ خفگی تھا ارحام حیدر سلطان کی أنکھوں میں جھانک بولا تھا
ناراض ہو
نہیں ۔۔ یکطرفہ جواب
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کی اور قدم بڑھا گیا
تم اسلیۓ ناراض ہو میں نے تمھیں چوہدری سے پورانی دشمنی کی لڑاٸی کو یہی ختم کرنے کا کہا ہے اور وعدہ دیا
حیدر سلطان کی بات پہ وہ فورا مڑا
أپ چاہیے کچھ بھی کہے کچھ بھی کریں جب تک میں ان سے بدلا نہیں لے لیتا تب تک میری روح أگ میں جلتی رہے گٸی أپ نے وعدہ لیا کہ میں ان چوہدریوں کوجانی نقصان نہیں پہنچاٶں میں نے أپ کی بات یہ مانی ہے جانی نقصان نہیں دوگا لیکن یہ نہیں کہا
کہ میں ان درندو سے بدلا نہیں لوگا میں چاہوں تو ابھی سارا کھیل ان کا ختم کر سکتا ہوں مگر وہ کیا ہے نا دادا جی جو تڑپا تڑپا کر مارنے کا مزا ہے وہ یکدم مارنے سے کہاں ملتا ہے
ابھی تو شروعات ہے اسلیۓ میں یہاں أنا نہیں چاہتا تھا أپ نے مجھے بلا کر بڑی غلطی کر دی ہیں
منہ سے أنگار برساتے گھمبیر أواز میں کہتا دروازے کو لات مار باھر چلا گیا پیچھے حیدر سلطان نفی میں سر ہلاتے رہے
ارحام سلطان پانچ سال کا تھا تب اس کی ماں فانی دینا چھوڑ کے اللہ پاک کو پیاری ہوگی تھی
رات کے نو بچ رہے تھے رات کا سب نے کھانا کھایا تھا سواۓ شاہدہ بیگم یارم شایان کے علاوہ کیونکہ عروشہا کس حال میں ہوگی سوچ کر ہی انکا بُرا حال تھا
شایان نے کہیں بار کوشش کی کہ اس سے مل سکے مگر ولید بخش نے ایسا پہرا لگا دیا تھا کہ کوٸی بھی اس سے مل نہیں پا رہا تھا
زیبی عُروشہا کیسی ہیں
زیبی کیچن سے باہر أتی دیکھاٸی دی شاہدہ بیگم نے أہستگی سے پوچھا
بی بی یقین مانے مجھے بھی بہت پریشانی ہو رہی ہے عُروشہا بی بی کی میں نے ان کا حال جاننے کی کوشش کی لیکن سب بیکار چوہدری سردار نے اسٹور روم کے دروازے کے أگٸے اپنے ہٹے کٹے پہلوان جیسے أدمی بیٹھا رکھے ہیں وہاں جانا بہت مشکل ہے
زیبی ساری تفصیل شاہدہ کو بتاٸی
میری معصوم سی گڑیا نے اتنا بڑا جُرم نہیں کیا جتنی اس سے سزا دیں گٸی ہے میرا کلیجا فٹ رہا ہے زیبی میں کیسی ماں ہوں جو اپنی بیٹی کی مدد نہیں کر سکتی
شاہدہ بیگم روتی ہچکیاں لیتی بولی
بی بی جی أپ پریشان نہیں ہو شایان بابا یارم بابا لگے ہوۓ ہیں عُروشہا بی بی کو کچھ بھی کر کے وہاں سے نکالے گٸے دیکھیں گا أپ بس تھوڑ حوصلہ رکھیے
ان شااللہ جیسے تم کہہ رہی ہو اللہ پاک کریں ایسا ہو
شاہدہ بیگم کی باتیں یارم دور کھڑا سن چکا تھا اسکو ولید بخش پر بہت غصہ أیا زور سے چبڑے بیچے ہاتھ کا مُکا دیوار پر مارا اب بس ایک طریقا تھا عُروشہا کے پاس پہنچنے کا
عُروشہا ہچکیاں لیتی وہی روتی زمین پر سوگی کب اس کی أنکھ لگی اور کہاں ہے اس بات سے بیخبر
ایک دن میں وہ ندھال ہوگی تھی اس کا چاند سا چہرہ بلکل مرجھا گیا تھا
زور سے کھڑکی کے کھولنے کی أواز پر ڈر کے مارے جھٹکے سے اس کی أنکھ کھولی اسٹور روم میں ہر طرف دودھ اندھیرا ہی اندھیرا تھا سہم کے دیوار سے چپک بیٹھی
ک ک کو ن ہ ہ ___ ڈر سے اس کا بُرا حال ہو رہا تھا لڑکھتی زبان سے چند الفاظ ادا کرکے بڑی ہمت سے پوچھا اس کی نظر اپنے پاس أتے ایک کالے لمبے کوٹ پہنے أدمی پر گٸی تھیں جو ایک ایک قدم اس کی طرف بڑھا أ رہا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial